شعر بیچوں گا، زہر کھا لوں گا
موسمِ گل سے کیا کما لوں گا؟
رنج بے سود ہے مگر یارب!
تیری دنیا سے اور کیا لوں گا؟
کون غارت گرِ تمنا ہے؟
کس ستم گر سے خوں بہا لوں گا؟
زندگی ہے تو ٹھیک ہے ہمدم
چار دن اور جی جلا لوں گا
کبھی کچھ دشمنوں کے باب میں، دوست!
جی میں ہو گا تو کہ بھی ڈالوں گا
والیِ شہر سو چکا راحیلؔ
میں بھی اب بوریا بچھا لوں گا