حال کہنے کی بھی مجال نہیں
حال یہ ہے کہ کوئی حال نہیں
آ گیا ہجر کا خیال تجھے
اور میرا ذرا خیال نہیں
نہ کر اپنے کمالِ حسن پہ ناز
اس میں تیرا کوئی کمال نہیں
پتھروں کی بھی خیر مانگی ہے
دل وہ شیشہ ہے جس میں بال نہیں
ان گنت کے ہیں ان گنت مانند
ایک کی ایک بھی مثال نہیں
میں شریعت کی رو سے کہتا ہوں
عشق میں مولوی حلال نہیں
عشق کی خیر مانگیے سرکار
آپ کا حسن لازوال نہیں
گفتگو شاعرانہ کرتے ہیں
یہ ہمارا چلن ہے چال نہیں
ہم کو راحیلؔ دل کی حالت پر
ایک حیرت سی ہے ملال نہیں