مجھے اردو پسند ہے۔ میں نے بالخصوص ہمارے ادب کی کلاسیکی روایت کو اپنے دل کے نزدیک پایا ہے اور اسے سمجھنے پر نہایت توجہ دی ہے۔ تاہم بات یہ ہے کہ میں ایم اے اردو میں تھرڈ ڈویژن سے بال بال بچا ہوں۔ نوکری کے لیے بھی بعض متعلقہ امتحانات میں آبرو کی لٹیا ڈبوئی ہے۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مجھے بہت سی بنیادی چیزوں کا علم نہیں۔ نہ صرف علم نہیں بلکہ اس علم سے شدید قسم کا گریز بھی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایم اے اردو کے ایک پرچے میں ایک سوال کچھ اس طرح کا تھا:
خواجہ سگ پرست اپنے بھائیوں کو کتے کا "جوٹھا” کیوں کھلاتا تھا؟
باقی سب ایک طرف، سوال نامے میں فضلا کے ہاتھوں جوٹھا لکھا دیکھ کر وہ حال ہوا تھا کہ طبیعت آج تک متلاتی ہے۔ انگریزی لسانیات اور تنقید کالجوں کے کہن سال اساتذہ کو بھی پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ ایم اے انگریزی سال اول کے پرچوں میں لسانیات میں میرے ستر سے زائد نمبر تھے اور تنقید میں فیل ہو گیا تھا۔ دوبارہ امتحان نہیں دیا۔ اندازہ کر سکتا تھا کہ پرچے کون دیکھ رہا ہو گا۔
حق یہ ہے کہ میں اپنی کوتاہی سے بھی صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ مجھے چیزوں کے جوہر میں، اور صرف جوہر میں، دلچسپی رہی ہے۔ تفاصیل اور فروع نہ کبھی مستحضر ہوئی ہیں نہ کر سکتا ہوں۔ مجھے اپنی تعلیمی ناکامیوں کا بوجھ سراسر ممتحنوں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ وہ سوال کو طے شدہ معیارات کے مطابق دیکھنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اور اس اذیت ناک اعتراف کے بغیر چارہ نہیں کہ مجھے ان معیارات کے مطابق کچھ بھی تو نہیں معلوم۔ مولی اور گاجر کے انگریزی نام تک میرے چار پانچ سالہ بھانجے کو آتے ہیں، مجھے نہیں آتے۔
ایک حالیہ انٹرویو میں دلچسپ واقعہ ہوا۔ پبلک سروس کمیشن کا بورڈ تھا۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو تین چار لوگ ناک بھوں چڑھائے بیٹھے تھے۔ تعارف ہوا۔ زمانہ جو خود خدا ہے، گواہ ہے کہ مجھے بجز اپنی تاریخِ پیدائش کے کوئی تاریخ ٹھیک سے یاد ہے نہ قبلہ گاہ کے نام کے سوا کوئی نام موقع پر یاد آنے کی ضمانت دے سکتا ہوں۔ معلوماتِ عامہ کے کچھ سوالات کیے گئے۔ جو پہلے گزرتی ہے وہی اب کے بھی گزری۔ پھر ایک صاحب نے تیوری چڑھا کر کہا کہ شجاع آباد کے کسی مصنف نے غالباً تاریخِ پاکستان کے حوالے سے ایک بڑی چشم کشا تصنیف فرمائی ہے۔ خالق و مخلوق کے نام بتاؤ۔ نیز سنِ آفرینش نکالو۔ میرے فرشتے آج تک اس واردات سے محض بےخبر ہیں۔ ادھر اس قبیل کے سوالات کا تانتا بندھ گیا۔ میں نے ہار مان لی۔ سوچ رہا تھا کہ کب رخصت عنایت کرتے ہیں کہ پوچھا، فیضؔ کا کوئی شعر یاد ہے؟
میں نے میکانکی انداز میں پڑھنا شروع کیا:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائےجیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بےوجہ قرار آ جائے
چند ثانیے خاموشی رہی۔ وہ صاحب چیں بجبیں ہو کر بولے، "تلفظ اور لہجہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ آپ مقابلے کے امتحان کے لیے آئے ہیں۔ یہ اشعار فیضؔ کی کس کتاب میں ہیں؟”
نسخہ ہائے وفا میں نے ایف ایس سی میں اپنے محبوب باپ کے ساتھ سازش کر کے اور ماں کے پرزور احتجاج کو بالائے طاق رکھ کر خریدی تھی۔ ہم دونوں باپ بیٹا اسے گھول کر پی گئے تھے۔ مگر دہائی ہے نقشِ فریادی کی کہ معذرت کرتے ہی بنی۔
ایک صاحب نے نرمی سے پوچھا، "منٹو کے چار افسانوں کے نام بتا سکتے ہیں؟”
میرے ذہن میں بو، ہتک، کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت وغیرہ گھومنے لگے۔ خیال ہوا کہ یہ مناسب نہیں۔ کچھ اور یاد کرنا چاہیے۔ کچھ دیر دماغ کے ساتھ زور آوری کرتا رہا۔ پھر سوچا، لعنت بھیجو۔ پاس تو یوں بھی نہیں ہونے والے۔ عذر کیا اور نکل کر باہر آ گیا۔
وہ ملازمت اردو کے استاد کی تھی۔ نہیں ملی۔ ظاہر ہے کہ ملنی بھی نہیں چاہیے تھی۔ لیکن نتیجہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ انٹرویو کے سڑسٹھ اڑسٹھ نمبر تھے۔ خدا جانے بھیک دی انھوں نے یا کمیشن کی زکواۃ نکالی۔
مجھے زبان و ادب کے حوالے سے علم و فضل کا کوئی خاص دعویٰ نہیں۔ ہو بھی تو لوگ اتنے سمجھ دار ہیں کہ اب اسے ہرگز تسلیم نہیں کریں گے۔ مگر کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو کچھ میں نے آج تک سیکھا، پڑھا اور کیا، وہ کمبخت کیا چیز ہے؟
دے دیا تھا دلِ فتنہ گر بھی اُسے
پھر بھی راحیلؔ غارت جوانی ہوئی
پنجاب کی اعلیٰ ترین کوالٹی کی تعلیم۔پورے پنجاب کے بورڈز میں پہلی پوزیشن پر رہنے والے بچوں کا اولیول کی طرح سے امتحان لیا گیا کوئی بھی پاس نہ ہو سکا
Posted by Steve Lawman on Friday, January 10, 2020