﷽
دیباچہ ثناے خداوند ذو الجلال منشی کے ہو رہا ہے قلم کا جگر شگاف مقدور کیا کہ وصف پیمبر کا لکھ سکے لولاک جس کے حق میں خدا نے کیا نزول پس بعد نعت حضرت خیر البشر کے میں نازل ہوئی ہے ناد علیؓ جس کی شان میں بہتر ہے یہ کہ آل عبا پر پڑھوں درود ہر چند فارسی کی بھی ایسی ہی دستگاہ اس واسطے یہ ریختہ کی طرز خوب ہے |
ایسا نہیں کہ لکھ سکے اس کا کوئی کمال شاعر کی اس کی حمد میں ہووے زبان لال پہنچے ہے کس کا نعت مبارک پہ کچھ خیال ہے دین کے چمن میں وہی سرو نونہال کرتا ہوں وصف شیر خدا مظہر کمال تحسیںؔ کو اس کی مدح کے لکھنے کی کیا مجال من بعد داستان کا لکھنا کروں خیال رکھتا ہوں لیکن اس کی سمجھ ہے نپٹ محال جو فہم میں ہر ایک کے آوے مرا مقال |
اوپر دانشوران شیریں سخن بزم درایت و رزانت کے اور عاقلان صاحب طبع انجمن بلاغت و متانت کے مخفی و پوشیدہ نہ رہے کہ یہ عاجز ترین خلق اللہ میر محمد حسین عطا خاں متخلص بہ تحسینؔ مخاطب بہ خطاب “مرصع رقم” بعد رحمت والد بزرگوار حضرت میر محمد باقر خاں صاحب متخلص بہ شوقؔ کے کہ تمام ممالک ہندوستان میں نزدیک ارباب کمال کے کمالات دینی و دینوی سے شہرہ آفاق تھے اور واقعی یوں ہے کہ بیچ میدان تشریح و توصیف ذات اس مفرد کائنات کے نسریں ہلال آہوئے قلم کا، اوپر صفحۂ گلشنِ افلاکِ چراگاہِ سفیدۂ کاغذ کے جلوہ نمائش کا پا کر نافہ ریز بہار عرصہ تحریر کا نہیں ہو سکتا۔ اگر ذات فائض البرکات ان کی کے تئیں طغرا منشور فراست عالی یا عنوان مثال بے مثالی کا کہوں، بجا ہے۔ ایزد تعالیٰ غریق رحمت کا کرے۔ برکت صحبت، فیض موہبت، سر حلقۂ سخن طرازانِ دقایق فصاحت و قابلیت، سر دفتر نکتہ پردازانِ حقائق لطافت و اہلیت، فہرست مجموعۂٔ فنون سخنوری و سخن دانی، بسم اللہِ نسخۂ جامع قانونِ الفاظ و معانی، انجمن آراے ضوابط آئین خوشنویسی و عبارت طرازی، چمن پیراے شرایط رنگین فن شاعری و انشا پردازی، خطاط زبردست، صاحب کمال، روشن قلم یعنی حضرت اعجاز رقم خاں صاحب کے سے کہ بیچ اس زمانے کے اقلیم رقم علم و ہنر کے تئیں آرائش دے کر علم استادی کا بلند رکھتے ہیں، استفاضہ آثار تربیت و شاگردی کا حاصل کر کے مزاج اپنے کے تئیں اوپر شوقِ مطالعہ قصہ ہاے رنگیں اور لکھنے افسانہ ہاے شیریں کے از بس مصروف رکھتا تھا، اتفاقاً ایک مرتبہ بیچ رفاقت نواب مبارز الملک افتخار الدولہ، جرنیل اسمتھ بہادر صولت جنگ، سالار افواج انگریزی کے درمیان گنگ بہ سواری بجرہ و مور پنکھی کے سفر کلکتہ کا درپیش آیا لیکن بہ سبب مسافت دور دراز کے بعضے وقت طوطیِ فارغ البال دل کی خفگی مکان کے سے بیچ قفس کشتی کے رکتی۔ اس وقت واسطے شغل قطع منازل کے ایک عزیز سراپا تمیز کہ بیچ رفاقت میری کے قمری وار حلقۂ محبت و اخلاص کا اوپر گردن کے رکھتے تھے، عندلیبِ زبان کے تئیں بیچ داستان سرائی حکایات عجیب و غریب کے اوقات خوش کرتے۔ چنانچہ ایک روز بلبل ہزار داستان اس حکایت دلفریب کے تئیں بھی بیچ گلزار گفتگوے کہانی کے مترنم کیا جو ہر ایک صداے ترنم اس کے کی بے اختیار دل کو لبھاتی تھی کہ سننے سے تعلق ہے، طاؤس نگاریں خیال کا، بیج دماغ خاطر کے یوں جلوہ گر ہوا کہ اگرچہ پیشتر دو تین نسخے از قسم انشاے تحسینؔ و ضوابط انگریزی و تواریخ قاسمی وغیرہ کے بقدر حوصلہ اپنے بیچ عبارت فارسی کے تصنیف کیے ہیں، لیکن مضمون اس داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگیں زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اردوے معلیٰ کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستۂ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحواے کلام کا حاصل کرے کہ واسطے علم مجلس کے لسّانی زبان ہندوستان کی بیچ حق آدمی بیرون جات کے خراد کندۂ نا تراش کے تئیں ہے۔ چنانچہ چند فقرے بیچ تفنن طبع کے شروع داستان اول میں نوک ریز خامۂ عجز نگار کے کیے۔ بعد ازاں کہ جرنیل بہادر نیں وقت روانگی ولایت کے اس بندہ عاجز کے تئیں کلکتے سے بہ سرفرازی بعضے خدمات عمدہ صوبہ عظیم آباد کے و مختاریِ مقدمات نظامت کے امتیاز بخشے، اس وقت بیچ تردد خدمات متعلقہ کے دماغ انشا پردازی کا معلوم، مگر منظور نظر و مرکوز خاطر کے تھا کہ اگر زمانہ چند صباح موافقت کرے تو اس آغاز کا انجام دینا گویا بنا زندگانی کی روز محشر تلک مستحکم کرنا ہے۔ آخرش بہ مضمون اس کے کل امر امرھون باوقاتھا چند روز تصنیف کرنا اس کا ملتوی رکھ کے داخل صوبہ کا ہوا۔ اور یہ تماشا قسمت کا دیکھیے کہ بعد ہَرج مَرج مقدمہ سلطنت اور برہمی سلسلہ بندگی دودمانِ تقدس نشان خاندان تیموریہ کے و بہ سبب ارتحال والد بزرگوار اور انقلابات روزگار غدار کے کہ فی الجملہ آئینۂ روزگار میرے کا صیقل توجہات بے غایات سرداران انگریز کے سے جلا پذیر ہو چلا تھا سو بواسطہ زنگ ناتواں بینی بعضے اشخاص مختار معاملہ صوبہ کے سے مُکّدر ہوا۔ لاچار گردش فلکی سے نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن، اس وقت چندے اشعار مرزا سوداؔ صاحب کے کہ داد سخن کی دیتا ہے میرے تئیں حسب حال اپنے یاد پڑے کہ یہ سپہر رو سیاہ ؎
در پے رنج و تعب رہتا ہے اہلِ درد کے میل کھینچے دیدۂ بینا میں یہ تاریک عقل ابرِ دریا بار کو برساوے دشتِ یاس پر ہنس کو موتی چگاتا ہے سدا یہ بے تمیز آن میں اوجِ حسب کو پہنچے مجہول النسب تا کجا کیجے بیاں اس سفلہ دوں کا مزاج |
دکھ دہندوں کی ہوا خواہی میں دے ہے اپنی جاں پُر کرے کحل الجواہر لے کے چشم سرمہ داں خشک رکھے مَزرعِ امیدِ ہر پیر و جواں پوست کھینچے ہے ہُما کا دے کے مُشتِ استخواں خاک ذلت پر گرے پل میں فلاں ابن فلاں اک وتیرے پر نہیں، گاہے چنیں گاہے چناں |
اس کے تئیں پڑھتے پڑھتے ایک روز بیچ خوابِ شیریں فکر کے گیا ہوں کہ ایک مرتبہ مُلہمِ غیبی نے اوپر دل میرے کہ الہام دیا کہ اے بے خبر! آیۂ کریمہ فَاِنَّ مَعَ العُسرِ یسراً واِنَّ مَعَ العسرِ یسراً جو تو نیں بیشتر اوقات اپنے نہایت خوش حالی و فارغ البالی سے صرف کیے پس چند روز ایام تکلیف کے بھی بسر لے جانا مضائقہ نہیں ؏
چناں نماند و چنیں نیز ہم نخواہد ماند
اور اب جو تصدیعہ کے تئیں اپنے مزاج پر گوارا کیا ان شاء اللہ تعالیٰ بیچ تلافی اس کے عنقریب عروس تمنا کی ہم آغوش شاہد مدعا کے ہوتی ہے۔ زینہار غبار تردد اور اندیشے کا اوپر دامن خاطر کے نہ جھاڑ اور شیشۂ جمعیت دل کا اوپر سنگ تفرقہ کے چور نہ کر، شاید اس میں کچھ بہتر ہو۔ بہ حکم اس کے کہ فعل الحَکیمِ لَا یَخلو عَنِ الحِکمة لیکن تدبیر اس کی یوں ملحق ساتھ تقدیر کے ہے کہ توں ذرۂ بے مقدار جوہر وفاداری اپنے کے تئیں اقتباس نور خورشید قدردانی اس جناب عالی کے سے منور کر کہ اگر تخم اوصاف بزرگی اس کے کا بیچ تختہ بندی خیابانِ کاغذ کے بووے تو بے شائبہ تکلف، نہال عبارت کا رونق بہار شجرِ طوبیٰ کی لا کے رشک گلزارِ جنت کا ہو۔ یعنی نواب مستطاب معلیٰ القاب، گردوں رکاب، شعاعِ شمس الضحیٰ آسمانِ جلال حیدری، جلاے بدر الدجیٰ سپہرِ اقبال صفدری، فرازندۂ لواے وزارت و عالی مقداری، طرازندۂ بساطِ امارت و نامداری، لعلِ شب چراغ افسرِ حشمت و اجلال، دُرّۃُ التاجِ تارَکِ ثروت و اقبال، فیروزۂ تاج سلطانِ ملکِ دولت و کامرانی، یاقوتِ اکلیلِ خاقان ولایتِ شوکت و حکم رانی، اخترِ برجِ شجاعت و فتوت، گوہرِ درج سخاوت و مروت، رکن السلطنۃ القاہرہ، عضُد الدولۃ الباہرہ، صاحب السیف و القلم، رافع الجاہ و العلم، وزیر اعظم، صاحب تدبیر، مدبر معظم، روشن ضمیر، دستگیر درماندگاں، چارہ سازِ بیچارگاں، افتخار ممالکِ ہندوستاں، خداوندِ نعمت، قدرداں، حلیم الوضع، سلیم الطبع، عامل، عادل، فیاض، جواد، مومن، محسن، وجیہ، جمیل، خیّر، مدبر، عالم، عابد، زاہد، مصلی، متقی، صالح، مصلح، امیر، کبیر، شجاع، منصور، غازی، مظفر، وزیر الممالک، عمدۃ الملک، مدار المہام، آصف جاہ، شجاع الملک، اعتماد الدولہ، برہان الملک نواب شجاع الدولہ ابو المنصور خان بہادر صفدر جنگ ادامَ اللہ افضالہٗ و اجلالہٗ کہ کارپردازانِ ملاءِ اعلیٰ میں فدوی قسمت تیری کے تئیں روز ازل سے بیچ زمرۂ نمک چشانی خوانِ مائدۂ فضل و کرم اس کے کی مستفیض کیا ہے اور دروازہ کشائش مطالب دلی تیرے کا کلیدِ تفضّلات اسی عالی جناب کے سے کھولا۔ بارے بندہ بہ موجب حکم اس سروش غیب کے بیچ زینت البلاد فیض آباد کے کہ فی الحقیقت نگینِ خاتم مملکتِ ہندوستان کا ہے، دیدہ سے قدم کر کے داخل ہوا سبحان اللہ، ہر صفحہ اس صحیفۂ فیض کا براے خود ایک گلشن ہے کہ ہر طرف تختہ تختہ بہار خط و خال شاہدانِ زرّیں لباس کی بیچ اس کے رونق افزاے دیدۂ نظارگیوں کے ہو رہی ہے اور ہر کوچہ اس بلدۂ خاص الخاص کا علیٰحدہ علیٰحدہ ایک گلبن ہے کہ ہر سمت رنگ برنگ گلزار حسن و جمال مہوشان گلگوں قبا کے فروغ بخش چشم تماشا بینوں کے ہوتی ہے۔ وسعت صحن قطعۂ چوک کی اگر ملاحظہ کیجیے تو لذت سیر قطعۂ بہشت کی گوشۂ خاطر سے فراموش ہو جاوے اور جو رفعت محراب ترپولیہ کی دیکھیے تو ثنا پردازی بہار ارتفاع کمانچہ قوس و قزح کے سے زبان دل کی خاموش ہو جاوے۔ واقعی کہ شہر کیا ہے ایک تماشا قدرتِ الٰہی کا ہے۔ ایزد تعالیٰ اس دار الامن کے تئیں ہمیشہ رونق سواد دیدۂ ہفت کشور کا رکھے۔
زبس ہوا نیں طراوت سے واں کیا ہے گزار کمال فیضِ طراوت سے بر سرِ ہر سنگ گر اس طرف سے صبا ہو کے باغ میں جاوے |
عقیق رنگ بدل کر کے ہے زمرد وار شرر کے تخم سے جمتا ہے وھاں درختِ انار درخت خشک وہیں سبز ہو کے لاوے بار |
ق
ہے بے مبالغہ گر ساکنانِ جنت سے یقین جانیو دل میں زبس تماشے سے جو خوب غور سے دیکھا چمن میں قدرت کے کبھو نہ اس کو گزندِ سپہر سے ہو ہراس شہر پناہ کی خوبی کا گر بیاں کیجے شجاع گڑھ کی صفت مجھ سے گر کوئی پوچھے حَصَانت اس کی حصانت سے آسماں کی زیاد خدا نے جب کیا شرف البلاد فیض آباد غرض میں کر نہیں سکتا ہوں اس کی کچھ تعریف |
کرے جو سیر کوئی اس دیار کا گلزار بہ طور دیدۂ نرگس کے ہو رہے سرشار تو رشک خلد ہے اس قطعۂ زمیں کی بہار جسے ہے مسکن و ماوا کے واسطے یہ دیار کتاب خوب پہ جدول کا جیسے ہو سنگار قلعہ کی شکل زمیں پر ہوا فلک کو قرار ہے بلکہ رشک سے اس کے دوتا سما کا حصار کہ سب صفت میں یہ موصوف ہے بہ عز و وقار کہ ہے وہ زینتِ ہندوستاں بہ نقش و نگار |
الحمد للہ و المِنّۃ کہ بہ مجرد پہنچنے کے حضیضِ غربت سے اوپر اوج عزت کے فائز ہو کر شرف ملازمت اس عالی جناب کرامت مآب کا حاصل کیا اور اسی وقت سے بہ مقتضاے تفضلات کمال سے بیچ سِلکِ بندگانِ خاص کے منسلک ہوا۔ جب خورشید قدردانی پرورش خدا یگانی کا اوپر مطلع فیض رسانی روز افزوں کے منور ہو کر نخل تمنا میری کا گلِ مراد سے بارور ہوا، ایک دن تقریباً دو چار فقرے اس داستان کے کہ اول ذکر اس کا بیان کر گیا ہوں، بیچ سمعِ مبارک حضرت ولیِ نعمت کے پہنچائے۔ از بسکہ شاہد رعنا اس حکایت دل فریب کا جلوہ گری کے عالم میں شوخ و شنگ ہے، توجہ دل سے مقبول خاطر و منظور نظرِ اشرف کے کر کے ارشاد فرمایا کہ از سر تا پا اس محبوب دل پسندیدۂ دلہا کے تئیں زیور عبارت سے آراستہ کر۔ اس قلیل البضاعت نیں حسب الامر جلیل القدر کے درخور حوصلہ اپنے کے اس داستان کے معشوق کو حُلی بند زیب و زینت کا کر کے چاہتا تھا کہ اس نازنیں کے تئیں نظر مبارک سے گزرانوں کہ اس عرصے میں زمانے نیں اور ہی رنگ دکھلایا اس وقت بہ مقتضاے اس کے ؎
جی کی جی ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
آہ ٹک اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
لاچار پاے تردد و تلاش کا بیچ دامنِ قناعت کے کھینچ کر کے بیچ کنجِ خموشی کے چپکا ہو رہا۔
بعد ازاں کہ اس جناب مغفرت مآب کے خلف الاعظم امیر المعظم، زیب دودمانِ عالی شان، فخر ہندوستان جنت نشان، تاج الامارت العلیا، سراج الوزارت الکبریٰ، اعتضاد السلاطین، افتخار المومنین، پناہ الغریبین، ملاذ المساکین، شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ، صدر العلیٰ، کہف الوریٰ، قرّۂ باصرۂ صلابت و اقبال، غرّۂ ناصیۂ شہامت و اجلال، مہر سپہر عظمت و کرامت، سپہرِ مہر شجاعت و سخاوت، جامع علوم دانش و فرہنگ یعنی نواب آصف الملک آصف الدَّولہ امیر یحییٰ خاں بہادر ہِزبَر جنگ دام عمرہٗ و اقبالہٗ کے خضرِ تَفَضُّلاتِ بے غایات نیں اوپر جانِ ناتواں اس ضعیف البنیان کے آبِ حیات سرفرازی کا چھڑکا، تب بہ مضمون اس کے کہ صرّاف چار سوے عبارت گُستری کے نقودِ الفاظ کے تئیں جب تلک اوپر سکّۂ حرفِ تحسین زبانِ فصاحت بیانِ بندگان ممدوحِ جہاں کے نہ پہنچاویں، دوکان بیان کی نہ کھولیں اور جوہری بازار مضمون شناسی کے مرواریدِ معانی کے تئیں جب تلک بیچ رشتۂ لفظ آفریں دہانِ معجز نشان جناب مخدوم عالم کے نہ کھینچیں، قیمت رواج کی نہ بولیں، بیچ خیال میرے کے گذرا کہ شاہد اس افسانۂ موزوں کا کہ ساتھ زیور تجویز نام “انشاے نو طرز مرصع” کے آرائش پاتا ہے جب تک کہ طرّہ بسم اللہ دیباچہ مدح طرازیِ بندگانِ جنابِ عالی مُتعالی کا اوپر دستارِ عبارت کے رکھ کے موردِ عنایاتِ خلعتِ فاخرۂ واہ واہ و سر پیچ تحسین و جیغہ آفریں کا حضور عالی سے نہ ہووے زینت شہرت کی نہ پاوے۔ چنانچہ ایک قصیدہ درخور لیاقت اپنی کے بیچ مدح جناب عالی کے لکھ کر تیار کرتا ہوں اوپر مدد ستارہ سعید اپنے کے کہ ذرّہ طالع یاور میرے کے تئیں ظہور روشنی کا پرتو تجلاے نور اُس مہر انور کے سے پایا کہ جس کے شعشعۂ جمال جہاں آرا سے میدان وسیع شش جہت عالم کا مشرقستان نیر اعظم کا ہو رہا ہے۔
قصيدہ
اگر مِداد ہو دریا و ہوں قلم اشجار پھر اب زبان مری کو کہاں یہ طاقت ہے مگر ضرور ہے اتناں کہ گر تمام صفت کہ اُس کا وصف، مدَارُ المُہام ہے سو بجا امورِ سلطنت اس کی سواے فطرت کے جو ہووے جلوہ فزا مسندِ عدالت پر جو اُس کے عدل کی میزان میں تُلے خردَل اور اُس کی ہمّتِ عالی کی کیا کروں تعریف چمن زمانے کا شبنم سیتی رہے محروم “نہیں” کا نام زمانے سے ہو گیا مفقود تماشا یہ ہے کہ وہ ہست و کم سے واقف نئیں |
نہ لکھ سکے کوئی اُس کے کمال کا طُومار جو اُس کی مدح کے لکھنے کا کچھ کروں اقرار نہ ہو سکے تو بھلا ایک تو لکھوں زہزار کہ ہے وہ عقل کے میدان کا بڑا سردار اگرچہ ہووے ارسطو نہ کر سکے زنہار بدل کرے اثرِ بد زِکوکبِ سیّار تو کیا شبہ ہے کہ ہووے برابرِ کُہسار ہوا ہے عرصۂ دنیا کہ جس سے گوہر بار اگر نہ اُس کی سخاوت کا برسے ابرِ بہار زبانِ فیض ستی لفظِ “ہست” ہے دُربار یہ فضل حق ہے کہ ہو ہست اور ہو بسیار |
ق
ہے اُس کی ضبطِ شجاعت کا اس قدر جگ میں اور اُس طرف کبھی رستم ہزار صف سے ہو نہ ہوئے کیونکہ شجاع ہووے جو ہزبرِ جنگ فکیف تیغ جسے برق سے نہیں کچھ فرق |
نگاہِ کرم جدھر کو نظر کرے یک بار تو روح ڈر ستی قالب سے ہو سکے نہ بَرآر کہ تیغ اُس کی جہاں میں ہے قاتلِ کفّار پڑے جو فرَق پہ دشمن کے پا تلک ہو بغار |
ق
کمال تیر چلانے کا یھاں تلک ہے گا جہاں خیال کا پہنچے نہ تیر جلدی سے |
کہ جس کی تیز روی کا میں کیا کروں اذکار وہاں گذر کرے اُس کے خدنگ کا سوفار |
ق
شناوری میں یہ قدرت کہ قعرِ دریا ہے تو اُس کے علم شنا کی سُبک روی آگے نگاہ چشم تلک بھی نہ پہنچنے پاوے |
اور اُس کے دل میں یہ آوے کہ اس سے ہو جیے پار مجال کیا ہے جو پانی سے ہو ہَوا کا گذار کہ اِس طرف ستی جا اُس طرف سے پھر ہو پار |
ق
یہ زور حق نے دیا اس کے دست و باز میں تو شیر ترس سے بُرجِ اسد میں جا کے چھپے |
کہ اُس کی خاطرِ اشرف میں گر ہو عزم شکار مگر ہو بحر کے تحت الثری کو رُو بہ فرار |
ق
اگر طیور کی صید افگنی پہ ہو مرغوب جو چھوٹے دست مبارک سے چرخ پر شہباز وگر زمیں پہ کرے رُخ ز عالم بالا |
تو اُس شکار کی تعریف کیا کروں اظہار عقاب شمس کا مغرب میں جا چھپے در غار پرند کیا ہے وہ خرگوش کو کرے ہے شکار |
ق
کمیت خامہ کا اب اُس کے سیر گلگوں کو بیان جلدی کا اُس کی کہاں تلک کیجے خیال کیجے کہ ایسے پہ کس کا ہے مقدور مگر ہے راکب اُسی کا وہی امیر العہد اگر وہ شرق میں چاہے کہ چھیڑ کر اُس کو زباں سے لب تلک آواز “ہاں” نہ پہنچنے پائے |
کرے ہے صفحۂ قرطاس کے تئیں مِضمار فلک کو جس کی سواری کا عزم ہو دشوار کرے جو ذکر سواری کا غیر استغفار مدد ہے جس کی شہِ دین حیدر کرار میں پہنچوں غرب تلک لفظ ہاں کا کہہ اک بار کہ یھاں سے وھاں پہنچ اور وھاں سے پھر یہاں ہو دوچار |
ق
زباں نہیں جو سواری کے فیل کی شوکت کہ بیٹھنے میں ہے کوہ اُٹھنے میں ہے ابرِ سیاہ جب اُس پہ لے کے کجک ہووے فیل باں قائم ستارے جھول کے اس لطف سے چمکتے ہیں اور اُس کے ہودجِ زرّیں اُپر جناب نواب جلوس وقت سواری کا کیا کہوں جو کہوں صداے ڈنکے کی ایسی ہی بجتی ہے کہ اگر |
بیان ہو سکے یا اُس کا کچھ کروں گفتار بلند عرش سا، چلنے میں چرخ کی رفتار گویا فلک پہ کیا ماہِ نو نیں استقرار اندھیری رات میں تاروں کی جس طرح ہو بہار ہے جیسے ابرِ سیہ بیچ مہر پُر انوار زبس بہار سے فوجوں کی ہو رہی گلزار ہو دل میں جُبن کسی کے تو مرد ہو یک بار |
ق
تجمل اُس کے عساکر کا کیا کروں تقریر غلام کہنہ و دیرینہ جس کا ہے اقبال تمام فوج کی تعریف تو کہاں ہووے کہ اس جناب میں فطرت سے اپنی ہی بے غیر کہ ہووے گرچہ فلاطوں نہ کر سکے یہ فکر بہ مرتضی جو کہوں صف بہ صف کھڑے ہوویں بطور فوج ولایت کے جب کریں ہیں فیر صلابت ایسی ہی ہے توپ خانہ عالی کی گرجنا اس کا قیامت کے شور سے نزدیک |
کہ موکب اُس کا ہے کوکب کی فوج سے بسیار فتح رکاب میں جس کے ہے ایک خدمت گار پر ایک ہند میں تحفہ ہوا ہے یہ اسرار کریں ہیں ایسی ہی جرّار پلٹنیں تیار جو ذات مظہر عالی سیتی ہوا اظہار نظر پڑے ہے کچھ اور ہی طرح کا لیل و نہار تو آگے کوہ جو ہو اُس کو بھی کریں مسمار کہ جسم رعد کا غرش سے جس کے ہے بیزار تڑپ سے جس کے عدو کا جگر فگار فگار |
ق
شکوہ خیمہ کی رفعت کا گر کہوں تم سے اُسی کے رشک سے اب تک فلک ہے گردش میں |
کہاں خیال کو طاقت کہ پا سکے وھاں بار اُسی کے بار سے ہے تختۂ زمیں کو قرار |
ق
جو اُس کے مطبخ عالی کو پوچھیے مجھ سے یقیں ہے حاصلِ ہندوستاں نہ ہو کافی زہے نواب امیرِ زمان پناہ جہاں غرض کہ جس کا ہو تحسیںؔ جناب اس درجہ کہ وہ ہے مہر درخشاں، و میں ہوں ذرہ مثال قلم زباں کی وہ، اور خامہ کی زباں یہ کچھ بس اب زبان و قلم ہر دو معترف بہ قصور وہ کون شخص ہے، نواب آصف الدولہ اگرچہ کام خوشامد کے کرنے کا جگ میں ولے قسم ہے مجھے اپنے دین و ایماں کی نہیں زمانے میں ایسا بہ جاہ و حشم و شکوہ خدا رکھے اسے تب تک سلامت اور قائم |
تو کیا کہوں کہ زیادہ ہے وہ ز حد و شمار اگر ہو اُس کے مصارف کے واسطے درکار کہ جس کے جاہ کا حشمت کا یہ کیا اذکار کروں میں وصف کو اُس کے کہاں تلک اظہار خدا کے واسطے ذرّہ کا یہاں ہے کیا مقدار بھلا ہو غنچہ دہانوں سے کیونکہ حرف برآر کہاں میں اور کہاں وصفِ وارثِ تلوار کہ جس کی ذات سے ہے ہند کو سکون و قرار ہمشہ سیتی چلا آتا ہے بہ ملک و دیار کہ بے مبالغہ کہتا ہوں اس کو میں صد بار مرے نواب کا ثانی کوئی سپہ سالار کہ جب تلک رہے سر سبز دہر کا گلزار |
بارے الحمد للہ و المنّۃ کہ نجم امید کا اوپر معراج مدعا کے جلوہ گر ہوا کہ فراغ خاطر سے گلدستۂ داستان کے تئیں اس رنگ سے بیچ محفل بیان کے زیب و زینت ترتیب کی دیتا ہوں۔
﷽
آغازِ قصہ
بیچ سرزمین فردوس آئین ولایت روم کے ایک بادشاہ تھا سلیماں قدر فریدوں فر، جہاں بان دین پرور، رعیت نواز عدالت گستر، برآرندهٔ حاجات بستہ کاراں، بخشندهٔ مرادات امیدواراں، فرخندہ سِیَر نام کہ اشعۂ شوارق فضلِ ربانی کا اور شعشہ بوارق فیض سبحانی کا ہمیشہ اوپر لوح پیشانی اس کے لمعاں و نور افشاں رہتا لیکن شبستانِ عمر و دولت اس کے کا، فروغ شمع زندگانی کے سے کہ مقصد فرزند ارجمند سے ہے، روشنی نہ رکھتا تھا۔ اس سبب سے ہمیشہ غنچۂ خاطر اس کے کا بادِ سموم اس فکر دل خراش کے سے افسردہ رہتا اور اصلاً گلِ عشرت اس کے کا شدت صرصر اس غم و الم کے سے بہار شگفتگی کی نہ لاتا مگر ضرورتاََ بہ امید اس کے کہ شاید نقش بند خاطر طراز آفرینش کا دستیاری قلم قدرت کے سے شکل اولاد کی اوپر صفحۂ روزگار کے ثبت کرے، گاه گاه فرخنده سیر بیچ حریم حرم تعظیم کے کہ خاک پاک اس کے تئیں کحل الجواہر دیدهٔ قدسیاں کا کہا چاہیے، قدم رنجہ فرما کے سب پرده نشینانِ حریم حرمت اور ہودج گزینان تُتقِ عفت سے جو کوئی مقبول خاطر اشرف والا و پسند طبع ارفع و اعلی کے ہوتی، ساتھ اس کے داد معاشرت و داد طبع کی دیتا۔
قصہ کوتاہ ایک روز وہ خورشید برج خلافت کا بیچ آئینہ محل خاص سپہر اساس کے کہ فردوس بریں بھی تماشاے تعمیر اس کی سے عرق انفعال کا اوپر چہرہ کے کھینچے، ساتھ ایک بدر منیر اوج عصمت کے مانند ماہ و مشتری کے قِران السعدین تھا، اتفاقاً اس عرصہ میں نظر مبارک بادشاہ کی طرف ایک آئینہ کے کہ مقابل مکان عشرت گاہ کے نصب کیا تھا جا پڑی۔ جو سن شریف اس کا قریب پچاس سال کے پہنچا تھا وقت مشاہدہ جمال مہر تمثال اور معائنہ صورت حال اپنے کے دیکھتا کیا ہے کہ ایک موے سفید درمیان داڑھی سیاہ کے مانند سہیل ستارے کے بیچ آخر شب تاریک کے کہ واقعی اس نشان کے تئیں ختم عمر کا کہتے ہیں، نمودار ہوا:
پس دیکھتے ہی آنکھوں کو یرقاں سا ہو گیا
یھاں تک ہوا کہ ہو گیا ہر استخوان زرد
پر اس وقت وہ ابر نیساں آسمان عظمت و کرامت کا طوعاً و کرہاً موتی مقصود کے تئیں بیچ صدف آرزوے ملکہ حور لقا زیبا طلعت کے پُر کرکے بعد فراغت غسل کے اس مکان سے اٹھ کر طرف خانہ باغ کے متوجہ ہوا اور اپنے دل میں غور کیا کہ ہراول لشکر خزاں بہار عمر کا ساتھ فوج بے شمار گلریزی گلزار لطافت و توانائی کے شمشیر برہنہ موے سفید کی کہ برہم زنی صف جوانی کی ہے لے کر مقابل ہوا اور امید زندگانی بالکل منقطع ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ باغبان قضا و قدر کے نے بیچ روز ازل کے گلشن تمناے دلی کے تئیں گلِ مراد سے رونق نہیں بخشی کہ بعد میرے حدیقہ سلطنت کے تئیں سرسبز کرکے بہار افزا ہوا۔ پس آج سے ترک لذت ہَوا و ہوس دنیوی کا کرکے بیچ ایک گوشۂ قناعت کے بیٹھا چاہیے اور اس آرزو کی حسرت میں ساتھ دلِ بِریاں و دیدۂ گریاں کے نہایت محزون و غمگیں ہو کر کبھی گرد کلفت کی اوپر دامن عشرت کے جھاڑ کر بے اختیاریِ ملال طبیعت کے سے ہر ساعت بند اس مسدس کے تئیں اوپر زبان کے لاتا:
کون ہے جس سے کہوں حال دل آزاری کا باعثِ رقت جاں سوزِ دل افگاری کا غم جو گذرے ہے مرے دل پہ بیاں کیا کیجے |
درد بے طاقتی و رنج گرفتاری کا سبب عاجزی و موجب لاچاری کا پر جہاں بس نہ چلے، ہاے وہاں کیا کیجے |
اور کبھو شبستان جمعیت دل کے تئیں آتشِ سراسیمگی و آشفتگی کے سے سوخت کرکے بے قراریِ تشویش خاطر کے سے دم بدم بند اس شعر کے تئیں پڑھنا شروع کرتا ؎
آہ حسرت مرے دل کی نہیں بر آتی ہے قطع امید ہے اور یاس نظر آتی ہے اس مصیبت کا بیاں کیجیے کس سے افسوس |
مفت باتوں میں مری عمر چلی جاتی ہے ہاے یہ زندگی کیا کیا مجھے دکھلاتی ہے درد اس دل کا عیاں کیجیے کس سے افسوس |
یہ کہتا ہوا خراماں خراماں مضطر و متفکر خفگی طبیعت کی سے سب کار پردازان کارگاہِ خلافت کے تئیں جواب مجرے کا فرما کے قدم فرماں روائی و جہانداری کا بیچ دامن قناعت کے کھینچ کر ایک گوشہ میں تنہا جا بیٹھا اور ساری حلاوت و مزه زندگانی کے سے تلخ کام ہو کے ارشاد فرمایا کہ ہرگز کوئی خویش و بے گانہ سے سواے خادمانِ درگاہ کے بیچ خلوت سراے بادشاہی کے باریاب نہ ہو اور اضطراب شدتِ رقت طبع کے سے مجنون دل، اندوه منزل اس کے کا بیچ خیال جمال لیلی کامرانی کے پڑھنے اس بند مخمس کے سے مشتغل تھا ؎
یا الٰہی! میں کہوں کس سیتی اپنا احوال یا رب! اس رنج سے اب اس دل شیدا کوں نکال |
تجھ سوا کون ہے، جس سے میں کہوں دل کا ملال تیری ہی ذات سے رکھتا ہوں میں ہر دم یہ خیال |
ساز آباد خدایا دل ویرانہ را
اس طور فرخنده سیر چند روز سیر تحیر کا اوپر زانوے تفکر کے رکھ کے متوجہ مہمات جہانگیری و معاملات مالی و ملکی کا نہ ہوا۔ اس صورت میں تخلّل عظیم بیچ ممالک محروسۂ سلطانی کے واقع ہوا اور ہر چہار طرف سے غبار فتنہ و فساد کے نیں درمیان اقلیم متصرفہ کے سر اٹھایا۔ جب بازار بے تسلطی و بے انتظامی کا سخت جوش پر آیا تب سب خیر اندیشان دولت عظمی و نیک سگالان صولت کبری کے کہ صفحۂ باطن کے تئیں حروف اعتقاد اور اخلاص کے سے مرتسم اور تختۂ پیشانی کے تئیں سجود بندگی و فرماں برداری کے سے مزین رکھتے تھے، بیچ دیوان خاص بادشاہی کے جمع ہو کے ہر ایک اشہب تیز گام زبان کے تئیں بیچ میدان تقریب اور تمہید کے جولاں کرتے تھے۔ آخرش پنجہ عروس مصلحت کا ساتھ حنا اس تجویز کے رنگیں ہوا کہ اگر خردمند نامی وزیر کہ ظہیر سلطنت ابد مدت و مشیر تدبیر مملکت قضا سطوت کا ہے، بیچ حضور اقدس خاقانی کے جا کے قفل سر بستہ اسرار نہانی، مزاج حضرت ظلِ سبحانی کے تئیں، کلید حسن قابلیت و فرزانگی سے وا کر کے مرکوزِ باطن تقدس مواطن و مكنونِ خاطر دریا مقاطر کا دریافت کرے، اغلب کہ باعث خلوت نشینی اور سبب گوشہ گزینی جناب مبارک خدیو کائنات کا بواقعی معلوم ہو۔ بعد ازاں تدبیر عقل و تردد و خرد کے سے واسطے حل کرنے اس مشکل کے کوشش فراواں و جہدِ نمایاں بیچ ظہور کے لا ویں۔
غرض کہ خردمند وزیر فرخنده سیر کا کہ افلاطوں باوصف اس کیاست اور فِراست کے خوشہ چین فطرت اس کی کا تھا اور ایام شہزادگی حضرت کے سے نقش عبودیت و فدویت اپنے کا منقوش خاطر ہمایوں کے رکھتا تھا، بہ موجب استصواب سب ارکان خلافت کے اور استقرار اس صلاح محمود العاقبت کے، واسطے مجرے ولیِ نعمت کے، اوپر در خلوت سراے شاہی کے آیا اور معرفت حاضران بارگاہِ عظمت و باریابانِ بساط قربت کے آداب بندگانہ بہ دستور خانہ زادان موروثی کے بیچ حضور لامع النور اقدس عالی کے عرض کر بھیجا۔ جو بادشاہ خردمند کے تئیں بہ نسبت اور مقربان درگاہ کے عمدہ محرمان راز و زبدہ مصاحبان دَم ساز کا جانتا تھا، حکم قضا توام واسطے حاضر کرنے، بیچ حضور پرنور کے صادر کیا۔ جب وزیر حسب الارشاد ہدایت بنیاد کے باریاب خلوت مقدس کا ہوا، دیکھتا کیا ہے کہ گل روے مبارک شہر یار کا مانند برگ خزاں کے مرجھا رہا ہے اور دریا آنسو کا چشمہ چشم کے سے جاری ہے۔ بہ مجرد ملاحظہ اس احوال کے خردمند نے جبین نیاز کی اوپر زمین ادب کے گھس کے زبان تحیت اور ثنا کی کھولی ؎
یا الٰہی یہ جو تیرا ہے چراغ دولت تا قیامت رہے مسجود خلایق وہ جا |
تا ابد اس سے منور رہے قندیل فلک مسندِ جاہ کی تیری بچھے جس پر توشک |
اور بعد تقدیم مراسم کورنش و تسلیم و مراتب تلثيم پایہ سریر سپہر تکریم کے بجا لا کے عرض کیا کہ آئینہ ضمیر خورشید تنویر قبلہ عالم کا زنگ تردد اور تفکر کے سے مکدر کیوں ہے؟ بادشاہ نیں نائرہ تاسف اور تحیر کا بیچ بھٹی سینہ کے مشتعل کرکے کہا:
کس سے میں کہوں دل کی گرفتاری کو یارب جل جائے گی بلبل، مرے سینہ سے نہ لگ بیٹھ |
کیا جانے وہ جس کو یہ سروکار نہ ہووے یاں آگ کے شعلے ہیں، یہ گلزار نہ ہووے |
وزیر کہ ہمدم و دلکشاے مجلس خاص کا اور محرم خلوت سراے وفا و اخلاص کا تھا ملتمس ہوا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت! اگر غلام قدیم الخدمت کے جان و مال سے تصدق فرق مبارک کے ہے، لب بہ تحقیق رموز پنہانی کعبہ جہانی کے کھول کر دقیقہ یاب سرائر سلطانی کا نہ ہووے، پھر عقدہ کشاے اسرار خاطر قدسی کا کون ہوگا۔ امیدوار نوازشات خسروانہ عنایات بادشاہانہ کا ہوں کہ اس فدوی جان نثار کے تئیں مضمر ضمیر آفتاب کے سے مفصل ایما ہو کہ بندہ بھی درخور حوصلہ اپنے کے شرط نمک حلالی کی بجا لاوے۔
بادشاہ نے جو وزیر کے تئیں شریک رنج و راحت اپنے کا جانا، مطابق مضمون اس شعر کے ؎
حال دل کچھ کہا نہیں جاتا
آہ چپ بھی رہا نہیں جاتا
لاچار تمام باعث کلفت طبع مقدس کا مفصل ارشاد کیا اور فرمایا کہ اے رمز شناس عالم مزاج دانی کے جو منشی تقدیر کے نے بیچ سرنوشت میری کے حرف تولد فرزند کا نہیں لکھا اور ایام زیست کے قریب الانقضا ہیں کہ آئندہ توقع استحصال اس نعمت غیر مترقب کی پیش نہاد خاطر کے رکھتا، پس اب واسطے چند روز کے کیا ضرور ہے کہ اوقات اپنی کے تئیں بیچ کاروبار اس دار ناپائیدار کے صرف کروں۔ اس سے یہی بہتر ہے کہ ترک تعلق دنیوی اور تبدیل لباس کا کر کے درمیان صحراے لق و دق کے کہ جہاں بود و نشان انسان کا نہ ہو بیچ عبادت حضرت واجب الوجود کے مشغول ہوں اور آہ سرد دل پُر درد سے نکال کر پڑھنے لگا ؎
دل مرا درد سے نالاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
اس قدر حال پریشاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
اس تمنا میں مری چشم سے روتے روتے
یاں تلک اشک کا طوفاں نہ ہوا تھا، سو ہوا
وزیر کہ ذو الخِردان زمانہ کے سے گوے سبقت کی لے گیا تھا، ملاحظہ احوال کثیر الاختلال بادشاہ کے سے دل پر یہ ارادہ مصمم کیا کہ تمام مقدمہ سلطنت کا درہم برہم ہو کر ایک عالم تباہ ہو جائے گا اور ہر طرف سے مخالفان واقعہ طلب قابو فرصت کا غنیمت جان کے باعث ویرانی ممالک محروسۂ شاہی کے ہوں گے، پھر بقول اس شعر کے نوبت پہنچے گی ؎
چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جُز خار گلشن میں |
ہزاراں بلبلاں کی فوج تھی اور شور تھا غل تھا بتاتا باغباں رو رو یہاں غنچہ یہاں گل تھا |
پس تقاضا دور اندیشی و خیر خواہی کا یہ ہے کہ کسو طور سے مزاج بادشاہ کے تئیں بر سر فسخ اس عزیمت کے لائے۔ بعد ایک ساعت کے متامل ہو کر بولا کہ اگر گستاخی و بے ادبی غلام کی معاف ہو تو کچھ عرض کرے۔ ارشاد ہوا کہ ہوں۔ خرد مند نے آداب بجالا کے عرض کیا کہ جہاں پناہ سلامت! دشت پیمائی شعار دوں ہمتان ناقص فہم کا ہے، نہ ضابطہ بادشاہان اولو العزم کا۔ اور واقعی یوں ہے کہ عبادت حضرت معبود حقیقی کی کچھ موقوف اوپر سیر کوہ بیاباں کے نہیں، شاید بیچ سمع مبارک کے یہ شعر نہیں پہنچا ؎
