آپ زہر کا تریاق ڈھونڈ سکتے ہیں، تلوار کے لیے ڈھال بنا سکتے ہیں، بموں اور میزائلوں کا توڑ کر سکتے ہیں مگر منہ سے نکلی گالیوں سے نہیں بچ سکتے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی گالی نہیں دے سکتا، اسے عقل گالی دیتی ہے۔ میں آپ کی شرافت اور پارسائی پر شبہ نہیں کر رہا۔ ہو سکتا ہے آپ اتنے شائستہ انسان ہوں کہ کوئی آپ کو منہ پر برا بھلا نہ کہے یا اس درجے کو پہنچ گئے ہوں کہ لوگ پیٹھ پیچھے بھی زبان بند رکھتے ہوں، مگر یہ میں ماننے کو تیار نہیں کہ آپ کو گالیاں نہ پڑ رہی ہوں۔ پل پل ہمہ دم ہر گھڑی ہر آن دھڑادھڑ!
یقین نہیں آتا تو ذیل کے نمونہ جات ملاحظہ فرمائیے جنھیں ہم نے بڑی احتیاط سے ٹھنڈا کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے:
- پاکستانی تو ہیں ہی الو کے پٹھے۔
- دنیا بڑی خبیث ہے۔
- لوگ بہت کمینے ہوتے ہیں۔
- سرکاری ملازمین سب گدھے ہیں۔
- مرد نہایت گھٹیا مخلوق ہے۔
- عورتیں بےوقوف ہوتی ہیں۔
- انسان جاہل ہے۔
- مسلمان وحشی ہیں۔
- ہندو بنیے۔
- پرانے لوگ اجڈ تھے۔
- اگلی نسل کتے کی دم ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنی ذاتی صفات کے بل بوتے پر آپ ذاتی طور پر تو عزت محفوظ رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں مگر جماعتی بنیادوں پر ہونے والی گولہ باری سے بچاؤ آفاتِ سماوی کی طرح قریب قریب ناممکن ہے۔ آپ کی نوع، جنس، پیشے، حلیے، رنگ، نسل، بلڈ گروپ، بیماری، پسند ناپسند، شوق، وابستگی، عقیدے، مذہب، زمانے، علاقے، محلے، صوبے، برادری، قبیلے والوں کی شان میں کوئی دل جلا دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں بیٹھ کر بھی کوئی قصیدہ پڑھتا ہے تو اس کا ثواب لڑھکتے لڑھکتے آپ تک پہنچ ہی جاتا ہے۔
حق یہ ہے کہ جو پیدا ہو گیا، گالی سے اس کی جان مر کر بھی نہیں چھوٹنے والی۔ بلکہ بعض پھکڑ تو ان غریبوں کو بھی رسید ہو جاتے ہیں جو ابھی پیدائش کے مرتکب بھی نہیں ہوئے۔