موسمِ ترکِ تمنا کی اِہانت کر کے
چل دِیے ہم تری دنیا کی اِہانت کر کے
باعثِ دردِ جگر ہے یہ امر اب تو حیف!
ہنستے ہیں سب ترے شیدا کی اِہانت کر کے
ہم وہی باغ گزیدہ ہیں کہ جن کے آگے
گزری ہر رت گُلِ رعنا کی اِہانت کر کے
پیاسے ہونٹوں سے یہ وعدہ ہے ہمارا، اک دن
دیر تک ہنسنا ہے دریا کی اِہانت کر کے
احمریں ہونٹوں سے اک جام پلاؤ ہم کو
تم تلک آئے ہیں صہبا کی اِہانت کر کے
دل میں سالار نے سوچا ہے نہ رکھے گا اُسے
رانی گر آئے گی راجا کی اِہانت کر کے
داخلہ بند کرو ایسے دوانوں کا اب
لوٹ جاتے ہیں جو صحرا کی اِہانت کر کے
رب نہ وہ وقت کسی اور پہ لائے، توبہ!
مت ہنسو عشقِ زُلیخا کی اِہانت کر کے
تم ہو عاقل تو ہے لازم کہ اُڑاؤ نہ مذاق
کیا ملے گا تمہیں حُمقا کی اِہانت کر کے؟
اپنے زخموں کی بلائیں ہی لیے جاتا ہے
تیرا بیمار مسیحا کی اِہانت کر کے
بس اسی مشغلے میں وقت گُزارا ہم نے
وصل مانگا کیے بِرہا کی اِہانت کر کے