عابد و معبود ہیں تیرے ہی پاس اے بے خبر
کیوں ارادہ کر رہا ہے طوف بیت اللہ کا
اور جو خوامخواہ مزاج مقدس کے تئیں مصروف صحرا نوردی کے فرمائیے گا تو اولیٰ یقین خاطر اقدس کے رہے کہ یہ خرمن گروہ خلایق کا کہ بزرگان حضرت کے نیں ایک ایک خوشہ ہر متنفس کا واسطے حصول دانۂ ناموری کے جمع کیا ہے، ایک مرتبہ آتش ظلم مخالفاں قابو جو کی سے سب سوخت ہو جائے گا اور تمام محنت سالہا سال بادشاہان سلف کی یکلخت رائیگاں و برباد جائے گی، پھر بہ مقتضاے اہانت العبد اہانت المولی کے، تکلف بر طرف حرف بد نفسی کا صریح طرف حضرت کے ہے اور دویم یہ کہ جو کافہ رعایا کے تئیں ودیعت جناب احدیت و صمدیت کا کہتے ہیں ایزد سبحانہ و تعالی نے شاہان عظیم الشان کے تئیں واسطے حفاظت و حراست جمہور انام کےتعین کیا ہے اور ایک سر مُو ایذا لاحق حال اس فرقۂ غریب کے ہو تو روز دیوان حشر کے باز پرس اس کی گروہ قدسی شکوہ ان کے سے تعلق ہے۔ پس اس صورت میں عبادت بھی اثر قبولیت کا نہیں رکھتی کیونکہ توڑناں ایک دل کا برابر ڈھانے سو کنگرہ عرش کے ہے۔ بہ مضمون اس کے ؎
دل مت پٹک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمین سے اٹھایا نہ جائے گا
کعبہ اگرچہ ٹوٹا تو کیا جاے غم ہے شیخ
یہ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
مگر از راہ حق پسندی و منصف مزاجی کے جو عرض غلام کی پذیرائی طبع مقدس کے ہو، صلاح دولت یوں ہے کہ قبلۂ عالم دست دعا اوپر درگاہ حضرت مجیب الدعوات کے کہ دستگیر درماندگان کوے ناکامی کا و چارہ ساز بیچارگان عالم بے سر انجامی کا ہے، دراز کر کے اور ہر وقت منتظر فتوحات غیبی و فیوضات لاریبی کے رہ کے دن کے تئیں بیچ رتق و فتق مہمات سلطنت کے و نظم و نسق امورات نصفت و عدالت کے کہ انتظام و استحکام بناے خلق اللہ اس شغل خطیر سے منتظم و مستحکم ہے مشغول رہیں اور شب کے تئیں اوپر استفادہ پڑھنے درود و طواف مقابر متبرکہ بزرگان جنت نشیں کے واستفاضۂ زیارت جناب درویشان حق گزیں کے مزاج مبارک کے تئیں مصروف کرکے وجہ ہمت کا کریں۔ ان شاء اللہ تعالی برکت اس وسیلہ جمیلہ کے سے یقین ہے کہ شام ناکامی کی ساتھ صبح کامیابی کے تبدیل پا کے شاہد مراد کا، نقاب تمنا کے سے چہرہ کشا ہو اور ابواب بہجت و شادمانی کے اور اسباب مسرت و کامرانی کے اوپر روے روزگار فرخندہ آثار خسرو والا تبار کے ہر چہار طرف سے مفتوح ہوں۔ تس پر ہرچہ طبع مقدس اقتضا فرماوے، مبارک ہے۔
بادشاہ نے جو زر التماس وزیر کے تئیں اوپر محک راے زریں کے کسا معلوم کیا طلاے ناب اس کے کا بلا تشکیک کامل عیار کا ہے، عارض عرض معروض خرد مند کے تئیں ساتھ گلگونہ اجابت کے رونق بخشی اور مکان خلوت کے سے اٹھ کے اوپر تخت سلطنت و فرمانروائی کے جلوس فرمایا اور گلزار خلافت کے کہ بہ سبب باد سموم بے انتظامی و ہنگامہ پردازی کے ژولیدہ ہوئے تھے، سر نو سے ساتھ رشحات سحاب انتظام و تسلط کے سرسبز و شاداب ہو کے صدا نقارہ مبارکی و فرخی کی بیچ گنبد دوّار سپہر کے پہنچی اور صفیر نفیر تہنیت اور شادی کی بیچ شش جہت عالم کے بلند ہوئی ؎
دھوم ہے گھر گھر سبھوں کے، سب کے گھر میں شادیاں
عید کرتے ہیں سبھی دے دے مبارکبادیاں
یاس کی بیداد سے ویراں ہوا تھا ملک دل
پھر ہوئی امید کے عامل سیتی آبادیاں
بندہ ہاے فدوی خاص و فدویان عبودیت اساس مصدر مراحم و اختصاص بادشاہی کے ہو کے بدستور قدیم اپنے پایہ پر بیچ دربار معلی کے حاضر ہوئے اور پھر مجدداً بند و بست سلطنت قدر قدرت کے نیں یاں تلک رونق آراستگی کی پائی کہ طوطی نطق پرداز خلایق کی بیچ سبزہ زار رفاہت و آسودگی کے بے اختیار مطالعہ اس رباعی کے سے نغمہ سرا تھی ؎
ایواں میں عدالت کے تمھارے اے شاہ
کب جرم کو ہے راہ نعوذاً باللہ
شیشے کا اگر طاق سے رپٹے ہے پاؤں
پتھر سے نکلتی ہے صَدا بسم اللہ
قصہ کوتاہ اور عبارت مختصر آخرش بادشاہ بہ موجب صلاح خردمند وزیر کے کہ فی الواقعہ اظہار اس کا کنایہ پیش طاق دانش و آگاہی کا تھا، دن کو اوقات خجستہ آیات اپنے کے تئیں بیچ قبض و بسط مہمات مملکت کے مصروف رکھتا اور شب کے تئیں واسطے استسعاد زیارت مقابرۂ پیش قدمان معرکہ حقیقت کے و طواف جناب قافلہ سالاران شاہراہ شریعت کے تشریف فرماتا۔
ہوتے ہوتے عرصہ نو دس ماہ کا منقضی ہوا۔ اتفاقاً ایک مرتبہ بادشاہ موافق ضابطہ معہود کے دولت خانہ مبارک سے نکل کر وقت نصف شب کے تن تنہا طرف برآمدہ شہر کے متوجہ ہوا اور اس وقت ہواے تند نے ساتھ زور اور شور تمام کے کہ جس کے سراہٹے کے جھکور کے بیان سے باد پاے سخن کا لنگ ہو جاوے، چلنا شروع کیا۔ اس عرصہ میں فرخندہ سیر کے تئیں دور سے بفاصلہ فرسنگ کے ایک چراغ نظر آیا لیکن باوصف اشتداد باد صرصر کے زینہار اشتعالۂ چراغ کے تئیں سر مو حرکت نہ تھی۔ بادشاہ نے اول خیال کیا کہ طلسم شب یمانی کا ہوگا، یعنی اگر پھٹکری کو گرد فتیلۂ چراغ کے چھڑک دیجیے تو کیسی ہی ہوا چلے چراغ گل نہ ہو، بعد ازاں بقول اس مضمون کے مصر؏
چراغ مقبلاں ہرگز نمیرد
ملاحظہ اس عجائبات کے سے اپنے دل میں تصور کیا کہ یہ تجلی کسی مردان خدا کے مکان پر متجلی ہے۔ اغلب کہ چراغ آرزو میری کا اسی نور سے منور ہو اور طرف اس چراغ کے رخ توجہ کا فرمایا۔ چلتے چلتے پھر متصل پہنچا۔ دیکھتا کیا ہے کہ اوپر مزار ایک مقبول بارگاہ لاہوت کے فانوس بلوریں کے اندر شمع روشن ہے اور چار شخص مَلَک سیرت درویش صورت کہ ظاہر حال خجستہ مآل ان کا بہ ترکیب لباس فقیر کے آراستہ ہے، گرد روشنی کے جلوہ آرا ہیں لیکن غنچہ دہان ان کے کا سموم دل تنگی کی سے بیچ گلزار مجلس سکوت کے بہار شگفتگی گفتگو کی نہیں لاتا۔ ملہم غیبی نے فرخندہ سیر کے دل پر الہام دیا کہ آبیاری تفضلات باغبان قضا و قدر کے سے یقین کامل ہے کہ نخل امید کا ترشح فیض صحبت درویشوں کے سے سرسبزی وشادابی پا کر بیچ باغ اس مجلس کے بارور ہو۔ پر اس وقت مناسب یوں ہے کہ اپنے تئیں مخل مجلس خاص ان کی کا نہ کر کے ایک گوشہ میں مخفی ہو کر استکشاف احوال اس چہار عنصر لطیف کا کیجیے۔ غرض کہ بادشاہ درمیان کُنج اس مکان کے اس طور سے کہ کسی پر اطلاع نہ ہو، پوشیدہ پنہاں جا بیٹھا اور صدف گوش ہوش کی تئیں واسطے پُر کرنے مروارید کلمات میمنت آیات درویشوں کے وا کیا۔ اتنے میں درمیان ان چہار درویش کے ایک شخص نے عندلیب زبان کے تئیں بیچ گلزار سخن آرائی کے نغمہ پرداز کیا کہ اے یاران ہمراز و اے رفیقان دمساز! ہم چار شخص انقلاب روزگار غدار و گردش دور دوّار کے سے حیران و پریشان وارد اس مکان کے ہوئے تھے لیکن الحمد للہ و المنۃ کہ رہبریِ قسمت و یاوریِ بخت ہمارے کی سے شام تنہائی کی نے ساتھ فروغ شمع ملاقات ہم دیگر کے روشنی پائی مگر بالفعل کہ درازی سر رشتۂ شب تار کی نے زنجیر بے خوابی کی بیچ پاے استراحت کے ڈالی ہے۔ اس سے صلاح وقت یہ ہے کہ واسطے شغل بیداری کے ہر ایک قفل گنجینۂ زبان کے تئیں ساتھ کلید تشریح و تفصیل قصہ سرگذشت واقعی اپنے کے کھولے کہ اس وسیلہ سے متاع فوائد صحبت سراپا برکت یک دیگر کے بیچ کیسۂ تمنا کے حاصل کریں۔ یاران دیگر نے انگشت قبولیت کی اوپر دیدۂ رضا و رغبت کے رکھ کے کہا کہ کیا مضائقہ، اول آپ ہی صورت حال اپنی کے جو کچھ بہ چشم یقین کے و دیدۂ حقائق بیں کے دیکھا ہو اوپر صفحۂ اظہار کے کھینچ کے گوش رفیقان ہمدم کے تئیں گرانبار گوہر منت کا کریں۔
چنانچہ رفیق اول نے غزال رعناے اس داستان ندرت بیان و واردات احوالِ صدق مقال اپنے کے تئیں بیچ چراگاہ مجلس کے یوں جولاں گر عرصۂ تقریر کا کیا ؎
دوستاں دل سے سنو حال دل افگار کے تئیں حالت گریہ اس دیدۂ خونبار کے تئیں تم کو شفقت ستی پاتا ہوں جو غم خوار اپنا |
شرح افسانۂ غم عشق کے بیمار کے تئیں قصۂ بے سر و سامانی اس خوار کے تئیں پس بجا ہے کہ کروں درد کا اظہار اپنا |
کہ اے یاران غمگسار! مولد متوطن اس سرگشتۂ بادیہ آشوب و فتن کا بیچ خطۂ پاک یمن کے ہے اور والد اس عاجز کا ملک التجار نامی نہایت مالدار و آسودۂ روزگار، پیشہ تجارت کے سے اس قدر گنج وافر بیچ بساط جمعیت کے موجود رکھتا تھا کہ شاید صراف سپہر کا بھی بیچ صندوق کہکشاں کے خزانہ ستاروں کا جمع نہ رکھتا ہوگا۔ اس سے دو فرزند تولد ہوئے تھے، ایک یہ عاجز اور دوسری ہمشیرہ کہ اس کے تئیں قبلہ گاہ نے بہ حین حیات اپنی کے ساتھ ایک سوداگر بچہ عمدہ خاندان کے سے منکوح کیا تھا۔ القصہ یہ فقیر عہد خوردگی سے بیچ ناز و نعمت کے پرورش پا کے اور فکر و افکار دنیا کے سے کچھ سروکار نہ رکھ کے بشغل کودکاں بازی و عیش و عشرت کے مشغول رہتا۔ جب مہتاب عمر میری کا بدرجہ چہاردہ سالگی پہنچا روز روشن سرور و ابتہاج اس تیرہ بخت کا تاریک تر شب یلدا سے ہوا یعنی پیمانہ زندگی مار و پدر بزرگوار کا شراب خوشگوار حظوظ نفسانی کے سے لبریز ہو کے اُسی سال میں صدمہ دست قضا کے سے ڈھلا۔ وقوع اس واقعۂ جانگداز و سانحۂ ہوش رُبا کے سے عالم بیچ آنکھوں میری کے تاریک نظر پڑ کے دود آہ و فغاں کے نے سر غبار کا فلک تک کھینچا اور نہایت غم و الم سے لباس سیاہ بیچ بدن کے کر کے چہرۂ حال تباہ اپنے کے تئیں ساتھ ناخن مصیبت کے نوچا۔ سچ کہتے ہیں ؎
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب چشم کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
بعد از چند روز کے خویش و اقربا نے رسم تعزیت و دلداری کی بجا لاکے کشتیِ دل شکستہ میری کے تئیں گردابِ غم سے اوپر کنارہ صبر و شکیبائی کے پہنچایا۔ جس وقت اس ماتم زدہ نے رسمیاتِ سوگواری سے فراغت پائی، مالیت باپ کی سے اوپر مبلغ خطیر و گنج وافر کے قابض و متصرف ہوا اور نہایت خوش حالی و فارغ البالی سے محرمان خلوت سراے وفا و اخلاص کے تئیں بیچ عشرت کدہ اپنے کے جمع کر کے بساط نشاط کی آراستہ کی و دوستان ہم پیالہ و ہم نوالہ نے بیچ بزم مسرت و انبساط کے داد خوش وقتی و خورسندی کی دی۔ اس طور سے ایک مدت فجر سے شام تک استفادہ خدمت بزرگوں کی سے روپوش اور شام سے فجر تک خمار نشۂ اوباشی کے سے مدہوش رہنا، اختیار کر کے دست اسراف بے جا کا اوپر مال مفت کے دراز کیا اور نقد عمر عزیز کے تئیں بیچ قمار بازی لہو و لعب روزگار نا ہنجار کے کھوتا۔ آخرش یہ حالت پہنچی کہ سواے ایک کلاہ اوپر سر کے اور آہ بیچ جگر کے کچھ باقی نہ رہا اور رفیقان جو فروش گندم نما نِرد رفاقت کے تئیں بیچ ششدر بے وفائی کے چھوڑ کر مانند کافور کے غائب ہو گئے۔ پھر ہر چند دست تاسف کا دندان ندامت سے کاٹا اور جتنا کہ خون جگر کا کھایا کچھ فائدہ نہ دیکھا۔ اس وقت میرے تئیں یہ شعر حسب حال اپنے یاد آیا ؎
اس زیست سے بہتر ہے اب موت پہ دل دھریے
جل بجھیے کہیں جاکے یا ڈوب کہیں مریے
کس طور کٹیں راتیں کس طرح سے دن بھریے
کچھ بن نہیں آتا ہے حیران ہوں کیا کریے
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
جو بیچ اس شہر کے بد وضعی میری سے سواے قُرصِ آفتاب کے شکل نان کی دیکھنا ممکن نہ تھا، لاچار برقع بے حیائی کا اوپر چہرے کے ڈال کر بیچ خدمت ہمشیرہ کے کہ بعد وفات قبلہ گاہ کے اس بد بخت نے کبھی استفسار احوال اس کے کا نہ کیا تھا بلکہ پیغام اس کے کا جواب بھی نہ دیتا، افتاں و خیزاں پہنچا۔ وہ مشفقہ مہر پرور دلنواز نے بہ مقتضاے شفقت و عطوفت کے سرور ملاقات میری کے سے مثل گل کے شگفتہ و سرخ رنگ و دریافت احوال سراپا ملال میرے کے سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہوئی اور اس سرگردان دشت کوہ حیرانی کے تئیں بیچ ایک مکان مطبوع و دلکش کے جاے سکونت کی دے کر ملبوسات زیبا و فاخرہ و لوزیات لطیف و بامزہ و اغذیات خوب و خوش ذائقہ کے تئیں لاکے حاضر کیا جو اس بے سر و ساماں کے تئیں عالم تباہی میں بیچ سیر و تماشاے جہاں کے صورت گندم کی سواے گندمی رنگ چہرۂ خوبوں کے اور شکل کنجد کی سواے خال رخسارۂ محبوبوں کے ایک مدت سے نظر نہ پڑی تھی، ایک مرتبہ بہ سبب مہیا ہونے سب اسباب جمعیت کے دوگانہ شکر کا بہ درگاہ حضرت واہب العطایا کے کہ فضل و کرم اس کا مرہم ناسور دل درد مندوں کا ہے، ادا کیا اور چند روز قدم اس آرام گاہ سے باہر نہ دیا۔
رفتہ رفتہ ایک روز اس کان مروت کی نے نزدیک میرے آکے بعد از ذکر اذکار اور طرف کے مصلحتاً فرمایا کہ اے نور باصرہ بصیرت ہمشیرہ کے! اگر چہ ہنوز آتش غم مفارقت کی آب زلال سیری مواصلت تیری کے سے کما حقہ منطفی نہیں ہوئی اور دیکھنا تیرا ہر دم باعث زندگانی اس عاجزہ کا ہے، لیکن مردوں کے تئیں خانہ نشین ہونا سبب پریشانی گوناگوں اور علاوہ اس کے مطعونی خاص و عام کے ہے، خصوصاً بے جہت استقامت اس شہر کے سے خویش و بیگانے مظنّہ اوپر نا خلفی و بے ہنری و دوں ہمتی تیری کے لے جا کے زبان طعنے کی دراز کریں گے۔ اس صورت میں واسطہ خفت و ندامت میری و تیری کا اور بدنامی و گمنامی مادر و پدر کا ہے۔ پس صلاح دولت یہ ہے کہ ارادہ سفر کا اوپر دل اپنے کے مصمم رکھ، ان شاء اللہ تعالیٰ اس وسیلۂ جمیلہ سے یقین ہے کہ شب ظلمات صعوبت خانہ خرابی کی ساتھ صبح نورانی اور شادمانی کے مبدل ہو۔ فقیر نیں در جواب التماس کیا ؎
کہ میرے واسطے خاطر میں جو ترے آوے
وہی ہے خوب مرے حق میں جو تجھے بھاوے
پس اندرون گھر کے جا کر پچاس توڑے اشرفی کے آگے میرے لاکے رکھے اور کہا کہ ایک گروہ تجار کا تہیہ سفر دمشق کا پیش نہاد خاطر کے رکھتا ہے۔ لازم ہے کہ اس زر سے متاع تجارت کی خرید کر کے جماعت تجار سے حوالہ ایک شخص کے کر کے اور دستاویز مکمل اس سے حاصل کر کے تو بھی رہ نورد سر زمین دمشق کا ہو۔بعد از پہنچنے منزل مقصود کے تمام جنس بہ جنس تیرے تئیں پہنچے گی اور ایوان گل ہاے منفعت بے شمار کے بیچ چمن شغل سوداگری تیرے کے بہار افزا ہوں گے۔ بندہ نے ارشاد ہدایت بنیاد اُس مظہر عاطفت و مکرمت کے تئیں ذریعۂ سعادت اپنی کا جان کے بہ موجب استصواب اور استصلاح اُس غمخوار غمگسار کے مال تجارت کا خرید کر کے حوالہ ایک شخص سوداگر کے کیا۔ بعد از روانہ ہونے جہاز تجارت کے چند روز پیچھے بندہ نے بھی تیاری چلنے کی خشکی کی راہ سے کی۔ اس وقت سواے نوازش زر تجارت کے ایک خلعت زری کا کہ ہر تار اس کا خجلت دہ خطوط شعاعی خورشید کا تھا اور ایک گھوڑا باد رفتار برق آہنگ کہ جس کی تیز روی و جلد بازی کے بیان کی سرپٹ سے اشہب تیز گام زبان کا بیچ میدان تقریر کے غلطاں و پیچاں ہے، اہاہاہا کیا گھوڑا!
گاہ آجاوے نظر گاہ نظر سے غائب روبرو سے اگر آئینہ کے اس گلگوں کو اتنے عرصہ میں پھر آتا وہ کہ بے شبہ و شک |
کہ ہوا بیچ وہ شبرنگ ہے جگنو کی چمک پھینکتا چڑھ کے جو میں شرق سے لے غرب تلک عکس بھی آئینے سے ہونے نہ پاتا منفک |
اور ایک توڑا اشرفی کا بہ تقریب زاد راہ کے علاوہ عنایات بے غایات اول کے تواضع کر کے خوشی و خرمیِ تمام سے میرے تئیں رخصت کیا اور فقیر فاتحہ خیر کی پڑھ کے پا در رکاب ہوا اور رہبریِ بدرقۂ فضل الٰہی کے سے شبانہ روز مانند مہر و ماہ کے سریع السیر ہو کے سب رفقاے ہمراہی سے بعد طے مراحل و قطع منازل کے گرد نواح دمشق کے جا پہنچا۔
جب طائر زریں بال آفتاب کے نے رخ بیچ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سیمیں ماہتاب کا بطن مرغِ مشکیں شب تار کے سے نمودار ہوا، مُستحفظان و مُحارِسان شہر کے نے کہ بموجب حکم والی اس دیار کے مامور تھے، دروازہ شہر پناہ کا مسدود کر کے راہ آمد و رفت صادر و وارد کی بند کی۔ ہر چند کہ عاجز نے ساتھ کمال لجاجت و سماجت کے زبان عجز و نیاز کی واسطے درآمد ہونے شہر کے کھولی، اصلاً عرض میری کے تئیں پیرایہ اجابت کا نہ بخشا۔ لاچار بیچ پناہ دیوار کے استقامت کر کے مزاج کے تئیں واسطے شُغل بیداری و شب گزاری کے اوپر تماشہ برج حصار کے کہ رفعت عمارت اس کی ہمسر چرخ بریں کی تھی مصروف کیا۔ جس وقت زلف خاتون شب کی کمر تک پہنچی اور چشم خلایق کی خمار نشۂ غنودگی کے سے سرمست خواب غفلت کے ہوئی، یکایک صندوق چوبیں فراز دیوار حصار کے سے مانند خورشید کے برج حمل کے سے جلا بخش دیدۂ تماشا بیں کا ہوا۔ فقیر واردات اس عجائبات کے سے کمال متعجب ہوا کہ آیا یہ خیال طلسمات کا ہے یا مسبب الاسباب حقیقی نے اوپر بے کسی اس بے کس کے نظر ترحم کی فرما کے، خزانہ غیب کے سے دولت عمر غیر مترقب مرحمت کی اور بعد یک لمحہ کے نشست گاہ سے اٹھ کے صندوق کے تئیں ایک گوشہ میں لے جا کر کھولا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک نازنین پری چہرہ حور لقا خورشید طلعت ماہ سیما بلکہ آفتاب بھی فروغ جمال صبح اس کے سے کباب آتش حسرت کا تھا اور ماہتاب شعشۂ حسن ملیح اس کے سے داغ رشک کا بیچ سینے کے رکھتا تھا، مانند بسملان شمشیر نگاہ محبوبوں کے زخم ہاے کاری سے مجروح و بے خود، درمیان صندوق کے چشم بند کیے ہوئے پڑی تڑپتی ہے اور آہستہ آہستہ زبان نرم بلبل زبان اس کی یوں سخن پرداز ہے کہ اے دوست بے وفا، و اے جو فروش گندم نما، و اے کمبخت جفا کار، و اے بد بخت دل افگار! عوض اس نیکی کا اور تلافی اس مہر ورزی کا یہی تھا کہ تجھ سے ظہور میں آیا ؎
بدلہ ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے قاتل ہماری لاش کو تشہیر ہے ضرور |
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے |
یہ کہہ کے بعد ایک لمحے کے عالم بے ہوشی میں نقاب اوپر چہرے کے کھینچ کر رخ توجہ کا نہ فرمایا۔ فقیر نے ملاحظہ احوال سراپا درد و ملال اس شمس الضحیٰ برج حسن و جمال کے سے نہایت متحیر ہو کے کہا کہ واللہ اعلم کس سنگ دل بے درد نے سنگ بے مہری کا اوپر سینہ کے رکھ کے خنجر ظلم کا اوپر بدن اس گلبدن کے مارا کہ اس پری چہرہ کے تئیں ہنوز شبہ مصاحبت اس کی کا بیچ خیال کے ہے اور یہ شعر بے اختیار اوپر زبان کے گذرا ؎
تڑپتی ہے پڑی بلبل قفس میں
پڑی تھی ہاے کس ظالم کے بس میں
جس وقت کلمات محبت آمیز زبان میری سے بیچ گوش ہوش اس محبوب مرغوب کے پہنچے ایک مرتبہ پردہ اغماز کا دروازہ چشمِ نرگسیں کے سے اٹھا کے میری طرف متوجہ ہوئی۔ سبحان اللہ ؎
برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت کہ بر آیا
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آیا
جب نگاہ اس جادو نگاہ کی ساتھ نگاہ میری کے ہم نگاہ ہوئی، واللہ کہ اپنے تئیں مقدور نگاہ رکھنے کا نہ پایا ؎
نگاہوں سے نگاہیں سامنے ہوتے ہی جب لڑیاں
یکایک کھل گئیں دونوں طرف سے دل کی گل چھڑیاں
لیکن از بس کہ تاب جمال اس کے کی نہ لایا، مانند اس مجروح دل خستہ کے زخم تیغ چشم اس کی سے بے حس و حرکت ہوا۔ بعد ایک لمحہ کے دماغ کے تئیں نسیم ورق گلاب رخسارہ اس گلستان خوبروی کے سے معطر کر کے کہا کہ اے نو بہارستان ملاحت کی! سچ کہہ کہ توں سرو خراماں کس چمن کی ہے۔ و اے روشن چراغ شبستان نزاکت کی! توں شمع شب افروز کس انجمن کی ہے۔ باعث اس واردات کا کیا ہے اور قصہ سرگذشت تیری کا کیوں کر ہے۔ جو وہ نازنین شدتِ درد جراحت ہاے کاری کے سے تاب گفتگو کی نہ رکھتی تھی، نہایت آہستگی سے پستہ دہان کے تئیں شیریں زبانی سے شکر آمیز کر کے بولی ؎
یا چشم تر ہوں یا رگِ تاک بریدہ ہوں گریاں بشکل شیشہ و خنداں بطرزِ جام |
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں اس میکدے کے بیچ عبث آفریدہ ہوں |
اے عزیز! از بس بے طاقتی سے اس مجروح بے طاقت کے تئیں طاقت گزارش احوال پُر ملال کی نہیں۔ اغلب کہ کوئی لمحہ میں طائر روح کا قفس تن کے سے بلند پرواز عالمِ فنا کا ہو۔ اگر تو بہ مقتضاے حمیت و جواں مردی کے مزاج اپنے کے تئیں اوپر استفسار بے فائدہ حال تباہ میرے کے تئیں مصروف نہ کر کے اور براے اللہ اس برگشتہ طالع کے تئیں بیچ ایک گوشۂ صحرا کے مدفون کرے تو باعثِ نجات اس تیرہ بخت کا ملامت زبانِ خلایق کے سے کہ فی الحقیقت سواد الوجہ فی الدارین کا ہے ہووے اور اقدام اس امر خیر کے سے توں بھی داخل ثوابِ عظیم کے ہو کر جزا اس نیکی کمال کی بارگاہِ کبریاے حضرت عالم السّر و الخفیات کے سے حاصل کرے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوئی۔ جو وقت شب کے عالم بے کسی میں کچھ چارہ نہ تھا لاچار صندوق کے تئیں خواب گاہ اپنی پر اٹھا لا کے بے اختیار روتا تھا اور پڑھتا تھا ؎
شبِ غربت میں یارو گریہ و زاری ہے اور میں ہوں
جھپکتی ایک پل نئیں آنکھ، بیداری ہے اور میں ہوں
غرض تمام شب گریہ و زاری و ستارہ شماری سے بسر لے جا کے اس فکر میں تھا، الٰہی کب مرغِ صبح خیز شمس کا بیچ قفس مشرق کے منقار شعاع کے سے صدا روشنی کی بلند کرے گا اور کب عابدِ شب زندہ دار ماہ کا تسبیح ستاروں کے تئیں بیچ سجادۂ سپہر کے رکھ کے متوجہ آرام گاہ مغرب کے ہوگا کہ میں داخل شہر کے ہو کر تدبیر معالجہ کی کروں۔ اس عرصہ میں شاہ زرّیں کلاہ خورشید کا اوپر تخت زمردیں افلاک کے جلوہ آرا ہو کے تجلی بخش سیاحت سرزمین دمشق کا ہوا۔ بندہ نے اس وقت قید انتظار کی سی مخلصی پا کر دوگانہ شکرانہ کا بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے ادا کیا اور صندوق کے تئیں درمیان خورجین گھوڑے کے کس کے داخل شہر کے ہوا اور ہر ایک متنفس سے مستفسر و متلاشی مکان کرایے کا تھا۔ آخرش بعد تفحّص و تجسسِ بسیار کے ایک حویلی خوش تعمیر و خوش اسلوب کہ جس کے دیکھتے ہی غنچہ دل کا کھل جاوے، کرایہ لے کر اس ماہ جبیں کے تئیں درمیان کنج خانہ کے مکان محفوظ میں مانند حرف یاد الٰہی کے بیچ نقطہ سُویداے دل واصلان درگاہِ کبریائی کے اوپر بچھونے نرم کے کہ ملائم تر رخسار سیمیں عذاران کے سے تھا، چھوڑا و معتمدان ہمراہی کے تئیں بیچ خدمتگاری اس نازنین کے تعین کر کے آپ واسطے تحقیقات مکان جرّاح کے حویلی سے باہر آیا۔ چنانچہ زبانی ایک شخص کے معلوم ہوا کہ عیسیٰ نامی ایک جراح بہ کمال کسب طبابت و جراحی کے، کہ اگر مردے کے تئیں بھی چاہے تو عنایتِ الٰہی سے زندہ کرے، فلانے محلہ میں رہتا ہے۔ فقیر اس گلبانگ بشارت اندوز سے بسان گل کے شگفتہ و خنداں ہو کر پوچھتے پوچھتے اوپر دروازہ جراح کے کہ مثل دل بیدار دلوں کے کشادہ تھا، جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ وہ متبرک ذات خضر صفات بیچ دہلیز گھر کے رونق افزا ہے۔ فقیر نے مصلحتاً بعد آداب سلام کے التماس کیا کہ اے مرد نیک سیرت، خجستہ طلعت! یہ غریب مسافت بعید سے معشوقہ اپنی کو کہ مدار زندگی میری کا اوپر مشاہدۂ جمال مہرِ تمثال اس کے ہے، ساتھ لیے بہ تہیہ روزگار تجارت پیشگی کے اس طرف کو آتا تھا۔ جب بہ فاصلہ ایک فرسخ اس طرف شہر کے پہنچا، عروس شفق کی نیں کاکل مشکیں شام کی اوپر چہرے کے کھینچی جو اپنے تئیں ملک بیگانہ میں اصلاً منزل شناسی کی اطلاع نہ تھی، لاچار وقت شب کے حرکت کرنا اس جگہ سے امرِ محال جان کے وہیں زیرِ سایہ درخت کے استقامت کی۔ قضایا وقت نصف شب کے ایک گروہ رہزنوں کا مستعد و مسلّح اوپر سر میرے کے آ ٹوٹا اور جو کچھ مال متاع بیچ بساط جمعیت میری کے تھا بالکل لوٹ لیا، علاوہ اس کے اس گل اندام عطر بخش مشام زندگانی اس ناتواں کے تئیں بہ طمع زیور کے جراحت ہاے کاری سے رشک تختۂ شقائق کا کیا۔ جو مرضی الٰہی سے کچھ چارہ نہیں، باقی شب اللہ اللہ کر کے بسر لے گیا۔ علی الصباح داخل شہر کے ہو کے ایک حویلی کرایے کی میں اس آرام خاطر کے تئیں چھوڑ کر رہبری طالع سعید کے سے مستفید خدمت فیض موہبت تیری کا ہوا ہوں۔ جو حکیم علی الاطلاق نے تیرے تئیں داد رس ملہوفان خدنگِ بلا کا کیا ہے، بہ مقتضاے غریب پروری و عاجز نوازی کے اگر کلبۂ احزاں میرے کے تئیں قدوم میمنت لزوم اپنے سے منور کرے، بندۂ بے درم خریدہ ہوتا ہوں۔ بارے جراح نے اوپر حال تباہ میرے کے نظر ترحم کی فرما کے غریب خانے تک قدم رنجہ فرمایا و بعد ملاحظہ زخموں کے نہایت دلنوازی سے اوپر درد سر میرے کے صندل تشفّی کا لیپ کے کہا کہ اگر فضلِ الٰہی شامل حال فرخندہ مآل اس پری تمثال کے ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ چالیس روز کے عرصہ میں غسل شفا کا کراتا ہوں و صحتِ کامل نصیب اس عنصر لطیف کے ہوتی ہے۔ غرض اس مرد نیک ذات، خضر صفات نے بعد از کلمات مہر انگیز کے یراق اپنے سے ایک ڈبیا مرہم کافوری کی، کہ فی الحقیقت بیچ حق اس سکندر طالع کے آب حیات تھی، نکال کے پھایے اس کے جا بہ جا اوپر زخم ہاے کاری کے لگائے اور بہ مقتضاے کمال مہرورزی و دلنوازی کے اقرار خبر گیری دو وقتہ کا کر کے سوال رخصت کا کیا۔ جو میرے تئیں تشریف فرما ہونا اس مرد بزرگ کا باعث جہاں جہاں نشاط اور سبب عالم عالم انبساط کا تھا، جان و مال سے بیچ خدمت اس پیر مرد کے رسمِ تعظیم و تواضع کی بجا لا کے مُرخص کیا۔ بارے چند روز میں توجّہات باطنی سے جراح نے ایفا وعدہ کر کے اس قمر طلعت کے تئیں غسل شفا کا کرایا۔ میں نے اس وقت خوش وقتی اس معراج طالع اپنے کے تئیں تسخیر ہفت اقلیم کے سے نسبت دینا غلط فہمی ابناے روزگار کی جان کے دوگانہ شکرانے کا بیچ بارگاہ شافی مطلق کے ادا کیا اور اس سیمیں بدن کے تئیں فرش قالین و قاقُم کا بچھا کے اوپر مسند جاہ و حشمت کے رونق افروز کر کے جو کچھ نقد و جنس سے بیچ بساط جمعیت کے موجود رکھتا تھا نثار اُس گل عذار کے کیا اور اپنے تئیں مانند عندلیب شیدا کے اس نرگسیں چشم پر جان و مال سے فدا کر کے بندگی اس کی کے تئیں افتخار کونین کا جانا۔ سبحان اللہ! جب خورشید جمال اس مہر تمثال کا کُسوف رنج و ملال جراحت ہاے مالا مال سے نکل کے اوپر مطلع صباحت و وجاہت کے درخشاں ہوا، بے شائبہ تکلف آفتاب تاباں مانند مہتاب کے تاب حسن اس کے کی نہ لا کے تاب سے بے تاب ہوا۔
حسن ایسا کہ جگر ماہ کا ہو جاوے داغ رنگ سے چہرہ کے شرمندہ ہو کندن کی دمک قامت ایسا ہے کہ ہنگامِ خرام اس کے اگر رزق و برق ایسی ہے پوشاک میں اس کی کہ جسے جیسی ہو سج سے گلے بیچ حمائل گُل کی غرض اس شکل سے آئے جو نظر وہ یارو |
اس کی تشبیہ سے جب اس کو تجاوز دے فلک آگے غبغب کے خجالت زدہ سونے کی ڈھلک آگے آ جاوے قیامت تو یہ بولے کہ سَرک کوند بجلی کی کہوں یا کہوں شعلے کی جھلک ویسی ہی عطر کی بو، وِتنی ہی سوندھی کی مہک کہا میں دل کے تئیں دیکھ کے، اللہ مَعَک |
قصہ مختصر، یہ فقیر بہ مقتضاے محبت عاشقانہ کے شبانہ روز کمر اطاعت کی بیچ خدمت اس زیبا طلعت کے محکم باندھ کے حاضر و مستعد رہتا لیکن وہ از بسکہ غرور حسن و ریاست کا بیچ دماغ کے رکھتی تھی، میری طرف بہ نظر الفت شاہدانہ کے رخ توجہ کا نہ فرماتی اور اکثر اظہار کرتی کہ اگر تیرے تئیں دلداری ہماری منظور ہے، زینہار بیچ حرکات و سکنات ہمارے کے دخل تفتیش کا نہ کرنا۔ خبر شرط ہے۔ مگر پاس مرّوت دلنوازی کا بیچ تلافی حقوق خدمت گزاری کے البتہ ملحوظ خاطر رکھتی۔ چنانچہ فقیر بھی اِسترضاے اس کی سے سر مو تجاوز نہ کرتا بلکہ اتنی بھی مہر ورزی کے تئیں محض یاوری بخت اپنے کی جانتا اور ایک مدت تک فرمائش اس کی کے تئیں بسر و چشم بجا لاتا۔ آخرش نقل مشہور ہے “زرکار کُند و مرد لاف زند”۔ جو یہ عاجز اثاث البیت سے تا متاع و اِنتِفاع جہاز تجارت تک جو کچھ بیچ قبضہ اختیار اپنے کے رکھتا تھا، نثار اس مایۂ ناز کے کر چکا اور ملک بیگانہ میں کوئی تفَقُّد طراز احوال بے حال اپنے کا نہ دیکھا، اس سبب سے بہ مضمون اس کے کہ بے زر بے پر، طاقت توانائی میری کے طاق اور خواب بیچ چشم میری کے خواب ہوئی اور چہرہ میرا کہ عکس پذیراے شعاع مِہر لقا اور نور الٰہی کے سے مانند بدرِ منیر کے تاباں ہوا تھا، جان کاہی فکرِ اخراجات لابدی کے سے مثل ہلال کے حقیر ہوا۔ رفتہ رفتہ ایک روز اس داناے عصر نے ذکاے طبیعت کے سے ماہیت احوال میری کی دریافت کر کے کہا کہ اے عزیز! حقوق خدمت گزاری تیری کا بیچ خدمت ہماری کے اس قدر ثابت ہے کہ تلافی اس کی سے عہدہ بر آ ہونا ممکن نہیں لیکن واسطے اخراجات ضروری کے غبار تردد اوپر اندیشے کا بیچ دامنِ طبیعت کے نہ جھاڑ، بفضل الٰہی سب آسان ہووے گا۔ پر ایک پرچہ کاغذ کا اور روشنائی و قلم حاضر کر۔ بندہ نے اُس وقت عقل سے معلوم کیا کہ شاید کسی ملک کی بادشاہزادی ہے کہ اس دماغ سے باتیں کرتی ہے اور بہ موجب حکم کے سامان لکھنے کا حاضر کیا۔ چنانچہ اُس نازنیں نے ایک رقعہ بقلم اعجاز رقم کے کہ اگر پیر عطارد، جو دبیر فلک کا کہلاتا ہے، قطع نظر تمام ملاحظۂ خط مشکیں اور عبارت رنگیں اُس کی سے اگر صرف ایک الف پیشانی اُس کے کا کہ بجاے بسم اللہ کے لکھتے ہیں، دیکھے تو محنت سیاہہ نویسی دفتر روزگار کے سے کہ پُشتِ دوتا اور نہایت ضعیف ہو کر دل تپاں ہے، کمال خوش وقتی سے عصاے پیری اپنے کا جان کے قوت نوجوانی کی حاصل کرے، لکھ کر حوالے میرے کیا اور فرمایا: نزدیک تِرپولیہ قلعہ کے فلانے کوچے میں ایک عمارت عظیم الشان واقع ہے اور مالک اُس کا شیدی بہار نامی ایک شخص ہے، تو جا کر اس رقعہ کے تئیں اُس مکان کے مالک کو دے۔
فقیر حسب الارشاد رخصت ہو کے رقعہ کے تئیں لے کر اوپر منزل مقصود کے جا پہنچا اور زبانی ایک دربان کے حقیقت ابلاغ حکم کی کر بھیجی۔ بہ مجرد سُننے اس بات کے ایک حبشی نوجوان سبز رنگ نہایت وجاہت اور صباحت میں ممتاز ایک پھیٹا بسنتی سجے ہوئے حویلی سے برآمد ہوا، اللہ اللہ ؎
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں کہ سیر کروں کوہِ طور کا
پڑھیے درود حُسن صبیح و ملیح دیکھ
جلوہ ہر ایک پر ہے محمد کے نور کا
پس ملاحت اُس حُسن ملیح کی اور پھبن بسنتی پھیٹے کی بھی خاطر سے فراموش نہیں ہوتی۔ جیسا ہی سبز رنگ چہرہ کا تھا ویسا ہی سبز رنگ پھیٹے کا، گویا عالم اس شعر کا اُس پر ختم ہے ؎
حُسن سبزے بخط سبز مرا کرد اسیر
دام ہمرنگ زمیں بود گرفتار شدم
نکلتے ہی دروازے سے بے حرف و حکایت پھر اندرون محل سرا کے جا کے بعد ایک ساعت کے گیارہ کشتی سر بہ مہر زر بفت کی، تورہ پوشوں سے چھپی ہوئیں، غلامان غِلمان سرِشت کے سر پر لے کے باہر آیا اور کہا کہ ہمراہ اس جوان کے جا کے کشتیوں کے تئیں پہنچا۔ بارے میں اُس اسم بامسمی سے رخصت ہو کر بیچ خدمت اُس بدیع الجمال کے پہنچا اور غلاموں کے تئیں دروازہ سے رخصت کر کے کشتیاں سر بہ مہر بیچ نظر مبارک ملکہ ماہ سیما کے گزرانیاں۔ بعد ملاحظہ کے میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ بِالفعل گیارہ توڑے اشرفیوں کے لے اور سر انجام ضروریات سے جو کچھ کہ چاہے اسباب درست کر، آگے خدا رزاق مطلق ہے بقول اس کبت کے:
