دل کی تکرار پہ تکرار نہیں کر پائے
تم نے مانگا تو ہم انکار نہیں کر پائے
توڑنا دل کا کوئی کھیل نہ تھا بچوں کا
وہ کیا تم نے جو اغیار نہیں کر پائے
یار لوگوں نے بڑی داد تو منصور کو دی
پر وہی بات سرِ دار نہیں کر پائے
عرضِ حال اس سے زیادہ تو نہ ہو پائے گی
نہیں کر پائے تو سرکار نہیں کر پائے
تم نے ہر بات میں وہ بات سمجھ لی ہو گی
ہم تو وہ بات بھی دلدار نہیں کر پائے
آنکھ والوں کو ہے دیدار نہ ہونے کا گلہ
آنکھ والے ہی تو دیدار نہیں کر پائے
رند مسجد سے نکالے گئے رسوا کر کے
ایک ہی سجدہ کئی بار نہیں کر پائے
ہم ترے سامنے رہنے کے تمنائی تھے
ہم ترے سامنے اصرار نہیں کر پائے
کر لیا دل نے ہمیں مرنے پہ تیار مگر
دل کو ہم جینے پہ تیار نہیں کر پائے
یہی مقطع ہے کہ راحیلؔ غزل ختم ہوئی
اعتراف اب بھی مگر یار نہیں کر پائے