میری زندگی کا لطف گنتی کی چند چیزوں پر منحصر ہے۔ ان میں سے ایک ادب ہے۔ زیادہ نہیں مگر تھوڑا تھوڑا مطالعہ مختلف زبانوں کے ادب کا رہا ہے۔ اردو تو پھر زندگی ہے۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ ہر دوسرے چوتھے روز ایک آواز کان پڑتی ہے:
اردو میں بڑا ادب پیدا نہیں ہو رہا۔
کوئی اس کی وجوہات دریافت کرتا ہے۔ کوئی بیان کرتا ہے۔ کوئی ماضی کریدتا ہے۔ کوئی مستقبل پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس بات پر البتہ سب متفق ہیں کہ آج کل اردو کا کوئی حال نہیں۔ سوائے میرے!
میں نہیں سمجھتا کہ اردو میں عمدہ ادبی تخلیقات کا کال پڑ گیا ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ بہت اچھے لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اتنا اچھا کہ عالمی سطح کے ادب کے مقابل رکھا جا سکے۔ مسئلہ کچھ اور ہے۔
آئین سٹائین نے کہا تھا کہ اگر آپ مچھلی سے درخت پر چڑھنے کا امتحان لیں گے تو وہ عمر بھر خود کو نالائق سمجھتی رہے گی۔ ہمارے ہاں پچھلی نصف صدی میں بڑی بڑی حماقتیں ہوئی ہیں۔ ریاست سے لے کر مذہب اور تعلیم سے لے کر فن تک ہر سطح پر نظام کو یوں بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر مسخ کیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہماری موجودہ حالت چیخ چیخ کر گواہی دیتی ہے کہ ہم ٹھیک نہیں۔ کچھ غلط ہے۔ بہت کچھ غلط ہے۔ اسی بہت کچھ میں زبان و ادب سے متعلق ہمارا زہر ناک رویہ بھی شامل ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں بڑی کوشش اور محنت سے اردو کو مغربی زبان، تہذیب اور ادب کے ٹیکے لگا کر اس کی رگوں میں وہ خون شامل کیا گیا ہے جس کا فساد اب ظاہر ہو رہا ہے۔ ہمارے ادیب کو ڈنڈے مار مار کر پڑھایا گیا ہے کہ اردو میں تنقیدی روایت نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا مغرب کا احسان اٹھاؤ اور سر جھکا کر سجدہ کرو۔ ہمارے قاری کے دماغ میں پروپیگنڈا اور مارکیٹنگ کے جبر سے وہ تخلیقات ادب کے نام پر ٹھونسی گئی ہیں جو اس کے دل تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اسے سکھایا گیا ہے کہ سوداؔ و میرؔ اور داغؔ و امیرؔ بدھو تھے۔ کالرج اور شیکسپیئر اور بائرن اور بودلیئر اصل شاعر ہیں۔ غلام قوم کی اوقات اتنی ہی ہوتی ہے کہ اس کے سردار بھی غلام ہوتے ہیں۔ بڑے غلام جو چھوٹے غلاموں کو بتلاتے ہیں کہ غلامی کیسے کی جاتی ہے۔
کیا آپ فرانسیسیوں کو قائل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے ادب کو اہلِ عرب کی نظر سے دیکھا کریں؟ یا عربوں کو کہ وہ فرانسیسیوں سے سیکھیں؟ نہیں۔ یقیناً نہیں۔ کیونکہ یہ بڑی حماقت ہے۔ مگر یہی حماقت، عین یہی حماقت ہمارے دانش وروں نے کی ہے۔ مچھلی اور گلہری میں فرق ہے۔ مچھلی کا امتحان پانی میں ہے اور گلہری کا درخت پر۔ مگر اردو کے لال بجھکڑ اردو ادب کو انگریزی کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ پھر ناک سکیڑ کر پوچھتے ہیں، "اردو میں بڑا ادب کیوں پیدا نہیں ہو رہا؟”