جب دانت نہ تھے تب دودھ دیو، جب دانت دیے، کا انّ نہ دیہے
جو جل میں تھل میں پنچھی پُش کی سُدھ لیت، سو تیری ہو لیہے
کاہے کو سوچ کرے من مورکھ، سوچ کرے کچھ ہاتھ نہ ایہے
جان کو دیت، اجان کو دیت، جہان کو دیت، سو تو ہو کو دیہے
اور مرزا عبد القادر بیدلؔ فرماتے ہیں ؎
چِرا خود را اسیر غم ز فکر بیش و کم داری
کہ نہ گذارد ترا محتاج ایزد تا کہ دم داری
مشو بے دست و پا از مفلسی و بے کسی ہرگز
مگر نشنیدۂ بیدلؔ خدا داری چہ غم داری
بارے فقیر نیں حسب الارشاد اس خجستہ طالع کے زر کے تئیں لے کے رفع احتیاج ضروری کا کیا اور مرض محتاجگی کے سے کہ بے ہوش اور بدحواس تھا، فی الجملہ اِفاقت میں آیا لیکن یہ عُقدہ بیچ خاطر میری کے گِرہ ہوا اور معمہ اس بات کا بیچ دل میرے کے لاحل رہا کہ بارے یہ کیا خیال تھا کہ بہ مجرد دیکھنے پرچۂ کاغذ کے ایک شخص نا آشنا صورت نیں بے حرف و حکایت مبلغ خطیر حوالے میرے کیے۔ پر اس نازنیں نیں جو میرے تئیں روز اول تفحص اور تجسس حرکات و سکنات اپنی کے سے منع کیا تھا، اس باعث سے مجال دم مارنے کی نہ تھی۔ رفتہ رفتہ بعد ایک ہفتہ کے اُس پری چہرہ نیں میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ حق سبحانہ تعالیٰ نیں جس بشر کے قامت رعنا پر خلعت انسانیت اور مروت کا آراستہ کیا ہے، اُس کے تئیں لباس کہنہ سے حرف اوپر شخصیت کے نہیں لیکن بہ نظر ظاہر پرستی کے معیوب ہے۔ پس توں دو توڑے اشرفیوں کے ہمراہ لے کے درمیان چار سوے بازار کے بیچ دوکان یوسف نامی ایک سوداگر بچہ کے جا اور قدرے جواہر گِراں بہا اور دو خلعتِ فاخرہ و زیبا خرید کر کے لا۔ یہ عاجز بہ موجب ارشاد اُس زلیخاے مصر نزاکت اور لطافت کے سوار ہو کر بیچ چار سوے بازار کے اوپر دوکان سوداگر بچہ کے جا پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک نوجوان فرشتہ طلعت خورشید لقا کہ ایک عالم گرد اس ماہ تاباں کے بسان ہالہ کے حلقہ مار کے مستعد ہے کہ بیچ چاہ زنخداں اُس کی کے ڈوب مرے، لباس زعفرانی پہنے ہوئے اوپر مسند خوبروئی کے جلوہ افروز ہے، واقعی ؎
ہے جھوٹ کہ حُسن کا تھا بانی یوسف
رکھتا تھا کہاں یہ نوجوانی یوسف
یہ کہنے کی باتیں ہیں کہ یوں تھا ووں تھا
شاید کہ نہ ہوگا اُس کا ثانی یوسف
قصہ مختصر یہ عاجز دیوانگیِ شوق دیدار اُس کی سے مانند مجذوبوں کے نزدیک جا کر رسم صاحب سلامت کی بجا لایا اور اوپر حسن خداداد اُس کے ہزارہا تحسین و آفریں کر کے بعد اختلاط و گرمیِ صحبت کے سامان مطلوبہ درخواست کیا، جو فحواے کلام میرے کے تئیں اصلاً زبان دمشق کی سے کچھ مناسبت نہ تھی۔ اُس جوان خوش طبیعت زیبا طلعت نے بھی خیال اپنا اوپر گفتگوے دلچسپ میری کے مصروف کر کے کہا کہ آنچہ در بغداد است گرد سر خلیفہ۔ لیکن جب سر رشتۂ محبت اور مودت جانبین کے نے اِنضباط و اِستحکام تمام پایا پھر اِخفاے راز و نیاز طرفین کا بعید شرط اخلاص کے سے ہے۔ پس مولد و موطِن شریف سے اس مخلص یک رنگ کے تئیں مطلع کرنا از جملہ واجبات ہے اور اطلاع سبب استقامت ملک بیگانہ کے بھی بہ مقتضاے یک جہتی کے ضرور۔ جو میرے تئیں نشو و نما کرنا اپنا بیچ اُس شہر کے منظور نہ تھا اور اس وقت کی راست گوئی کے تئیں صرف وبال گردن کا جانا، اس واسطے بقول کلام بزرگوں کے کہ دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز، نظر بہ اصلاح وقت کے جو کچھ مناسب جانا اظہار کیا اور بعد حصول مطالب کے سوال رخصت کا درپیش لایا۔ نوجوان از بس کہ سلیقہ دل پر چاونی کا زیادہ رکھتا تھا، روکھا ہو کے بولا کہ اے عزیز! اگر تیرے تئیں پیچھے سے چراغ محبت کا آستین بے وفائی کی سے گُل کرنا تھا، بس کیا ضرور تھا کہ تو اول بڑی گرمی سے رسم صاحب سلامت کی بجا لایا، خیر۔ بیت
جو ایسا جاؤں جاؤں کرتے ہو تو سدھارو
اس دل پہ کل جو ہوئے، سو آج ہی وہ ہو لے
میرے تئیں ایک ادا سے اس بات کا ادا کرناں اُس کا نپٹ ہی دل کوں بھایا اور انسانیت میری مقتضی اس حرکت کی نہ ہوئی کہ یک مرتبہ چشمِ مروت کی بند کر بے رضاے خاطر اُس کی اُٹھ کھڑا ہوں، پاس خاطر اُس کے ایک دم اور بھی ٹھہر کے یہ شعر زبان پر لایا:
یہ جو کہتے ہو قدم چھوڑ کہاں جاؤں گا
تجھ سا میں یار وفادار کہاں پاؤں گا
بارے اتنی بات سے اُن نے بھی ہنس دیا اور کہا کہ اگر آج بیچ مہماں سراے میری کے قدم رنجہ فرمائیے تو بزم نشاط کی آراستہ کر کے چند ساعت سرور خاطر سے گزرانوں اور لوازم اکل و شُرب کا ترتیب دے کے فیض نعمت صحبت تیری کے سے بہرہ عشرت کا حاصل کروں۔ اس عاجز نیں بہ خیال تنہائی اُس نازنین کے ہر چند کہ عذر اقبال ضیافت کا چاہا قبول نہ کیا اور جتنی کہ معذرت کی، مبالغہ اُس کا کم نہ ہوا۔ لاچار بہ وعدہ پہنچا آنے جواہر کے اقرار حاضر ہونے کا بیچ مہماں سراے اُس یگانۂ زمانہ کے کر کے دوکان سے اُٹھ کر جواہر کے تئیں بیچ خدمت ملکہ خورشید لقا کے لایا۔ جس وقت ملکہ نیں حقیقت قیمت جواہر کی اور وضع اور عادت جوہری کی استفسار کی، قصہ سرگذشت اپنی کا سر نو سے التماس کیا۔ فرمایا کہ اے جواں مرد! آدمی کے تئیں ایفاے وعدہ کا نہایت ضرور ہے، پس توں میرے تئیں حافظ حقیقی کوں سپرد کر کے الکریم اِذا وعد وفا کوں کام فرما اور جوہری کے ڈیرے جا کر اجابت دعوت کی کر کہ سنت نبوی ہے۔ حالانکہ جدائی اُس پری پیکر کی ایک لمحہ میرے تئیں برابر ہزار سال کے تھی اور تقاضا ادب کا بھی نہیں کہ تنہا چھوڑ کر چلا جاؤں لیکن بحکم الامر فوق الادب کے چار و ناچار اوپر دوکان جواہر فروش کے کہ چشم انتظار کی بیچ رہ گذر میری کے دو چار رکھتا تھا، جا کر وعدے کوں وفا کیا۔ وہ جوان رعنا نہایت تپاک سے ہم دست ہو کے میرے تئیں اُس مکان سے اُٹھا کر بیچ ایک باغ کے کہ طراوت و نزاہت میں روضۂ رضواں سے دلکشا تھا اور گلزار ہمیشہ بہار اُس کی نظارت ریاض جنت کی سے فرح افزا تھی لے گیا اور لباس زیبا اوپر قامت اپنی کے راست کر کے بعد ایک ساعت کے زینت آراے مجلس کا ہوا۔ واقعی اُس پوشاک نے کیا ہی اُس قامتِ زیبا پر بہار زیبائش کی دی تھی کہ یہ شعر بے اختیار زبان پر گذرا ؎
سودا یوسف کا زلیخا ہی تلک ہو گذرا
پھرتے ہیں سر کو لیے تیرے خریدار کئی
اس بات کو سُنتے ہی اور بھی خوش ہو کر بولا کہ صلاح یہ ہے کہ آپ بھی تبدیل لباس کا کر کے رونق افروز مجلس کے ہوں۔ چنانچہ فقیر واسطے دلداری کے یوں ہی عمل میں لایا۔ غرض کہ اُس عزیز نے نہایت تکلف سے مجلس ضیافت کی آراستہ کی اور اسباب عیش و طرب کا جیسا چاہیے تیار کیا۔ کبھی نُکتہ ہاے شیریں سے بیچ گوش سامعانِ مجلس انبساط کے موتی لذت کے پروتا اور کبھی لطیفہ ہاے رنگیں سے غنچۂ خاطر حاضرانِ مجلس نشاط کے تئیں شگفتگی عشرت کی دیتا۔ جب کاسہ دماغ کا شراب خرّمی کے سے لبریز ہوا اُس وقت چار امرد سادہ رو غلمان سرِشت مانند ماہِ شب چہاردہم کے زلفِ مسلسل اوپر رخسارے کے مثل سنبل کے گُلِ یاسمیں پر پیچیدہ کیے زینت بخش محفل کے ہوئے اور ساز خوش آواز چھیڑ کر کے ایسی خوش الحانی سے نغمۂ تہنیت آمیز شروع کیا کہ ایک مرتبہ اُس کے سننے سے داؤد بھی وجد میں آ جاوے اور جو آواز اُس کی بیچ سر زمین ہند کے پہنچے تو بے شائبۂ تکلف اودھو نائک اور تان سین سبق تربیت کا بیچ دبستانِ شوق کے پڑھیں۔ اس عرصہ میں اُس جوان نے دو چار اشک کے قطرے دیدۂ پُر آب سے نکال کر میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ راز پنہانی دوستان جانی سے چھپانا کسی مشرب میں شایان یک جہتی کے نہیں، اِس واسطے بے تکلفانہ اظہار کرتا ہوں کہ اگر اجازت ہو تو معشوقہ اپنی کے تئیں بھی بیچ اس مجلس کے بُلوا کر تسکین دل بے تاب کی کروں کہ اُس کے فراق میں ایک بند مخمس کا حسب حال میرے بے اختیار زبان پر گذرتا ہے ؎
نہ مجھ کو شرم عالم کی، نہ ننگ و نام کی خواہش نہ مجھ کو مے خوش آتی ہے، نہ مجھ کو جام کی خواہش |
نہ دن کو چین ڈھونڈوں ہوں، نہ شب آرام کی خواہش پر اک رہتی ہے مجھ کو ساقیِ گلفام کی خواہش |
جو آ جاوے تو جی جانا، جو اُٹھ جاوے تو مر جانا
میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے نہایت شوق دیکھنے کا زیادہ ہوا اور اُس جوان سے کہا کہ واہ واہ اس سے کیا بہتر ہے ؎
گر مری آنکھوں پہ رکھ دیوے قدم وہ نازنیں
خارِ ہر مژگاں مرا ہووے ابھی رشکِ چمن
بہ کشادہ پیشانی بُلوائیے اور چشم منتظر مشتاقوں کے تئیں جمال فرحت آثار اُس کے سے منور کیجیے۔ بارے اس جوان نیں اشارہ درِ پردہ کے کیا۔ بعد ایک ساعت کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک رنڈی کریہ منظر بد ہیئت کہ جس کے دیکھتے روح بیچ قالب کے جذب ہو جائے، چڑیل کے سے ہاتھ پاؤں لے کے برابر اس جوان کے آ بیٹھی ؎
بس اُسے دیکھتے ہی ہوش مرا بھول گیا
باغِ مجلس میں کوئی اور ہی گل پھول گیا
میں اس واردات سے اپنے دل میں بہت محظوظ ہوا کہ الٰہی وہ یہی محبوب دل پسند اُس کی ہے کہ جس کی تعریف اس مبالغہ سے تھی۔ پھر جو سوچا تو یہی ہے گوشت خر و دندانِ سگ۔
مُقصر یہ کہ تین روز کامل ہنگامہ بزم ناے و نوش کا گرم رہا اور فقیر بیچ خواب غفلت کے بد مست و مدہوش ہو کے کچھ خبر آپ سے نہ رکھتا تھا۔ روز چہارم جب کیخسرو سیمیں بخت ماہ کا بیچ شبستان مغرب کے گیا اور شہسوار زریں لباس آفتاب کے نے بیچ میدان اُفق کے قصد ترک تازی کا کیا، جوان نے گراں خواب بے ہوشی سے میرے تئیں بیدار کیا اور صداے نوشا نوش کی گرم کر کے مشغول عیش و طرب کا ہوا۔ ایک لمحہ پیچھے معشوقہ پسندیدہ اپنی سے کہا کہ اس سے زیادہ تکلیف ضیافت کی دینا بعید رسم مہمان داری کی سے ہے۔ پس اب تخفیف تصدیعہ مہمان عزیز کے سے راضی ہونا شرط دلداری و میزبانی کی ہے۔ آخرش دونوں ہم دست مجلس سے بر آئے اور میں اجازت و دستوری اُس جوان سے لے کر سبک دوش اُٹھا اور جلدی پوشاک قدیم اپنی پہن کر روانہ غریب خانے کا ہوا۔ جو ابتدا سے کبھی اتفاق جدا رہنے کا اُس ملکۂ جادو ادا سے نہ ہوا تھا اس سبب سے خجالت زدہ و محجوب ہو کر زبان معذرت کی بیچ خدمت اُس شیریں دہن کے کھولی اور قصہ ضیافت کا مفصل نقل کیا۔ بفضل الٰہی وہ کہ داناے عصر تھی، میرے تئیں نہایت دلداری سے فرمایا: اگر دوتین روز مہمان خانہ میں اتفاق رہنے کا ہوا، کچھ مضائقہ نہیں کہ مشہور ہے رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت۔ توں گرد اِنفعال بے جا کی چہرہ حال کے سے جھاڑ کر ہرگز تشویشِ خاطر کے نہ لا لیکن تیرے تئیں بھی اسباب ضیافت اُس کے کا ترتیب دینا از جملہ واجبات ہے، پر عدم سر انجام ضروری سے کچھ فکر اندیشہ نہ کر۔ بس یہی کہ جوان مرد جواہر فروش کے تئیں اپنے ساتھ لے آوے اور یہاں خدا کے فضل سے ایک دم میں سب لوازمہ ضیافت کا آئین شائستہ سے زیب ترتیب کی پاوے گا۔ فقیر نے بہ موجب امر کے اُسی وقت جواہر فروش سے جا کے کہا کہ جو یہ عاجز فرمانے تیرے کے تئیں بسر و چشم بجا لایا، پس بہ مقتضاے مہر و محبت کے اگر توں بھی نور قدوم بَہجت لزوم اپنے کے سے شبستان آرزوے مشتاق کے تئیں منور کرے، گنجائش رکھتا ہے۔ غرض کہ اُس کے تئیں نہایت مبالغہ سے ہمراہ لے کر ڈیرے کو آتا تھا اور بے مائیگی اپنی سے یہ خیال جی میں لاتا تھا ؎
مفلسی سب وقار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
اگر آج میرے تئیں مقدور ہوتا تو سرانجام دعوت کا اس سے بہتر تیار کرتا اور اب جو بے اختیاری سے اُس کو لے کر مکان میں جاتا ہوں خدا جانے کہ کیا اتفاق در پیش آوے اس خیال میں مضطر و متفکر چلا جاتا تھا۔
جب مسافر جہاں پیماے آفتاب کا قطع مسافت گیتی کا کر کے بیچ منزل گاہ مغرب کے پہنچا، آخر روز نزدیک غریب خانے کے آ کر ایک مرتبہ دیکھتا کیا ہوں کہ کوچہ حویلی کا از بس آرائش لوازم ضیافت کے سے رشک افزاے گلستان فردوس کا ہو رہا ہے اور میدان جلو خانے کا جاروب کشی کی رخت و روب سے خجلت دہ صفاے رخساره محبوبوں کا ہو گیا۔ فقیر نے اس واردات سے مانند آئینہ کے پشت اوپر دیوار حیرت کے رکھ کے غور کیا کہ یا رب! یہ عالم طلسم کا ہے یا خواب و خیال ہے یا غلطی سے راہ گھر کی فراموش کر کے والیِ شہر کی دولت سرا پر پہنچا ہوں کہ اس مرتبہ انبوه مردم کا صف بہ صف مستعد تیاری جشن شاہانہ کے ہے۔ آخرش آثارِ علامات سے نشان گھر کا معلوم کر کے اندرون دروازہ کے داخل ہوا تو کیا نظر پڑتا ہے کہ آب پاشی صحن دیوان خانہ کی نے ترشح شبنم گلزار کے تئیں بے آب کر رکھا ہے اور شفافی فرش چاندنی کی نیں رنگ چہرہ چاندنی کے تئیں سفید کر دیا ہے ایک طرف جماعت مُخَدَّرات چراغاں کی بیچ نقاب ٹٹی ابرق کے نور افزاے دیدۂ نظارگیوں کی ہو رہی ہے اور ایک طرف نو عروسان شمع کے بیچ چھیپان فانوسوں کے جلوہ آرا ہو کر فروغ بخش چشم مشتاقوں کی ہوتے ہیں ؎
زبس کیا ہے مرصع اسے جواہر سے ہر ایک حلقۂ زنجیر سقف میں اُس کے بیاں میں کیا کروں اس لطف کے تئیں جیسے |
ہے کان لعل سے خالی گہر ستی دریا عجب ہی لطف سے ہر قمقے کو نصب کیا بندھا ہے زلف میں معشوق کے دل عاشق کا |
کہیں صدا تان ترنگ کی و آواز ترانۂ موزوں رباب و آہنگ و سَرناے گلو مطربان خوش نوا نغمہ سنج کے سے بہ نحو حالت در مست و دیوار مست کے بندھ رہی ہے اور کہیں ساقیان خوش لقا جادو ادا با زلف دل آویز و تبسم شکر ریز کے مے گلگلوں کے شیشہ سے جام مرصع پُر کر کے مشغول مراسم تواضع و لوازم مہمانداری کے تھے۔ کوئی حُسنِ نمکین سے نمک دانِ گزک بیچ ہاتھ نازنین کے لے کر نمک شوق کا اوپر کباب دل سوختگان محبت کے چھڑکتا اور کوئی غبغب شیریں سے شیریں نُقل ہاے میوہ کے بیچ خوانچہ سیمیں کے رکھ کے ذائقہ شکر خواران عالم مَودت کے تئیں حلاوت لذت کی دیتا۔ بارے مہمان کے تئیں اوپر صدر مجلس کے بٹھایا اور اسباب لوازم ضیافت کا بیچ خدمت اُس کی رجوع کر کے آپ واسطے تلاش ملکۂ نازنیں اپنی کے اُٹھا۔ تماشا یہ کہ جہاں دیکھتا ہوں اصلاً نشان اُس کے سے سُراغ نہیں۔ رفتہ رفتہ متصل مطبخ کے پہنچا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ پری پیکر بیچ کُنج ایک مکان کے چادر سفید سر پر کھینچے ہووے محنت تیاری سامان دعوت کے سے عرق عرق اور تر بہ تر ہے۔ اُس وقت کے پسینہ کی بہار میں دو شعر بے اختیار زبان پر گذرے ؎
عرق گرتا ہے تیری زلف سے اور دل سہمتا ہے
شب تاریک ہے اور ٹوٹتے ہیں دم بہ دم تارے
اور ایک یہ عرض کرتا ہوں ؎
عرق ہے مکھ پہ ترے یا گلاب ٹپکے ہے
عجب ہے مجھ کو کہ شعلہ سے آب ٹپکے ہے
اور روبرو آ کے پیشانی اُس کے کے تئیں بوسہ دیا اور قربان ہو کر اوپر متانتِ راے و رِزانتِ فکر و جوہرِ فطرت و سلیقۂ قابلیت اس کے ہزار تحسین و آفرین کر کے کہا ؎
کیوں نہ ہو ناز زمانے کو تری ذات سے آج
اس قدر جس کو دیا حُسنِ لیاقت حق نیں
ختم ہے تجھ پہ فراست کے کمالات کے کام
دی تجھے جوہر اول کی نیابت حق نیں
اس بات کے سُننے سے ملکہ نے در جواب فرمایا کہ استغفر اللہ! یہ حُسن ظن تیرا ہے و اِلّا یہ بشر سے وے وے کام سر انجام پائے ہیں کہ جس کے خیال کی رفعت میں مرغ تیز رو وہم و قياس کا کیا قدرت کہ بال پرواز کے کھول سکے اور اس کا تو کیا ذکر ہے۔ لیکن میرے تئیں تیری لسّانی خوش نہیں آتی۔ کہیں یہی رسم زمانے کی ہے کہ مہمان کے تئیں تنہا چھوڑ کر آپ بہ فراغت باتیں بنائے۔ پس توں وہیں جا کے رسم تواضع و مدارات کی بجا لا اور اُس کی معشوقۂ پسندیدہ کے تئیں بھی بُلوا کر مسند علیٰحدہ بیچ مجلس کے آراستہ کر کے بٹھلا۔ فقیر بہ موجب امر کے مجلس میں آ کر حاضر ہوا اور جو کچھ واجبات مہمان داری کے تھے تعظیم و تکریم سے ادا کر کے کسی خدمت سے مقصر نہ رہا اور فی الفور ایک خواجہ سرا کے تئیں واسطے طلب اس عجائب المخلوقات کے بھیجا۔ جب معشوقہ سیاہ فام شب کی نے اِس طرف کی پٹّی سے اُس طرف کو کروٹ لی، وہ تحفہ عِلّت بیچ چھیپاں مُکَلّف کے سوار ہوکر آن پہنچی۔ بارے فقیر اُس کے ساتھ لوازم استقبال و احترام کے بجا لا کے نہایت تپاک سے پیش آیا اور برابر مہمان کے نپٹ اعزاز و اکرام سے اوپر مسندِ زرّیں کے بٹھلایا۔ جوان جمال اُس کا دیکھ کر از بس خوش وقتی سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور وہ بھی آتے ہی بلاے ناگہانی سی جوان قمر طلعت سے یوں چپٹ گئی جیسے چاند کو گہن گھیر لیتا ہے اور تماشابیں مجلس کے انگشت حیرت کی دندانِ حسرت سے کاٹ کر لا حول کے پڑھنے سے یوں غوغا کر رہے تھے جس طرح سے صدقہ لینے کوں بھنڈریے گرہن کے روز شور کرتے ہیں، لا حول و لا قوة الا باللہ۔ جان صاحب کیا آئیں، گویا ایک سَوانگ آیا، جدھر دیکھتا ہوں اُدھر سے آدمی سب مجلس کے تماشا تیاری و آرائش ضیافت کا چھوڑ کر اُسی طرف متوجہ ہیں اور بے اختیار ہنس ہنس کے پڑھتے ہیں ؎
کیا ہے عشق کے سودے نیں کیا کام
کہ ہوتا ہے ہُما الّو سے بدنام
اور ایک عزیز ایک گوشے میں کھڑے ہوئے جُدا ہی کہہ رہے ہیں کہ یارو عشق کو ساتھ عقل کے کیا مناسبت ہے کہ متحیر ہو رہے ہو ؎
عشق کا مکّڑ جدھر آ کر کے کج رفتار ہو
عقل کی مکھی کی کیا قدرت وہاں بھنکار ہو
پر فقیر ایک گوشے میں واسطے تقديم خدمات مہمان داری کے موافق حکم ملکہ کے حاضر و مستعد ہو کر دم بخود تھا۔ ہرچند کہ مہمان مالک گھر کا میرے تئیں جان کے بیچ مدارات ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے کو مبالغہ کرتے تھے۔ میں اصلاً مزاج اپنے کے تئیں طرف کھانے پینے کے یا سیر تماشے کے مائل نہ رکھتا تھا۔ اس حالت میں سہ شبانہ روز گذرے۔
شب چہارم مہمانوں نے میرے تئیں نزدیک بُلوا کر نپَٹ ہی گرم جوشی سے کہا: میاں ؎
آدمی کے تئیں کچھ گرمیِ صحبت بھی ہے شرط گو ترا وضع زمانہ سے ہے دل افسرده ایسے مہمان کی لازم ہے کہ خاطر ہو عزیز آج وہ دن ہے کہ جس جا میں تو دیکھے اس میں یاں تلک شیخ و برہمن ہیں طرب کے مصروف بادہ کو ہاتھ سے ساقی کے نہ پیوے ملا پھر تو ہی بادۂ گلگوں سے رہے کیوں محروم |
وہ بھی انسان ہے دنیا میں جو اتنا ہو خُنک پر ہم آئے ہیں ترے گھر میں ادھر دیکھ تنک بادہ بھر شیشے میں، رکھ لا کے نمک داں میں گزک کہیں تو ہوتا ہے سنگیت کہیں ہے اولک دیر میں بجتی ہے مِردنگ حرم میں ڈھولک پر یہ راضی ہے کہ کپڑوں پہ جو چھڑکے تو چھڑک پاس لے بیٹھ ہمیں سب کو چھکا، آپ بھی چھک |
اور جو با وصف اس گفتگو کے پھر حرف انکار کا اوپر زبان کے لائے گا واللہ کہ ہمارے تئیں توقف ایک ساعت کا حکم عنقا کا رکھتا ہے۔ میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ اگر در صورت اِغماض کے غبار کدورت کا بیچ خاطر مہمانوں کے بیٹھے کچھ لطف نہیں، لاچار پاس خاطر ان کے بساط نشاط کی آراستہ کر کے ہنگامہ بزم باده و پیمانہ کا گرم کیا۔ آخرش کثرت نوشانوش کی سے ابل مجلس سرشار ہو کے سر مست خواب غفلت کے ہوئے۔
روز چہارم جس وقت مغبچہ مخمور خورشید کا خمخانہ مشرق کے سے گلابی صبح کی ہاتھ میں لے کر واسطے شکست خمار کے طرف ساغر گل کے کہ شراب صبوحی شبنم کی سے پُر تھا متوجہ ہوا، یہ فقیر خمار خواب مستی کے سے بیدار ہو کر دیکھتا کیا ہے کہ آثار تشریف شریف ملکہ مہر طلعت اور تیاری اسباب ضیافت کے سے کچھ نشان نہیں اور وہ دونوں شخص سر از تن جدا درمیان ایک گلیم کے لپٹے ہوئے پڑے ہیں۔ معائنہ اس حال کے سے لشکر غارت گر وحشت کا بیچ اقلیم طبیعت میری کے تاخت لا کے متاع حواس کے اس قدر غارت کیا کہ بیچ شبستان دل کے چراغ عقل کا روشن نہ رہا۔ اتنے عرصہ میں اوپر بالیں میرے کے ایک خواجہ سرا صورت آشنا کہ بیچ تیاری سامان ضیافت کے حاضر تھا، نظر آیا۔ میں نے اس کے دیکھنے سے فی الجملہ افاقت حاصل کر کے استفسار احوال اس ماجرے کا کیا۔ اس عزیز نے در جواب کہا کہ تیرے تئیں دریافت حقیقت اس سرگذشت کے سے کچھ سروکار ہے کہ اتنا تفحص کرتا ہے؟ میں نے جو غور کیا تو واقعی ؏
مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت
ایک لمحہ خاموش ہو کر کہا کہ خیر، لیکن یہ فرمائیے کہ وہ شمع شبستان نزاکت کی کس مکان پر جلوہ افروز ہے؟ کہا کہ البتہ جو کچھ معلوم ہوگا بیان کروں گا، پر جاے تعجب ہے کہ تجھ سا شخص باشعور بے استرضاے خاطر مبارک اس کی سرمست شراب خود پسندی کا ہو یعنی بزم نشاط کی مخلّا بالطبع آراستہ کرنا اور دوستان دو روزہ سے بے دھڑک ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جانا کیا معنی؟ فقیر اپنے کیے پر سخت نادم ہو کر بولا کہ الانسان مرکب من الخطاء والنسیان، اب کرم کر کے معذور رکھیے ؎
خدا کے واسطے جانے بھی دو، ہوا سو ہوا
بھلا دو غصے کو، آؤ چلو، ہوا سو ہوا
بارے خواجہ سرا نے کچھ خدا ترسی سے اس کان ملاحت کے مکان کے سے نشان دیے اور آپ واسطے تجہیز و تکفین ان دونوں مقتول کے رہ کے میرے تئیں رخصت کیا۔ بندہ نیں اولا بہ شوق وصال اس بدیع الجمال کے اور دویم بہ خیال اس کے ؏
مبادا ہو کوئی میرا اگر گریباں گیر
فرصت کو غنیمت جان کے اپنی راہ لی اور افتاں و خیزاں شام کے وقت بیچ کوچۂ محبوب دلنواز کے پہنچ کر متصل دروازہ محل سراے کے ایک گوشہ میں تمام شب بیچ گرمی شوق ملاقات اس کی کے بے قرار تھا اور صبح تک سواے باد صبا کوئی واقف واقعی اس تپش درونی کا نہ پایا۔ لاچار اس صورت بے کسی میں ایک مسدس کے دو بند کہ حسب حال اس وقت کے تھے رو رو کر پڑھتا تھا ؎
کس ستی جا کے کروں درد کا اظہار اپنا غم دل کس کو سناؤں کہ نہیں یار اپنا |
جا دکھاؤں میں کسے دیدۂ خوں بار اپنا جز خدا، کوئی نہیں مشفق و غم خوار اپنا |
پس کروں کس ستی احوال کو اپنے اظہار
کہ کرے عرض مری جا کے صنم کے دربار
اے نسیم سحری! جا کے کہہ اس یار ستی سبب گریہ ستی، ظالم خونخوار ستی |
باعث درد ستی، موجب آزار ستی بت بے رحم ستی، شوخ ستم گار ستی |
کہ فلانا تیرے ہجراں میں پڑا مرتا ہے
سر کو پتھر پہ پٹک شور و فغاں کرتا ہے
علی الصباح جب خاتون مہر افروز شب کی نیں نہاں خانہ خاور کے سے سر بر لا کے اوپر کرسی زمردیں سپہر کے جلوس فرمایا، وہ خورشید لقا او پر مکان بالا خانہ کے جلوہ آرا ہو کر دریچہ کی راہ سے میری طرف متوجہ ہوئی۔ سبحان اللہ ایک صبح کیا دو صبح ہوئیں۔ بعد ایک لمحہ کے ایک خواص نیں نزدیک میرے آ کے کہا کہ تو فلانی مسجد میں جا کر قیام کر، اغلب کہ شام کے وقت عروس مراد تیری کی نقاب حجاب کا درمیان سے اٹھا کر چہرہ کشا ہو۔ فقیر بہ موجب ایما اس کے مسجد میں جا کر نرگس چشم انتظار کے تئیں مانند چشم نرگس کے اس نو گل خنداں چمن نزاکت کی طرف دو چار رکھتا تھا اور رو رو کے پڑھتا تھا ؎
ملائم ہوگئیں دل پر برہ کی ساعتیں کڑیاں
پہر کٹنے لگے اُن بِن نہ کٹتیں جن بناں گھڑیاں
جس وقت زاہد صومعہ دار روز کا قرص آفتاب کے تئیں بیچ حلق شفق کے فرو لے گیا وہی خواجہ سرا کہ اول روز رہنما مکان ملکہ کا ہوا تھا، مسجد میں آ کر دیکھتا کیا ہے کہ احوال فقیر کا ؏
چوں گوش روزه دار بر اللہ اکبر است
بعد ایک لمحہ کے نماز مغرب کی سے فراغت حاصل کر کے اس محرم اسرار نے میرے تئیں کمال دلداری سے ہمراہ لاکر درمیان ایک باغیچۂ دلکشا کے بٹھلایا اور کہا کہ جب تک غنچۂ آرزو تیرے کا شگفتہ نہ ہوئے، یہیں کوئی دم بیچ سیر تماشاے کیفیت چاندنی کےمشغول ہو اور آپ اجازت رخصت کی لے کر واسطے طلب اس قمر طلعت کے متوجہ ہوا۔ سبحان اللہ، بیچ تعريف نور افشانی بہار چاندنی اس رات کی کہ شب برات عاشقوں کی کہا چاہیے۔ ماہتابی وہاں کی شعاع زبان سے روشنی بیان کی بلند نہیں کر سکتی۔ ایک طرف فراش ماہتاب کے نے شامیانۂ چاندنی کے تئیں اوپر چبوترہ خیابان باغ کے رونق افزا خاطر عاشقوں کا کر رکھا تھا اور ایک طرف مشاطۂ جوئبار کے نیں شاہد آبشار کے تئیں زیور نگین الماس کا پہنا کر جلوہ پیرا دل مشتاقوں کا کیا تھا لیکن جب تک کہ وہ ماہتاب سپہر حسن و لطافت کی جلا بخش دیدۂ منتظر کے نہ ہوئی تھی بہ مضمون اس کے ؎
گل بے رخ یار خوش نہ باشد
بے باده بہار خوش نہ باشد
گلزار بیچ خاطر میری کے خار تھی اور لیلۃ القدر بیچ خیال میرے کے شب تار۔ اس وقت فی البدیہ یہ غزل حضرت تحسینؔ صاحب کی بے اختیار زبان میری سے دُر ریز ہوئی ؎
کس مزے کے رنگ سے، بن بن کے آتی ہے بہار چاندنی ہے سیر ہے اور بادۂ گل رنگ ہے ماہتابی کے مزے میں حیف وہ مہتاب نئیں جھومتی، جھکتی، جھلکتی، جھلجھلاتی چاند سی واہ واہ تحسینؔ نپٹ یہ مصرعۂ موزوں ہوا |
حسن کو اپنے عجب سج سے دکھاتی ہے بہار گر نہیں ساقی تو کس کافر کو بھاتی ہے بہار ہاے اس کے ہجر میں کیا مفت جاتی ہے بہار چاندنی کے رنگ میں کیا دل لبھاتی ہے بہار جو وہ گل رخ پاس نئیں، کس کو خوش آتی ہے بہار |
شکر بدرگاہ حضرت مقلب القلوب کے کشش دل بے تاب کی نیں اوپر دل اس ماہرو کے جنبش دی، یعنی اس خواجہ سرا نیں جاتے ہی یہ کبت کب دیو کا بیچ خدمت اس کے گزارش کیا ؎
چاندنی سے آنگن بچھونا بچھے، چاندنی سی پھیل رہی چاندنی سہاے دیو بھوم بھوم
تو ہے بن پھیکی لگت جل چند مکھی، تیرے چرن چرچت جھک چوم چوم
آلی آن دیکھو کیسورا کھو ہے چند واتان تاتین سکھ داں تو برہ کرے گھوم گھوم
چھنے چھنے چھائیں سے جو بناے جھکی جھلکت ہے جل میں جھالریں جھک رہیں جھوم جھوم
بارے مضمون اس کبت کے اوپر دل اس ماه جبیں کے اثر کر گئے کہ بعد یک لمحے کے وہ ماہ شب چار دہم رونق افزا حدیقۂ فردوس پیرا کی ہو کر اوپر مسند زربفت نقرہ کے جلوہ آرا ہوئی۔ واہ جی واہ! جس وقت وہ قمر طلعت داخل باغچۂ نمونۂ جنت کے ہوئی، عطر گلاب رخسارۂ زلیخاے شبِ مہتاب کا تقویت بخش دماغ تماشائیوں کا ہو کے زینت آرا بزم کامرانی کا ہو گیا اور یوسف عکس بیاض نگینہ ہاے الماس انجم کا اوپر خاتم مینا رنگ سبزۂ ریاض خُلدآئین کے زیب افزا دیدۂ نورانی کا ہوا ؎
کنِّے کیا خرام چمن میں کہ اب صبا
لاتی ہے بوئے ناز سے بھر بھر کے جھولیاں
نو عروسان شبّو کیں اوپر فرش چاندنی کے لباسِ نقرہ سے بہار افروز بزم دل فریبی و دل ربائی کی تھیں اور ماہ رویان نسترن کیں اوپر بساط چمن کے خلعت سیمیں سے رونق افروز خوب روئی و خوش نمائی کی تھیں ؎
جوں ہی آئی بزم میں وہ ماہرو سیمیں عذار کیا قیامت شکل تھی، مہتاب جس کے حُسن کو کیا کروں تعریف اس کی نقرئی پوشاک کی زیورِ الماس میں دیکھا چُھپے نور جمال |
ہوگیا مہتاب پر کچھ اور ہی نور آشکار دیکھتا تھا دور ہی سے آنکھ اپنی پھاڑ پھاڑ موج دریا میں ہو جیسے ماہ تاباں کی بہار ماہ کی ہووے جھلک جوں درمیان آبشار |
واقعی کیا سیر ہے تحسیںؔ کہ کچھ کہنا نہیں
جب میسر ہو کبھی، اس جی کو کر دیجیے نثار
بہ مجرد جلوہ آرا ہونے اُس شمع شبستان حُسن و جمال کے یہ فقیر مانند پروانے کے تصدّق ہو کر بصورت بندہ ہاے جاں نثار کے رو برو آ کے حاضر ہوا۔ اس عرصہ میں خواجہ سرا بیچ سفارش میری کے کچھ کلمۂ خیر بولا۔ فقیر نیں اُس وقت طرف خواجہ سرا کے مخاطب ہو کے کہا کہ میاں! ؎
جو گذری مجھ پہ اُسے مت کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
نازنیں از بس کہ غبار کدورت کا میری طرف سے بیچ خاطر کے رکھتی تھی، ایک بد دماغی سے میری طرف متوجہ ہو کے بولی کہ اب صلاح وقت یہی ہے کہ سو توڑے دینار سرخ کے زادِ راہ لے کر وطن مالوف کو سدھاریے۔ فقیر کہ سوختہ آتش عشق و محبت کا تھا، سنتے ہی اس بات کے آهِ سرد دلِ پُر درد سے بَر لایا۔ جو وقت تلف ہونے حق کے سواے چارہ ساز حقیقی کے کوئی داد رس اس بیچارے کا نظر نہ پڑا۔ لا چار نائرہ تاسف کا بھٹّی سینہ کی سے مُلتَہِب کر کے اس شعر کے تئیں بے اختیار پڑھ کر رویا ؎
داد کو پہنچا نہیں فرہاد ناحق مرگیا
دیکھ لی ہم نے خدا تیری خدائی واه واه
اور اُس کی خدمت میں گزارش کیا کہ یقین خاطر عالی کے رہے اگر اس عاجز کے تئیں طمع دينار و درم کی ہوتی تو جان و مال سے تصدّق فرق مبارک کے نہ ہوتا لیکن افسوس کہ زمانے سے مَراتب حقوق شناسی کے اٹھے۔ جب معشوق خانہ خراب نیں اس قدر بے مہری کو کام فرمایا تب کسی عاشق کمبخت نے یہ واسوخت تحریر خامۂ سوز و گداز کا کیا ہے کہ جس کا یہ بند حسب حال اپنے پڑھتا ہوں ؎
تم سے امید یہ تھی دل کو مرے شاد کرو خاکساری مری ناحق تو نہ برباد کرو کہ کوئی مجھ بغیر اُس وقت خریدار نہ تھا |
نہ کہ اُلفت کے تئیں چھوڑ کے بیداد کرو کچھ تو اس فدویت اگلی کے تئیں یاد کرو حالتِ غم میں کوئی مونس و غم خوار نہ تھا |
اس بات کو گوش کر کے اُس شیریں زبان نے برہم ہو کے کہا: چہ خوش، مینڈکی کو بھی زکام ہوا۔ اے عزیز! تو دیوانہ ہوا ہے کہ اندازہ سے قدم باہر رکھ کے سوداے محال بیچ سر بے مغز کے پکاتا ہے۔ از براے خدا اس گفتگو بے معنی سے درگذر۔ اگر اور کسی سے یہ اداے خارج عمل میں آتی، واللہ کہ مارا جاتا، پر تجھ سے کچھ کہنا نہیں لیکن بہتر یہ ہے کہ اب آپ اپنی راہ لیجیے کہ بیچ لوح تقدیر کے آب و خورد تیری ہمارے پاس یہیں تک لکھی تھی۔ اس وقت یہ فرہاد دشت بلا کا آنکھوں میں آنسو بھر لا کے بولا: اگر بیچ دیوان مشیّت کے منشور ناکامی کا میرے نام ہی پر ثبت ہے تو خیر ؎
واجب القتل ہیں ہم لایق تلوار ہیں ہم
ہاں میاں سچ ہے کہ ایسے ہی گنہگار ہیں ہم
وہ لیلیٰ ناقۂ بد دماغی کی اس بات کے سننے سے اور بھی خفا ہوئی اور کہا کہ رمز و ایما کی بات چیت اپنے تئیں خوش نہیں آتی۔ یہ اشارہ اور کنایہ کسی اور سے کر، اختلاط پیش از آشنائی چہ معنی ؎
یہ بھی کوئی طرز ہے، کہنے کی کسی سے ناداں
دردسر زیادہ نہ کر، چپ ہو، بس اب زیادہ نہ بک
یہ کہہ کر عالم خفگی میں خراماں خراماں متوجہ دولت سرا کے ہوئی۔ پھر میں نیں ہر چند سر پٹکا، اس طرف رُخ توجہ کا نہ فرمایا۔ لاچار یہ مجنوں صحراے بے خودی کا ساتھ دلِ بریاں و دیدہ گریاں کے اس مکان سے مایوس ہو کے اُٹھا اور اسی ساعت سے چالیس روز تک شبانہ روز حیران و پریشان بیچ عالم دیوانگی کے کوچہ گردی و صحرا نوردی میں بے خواب و خَور مانند مجذوبوں کے یہ مخمس حضرت تحسینؔ صاحب کا کہ بعینہ حسب حال فقیر کے تھا، پڑھ پڑھ کے روتا پھرتا تھا۔ مخمس:
