ذو قافیتین غزل
موتی ہیں کہ اندھوں میں ہنر رول رہا ہے
جادو ہے کہ سر چڑھ کے مگر بول رہا ہے
دھرتی کی تو چھاتی سے لہو پھوٹ پڑا تھا
انسان اب افلاک کا در کھول رہا ہے
یا نزع کے عالم میں الٹتا ہے پرندہ
یا تازہ گرفتار ہے پر تول رہا ہے
کہتے ہیں کہ دل کی کوئی قیمت نہیں لیکن
بازار میں اس جنس کا ہر مول رہا ہے
طوفان میں جاری ہے سفر راہ نشیں کا
دل ڈوب رہا ہے کبھی سر ڈول رہا ہے
دنیا میں جو آیا ہے ٹھہرنے نہیں پایا
بستر ہی یہاں آٹھ پہر گول رہا ہے
جو زہر کے گھونٹ آپ پیا کرتے تھے راحیلؔ
کانوں میں یہ رس ان کا اثر گھول رہا ہے