حق یہ ہے، صاحبو، کہ کوشش میں ہمارے اربابِ بست و کشاد نے کمی نہیں کی۔ مگر مچھلی مچھلی ہے اور گلہری گلہری۔ اردو والے اتنی کوشش کے باوجود انگریز بن نہیں سکے۔ آج بھی دل کے تار انھی آوازوں پر چھڑ جاتے ہیں جو ہماری اپنی ہیں۔ لہجہ اور اردو گاہ اس کی ذاتی اور بدیہی مثال ہیں۔ ہمارا اپنا ادب، اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی روایت آج بھی زندہ ہے۔ بس ہم اس کی زندگی کو تسلیم کرنے سے روک دیے گئے ہیں۔ آپ کہیے کہ عبدالحمید عدمؔ اردو کا حافظؔ شیرازی تھا۔ یا جوشؔ ملیح آبادی ہمارا بائرنؔ ہے۔ بابو لوگ آپ پر جھپٹ پڑیں گے۔ آپ کو بتائیں گے کہ اپنے ادیب بہت کمتر ہیں۔ غیر بہت اعلیٰ ہیں۔ آپ نہ مانیں تو آپ کا مضحکہ اڑائیں گے۔ مقاطعہ کریں گے۔ غلام قوم کے بڑے غلام!
اردو ادب کے بارے میں اردو والوں سے پوچھیے۔ ان کے معیار پر انھیں دیکھیے۔ ان کے جذبات، احساسات، خیالات دریافت کیجیے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ اردو اور اس کا ادب زندہ ہے۔ وہ زندہ جسے مردہ خانے میں قید کر دیا گیا ہے۔ ظالم پھر بھی زندہ ہے!
میرا خیال ہے کہ پاکستان نے اردو کے ساتھ وہی کیا ہے جو اسلام کے ساتھ کیا ہے۔ زبانی کلامی سب کچھ ہے۔ حقیقت ٹھن ٹھن گوپال۔اردو کی خدمت عملی طور پر تقسیم کے بعد شاید ہندوستان میں زیادہ ہوئی ہو۔ ہمارے زمانے میں تو یقیناً ایسا ہی ہے۔ پھر ہندوستان کے بعد اگر احسان ہے تو مغرب کا جس کی تحقیقات اور مصنوعات کے طفیل اردو انٹرنیٹ پر سانس لیتی ہے۔ حکومتِ پاکستان کا بس چلتا تو ہم اب تک ان پیج چراتے پھر رہے ہوتے۔ ان حالات میں کہ جب حکومت ادب تو کیا زبان کو بھی اپنانے پر تیار نہیں اور علمی دنیا تمام مغرب زدگی کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، اپنے ادب اور تہذیب کی سچی تصویر دھندلا جائے تو کچھ عجب نہیں۔ مگر میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ یہ تصویر اپنی جگہ موجود ہے۔ عینک اتاریے۔ قریب آ کر دیکھیے۔ اپنا خون جوش مارتا ہے۔ آپ کا دل آپ کو بتائے گا کہ آپ کا ادب دنیا میں سب سے اچھا ہے۔ کم سے کم آپ کے لیے!
آخر میں مکرر عرض کرتا ہوں کہ ریاستی اور علمی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود اردو زبان و ادب زندہ ہیں۔ جو کوئی ان کی زندگی پر سوال اٹھاتا ہے وہ گویا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ وہ اس دھرتی کی کوکھ سے پیدا ہونے کے باوجود اس کی دھڑکن سننے سے معذور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے اس کی طرف سے کان بند کر لیے جائیں۔ دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کی سچی آوازوں میں آواز ملائی جائے۔ اور سچی آواز وہی ہے جو آپ کے دل تک پہنچتی ہے۔ اسے ان کے کانوں تک ضرور پہنچائیے جن کے دل ابھی بھی ترس رہے ہیں۔