عورت کے کام کر کے آزادی یا خود مختاری حاصل کرنے کا خیال میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مجھے عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ یہ نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسے زمانے کا اچھی طرح علم ہو۔ چاردیواری کی قید کیا مرد، کیا عورت، ہر انسان کو تنگ دل اور کند ذہن بنا دیتی ہے۔ مگر باہر نکل کر باقاعدہ مردوں کی طرح کام کرنا اور پیسے کمانا تھوڑا عجیب ہے۔ کسی کو بیٹے، باپ، بھائی یا شوہر وغیرہ کا آسرا نہ ہو تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ مگر ان کے ہوتے ہوئے ملازمت یا کاروبار میں خود کو جوت دینا کیسی عقل مندی ہے؟
کہا جاتا ہے کہ گھر میں عورت کو مرد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ وہ مجبور ہوتی ہے۔ اپنی مرضی نہیں کر سکتی۔ مجھے حیرت ہے کہ ایسا کہنے والے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ کیا گھر سے باہر عورت کو کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑتا؟ کیا ملازمت یا کاروبار کی مجبوریاں نہیں ہوتیں؟ کیا پیسا کمانے والی عورت ساری محنت و مشقت اپنی مرضی سے کرتی ہے؟ عورت تو عورت رہی، کمانے والا مرد کیا واقعی آزاد ہوتا ہے؟ کیا نوکری کا مطلب ہی پیسے کے عوض کسی کے ہاتھ اپنا آپ بیچ دینا نہیں؟
بات یہ ہے کہ زندگی کے کارخانے میں نہ کوئی مرد آزاد ہے اور نہ عورت۔ خود مختاری ایک چھلاوا ہے۔ عورت اس کے پیچھے بھاگتی ہے تو ٹھیک ہے۔ مگر عورت کو سمجھنا چاہیے کہ مرد بھی اسی کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ وہ غریب بھی خود مختار نہیں۔ دونوں مجبور ہیں۔ دونوں مظلوم ہیں۔ جینے کے لیے آدم کے بیٹے بیٹیوں کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اپنے آپ کی قیمت تو لگانی ہی پڑتی ہے۔ گھر کے اندر لگائیں یا گھر سے باہر۔
میں نے کام کرنے والی خواتین کی زندگی گھر بیٹھنے والی بی بیوں سے زیادہ آسان عموماً نہیں دیکھی۔ ایک کو ایک مسئلہ ہے تو دوسری کو دوسرا ہے۔ مفر کسی کو نہیں۔ نوعیت میں کہیں کہیں فرق آ جاتا ہے اور آخر میں پھر حساب برابر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا عورت کا نوکری وغیرہ کرنا مجبوری کی بجائے محض رجحان کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ اعتراض ہمیں اس پر بھی نہیں۔ بس اس بیچاری کو کوئی آزاد اور خود مختار وغیرہ بتائے تو اچنبھا ہوتا ہے۔