ارے قاصد تو جا کر یار کے کوچہ میں کہہ آنا تری حسرت میں اُس کو رات دن رہتا ہے غم کھانا |
کہ تحسیں عشق میں تیرے سدا رہتا ہے دیوانا یہ حالت ہو گئی اُس کی نہیں جاتا ہے پہچانا |
لبوں پر جان ہے اس کی کہ جیوں لبریز پیمانا
شب فرقت میں تیری سخت بے تابی سے روتا ہے نہ اُس کو کچھ دوا سے ہو، نہ کچھ افسوں سے ہوتا ہے |
نہ دن کو چین ہے اُس کو نہ دکھ سے رات سوتا ہے نپٹ ہی گریہ و زاری سے اپنے جی کو کھوتا ہے |
تجھے لازم ہے اُس تک ایک دن تشریف لے جانا
کبھی سودائیوں کی طرح سیتی آہ بھرتا ہے کبھی مجنوں صفت گھر چھوڑ کر صحرا میں پھرتا ہے |
کبھی دیوانگی سیتی گریباں چاک کرتا ہے کبھی فرہاد کی صورت لگا تیشے کو مرتا ہے |
کبھی مانند پروانہ کے خاکستر ہو جل جانا
کبھی گھبرا کے اشک آنکھوں میں بھر لاتا ہے رقّت سے کبھی جھنجھلا کے جی دینے پر آجاتا ہے دقّت سے |
کبھی سوزِ درونی سے جلے ہے غم کی حدّت سے کبھی مرنے کی رکھتا ہے تمنا دکھ کی شدت سے |
کبھی مجذوب کی صورت سے سنگِ کودکاں کھانا
کوئی کہتا ہے سودا ہے اسے، فصّاد کو لاؤ کوئی کہتا ہے عاشق ہے، کہیں واں اس کو لے جاؤ |
کوئی کہتا ہے، کچھ آسیب ہے، سیانے کو دکھلاؤ طبیب عشق کی دوکان کوئی اس کو بتلاؤ |
علاج اس کا یہی ہے شربتِ دیدار پلوانا
نہ اس کو چین سے مقصد، نہ ہے آرام کی خواہش نہ کچھ رسوا کے ہونے سے غرض، نَے نام کی خواہش |
نہ کچھ مینا سے مطلب ہے، نہ اس کو جام کی خواہش دِوانہ ہو کے رکھتا ہے سدا دشنام کی خواہش |
مگر حاصل ہے اس کو عمر سے ساقی کا آجانا
جسے گذری نہیں، راز دل بے تاب کیا جانے مراتب دوستی کے، تارک الاحباب کیاجانے |
جگر جلنے کی لذّت آگ پر، سیماب کیا جانے کوئی بے مہر حال دیده پُر آب کیا جانے |
عبث ہے داستانِ غم تجھے رو رو کے سمجھانا
جو مدار زندگی انسان ضعیف البنیان کا محض اوپر اکل و شُرب کے ہے، لاچار عالم بے طاقتی میں حرکت مَذبوحی سے بھی معذور ہو کر زیر دیوار اُسی مسجد کے جا پڑا اور آہستہ آہستہ وے اشعار مخمس کے زبان حال کی سے پڑھتا تھا۔
اتفاقاً ایک روز اسی خواجہ سرا نے بہ تہیہ نماز جمعہ کے اُسی حالت میں اوپر سر میرے کے گذر کیا۔ ہر چند فقیر حالت بے خودی میں اصلاً صورت اپنی بحالت اصلی درست نہ رکھتا تھا لیکن از بسکہ آثار حزن و ملال کا پڑھنے اشعار درد آمیز کے سے اوپر چہرے میرے کے آشکار تھا۔ خواجہ سرا نے احوال میرا ملاحظہ کر کے نہایت خون جگر کا کھایا اور بہ مقتضاے رحم دلی کے نپٹ ہی دل سوزی سے میری طرف خطاب کر کے کہا ؎
دیکھا تھا اُن دنوں میں یہ چنگا بھلا غریب یاں کون درد رس ہے ترا اور کہاں طبیب |
عاشق ہوئے سے پہنچ گیا مرگ کے قریب اس مرض سے لکھا تھا، جو مرنا تو یا نصیب |
عاشق تو کیوں ہوا تھا سزا ہے تری یہی
تب میں نے کہا: کیا کیجیے ؎
جان اُس کا ہے، دل اُس کا ہے، جگر اس کا ہے
تیرِ بیداد جدھر رُخ کرے، گھر اُس کا ہے
چنانچہ مطابق اُس کے ایک کبت بھی یاد ہے۔ کبت:
نار نار کیوں نہ تجوں، نین نین کیوں نہ تجوں، سیسں سیسں کیوں نہ تجوں جاوے یاہی تن تیں
تن کیوں نہ جر جاؤ، جر کیوں نہ جھاڑ ہو جاؤ، جھاڑ کیوں نہ اُڑ جاؤ برہا کی پَوَن تیں
یہ حال، یہ جیو، تبھ بن آوے جبھ بنواری آویں، یا آوے واہی بن تیں
رنگ جاؤ، روپ جاؤ، جے لے ہوے سو ہی جاؤ مادھو جی کی ہُیت نہ جاؤ میرے من تیں
اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا:
عشرت سے دو جہاں کی یہ دل ہاتھ دھو سکے
اُس کے قدم کو چھوڑ سکے، یہ نہ ہو سکے
آخِرش بعد تاسّف تمام کے ایک شخص کے تئیں نزدیک میرے چھوڑ کر آپ واسطے اداے نماز کے متوجہ مسجد کا ہوا اور وقت معاودَت کے فقیر کے تئیں درمیان ایک میانے کے سوار کر کے ہمراہ اپنے بیچ خدمت اُس تخت نشیں کِشور غرور کے لے جا کے چِلوَن کے باہر بٹھلایا۔ اگرچہ شکل فقیر کی شباہت قدیم سے البتہ تجاوز کر گئی تھی لیکن ملکہ نے باوصف اُس کے کہ میرے تئیں ایک مدت بیچ مصاحبت اپنی کے ممتاز رکھا تھا، از روے اغماض کے دیدہ و دانستہ خواجہ سرا سے استفسار احوال میرے کا کیا۔ اُس پاک طینت نے عرض کیا کہ یہ وہی گنہگار ہے کہ مورد عتاب ملکہ کا ہوا تھا۔ اُسی ساعت سے اس فلک زدہ کی یہ نوبت ہے کہ جہاں کہیں آتش عشق اُس کے کی بہار اشتعال کو گُل کرتی ہے، شعلہ عرق انفعال کا اوپر چہرے کے کھینچتا ہے اور جس جگہ کہ سیلاب اشک اس کے کا طوفان ریزش کا لاتا ہے، دریا حرف خجالت کا اوپر صفحہ خاطر کے لکھتا ہے۔
ملکہ نے از راہ تمسخر کے خواجہ سرا سے کہا کہ استغفر اللہ! قریب یک ماہ کے ہوتا ہے کہ اُس شخص کے روانہ ہونے کی خبر وطن مالوف کوں میرے تئیں مُخبران صادق سے پہنچی ہے۔ خدا جانے کہ یہ کون شخص ہے اور کس کا ذکر ہے۔ اُس وقت خواجہ سرا نے جبیں نیاز کی اوپر زمین ادب کے گھس کر عرض کیا کہ اگر گستاخی معاف ہو تو التماس کروں۔ فرمایا کہ کہو۔ کہا کہ ؎
جب مسیحا دشمن جاں ہو، تو کب ہو زندگی
کون رہ بتلا سکے جب خضر بھٹکانے لگا
اے مہر سپہر قدردانی! از براے خدا نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا دے اور اوپر بے کسی اس بے کس کے نظر ترحم کی فرما کے حرف ناحق شناسی کا لوح دل سے دھو ڈال کہ اجر اس مہر ورزی و دل نوازی کا ضائع نہیں ہوگا، آگے جو کچھ مرضیِ مبارک میں ہو عمل میں لائیے۔ ملکہ نیں متبسم ہو کے کہا کہ خوب! بالفعل اس کے تئیں بیچ دار الشفا کے بھیجنے کے فکر صحت کا کر۔ بعد ازاں استفسار احوال کا بھی ہووے گا۔ عرض کیا کہ جان قربان، جب تلک اُس کے اوپر گلاب پاشی دست مبارک کی نہ ہوگی، تب تک طپش درونی اُس کی مُنطفی نہیں ہونے کی۔
ملکہ اس بات کو سن کر خاموش ہو گئی۔ پھر خواجہ سرا نے لاچار ہو کے گزارش کیا کہ تکلف برطرف:
کم بولنا بھلا ہے ہر چند پر نہ اتنا
مُند جائے چشم عاشق، تو بھی تو لب نہ کھولے
اندازہ سے زیادہ خموشی بعید شرط اہلیت کی سے ہے۔ اُس نیک بخت نے اس پر بھی اصلاً زبان کے تئیں جواب سے آشنا نہ کیا۔ اُس وقت فقیر کہ اپنی زندگی سے عاجز تھا، از بس سوزشِ سینہ اور سوختگیِ دل سے یہ دو شعر بے اختیار پڑھ اُٹھا ؎
اس درد دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قسمت کا جو لکھا ہے الٰہی شتاب ہو
اس کشمکش کے دام سے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن! ترا خانہ خراب ہو
تب ملکہ نے خدا ترسی سے نظر ترحم کی فرما کے باریابان بساط قربت کے تئیں حکم کیا کہ معالجان حاذق کے تئیں حاضر کرو۔ انھوں نیں آتے ہی تشخیص مرض کی کر کے شربت دیدار بتلایا اور واسطے رفع نقاہت و ضعف دل کے یہ مفرّح دلکشا کہ آگے اطبّاے حکمت اساس و حکماے مزاج شناس نیں از روے قانون عقل کے تالیف کر کے خستہ دلان بیمارستان شوق کے تئیں تناول اس کا ترغیب فرمایا ہے، تجویز کی۔ نسخہ:
سنبل الطیب گیسو، پرسیاؤشانِ ابرو، بادام چشم، مرزنگوشِ گوش، گل سرخِ رخسارہ، عنبر اشہب خال، مشک سیاہ کاکل، ابریشم مقرض زلف، یاقوت لب، مروارید دنداں، پستہ دہن، سیب ذقن، ورق نقرۂ بدن، پشم سفیدِ سینہ، حجر الیہود دل، مرجان پنجہ، فندق سر انگشتاں، سقنقور ساق۔
ان اجزا کے تئیں دوکان رستہ بازار حُسن کے سے تفحّص کر کے بعد ترتیب کے تھوڑا عرق بید مشک رخسارہ کا اور قدرے شکرِ خندہ اضافہ کرے اور آتش نرم جوشی سے آہستہ آہستہ پختہ کر کے بقدر دسترس مداومت کرے تو ان شاء اللہ تعالیٰ جلد شفاے کامل حاصل ہو۔
بارے نازنیں نے پنجۂ التماس حکماے حاذق الزماں کا ساتھ حناے اجابت کے رنگیں کیا۔ یہ بیمار عشق کا بہ توجہات دلی اس شفا بخش کے ایک ہفتہ کے عرصہ میں استعمال اُس یاقوتی روح افزا کے سے افاقت میں آیا۔ بعد ازاں نازنین نے کارپردازان حضور کے تئیں ارشاد کیا کہ اس جوان کے تئیں بعد فراغت حمام کے تبدیل پوشاک خاصہ کا کر کے لے آؤ۔ چنانچہ عاجز موافق حکم کے لباس فاخرہ زیب قامت کا کر کے بیچ خدمت ملکہ کی حاضر ہوا۔ اُس وقت نازنین پری چہرہ نے نہایت تپاک سے متوجہ ہو کے فرمایا کہ کمبخت شعلہ عشق تیرے کا دامن عصمت میرے کے تئیں آتش رسوائی سے ملوّث تو کر چکا۔ پھر اب کیا کہتا ہے۔ جو کچھ مرکوز خاطر تیرا ہو صاف صاف اظہار کر۔ تب تو بندہ دوگانہ شکرانہ کا بیچ درگاہ حضرت کارساز حقیقی کے بجا لا کے از بس خوش وقتی سے بیچ پیرہن کے نہ سمایا اور حالت بشاشت میں نقد جان عزیز کے تئیں تصدق فرق مبارک اُس کے کر کے، یہ شعر زبان پر لایا۔ فرد ؎
آج سب مل کے کہو لوگ مبارک مجھ کو
شکر للہ مرا یار مہربان ہوا
اور بیچ خدمت اُس خورشید طلعت کی عرض کیا کہ تقصیر معاف! بیچ حوصلہ اس رنج و مشقت کے امیدوار تفضّلات دل ربایانہ کا ہوں کہ اس جاں نثار کے تئیں بیچ شرف مناکحت اپنی کے سرفراز کیجیے۔ آخرش گھڑی دو ایک الخاموشی نیم رضا کی ٹھہری۔ بعد ازاں اس گل عذار نے عارض عرض میری کے تئیں ساتھ گلگونۂ قبولیت رونق بخشی اور جس وقت کہ نوجوان شاہد بادلہ پوش ماہتاب کا ساتھ عروس زرّیں لباس مشتری کے قران السعدین تھا، قاضی قضا کے نیں بہ حکم زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ کے عقد ازدواج کی منعقد کی۔ الحمد للہ و المنۃ کہ آرزوے دیرینہ بر آئی اور نقش مراد کا اوپر کرسی حصول مدعا کے بیٹھا۔ فرد ؎
صندلی رنگ نیں بوسہ نہ دیا تھا سو دیا
درد سر کا مرے درماں نہ ہوا تھا سو ہوا
لیکن جس طرح نقش آرزوے مناکحت ملکہ کا اوپر خاتم دل میرے کے منقش تھا، اُسی طرح سے دریافت کرنا معنی اس مضمون کا بھی عین تمناے خاطر تھا کہ دراصل وہ نازنین روشن چراغ کس شبستان کی ہے اور حبشی سبزہ رنگ نیں مبلغ خطیر کس وجہ سے بہ مجرّد ملاحظہ ایک پرچہ کاغذ کے حوالے میرے کیے اور سامان ضیافت کا اس تکلف سے ایک پہر کے عرصہ میں کیوں کر ہوا اور بیچ قتل ہونے اُن دونوں مقتول کے کیا سرّ تھا اور باعث خفگی مزاج مبارک کا اس عاجز کی طرف سے کس واسطے ہوا۔
چنانچہ فقیر بعد رسم مناکحت کے ایک ہفتہ تک تکلفات عرفی سے متعذّر رہا۔ آخرش ملکہ اس واردات سے متحیر ہوئی بلکہ ایک گونہ سوے مزاج ہو کے فرمایا کہ یا بہ آں شورا شوری و یا بہ ایں بے نمکی! اس کو کیا کہتے ہیں۔ بندہ نے اُس وقت بلا تصنع ظاہر کیا کہ صاحبہ عالم سلامت! اگر صحیح جانیے تو منصفی سے نہ گذریے۔ کہا: معلوم ہو کہ کس بات کا انصاف چاہتا ہے۔ عرض کیا کہ اشتیاق میرا بیچ استحصال نعمت غیر مترقب مواصلت تیری کے مسلم، لیکن جس بشر کے تئیں استقلال طبیعت کا درست نہیں اس کو انسان نہ کہا چاہیے۔ کہا کیوں کر۔ عرض کیا کہ عاجز نے اپنے دل میں اقرار کیا تھا کہ بعد مراسم مہرورزی صاحبہ زمانہ کے بعضے عقدۂ مشکل کے کہ استکشاف اُس کا بے توجہ عالیہ کے نہیں ہو سکتا جب تک بیان دُر بیان سے بیچ خاطر میری کے حل نہیں ہونے کے، بیچ کسی امر کے اقدام نہ کروں اور سچ بھی ہے کہ اگر شمع زبان بشر کی بیچ شبستان دل اپنے کے فانوس صدق مقال میں جلوہ پرداز نہ ہو تو اور کسی کے تئیں عکس فیض اُس کے سے استفادہ روشنی ہدایت کا معلوم۔ بقول شخصے کہ مصرع:
او خویشتن گم است کرا رہبری کند
پس توں اوپر مستقل مزاجی میری کے آفریں کر کے کلمۂ چند اُس عبارت سے کہ معنی مراد کے تئیں موافق پڑے، فصاحت کلام سے بیان کر۔ والّا ممکن ہے کہ دانہ تسبیح دل کا بیچ رشتہ محبت زبان کے کہ کلید گنجینہ نطق کی ہے، سرگرداں نہ ہو کے ایک جان دو قالب نہ رہ سکے۔ ملکہ نے چیں بہ جبیں ہو کے کہا کہ تیرے تئیں یاد ہوگا کہ میں نے اول مرتبہ منع کر رکھا ہے کہ توں بیچ حرکات اور سکنات میری کے زینہار مستفسر و متلاشی نہ ہو جیو۔ پس اب خلاف معمول بات کہنا کیا لطف ہے۔ فقیر نے ہنستے ہنستے ملکہ سے کہا کہ جیوں اور بات خلاف معمول معاف ہوئی، اتنی یہ بھی سہی۔ ملکہ اُس وقت جل کر اور بھی آتش کا پرکالہ بن گئی اور نپٹ ہی خفگی سے کہا کہ معقول! یک نہ شد دو شد۔ چل اپنا کام کر ان باتوں سے کیا چاہتا ہے۔ بیت ؎
دل کے تئیں سوخت نہ کر، زخم پہ چھڑکا نہ نمک
اتنا بھی بیہودہ گوئی ستی احمق نہ بہک
میں نے کہا: تقصیر معاف، زمانے میں کوئی راز مخفی تر ستر سے نہیں اور جب اسرار اُس کا دوسرے پر منکشف ہونا روا رکھا ہو تب بہر صورت محرمیت ہر سرّ کی طرفین پر واجب جاننا چاہیے اور انکشاف نہ کرنا اُس کا صریح رسوائی جانبین کا ہے۔ جب ملکہ نے فحواے کلام میرے کے تئیں بیان واقعی اور نفس الامر جانا، کہا: خیر، لیکن اتنا ہی پس و پیش ہے کہ مبادا اگر اس مبتلاے بلا کا راز برملا ہو تو خوب نہیں۔ میں نے کہا کہ استغفر اللہ، زینہار یہ خطرہ محظور خاطر خطیر کے نہ رکھیے اور میرے تئیں محرم خلوت سراے وفا و اخلاص کا جان کے بہ کشادہ پیشانی حقیقت سرگذشت اپنی کے سے ہمراز کیجیے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کچھ سرّ فاش نہیں ہونے کا۔ قول مرداں جاں دارد۔
قصہ مختصر اس پری چہرہ نے جو دیکھا کہ یہ عزیز در پے استفسار ماجراے احوال میرے کے ہے اور بغیر کہے گریز نہیں، لاچار طوطی زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار گفتگو کے یوں مترنم کیا کہ ہر چند افشاے راز کا کرناں موجب قباحت چند در چند کا ہے لیکن دوش ہمت اپنی کے تئیں بھی بار حقوق تیرے کے سے سُبک سار کرنا ضرور ہے، اس واسطے قصہ سرگذشت اپنی کا پاس خاطر عزیز تیری کے بیان کرتی ہوں، پر خبر شرط ہے ؎
اس بات کو گر اور سے ارشاد کرو گے
یہ یاد رکھو ہم کو بہت یاد کرو گے
آگے مختار ہو۔
قصۂ سرگذشت ملکۂ عالی جاہ
ملکہ نے صدف زبان سے سُرخی حکایت سرگذشت اپنی کے تئیں اوپر قرطاس بیان کے اس طور سے دُر ریز کیا کہ میں دختر والی اس ملک یعنی سواد اعظم سرزمین ولایت دمشق کی ہوں اور وہ بادشاہ ذی جاہ از بس رفعت و ثروت و منزلت سے ظل افتخار کا اوپر فرق فرقداں کے رکھتا ہے، جو سواے میرے اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہیں، عہد خوردگی سے درمیان مہد ناز و نعمت کے زیر سایہ عاطفت و پرورش مادر و پدر بزرگوار کے بسر لے جاتی اور ہمیشہ بزم عیش و نشاط کی آراستہ کر کے بیچ اکل و شُرب شراب و کباب کے ساتھ صحبت محرمان ہمراز و مصاحبان دمساز کے مشغول رہتی۔ مُقصّر اسی نوع سے حد بلوغ کو پہنچی اور اُس وقت سے اپنے تئیں مائل جمال گل رخان عشوہ ساز و پری پیکران نغمہ پرداز کے رکھ کے بیچ تماشاے رقص ارباب طرب کے اوقات صرف کرتی اور تمام لذت جہان کی سے مُرفہ الحال و فارغ البال ہو کے ہر حال دوگانہ شکرانہ کا بیچ جناب حضرت کارساز حقیقی کے بجا لاتی۔
اتفاقاً ایک مرتبہ بسبب بعضے عوارض جسمانی کے مصاحبت ہمدمان جانی کے سے طرح مباعدت کی پڑی۔ اس صورت میں مجلس نشاط کی مانند کُلبہ تیرہ روزوں کے اسباب شادمانی کے سے تہی تھی اور جام شراب کا مثل کاسۂ چشم حریفوں کے بادہ کامرانی سے خالی ہوا اور ترک عادت معہود سے غلبہ سودا کے نیں یہاں تک بیچ دل میرے کے راہ پائی کہ زلیخاے طبیعت کے تئیں یوسف استراحت کا بیچ خواب کے دیکھنا مشکل پڑا۔ جو آرام خاطر میرے کے تئیں سب خادمان حضور کے دل سے چاہتے تھے، ہر ایک ارکان دولت بقدر حوصلہ اپنے بیچ جستجوے معالجہ و چارہ سازی مرض میرے کے تگاپو کرتے۔ قضایا یہی خواجہ سرا کہ اُس وقت بھی محرم اسرار و ہمدم غمخوار میرا تھا، میل اپنا طرف شربت ورق الخیال کے بیشتر رکھتا تھا، مجھ سے کہنے لگا کہ اگر ملکہ جہاں شیرہ ورق الخیال کے تئیں بطور شربت کے نوش جان فرماویں تو زنگ کُلفت کا کہ اوپر آئینہ ضمیر منیر تیرے کے بیٹھا ہے، ساتھ صیقل سرخوشی کے دور ہو جاوے۔ میرے تئیں اُس کے مبالغہ سے رغبت شربت ورق الخیال کی زیادہ ہوئی اور کہا حاضر کرو۔ خواجہ سرا باہر جا کے ایک صُراحی شربت ورق الخیال کی ایک لڑکے کے ہاتھ میں لے کر آیا۔ میں نے بے تامل ایک جام بھر کے اُسے نوش کیا اور لذت اُس کی جو کچھ خواجہ سرا نے بیان کی تھی ہو بہو پائی۔ اُس وقت عوض اُس حُسن خدمت کے خواجہ سرا کے تئیں ایک خلعت فاخرہ مرحمت کیا اور مورد عنایات بے غایات کا کر کے اُس جام زمردیں کی پروانگی ہر روز کی دی۔ خواجہ سرا بلا ناغہ صراحی شربت کی موافق قاعدۂ مستمرہ کے اُس لڑکے کے ہاتھ لے آتا اور میں اُس کے تیں نپٹ خوش دلی سے پی جاتی۔ جب طاؤس نگاریں خیال میرے کا بیچ سبزہ زار نشہ اُس کے کے جلوہ گر ہوتا واسطے تفنن طبع کے کوئی گھڑی اُس لڑکے کے ساتھ کہ بیچ شیوہ ہزل و استہزا کے شہرۂ آفاق تھا اور حُسن و جمال میں یوسف ثانی کہا چاہیے، خوش طبعی سے اوقات صرف کرتی اور وہ بھی کمبخت لطیفہ ہاے رنگیں و نکتہ ہاے شیریں سے نقل ہاے عجیب اور ذکر ہاے غریب ایسی چرب زبانی سے ادا کرتا کہ کاسہ دماغ میرے کا شراب خوشگوار حظوظ نفسانی کے سے بے اختیار لبریز ہو جاتا۔ غرض کہ بیچ تلافی اُس خوش وقتی کے ہر روز جام آرزو اس کی کے تئیں مالا مال جواہر گراں بہا کے کرتی اور اوقات میرے بیچ تماشا بازی و ظرافت اُس کی خوش گذرتے۔ لیکن باوجود اس قدر عنایات و انعامات کے ظاہر حال لڑکے کا روز بروز تباہ نظر آتا اور وہ تبدیل لباس کثیف کا نہ کرتا۔ میں نے ایک روز تفُحّص حال اُس کے کا کیا کہ توں باوصف اس قدر غایات جواہر و زر کے حالت اپنی پریشاں کیوں رکھتا ہے اور یہ زر خطیر کہاں صرف کیا کرتا ہے۔ لڑکے نے جو دلجوئی اور دلنوازی میری مصروف حال اپنے کے پائی، آبدیدہ ہو کر بولا کہ جو کچھ تفضّلات پیش گاہ ملکہ جہاں کے سے ہوا، اُستاد بے مہر نے بہ مقتضاے بے رحم دلی کے ایک دام بھی اُس سے میرے تئیں عنایت نہ کیا۔ اس سبب سے بیچ تبدیل لباس کے معذور ہوں۔ میرے تئیں اس کی غریبی پر سخت رحم آیا اور خواجہ سرا کے تئیں فرمایا کہ تو اس لڑکے کے تئیں کسوت لطیف تیار کر کے اپنی صحبت میں تربیت کر اور زنہار اس کا مجوّز نہ ہو کہ مانند لڑکوں عوام الناس کے بیچ لہو لعب کے مشغول رہے، بلکہ بیشتر استرضاے عالیہ کی یوں ہے کہ بیچ خدمت باریابان حضور ہماری کے حاضر رہے۔ خواجہ سرا کہ رضا مندی میری کے تئیں سب چیز پر مقدم رکھتا تھا، موافق ارشاد کے بجا لایا۔ غرض کہ چند روز میں بہ سبب مہیا ہونے اسباب جمعیت کے رنگ و روپ لڑکے کا کچھ اور ہی ہو گیا ؎
جس نے دیکھی شکل اُس کی کہا سبحان اللہ
قدرت حق سے نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا
قصہ مختصر میں اس کے تئیں لباس فاخرہ و زیورات مکلّف سے آراستہ کر کے مصاحبت اس کی تئیں سرمایہ حیات سرمایہ جاودانی کا جانتی اور روز و شب بیچ دلداری و غمخواری اُس کے کی سعی کر کے ایک لحظہ نظارہ جمال دلفریب اُس کے سے چشم مشتاق کے تئیں معطل نہ رکھتی۔ رفتہ رفتہ یہ نوبت پہنچی کہ اگر ایک لمحہ بھی مفارقت اس کی پیش آوے تو از بس گرمی آتش شوق کی سے مانند سیماب کے بے قرار ہو جاؤں۔ چنانچہ اسی حالت میں سبزہ عنفوان شباب اُس کے کا بیچ چمن بہار عمر کے نورُستہ ہوا اور غنچہ سن طفولیت اُس کے کا نسیم عہد جوانی کی سے شگفتگی بلوغیت کی لایا۔ آخرش مثل مشہور ہے کہ عشق و مشک را نتواں نہفتن۔ بعد چند روز کے سر اس بات کا اوپر سب ملازمان سرکار کے و حاضران دربار کے شائع و آشکار ہوا۔ اس وقت محرمان سرادق عصمت کے بمقتضاے دور اندیشی کے آنے اس کے کے تئیں بیچ حرم سراے خاص کے باعث رسوائی خاص و عام کا جان کے ممانعت سے پیش آئے۔ میرے تئیں کہ بغیر اس کے ایک دم آرام و قرار و خواب و خیال نہ تھا، یہ سانحہ ہوش ربا سخت قیامت گذرا لیکن کیا کیجیے زمین سخت آسماں دور۔ لاچار خواجہ سرا کہ ہمراز میرا تھا، اس کے تئیں بلا کے حکم کیا کہ جو میرے تئیں پرداخت اس کی ہر طرح منظور ہے، پس بالفعل صلاح وقت یوں ہے کہ اس جواں کے تئیں دس ہزار اشرفی سرمایہ دے کر بیچ چار سوے بازار کے دکان جواہر کی مرتب کر دے اور نزدیک محل سرا خاص کے ایک خوش تعمیر آراستہ کر کے اسباب خانہ داری کا از قسم غلام و کنیزک کے بقدر مطلوب و بر وفق مقصود اس کے مہیا کر کہ اس مکان میں چشم بد ناتواں بینوں کی سے محفوظ رہ کر جو کچھ متاع تجارت سے انتفاع بہم پہنچاوے صرف مایحتاج اپنے کا کرے۔ بارے خواجہ سرا یوں عمل میں لایا۔ بعد چند روز کے اس جوان نے فیض دوکان تجارت کے سے نقد شہرت کا بیچ کف مراد کے اس قدر جمع کیا کہ جو کچھ جواہر گراں بہا و ملبوسات زیبا و مصارف سرکار والیِ شہر کے ہوتا، دکان اس کی سے آتا۔ تا بہ حدیکہ آوازہ نام آوری اس کے کا بیچ چاردانگ عالم کے بلند ہوا اور بدولت شغل جواہر فروشی کے گوہر فوائد کلی کا بیچ دامن آرزو کے فراہم لایا۔ حاصل کلام یہ ؎
خدا کسی کا کسی سے دل آشنا نہ کرے
اگر کرے تو کبھی اس سے پھر جدا نہ کرے
میرے تئیں مفارقت چند روزہ اس کی نپٹ ہی شاق گذری۔ اس واسطے بہ صلاح خواجہ سرا کے ایک نقب دولت سراے خاص سے اس کے محل سرا تک تیار کی اور یہ اسرار سواے خواجہ سرا اور دو دایہ کے کسی پر منکشف نہ تھا۔ جس وقت خسرو آفتاب کا متوجہ خلوت گاہ مغرب کے ہوتا اور کاسہ چشم مقربان بساط قرب کا بادہ نوم بے خبری کے سے لبریز ہوتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے نزدیک میرے لے آتا اور میں تمام شب بیچ صحبت اس کی کے بادہ پیماے پیمانہ عشرت کی رہتی۔ کبھی وہ بہار حسن میری کے سے گل ہاے کامرانی کے چنتا اور کبھی میں چشمۂ جمال اس کے سے آب زلال کامیابی کا پیتی۔ جب مؤذن صبح خیز شمس کا اوپر مصلیٰ خاور کے بانگ نماز فجر کی دیتا، خواجہ سرا اس جوان کے تئیں نقب کی راہ سے بیچ مکان اس کے پہنچا آتا۔ اسی طور سے ایک مدت بسر لے گئی۔ چنانچہ ایک روز کا ذکر کرتی ہوں کہ جس وقت عروس مہر کی بیچ حُجلہ مغرب کی سدھاری خواجہ سرا موافق ضابطہ کے واسطہ طلب اس جوان کے گیا۔ دیکھتا کیا ہے کہ وہ عزیز گرفتگیِ طبع سے مانند غنچہ کے دل تنگ ہو رہا ہے، خواجہ سرا نے جو سبب اس کا پوچھا تو بلبل زبان اس کے کی بیچ قفس سکوت کے آ کر نغمہ پرداز نہ ہوئی۔ لاچار خواجہ سرا نے اس بات کے تئیں بیچ عرض پرستاران حضور کے پہنچایا۔ اس بندی کے تئیں جو اغواے شیطانی خوار کیا چاہے، ہواے محبت اس کی نے پرواز دیا کہ قلابہ پیار اس کے کا بیچ گریبان خاطر عشق پسند اپنے کے قائم کرکے زیب گلوے فہمید ناقص اپنے کا جانا۔ استغفر اللہ! اگر یہ جانتی کہ آتش بے قراری کی خان و مان ناموس کا یوں جلا دے گی تو واللہ میں زنہار اسیر دام بلا کی نہ ہوتی۔ آخر عشق کمبخت وہ بد بلا ہے کہ شیشہ حیا کا اوپر سنگ رسوائی کے ٹوٹے ہی ٹوٹے۔ ہاے ؎
آنکھ اپنی طرف اس کی جب میل نہ کرتی تھی قینچی کی طرح دل کے پرزے نہ کترتی تھی |
ٹکڑوں سے مرے دل کے دامان نہ بھرتی تھی جب عشق نہ تھا یارو کیا خوب گذرتی تھی |
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور اگر سچ پوچھیے تو واقعی یوں ہے ؎
دل کی تقصیر نہیں آنکھوں کا سب سے ہے یہ فساد نین نئیں دل کے نصیبوں کے گویا ہیں جلاد |
اول اس کام کے بنیاد کے یہ ہیں استاد طرفۃ العین میں کر دیتے ہیں دل کو برباد |
از گرفتاری چشم است گرفتاریِ دل
سبب چشم بود موجب لاچاریِ دل
کہ تجھ تک نوبت کہنے سننے کی پہنچی، و الا کہاں تو اور کہاں میں۔ خیر اس کو کہاں تک کہیے۔ غرض اس کے تئیں پیغام پہنچایا کہ جو میں باوجود اس قدر و منزلت کے کہ محک امتحان جوہر انسانیت کا ہے اور تاکید محارسان سلطنت کے ممکن نہیں کہ آ سکوں، پس اگر تو بھی نہیں آنے کا تو یقین جانیو کہ تیرے واسطے کیا کچھ متاع گراں بہا امتیاز و حرمت کی بیچ سیل غفلت کے نہ بہ جائے گی اور کیا لعل قیمتی اعتبار و عزت کا صدمہ سنگ بے قدری کے سے چور نہ ہوگا۔ یعنی میں بہ مقتضاے اس کے کہ زلف تیری نے بیچ ہر حلقہ کے سو کمند بلا کی لٹکا کر دل میرے کے تئیں پھنسا رکھا ہے، افتاں و خیزاں آ ہی پہنچوں گی لیکن اس صورت میں نتیجہ اس کا تیرے حق میں بھی خوب نہیں۔ ان نے جو اشتیاق میرا نپٹ بے قراری سے اپنی طرف پایا اور غرض اس کی اسی میں منظور تھی، بہ ہزار ناز و نیاز آیا۔ میں نے پوچھا کہ دل تنگی و آزردگی تیری کی کیا وجہ ہے کہ اتنی شوخی سے پیش آیا۔ عرض کیا کہ میں جو خاک برداشتہ اس جناب کا ہوں بحکم اس کے، مصرع:
ناز بر آں کن کہ خریدار تُست
نظر اوپر دلداری ملکہ جہانیاں کے بتوقع عفو تقصیر و امید اجابت التماس کے واقعی بے ادبی سے پیش آیا؛ پر اب، بیت ؎
بہ جان و دل ستی تقصیر وار حاضر ہے
ذبح کرو اسے یا چھوڑ دو ہوا سو ہوا
میں کہ کشتہ تیغ نگاہ اس کے کی تھی، حرکت اس کی سے دیدہ و دانستہ اغماض کرکے بولی کہ کیا وہ شکل ہے کہ جس کا حل ہونا اس قدر مشکل ہے۔ جوان نے عرض کیا کہ میں بے چارہ خاک برداشتہ اور محتاج اس آستانۂ دولت کا ہوں۔ اس سبب سے میرے تئیں بہ قول اس مضمون کے بہر طور مشکل ہے:
نے زر کی اسے قدرت، نے زور کی ہے طاقت کس طرح سے کاٹوں میں، کٹتی نہیں یہ زحمت |
نے عجز سے کچھ حاصل، نے کام کرے منت کیا فکر کروں اس کا، لاحول ولا قوۃ |
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور آپ بفصل الٰہی ملکۂ زماں اور مالک الملک ہیں، اس واسطے بقول اس مضمون کے سب طرح آسان ہے، مخمس:
حاتم کو نہیں قدرت ہمت کو تری پاوے قاروں کے خزانے کو اک دم میں جو لٹواوے |
منہ کس کا سخاوت کے آگے جو ترے آوے اس دل کی بھی مشکل کو آسان تو ہی کراوے |
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
آخرش بعد گفتگوے بسیار کے فحواے کلام اس کے سے معلوم ہوا کہ ایک باغ خوش تعمیر نہایت شگفتگی و طراوت میں روح افزا متصل محل سرا اس جوان کے اور اس کے شامل ایک کنیز مغنیہ کہ علم موسیقی میں کم و بیش مہارت رکھتی ہے، اس طرح سے جیسے اونٹ کے ساتھ بلی، یعنی اگر باغ لیجیے تو لونڈی بھی ساتھ ہی کوئی شخص فروخت کرتا ہے اور مزا یہ کہ مثلاً قیمت اونٹ کی ایک روپیہ تو بلی کی قیمت سو روپیہ پر جگ نہ پھوٹے۔ علی ہذا القیاس قیمت باغ اور لونڈی کی کہا چاہیے۔ غرض وہ عزیز از بس بے اختیار مائل خریداری اس کے کا ہے، لیکن بسبب عدم سر انجام زر قیمت کے دست آرزو اس کے کا گل چینِ مراد کا نہیں ہوسکتا۔ اس سب سے غنچہ خاطر اس کے کا افسردہ ہو کے بہار روے اس کے کی مانند برگ خزاں رسیدہ کے بے رونق کر رہا ہے۔ میرے تئیں کہ دلداری اس کی ہر وقت منظور نظر و ملحوظ خاطر کے تھی، اسی وقت خواجہ سرا کے تئیں حکم کیا کہ صبح پیش از طلوع آفتاب قیمت اس کی مشخص کر کے کلید تصرف اس کے کی بیچ قبضۂ اختیار اس جوان کے چھوڑ۔ بارے اس بات کے سننے سے جوان نے غبار تفکر کا کہ اوپر چہرہ جمال اس کے بیٹھا تھا، دامن تشفی کے سے پاک کیا اور تمام شب نظاره جمال میرے کے سے اس کو اور اس کے سے میرے تئیں ہمدوش شادمانی کے وہم آغوش کامرانی کے رہنا اتفاق ہوا۔ علی الصباح جس وقت تدرو آفتاب کا بیچ سبزہ زار سپہر کے خراماں ہوا، کار پردازان حضور کے یوں ہی عمل میں لائے۔
چند روز اس واردات کو گذرے تھے، ایک روز اتفاقاً موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھا اور ابر بھی زور طرح سے ہو رہا تھا اور بجلی بھی یوں کوند رہی تھی جس طرح بینجنی پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشح نیں عجب مزا کر رکھا تھا اور ستھری ستھری گلابیاں شراب ارغوانی سے بھری ہوئیں اس ڈول سے رکھیاں تھیں کہ یاقوت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے خون ہو جاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادہ مروّق سے نوش کروں کہ یکایک ایک شعر بے اختیار زبان میری پر گذرا ؎
چمن ہے، ابر ہے، عیش و طرب ہے، جام و صہبا ہے
پر اک باقی ہے مجھ کو ساقیِ گلفام کی خواہش
اور اسی حالت میں میرے تئیں اشتیاق سیر باغ نو خرید کا سلسلہ جنباں ہوا۔ چنانچہ ایک دایہ کے تئیں ہمراہ لے کر نقب کی راہ سے اس کی حویلی تک اور وہاں سے طرف باغ کے متوجہ ہوئی۔ دیکھتی کیا ہوں کہ واقعی باغ بڑی ہی بہار سے گوے سبقت کی روضۂ رضواں سے لے گیا ہے۔ ایک ادنی کیفیت اس کی بیان کروں کہ ترشح سے تقاطر کے باغ کے درختوں پر یہ عالم ہو رہا تھا کہ گویا چتر زمردیں پر موتیوں کی جھالر جھلکتی ہے اور سرخی گل ہاے شقائق و ریاحین کی شام کے وقت بدلی میں یہ لطف دیتی تھی کہ جیسے رنگریز قدرت کا ابر کے وصلچے شفق میں پھیلا رکھتا ہے، بوٹا کاری و رنگ طرازی نقش و نگار بنگلوں کی نے نگارخانہ ارژنگ کے تئیں پرے کر رکھا تھا اور شفافی آب زلال حوضوں کی نے صفاے تختہ آئینۂ حلبی کے تئیں بے آب کر دیا۔ سخن مختصر میں بہ تلاش اس جوان کے خراماں خراماں باغ میں سیر کرتی پھرتی تھی کہ اس اثنا میں طاؤس مرصع دم آفتاب کا اوپر دیوار شفق کے جلوہ گر ہوا اور کویل مشکیں بال شب کی آشیانہ مغرب کے سے بلند پرواز عرصہ روزگار کی ہوئی کہ ناگاہ وہ عزیز خیاباں کی طرف سے نظر پڑا۔ خدا جانے اس کو آگے ہی سے میرے آنے کی اطلاع تھی یا کیا تھا کہ میرے تئیں دیکھتے ہی نپٹ تپاک سے پیش آ کے ہم دست ہوکر متوجہ بارہ دری کا ہوا۔ سبحان اللہ! وہاں کا جو عالم دیکھا تو شام کی بہار پر بھی کچھ فوقیت رکھتا تھا اور از روے انصاف کے کہیے تو تماشے کے عالم میں رات نہ تھی گویا شب برات تھی۔ اگر چراغاں کی کیفیت کا ذکر کروں تو دل مانند قمقمہ محفل سرا بستان ارم کے تجلی بخش دیدهٔ بصیرت ارباب ذوق کا ہو جاوے اور کنول چمن کے روشنی کا بیان کیجیے تو غنچہ دل کا مانند گلریز کے ہواے محبت اس کی گل کی صورت میں پکھڑی پکھڑی ہو کے جھڑ جاوے۔ ایک طرف انار کے جھاڑ نے مانند جھاڑ درخت چنار کے گلہاے آتشیں سے صحن باغ کے تئیں گل انار کر رکھا تھا۔ گھونگھچی کے گلدستہ نے گلدستۂ شقائق و ریاحین کے تئیں اپنی روشنی کے شعشہ سے اس کے جگر کو حسرت سے داغ داغ کر دیا تھا۔ ہوائی نے اپنی بلند پروازی کے رو برو ہوا کے تئیں بے بال و پر کر رکھا اور پٹاخے نیں اپنی غُرّش کے آگے بادل کی گرج کو صم بکم کر دیا۔ ہتھ پھول کا جو لطف کہوں تو بے شائبۂ تکلف جس طرح کرن پھول خورشید کا بیچ بنا گوش عروس صبح کے جھلکتا ہے اور پھلجھڑی کی گل افشانی کا جو ذکر کروں تو بے تصنع جیسے قمر کے نوشہ کے مکھ پر کرن کی جوت مقیش کے سہرے میں جھلملاہٹ کرتی موتی کی لڑی جھمکتی ہے۔ اس عرصہ میں آتش باز فلک کے نے ماہتابی ماہتاب کے تئیں روشن کیا یعنی اس وقت ابرِ سیاہ میں یکایک چاند نکلا تب کچھ اور ہی تماشا نظر آیا گویا نافرمانی لباس سے کسی ماہرو نے نقاب چہرہ سے اُٹھا کر جلوہ دکھلایا۔ غرض چاندنی کے نکلتے ہی جوان میرے تئیں اوپر بالاخانہ بُرج باغ کے لے گیا۔ از بس کہ بُرج باغ کا دیوار شہر پناہ کے سے اتصال رکھتا تھا، میرے تئیں اُس کی بلندی پر اپنے حُسن کے روبرو تمام چراغانِ بازار شہر کا، یوں معلوم ہوتا تھا جس طرح آفتاب کے آگے ذرے چمکتے ہیں اور میں اُس عالم میں جوان کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے خوش وقت تھی۔ اس عرصہ میں ایک کنیز بد ہیئت ایک شیشہ آتشیں شراب دو آتشہ سے لبریز کہ جس کے چند قطرہ میں انسان حیوان بن جاوے، ہاتھ میں لیے مانند کسوف کے خورشید جمال میرے کے تئیں دابتی ہوئی آئی، جو از بس کریہ منظر تھی۔ میرے تئیں آنا اُس کا دل کو نہ بھایا اور اُس جوان سے پوچھا کہ یہ تحفہ معجون کہاں سے بہم پہنچائی۔ تب نہایت خوشامد سے لگا کہنے کہ یہ وہی کنیز مغنیہ ہے کہ آپ کی عنایت سے خرید ہوئی۔ خیر جو میرے تئیں معلوم ہوا کہ جوان نے اُس کے تئیں نپٹ خواہش سے خرید کیا ہے، شاید کچھ گوشہ خاطر کا بھی طرف اُس کے مصروف رکھتا ہو، لاچار پاس خاطر اُس کی سنگ آمد و سخت آمد جان کر خاموش ہو رہی لیکن مزاج اسی وقت سے منغض ہوا۔ تِس پر قیامت یہ کہ اس بدبخت نے بہ مقتضاے اس کے کہ کند ہم جنس باہم جنس پرواز، ساقی اُسی ناپاک کو مقرر کیا۔ اُس وقت جیسے طوطی کو ساتھ زاغ کے بند کرتے ہیں، نوبت میری گذری، نہ پاے رفتن نہ روے ماندن۔ قصہ مختصر جو اُس کی نفس امارہ جوش پر تھی، علی التواتر دو چار جام شراب کے بیچ صُراحی حلقوم جوان کے ڈھالے اور ایک آدھ پیمانہ بیچ گلابی غنچہ دہاں میرے کے۔ آخرش رنڈی کچھ بدمست سی ہو کر جوان کے ساتھ عشوہ سازی و غمزہ پردازی میں آئی اور وہ بھی کچھ چبلّا سا حالت مستی میں بے لحاظ ہو چلا۔ اُس وقت میری یہ حالت ہوئی کہ اگر زمین پھاٹے تو سما جاؤں۔ لیکن میں احمق جب بھی بتوقع حرف وفا اُس بے وفا کے یہ دو بند واسوخت کے پڑھ اُٹھی ؎
