کتابوں کی قیمتیں آسمان پر چڑھ گئی ہیں۔ کاغذ مہنگا ہوتا ہے مگر کتابیں کہیں زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں۔ چھاپنے والے آخر کاروباری ہیں۔ کتابیں نہیں چھاپتے، پیسا چھاپتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اب لکھنے والوں کی اکثریت بھی کاروباری ہو گئی ہے۔ ایک مشہور ناشر کی ویب گاہ کا معائنہ کرنے کے بعد چند عمومی نتائج پر پہنچا ہوں۔ افادۂ عام کے لیے آپ کے سامنے رکھتا ہوں:
- کسی مشہور ناشر کی چھاپی ہوئی کتاب نہیں خریدنی چاہیے۔ وہ خواہ مخواہ اپنے نام کے پیسے لیتے ہیں۔ اگر کتاب کسی اچھے ادیب نے لکھی ہے تو غالب امکان ہے کہ کہیں اور سے بھی مل جائے گی۔ آپ کو پڑھنے سے غرض ہے تو کسی گمنام ادارے کی جانب سے سادہ طور پر چھاپی ہوئی کتاب بھی پڑھ سکتے ہیں۔
- وہ کتابیں ہرگز نہیں خریدنی چاہئیں جن کی مارکیٹنگ خود ناشر کر رہا ہو۔ میں نے چند کتب کی تعریف میں لکھے ہوئے مضامین اور کالم پڑھے۔ ان کتابوں کے مصنفین کو تلاش کیا۔ معلوم ہوا کہ ڈھنگ کی ایک سطر لکھنے پر قادر نہیں۔ دلالی کے سہارے پیسا چھاپ رہے ہیں۔ ناشر اور مصنف کی یہ سانٹھ گانٹھ عام قاری کے ساتھ سب سے بڑا دھوکا ہے۔ جھوٹ اتنی بار بولا جاتا ہے کہ بیکار ترین کتابوں کو قاری سچ مچ ادبِ عالیہ سمجھ کر خرید بیٹھتا ہے۔ پیسے کا نقصان الگ، ذوق کی بربادی الگ۔
- مصنفین کا ایک طبقہ وہ ہے جو آج کل محقق اور ناقد کہلاتا ہے۔ اتنا ادب تخلیق نہیں ہو رہا جتنی تحقیق و تنقید شائع ہو رہی ہے۔ اگر آپ واقعی ادب کے ایک سنجیدہ قاری ہیں تو آپ کو کسی کے فن اور شخصیت پر کسی اور کے بھاشن کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ جو لوگ کسی کام کے نہیں ہوتے وہ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لینے، رعب جھاڑنے، نوکریاں حاصل کرنے اور پیسے کمانے کے لیے تنقید لکھتے ہیں اور تحقیق کرتے ہیں۔ اچھا ادیب وہی ہے جو خوش ذوق لوگوں کو اچھا لگے۔ ناقد کے ثابت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا تنقید و تحقیق پر کوئی کتاب خریدنے سے بہتر ہے کہ آپ خود ایک مقالہ چھپوا لیں۔
- آن لائن کتابیں خریدنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ دکان سے خریدیں تو بیس پچیس فیصد تک رعایت مل ہی جاتی ہے۔ آن لائن منگوائی جائیں تو سو فیصد پیسے لیتے ہیں اور ڈاک خرچ جدا۔ کوئی نسخہ عیبی نکل آئے تو جنجال الگ۔ اگر آپ کے شہر میں اچھے کتب فروش نہیں تو چند ماہ کے بعد کسی بڑے شہر کا چکر لگا کر کچھ کتابیں اکٹھی خرید لینا زیادہ اچھا رہے گا۔
- منتخب افسانے، بہترین تحریریں، فلاں کے شاہکار، فلاں صدی یا دہائی کی بہترین شاعری وغیرہ جیسی کتب ہرگز نہیں خریدنی چاہئیں۔ میں نے کبھی کسی اچھے ادیب کو اس قسم کی واہیات تالیف کرتے نہیں دیکھا۔ کسی سمجھدار آدمی کو ایسی چیزیں پڑھتے بھی نہیں دیکھا۔ آپ کو منٹو ہی کو پڑھنا ہے تو اس کی کتابیں خریدیے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی مجہول قسم کا آدمی فیصلہ کرے کہ آپ کو یہ دس افسانے پڑھنے چاہئیں۔ وہ چھپوا کر دے اور آپ خرید لیں۔
- تراجم کے حوالے سے بھی بہتر یہی ہے کہ نہ خریدے جائیں۔ اگر آپ کوئی کتاب اصل زبان میں پڑھ سکتے ہیں تو سب سے اچھا ہے۔ ورنہ انگریزی ترجمہ پڑھ لینا چاہیے۔ اردو تراجم کا حال بہت پتلا ہے۔ مترجمین اپنی سی کوشش تو کرتے ہیں لیکن شاید ریاستی اور معاشرتی سطح پر کوئی خاص معاونت میسر نہ ہونے کی وجہ سے کوئی معیار قائم نہیں کر سکتے یا برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اردو میں انشا پردازی کی سب سے گھٹیا قسم عموماً تراجم ہی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلسفیانہ، سائنسی اور نظریاتی موضوعات پر کیے گئے تراجم سے بالخصوص گریز کرنا چاہیے۔ شاید مارک ٹوین نے کہا تھا کہ صحت پر لکھی کتابوں میں سہوِ کاتب سے جان بھی جا سکتی ہے۔ یہی معاملہ تمام سنجیدہ نوعیت کے ترجموں کا ہے۔ ناشرین اردو تراجم کے سلسلے میں احتیاط بھی طبع زاد کتب کی نسبت کم کرتے ہیں۔
- اردو ادب کا وہ حصہ جسے یقینی طور پر بہترین کہا جا سکتا ہے، کم از کم پچاس ساٹھ برس پرانا ہے۔ اتنے وقت میں حقوقِ ملکیت سے متعلق قوانین کا اطلاق کالعدم ہو جاتا ہے۔ آپ انٹرنیٹ سے ان کتب کی پی ڈی ایف تلاش کیجیے اور آن لائن پڑھیے۔ دس پندرہ ہزار روپے خرچ کر کے ایک مناسب سا ای بک ریڈر خرید لیں تو کیا ہی کہنے۔ بالکل ایک حقیقی کتاب پڑھنے جیسا تجربہ ہے۔ رہیں وہ کتابیں جو آج کل چھپ رہی ہیں تو ان میں بھی بہت کچھ اچھا ہو گا۔ ہم نہیں کہتے کہ آپ وہ نہ خریدیں۔ مگر مندرجۂ بالا معروضات ذہن میں رکھیں تو آپ کا خاصا بھلا ہو جائے گا۔