جیتے جاتے ہیں، مرتے جاتے ہیں
رکتے رکتے گزرتے جاتے ہیں
آ، کبھی جھانک میری آنکھوں میں
اب تو دریا اترتے جاتے ہیں
کچھ توقع نہیں محبت سے
بس توکل پہ کرتے جاتے ہیں
بزمِ رنداں تو ہو گئی برخاست
اور کچھ جام بھرتے جاتے ہیں
بس ہے راحیلؔ شرم والوں پر
قتل کرتے ہیں، ڈرتے جاتے ہیں