کیوں رے بے مہر تجھے یاد ہے وہ اگلی چاہ تو جو اخلاص کا اپنے نہیں کرتا ہے نباہ غیر سے سامنے میرے تو لڑاتا ہے نگاہ |
ایک دن میری جدائی کا تجھے تھا سوماہ کہہ تو اب کون سا اثبات کیا مجھ پہ گناہ اس قدر ہم سے تو بیزار ہے سبحان اللہ |
گر بظاہر بہ کسے خلق نکو خواہی کرد
شوخ با ما تو چہ کردی کہ بہ او خواہی کرد
اس قدر چشمِ مروت کا اُٹھا مت یکبار خوبرویوں میں تجھے کن نے بنایا سج دار بلکہ پھرتا تھا تو ہر ایک کے گھر سو سو بار |
چھوڑ کر حق کو نہ کر کفر کی باتیں زنہار ورنہ خوباں میں کوئی تجھ کو نہ کرتا تھا شمار اپنی مجلس میں نہ دیتا تھا کوئی تجھ کو بار |
ایں زماں جاے تو در دیدۂ مردم شدہ است
روے زیباے تو از دیدۂ ما گم شدہ است
آخرش وہ جو کہتے ہیں کہ “تربیت نا اہل را چوں گردگاں بر گنبد است”۔ یہ سب گفتگو یوں ہوئی جیسے بھینس کے آگے بین باجے یعنی اُس قمار باز قمار خانۂ بے حیائی کے نیں نقد ہوش و عقل اپنے کے تئیں کھیل ڈالا اور خزینہ سینہ کا متاع الفت و محبت میری کے سے خالی کیا اور اسی وقت بہ مقتضاے بے غیرتی کے ہواے نفسانیت جوان کی نیں دامن شرم گاہ کنیزک کے تئیں مانند گریبان غنچہ سیاہ دھتورے کے چاک کیا اور اُس کنیز بے تمیز نیں بیچ عالم بدمستی کے خمخانۂ ملاقات جوان کے سے ساغرِ مراد کا پیا۔ ہنگامۂ ناز و نیاز کا گرم ہوا اور پیمانہ بوس و کنار کا لبریز۔ اُس وقت ؎
نہ اُس بے وفا کو وفا سے اثر
نہ اُس بے حیا کو حیا سے نشاں
تب کاسہ دماغ میرے کا مانند دیگ کے آتشِ جنوں سے جوش میں آیا اور معنی الخبیثات للخبیثین کا مطابق حال اُن دونوں نابکار کے جان کے حالت غضب میں سخت کہتی ہوئی اُٹھی۔ جوان نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر ملکہ ناخوش اُٹھی، خدا جانے کہ صبح کیا قیامت نازل ہوگی۔ پس اس کے تئیں یہیں فیصل کیجیے۔ بارے یہ ارادہ کر کے موافق صلاح اُس فاحشہ کے اول مکر و تزویر سے میرے تئیں پھسلا پُرچا بٹھلایا اور اُس بادۂ ہوش رُبا کے دو چار جام متواتر سے میرے تئیں مدہوش کیا۔ جس وقت دُزد غفلت کے نے اوپر قافلہ حواس میرے کے شب خوں کیا، اُس بے رحم سنگ دل نے سنگ ستم کا اوپر سینۂ الفت کے رکھ کے اِس بے گناہ کو ساتھ تیغ بے دریغ کے زخم ہاے کاری سے رشک گلہاے ارغواں کا کیا۔ میں کہ کشتۂ تیغ ابروے خمدار اس کے کی تھی، اُس وقت بھی اپنی محبت سے نہ چوکی کہ باوجود اس حرکت کے جوان کی طرف مخاطب ہو کے کہا :
مبادا ہو کوئی قاتل ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا
اور ایک رباعی مرزا سوداؔ صاحب کی کہ حسب حال اُس وقت کے تھی، پڑھی ؎
بدلہ تیرے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے قاتل ہماری لاش کو تشہیر ہے ضرور |
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے آئندہ تا کوئی نہ کسی سے وفا کرے |
یہ کہہ کر خاموش ہوئی پھر میرے تئیں خبر نہیں۔ شاید بعد اس ماجرے کے اُس قصاب نے اپنی دانست میں میرے تئیں بے جان سمجھ کر درمیان اُس صندوق کے کہ تو واقف ہے، زیر دیوار شہر پناہ کے لٹکایا لیکن اگر اوقات آدمی کے مرنج مرنجاں سے گذرتے ہوں گردش فلکی سے اُس کے حال پر اگر رسی ظلم کی کبھی دراز بھی ہو تو اُس کے حق میں حبلُ المتین عنایات فضل الٰہی کی عروۃ الوثقیٰ توفیقات فیض نامتناہی کی ہو جاوے۔ واقعی سچ ہے تو یہ ہے دشمن چہ کند چو مہرباں باشد دوست۔ قدرت خدا کی دیکھیے کہ اُس وقت اپنے فضل و کرم سے تیری تئیں بھیجا کہ باعث شفا کا ہوا۔ قطعہ ؎
وہ جناب کبریا ایسا ہے جس کی حمد میں اتنی ہی ہے آرزو میری کمال عجز سے |
ہو سکے آدم کی خلقت سے کوئی رطب اللساں اپنے بندوں پر رہے یونہی سدا وہ مہرباں |
ہر چند مقتضا حیا کا نہیں کہ باوجود اس رسوائی کے اپنے تئیں سلامت رکھوں لیکن کیا کروں، رشتہ حیات کا زبردست تھا۔ ؏
جو جو خدا دکھاوے سو لاچار دیکھنا
قصہ کوتاہ، بعد از ظہور صورت شفا کے تیرے تئیں بے خرچ دیکھا، وہ رُقعہ شیدی بہار نامی اپنے خزانچی کو لکھا تھا کہ میں خیریت سے بالفعل جلوہ افروز فلانے مکان کی ہوں تو خبر میری بیچ جناب سِر اوقات عصمت حریم بادشاہی کے پہنچا دیجیو اور بہ مجرد ملاحظہ شُقہ کے گیارہ توڑے اشرفیوں کے حوالہ اس عزیز کے کیجیو اور جب تیرے تئیں واسطے خرید کرنے جواہر و خلعت کے اوپر دوکان یوسف سوداگر بچے کے بھیجا، اصل یوں ہے کہ میرے دل میں تھا کہ تیرے تئیں مرد اجنبی جان کے اغلب کہ تکلیف دعوت کی کرے گا۔ چنانچہ تصور میرا درست پڑا کہ وہاں بہ موجب خیال میرے کے عمل میں آیا اور یوں تو اُس کے تئیں متوقع ایفاے وعدہ کا کر کے واسطے اِسترضا میری کے آیا۔ جو یہ بات بہ موجب تخیل میرے کے ہوئی بہ خیال اس کے کہ جب تو نقل اِجابت کا خوان دعوت اس کے سے تناول کرے گا شاید کہ وہ بھی اگر توں بجد ہو تو شراب ضیافت تیری کی سے مخمور ہو، رخصت تیری اُس وقت مقرون بہ صلاح جانی۔ بعد سہ شبانہ روز کے توں جو مہمانی سے فراغت کر کے نزدیک میرے آیا اور بہ سبب اس غیر حاضری کے عرق انفعال کا اوپر چہرہ کے لایا، اُس وقت میں نے تیری تشفی کے واسطے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں رفتن بہ ارادت و آمدن بہ اجازت۔ توں زِنہار دامن اطمینان کے تئیں غبار وسواس کے سے آلودہ نہ کر لیکن تیرے تئیں بھی اُس کی ضیافت کی تیاری از جملہ واجبات ہے۔ توں حسب الحکم میرے واسطے طلب اُس جوان کے گیا۔ پر میں جو دیکھتی ہوں تو کچھ اسباب ضیافت کا تیار نہیں۔ جو ایام سلف سے رسم و آئین مقرر ہے کہ سلاطین اس مملکت کے نہ ماہ تک بیچ مُہمات مالی و ملکی کے مشغول رہتے ہیں اور باقی موسم برسات میں بیچ دار الخلافت عالیہ کے رونق افزا ہوتے ہیں، اتفاق حسنہ یہ کہ اس وقت دو چار ماہ پیشتر سے والد بزرگوار یعنی خسرو عالی تبار والی اس دیار کا موافق قاعدہ مستمرہ کے بیچ گرد و نواح ممالک دمشق کے متوجہ بہ نظم و نسق اُمورات سلطنت کے ہوا تھا اور شبستان دل میرے کے تئیں آتشِ غضب خشمگین کی سے خوف جلا دینے کا تھا، جب تک کہ تو معاودت کرے میں فرصت کو غنیمت جان کے بیچ جناب بادشاہ بیگم کے کہ مادرِ مہربان تھی، سوار ہو کر پہنچی جو ستار حقیقی نے وصف ستار عیوبی کا بیچ حق مادر بزرگوار کے عطا فرمایا ہے، ابتدا سے انتہا تک قصہ سرگذشت اپنی کا اور حقیقیت گناہ و بے گناہی کی مفصل نقل کی۔ معلوم ہوا کہ مادر مہر پرور نے میرے غائب ہونے سے بہ مُقتضاے دور اندیشی کے سنگ شہرت کا اوپر دیوار رسوائی کے نہیں مارا کہ آخرش یہی سنگ اُلٹ کر تمام خاندان کے ننگ و ناموس کا سر ٹکڑے کرے گا لیکن مخفی تلاش تھی۔ اس عرصہ میں زبانی شیدی بہار خزانچی کے رقعہ کے رو سے خبر معلوم ہوئی۔ بعد ازاں میں جا پہنچی۔ تب اوپر حال میرے کے آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ کمبخت توں نے جو دیدہ و دانستہ شیشہ ننگ و ناموس سلطانی کا رسوائی کے پتھر پر توڑا، یہ کیا کِیا۔ ہزار حیف۔ علاوہ اُس کے پیمانۂ عمر اپنی کے تئیں بادۂ زندگانی سے خالی کیا، توبہ و استغفار کر۔ خوب ہوا سو ہوا ؎
تقدیر کے لکھے کو امکان نہیں دھونا
تقصیر نہیں دل کی قسمت کا بدا ہونا
پر اب مطلب تیرا کیا ہے؟ تب میں نے کمال محجوبی سے عرض کیا کہ جو کلک قضا کے نے بیچ دیوان مشیت کے مجھ سیہ اختر کے حق میں یوں رقم کھینچا ہو کہ اس خواری اور بدنامی سے بیچ زمانے کے بسر لے جاؤں، اس سے یہی بہتر کہ تن قضا کو دوں اور نقد جاں کے تئیں حوالہ متقاضی اجل کے کروں لیکن ستم یہ ہے کہ وہ دونوں نابکار میرے ہاتھ سے نجات پا کے چاشنی لذت کی خوان زندگانی کے سے حاصل کریں اور میری آتش حسرت تلافی کی دل کی دل ہی میں سرد ہو، پس امیدوار ہوں کہ اگر کار پردازان کارگاہ حضور عالیہ کے تئیں ارشاد ہو تو سامان ضیافت کے تئیں آئین شائستہ سے بیچ غریب خانہ کے زیر ترتیب کا دیویں کہ میں بہ حیلہ ضیافت کے اُن دونوں سیہ بختوں کو بُلوا کر بہ پاداش نکوہیدہ عمل کے انتقام اپنا لوں یعنی رحیق حیات کی ایاغ وجود ناپاک اُن کے سے اوپر خاک عدم کے ڈالوں۔ بارے کچھ تو تلافی مافات کی ہو۔ مادر سراپا مہر بہ تقاضاے عطُوفت مادری کے عیب میرے کے تئیں مستور کر کے سب لوازمہ ضیافت کا ہمراہ اُسی خواجہ سرا کے کہ عالم صِغر سِن سے محرم اسرار میرا ہے، بھیجا اور باری داران حضور کے تئیں اپنے اپنے عہدہ پر بدستور محفل سلطانی کے آراستہ کیا۔ جب فرّاس سپہر کے نے اسپک نیلگوں شب کو بیچ عرصۂ شام کے استادہ کیا توں اُس جوان جواہر فروش کے تئیں ہمراہ لے کر داخل میہمان خانہ کے ہوا۔ جو میرے تئیں اُس کی معشوقہ کو بھی بُلوانا منظور تھا، تیرے تئیں واسطے طلب اُس کے تقید کیا۔ چنانچہ وہ بھی آتے ہی بادہ پیما پیمانۂ عشرت کی ہوئی۔ جس وقت کمیں دارانِ مستی کے اوپر بدرقہ ہوشیاری اُن بے ہوشوں کی تاخت لائے اور تو بھی مانند قالب بے جان کے دست و پا دراز کر کے مست شراب غفلت کا ہوا میں نے ایک قلماق کے تئیں حکم کیا کہ ان دونوں ناپاک کے تئیں ساتھ تیغ بے دریغ آبدار کے اوپر بستر فنا کے آرام سے سُلا دے۔ چنانچہ اُس نے بہ موجب اجازت میری کے سر اُن دونوں بے حیاؤں کا مانند گوے اوپر زمین نیستی کے لوٹایا توں جو مَورد عتاب میرے کا ہوا تھا، اُس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے تیرے تئیں اجازت تیاری لوازمہ میہمان داری کی دی تھی نہ کہ برخلاف مرضی میری کے دل جمعی سے آشناے دو روزہ کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہو جائے۔ یہ حرکت البتہ میرے تئیں خوش نہ آئی اور واقعی جب توں از خود بے خود ہوا، پھر شرط رفاقت کی کہاں رہی لیکن سوابق حقوق تیرے نے گردن میری کے تئیں اس قدر زیر بار منت کا کر رکھا تھا کہ الماضی لا یذکر کو کام فرمایا۔
قصہ کوتاہ و سخن مختصر، اے عزیز طوطی نُطق پرداز! حکایت سرگذشت میری کی اس قدر گویا تھی کہ بیچ چمن گفتگو کے نغمہ سرا ہوئی۔ پر اب آرزو دل کی یہ ہے کہ جو میں پاس خاطر تیری کے تئیں بجا لائی پس تو بھی حرف زبان میری کے تئیں کزلک اِغماض کے سے محو نہ کر یعنی اب قدم سکونت کا بیچ اس دیار کے قائم رکھنا صلاح وقت نہیں، آگے مختار ہے۔
اے یاران غمگسار! ملکہ جدول کلام کی اوپر صفحۂ بیان کے یہاں تک کھینچ کر خاموش ہو رہی۔ اُس وقت میں کہ مقید سلسلۂ عشق و گرفتار دام محبت اُس کی کا تھا، رضاے خاطر اُس کی کے تئیں سب چیز پر مقدم جان کے بولا ؎
ہے پرورش سخن کی تری مجھ کو یاں تلک بے مرضیِ شریف کروں گا نہ کام کچھ |
چلنا زمیں کا کیا ہے اُڑوں آسماں تلک تنگی سے گر ہو چاک گریبانِ جاں تلک |
زیادہ اس سے کیا کہیے۔ تب ملکہ نے میرے تئیں رفیق دل سوز اپنا جان کے حکم کیا کہ دو بادپا سُبک رو سُبک خرام اصطبل بادشاہی سے طلب کر کے مستعد تیاری روانگی کا رہو۔ چنانچہ بندہ نے حسب الحکم ملکہ کے دو گلگوں برق رفتار جلد بازی و سُبک خرامی میں ایسے ہی خوب کہ بے مبالغہ ہواے مجسم کہا چاہیے ؎
چمن میں صنع کے اُن کی سُبک روی آگے غرض وہ گرم عِناں ہو کے جب چمک جاوے |
کبھو نہ ایک قدم چل سکے نسیم بہار نہیں پہنچتی ہے برق اُن کی گرد کو زنہار |
لا کر حاضر کیے، جس وقت باج بہادر ماہتاب کے نے روپ متی زہرہ کے تئیں اوپر اشہب خوش خرام سپہر کے سوار کر کے مُسافت چند کروہ کی طے کی تھی۔ چار گھڑی شب باقی ماندہ تھی یہ فقیر ملکۂ قمر طلعت کے تئیں اوپر شبدیز شبرنگ کے لباس مردانہ سے سوار کر کے اور آپ بھی کُمیت تیز رفتار پر ہمراہ ہو کر مانند باج بہادر و روپ متی کے چلا و شبانہ روز بہ طرز مہر و ماہ کے سریع السیر ہو کے تھوڑے عرصہ میں مسافت چند روزہ کی طے کر آیا۔ کوئی گھڑی میں راہ کاٹنے کے واسطے موتی آبدار حکایات دلچسپ کے نثار حُسن مسامع اُس مایۂ ناز کے کرتا ور کوئی ساعت پھول کلمات دلفریب کے گلزار دہاں اُس کے سے بیچ چمنِ سمع اِس سراپا نیاز کے جھڑتے۔ اسی طور سے ہنستے کھیلتے باتیں کرتے چلے جاتے تھے۔ ہر ایک روز عید تھا اور ہر ایک رات شب برات۔ ہر منزل میں کنول دل کا نہایت بالیدگی سے یوں کھل رہا تھا جیسے دِہ میں کنول پھول رہتا ہے اور ہر مقام میں غنچہ خاطر کا ازبس شگفتگی سے یوں پھول رہا تھا جس طرح موسم بہار میں شگوفہ کھل رہتا ہے۔ لیکن میرے تئیں اس سپہر بے مہر کی کج روی پر آتا ہے کہ یکایک عشرت کے لفظ سے شین کے نقطے دور کر کے سین کے حرف کو پیش پہنچایا کہ عشرت کے لفظ کا بے نقطگی سے بازار گرم ہوا اور تو کیا کہوں، دل جلے پر یہ شعر مرزا سوداؔ صاحب کے، زبان سے بے اختیار اُس کے حق میں نکلتے ہیں ؎
مستعد اتنا ہے یہ افعی گزند خلق پر خوان پر اُس روسیہ کے مت سمجھ تاروں کو نُقل ختم اُس پر ہو چکی بد خلقی و بد خصلتی کام عالم کا بسانِ جوے تصویر اُس کے ہاتھ جب تلک ہر گز نہ کھولے کار بستہ سے گرہ دیکھ ٹک احوال عنقا کا کہ اس ظالم کے ہاتھ پابرہنہ میں پھروں خوبوں کی خاطر دھوپ میں کیا کروں اُس کے تلون کی طبیعت کی میں نقل پس جو ایسا ہو کوئی، اے دل نہ کیجیے اس کا ذکر گر نسیم زلف کا اُس کے چمن میں ہو بیاں طوطیِ تصویر اُس کے روبرو کرتی ہے نطق |
پیچ اُس کے چال کا دیکھا تو ہے شکل دہاں چمکے ہیں تودے میں خاکستر کے یہ چنگاریاں پھر نہ آیا اپنے گھر اُس کے گیا جو میہماں بند رہتا ہے بمعنی گر بصورت ہو رواں تا نہ باندھا چاہیے محکم کر اُس پر یہ گماں نام گر پیدا کرے کوئی تو مٹ جائے نشاں خار کے سر پر کرے دامان گُل کو سائباں کیا کروں نیرنگیِ گردش کا اب اُس کے بیاں آشنا کر اب غزل خوانی سے تو اپنی زباں نکہت گُل سے پریشاں ہو دماغ بلبلاں محو جو دیدار کا تیرے ہوا آئینہ ساں |
یعنی عین مزے میں اُس پری چہرہ نے کہ جس کی تعریف میں اس روسیاہ کا ذکر کرتے کرتے عاجز ہو کے آخر کے دو شعر پڑھ گیا ہوں، مجھ سے کہا کہ غنچہ دہاں میرے کا تشنگیِ تپش سے کمھلایا جاتا ہے۔ اگر کہیں سے تھوڑا سا پانی ملے تو چشمۂ آبِ حیات سے گویا حیاتِ جاوداں پائے۔ میرے تئیں جو آرام خاطر اس آرام خاطر کا اپنے آرام خاطر پر مُقدم تھا، اُس نازنین کے تئیں زیر سایہ درخت کے بٹھلا کر بہ تلاش پانی کے چلا۔ چلتے چلتے درمیان اُس صحراے ہولناک کے ایک دریا مہیب کہ جس کے خیال سے زہرہ دل کا آب ہو جائے نظر آیا۔ بارے فقیر کے تئیں باوجود وحشت کے ایک طمانیت حاصل ہوئی اور اس چشمہ سے ایک صُراحی پُر کر کے نزدیک اُس درخت کے لے پہنچا۔ وہاں جو دیکھتا ہوں تو خیریت نہیں یعنی وہ ماہ شب چہار دہم بیچ ابر غیب کے سما گئی۔ تب میں گھبرا کر یہ اشعار پڑھتا ہوا چلا ؎
عشق ہے دامِ بلا، زلفِ پریشاں مددِے ہجر میں یار کے پھرنا ہے مجھے دشتِ عظیم |
راہ بھولا ہے یہ دل، خضر بیاباں مددے پا برہنہ ہے مرا، خارِ مغیلاں مددے |
جہاں کہیں سیلِ سرشک میرے کا رِیزش کرتا دریا از بس خِجالت سے آب آب ہو جاتا اور جس جگہ نائرہ آہ میری کا مُلتہِب ہوتا، شعلہ نہایت حسرت سے سوخت ہو جاتا۔ اسی طرح سے ڈھونڈھتا پڑا پھرتا تھا اور قدم قدم پر بیٹھ بیٹھ کر آئینے کی مثال، پشت بہ دیوار حیرت ہو کر دیدۂ پُر آب سے رو رو کر یہ شعر پڑھتا تھا ؎
بٹھا گیا ہے کہاں یار بے وفا مجھ کوں کبھی مقیم حرم ہوں کبھی ہوں ساکنِ دیر |
کوئی اُٹھا نہ سکا مثلِ نقش پا مجھ کوں کِیا خراب مرے دل نے جا بجا مجھ کوں |
اگر روز ہے تو آتشِ اِستیلاے اشتیاق اُس کی سے جگر داغ و سینہ پُر سوز، اگر شب ہے تو اشتعالہ آہ فراق اُس کے کا بیچ کانون دل کے شعلہ افروز۔ نہ جی کو قید جسم کی سے رہائی اور نہ جسم کو ساتھ جی کے توقع آشنائی۔ دل اُس کی یاد میں نہایت بے تاب اور جان اُس کے خیال میں سراپا اضطراب ؎
روٹھا ہے اب وہ یار، جو ہم سے جدا نہ تھا یہ جور عشق، کس کے بلا کی نظر میں تھا |
یوں بے وفا ہوا ہے، گویا آشنا نہ تھا جب لگ ہزار جاں سے یہ دل مبتلا نہ تھا |
واقعی اگر مجنوں دِل مُضطرب میرے کا مفتُون جمال اُس لیلی نژاد کا نہ ہوتا تو اس کمبخت کو صحرا نوردی و دشت پیمائی سے کیا کام تھا۔ واہ واہ حضرت دل نے مجھ غریب پر خوب وار کیا۔ شعر:
میں دشمن جاں ڈھوندھ کے اپنا جو نکالا
سو حضرتِ دل، سلمہ اللہ تعالیٰ
آخرش جب بیچ پاے تلاش و اُمید کے آبلے یاس و نومیدی کے پڑے لاچار تن بہ تقدیر دے کر یہ خیال میرے جی میں گذرا، مخمس:
اس زیست سے بہتر ہے اب موت پہ دل دھریے کس طور کٹیں راتیں کس طور سے دن بھریے |
جل بجھیے کہیں جا کر یا ڈوب کہیں مریے کچھ بن نہیں آتی ہے، حیراں ہوں کیا کریے |
کیا کام کیا دل نے، دیوانے کو کیا کہیے
اس عرصہ میں بیچ صحرائے لق و دق کے ایک پہاڑ نظر آیا، میرے دل میں یہ ارادہ مصمم ہوا کہ اوپر اس کوہ کے جا کے ایسا ہی گروں کہ استخواں سے نشان نہ رہے۔ چنانچہ اُس طرف کو متوجہ ہوا۔ چلتے چلتے اوپر ارتفاع پہاڑ کے پہنچ کر چاہتا ہوں کہ قلۂ کوہ سے گرا کر اپنے تئیں ضائع کروں کہ اس اثنا میں ایک سوار سبز پوش باساز و یراق مُسلح ناگہانی پیدا ہو کر مجھ سے فرمانے لگا کہ توں زینہار مُرغ روح اپنے کے تئیں بیچ ہواے ناکامی کے پرواز نہ دے۔ بعد اِنقضاے چند روز کے بیچ مرزبوم روم کے تین درویش اور ہمدرد تیرے با یک دگر ملاقات کریں گے۔ اُس وقت ان شاء اللہ تعالیٰ بہ طفیل فرخندہ سیر نامی بادشاہ روم کے کہ اُس کے تئیں بھی ایک مشکل لاحل درپیش ہے، فیض صحبت ہم دیگر کے سے شاہد مقصود ہر ایک کے نقاب حجاب کا درمیان سے اُٹھا کر چہرہ کشا ہوں گے۔ یہ بات فرما کر پھر بیچ عالم غیب کے غائب ہو گیا۔ قصیدہ:
تب وہیں پوچھا مرے دل نے یہ پیر عقل سے کس کا یہ ارشاد میرے حق میں ہے تسکیں فزا یوں کہا پیرِ خرد نے مجھ سے اے ناداں! خموش مطلق آگاہی نہیں، اِس راز سے میرے تئیں واقف اس اسرار کا کوئی نہیں جُز ذاتِ حق لیکن اتنا میں سمجھتا ہوں کہ جُز ذات علیؓ اس کی قدر و منزلت کا کیا کروں تجھ سے میں ذکر کس کا ہے مقدور، جو کچھ لکھ سکے اُس کا جلال پر کیا تو نے جو مجھ سیتی سوال اس بات کا تا قیامت ہو نہ آدم پر ہویدا سِر غیب لیکن اُس کی ذات کے مظہر کا یہ اسرار ہے پس بقول حضرتِ تحسینؔ کہ اپنے طرز میں |
کس کے تھا نورِ قدم سے جلوہ افزا یہ مکاں جس کے سُننے ہی سے میری ہو گئی خاطر نشاں کیا مری طاقت ہے تجھ سے گر کروں اُس کا بیاں اس کی تحقیقات کا ہرگز نہ کر مجھ پر گماں راز کا اس کے نہیں کوئی بجز حق رازداں کس کو قدرت ہے جو اس صورت سے آ کر ہو عیاں عرش جس کا فرش ہو، کُرسی ہو جس کی لامکاں کون ہو سکتا ہے اُس کے وصف سے رطلب اللساں اس کا دیتا ہوں جواب، اب دل سے اس پر کر نشاں تا نہ ہووے منکشف اس پر کبھو راز نہاں ہے جو کچھ مخفی جہاں میں، اُس پہ رہتا ہے عیاں بے تکلف ہے وہ گویا طوطیِ ہندوستاں |
ہو جو کچھ الہام مولا اُس پہ اے دل کر عمل
ہو جو فتح الباب مقصد اُس طرف کو ہو رواں
بارے بندہ بہ موجب ہدایت اپنے مولا مُشکل کشا کے روانہ منزل مقصود کا ہوا۔ اگرچہ دل کے تئیں تسکین امید کی حاصل ہوئی تھی لیکن خار فراق اُس گلبدن کا، بیچ پاے تلاش میرے کے اس قدر چبھا تھا کہ جب تلک گلدستہ مراد کا گلستانِ وصال محبوب دل نواز کے سے رونق بخش دیدۂ انتظار کا نہ ہووے، رونے سے سروکار رکھوں۔ چنانچہ اُس جنگل مہیب میں تن تنہا روتا ہوا چلا اور اُس وقت سِواے قافلۂ اشک کے کوئی ہمراہ نہ تھا۔ مخمس:
کبھی منصور کی بالیں پہ جا جا شب کو روتا تھا کبھی فرہاد کی حالت میں اپنے جی کو کھوتا تھا |
کبھی اشک اپنے سے یعقوب کی تُربت کو دھوتا تھا کبھی تخم جنوں مجنوں کی جا وادی میں بوتا تھا |
کبھی گلشن میں جا بلبل کے سر سے سر پٹکتا تھا
اس طرح سے اُفتاں و خیزاں بیچ مرزبوم روم کے پہنچ کر رہبری طالع کے سے نعمت غیر مُترقب ملاقات ہم دیگر کی کہ بسم اللہ نسخۂ جمعیت و کامرانی کی ہے، حاصل کی۔ اب امید قوی ہے کہ ان شاء اللہ چشم تمنا کی مشاہدۂ جمال خجستہ خصال فرخندہ سیر کے سے جلد منور ہو۔ بعد ازاں یقین ہے کہ دامنِ آرزو ہر ایک کا گل ہاے کامیابی سے گل چین مراد کا ہوئے۔
اے یاران غم گُسار! قصہ سرگذشت اس سرگشتۂ بادیۂ غربت کا اس قدر تھا کہ گزارش کیا لیکن معلوم نہیں کہ کب تلک شبِ دیجور مہاجرت کی شمع وِصال جاناں کے سے روشنی پاوے گی اور کس گھڑی کلبۂ احزاں میرا قُدوم عشرت لُزوم اُس مایۂ ناز یعنی ملکہ دل نواز کے سے رشک گلستان ارم کا ہوگا۔ فرخندہ سیر کہ ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا گوش خیال کے تئیں مائل اِصغاے ماجراے درویش اول کے رکھتا تھا، سُننے اس داستان ندرت بیان کے سے ازبس خوش وقتی سے بیچ قالب کے نہ سمایا اور متوجہ اِستماع قصہ سرگذشت درویش دویم کا ہوا۔
قصۂدرویش دوم
تب دَرویش دوم نے عَندلیب خوش لہجۂ زبان کے تئیں بیچ گلزار بیان کے یوں داستان سرا اِس معنی رنگیں کا کیا کہ۔
یہ بندہ پِسر فرماں رواے مُلک فارس کا ہے جو اکتسابِ کمالات ہر فن کا جوہر ابناے مَلوک کا ہے۔ والد بزرگوار یعنی والی اس دیار کے نے میرے تئیں عہد طفولیت سے واسطے تکمیل فنونِ جہانداری اور تحصیل شیون شہریاری کے بیچ خدمت مُعلّمان دانشور و ادیبان خرد پرور کے نصب کیا اور اتالیقان صاحب ذکا کے تئیں جہت اصلاح طبع نو آموز کے تعیّن فرمایا کہ آئین آداب خلافت و فرمانروائی و قوانین انتظام سلطنت و کشور کشائی کے سے بیچ تربیت میری کے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔ چنانچہ بہ فضل الٰہی بیچ سن چہاردہ سالگی کے فیض تربیت اُن کی سے شایستگیِ حال و آراستگیِ مقال بہ ہمہ وجوہ حاصل کی۔ جو بیچ تہذیب اخلاق و حسن معاش کے بہرہ وافر رکھتا تھا، شبانہ روز اوقات عزیز کے تئیں بیچ صحبت ارباب فضل و کمال کے سُننے حکایات رنگیں و افسانہ ہاے شیریں کے سے تمتّع کافی حاصل کرتا۔ اتفاقاً ایک روز اصحاب فِطنَت و خبرَت سے ایک شخص نے کہ بیچ مطالعہ کتب تواریخ کے مہارت تمام رکھتا تھا، ذِکراً بلبل زبان کے تئیں بیچ سبزہ زار محفل مسرت کے بہ ترنُم تعریف حاتم طائی کے اس طور سے کہ صداے سخاوت و مروّت اُس کے کی بیچ گلشنِ دہر کے قیامت تک مترنم رہے گی، نغمہ سرا کیا۔ بندہ نے کہا اگر مجملاً کیفیت حال اُس کے سے بیان کرے تو میں بھی سمع دل کے سے مستمع ہو کر اطلاع حاصل کروں۔
اُس عزیز نے طوطیِ شیریں مقالِ ناطقہ کے تئیں بہ تقریر حکایت دل پذیر احوال حاتم کے بہ طریق اجمال کے شکر ریز تکلّم کا کیا کہ ایام سلف میں جس وقت نوفل نامی ایک شخص رؤساے عرب سے ساتھ حاتم کے مُنَازَعت و مُخاصمت سے پیش آ کے لشکر جرّار سے مستعد کارزار کا ہوا، اس وقت حاتم نے بہ مقتضاے کرم جِبلِّی کے بہ خیال اس کے کہ بیچ میدان جَدال و قِتال کے خون بندہ ہاے الٰہی کا ناحق وبال گردن میری کا ہوگا، اپنے تئیں بہ جان واحد کے بیچ کنج ایک غار کے مخفی و متواری کیا۔ بہ مُجرّد اِستماع خبر غائب ہونے حاتم کے نوفل نے تمامی متاع و املاک کے تئیں ضبط کر کے اذن عام دیا کہ جو کوئی سر حاتم کا لاوے، دو سو اشرفی انعام پاوے۔ جو ہر ایک کے تئیں ہَوا و حِرص زر کی دامن گیر ہے، ایک عالم بہ توقع اشرفیوں کے واسطے تلاش حاتم کے اُٹھا۔ اتفاقاً نزدیک اُس غار کے ایک پیر مرد نے با دو سہ بچّہ صغیر اور ایک پیر زن بہ تہیہ ہیزم کشی کے گذر کیا۔ از بس کہ تلاش حاتم کی شہرۂ آفاق تھی، اس حالت میں پیر زن نے پیر مرد سے کہا کہ کاش اگر رہبری طالع و یاوری بخت کے سے حاتم ہمارے ہاتھ آوے تو خراب آبادِ مفلسی و پریشانی بیچ شہرستان جمعیت و شادمانی کے پہنچ کر شاخسار مُراد کے سے گل کامیابی چُنیں۔ پیر مرد نے کہا، یہ سچ ہے ؎
اگر عدم سے نہ ہو ساتھ فکر روزی کا نہیں میں طالب رزق آسمان سے کہ مجھے |
تو آب و دانہ کو لے کر نہ ہو گُہر پیدا یقیں ہے کاسۂ واژوں میں کچھ نہیں ہوتا |
وے نصیب کہاں کہ اپنا کاسۂ اُمید صہباے کامرانی کے سے لبریز ہو۔ تو اپنے شغل میں رہ ؏
ہر چہ نصیب است بہ تو می رسد
لاچار پیر زن مایوس ہو کر خاموش رہی۔ اس عرصہ میں حاتم کہ مُتّصل درمیان غار کے تھا، کرم و ہمت و سخاوت و مروّت اس کی مُقتضی نہ ہوئی کہ باوجود سُننے اِس بات کے نقد جاں کے تئیں نثار استدعا پیر مرد کے نہ کرے اور اس مفلوک بے چارہ کے تئیں ورطۂ احتیاج کے سے اوپر ساحل جمعیت کے نہ پہنچاوے۔ واقعی اگر آدمی کے تئیں کرم نہ ہو، مانند باغ کے ہے کہ گُل ندارد اور جس دل میں رحم نہ ہو، مانند ایاغ کے ہے کہ مُل ندارد۔ بہ قول تحسینؔ، شعر ؎
شیشہ ہے بے شراب کا، جس دل میں تو نہ ہو
کس کام کا وہ گل ہے کہ جس گل میں بو نہ ہو
پس حاتم نے غار سے اُٹھ کر پیر مرد سے کہا کہ اے عزیز! حاتم میں ہوں۔ تو اپنے ساتھ میرے تئیں نزدیک نوفل کے لے جا کے کیسۂ آرزو کے تئیں متاع امید کی سے پُر کر۔ ؏
خنک آں کس کہ گوے نیکی بُرد
پیر مرد نے کہا کہ فی الواقعہ میرے تئیں فلاح و بہبود اپنی مسلّم ہے لیکن نہ اس صورت سے کہ دَست طمع کا ناحق خون تیرے سے آلودہ کروں۔ استغفرُ اللہ! یہ وہ مثل ہے کہ بارہ برس پیچھے روزہ کھولا تو چرکین سے۔ تو ہرگز مُصر اس بات کا نہ ہو۔ مجھ سے یہ حرکت لغو زینہار نہیں ہونے کی کہ مرد آدمی کے نزدیک اس طرح رفعت حاجت اپنی محض دوں ہمتی و بے حمیتی ہے۔ حاتم نے ہرچند مبالغہ کیا، انکار اس کا کم نہ ہوا۔ لاچار حاتم نے کہا: اگر تو میرے تئیں نہیں لے چلتا تو میں خود بخود شاہ سے جا کر اظہار کرتا ہوں کہ فلانے شخص نے میرے تئیں بیچ غار کے پنہاں کیا تھا۔ آخرش پیر مرد وہاں سے باہر نکل کر لگا کہنے کہ جو جو خدا دکھاوے سو لاچار دیکھنا۔ یہ بھی اپنی قسمت ہے کہ نیکی برباد گناہ لازم۔ اس گفتگو میں انبوہ مردم کا جمع ہوا اور حاتم کے تئیں دستگیر کر کے حضور نوفل کے گئے۔ پیچھے پیچھے بڈھا بھی اس گروہ میں شامل ہوا۔ نوفل نے پوچھا کہ حاتم کے تئیں کون لایا۔ ایک عزیز کہ سرگروہ لشکر شیطان کے تھے، بولے کہ یہ عرش پر جھنڈا ہم نے گاڑا اور ایک عزیز اُس سے بھی پرے چلے۔ غرض ہر ایک اپنی اپنی ترنگ میں خوش تھا گویا دو سو اشرفیوں کا توڑا باندھ کے لے ہی تو جاویں گے۔ لیکن پیر مرد بے چارا خاموش ایک گوشہ میں کھڑا ہوا تماشا قدرت الٰہی کا ملاحظہ کرتا تھا۔ اس عرصہ میں حاتم نے نوفل سے کہا کہ اگر مجھ سے سُنے تو راست کہوں کہ میرے تئیں وہ پیر مرد کہ ایک گوشہ میں غریب سا کھڑا ہے لے آیا۔ تیرے تئیں لیاقت ہو تو قِیافہ سے سمجھ دیکھ اور مُوافق اُس کے شرط اخلاص کی بجا لا اور داد اخلاق کی دے کہ خلق مُحمدی نور ایک چراغ ہدایت کا ہے کہ بیچ ایوان مزاج ہر اہل مزاج کے درخشاں ہو رہا ہے اور یہ جلوہ اُسی کی جوت کا ہے کہ وہ لعل شب چراغ درمیان نگیں خاتم سلیمانی لیل و نہار کے حلیہ دست قدرت خدا کا ہے۔ اس وقت نوفل نے پیر مرد کے تئیں نزدیک بُلا کر استفسار ماجرے کا کیا۔ اس عزیز نے تمام قصہ ابتدا سے انتہا تک نقل کیا۔ نوفل نے اس بات کے سننے سے نہایت متحیر اور محجوب ہو کر اُس مردود جھوٹے بد ذات کے تئیں کہ مگس چِرکیں طمع کی بن کر اشرافیوں کی لالچ میں گرفتار کرنا حاتم سے شخص مخیّر کا روا رکھ کر بولا تھا کہ عرش پر جھنڈا ہم نے گاڑا، نوفل نے نپٹ زَجر و تَوبیخ سے کہا کہ اے حارِث ملعون! سچ کہہ یہ کیا حرامزدگی تھی کہ حاتم بے چارے پر وار کیا تھا۔ آئیے، لیجیے اشرفیاں موجود ہیں اور مشکیں بندھوا کر ایسی ہی پاپوش کاری کی کہ سر گنجا ہو کر مانند تونبی کے بن گیا۔ مجھے تو ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ ایک کلاونت اُس وقت حاتم کی گرفتاری کا بدھاوا گانے آیا تھا، یہی گا رہا تھا کہ یہ تونبا میرے طنبورے کے واسطے عنایت ہو۔ تب نوفل نے تبسّم کر کے اُسے چھوڑ دیا اور اپنی محفل میں ذکر کیا کہ جھوٹ بولنا ایسی بد بلا ہے کہ مرد آدمی کے نزدیک کوئی گناہ اِس سے بدتر نہیں، خدا کسی کے نصیب نہ کرے۔ استغفر اللہ! میرے نزدیک تو اگر فرشتہ بھی جھوٹا ہو تو واللہ وہ بھی شیطان ہے۔ آخرش نوفل نے اوپر جواں مردی و بزرگ ہمتی حاتم کے ہزار آفریں کر کے تصور کیا کہ ساتھ ایسے شخص کے کہ بیچ غمخوارگی بیچارگان عالم بے سر انجامی کے اپنی جان سے دریغ نہ کرے اور رضاے حق کے تئیں رضا اپنی پر مقدم رکھے، خشونت و خصومت رکھنا شرط مروت و فُتوت کی نہیں بلکہ سخت دوں ہمتی و پست فطرتی جاننا چاہیے۔ پس نہایت تپاک سے حاتم سے کہا، سبحان اللہ ؎
