دل زدہ شہر میں جب آئے گا
جاں بلب، مہر بلب آئے گا
لو، مہکتی ہوئی یادیں آئیں
وہ تو جب آئے گا، تب آئے گا
صبحِ امروز ہوئی ہی ہو گی
یاد پھر وعدۂ شب آئے گا
کس قدر زود پشیمان ہے تو؟
تجھ پہ الزام ہی کب آئے گا؟
ابھی افکار میں ہیں رنگ بھرے
ابھی گفتار کا ڈھب آئے گا
ہم بھی صحرا کو چلے ہیں راحیلؔ
ہجر کا لطف تو اب آئے گا