رند کے آتے ہی واعظ کا وضو ٹوٹ گیا
فرش پر چھن سے گرا اور سبو ٹوٹ گیا
دلِ مرحوم جو اللہ کی مرضی لیکن
یہ کوئی بات تھی جس بات پہ تو ٹوٹ گیا
زندگی اپنی گریبان سلاتے گزری
لی ادھر سانس ادھر تارِ رفو ٹوٹ گیا
رونے والے ہی بچے عشق میں اس ظالم کے
ورنہ جس جس کو بھی تھی ضبط کی خو ٹوٹ گیا
ہم نے راحیلؔ عدو تک نہیں مانا اس کو
اور اندر بہت اندر سے عدو ٹوٹ گیا