لکھے ثنائے جود کا تیری جو ایک حرف تجھ سا نہیں ہے ایک زمانے میں بے مثال |
نقطہ نہ پاوے راہ قلم کی زباں تلک دیتا ہے تو جو داد سخاوت کی یاں تلک |
اور لوازم اِکرام و احترام اس کے سے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کر کے از سَر نو اوپر مِسند حکومت و ریاست کے متمکن کیا۔
سنتے ہو صاحبو! جس وقت زبانی اُس جلیس محفل بلاغت کے قصہ حاتم کا بیچ سماع میری کے پہنچا، موج سخاوت کی بیچ دریاے دل میرے کے جوش میں آئی اور بیچ خیال میرے کے گذرا کہ حاتم نُجباے عرب کے سے ایک شخص تھا کہ علم سخاوت کا اس درجہ بلند کیا اور میرے تئیں وَاہب بے ہمتا نے فرماں رواے ملک فارس کا کیا ہے، اگر نعمت عظمیٰ فیض بخشی و فیض رسانی کے سے محروم رہوں تو واقعی جاے فراواں تاسّف و حسرت کی ہے اور اپنے جی میں جو سوچتا ہوں تو واقعی دنیا میں کوئی امر شریف تر سخاوت سے نہیں۔ پس اُسی وقت کار پردازان حضور کے تئیں حکم کیا کہ ایک عمارت عظیم الشان چالیس در نہایت مرتفع و بلند بیرون شہر پناہ کے درست کرو۔ چنانچہ چند روز میں ایک مکان وسیع رفیع حسب دلخواہ میرے تیار ہوا اور میں صبح سے شام تک دست سخاوت سے موتی ثواب کے چنتا۔ یعنی جس در سے ارباب حاجت کف سوال کی کھولتے، زر بخشی و گہر ریزی سے دامن اہل مراد کا پُر کرتا۔ اتفاقاً ایک روز ایک قلندر نے ایک دروازے سے آ کے سوال کیا۔ میں نے اُس کے سوال کا جواب باصواب دیا۔ وہ پھر دوسرے دروازے سے دست طلب کا کھولتا ہوا آیا۔ پھر میں نے اس حرکت سے اغماض کر کے اور جو کچھ توفیق ہوئی نثار کیا۔ اسی طور سے اس نے ہر ایک در سے آنا شروع کیا۔ بندے نے دامن آرزو اُس کی کے تئیں بذل و نوال سے مالا مال کیا۔ بعد ازاں اُس نے پھر دروازہ اوّل سے گذر کر کے لب سوال کا کھولا۔ میرے تئیں یہ حرکت باعث گرانی خاطر کی ہوئی اور اُس قلندر سے کہا کہ اے حریص جہاں گرد! خزانہ وقف کا واسطے حاجت روائی محتاجوں اور حصول مقصد مسکینوں کے مقرر کیا ہے، نہ واسطے تجھ سے بو الفضول بد روزگار و طامعِ زر بے شمار کے لیے کہ آب حیا کا چشمۂ توکل سے ٹپکا کے چشمۂ قناعت کا خس و خاشاک ہَوا و حرص کے سے مکدر کیے پھرتا ہے، اَستَغفِرُ اللہ! وہ بھی درویش ہے کہ التَکلیف حرام سے خبر نہ رکھتا ہو۔ درویش اس بات سے نہایت بد دماغ و پریشان خاطر ہو کے جو کچھ مجھ سے پایا تھا، زمین پر پٹک کر بولا: بابا گرم کیوں ہوتا ہے؟ “عطاے توبہ بہ لقاے تو بخشیدم”، لیکن یہ یاد رکھیو کہ سخاوت کی طرف سے تکلف برطرف، ہنوز دلّی دور ہے۔ آئندہ زینہار رقم سخاوت و علو ہمتی اپنی کا اوپر جریدۂ روزگار کے نہ لکھنا کہ السَّخِیُّ حَبِیبُ اللہِ وَ لَو کَانَ فَاسِقاً کا وصف کوئی بادشاہ زادی بَصرہ کی سے سیکھے کہ تشریف سخاوت و مروّت کا کس مرتبہ اپنی قامت پر راست کیا ہے۔ پھر میں نے ہرچند زبان معذرت کھولی اور قسم یاد دے کر کہا کہ جو کچھ چاہے حاضر ہے، ہرگز قبول نہ کیا اور آخر کلام یہ کہہ کے چلا کہ اب اگر سلطنت بخشے تو یہاں اِستغنا سے تُف نہ کروں ؎
گو کہ اب دل میں سمجھ کر کے تو پچھتاوے گا کفِ افسوس کو ملتا ہی تو رہ جاوے گا |
پر مرے دل کو تو زنہار نہیں پاوے گا جو دل اس بار گیا ہاتھ نہ پھر آوے گا |
می روم از درِ تو باز بہ تو رو نہ کنم
گر درت قبلہ شود سجدہ بہ آں سو نہ کنم
میرے تئیں اُسی وقت سے اشتیاق مُشاہدہ جمال شہزادی بصرہ کا سلسلہ جُنباں ہوا۔ ہر چند اس عاجز نے وزراے روشن ضمیر و امراے صاحب تدبیر سے کہ ظہیر سریر سلطنت و مشیر تدبیر مملکت کے تھے، اجازت سفر بصرہ کی چاہی، کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ لاچار ایک روز بے اطلاع سب ارکانِ خلافت کے مَدارکار سلطنت و مملکت محروسہ کا اوپر راے رزیں ایک وزیر درست تدبیر کے چھوڑ کر لباس درویشی کا بہ موجب شعر مرزا جلالی اسیرؔ کے ؎
خرقہ پوشی ست خود نمائی نیست
عشق بازی ست میرزائی نیست
اوپر اپنے آراستہ کر کے قدم تردّد کا بیچ راہ سیاحت کے رکھا۔ تھوڑے عرصہ میں طے مسافت بعید کا کر کے بیچ سرحد ملک بصرہ کے پہنچا۔ اُس دیار میں بیچ جس منزل اور مقام کے وارد ہوتا، ملازم اُس کے مراسم استقبال و احترام کے بجا لا کے کوئی دقیقہ مراتب دلنوازی و مہمانداری و لوازم دلجوئی و حاجت برآری کے سے فروگذاشت نہ کرتے۔ غرض اسی صورت چلتے چلتے بیچ دار السلطنت بصرہ کے پہنچا۔ وہاں ایک جوان خوش رو، چار ابرو، زیبا طلعت، خجستہ خصلت، نیکو منظر، سیّاح پرور، خالِ رخسار مروّت، گلگونِ چہرۂ فتوّت، کتابِ دبستانِ سخنوری و سخندانی، شمعِ شبستاں کام بخشی و کامرانی، جوہر معدنِ جود و سخا، گوہرِ لُجّہ حِلم و حیا بیدار بخت نامی میرے ساتھ دو چار ہوا اور زبان شیریں سے گویائی کے تئیں اس طور سے حلاوت بخشی کہ یہ خادم الفُقرا مدت سے طلب گار صحبت درویشوں کا ہو کے حلقۂ اِنقِیاد و اطاعت اس گروہ حق پژوہ کا بیچ گوش کے اور غاشیۂ اعتقاد و ارادت اس فریق ارباب تَدقیق کا اوپر دوش کے رکھتا ہے، اگر کلبۂ احزان میرے کے تئیں مقدم شریف سے رشک افزا گلستانِ ارم کا کیجیے تو بعید عاجز نوازی و خادم پروری سے نہیں ؎
گر لطف سے قدم رکھو میرے مکاں تلک کیا نقص فیض عام میں خورشید کے ہو گر |
پہنچے بہ فرق فخر مرا فرق داں تلک ذرہ ہو جس کی تاب سے تاباں یہاں تلک |
بارے یہ عاجز بعد مبالغہ بسیار کے بیچ مہمان خانہ اُس نیک سرشت کے حاضر ہوا۔ چنانچہ اس عزیز نے کمال تکلّف سے سامان ضیافت کا مہیا کر کے سُفرہ دعوت کا آراستہ کیا اور انواع طعام ہاے لذیذ و خوشگوار و اقسام شیرینی ہاے حلاوت بخش و چاشنی دار و اَصناف شربت ہاے گلاب و بید مشک و گوناگون میوہ ہاے تر و خشک وغیرہ و لوازمۂ اکل و شُرب از قسم نان یزدی و نان ورقی و نان تنکی و نان پنیری و نان خمیری و نان باقر خانی و گاؤ زبان و گاؤ دیدہ آبی و روغنی و خطائی و شیر مال و نان گُلدار، قلیہ دو پیازہ، نرگسی و شیرازی و زعفرانی و بادامی، کباب، قلیہ، کوفتہ، خاگینہ، ملغوبہ، پَن بھتہ، بورانی، بریانی نور محلی و خراسانی، رومی، تبریزی، شب دیگ، دم پخت، خشکہ و مزعفر و شولا و متنجن پلاؤ و قورمہ پلاؤ و یخنی پلاؤ و حبشی پلاؤ و بیگمی، چاشنی، عنبری، کاشانی و ماہی کباب و مرغ کباب و سیخ کباب و بیضہ کباب و حلیم و حریسہ و سموسہ و قبولی و طاہری و کھچڑی و فرنی و ملائی و حلوا و فالودہ و نمش، قندی با مشک نافہ، وساقِ عروس و لوزیات، اچار، مربّے، ناشپاتی، بہی، انگور، انجیر، سیب، انار، کشمش، بادام، چھوہارے، پستے وغیرہ اغذیہ و اشربہ قسم قسم کے کہ جن کی چاشنی کی حلاوت اور ذائقہ سے ارواح فرشتوں کی بھی تر و تازہ ہو جاوے، انسان کا تو کیا ذکر ہے؛ نہایت سلیقہ و کاردانی سے بیچ ظروف مرصّع کاری و مینا سازی و طلائی و نقرئی و غوری و فغفوری و چینی و خطائی و حلبی و بلّوری کے لا کر چُنے۔ میرے تئیں کہ آتش اِشتہا کی بیچ دل کے مشتعل تھی، غذاہاے لطیف سے فرو ہو گئی۔ جس وقت میزبان آفتاب کا بیچ میہماں سَراے تحت الثریٰ کے رونق افزا ہوا اور ناظورہ شب کی نے گیسوے مشک فام اپنے کے تئیں اوپر رخسارہ گیتی کے دراز کیا، اُسی جوان زیبا طلعت نے میرے تئیں اوپر بستر نفیس و نرم کے کہ ملائم تر ورقِ گل سے تھا، اشارہ استراحت کا کیا۔ تب میں نے کہا کہ از براے خدا اس تکلف سے در گذر، میرے تئیں سجادہ حصیر کا بہتر مسند حریر سے ہے اور دلقِ کہنہ ناتوانوں کا خوشتر ہے کسوت لطیف بادشاہوں کے سے۔ بہ مضمون اس کے، شعر ؎
سریرِ سلطنت سے آستانِ یار بہتر ہے
مجھے ظِلّ ہُما سے سایۂ دیوار بہتر ہے
جوان نے کہا کہ جو کچھ اس مکان میں ہے، وقف درویشوں کا ہے۔ میرا تصرف بیچ اس کے مطلق نہیں۔ چنانچہ تین دن اور تین رات گذرے اور میں نے روز چہارم جس وقت کہ مسافر جہاں پیما آفتاب کا بستاں سراے مشرق کے سے بر آیا رخصت روانگی کی چاہی۔ در جواب فرمایا کہ اے عزیز! مگر بندہ سے کچھ تقصیر صادر ہوئی کہ اوپر طبع شیریں تیری کے تلخ گذری۔ میں نے کہا کہ از براے خدا اس کا کیا ذکر ہے لیکن بزرگوں نے کہا ہے۔ فرد ؎
مطلب مرد مسافر بہ جہاں دیدار است
ورنہ نعماے الٰہی بہ جہاں بسیار است
اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھا۔ بیت ؎
دیکھنا ہر صبح اُس رُخسار کا
ہے وظیفہ مجھ دلِ بیمار کا
اس کمترین کے تئیں کہ مدّ نظر اوپر سیاحت اور سفر کے رکھتا ہے بقول اس کے کہ، شعر ؎
ما خود بہ گرد دامنِ مردے نہ می رسم
شاید کہ گرد دامن مردے بہ ما رسد
اس واسطے رخصت ہونا ضرور ہے۔ کہا کہ خوب، ایک لمحہ صبر کر کہ بیچ جناب پرستاران حضور ملکہ کے خبر جاوے اور آپ ارادہ سفر درپیش رکھتے ہیں جو کچھ ازقسم لباس و پوشاک و ظروف و آلات، طلا و نقرہ و جواہر وغیرہ کہ بیچ اس میہمان خانہ کے ہے تعلق تجھ سے رکھتا ہے، بیچ لے جانے اس اسباب کے آمادہ و مستعد رہ۔ تب میں نے کہا کہ استغفر اللہ، یہ کون بات چیت ہے۔ فرد:
دریا دلیم و دیدۂ ما معدنِ دُر است
گر دست ما تہی است ولے چشم ما پُر است
اور مطابق اس مضمون کے، رباعی:
گیرم کہ سریرت از بلّور و یشم است ایں مسند قاقم و سمور و سنجاب |
سنگش داند ہر آں کہ او را چشم است در دیدۂ بوریا نشیناں پشم است |
اس آلودگی و آلایش دنیاوی سے کچھ مجھ کو سروکار نہیں۔ اُس عزیز مصر خوبی کے نے کہا کہ اگر ملکہ اس بات کے تئیں سُنے تو اس خادِم القران کو درجہ عزت و اعتبار کے سے ڈال کر واللہ اعلم کس غضب میں گرفتار کرے۔ اگر تو تنہا و بے پروا ہے تو سر بہ مہر بیچ ایک حجرہ کے امانت رکھ، پھر جو چاہے گا سو عمل میں لائیو۔ آخر الاَمر جو مبالغہ و مُکَابرہ جانبیں کا حد سے گذرا، بہ موجب مصلحت اور استصواب اُس کے سب اسباب کو لے کر ایک حُجرہ میں سر بہ مہر کر کے منتظر رخصت کا بیٹھا کہ اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ ایک خواجہ سرا سراپا ملمع بد ستیاری عصاے مرصع با چندے خدمت گار دروازے سے در آیا۔ جو نزدیک میرے پہنچا، زبان بیچ تواضع و مدارات و دلبری و دلداری کے کھولی اور اس قدر سلوک اور آدمیت خرچ کی کہ زبان بیان اُس کے سے عاجز و قاصر ہے اور کہا کہ اے عزیز! فرد:
خوش آمدی و خوش آمد مرا زآمدنت
ہزار جان گرامی فداے ہر قدمت
اگر از راہِ اشفاق اور الطاف کے کلبۂ احزان اس مشتاق کے تئیں نور قدوم بَہجت لُزوم اپنے کے سے رشک افزا گلستان ارم کا کریے تو بعید از بندہ نوازی و آشنا پروری سے نہ ہوگا کیونکہ، فرد:
آنکھوں کے اپنے نور کو تیرے قدم تلے
اے نور دیدہ فرش بچھایا نہیں ہنوز
اگر احیاناً ملکہ سُنے کہ ایک شخص مسافر اس مکان پر آ کر بغیر از تواضع و مدارات کے رُخ توجہ کا نہ فرمایا اور در گذرا، واللہ کہ زندہ نہ رکھے گی اور بہ انواع شداید گرفتار رنج و مصیبت کا کرے گی اور حقیقت اپنی یہ ہے، بیت:
ما تنک ظرفاں حریف ایں قدر سختی نہ ایم
دانۂ اشکیم مارا گردشِ چشم آسیا ست
اور خواہ مخواہ میرے تئیں بیچ ایک مکان کے کہ روشن تر آئینۂ ضمیر صافی نہاداں کے سے تھا، لے گیا اور بہ دستور میزبان اول کے اس مہمان غریب کے تئیں زنداں خانہ فکر و آلام کے سے نکال کر بیچ دار المعمور عیش و سرور کے سہ شبانہ روز دو وقتہ طعام ہاے لذیذ و غذا ہاے لطیف سے شکم سَیر کیا اور جو کچھ کہ ظروف طلائی و نقرئی و تحفہ ہاے عجیب و غریب و فرش و فروش و رخوت ہاے خواب گاہ جمع ہوا تھا فرمایا کہ اس کا تو مالک و مختار ہے۔ میں نے دریافت کرتے ہی اس کلام کے متحیّر اور متعجب ہو کر چاہا کہ نقد رخصت کا بیچ کف مراد کے حاصل کروں۔ اسی عرصے میں خواجہ سرا بولا کہ اے مرد خدا! کچھ مطلب اور مُدَّعا اپنا اظہار کر کہ حاجت تیری بیچ حضور ملکہ کے عرض کروں۔ فرد:
جا کر کہوں میں تیری طرف سیتی ایک ایک
مطلب جُدا، مراد جُدا، مدعا جُدا
میں نے کہا کہ اے عزیز! لباس درویشی میں مال دنیا کے سے کیا طلب کروں کہ بغیر استدعا کے میسّر ہے۔ مجھ کو ساتھ اس کے کچھ سروکار نہیں، تب اُس نے کہا، کبت:
نکہہ بن کٹا دیکھے، جوگی کن پھٹا دیکھے، سیس بھاری جٹا دیکھے، چھار لائے تن میں
مکھ میں ابول دیکھے، سیورا سر جھول دیکھے، کرت کلول دیکھے، بن کھنڈے بَن میں
بیر اور سور دیکھے، کینے گُنی اور کوڑ دیکھے، مایا میں اَپور دیکھے، پور رہے دھن میں
جنم کے دُکھی دیکھے، اَدِاَنت کے سکھی دیکھے، ایسا کوؤ نہ دیکھے، لوبھ جا کے نہیں من میں
میں نے در جواب اُس کے لآلی شاہوار سخن کے تئیں دُرج دہان سے نکال کر بیچ میدان بیان کے اس طور سے جلوہ نمائش کا دیا کہ ایک رقعہ سر بہ مہر مدعا اپنے کا دیتا ہوں، اگر حضور موفور السرور ملکہ کے پہنچاوے تو بعید اہلیت و جواں مردی سے نہ ہوگا۔ کہا کہ البتہ کیا مضائقہ۔ پس میں نے ایک پرچہ کاغذ کا لے کر بعد از شکر الٰہی و حقوق خدمت لا متناہی کےلکھا کہ، فرد:
جام جہاں نماست ضمیر منیر دوست
اظہار احتیاج در آنجا چہ حاجت است
بندہ چند روز برسرِ خوانِ احسان بے پایاں کے مہمان رہا اور جو کچھ خوبی اَوضاع و اطوار ملکہ کا سُنا تھا، سو بہ چشم خود دیکھا۔ اب ملازمانِ سرکار فیض آثار کے کہتے ہیں کہ کچھ مطلب اپنا عرض کر۔ اس واسطے بے تکلف عرض کیا جاتا ہے کہ مال دنیا میں کسی چیز کا محتاج نہیں ہوں۔ بیچ اپنے مُلک کے تخت سلطنت کے اوپر جلوہ افروز و فرماں روا تھا، بہ اِستماع خوبی ہاے ذاتی و صفاتی ملکہ مہر طلعت کے ساتھ بدرقہ شوق کے اپنے تئیں تنِ تنہا یہاں تک لا پہنچایا ہے۔ فرد:
شوق مشتاق، آرزو مشتاق، جان مشتاق تست
ایں چنیں ساماں کہ دارد غیر مشتاق شما
اور احوال میرا یہ ہے، ریختہ:
جسے عشق کا تیر کاری لگے نہ چھوڑے محبت دم مرگ لگ نہ ہووے اُسے جگ میں ہرگز قرار |
اُسے زندگی جگ میں بھاری لگے جسے یار جانی سے یاری لگے جسے عشق کی بے قراری لگے |
پس اگر از راہ نوازش و تلطف کریمانہ کے اس خاکسار کے تئیں خاک مَذلَّت سے اٹھا کر اوپر تخت کامرانی کے سرفراز و ممتاز کیجیے گا تو لایق ہے اس واسطے کہ مستحق و مشتاق ہوں۔ فرد:
آرزو دارم کہ خاکِ آں قدم
توتیاے چشم سازم دم بہ دم
پیشتر جو کچھ کہ مرضی مبارک اقتضا فرماوے، بہتر ہے۔ اگر التماس فدوی کا مقرونِ اجابت نہ ہوگا تو اس جانِ ناتواں کے تئیں عشق تیرے میں نثار کر کے کوچہ گردی و صحرا نوردی میں گوے سبقت کا مجنوں و فرہاد سے لے جائے گا ؎
ما برفتیم و تو دانی و دل غم خورِ ما
بخت بد تا بہ کجا می برد آب و خورِ ما
یہ رقعہ لکھ کر خواجہ سرا کو دیا اور وہ لے گیا۔ بعد ایک لمحے کے میرے تئیں اوپر دروازہ حرم سرا کے طلب کیا۔ جو بندہ داخل حریم حرم تعظیم کے ہوا، دیکھتا کیا ہوں کہ ایک پیر زن صد سالہ ذی ہوش و باشعور الفربہ خواہ مخواہ مرد آدمی اوپر کرسی زرّیں کے بیٹھی ہے اور کئی ایک خدمت گار و خواجہ سرا بہ لباس ملوکانہ جواہر میں غرق، دست بستہ رو برو اس کے کھڑے ہیں۔ میں نے بمجرّد دیکھنے کے مشار الیہ و معتمد جان کر نہایت ادب سے سلام کیا۔ اُس مادرِ مہربان نے جواب سلام کا دے کر کہا کہ اے جواں! بیا و بہ نشیں، خوش آمدی و صفا آوردی۔ بارے پیغام خواستگاری ملکۂ ما کردی۔ بندہ اس بات کو سُن کر سرنگوں و خاموش ہو رہا۔ بعد از ایک ساعت کے کہا کہ اے جوان! ملکہ نے بعد دعا کے فرمایا ہے کہ مجھ کو شوہر کرنے میں عار نہیں ہے۔ اگرچہ تو نے بہ حسب شرع درخواست کی لیکن فخر اپنا بیان کرنا اور باوجود اس خاکساری کے سلطنت سے دم مارنا محض بے جا ہے، کس واسطے کہ بنی آدم سب آپس میں جنسیت رکھتے ہیں۔ بقول آنکہ، رُباعی:
ایں خورد و بزرگاں کہ ہمہ انسانند امروز اگر بلند و پستی دارند |
در دست زمانہ ہم چو انگشتانند فردا کہ بخوانند ہمہ یکسانند |
مگر بہ موجب فَضَّلنا بَعضَکُم عَلیٰ بَعضٍ کے تفاوت شرافت دین اسلام کی ہے اور میں بھی ایک مدت سے شوہر کی مشتاق و آرزو مند ہوں۔ بیت:
اشتیاقے کہ بہ دیدار تو دارد دلِ من
دلِ من داند و من دانم و داند دلِ من
جس قدر تو مالِ دنیا سے مستغنی و بے پروا ہے، اُسی قدر میں بھی دولت بے شمار کی مالک ہوں کہ یہ دولت بے زوال میری احاطہ حساب کے سے باہر ہے۔ پر جو بیچ شرع کے ہر ایک عورت کا مہر اور شرطوں پر مقرر ہے، میرے مہر میں ایک شرط ہے۔ اگر عہدہ برآ ہو سکے تو تَعہد اُس کا قبول کر۔ میں نےکہا: سُننے سے معلوم ہو کہ وہ کیا شرط ہے۔ فرمایا کہ آج تو مہمان ہمارا رہے، بعد ازاں اظہار کیا جائے گا۔
القصہ جس وقت سیّاح جہاں پیما آفتاب کا قَطع مسافت گیتی کا کر کے بیچ آرام گاہ منزل مغرب کے پہنچا اور مسافر سَریع السیر ماہ کا منزل گاہ مشرق کے سے برآمد ہو کے روانہ منزل مقصود کا ہوا، میرے تئیں بیچ حریم حرم تعظیم کے لے گئے اور اوپر فرش مُکلّف کے بٹھلایا۔ اتنے میں ریش سَفیدان و اَکابِران ملکہ کے آن کر بیچ صحبت میری کے بیٹھے اور خوان دعوت کا آراستہ کیا۔ بعد فراغ طعام کے ایک لمحہ کے بعد ایک دائی برآمد ہوئی اور کہا کہ بہرہ ور کو بُلا لو، وہیں خدمت گاروں نے فی الفور حاضر کیا۔ ایک مرد بصورت اکابران لباس فاخرہ پوشیدہ و قریب ہزار کلید بہ میاں آویزاں آ کر پہلو میرے بیٹھا۔ دائی نے کہا کہ جو کچھ دیکھا ہے مفصّل بیان کر۔ اس عزیز نے گلدستۂ رنگین بہار اس داستان کے تئیں بیچ چمن زار محفل مِینُو مشاکل کے یوں نشو و نما کیا ؎
ہست ایں قصّہ داستانِ عجیب ہوش باید کہ نکتہ گوش کند |
بہرہ دارد این بیان عجیب مرد باید کہ جرعہ نوش کند |
اے جوان ملکہ! ہماری ہزار غلام تجارت پیشہ رکھتی ہے کہ کمترین آنہا یکے منم اور سب کے تئیں سرمایہ دے کر ہر طرف عالم کے بھیجتی ہے۔ جس جس طرف سے تجارت کر کے آتے ہیں تو اَوضاع اور اطوار اس دیار کے سے تفحّص و تفتیش احوال کا کرتی ہے۔ اتفاقاً ایک مرتبہ یہ کمترین بھی واسطے تجارت کے گیا تھا کہ گذر میرا بیچ شہر نیمروز کے ہوا۔ تمام آدمی وہاں کے سیاہ پوش دیکھے، وہاں کی خلقت پر سخت ماتم تھا۔ چہرہ ہر ایک کا پُر از غم تھا اور باعث اس کا جس کسی سے پوچھا، جواب نہ پایا۔ آخرش چند روز گذرے کہ موافق قاعدہ مستمرہ کے کنارے افق کے سے جب ماہ نو پدیدار ہوا اور وقت صبح کے شاہ زرّیں کلاہ مہر کا اوپر تخت زمردیں آسمان کے جلوہ افروز ہوا، خلقت شہر کی و جَمیع مردُم از ہفت سالہ تا ہفتاد سالہ سب نکل کر بیچ ایک صحراے وسیع کے آئے اور بادشاہ عالی جاہ، کَیواں بارگاہ، ملائک سپاہ، خَلایق پناہ اُس ملک کا اوپر تخت رواں کے بیٹھا اور تمام خلق اللہ صف باندھ کے کھڑی منتظر تھی کہ ناگاہ ایک جوان فرشتہ طلعت، زیبا صورت کہ آفتاب نے تاب دیدار اُس کے کی نہ لا کر شیوہ ہَرزَہ گَردِی کا اختیار کیا ہے اور ماہتاب بیچ آرزوے جمال با کمال اُس کے کے داغ حسرت کا اوپر جییں کے رکھتا ہے، جوشاں و خروشاں و کف بہ لب، اوپر ایک گاؤ زرد کے سوار، بیچ سن چہار دہ سالگی کے، کچھ ایک چیز بیچ ہاتھ کے لیے طرف خَلقت شہر کے پہنچا۔ بیت:
گوے بہ زمیں ستارہ آمد
یوسف بہ جہاں دوبارہ آمد
اور ایک مضمون موافق اس کے اور پڑھوں فرد:
نکلا ہے وہ ستم گر تیغ ادا کو لے کر
سینہ پہ عاشقان کے اب فتح باب ہوگا
وہ سوار پیادہ پا ہو کر جَلو گاؤ کی بیچ ہاتھ کے لپیٹ کر شمشیر بَرہنہ در دست دو زانو مقابل صف خلقت شہر کے بیٹھا اور ایک غلام سِیم اَندام، دل آرام، پَری پیکر، بَدیعُ الجَمال، لطیف الاعتدال، بیت:
دیدہ از دیدنش نگشتی سیر
ہم چناں کز فرات مستسقی
ہمراہ اس کے تھا، بہ موجب امر جلیلُ القَدر خداوند نعمت اپنے کے وہ تحفہ ہاتھ اُس کے سے لے کر ایک سرے سے دکھلاتا چلا۔ جو کوئی اُس صنعت کو دیکھتا تھا بے اختیار بیچ تعریف اور توصیف اُس کی زبان ثنا کی کھولتا تھا اور اوپر صانع اُس صنعت کے ہزارہا تحسین و آفریں کرتا تھا۔ فرد:
کوئی کب مقابل ترے ہو سکے
خدا نے تجھے دی ہے صنعت گری
ناگاہ نوبت اُس کی مجھ تک پہنچی۔ فی الواقعہ عجب تحفہ تھا اور نہایت کاریگری کی تھی۔ چوں ازیں سر تا بہ آں سر، سب خلقت طواف اُس نادِرُ الادوار کا کر چکی، بیچ خدمت خداوند نعمت اپنے کے لایا۔ اُس جوان نے اُس جا سے جَست کر کے مرتبان کے تئیں اوپر زمین کے دے مارا اور ٹکڑے کیا اور ایک ضرب شمشیر کی اوپر گردن غلام کے جھاڑ کر اور اوپر گاؤ کے سوار ہو کر جس راہ سے آیا تھا، روانہ ہوا۔ جب تک کہ بیچ نظر خلقت شہر کے نمایاں تھا، سب دیکھتے تھے اور بے اختیار روتے تھے۔ جس وقت وہ جادو ادا، حور لقا ناپیدا ہوا، خاموش ہو رہے۔ میں نے جتنا کہ اکثر مردم کو بہ زر فریفتہ کیا اور نپٹ تملق اور چاپلوسی سے تفتیش احوال اس جوان گاؤ سوار کا کیا، اصلاً کسی نے میرے تئیں اوپر حقیقت احوال کثیر الاختلال اُس کے سے مطلع نہ کیا۔ ملکہ ہماری نے جب سے میری زبانی یہ بات سُنی ہے، نہایت تعجب اور حیرت میں ہے اور کمال تَعشّق سے ساتھ اس شعر کے اِشتغال رکھتی ہے، شعر ؎
بلاے عشق سے کچھ چھوٹنے کی راہ نہیں خجل نہ کر مجھے مہماں، مرا نہ ہو اے عشق جہاں کے بیچ کہیں آبرو نہیں اس کو |
بغیر مے کدہ یارو کہیں پناہ نہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو جگر میں آہ نہیں یقیںؔ جو حضرت خوباں کا خاک راہ نہیں |
اور اُس روز سے ملکہ نے اپنا مہر بھی یہ مقرر کیا ہے کہ جو کوئی انکشاف اس راز سَر بَستہ کا کرے، مالک ملک اور ملکہ کا ہو۔ اگر تجھ سے یہ شرائط ادا ہو سکے تو بسم اللہ، کمر عزم کی اوپر ہمّت کے باندھ کر روانہ منزل مقصود کا ہو، والّا نہ پھر حرف مواصلت ملکہ کا اوپر زبان کے لائیو۔ اگر ایں شرط بجا آوری بہ مطلب رسیدی والَّا آنچہ دیدی از خود دیدی۔ القصہ جس وقت بہرور کلمات حیرت افزا اس داستان بے نظر کے روبرو میرے بیان کر چکا تب میں نے در جواب عرض کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ اگر فضلِ الٰہی شامل حال ہے تو بعد از چند روز کے اُس مکان پر پہنچ کر جواب با صواب اس بات کا دیتا ہوں لیکن اگر ملکہ ایک عُقدہ ما لاینحل کہ بیچ خاطر میری کے خلش رکھتا ہے، کھولے اور پیچھے پردے کے بلا کر عرض میری بہ گوش ہوش استماع کرے بعید از مسافر پروری و بندہ نوازی سے نہ ہوگا اور یہ مناجات بیچ جناب قاضی الحاجات کے عرض کیا، مناجات:
اَحدا سامع المناجاتِ
صمدا کافی المہّماتِ
ہیچ پوشیدہ از تو پنہاں نیست
عالم السّر و الخفیاتِ
ہر دعای کہ می کنم شب و روز
اِستجب یا مجیب الدعوات
القصہ دائی نے التماس میرا بیچ حُضور لامع النّور، اس تخت نشین کِشور حسن و غرور کے گزارش کیا، چنانچہ از راہ عنایات بے غایات میرے تئیں بہ وسیلہ دائی کے متصل پردے کے بُلایا۔ جس وقت کہ گذر میرا بیچ خلوت سراے خاص کے ہوا بہ مجّرد ملاحظہ کنیزکان و خَادمان حضور وافر السُّرور کے کہ ہر ایک بیچ حُسن و جمال کے گردا خوبان صبیح و لُعبتان ملیح کے سے لے گئی تھی، حواس خمسہ میرا بیچ کمال تخلُّل کے آیا اور سننے سے سرود اور دیکھنے سے رقص کے کہ بہ لحن داؤدی و بہ اداہاے خوبی و غمزہ ہاے محبوبی کے، بیچ کام اپنے کے بے نظیر و عدیم المثال تھیں، ہوش بجا نہ رہا اور دل بے اختیار چاہتا تھا کہ نعرۂ عاشقانہ بہ آواز بلند سر کر کے راہ صحرا کی لوں اور مجنوں وار اپنے تئیں بیچ شوق جمال ان لیلیٰ نژادوں کے بیچ ہر کوے و بَرزن کے رسواے خاص و عام کا کروں لیکن بہ امید وصال اُس پری تمثال کے طبیعت اپنی پر استقلال کو راہ دی اور یہ مصرع زبان میری پر گذرا ؏
ایں کہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بخواب
حاصل کلام یہ کہ ملکہ بیچ ایک مکان مطبوع و دلکش کے، فرد ؎
گلِ سُرخش چو عارضِ خوباں
سنبلش ہم چو زلفِ محبوباں
کہ نمونہ بہشت بَریں کا تھا، بیٹھی تھی اور باہر پردے کے ایک صندلی مرصع میرے واسطے بچھوائی اور دائی باہر پردے کے متصل صندلی کے آ بیٹھی اور مجھ کو اشارہ بیٹھنے کا کیا اور فرمایا کہ کہہ جو کچھ کہنا ہے۔ میں نے اوّل زبان اپنی بیچ توصیف و تعریف خوبی ہاے ذاتی و صفاتی و مسافر پروری و بندہ نوازی ملکہ کے کھولی، بعد ازاں عرض کیا کہ ملکہ زمانی مَرجَع آمال و اَمانی، سلامت! جس روز سے یہ فقیر دیدہ سے قدم کر کے داخل سرحد ملکہ مہر نگار سخاوت شعار کے ہوا، بیچ ہر منزل اور مقام کے کارگزاران و عہدہ داران سرکار کے نے بیچ سر انجام لوازمہ ضیافت کے اور اسباب شب خوابی کے مبلغ خطیر بہ طریق نذر و نیاز کے و انواع تحفہ جات از قسم جواہر و ظروف طلائی و نقرئی و از لوازمہ پوشاک دیبا و حَریر و پرنیاں و سمور و سنجاب و قاقم سے متواضع ہو کر تین تین روز سے کم رخصت نہ کیا بلکہ رخصت ہونا میرا موجب ناخوشی و آزردگی کے جانا اور جو کچھ کہ مبلغ نمایاں و اسباب نفیس و طلا آلات و جواہر آلات از قسم پاندان و چوگھڑہ و چنگیر مرصّع و چلمچی و آفتابہ و ظروف اکل و شرب طلائی و نقرئی و پوشاک خاصہ براے پوشش ہر روز و فرش فروش ملوکانہ و چاندنی و شامیانہ کہ درمیان مہمان خانہ بہ توجہ کارگزاران عاقل و فرزانہ جمع ہوا تھا، بیچ قبض و تَصَرّف میرے چھوڑا اور جس قدر کہ یہ فقیر در حالت تباہ ہر ایک متنفس سے منزل بہ منزل بہ سلوک و رعایت مَرعی ہوا ہے اسی قدر بلکہ زیادہ ازیں جس فلک زدہ و سرگشتہ بادیہ غربت کا گذر طرف ممالک محروسہ خاص کے پڑا، مال دنیا سے مستغنی و بے نیاز ہوا ہے مگر اندیشہ یہ دل میں رہا کہ بیچ سرکار ملکہ کے اس قدر دولت خداداد و بے زوال کہاں سے بہم پہنچائی ہے۔ چنانچہ اگر انتفاع ولایت کا مد نظر کیجیے تو فقط ایک خرچ مہمان خانہ سے عہدہ برآئی معلوم، تابہ دیگر اخراجات چہ رسد۔ اگر یہ عقدہ مشکل بہ توجہ ملکہ ملک سیرت آفتاب صورت کے سے اوپر خاطر نیاز مآثر اِس ثنا خوانِ حاشیہ نشینان بساط دولت و اقبال کے حل ہو تو بہ خاطر جمع اوپر امر مامورہ کے رہ نورد بادیہ تلاش و تردّد کا ہو کر شاہد مراد کا بیچ آغوش کامرانی کے لاوے۔ در جواب فرمایا کہ اے عزیز سراپا تمیز! اگر چاہتا ہے کہ اس سرگذشت پر اطلاع حاصل کرے، آج بیچ مہمان خانہ کے اور مقام کر۔ جس وقت کہ شاہ انجم سپاہ کا اوپر عرصہ نیلگوں آسمان کے سَریعُ السِّیر ہو، اپنے تئیں حسب الطلب حضور کے نزدیک ہمارے پہنچا، تیرے تئیں اوپر حقیقت احوال اس مقدمہ کے اطلاع مفصل دی جائے گی۔ پس میں وہاں سے اُٹھ کر بیچ مہمان خانہ کے آیا اور ملکہ بیچ خلوت سراے خاص کے تشریف لے گئی اور میرے واسطے سب اسبابِ عیش و طرب و اکل و شرب کا خدمت گاران اور خواجہ سرایان سرکار کے نے مہیا اور موجود کیا۔ جس وقت کہ زاہد صَومَعہ دار روز کا بیچ خلوت خانۂ مغرب کے گیا، ملکہ نے میرے تئیں معرفت دائی کے حضور میں طلب کیا۔ مکان خلوت سرا بادشاہی کا روشنی جھاڑ بندی کے سے مثل روز کے تاباں و درخشاں تھا اور شمع دان طلائی و نقرئی و بلوری و مرصع و دو شاخہ و چہار شاخہ بلکہ درخت ہاے روشنی شاخ در شاخ فروزاں و لمعاں تھے اور فرش ملوکانہ و مسند زربفتی و نقرئی و طلائی و شامیانہ ہاے زردوزی پاکیزہ باطنابہاے ریشمی و زری و جھالر مروارید بے شکن و شکنج استادہ و اسباب ثروت و حشمت آمادہ۔ ایک جانب کو مردم اہل طرب منتظر مجرائی اور ایک سمت کو مردم شاگرد پیشہ از براے خدمت مستعد مجلس آرائی۔ میں نے جو یہ اوج و حشمت اور سامان و ثروت اور روشنی مکان کی دیکھی، دائی سے پوچھا کہ ہر روز بہجت اَفروز و ہر شب شب قدر اسی طور سے ہنگامہ آرائش سے معمور ہوتے ہیں؟ کہا کہ ہمیشہ سے یہاں یہی معمول ہے۔ ملکہ اس وقت بیچ خلوت خانہ کے ہے، تو ایک دم یہاں ٹھہر تو میں جا کے خبر کروں۔ پھر اُسی وقت اندرون خلوت سرا جا کے میرے تئیں بُلوایا۔ میں کہ داخل خلوت خانہ کے ہوا تمام جڑاؤ اور آئینہ بندی سے ہر ایک تختہ حلبی دراز تر از قد آدم نظر پڑا کہ بیچ ہر ایک محراب اور نشیمن کے نصب کیا ہے۔ یہ کیفیت مکان کی دیکھ کر ہوش دماغ میرے سے پَرَّاں ہوا اور یہ شعر بے اختیار زبان سے نکلا، بیت ؎
اگر فردوس بر روے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
جو غور کر کے دیکھا تو معلوم کیا کہ جواہر تمام عالم کا جمع کر کے اُس مکان میں جَڑ دیا ہے۔ پس ملکہ عقب پردے کے بیٹھی اور دائی نے باہر پردے کے بیٹھ کر میرے تئیں حکم بیٹھنے کا فرمایا۔ القصہ دائی نے حسب الاِرشاد ملکہ کے عروس مُدعا کے تئیں اوپر منَصّۂ اظہار کے یوں جلوہ افرز بیان کا کیا کہ۔
والی اس دیار کا ولی نعمت ملکہ کا تھا اور ہفت دختر مثل تابندہ اختر کے اولاد رکھتا تھا۔ اتفاقاً روز جشن کے سبھوں نے اپنے تئیں بہ لباس ملوکانہ مرتب اور نہفت کیا تھا اور حضور بادشاہ کے حاضر تھیں۔ اِس اثنا میں خسرو عالی تبار و بخت بیدار نے فرمایا کہ اگر جناب مقدس قدر قدرت و قضا سطوت حضرت ولی نعمت قبلہ حاجات تمھارا نہ ہوتا تو تم کو ملکۂ زماں و زمانیاں اور نور دیدۂ جہاں و جہانیاں کون کہتا۔ پس تم سب کے تئیں بہ سبب میرے یہ عزت اور افتخار حاصل و مُتَواصل ہے۔ اُن ساتوں میں سے چھ لڑکیوں نے کہا کہ حضرت سلامت! الحق است۔ فی الواقع کہ جو کچھ زبان مبارک بیان سے ارشاد ہوتا ہے، سچ ہے اور یہ بات بے شبہ و شک ہے مگر یہ بادشاہزادی کہ سب سے چھوٹی تھی اور بیچ سَن خورد سالگی کے ہوش و شعور سے بہرہ وافی و نصیبہ کافی رکھتی تھی، خاموش رہی اور بالاتفاق ہمشیرہ ہاے کلاں کے اس کلام میں کہ کلمہ فی الحقیقت کفر کا تھا نہ بولی۔ بادشاہ نے بہ چشم عبرت اس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے فرزند دلبند و جگر پیوند! باعث خاموشی تیری کا معلوم نہ ہوا۔ عرض کیا کہ اگر تقصیر معاف و جاں بخشی ہو تو یہ کمینہ پرستار عرض کرے۔ فرمایا کہ کہہ، کیا کہتی ہے۔ عرض کیا کہ حضرت سلامت! اَلحقُّ مُرّ بیچ سمع مبارک کے پہنچا ہوگا۔ اگرچہ مستوجب عتاب کا ہے اور اس وقت کی راست گوئی وبال جان کی ہے لیکن منشی تقدیر کے نے لوح پیشانی میری پر جو کچھ کہ روزِ ازل سے لکھا ہے کسی طور سے مٹ نہیں سکتا۔ جس قادر علی الاطلاق نے کہ از راہ فضل و کرم اپنے کے ذات مَیمنت آیات تمھاری کو فرماں رواے اقالیم کا کیا ہے، ہم کو بھی اسی نے ملکۂ جہاں و جہانیاں مقرر کیا ہے۔ اور اَستَغفِرُ اللہ آپ کا اس مقدمہ میں کیا ذکر ہے، ذات فایض البرکات تمھاری کو قبلہ و کعبہ دو جہاں کا جان کر خاک پاے مبارک کو کحل الجواہر دیدۂ بینا کا کرنا مُسلّم، لیکن طالع ہر کسی کے ساتھ اُس کے راہ بر ہیں۔ بادشاہ کے تئیں بقول اس کے کہ چھوٹا منھ اور بڑی بات، یہ سخن سخت ناپسند آیا اور بے حد برا مانا اور جی سے بیزار ہوا اور فرمایا کہ زیور اور لباس اس کا لے کر ایک پالکی میں ڈال کر بیچ صحراے لق و دق کے کہ جہاں کوئی انسان کا نام نہ ہو چھوڑ آؤ۔ چنانچہ بیچ نصف شب کے کہ تاریک تر از شبِ دیجور تھی، بہ موجب حکم بادشاہ کے اس ملکہ فرشتہ طلعت پاک طینت کو بیچ ایک صحراے ہولناک و جاں گداز کے چھوڑ آئے اور بادشاہ زادی کہ بیچ دریاے غم و اندوہ کے از سر تا پا غرق تھی، کمیں داران خواب کے اوپر قافلہ بیداری اس کی کے تاخت لا کر متاع ہوش کی غارت کی۔ باقی شب بیچ خواب غفلت کے کاٹ کر جس وقت مؤذن صبح خیز شمس کے نے اوپر مصلّی نیلگوں فلک کے نماز فجر کی ادا کی، ملکہ خواب غفلت سے بیدار ہوئی اور اپنے تئیں محرمانِ ہمراز و مصاحبانِ دمساز سے تن تنہا دیکھا، دوگانہ شکر کا بیچ جناب خداوند حقیقی کے ادا کیا اور زار زار اس دشت ناہموار و صحراے پُر شیر و مار میں روتی تھی، بیت ؎
