تو بھی میرے ساتھ رسوا ہو گیا
کعبۂ ناموس! یہ کیا ہو گیا؟
اب دلِ ناداں سے پوچھیں کوئی راہ
چشمِ بینا کو تو دھوکا ہو گیا
جب گوارا ہو گیا مرنا مجھے
زہر کی پڑیا سے اچھا ہو گیا
میں دیارِ عشق میں تنہا نہیں
جو بھی آیا سو یہیں کا ہو گیا
قریۂ دل کی بھی نکلیں حسرتیں
آگ لگنے سے تماشا ہو گیا
شہر میں راحیلؔ نامی شخص تھا
یہ تو قصہ ہی پرانا ہو گیا