آخری وار سب سے کاری تھا
وہ بھی ہارا ہوا جواری تھا
بھیگتی ہی گئی زبورِ حیات
میں نہایت فضول قاری تھا
آج فصلِ بہار کا بوسہ
گرم تھا، ذائقے سے عاری تھا
میری نیند اڑ گئی ہے دھرتی ماں
تیری چھاتی سے خون جاری تھا
دل کا بازار سرد تھا راحیلؔ
اور ہر شخص کاروباری تھا