ایک نادیدہ اداسی سی کہیں ہے جیسے
حسن عالم میں کہیں اور نہیں ہے جیسے
تیری یادوں میں ہوا پھر وہی آفت کا گمان
کوئی اقلیمِ غزل زیرِ نگیں ہے جیسے
لوگ بھی جیسے کسی حشر کے عالم میں ہیں
منصفِ وقت بھی کچھ چیں بجبیں ہے جیسے
ایک مَکّہ ہے تصور کا، جہاں ہر تعمیر
یوں دمکتی ہے کہ فردوسِ زمیں ہے جیسے
اپنی تدبیر کی چوکھٹ پہ کھڑا ہوں خاموش
ثبت ہر اینٹ پہ افلاسِ مکیں ہے جیسے
اجنبی شہر میں اسباب گنوا کر راحیلؔ
لوٹ آیا ہے، مگر اب بھی وہیں ہے جیسے