خدا کسی کو نہ دکھلاوے دن جدائی کا
تصّدق اپنے محمدؐ کی پارسائی کا
بارے پالکی میں سے اٹھ کر چند چوب جمع کر کے استادہ کیے اور غلاف پالکی کا اوپر اس کے ڈال کر سایہ بنایا اور یاد الٰہی میں مستغرق اور مشغول ہوئی۔ سچ ہے کہ برے وقت کا اللہ ہی یار ہے۔ القصہ سہ شبانہ روز گذرے۔ گُرسنہ و تشنہ، حیران و پریشاں، گریاں و نالاں، ضعیف و نَزار ہوئی۔ چنانچہ گل روے مبارک اس کے کا آفت صرصر حوادث کے سے پَژمردہ و خَمول ہو گیا۔ روز چہارم جس وقت کہ موسی فلک نے ید بیضا آفتاب کا بلند کیا، ایک فقیر مرد پیر، روشن ضمیر پیدا ہوا۔ ملکہ کو بایں حالت تباہ دیکھ کر اور اوپر حقیت حال خُسراں مآل اس کے سے مطلع ہو کر کہا کہ اے نور چشم، راحت جانِ ایں ناتواں! تو دختر روشن اختر حضرت بادشاہ ظل اللہ کی ہے، از گردش دورانِ دوں و حادثات زمانہ بوقلموں مصؤون ہو گئی ہے۔ اب اس فقیر کو اپنا خادم جان کر بیچ اس جنگل سخت کے یاد الٰہی میں خوش رہ، خدا خوب کرے گا اور پارچۂ گدائی کہ بیچ کجکول کے رکھتا تھا، کھلایا اور پانی بہ تلاش میسر کرکے پلایا۔ بارے ملکہ اندک ہوش میں آئی۔ جو فقیر نے بے کس و بے چارہ و از خانماں آوارہ دیکھا از راہِ لطف بزرگانہ و شفقت مُربّیانہ کے تسلی و دلاسا دلبری اور دلداری از حد زیادہ کی اور اوپر احوال کثیر الاختلال اس کے بہت رویا۔ چنانچہ وہ درویش دِل ریش محبت کیش ہر روز واسطے گدائی کے بیچ شہر کے جاتا اور جو کچھ کہ خدا تعالیٰ از راہ پرورش و بندہ پروری کے دیتا، سو لا کر بیچ خدمت ملکہ کے حاضر کرتا۔ اسی طور سے چند روز گذرے۔ ایک روز ملکہ نے کنگھی اور تیل طلب کیا اور وقت شانہ کشی کے ایک جوہر آبدار بالوں میں سے مانند ستارہ کے گرا۔ ملکہ نے اس کو حوالہ فقیر کے کیا اور کہا کہ اس کو شہر میں لے جا کر بیچ لا۔ چنانچہ درویش اس موتی کو بہ قیمت پانسو روپے کے بیچ لایا۔ ملکہ نے فرمایا کہ ایک حویلی لایق گزران کے اس مکان پر بنایا چاہیے۔ فقیر نے کہا کہ اے فرزند! قدرے قدرے مٹی کھود کے جمع کر، ایک روز پانی لا کر دیوار بنانا شروع کروں گا۔ ملکہ نے حسب الاِیما فقیر کے مٹی کھودنا شروع کیا۔ تماشا قدرت کا دیکھیے کہ جس وقت ایک گز گڑھا کھدا ہوگا، ایک دروازہ نظر آیا۔ بہ مجّرد کھولنے در کے ایک خانہ عالی کہ تمام جواہر و اشرفی سے مُلبَّب تھا، ملاحظہ کیا بقول آنکہ، بیت ؎
کیمیا گر بہ غصّہ مردہ بہ رنج
ابلہ اندر خرابہ یافتہ گنج
ملکہ نے قدرے اشرفی لے کر وہیں بدستور سابق بند کیا اور خاک اوپر اس کے ڈالی کہ اس اثنا میں فقیر آیا۔ ملکہ نے فرمایا کہ معماران استاد کار و مزدوران چابک دست کو لاؤ کہ اس مکان پر ایک عمارت عالی بنیاد اور نقشہ شہر پناہ و حویلی شہر و قلعہ کا تیار کریں کہ یادگار زمانہ رہے۔ القصہ حسب الامر کرامت اثر ملکہ جہاں کے ایک عمارت عالی و شہر و شہر پناہ از خلل خالی تیار کی۔ بعد چند روز کے خبر اس بنیاد خجستہ نہاد کی بیچ عرض خدمت ظلِ سبحانی خلیفۃ الرحمانی کے کہ قبلۂ دو جہانی و کعبۂ جاودانی ملکہ زمانی کے تھے، پہنچی۔ وہ بادشاہ عالی جاہ، خلایق پناہ، فلک بارگاہ، انجم سپاہ سننے اس واردات کے سے حیران و متعجب ہوا اور جتنا کہ تفحص اس ماجرے کا کیا، از بس کہ کوئی مطلع اس مقدمہ کا نہ تھا، مفصل حضور پُرنور میں عرض نہ ہوا۔ آخر الامر بادشاہ نے معرفت یکے از ملازمان بارگاہ کے پیغام کیا کہ میں واسطے دیکھنے حویلی اور باغ اور نقشہ شہر و شہر پناہ کے، خصوصاً براے دریافت کرنے حقیقت حال ملکہ زمانی کے کہ کس خاندان سے ہے، تشریف لایا چاہتا ہوں۔ ملکہ نے بہ مجرد سننے اس مژدۂ راحت افزا کے بہ ہزار جان و دل خوش و خرم ہو کر در جواب عرض کی کہ حضرت جہاں پناہ سلامت۔ بیت ؎
اے از نظر تو کار ما راست
آراستہ تو ہر چہ ما راست
سننے خبر بہجت اثر تشریف آوری حضرت خداوند نعمت کے سے سر عزت افتخار کا اوپر فرقِ فرق داں کے رکھا، شعر ؎
زہے طالع زہے دولت زہے بخت
کہ تشریف آورد چوں تو جواں بخت
زہے طالع و نصیب اس مکان کے جس جا پر وہ شہنشاہ کیواں بارگاہ قدم رنجہ فرما کر ساکِنان اس دشت و دیار کے تئیں بہ نظر تفضّل و ترحّم کے سرفراز و ممتاز فرماویں۔ رباعی:
اے آمدنت باعث آبادیِ ما ما را چہ بود تا نثارت سازیم |
ذکر تو بود زمزمۂ شادی ما قربان سر تو باد آزادی ما |
یہ کنیز بے تمیز، سراسر ناچیز، امیدوار تفضّلات بادشاہانہ و تفقُّدات کریمانہ سے یوں ہے کہ فردا روز پنجشنبہ کہ روز مبارک و ساعت سعید بیچ حق اس کمترین کے بہتر از نو روز و روز عید ہے، تشریف ارزانی فرماویں اور جو کچھ کہ اس سرگشتہ بادیہ ناکامی سے سربراہ ہو سکے، نوش جان فرماویں۔ بادشاہ نے انگشت قبول کی اوپر دیدۂ رضا کے رکھ کے التماس ملکہ کا مقرونِ اجابت کیا۔ بارے ملکہ نے ملازمان بارگاہ و کارگزاران درگاہ اپنے کو فرمایا کہ لوازمہ ضیافت کا بہ آئین شائستہ جیسا کہ لایق بادشاہوں کے ہوتا ہے، جلد تیار کریں بلکہ آپ بھی بہ جان و دل مصروف بہ کاروبار مہمانی کے تھی۔ چنانچہ از قسم انواع طعام ہاے لذیذ و غذا ہاے لطیف و شیرینی ہاے خوشگوار و ہر گونہ مُربّہ و اچار، و ہفت خوان جواہر و اشرفی و چند خوان پشمینہ و شالینہ و تاش و زری بافت و بادلہ و دو زنجیر فیل فربہ و طویل و دہ راس اسپ خوش رنگ و باد رفتار معرفت سوداگران شہر کے منگوا کر واسطے پیشکش کے موجود کیا۔ جس وقت کہ خسرو زرّیں کُلاہ آفتاب کے نے خلوت خانۂ مغرب کے سے برآمد ہو کر اوپر تخت زمردیں فلک کے جلوس فرمایا، وہ سلطان عادل دریا دل بہ سواری تخت رواں کے سوار ہو کر بیچ منزل اور مکان ملکہ کے تشریف لایا۔ ملکہ واسطے استقبال کے باجماعت کنیزکان خوش لقا و خوش آواز و سرود خوانان جادو نوا و طایفہ خُدَمہ ہمراہ برآمد ہوئی۔ جیوں ہی کہ تخت بادشاہ کا نظر آیا، ایک مجرا بدستور شاہانہ اس طور سے ادا کیا کہ باعث ازدیاد حیرت بادشاہ کا ہوا اور حضرت قدر قدرت کیواں منزلت کو اوپر تخت مرصع کے بٹھلایا اور آپ دست بستہ حضور میں کھڑی ہوئی۔ بادشاہ نے از سر عاطفت و الطاف کے فرمایا کہ ملکہ کس خاندان عالی سے ہے اور اس ملک بیگانہ میں آنے کا کیا باعث ہے۔ ملکہ نے در جواب آداب بجا لا کے عرض کیا کہ یہ وہی کنیز بے تمیز سراسر ناچیز ہے کہ باعث عتاب و خطاب حضرت خداوند نعمت کے بیچ صحراے جانگداز کے پہنچی تھی۔ بادشاہ نے فی الفور دریافت کر کے از راہِ شفقت پدری کے بغل میں لے کر بوسہ اوپر پیشانی اس سرمایۂ زندگانی کے دیا اور متصل تخت کے کرسی پر بیٹھنے کا حکم فرمایا۔ القصہ ملکہ نے تمام کشتیاں جواہرات و آلات وغیرہ کی نظر مبارک سے گزران کر خاصہ طلب کیا۔ بادشاہ بعد تناول طعام کے متعجب و متحیر بیٹھا اور بادشاہ بیگم کو مع بادشاہزادیوں کے طلب کیا۔ ملکہ نے بیچ خدمت جناب بیگم کے خوان جواہر اور زر کے اس قدر نذر کیے کہ اگر جواہر اور خزانہ ہفت اقلیم کا جمع کریں، شاید کہ پاسنگ اس کے کو نہ پہنچے۔ چند مدت بادشاہ نے بہ حین حیات اپنی سلطنت کی۔ بعد ازاں سلطنت دنیا سے اوپر مملکت عقبیٰ کے کامیاب ہوا۔ بعد رحلت اس شہنشاہ فردوس آرام گاہ کے سلطنت اس ملک کی نے اوپر ملکہ زمانیہ کے قرار پایا۔ پس جس وقت کہ دولت خداداد و بے زوال ہووے اور روز بروز ترقی رہے خسّت کرنا اور مہمان داری سے باز رہنا محض بے جا ہے بقول اس کے، فرد:
ہر کہ دریں عالم است روزی خود می خورد
واسطہ خوشنما ست مفت کرم داشتن
ایک مضمون اور پڑھوں، بیت:
شکر بجا آر کہ مہمان تو
روزی خود می خورد از خوان تو
القصہ دائی نے زبان ہدایت ترجمان سے لآلی دلپذیر اس حکایت بے نظیر کے بیچ صدف گوش سراپا ہوش کے تئیں پُر کرکے کہا کہ اے جوان! حقیقت سرگذشت ملکہ کی اور روز بروز افزونی اس دولت خداداد کی یہ ہے کہ گزارش کی۔ اب تو روانہ منزل مقصود کا ہو۔
الغرض یہ فرہاد دَشت کربت و غربت کا مد نظر اوپر فضل الٰہی کے کر کے اور مُعتَصِم بہ عُروَۃ الوثقیٰ فیض نا متناہی کا ہو کر چلا۔ بعد مدت یک سال کے بیچ ولایت بہجت افروز نیم روز کے پہنچا۔ سکنَہ اس دیار کے مُلَبّس بہ لباس سیاہ، جیسا کہ سنا تھا بہ چشم خود دیکھا اور کئی ایک روز چاند رات کے کہ باقی رہے تھے منقضی ہوئے اور جس روز کہ ماہ نو اوپر فلک کے نمودار ہوا، بدستور مذکور علی الصباح اس کے خلقت اس شہر کی از خورد تا کلاں و از پیر تا جواں و بادشاہ تا وزیر و از امیر تا فقیر تمامی زَن و مرد بیچ صحراے وسیع کے مجتمع ہوئے اور یہ فقیر، قید عشق میں در زنجیر، کام اپنے میں نہایت متحیر اور بے تدبیر، ہمراہ اُس جماعت کثیر کے حیران و پریشاں، مہجور از اقربا و خویشاں، بہ شکل و صورت دَرویشاں، تماشا قدرت الٰہی کا معائنہ کرتا تھا کہ اس عرصہ میں وہ جوان گاؤ سوار ہمچو رستم و اسفندیار نشۂ مستی میں سرشار، مانند سیماب کے بے قرار ظاہر و نمودار ہوا۔ یہ ذرّہ بے مقدار کہ ایک مدت سے مشتاق دیدار، فائز الانوار اُس کے کا تھا، مانند قالب بے جان و بے تاب و تواں، متحیر و حیران رہا بہ حدّیکہ وہ نیّر سپہر عظمت و کَرامت و مظہر شجاعت و شَہامَت موافق قاعدہ مَعہود کے عمل میں لا کر معاوَدَت مکان مالوفہ کو کر گیا اور خلایق شہر کی نے رُخ طرف آبادی کے کیا۔ تب میں نے ورطہ بے ہوشی کے سے اوپر ساحل افاقت کے پہنچ کر کہا۔ بیت:
وہ صنم جب سے بسا دیدۂ حیران میں آ
آتشِ عشق پڑی عقل کے سامان میں آ
فرد:
تہی دستانِ قسمت را چہ سود از رہبر کامل
کہ خضر از آب حیواں تشنہ می آرد سکندر را
مدت یک ماہ تک پھر منتظر اس واردات کا رہا۔ بعد اِنقضاے عرصہ تیسں روز کے کہ میرے اوپر برابر تیسں سال کے گذرے تھے، وہ دن پھر نصیب ہوا اور میں نے اپنے دل پر یہ ارادہ مضبوط کیا کہ اپنے تئیں بہ استقلال طبیعت ہوشیار رکھ کر اور درپے اُس جوان کے جاکر مغز سخن کے سے مطلع ہوں۔ بقول اس کے، بیت:
دکُھ تو دیتا ہے اُسے جی سے رجھادوں تو سہی
شاہ بازِ مدعا کو ہاتھ لا دوں تو سہی
القصہ وہ گاؤ سوار بر آمد ہوا اور بدستور سابق کے وہ تحفہ سب کو دکھلا کے مرتبان کو توڑ کر اور غلام ہمراہی پر وار شمشیر کا کرکے چلا۔ جو یہ بندہ پیچھے اس کے جلد قدم ہو کر روانہ ہوا، خلقت شہر میں سے کئی ایک آدمیوں نے میرے تئیں پکڑا اور جانے نہ دیا اور کہا کہ اگر زندگانی سے سیر ہوا ہے تو اس طرح سے کیوں جی دیتا ہے، کوئی اور طرح مرنے کی مقرر کر۔ ہم اس طرح سے تجھے مرنے نہ دیں گے۔ ایں مرتبہ باز ہموں آش در کاسہ ماند۔ لا چار و مجبور ہمراہ خلق اللہ کے داخل شہر کے ہوا اور ایک مہینہ کہ برابر ہزار سال کے تھا، بہ ہزار خرابی بسر لے گیا اور جو بتاریخ سَلخ کے کہ فی الحقیقت غرَّہ کامیابی میری کا تھا، ماہ نو نظر آیا اور علی الصباح بقول اس کے، بیت:
جس کو لذّت ہے سجن کے دید کی
اُس کو خوش وقتی ہے صبح عید کی
جمیع خلقُ اللہ رونق افزا صحرا کی ہوئی، یہ فقیر از سرگشتہ، بادلِ بَرِشتہ پیشتر ہی پہر رات سے اُٹھ کر بیچ ایک نیستان کے کہ سر راہ اس جوان کے تھا، جا بیٹھا تاکہ کوئی مانع و متعرض احوال میرے کا نہ ہو۔ جس وقت وہ جوان بہ قاعدہ قدیم طریقہ اپنا ادا کرکے باز گشت ہوا اور مانند نسیم کے روانہ مکان مالوفہ کا ہوا، میں نے بھی اُفتاں و خیزاں، رواں دواں تعاقب کیا۔ اُس جوان نے معلوم کیا کہ کوئی شخص آتا ہے، فی الفور جلو گاؤ کی پھیر کے ایک نعرہ مہیب مارا اور شمشیر نیام سے نکال کر حملہ کیا۔ میں از راہ غریبی کے سلام اور آداب بجا لایا۔ تب وہ نا آشنا مزاج متکلم ہوا کہ اے درویش! مفت میں ہوا تھا۔ جا بچ گیا کہ زندگی تیری تھی اور خنجر مرصع نکال کر طرف میرے ڈال دیا۔ گویا کچھ سحر کیا تھا کہ اُس وقت مجھ کو نہ پاے رفتار نہ یاراے گفتار تھا۔ جب کہ وہ شیر غرّاں و پیلِ دَماں پیشتر کو روانہ ہوا، میں بھی جرات کر کے پیچھے سے چل نکلا۔ پھر وہ عزیز آنے میرے سے مطلع ہوکر بہ قصد ہلاک کرنے میرے کے پھرا۔ تب تو میں نے قسم دے کر کہا، فرد:
چھٹے ہم زندگی کی قید سے اور داد کو پہنچے
وصیت ہے ہمارا خوں بہا جلّاد کو پہنچے
اے عزیز! ایسا ہی وار کر کہ تسمہ لگا نہ رہے اور اس رہ نَوردی و بیابان گَردی سے خلاصی پاؤں۔ بہ مجرد سننے اس کلام حیرت انجام کے سر دُھنا اور کہا کہ اے سر گروہ قافلہ شیطان کے! میرے تئیں کیوں ناحق خون میں گرفتار کرتا ہے، جا اپنا کام کر۔ میں نے اوپر “صَاحِبُ الغَرض مَجنُون” کے عمل کر کے پیچھا اُس کا نہ چھوڑا اور کہا، فرد:
تجھ ابروے خمدار سے ہرگز نہ پھرے دل
کیوں جاوے سپاہی دم شمشیر سے ٹل کر
پھر تو دیدہ دانستہ متعرض احوال میرے کا نہ ہوا اور قریب دو فَرسخ کے راہ بیابان کی طے کی۔ اس عرصہ میں ایک باغ نمودار ہوا۔ جوان نے اوپر دروازہ باغ کے پہنچ کر ایک ایسا نعرہ مہیب مارا کہ خود بخود وا ہوا اور آپ اندر تشریف لے گیا اور میں باہر متحیر و متفکر کھڑا رہا۔ بعد ایک ساعت کے ایک غلام چوں ماہ تمام پیام اس مرجعُ الانام کا لے کر آیا کہ اے اجل گرفتہ! اُس ماہ دو ہفتہ نے نہفتہ با ایں حال خراب و خستہ حضور میں طلب کیا ہے۔ چنانچہ یہ تباہ ہمراہ اُس جادو نگاہ کے بیچ خدمت اس شاہ کے پہنچ کر ہم نگاہ ہوا اور ایک سلام بہ آئین اہل اسلام بادب تمام ادا کیا اور بہ موجب ارشاد کے شاد و ناشاد یہ عقیدت نہاد بیچ اُس جاے نو ایجاد کے بیٹھا۔ جوان کو دیکھا کہ بیچ اُس عمارت عالی اغیار سے خالی کے اوپر مسند زریں کے ایک شہ نشین نیکو آئین میں از بس تمکیں نہایت محزوں و غمگیں بیٹھا ہے اور اسباب زرگری کا پیش پا اُفتادہ اور ایک جھاڑ زمردیں جلا دَادہ بیچ تیاری اس کے مستعد و آمادہ ہے۔ بوقت شام کے وقت برخاست ہونے اُس کے کا تھا، غلامان غلماں سرشت کہ گرد شہ نشین اُس کے حاضر تھے، ہر ایک بیچ حجروں کے مخفی ومتواری ہوئے۔ میں بھی یہ طرح دریافت کر کے ایک حجرہ میں گیا۔ وہ جوان عالی خاندان بیچ ایک آن کے دروازے حُجروں کے بند کر کے طرف گوشہ باغ کے روانہ ہوا اور ساتھ اس نر گاؤ سواری کے بہ ضرب و شَلاق پیش آیا۔ جیوں ہی کہ آواز فریاد و فغاں گاؤ کی گوش زد میرے ہوئی، نہایت خوف و رَجا کے مقام میں آ کر اور حجرے سے نکل کر عقب ایک تنے درخت کے پنہاں ہوا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ اُس جوان نے چوب دستی ہاتھ سے ڈال کر اور ایک کلید جیب سے نکال کر ایک مکان مُقَفّل کو کھولا اور داخل ہوا۔ میں نے مانند جسم بے جان کے اس مکان نمونہ طوفان سے حرکت نہ کی۔ چنانچہ بعد ایک ساعت کے اُن نے اس مکان سے نکل کر اوپر پشت اُس گاؤ کے دست شفقت کا پھیر کر ایک بوسہ دیا اور دانہ دکھلا کر متوجہ شہ نشین کا ہوا۔ میں نے اپنے تئیں جلدی بیچ حجرہ کے پہنچایا اور اُن نے دروازے حجروں کے کھول دیے اور غلام باہر آئے۔ آپ وضو کر کے واسطے اداے نماز کے کھڑا ہوا۔ بعد فراغ نماز کے دستر خوان پر بیٹھے کر آواز کی کہ درویش کہاں ہے۔ میں فی الفور باہر آیا اور بیچ خدمت فیض موہبت اس عالی درجت کے حاضر ہوا، اشارہ بیٹھنے کا کیا۔ بہ موجب حکم کے آداب بجالا کے اوپر گوشہ بساط کے مؤدب بیٹھا اور تناول طعام سے فراغت کر کے غلاموں کے تئیں رخصت خواب کی دی اور مجلس خواب کی آراستہ کر کے میری طرف مخاطب ہو کے فرمایا کہ اے عزیز! سچ کہہ مطلب تیرا کیا ہے۔ میں نے جو کچھ مطلب و مدعا تھا مفصل گزارش کیا۔ وہ مرد ایک آہ سرد دلِ پُر درد سے بر لا کر بے خود ہوا اور کہا، بیت:
الٰہی درد مندی دہ دلِ بے درد منداں را
کہ بے درداں نمی دانند حال درد منداں را
بعد ایک ساعت کے اِفاقت میں آیا اور ایک آہ کھینچی۔ تب تو میں نے حالت تعَشُّق اس کے کی دریافت کر کے بہ قسم کہا،ل کہ اے عاشق صادق و اے ہمدرد موافق! تیرے تئیں لایق ہے کہ اوپر حقیقت حال کثیر الاختلال حیرت اشتمال اپنے کے میرے تئیں مُطّلع کرے کہ اول سرِشتہ مقصود تیرے کا بیچ چنگل کے لا کے بعد ازاں پیروی مطلب اپنے کی کروں، بقول اس کے، بیت:
شاہ بازِ مدعا کو ہاتھ لادوں تو سہی
آتشِ حسرت کو سینہ سے بجھا دوں تو سہی
القصہ اُس مسند نشین کشور عشق کے نے مشفق شفیق اور بہ دل و جان رفیق اپنا جان کر معشوقہ داستاں کے تئیں اس وجہ سے حُلی بند زیور بیان کا کیا کہ میں فرزند دلبند بہ جاں پیوند والی اس ولایت نیم روز بہجت افروز کا ہوں۔ بادشاہ نے وقت تولد میرے مُنجمانِ دانش ور و رمالان خرد پرور کے تئیں طلب کرکے فرمایا کہ زائچہ طالع اس روشن اختر والا گہر نصیبہ ور نونہال، بلند اقبال، خجستہ خِصال، گل گلشن شہریاری، ثمر شجر سعادت و بختیاری کا درست کریں اور حقیقت حال روز بروز، ماہ بہ ماہ و سال بہ سال کی بیچ عرض معتکفان بساط مسرت مناط کے گزارش کریں۔ چنانچہ بعد تَقَیّد کمال کے از راہ علم اپنے، اہل تنجیم نے عرض کیا کہ بہ فضل الٰہی و توفیقات نا متناہی از جمیع کَسب کمالات و فنون شہر یاری و جہانگیری و کشور کشائی کے سے کمال ہی آگاہی حاصل کرے گا اور کوئی دقیقہ از دقایق سخاوت و شجاعت و فتوت و مروت کے سے نہ چھوڑے گا مگر بیچ سن چہاردہ سالگی کے دیکھنے آفتاب یا ماہتاب کے سے ایک خطرہ درپیش ہے۔ لازم کہ تا مدت چہاردہ سال دھوپ اور چاندنی بلکہ آسمان کو نہ دیکھے۔ اگر یہ مدت بخیریت گذری تو کامران جہاں و سلطان زماں و شہریار دوراں ہووے، وَالّا بہت مصیبت اور رنج کھینچے گا۔ اَغلب کہ دیوانہ ہو اور خونریزی کرے بلکہ آبادی اور انسانوں سے اجتناب کرے اور اُلفت ساتھ حیوانوں کے پکڑے۔ چنانچہ یہ حقیقت دریافت کر کے حضرت ولی نعمت قدر قدرت کیواں منزلت نے از راہ شفقت کے میرے تئیں مع دایہ و چند نفر خواص کے بیچ ایک خانہ باغ کے پرورش کا حکم فرمایا اور یہ باغ بیرون شہر کے بنایا ؎
روضۃً ماء و نہرہا سلسال آن پُر از لالہ ہاے رنگا رنگ باد در سایہ درختانش |
دوحۃً سجع و طیرہا موزوں ویں پُر از میوہ ہاے گونا گوں گسترانید فرش بوقلوں |
اور دیوار ہاے بلند اور جاہاے طبع پسند چند روز میں بیچ اُس کے تیار ہوئے اور گنبد نمد کا آراستہ بنوا کے شیشہ ہاے حلبی واسطے روشنی کے بیچ اُس کے نصب کیے کہ تابش آفتاب و ماہتاب کی بیچ اُس کے دخل نہ پاوے۔ بندہ مع دایہ و چند خادمہ اور ایک اوستاد، ادیب، صاحب فضل و کمال کے اُس مکان بہشت نشان میں پرورش پاتا تھا اور حقیقت تعلیم علم اور لکھنے ہفت قلم کی ہمیشہ بیچ حضور لامع النور خلیفۃ الرحمانی، قبلہ و کعبۂ دو جہانی، مرجع آمال و امانی کے عرض ہوتی، تا بیچ مدت دہ سال از جمیع علوم بہرہ ور و کامیاب ہوا اور اس باغ کو روضۂ رضواں جان کر فصل بہار میں بہ گلہاے رنگا رنگ و میوہ ہاے گونا گوں بیچ کھانے اور کھیلنے کے مشغول رہتا کہ ناگاہ بیچ ایک دریچہ باغیچہ کے گنبد کے نیچے ایک عجایب گل نظر آیا۔ میں نے اس کے لینے کے لیے ہر چند ہاتھ چلایا، اُس کو نہ پایا اور نہایت تعجب نے منھ دکھلایا اور وہ گل شعاعی اوپر جاے اپنی کے ہر دم زیادہ ہوتا تھا اور میرا ہوش و عقل کھوتا تھا اور میں ملاحظہ اُس کے سے ایک دم غافل نہ ہوتا تھا۔ ناگاہ بلندی گنبد سے ایک آواز تبسم کی بیچ گوش ہوش اس مدہوش کے پڑی۔ گردن بلند کر کے کیا دیکھتا ہوں کہ نمد پارہ شق ہوا ہے اور گویا بدلی کو چیر کر چودھویں رات کا چاند نمودار ہوا ہے، فرد ؎
بہ زیر پیرہنش ہر کہ دید حیراں شد
چہ دید خانہ خرابی کہ دید عریانش
بہ مجرد دیکھنے آفتاب جمال اس پری نژاد کے یہ ذرہ ناچیز خالی از ہوش و تمیز کے ہوا اور یہ کبت کب دیو کا پڑھ اٹھا۔ کبت:
گوری مکھ کنول پڑے لو چن بول بول موتی بھاسیں لاج پر (؟)
شوبھا کے لال دِکھے کوو للچات کوو پھاسے اٹھت روپ کی ساج پر
بادلے کی ساری در دامن کناری جگمگے جیوں تارے چھٹے جھالر کی ساج پر
موتی گوندھے، گوری چمک، جہوں آوان، جیوں نرون کے پاس دوج راج پر (؟)
پھر اپنے کو سنبھال کر دیکھا تو ایک تخت مرصع بیچ ہوا کے اوپر دوش پری زادوں کے مُعلق ٹھہر رہا ہے اور وہ پری نژاد تاج مُکلل بر سر اور چار قب مروارید در بر، جام یاقوت در دست نشہ شراب کے سے سرشار متوجہ زمین کی عالم بالا سے ہوئی اور میرے تئیں اس ماہ دلبری کے نے اپنے آگے بٹھا لیا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور ساتھ کلمات محبت آمیز کے اور سخن ہاے عشق انگیز کے سے میرے تئیں فریفتہ و بندۂ بے درم خرید کیا۔ بند مخمس:
نکلے جو بچن منھ سے جھڑی پھول کلی گویا امید ستی جل کے دن رین نہیں سویا |
تب بیج محبت کا دل بیچ مرے بویا سدھ بُد نہیں تن من کی سب ہوش و خرد کھویا |
کیا کام کیا دل نے دیوانہ کو کیا کہیے
اور دو جام شراب ارغوانی کے پلا کر کہا ؎
آدمی زادہ بے وفا ہے گا
گرچہ دل تجھ پہ مبتلا ہے گا
چنانچہ عجب حالت بشاشت اور خُرمی کی حاصل اور متواصل ہوئی اور اُس آرام جاں و باعثِ تاب و تواں نے مہربانی ہاے بسیار و الفت ہاے بے شمار سے اس قدر دلبری و دلداری و مہر ورزی و غم خواری کی کہ کسی سے نہ سنی تھی، نہ دیکھی تھی۔ ناگاہ عین مزے میں ایک پری زاد، خانہ برباد نے ہواے فلک سے آن کر کچھ اپنی زبان میں کہا، تب وہ نازنیں بہ قول اس کے ؎
خوبرو خوب کام کرتے ہیں پل میں دل لے کے بھول جاتے ہیں |
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں صبح عاشق کوں شام کرتے ہیں |
چہرہ افروختہ کر کے میری طرف مخاطب ہوئی اور کہا کہ اے یار عزیز! چاہتی تھی کہ ایک دم ترددات دنیوی سے یکسو ہو کر ساتھ تیرے داد مُعاشرت اور مُباشرت کی دوں لیکن ازانجا کہ زمانۂ سفلہ پرور عیش برہم زن و روزگار غدار جہاں کہیں کہ دو دل کو یکجا دیکھتا ہے ووہیں نغمہ دوری و مہجوری کا آغاز کرتا ہے، لاچار اور معذور ہوں۔ بیت:
رفتیم و داغ ہجر تو بُردیم یادگار
بر یاد ما تو ہم دل خود را نگاہ دار
میں نے کہا کہ اے مجموعہ خوبی ہاے بے کراں و اے باعث آرام جان ناتواں! پھر کب تشریف لاووگی و اِلّا ہم کو نہ پاووگی ؎
تیرے خیال آنے کی پاووں اگر خبر
سینے کو داغ عشق سے گلزار کر رکھوں
اس واسطے چاہتا ہوں کہ یہ جمال باکمال پھر دیکھوں اور ملاقات سراسر بہجت و نشاط حاصل کروں۔ اس بے سر و ساماں کے تئیں اپنے نام اور مکان سے نشان دیجیے۔ فرد:
ترس تجھ کو نہیں اے شوخ اتنی کیا ہے ترسائی
ترے دیدار کو میں دیدۂ تر سوں کھڑا ترسوں
کہا کہ میں دختر بادشاہ جِنوں کی ہوں اور اوج مکان میرے کے اگر مُرغ تیز رو وہم و خیال کا بال پرواز کا کھول سکے کیا مقدور۔ اس قدر کہا اور تیغ جدائی سے میرے تئیں بسمل کر کے روانہ ہوئی۔ جب تک کہ تخت اس عالی بخت کا مقابل تھا میں اس کو دیکھتا تھا اور وہ مجھ کو دیکھتی تھی۔ آخرش بہ مضمون اس مصرع پر آن ٹھہری ؏
آرام دل برفت و دلم بے قرار ماند
واردات اس احوال کے سے عقل و ہوش میرا کاخ دماغ سے رخصت ہوا اور جہاں آنکھوں میں تاریک نظر آیا اور آشفتہ و پریشاں خاطر، نالاں و گریاں، بادل بریاں و تن عریاں اوپر زمین کے غلطاں بے قرار اور سرشار مانند ابر کے روتا تھا اور کہتا تھا، فرد:
مہربانی ہاے لیلا کرد مجنوں را خراب
ورنہ ایں بیچارہ را میل گرفتاری نہ بود
اور کبھی دل اپنے کے تئیں ساتھ اس شعر کے مشغول کرتا تھا، نظم:
کہاں ہے عزیزاں وہ رشک پری کہاں ہے وہ گلزار باغ وفا وہی ہے مرے حرف کا قدرداں کوئی جا کہے اُس سے میرا پیام |
کہ جس کا بہ جاں ہے دو جگ مشتری کہ ہے شان جس کی سدا دلبری کہ جوہر نہ بوجھے بہ جُز جوہری کہ کہتا ہوں از جان و دل ہر گھڑی |
شتابی خبر لے کہ بے تاب ہوں
ترے عشق میں بے خور و خواب ہوں
آخرش اوپر احوال کثیر الاِختلال خسران مآل میرے کے دایہ اور معلم نے اطلاع حاصل کر کے نہایت خوف و رجا میں ہو، بیچ عرض سلطانی معروض کیا، فرد:
سر نوشتے چو بد افتاد ز تدبیر چہ سود
کس بہ ناخن نہ کشاید گرہِ پیشانی
بادشاہ نے سننے اس سانحۂ ہوش رُبا و حیرت افزا کے سے بے ہوش و حواس ہو کر وُزراے صائب راے اور حکماے ذوفنون اور علماے مُتبحر کے تئیں تعین گیا کہ بیچ دریافت کرنے اس آفت ناگہانی کے سعیِ موفورہ تقدیم پہنچا کر، بیچ چارہ جوئی شفاے شاہزادہ بلند اقبال کے کوشش فراواں و جہد بے پایاں عمل میں لاویں اور حضرت خدیو کشور جہانیاں، دیں پرور، رعیت نواز، عدالت گستر بذات خود بیچ باغ کے تشریف لائے اور مجھ کو بہ ایں حالت تباہ دیکھا، از راہ شفقت پدری کے اشفاق اور الطاف از حد زیادہ فرمایا اور بیچ بغل کے لیا اور بوسہ اوپر پیشانی کے دیا اور ہر چند حُکما بہ دوا و شربت و غذا اور فضلا بہ دعا اور فقرا بہ تعویذ اور منجمان بہ تصدق چارہ گری کرتے تھے لیکن سعی کسی کی پیش نہ جاتی تھی اور میں روز بروز زرد و لاغر اور بے خور و خواب اور بے قرار و آرام، گرفتار رنج و آلام، بہ تکلیف تمام روز و شب باگریہ و سوز بسر لے جاتا تھا اور یہ پڑھتا تھا ؎
اُس نازنیں کا آنکھوں میں میرے مقام ہے اُس گلبدن کو میری طرف سے کوئی کہو |
دل میں مرے خیال یہی صبح و شام ہے تیری جُدائی کا مجھے اب غم تمام ہے |
بدیں مِنوال بے استقلال تین سال گرفتار رنج و نکال کا تھا، اس عرصے میں ایک سوداگر بامال و زر با کر و فر وارد ہوا و تحفہ ہاے ہر ولایت و اقلیم کے بہ آں صاحب تاج و دیہیم و خداوند ناز و نعیم کے گزرانے اور شرف ملازمت عالی جناب کرامت مآب کا حاصل کیا۔ بادشاہ نے تفتیش حال طبیب ہر ولایت عجیب و غریب از دور و قریب کا کیا۔ اُس سیاح ممالک رُبع مسکوں اور دشت پیماے کوہ و ہاموں کے نے عرض کیا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت! بیچ ولایت ہندوستان جنت نشان کے ایک جوگی پسر بہ نہایت حُسن و جمال اور علم حکمت میں صاحب کمال ایک جزیرے میں دنگ و دوال سے رہتا ہے۔ رباعی:
جوگی پسرے نہفتہ در خاکستر در خاک فزوں شود جمالش آرے |
دُزدیدہ رُخ از لیلی و از مجنوں سر آئینہ ز خاک می شود روشن تر |
برس روز کے بعد ایک روز بہجت افروز کہ روز عید اُس کے کا مقرر ہے، ایک باغ بے زغن و زاغ میں سے بہ خاطر فراغ نکل کر بیچ دریا کے شناوری کرتا ہے اور بعد غسل وقت مُعاودت کے کہ بیماران و رنجوران ہر دیار کے اوپر دروازہ باغ کے از راہِ دور و دراز با عجز و نیاز، چارہ ساز بیچارگان عالم کا جان کر رجوع لاتے ہیں اور فوج فوج جمع ہوتے ہیں، وہ افلاطون وقت اور بقراطِ زماں ایک نظر دیکھ کر بہ ملاحظہ نبض و قارورے کے ایک ایک نسخہ لکھ کر ہر ایک کی گود میں ڈال دیتا ہے اور مریض بہ مجرد عمل کرنے کے شفاے کامل حاصل کرتا ہے۔ اگر حکم ہو تو شاہزادۂ عالی جاہ خلایق پناہ، سلطنت و ابہت دستگاہ کو بیچ جزیرہ مذکور کے پہنچا دوں۔ بادشاہ سننے اس بات کے سے مانند گُل کے شگفتہ و خنداں ہوا اور فرمایا کہ ازیں چہ بہتر۔ اور مجھے ساتھ ایک وزیر صاحب تدبیر اور اُس سوداگر کے روانہ کیا۔ بعد انقضاے چند مدت کے بفضل الٰہی اوپر منزل مقصود کے پہنچا۔ بارے آب و ہوا وہاں کی سے امیدوار زندگانی کا ہوا۔ رباعی:
از فیض ہواش در تنم جاں آمد بادل گفتم اے اسیرِ غم و درد |
یا قاصد خوش خبر ز ملک جاناں آمد خوش باش کہ شام غم بپایاں آمد |
اوپر دل میرے کے ایک فرحت حاصل ہوئی لیکن زبان کو یارائی گفتگو کی نہ تھی اور اشک بے اختیار چشمۂ چشم کے سے جاری تھے اور دل اپنے کو ساتھ اس شعر کے تسلی کرتا تھا، شعر ؎
رسید مژدہ کہ ایام غم نہ خواہد ماند فراق و ہجر دلا دم بہ دم نہ خواہد ماند |
کسے ہمیشہ گرفتار غم نہ خواہد ماند ز یار رسم جفا و ستم نہ خواہد ماند |
چناں نہ ماند چنیں نیز ہم نہ خواہد ماند
بعد اِنقضا کئی ایام کے قریب دو سہ ہزار مریض کے کہ امیدوار شفا کے تھے نہایت شادی اور مبارک بادی سے کہا کہ فردا روز عید سعید جوگی کا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ شفاے کامل نصیب ہر بیمار کو ہوگی۔ القصہ صبح کے وقت کہ خورشید جہاں تاب دریچہ مشرق کے سے برآمد ہوا۔ بعد ایک ساعت کے وہ نیر سپہر حسن و لطافت کا بر آیا اور کہا ؎
در فراقِ یار جوگی گشتہ ام میل دارد شاہِ من با جوگیاں |
بہر آں دلدار جوگی گشتہ ام زیں سبب لاچار جوگی گشتہ ام |
