کتاب پڑھنے اور چاٹنے میں فرق ہے۔ کیڑا جب کتاب کو کھاتا ہے تو اس کا مقصد علم نہیں ہوتا۔ وہ صرف بھوک مٹانا چاہتا ہے۔ آدمی جب کتاب پڑھتا ہے تو کچھ جاننا چاہتا ہے۔ جاننے کے لیے کھانے سے زیاہ اچھا ہاضمہ درکار ہے کیونکہ اس میں فضلہ پیدا نہیں ہوتا۔ فطرت نے اس امتیاز کو خواہ مخواہ پیدا نہیں کیا اس لیے ہمیں بھی اسے فراموش نہیں کرناچاہیے۔
بعض لوگ کتابوں کی بھوک کا شکار ہوتے ہیں۔ جب تک رات کو سونے سے پہلے، ناشتے میں، فرصت کے اوقات میں کچھ نہ پڑھیں، بےچین رہتے ہیں۔ اسے علم دوستی سمجھنا علم دشمنی ہو گی۔ یہ محض عادت ہے۔ ایک بالغ انسان کا دماغ اتنے زیادہ خیالات کو روزانہ کی بنیاد پر قبول کرنے کی ہرگز صلاحیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا بہت بار اس قسم کے لوگ دراصل دماغ سے کام ہی نہیں لے رہے ہوتے۔ وہ صرف بھوک مٹا رہے ہوتے ہیں۔ بعض کے ہاں کتب بینی فیشن یا رعب اندازی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا حال اور پتلا ہے۔ اکثر تو ایسے ہیں کہ فقط کتابیں اکٹھی کر لینے ہی کو علم پروری کی معراج گردانتے ہیں۔
مطالعے سے پہلے ایک ضروری بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے۔ ایک اچھی کتاب ایک بڑے دماغ کی سال ہا سال کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی اسے پڑھنا چاہتا ہے تو یہ درحقیقت اس عالم کا پیش کردہ تمام علم حاصل کرنے کی آرزو ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اچانک نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے بڑے صبر، توجہ، ذہانت اور وقت کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کے پاس ان چار میں سے ایک بھی چیز نہیں تو کتاب کو حقیقی معنوں میں پڑھنا شاید اس کے لیے ممکن نہ ہو۔
بہت جلدی کتابیں ختم کر لینے والے لوگ درحقیقت بہت جلدی بات سمجھ جانے والوں کی طرح ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو شخص ہر بات کو فوراً سمجھ لیتا ہے وہ اکثر غلط سمجھتا ہے۔ جلدی سمجھنے کی کوشش یا دعویٰ کرنے والے نئے علم کو بھی اپنے پرانے علم کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور اسی کے مطابق کھینچ تان کر اس کی تعبیر کر لیتے ہیں۔ اس لیے انھیں کبھی کچھ نیا حاصل نہیں ہوتا۔ دنیائے دانش کے انکشافات اور تحیرات ان کے نصیب سے اٹھ جاتے ہیں۔ یہی حال کتابیں چاٹ جانے والوں کا ہے۔ وہ ہر کتاب کو جھٹ پٹ پڑھ تو ڈالتے ہیں مگر فائدہ سوائے حروفِ تہجی کی اس مشق کے کچھ نہیں ہوتا جو انھوں نے مکتب میں سیکھی تھی۔
میں پہلے بھی کہیں کہہ چکا ہوں کہ کسی علم کی ایک معیاری کتاب اگر اچھی طرح پڑھ لی جائے تو باقی کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت کالعدم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ باقی بیکار ہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ کتاب سے چونکہ علم کا حصول مقصود ہوتا ہے اور وہ ہو گیا، تو مزید مطالعہ اکثر محض تکرار بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ وہی شخص کر سکتا ہے جسے علم کی بجائے کاغذ کی بھوک ہو۔ فروعات کا چھوٹا موٹا اختلاف یوں بھی معنیٰ نہیں رکھتا۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص اگر آپ کو مثلاً یہ بتائے کہ وہ فنِ املا پر ڈیڑھ سو کتب کا مطالعہ کر چکا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ اس نے غالباً ایک کو بھی پڑھنے کا حق ادا نہیں کیا۔
میں پھر کہتا ہوں کہ کتاب پڑھنا مذاق نہیں۔ کتاب علم کا وسیلہ ہے اور علم کا دماغ میں رچاؤ وقت چاہتا ہے۔ ایک ایک سطر پر غور کرنا پڑتا ہے۔ بہت کچھ بار بار پڑھے جانے کا متقاضی ہوتا ہے۔ بسا اوقات کتاب رکھ کر زندگی سے رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے تاکہ ان نکات کی تفہیم یا توثیق ہو سکے جو مصنف ہمارے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کسی علمی موضوع پر سو صفحات کی ایک اچھی کتاب کم و بیش ایک برس مانگتی ہے کہ آپ اسے کسی قدر سمجھنے کا دعویٰ کر سکیں۔
نابغہ اور عبقری قسم کے انسانوں کا معاملہ جدا ہے۔ استثنائی مثالوں سے صرفِ نظر کر لیا جائے تو میرا خیال ہے کہ ایک اچھا دماغ بھی زور مار کر زندگی میں ڈیڑھ دو سو کتابوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا۔ ہاں البتہ چاٹنا ہی مقصود ہو تو پڑھنا وڑھنا ایک طرف رکھیے، یار لوگ مہینے بھر میں تین تین چار چار کتابیں لکھ بھی ڈالتے ہیں۔ مگر آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ علم نہیں۔ علم بہت خاص ہے، خاص تھا اور خاص ہی رہے گا۔