میں ہوں خدا ہے اور کسی کا فراق ہے
اپنی غزل کا اب مجھے آپ اشتیاق ہے
تم سرورق سے جانچ رہے ہو کتاب کو
دنیا تو صرف دل کا سیاق و سباق ہے
واعظ بتا رہا ہے کہ یہ زندگی نہیں
یہ زندگی کے نام پہ اچھا مذاق ہے
ہر رنگ ہر ترنگ ہے تحفہ امنگ کا
موسم تو محض ایک حسین اتفاق ہے
دستار ہو تو اس کا بھی ہے ایک طنطنہ
سر ہو تو اس کا ایک الگ طمطراق ہے
یہ شخص مر گیا ہے اسے گاڑ دو کہیں
لب پر منافقت ہے نہ دل میں نفاق ہے
راحیلؔ کچھ تو جس پہ توکل ہے اس سے مانگ
تو کس ہنر میں فرد ہے کس فن میں طاق ہے