گر گئی قیمتِ نظر کچھ اور
دیکھتے ورنہ دیدہ ور کچھ اور
اٹھ رہے ہیں حجاب ہائے نظر
ہو رہا ہے اِدھر اُدھر کچھ اور
ہے نئی زندگی کی پھر سے نوید
شاید آئیں گے چارہ گر کچھ اور
سر ہوئی تھی نہ منزلِ مقصود
ہو گئی وقت کی ڈگر کچھ اور
ابھی یزداں کو اور بھی ہیں کام
ٹھہر اے دل! ابھی ٹھہر کچھ اور
چھو گئے تم تو رفعتِ افلاک
تھک گئے کچھ شکستہ پر کچھ اور
اور ہے شوخیِ خرد کا علاج
ہے دوائے غمِ جگر کچھ اور
سب نظر کا فریب تھا راحیلؔ
چلتے یہ راہ چھوڑ کر، کچھ اور