خشک پھولوں کی باس لگتی ہے
زندگی بدحواس لگتی ہے
نکل آتا ہے آفتاب مگر
شب قرینِ قیاس لگتی ہے
ایک شکوہ رہا محبت سے
کہ بہت آس پاس لگتی ہے
تھی کبھی تنگ مفلسی ہم پر
اب تو اپنا لباس لگتی ہے
کہیں منزل نظر نہیں آتی
تب مسافر کو پیاس لگتی ہے
آئنہ دیکھ اے جفا کاری
تو بھی کچھ کچھ اداس لگتی ہے
یوں تو کچھ بھی نہیں بچا راحیلؔ
بعض اوقات آس لگتی ہے