خاموش ہوئے لب تو لہو بول پڑا ہے
لو بولنے والوں کا گرو بول پڑا ہے
میں سوچ رہا تھا کہ عدو ٹوٹ نہ جائے
میں دیکھ رہا ہوں کہ عدو بول پڑا ہے
زنجیر کی آواز تو دم توڑ گئی تھی
دامانِ عدالت کا رفو بول پڑا ہے
ہم کو تو کبھی خیر یہ دعویٰ ہی نہیں تھا
جس جس کو بھی تھی ضبط کی خو بول پڑا ہے
رندوں سے چھناکے کا سبب پوچھ تو ساقی
دل ٹوٹ گیا ہے کہ سبو بول پڑا ہے
راحیلؔ تری بات پہ حیرت نہیں ہم کو
اس بات پہ حیرت ہے کہ تو بول پڑا ہے