بہتوں کی طرح میں نے بھی انٹرنیٹ پر لکھنے کا آغاز انگریزی سے کیا تھا۔ ٹھیک ٹھیک یاد کرنا تو ممکن نہیں۔ گمان ہے کہ دو ہزار سات یا آٹھ میں پہلی بار یونیکوڈ اردو سے متعارف ہوا اور اردو میں لکھنا شروع کیا۔ پہلے بلاگ کا پتا خدا جانے کیا تھا مگر غالبؔ کے ایک مصرع سے ترکیب اڑا کر شوخئِ اندیشہ نام رکھا تھا۔
نہ لائی شوخئِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی
پھر فیس بک پر کھاتا کھولا۔ دو ہزار نو دس میں انٹرنیٹ کے یہ حالات نہیں تھے۔ زیادہ تر خواندہ لوگ استعمال کرتے تھے۔ دنیا جہان کے طلبہ، فلاسفہ، ادبا وغیرہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوستیاں گانٹھیں۔ ظاہر ہے کہ کم کم اردو اور زیادہ انگریزی لکھی گئی۔
دو ہزار گیارہ میں شادی ہوئی اور ادب و فلسفہ کا قصہ یکبارگی پاک ہو گیا۔ لکھت پڑھت کیا اردو کیا انگریزی سب موقوف ہو گئی۔ کوئی چار پانچ برس کے بعد قدرت نے دوبارہ متحرک ہونے کا موقع دیا۔ تب تک فیس بک وغیرہ کا حلیہ خاصا بگڑ چکا تھا۔ ناچار اردو کے ایک فورم پر پناہ ڈھونڈی۔ اسی دوران میں کہیں ایک نئے اردو بلاگ کی بنا بھی ڈال دی۔ اس کا نام تھا دل دریا۔ یہ بھی ہمارے خطے کے ایک عظیم صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ کے ایک مصرع سے ماخوذ تھا:
دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو
ایک دو برس یونہی لکھتا پڑھتا رہا مگر بلاگ پر توجہ نہ ہونے کے برابر رہی۔ چونکہ پنجابی سے کچھ خاص علاقہ نہ تھا اس لیے کچھ عرصے کے بعد بلاگ کا نام بدل کر اردو نگار رکھ دیا اور شاید تبھی اسے اپنی مرکزی ویب گاہ کے شروع میں یعنی سب ڈومین کے طور پر (urdu.raheelfarooq.com) چلانا شروع کیا۔
سماجی واسطوں کے کوائف کے مطابق 3 دسمبر 2016ء کو اردو نگار کا فیس بک صفحہ اور ٹوئٹر کا کھاتا کھولا گیا۔ یعنی آج سے ٹھیک تین برس پہلے۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ ایک یادگار لمحہ تھا۔
اس دوران میں اردو کے حوالے سے اور بھی بہت سے تعمیری و تخریبی تجربے ہوا کیے مگر بلاگ کی اہمیت گھٹی نہیں۔ بڑھتی ہی گئی۔ رواں سال مارچ میں ایک اور خوشگوار حادثہ پیش آیا۔ محض اتفاقاً ہی میرے ہاتھ ایک ڈومین لگ گئی جو اردو دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد شے تھی۔ یعنی اردو.com۔ اگر آپ انٹرنیٹ کی اصطلاح میں ڈومین سے واقف نہیں تو سادہ طور پر اسے کسی ویب گاہ کا پتا سمجھ لیے۔ تو ایک پتا مل گیا تھا مجھے۔ اردو.com۔
اردو میں اس سے پہلے میرے علم کے مطابق کوئی ویب گاہ ایسی نہ تھی جس کا پتا اردو رسم الخط کا کوئی لفظ یا ترکیب ہو۔ یہ اس لحاظ سے بڑی منفرد اور بنیاد ساز ڈومین تھی۔ پتا بھی ایسا عمومی اور آفاقی قسم کا کہ شاید و باید۔ میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ اس پر اردو کے حوالے سے کسی بڑے کام کا آغاز کیا جائے۔ مصنفین کو مدعو کر کے ایک اجتماعی بلاگ بنایا جائے۔ کوئی فورم قائم کیا جائے۔ کسی علمی و ادبی ذخیرے کی نیو رکھی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔
مسئلہ یہ تھا کہ اس سطح کے کسی کام کے لیے نہ سرمایہ تھا نہ صلاحیت نہ تجربہ۔ بہت دن مغز ماری کی۔ نہایت تگ و دو فرمائی۔ دل خواہ نتیجہ کوئی نہ نکلا۔ بڑی کمینگی محسوس ہوتی تھی کہ میں اس طرح کی ڈومین پر جو سب اہلِ اردو کی مشترکہ ہونی چاہیے قبضہ جما کے بیٹھ جاؤں۔ تاہم یہی کیا۔ اردو نگار کا نام پھر مع پتا کے بدلا گیا اور اب آپ اردو گاہ پر موجود ہیں۔ خوش آمدید!
آج اس برقی بیاض کی تیسری سال گرہ ہے۔ میں آپ سب لوگوں کا ممنون نہیں مقروض ہوں جنھوں نے میری حوصلہ افزائی اور دل جوئی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ فرداً فرداً نام لینا چاہتا ہوں مگر کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کا مزہ نہیں۔ جو میرے ہیں وہ میرے دل میں ہیں اور میں ان کے دل میں ہوں۔
در دو چشم من نشین ای آن که از من منتری
تا قمر را وانمایم کز قمر روشنتری
(میری آنکھوں میں رہ، اے وہ شخص جو مجھ سے بھی زیادہ مَیں ہے۔ تا کہ میں چاند پر روشن کر دوں کہ تو چاند سے بھی روشن تر ہے۔ رومیؒ)
اردو گاہ پر میں اپنا حق نہیں سمجھتا۔ یہ میری مجبوری ہے کہ مجھے اسے جیسے تیسے رواں رکھنا ہے۔ کوئی قابلِ فخر مالی مفاد بھی وابستہ نہیں۔ اشتہارات کو بقولِ یارے محض رونق میلا سمجھیے۔ محبانِ اردو ہاتھ بڑھائیں تو اسے آج بھی زبان و ادب کے وسیع تر مفاد میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
پنجابی میں سرِ عام کو شرے عام (شرِ عام) بولتے ہیں۔ جب تک میں اردو گاہ پر قابض ہوں تب تک آپ اس شعر کو پنجابی تلفظ کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ، یونیکوڈ اردو کے بانی مشفقی و محترمی اعجاز عبید صاحب نے بلاگ (blog) کا اردو ترجمہ بلاغ تجویز کیا تھا۔ مجھے یہ لفظ بہت پسند ہے مگر رائج نہ ہونے کے سبب زیادہ استعمال کرنے سے ہچکچاتا ہوں۔ مل جل کر برتا جائے تو یہ جھجھک بھی دور ہو جائے گی۔
آپ سب کا ڈھیروں شکریہ اور اردو گاہ کی تیسری سالگرہ کی بہت سی مبارک باد!