تو نہیں ہے ترا خیال تو ہے
ایک ہے پر تری مثال تو ہے
شاید اپنی خبر بھی مل جائے
پوچھنا ان سے حال چال تو ہے
جو بھی ہو ہجر پر نہیں خوش ہم
جو بھی ہو خواہشِ وصال تو ہے
آپ بھی حال پوچھنے آئے
عاشقِ زار کا یہ حال تو ہے
تیری تصویر تُو نہیں ہوتی
یہ وہی حسنِ خد و خال تو ہے
بات کیا کیجیے وہ جانتے ہیں
ورنہ اتنی ہمیں مجال تو ہے
چپ بھی کچھ بولتی ہے آنکھوں سے
بے محل ہے مگر سوال تو ہے
یہی ہوتا ہے سیدھی راہوں میں
عشق کی راہ پائمال تو ہے
حالِ دل ہم نے کہہ دیا راحیلؔ
شاعری ہو نہ ہو کمال تو ہے