شہرہ آفاق بد دعا ہے مجھے
حسن سے عشق ہو گیا ہے مجھے
بندہ پرور! جنوں کی بات نہیں
ایک صحرا پکارتا ہے مجھے
کچھ مقامات پر نظر کر کے
راستوں نے بھی طے کیا ہے مجھے
بڑی بھٹکی ہوئی نگاہ سہی
سامنے کوئی دیکھتا ہے مجھے
تو نے اے بوئے آرزو! تو نے
تو نے برباد کر دیا ہے مجھے
عشق ہے یا بلا ہے ناہنجار
کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے مجھے
شعر درِ یتیم تھا راحیلؔ
راہِ غم میں پڑا ملا ہے مجھے