اور بیچ دریاے موّاج کے کہ متصل دیوار باغ کے تھا، واسطے غسل و شناوری کے گیا۔ بعد فراغ عبادت معہود کے طرف بیماران ہر ملک و دیار کے رُخ توجہ کا فرمایا اور ایک قلمدان مرصع در بر و دستار جوڑہ دار بر سر برہنہ، لنگوٹ بند، سینہ فراخ، چار شانہ، خوش شکل، خوبرو، بہ جُفت بروت تاب دادہ، از تمتعات دنیوی آزاد ایک ایک متنفس کو دیکھنا اور نسخہ دینا شروع کیا تاکہ نوبت مجھ تک پہنچی۔ میری طرف دیکھ کر اور متامل ہو کر بعد فراغ جمیع بیماران و امیدواران کے میرے تئیں ہمراہ اپنے بیچ باغ کے لے گیا اور ایک مکان دلچسپ میں حکم رہنے کا فرمایا اور آپ بیچ ایک خلوت خانے کے گیا۔ بعد عرصۂ چہار روز کے میرے پاس آیا اور مجھ کو بہ ہمہ وجوہ خوش پایا، تبسم کیا اور کہا کہ بیچ سیر اس گلزار کے مشغول رہ اور میوہ ہاے گوناگوں جس قدر رغبت طبع ہو تناول کر۔ اور ایک مرتبان معجون کا عنایت کیا کہ برابر نخود کے ہر روز بلا ناغہ عمل میں لا۔ یہ کہہ کے اُٹھ گیا اور میں موافق فرمانے کے عمل کرتا تھا۔ چنانچہ روز بروز قوت و بشاشت حاصل ہوتی تھی لیکن عشق اُس صنم کا غالب تھا۔ ایک کتاب کہ لُب لباب ہر علم و عمل کے تھی، بیچ ایک طاقچہ ایوان کے دھری تھی۔ پس اکثر اوقات اپنے بیچ مطالعہ اُس کے صرف کرتا۔ چنانچہ تمامی عمل و حکمت و تسخیر پر قادر ہوا۔ بعد مدت سال تمام کے روز بہجت افروز عید کے جوگی خلوت خانے سے نکلا اور قلمدان و کاغذ مجھ کو سپرد کیا اور کہا کہ ساتھ آ۔ پس باہر نکلتے ہی بیرون دروازے باغ کے کہ خلقت بسیار اور مریض بے شمار گرفتار مرض و آزار جمع ہوئے تھے، سبھوں نے زبان اپنی بیچ ثنا و تحیت کے کھولی اور وزیر و سوداگر و مردم ہمراہی میرے آداب شکرانہ بجا لائے اور جوگی اوپر قاعدہ مستمرہ کے عمل کر کے متوجہ بیماروں کا ہوا۔ ایک جوان با روے چوں آفتاب و گیسوے مشک تاب کہ ضعف سے قادر اوپر کھڑے ہونے کے نہ تھا، در زمرۂ مریضان و مجانین دیکھا اور بعد فراغ خلق اللہ کے مجھ کو فرمایا کہ اس کو ساتھ لے آؤ۔ چنانچہ بہ موجب فرمانے اُس کے وہ اندرون باغ کے پہنچا۔ پس بیچ خلوت خانہ خاص کے لے جا کر قدرے کھوپری اُس کی تراش کے چاہتا تھا کہ زنبور سے ہزار پایہ کے تئیں کہ اُس کے مغز پر جم رہا تھا، اُٹھاوے اتنے میں میں کہ روزن میں سے دیکھتا تھا، اس حقیقت کو دریافت کر کے بولا کہ دست پناہ اُس کی پیٹھ پر گرم کر کے رکھ خود بخود جدا ہوگا، و اِلا مغز نہ چھوڑے گا۔ پھر خوف زندگی کو ہے۔ یہ سُن کر میری طرف دیکھا اور وہاں سے اُٹھ کر بیچ ایک گوشہ باغ کے جا کر اپنے تئیں ایک درخت سے لٹکایا اور جان بحق تسلیم ہوا۔ میں نے وقوع اس واقعہ جاں گداز سے نہایت تاسف کیا اور چاہا کہ بیچ خاک کے دفن کروں دو کلید جوڑے میں سے نکلے۔ اُسے مدفون کر کے قفل اُن کلیدوں کا متلاشی ہوا۔ جس وقت کہ حجرہ ہاے مقفل دریافت کر کے کھولے، دیکھتا کیا ہوں کہ تمام پُر از جواہر و زر ہیں اور ایک صندوقچہ مخملی طلائی مقفل ایک طاقچہ میں رکھا ہے۔ اس کے تئیں جو کھولا تو اسم اعظم اور ترکیب چِلا نشینی اور تسخیر جنات و ارواح و شمس وغیرہ پایا۔ بہ مجرد دیکھنے اس نعمت عظمیٰ و دولت کبریٰ کے فرحت و نشاط تازہ و مسرت و انبساط بے اندازہ حاصل کر کے یاد کرنا اُن اسموں کا شروع کیا اور دروازہ باغ کا کھول کر مردمان ہمراہی کو ساتھ لے کر جواہر و کتب و زر وغیرہ کشتیوں میں پُر کر کے از راہ دریا روانہ وطن کا ہوا۔ بعد چندے گرد دار الخلافت عالیہ کے پہنچا۔ والد بزرگوار نہایت مشتاق اور بے قرار واسطے استقبال کے آئے۔ میں نے بعد از قدم بوسی کے عرض کیا ؎
حب الوطن از ملک سلیماں خوشتر یوسف کہ بہ مصر بادشاہی می کرد |
خارِ وطن از سنبل و ریحاں خوش تر می گفت گدا بودنِ کنعاں خوش تر |
اس کمترین کے تئیں حکم ہو کہ بیچ اس باغ قدیم کے اقامت پذیر ہوئے۔ فرمایا کہ اے نور چشم! میں نے اُس مکان کے تئیں منحوس و نامبارک جان کر ویران مطلق کیا۔ بہتر یوں ہے کہ بیچ قلعہ مبارک کے ایک حویلی مقطع و مصفا و مکان بہجت افزا، طرب پیرا، رواں آسا پسند کر کے داد عیش و عشرت کی دے اور پائیں باغ واسطے فرحت طبع اور سیر کے مقرر کر۔ میں نے پر بجِد ہو کر اسی باغ کے تئیں از سر نو رشک ارم کا کیا اور بہ خاطر جمع واسطے تسخیر جنوں کے بیچ اربعین کے بیٹھا۔ بعد چہل روز کے ایک بڑی سی آندھی مع غرّش رعد و تپش برق کے نمودار ہوئی اور بادشاہ جنوں کا تخت پر آیا۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے کے سلام بآداب تمام ادا کیا۔ اُس پیر مرد نے کہا کہ اے جوان! مطلب تیرا کیا ہے، میں نے عرض کیا کہ یہ کوچہ گرد صحراے جنوں کا اوپر دختر روشن اختر پاکیزہ گوہر تیری کے ایک مدت سے عاشق و فریفتہ و مشتاق و طاق ابروے حلاوت سے بے مذاق ہے۔ اگر اس مہجور سراپا رنجور کے تئیں شب دیجور مہاجرت کی سے بہ صبح وصال اُس صاحب حسن و جمال کے رہنماے گم گشتگان بادیہ ضلالت و گمراہی کا ہو کر خضر وار چشمۂ جمال اُس نونہال باغیچہ دلبری و دلداری کے سے اس تشنۂ دیدار کو سیراب کرے تو بعید از عنایات بے غایات و توجہات بلا نہایات نہ ہوگا۔ تب اُس بزرگ دانش سُترگ نے کہا کہ آدمی زاد کو ساتھ آتشیں نہاد کے نسبت اور موافقت کیوں کر ہو۔ میں نے بعد از عہد و پیمان واثق کے کہا کہ سواے دیکھنے دیدار فایض الانوار اس سرو جوئبار محبوبی کے اور کچھ سروکار نہیں۔ اُن نے کہا کہ اوپر اس بات کے کہ الکریم اِذا وعد وفی ہرگز راسخ دم و ثابت قدم نہیں رہنے کا کہ آدم زاد کو وفاے عہد نہیں۔ اور بے وفائی مخمر خمیر اس کے کی ہے۔ لیکن میں تجھ سے از راہ خیر خواہی کے کہتا ہوں کہ اگر قصد مباشرت کا کرے گا تو باعث ہلاکت اُس کی کا اور موجب مزید محنت و مشقت تیری کا ہوگا ؎
من انچہ شرط بلاغ است با تو می گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملال
میں نے کہا کہ ایک نظر مجھ دیدار فرحت آثار اس کے سے نور افزا دیدہ رمد رسیدہ کا کر۔ رنج و راحت ؏
ہر چہ از دوست می رسد نیکوست
ناگاہ وہ نازنین با نہایت زیب و تزئین دروازے سے در آئی۔ فرد:
کماں ابرو مرے گھر کیوں نہ آوے
کہ جس کے واسطے کھینچے ہیں چلے
اور میں نے مانند جان کے بغل میں لیا اور وہ نازنین وفاے عہد اور پرہیزگاری میری سے نہایت تعجب کرتی تھی اور بایک دیگر بیچ اُس باغ کے بخوبی شب و روز بسر لے جاتے تھے۔ اس آرام جان نے طرف میرے دلسوزی اور یگانگت سے کہا کہ کتاب اپنی سے خبردار رہ کہ جنان بے ایمان لے جائیں گے۔ چنانچہ ایک رات بیچ حالت مستی کے شیطان غالب ہوا اور میں نے چاہا کہ ہاتھ بیچ گردن اُس کی ڈال کر کام دل حاصل کروں۔ اتنے میں ایک شخص نے کہا کہ کتاب مجھ کو دے، اپنے پاس رکھنی خوب نہیں۔ میں کہ مست خواب غفلت اور عشق اُس کے کا تھا، بے تحقیقات اور شناسائی کے اوراد اور دعوات بغل سے نکال کر حوالہ اُس کے کیا۔ اُس نازنین نے کہا کہ اے ظالم! پند مرا فراموش کر دی کار از دست برفت، اور بے خود ہو کے پڑی۔ میں نے جو پسِ پشت نگاہ کی تو ایک عفریت بچہ نظر آیا۔ میں نے اوپر اُس کےحملہ کر کے جوں ہی چاہا کہ بیچ قابو کے لا کر خوب ہی ضرب شلّاق کروں کہ ایک اور ہی شخص کتاب ہاتھ اُس کے سے لے گیا۔ پس چند افسوں کہ یاد رکھتا تھا، پڑھ کے اُس عفریت بچہ کو بہ صورت گاؤ کیا۔ بعد ازاں جو اوپر بالیں اُس نازنین خجستہ آئین کے گیا، مدہوش اور خاموش پایا۔ عیش میرا ساتھ طیش کے مبدل ہوا اور اُس وقت سے ترک اختلاط کا کر کے اس کنج باغ میں اوقات حیات اپنی کے بسر لے جاتا ہوں اور یہ تیاری نہال زمرد واسطے اِشتغال طبیعت اور رفع سودا کے ہے۔ اور بعد ہر ماہ کے بیچ اس صحرا کے جانا اور مرتبان کا توڑنا اور غلام کا مارنا واسطے کام اس کے ہے کہ خلق اللہ کا دل اوپر احوال میرے کے جلے اور کوئی بندۂ خدا بیچ حق میرے کے دعا کرے کہ بہ مقصد و مراد اپنی پہنچوں۔ احوال میرا یہ ہے کہ گزارش کیا۔ میں نے کہا کہ اے سر گروہِ قافلۂ عاشقاں! قسم ہے رب العزت کی کہ جب تک تجھ کو کامران نہ دیکھوں، تلاش مطلب اپنے سے دست بردار رہوں۔ اور میں نے رخصت ہو کر سر بیچ بیابان کے رکھا۔ تا مدت پنچ سال در شہرہا و بیابان ہا ہرزہ گرد و صحرا نورد رہا۔ لاچار عاجز ہو کر اوپر ایک کوہ کے پہنچا اور چاہا کہ اپنے تئیں پہاڑ سے ایسا ہی ڈالوں کہ استخواں سے نشان نہ رہے کہ ایک متبرک ذات خضر صفات دو چار میرے ہوا اور بہ طریق اُس رفیق کے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ مقصد اپنے کو پہنچے گا، خاطر جمع رکھ۔ اس عرصہ میں ملاقات تمھاری میسر آئی۔ اب امیدوار فضل الٰہی کا ہوں کہ بہ برکت قدوم تمھارے مطلب میرا حاصل ہو۔
قصۂ درویش سوم
تب درویش سویم نے طوطی زبان کے تئیں اوپر سرگذشت اپنی کے یوں مُترنم کیا کہ ؎
اے دوستاں ز حال من زار بشنوید ہر چند نیست منزلت و قدر بندہ را |
از داستانِ ایں دل افگار بشنوید آیا کشیدہ ام ز بس آزار بشنوید |
یہ بندہ بادشاہ زادہ مُلک عجم کا ہے اور وہ شہریار عالی تبار، گردوں وقار سواے میرے اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہ رکھتا تھا۔ ازاں جا کہ تقاضا ایام شباب اور جاہلیت کا ہے، بیچ سیر و تماشا و شکار بسیار اور لہو لعب بے شمار کے لیل و نہار سرشار رہتا تھا اور داد عیش و نشاط و مسرت و انبساط کی با یاران ہمراز و مصاحبان دمساز دیتا تھا۔ ایک روز باچندے از دوستان صادق و مُحبان موافق مانند گل ہاے بوستان رونق افزا صحرا کا ہوا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ساقی سحاب کے نے با آئین ہمت بندوں کے لطف بسیار اوپر حال سبز بختان روزگار کے مبذول کر رکھا ہے اور صحن صحرا از بس نسرین و نسترن سے رشک افزاے ماہ و پروین کا ہو رہا ہے۔ اتفاقاً بیچ اس بہار کے ایک آہو مشکیں مو سراسر سحر و جادو، فرد:
غزالے در ریاضِ جاں چریدہ
ز شوخی بر رُخِ صحرا رمیدہ
سامنے سے نظر آیا۔ قلادہ مرصع در گردن و جلاجل طلا در دست و جُل زربفت بر پشت، برخلاف وحشیان دشت کے باکمال اطمینان بیچ میدان خالی از انسان کے کھڑا ہے۔ میرے تئیں ہوس زندہ دستگیر کرنے اُس کے کی دامن گیر خاطر کے ہوئی اور رفقاے ہمراہی سے کہا، فرد:
اس ہرن نے جو من ہرا میرا
دل کے رمنے کا یہ شکاری ہے
بے مدد و اِعانت تمھاری زندہ دستگیر کیا چاہتا ہوں، کوئی اور تعاقب اور ہمراہی نہ کرے۔ خبر شرط ہے اور گھوڑا برق آہنگ سبک خیز طرف اس کے چلایا اور وہ روبرو سےہوا ہُوا۔ چنانچہ یہ یکہ تاز عرصہ روے زمین کا بیچ دستگیر کرنے اُس ہواے مجسم کے بال سعی کے باد صرصر سے دام لیتا تھا، لیکن کچھ پیش رفت نہ تھا۔ آخرش یہ شہسوار اور وہ مرکب راہوار عرق عرق اور تر بتر تمام روز خراب ہو کر از راہ طیش و جنوں کے ترکش سے تیر اور قربان سے کمان لے کر اور ساتھ زِہ کے ملاقات دے کر بسم اللہِ اللہُ اکبر کہہ کے ایک تیر مارا کہ ران آہو میں ہم ترازو ہوا۔ وہ لنگ لنگاں اوپر دامن پہاڑ کے چلا اور اس فقیر مضطر نے گھوڑا چھوڑ کر پیادہ پا تعاقب کیا اور مانند موسیٰ کے اس کوہِ طور نوراً علیٰ نور پر امیدوار دیدار شاہد مراد کا ہوا۔ بالاے کوہ کے ایک چشمہ اور چند اشجار اور ایک گنبد دوّار نظر آیا۔ میں مانند سکندر کے اُس چشمۂ آب حیات پر پہنچ کر بیچ وضو کرنے کے مشغول ہوا۔ یکایک صدا نوحہ کی گنبد سے گوش زد ہوئی کہ اے نور دیدۂ من و اے جگر گوشۂ من! جس نے تجھ سے یہ سلوک کیا ہے، الٰہی بر در من نشیند و از رفقا بہرہ نہ بیند۔ بہ مجرد سُننے اس آواز کے قصداً طرف گنبد کے رُخ توجہ کا فرمایا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک مرد محاسن سفید ملبس بہ لباس سیاہ اوپر مسند کے بیٹھا ہے اور تیر کو ران آہو سے نکالتا ہے۔ میں نے روبرو جا کے ادب سے سلام کیا اور اُن نے جواب سلام دیا۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضرت سلامت! یہ تقصیر اس گنہگار سے صادر ہوئی، اب امیدوار ترحم عالی کا ہے کہ معاف ہووے۔ فرمایا کہ بابا خدا بخشے۔ میں نے متفق ہو کر تیر ران آہو سے نکال کر مرہم اوپر زخم کے لگایا۔ بارے اُس بزرگ ذات خضر صفات نے واسطے میرے بہ شفقت تمام ماحضر حاضر کیا۔ پس میں بعد فراغ طعام کے اوپر پلنگ کے واسطے استراحت کے متوجہ ہوا۔ بہ سبب ماندگی اور کسل اعضا کے سے فی الفور کمیں داران خواب اوپر قافلہ بیداری کے تاخت لا کر کلی متاع گراں بہاے ہوشیاری کی لوٹ لے گئے۔ بعد ایک لمحہ کے آواز گریہ و زاری کی بیچ گوش ہوش میرے کے مستمع ہوئی۔ آنکھ کھول کر دیکھتا کیا ہوں کہ تنِ تنہا پلنگ پر لیٹا ہوں اور صاحب خانہ سے مکان خالی ہے۔ پس جو آگے صُفہ کے ایک پردہ پڑا تھا اُس کے تئیں اُٹھا کر ملاحظہ کیا کہ ایک تخت مرصع بچھا ہے اور اوپر اُس کے ایک نازنین چہاردہ سالہ با روے چوں آفتاب و گیسوے چوں مشک ناب با غمزۂ دل آویز و تبسم شکر ریز بہ لباس فرنگ، نہایت شوخ و شنگ بہ اداے معشوقانہ و نگاہ جاودانہ بیٹھی ہے ؎
اس زلف جاں گُزا کو صنم کے بلا کہوں قاتل نگہ کو پوچھتے کیا ہو کہ کیا کہوں |
افعی کہوں، سیاہ کہوں، اژدہا کہوں خنجر کہوں کٹار کہوں نیمچا کہوں |
اور وہ پیر مرد سر اپنا نیچے پاؤں اس کے ڈال کر زار زار مانند ابر بہار کے روتا ہے اور کہتا ہے، بیت ؎
بعد ازیں در عوضِ اشک دل آید بیروں
آب چوں کم شود از چشمہ گِل آید بیروں
اور گلشنِ نونہال جمال اس کے سے گُل کامیابی چنتا ہے۔ ابیات:
قامت ایسا کہ بہ ہنگام خرام اس کے اگر دست وہ تیز کہ عالم میں نہیں جس کی پناہ |
آگے آجاوے قیامت تو یہ بولے کہ سرک چشم وہ ترک کہ ہو قوم جنھوں کا ازبک |
یہ عاصی بہ مجرد دیکھنے صورت حال اس حسن جمال کے تاب سے بے تاب ہوا اور مانند قلب بے جان کے بے ہوش و بد حواس ہو کر گر پڑا۔ پیر مرد نے دریافت کرنے اس احوال کے سے اٹھ کر شیشہ گلاب کا لا کر اوپر میرے چھڑکا۔ میں کہ بیچ عالمِ غش کے مانند صورت تصویر آپ سے غافل ہو کر بے حس و حرکت پڑا تھا، ہوشیار ہو کر اٹھ کھڑا ہوا اور سلام کیا۔ اس بے رحم سنگ دل کافر فرنگ نے جواب سلام کا نہ دیا۔ میں نے عرض کیا کہ اے نازنین ماہ فلک چہارمی! فرد ؎
حق نے خوباں میں جہاں کے تجھے ممتاز کیا
با چنیں شکل و صُوَر صاحبِ اعجاز کیا
لیکن جواب سلام کا از جملہ واجبات ہے جتنا کہ عجز و الحاح کیا مُطلَق مُنھ سے نہ بولی۔ تب تو میں سبقت کر کے ہاتھ اوپر پاؤں اس کے لے گیا اور کہا، شعر ؎
رنگ حناست بر کف پاے مبارکت
یا خون عاشقانست کہ پامال کردہ
اور موجب شعر مرزا رفیع سودا کے ؎
فندق پالگی کہنے کہ نہ دیکھا ہوگا
سرو کے بیج سے پھولا گل اورنگ اب تک
آخر الاَمر مساس سے معلوم ہوا کہ آذر بت تراش نے پتھر سے تراشی ہے۔ تب تو میں نے اس بت پرست عاشق سرشت سے پوچھا کہ دعا تیری تو اثر کر چکی۔ اب سچ کہہ کہ یہ کیا طلسم ہے اور باعث استقامت تیری کا اس مکان پر کیا سبب ہے۔ مجھ کو اصل حال اس کے سے مطلع کر۔ تب اس عزیز مصر تمیز نے کہا ؎
اے جَواں کارِ عشق بازی نیست
عشق بازی مکن کہ بازی نیست
حق تعالی انسان ضعیف البنیان کو ہر آن میں طوفان ناپیدا کنار عشق بازی کے سے برکنار رکھے۔ تب میں نے کہا ؎
بے عشق جو عالم میں فراغت سے جیا ہے
اس دولت عظمیٰ سے وہ محروم رہا ہے
فرد ؎
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
بہتر یہ ہے کہ بیچ اظہار کرنے حقیقت اصل اس نقل کی بالفعل تاخیر اور توقف نہ کر ؏
کہ آفت ہا ست در تاخیر و طالب را زیاں دارد
واِلّا ہاتھ اس گم گشتۂ عقل و خرد کے سے جانبر نہ ہوگا۔ جب اس عزیز نے میرے تئیں مشغوف اور مستعد دیکھا، بہ لاچارگی بیچ گزارش احوال کثیر الاختلال اپنے کے نطق پرداز حکایت سراسر شکایت کا ہوا۔
حکایت
گزارش کرنا نعمان سیاح تاجر کا احوال پُر ملال اپنے کے تئیں اور مذکور ملکۂ فرنگ کا
کہ یہ گنہگار شقاوت شعار، امیدوار شفاعت نبی المختار سوداگر ہے اور میرے تئیں نعمان سیاح تاجر کہتے ہیں۔ بیچ اس عمر کے تجارت ہَفت اقلیم و شناسائی ہر صاحب تاج و دیہیم اور ملاقات صاحبان ناز و نعیم کے بہم پہنچا کر ایک روز بر سرِ حساب نصاب تجارت کے آیا اور رفقاے مجلس افروز و ندماے دلسوز سے کہ شب و روز جلیس ہمدم و انیس محرم تھے کہا کہ یہ دولت کَسب تجارت و پیشہ سوداگری کے سیر اقالیم و ملاقات بادشاہاں و مردم مشہورۂ آفاق و فقراے گوشہ نشین و خدا پرستان صحرا گزین تمام عرصہ روے زمین کی میسر آئی مگر آرزوے تجارت ملک فرنگ و ملازمت آں صاحب افسر و اورنگ ناخن زن جگر کی ہے۔ بارے بہ اتفاق یارانِ موافق و دوستان صادق با تحفہ ہاے ہر دیار چار و ناچار با قافلۂ تُجّار سیاحت شعار روانہ ہوا۔ بعد اِنقضاے مدت مدید ہر روز راہِ نو و ہر شب جاے نو منزل در منزل مَراحل در مراحل قطع مسافت کر کے بیچ اس شہر مینو سَیر کے پہنچا اور رخت اقامت کا ڈالا۔ چنانچہ پہنچنا سوداگران متمول و مالدار با تحفہ ہاے ہر شہر و دیار کا شہرۂ آفاق ہوا۔ صبح کے وقت کہ نیّر جہاں تاب رونق افزا گیتی کا ہوا۔ ایک خواجہ سرا با چندے خدمت گاران داخل کاروان سرا کا ہو کر مردمان قافلہ سے پوچھا کہ سردار اس گروہ صاحب شکوہ کا کون ہے۔ یاروں نے طرف میرے رہنمائی کی۔ وہ شخص اس طرف کو متوجہ ہوا۔ میں نے تعظیم تمام سے پیش آ کر صدر مجلس بٹھایا اور پوچھا کہ باعث تشریف آوری سے اطلاع کیجیے۔ اس ایلچی بادشاہِ کشور حسن و خوبی کے نے کہا کہ ملکہ ملک سیرت نے فرمایا ہے کہ مال تجارت سے جس قدر اسباب نفیسہ اور اجناس لطیفہ کہ لایق بادشاہ کے لائے ہو در حضور وافی السرور خاتون جہاں و بلقیس دَوراں کے حاضر کرو۔ میں نے عذر ماندگی اور کسل مزاج کا درپیش لا کے وعدہ صبح کا کیا۔ جس وقت کہ لیلی شب کی نے پردہ ظلمت کا چہرہ نورانی پر فَروہشتہ کیا۔ میں نے سب رفقاے ہمراہی کو جمع کر کے اور تحفہ جات عجائبات ہر ایک سے لے کر یک جا کیے اور بہ مجرد نکلنے مجنوں جہاں گرد آفتاب کے یہ بے خبر از شعبدہ بازیِ فلک کج رفتار روانہ دولت سراے ملکۂ فرنگ کا ہوا اور خبر حاضر ہونے فقیر کی معرفت باری داران حضور کے بہ مسامع مَجامِع عالیہ متعالیہ کے پہنچی۔ میرے تئیں اندرون حرم محترم کے طلب کیا۔ دیکھنے میں معشوقہ جادو ادا اور محبوبان حور لقا اس کے سے ایک شوق اور ولولہ میرے دل پر پیدا ہوا اور جس وقت کہ نگاہ میری اس اورنگ پیراے سلطنت عِز و ناز پر پڑی، بہ مجرد دیکھنے کے متاعِ گراں بہا حواس کی غارت گئی۔ بہ مضمون اس شعر کے ؎
کرتی ہیں ہر نگہ میں وار انکھیاں ہر نگہ میں ادا و غمزہ ستی |
گڑتی ہیں دل پہ جوں کٹار انکھیاں کرتی ہیں کام کئی ہزار انکھیاں |
اور ملاحظہ تُزک و شان پری رویانِ فرنگستان کے سے کہ صف بہ صف دست بستہ ہر آن میں غارت گر دین و ایمان انسان ضعیف البنیان کے تھیں، یہ کمترین فدویان و کمینہ غلامان مانند قالب بے جان کے بے تاب و تواں ہوا اور در حضور وافی السرور کے بہ آئین بندہ ہاے جاں نثار و فدویان خاکسار، سراسر اِضطرار تسلیمات بجا لا کے عرض کیا۔ بیت ؎
تو ہے رشکِ ماہ کنعانی ہُنوز
تجھ کو ہے خوباں میں سلطانی ہنوز
اور جو کچھ کہ تحفہ ہاے ہر دیار و لایق شہریار چہ اقمشہ و چہ جواہر آبدار و لولوے شاہوار رکھتا تھا، نظر سے گزرانے۔ چنانچہ وہ ملکۂ فرنگ غارت گر ناموس و ننگ دیکھنے اسباب رنگ برنگ کے سے نہایت دنگ ہوئی اور اکثر اشیا پسند کر کے بیچ تحویل خانساماں سرکار کے سپرد کی اور فرمایا کہ قیمت اس اشیاے نو خرید کی کہ از راہ خریداری کمال لی ہے، صبح مرحمت ہوگی۔ میں نے آداب بجا لا کر قبول کیا اور ہزار ہزار سجدات شکر و سپاس بہ جناب واہب العطایات بجا لایا کہ بارے اس بہانے پھر کل کے روز اور اس مجلس نشاط اندوز و محفل بہجت افروز میں باریاب ہونے کا اتفاق ہوگا۔ چنانچہ باہر آتے ہی میری آنکھوں میں جہاں تاریک تھا اور مانند مجذوبوں کے کہتا کچھ اور نکلتا کچھ تھا۔ القصہ اس مکان فردوس گاہ میں سے آ کر رفقاے ہمراہی سے کہا، مسدّس:
دوستاں شرح پریشانی من گوش کنید داستانِ غم پنہانی من گوش کنید |
قصۂ بے سر و سامانی من گوش کنید باعثِ حیرت و حیرانی من گوش کنید |
شرح ایں آتش جاں سوز نہفتن تا کے
سوختم سوختم ایں راز نہفتن تا کے
اکثر دوستان دمساز و رفیقان ہمراز دریافت اس سوز و گداز کے سے رہنمون احتراز عشق خانہ برانداز سے ہوئے۔
میں نے بہ ہزار رنج و محنت صعوبت و کربت روز و شب از راہ تَعب کاٹ کے جس وقت کہ تُرک خورشید کے نے خلوت خانہ مشرق کے سے برآمد ہو کر قصد ترک تازی کا کیا، اپنے تئیں اوپر دولت سراے سرخیل خوباں جادو نگاہ کے پہنچایا اور معرفت خواجہ سرایان خاص محل کے باریاب بستان سراے ملکہ کا ہوا اور بدستور دیروز کے سب پری زادوں کے تئیں ہنگامہ آراے مجلس انجم تزئین کا پایا۔ ملکہ کو دیکھا کہ اوپر تخت مرصع کے جلوہ افروز ہے۔ میرے تئیں دیکھ کر اور معاملات دنیوی سے جلد فراغت کر کے ہر ایک کو رخصت کیا اور آپ خلوت خانے میں تشریف لے جا کے میرے تئیں یاد فرمایا اور حکم بیٹھنے کا کیا۔ یہ پروانہ بجاں تصدق اس شمع شبستاں کا ہو کر تسلیمات اور کورنشات بجا لا کر بیٹھ گیا۔ از راہ مہربانی بسیار و الطاف بے شمار کے ارشاد فرمایا کہ تجارت ملک فرنگ سے کس قدر منافع منظور ہے۔ میں نے عرض کیا کہ قدم بوسی حضرت خداوند زمانی کا باعث افتخار کونین و سرمایہ سعادت دارین کا جانتا ہے اور جو کچھ کہ قسمت میں ہے اَلنَّصِیبُ وَ النَّصیف۔ فرمایا کہ اسی قدر انعام از راہ توجہات تمام عوض ایک کام کے مرحمت ہوگا، اگر تجھ سے ہو سکے۔ میں نے عرض کیا، بیت:
میں بھی جی سے کر چکا ہوں مال و جاں دونوں نثار
اس جہاں میں آن کر مرنا ہے آخر ایک بار
اگر مال و جان اس کمترین غلامانِ سرکار کام آوے، سعادت ابدی و دولت سرمدی حاصل اس کمینہ خاکسار و ذرہ بے مقدار کی ہوگی۔ القصہ قلمدان طلب کر کے ایک رقعہ لکھا اور دُلمیان زرّیں میں ڈال کر ایک رومال سے لپیٹ کر میرے ہاتھ میں دیا اور کہا، دوہا:
رو رو پتیاں میں لکھی جی کا گد لپٹائے
ہے کاسد ایسا کوئی پیتم کو یہ لے جائے
اور ایک مضمون عرض کرتی ہوں، ابیات:
اس بے وفا کو شکوۂ جَور و جفا لکھوں یا چشم اشک بار سے دریا بہا لکھوں |
یا اس دل خراب کا میں مُدعا لکھوں یا جل گئے جگر ستی شعلہ اٹھا لکھوں |
قاصد نہیں ہے تاب مجھے آہ کیا لکھوں
=ایک انگشتری الماس کی کہ زیب انگشت کی تھی، واسطے پتے کے دی اور کہا کہ ایک باغ عالی شان بلند مکان کہ بنام جہاں آرا موسوم ہے، تو طرف اس باغ کے جا۔ ایک جوان خوش عنوان، کیخسرو نامی داروغہ باغ کا ہے، اس کو یہ انگشتری دیجو اور ہماری طرف سے دعا کہہ کر جواب رقعہ کا حاضر کیجو اور کھانا وہاں کھائیو تو پانی یہاں پیجو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ مورد عنایات بے غایات و تلطفات بلا نہایات کا ہوگا۔ میں حضور سے رخصت ہو کر روانہ ہوا۔ قریب دو فرسخ کے ایک مکان مینو نشان تھا۔ گرد و نواح اس باغ کے پہنچا کہ ایک مرد مسلّح و مستعد میرے تئیں پکڑ کے حضور کیخسرو کے لے گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ جوان شیر صولت ہزبر تواں ایک کرسی مرصع کے اوپر زرۂ داؤدی در بر و خود آہنی بر سر با نہایت کر و فر بیٹھا ہے اور قریب ایک ہزار جوان یَل و پہلوان با سپر و شمشیر و ترکش و کمان روبرو دست بستہ کھڑے ہیں۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے صورت حال اس کی کے یہ دو شعر پڑھے ؎
ہر گھڑی برہم نہ کر ناحق دماغ اپنے کے تیں شان خورشید قیامت دیکھیو اٹھ جائے گی |
باغباں جاتے ہیں ہم، رکھ چھوڑ باغ اپنے کے تیں حشر میں جب ہم دکھا بیٹھیں گے داغ اپنے کے تیں |
تب اس نے از راہ تبختر کے میرے تئیں نزدیک اپنے طلب کیا اور میں نے زبان بیچ مدح و ثنا اس رشک تہمتن و اسفندیار کے کھولی اور عرض کیا ؎
تمھارے دیکھنے کے واسطے آئے ہیں شدت سے غریبی، عاجزی، بےچارگی سے عرض کرتے ہیں |
نہ ملنا اس قدر جائز نہیں اہلِ مروت سے اکڑنا اس سے برجا ہے جو کہتا ہووے قوت سے |
اور وہ انگوٹھی دکھا کر اظہار رقعہ ملکہ کا کیا۔ اس نے انگشت تحیّر کی دندان تحسّر کے سے کاٹ کر کہا کہ اے اجل گرفتہ! سخت جرات کر دی، اندرون باغ کے جا، نیچے درخت تاڑوں کے ایک جوان قفس فولادی میں بیٹھا ہے۔ رقعہ جلد دے کے اور جواب حاصل کر کے شتاب آنا۔ میں نے قدم اندرون باغ رکھا تو باغ بوستاں لایق دوستاں با درخت ہاے آبدار و فوارہ ہاے بے شمار و آبجو ہاے رواں، چہچۂ مرغاں و قہقہۂ کبکاں رشک رضواں و محسود فردوس جناں تھا۔ نیچے ایک درخت کے ایک جواں بخت بیچ قید سخت کے پنجرۂ فولادی میں بیٹھا ہے۔ میں نے سلام با آداب تمام بہ آئین اہل اسلام بجا لا کے رقعہ سر بمہر مَع خریطہ زَربفت روزن قفس کے سے گزرانا۔ اس جوان نے وہ رقعہ پڑھا، بہ ایں مضمون، مسدس:
سلامت می رساند ناتوانے کہ اے یار عزیز مہربانم مرا خود دل ز ہجرت غرق خون است |
غریبے مبتلاے، خستہ جانے تمناے دل و آرام جانم نمی دانم ترا احوال چوں است |
رباعی:
اس درد سے دل کے نہیں کوئی آگاہ بے رحم ستی جا کے کہو اے قاصد |
مرتی ہوں خبر لے مری اے نورِ نگاہ دن رات گذرتے ہیں کر اللہ اللہ |
در جواب اس کے جوان نے کہا کہ اسباب لکھنے کا موجود و مہیا نہیں۔ میری طرف سے زبانی یہ شعر پڑھ دیجیو۔ رباعی مستزاد:
آئینہ بروے دِلکشاے تو رَسد – اے نورِ نگاہ
ہم شانہ بہ زلفِ مشک ساے تو رسد – مارا چہ گناہ
ما خاک شویم و سرمہ منظور اُفتد – داغیم زرشک
دل خوں شدہ و حنا بہ پاے تو رسد – سبحان اللہ
قطعہ:
دل ہے تیرے پیار کرنے کو اک لہر لطف کی ہمیں بس ہے |
جی ہے تجھ پر نثار کرنے کو غم کے دریا سے پار کرنے کو |
تاہنوز اُس رموزدان سرایر عشق کے نے کلام موالات التیام سے فراغت نہ پائی تھی کہ یکایک فوج زنگیان زشت رو، ستیزہ خو و وحشیان درشت گو، آزرم جو ہر چہار طرف سے آ ٹوٹے اور میرے تئیں زخم ہاے کاری سے رشک تختۂ ارغوان کا کیا۔ پھر اس عاجز کو خبر تن بدن اپنے کی نہ رہی۔ جس وقت کہ دریاے بے ہوشی کے سے اوپر ساحل افاقت کے آیا، دیکھتا کیا ہوں کہ دو پیادے سرہنگ زادے میرے تئیں اوپر چارپائی کے ڈال کر لے جاتے ہیں اور آپس میں ساتھ اس کلام کے متکلم ہیں۔ ایک نے کہا کہ اس لوتھ بے جان کو صحراے پُر وحوش و اشباح میں ڈال چلو کہ غذا کُتوں اور کووں کی ہو۔ دوسرا بولا کہ اگر ملکہ تحقیقات کرے اور اس احوال پر اطلاع پاوے تو مقرر ہے کہ جیتا گڑوادے گی۔ پس تجھ کو زندگی اپنی عزیز نہیں کہ اس طرح بے تمیزی سے بات کرتا ہے۔ تب میں نے یاجوج و ماجوج سے از راہ عجز و الحاح کے کہا کہ یارو میں زندہ ہوں اور یہ کیا ماجرا گذرا، اگر میرے تئیں راز سے مطلع کروگے تو بعید مروت و جوانمردی سے نہ ہوگا۔ تب اُن عزیزوں نے حقیقت احوال اس واردات کے تئیں اس طرح سے اوپر لوح بیان کے نگارش کیا کہ یہ جوان قفس فولادی میں برادر زادہ بادشاہ کا ہے۔ وقتِ رحلت کے باپ اس کے نے کہ صاحب تاج و تخت کا تھا برادر اپنے کو ولی عہد کرکے وصیت کی کہ فرزند عزیز بہ موجب خورد سالگی کے بے ہوش و صغیر ہے۔ لازم کہ تعہد خلافت و فرماں روائی و قواعد سلطنت و کشور کشائی کا از راہ دولت خواہی وکار آگاہی بہ فصل الٰہی بوجہ احسن سر انجام دیجیو اور جس وقت کہ لعلِ شب چراغ کان ابہت و شہریاری کا حد بلوغ کو پہنچے تو ساتھ دختر خجستہ سیر اپنی کے نکاح کرکے اوپر تخت سلطنت مختار اور شہریار کیجیو۔ پس بعد واقعہ جاں کاہ فردوس آرام گاہ حضرت ظل اللہ کے برادر کوچک والی افسر و اورنگ خلافت کا ہوا۔ بیچ امانت کے خیانت اور عہد سے بد عہد ہو کر شاہزادہ کو ساتھ دیوانگی کے نسبت دے کر بیچ پنجرۂ فولادی کے محبوس اور اِرث سے مایوس کر چوکی مستحکم اوپر دروازہ باغ کے تعین کی، بلکہ اکثر دفعہ زہر ہلاہل سے مسموم کیا۔ جو زندگی باقی تھی کارگر نہ ہوا اور دونوں عم زادے آپس میں منسوب بلکہ عاشق و معشوق ہیں۔ ملکہ نے تیرے تئیں مع رقعہ اشتیاق کے ارسال کیا تھا۔ از روے مخبران صادق یہ خبر حضور میں پہنچی، تب دستہ حبشیان نے تیرے تئیں تلف تیغ آبدار کا کیا اور بادشاہ نے ساتھ وزیر خیانت تدبیر کے صلاح یوں کی ہے کہ ملکہ کو راضی اوپر قتل اُس بے گناہ کے کیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں پیادے اور یہ زخمی واسطے تماشے کو بیچ اُس حشر گاہ کے حاضر ہوئے۔
میں نے دیکھا کہ بادشاہ اوپر تخت کے بیٹھا ہے۔ پنجرہ جوان کا لاکر حاضر کیا اور بادشاہ زادی شمشیر برہنہ لیے واسطے قتل اُس سرگشتہ کے آئی اور اُس فرہاد ناشاد خانہ برباد کو پنجرے سے باہر نکالا اور وہ شیریں شمشیر آہیختہ کیے مانند جلاد کے پُر متصل پہنچی۔ چشم چار ہوتے ہی تلوار ہاتھ سے ڈال کر نہایت اشتیاق اور تپاک سے گلے لپٹ گئی اور کہا، ابیات:
عشق میں کیا آرزو، حسرت کی بر آئی ہے آج دل ہمارے نے سجن تجھ صاحب شوکت سے مل |
دیکھ اپنے سر و قد کو جی نثار اپنا کیا عشق میں پیدا بہت سا اعتبار اپنا کیا |
یہی آرزو کمال اس پراگندہ احوال کی تھی کہ ایک مرتبہ بہ حین حیات آب زُلال وصال تیرے کے سے سیراب ہوں۔ معائنہ اس واردات حیرت سمات کے سے بادشاہ سخت جوش پر آیا اور وزیر کو فرمایا کہ تو بھی چاہتا تھا کہ میں یہ صورت بہ چشم خود دیکھوں۔ البتہ خواجہ سَرایوں نے ملکہ کو حضور سے دور کیا اور وزیر بے تدبیر ناواقف از کار تقدیر وہ شمشیر لے کر واسطے قتل اُس خسروِ ملک غم کے آیا اور چاہا کہ ایک ضَربَت میں کام آخر کرے کہ ناگاہ ہاتھ تیر انداز قضا کے سے ایک تیر چھاتی وزیر کے سے صاف گذر گیا اور وہ مانند قالب بے جاں کے زمین پر گرا۔ بادشاہ نے دیکھنے اس احوال کے سے خلوت خانہ کی راہ لی اور جوان کے تئیں قفس میں کرکے باغ میں لے گئے۔ میرے تئیں کہ ملکہ نے بہ ایں حالت زخمی اور مجروح دیکھا، جراح فرنگی طلب کرکے بہ تقید تمام فرمایا کہ اس زخمی جان بلب کو بہ قدغن بلیغ جتنا کہ جلد غسل صحت کا نہلاوے گا، مورد عنایات بے غایات اور مصدر انعام و جاگیر کا ہوگا۔
القصہ بہ فضل الٰہی و توجہ نامتناہی سلطنت پناہی و ابہت دست گاہی چشم و چراغ دودمانِ بادشاہی کے سے بیچ عرصہ چہل روز کے غسل شفا اور صحت کامل اس ناقص کو حاصل ہوئی۔ ملکہ آفتاب طلعت نیکو خصلت مہر سپہر عظمت و کرامت، اختر برج مروت و لطافت کے نے ایفاے زر موعودہ کرکے رخصت فرمایا۔ پس اس بندہ نے ہمراہ رفقاے ہمدم و محبان ہم قدم کے رہ نورد بادیہ تردد کا ہوکر ہر ایک کو مرخص بہ وطن مالوفہ کیا اور آپ بیچ اس جاے رواں آساے کوہ فلک فرساے کے رخت اقامت کا ڈالا، بقول اس کے:
پھنس گئے آکر قفس میں چھوڑ بستان بہار
رہ گئی جی میں ہمارے سخت ارمان بہار
غلامانِ معتمد کو زر دے کے آزاد کیا اور کہا کہ لایق قوت لا یموت کے قدرے خبر کرنی ضرور ہے بعد ازاں مختار ہو۔ چنانچہ ایک ایک بہ موجب رُسوخ عقیدت کے خبر لیتا ہے اور میں گوشہ فراغت میں بیچ بُت پرستی کے مشغول رہتا ہوں۔
القصہ یہ بندہ یعنی شہزادہ عجم بہ مُجرد سُننے اس حِکایت پُر شکایت کے عَنان اختیار کی ہاتھ سے دے کر خرقہ گدائی کا اوپر قامت اپنی کے راست کرکے عازِم شہر فَرنگ کا در حالت عشق ملکہ کے ہوا۔ الغرض بعد چند مدت کے بصورت گدایان موے سر تا کَمر بیچ لاغری کے گوے سبقت کی مجنوں سے لے جا کر داخل شہر مینو سواد خِلافت العَالیہ کے ہوا اور یہ شعر ورد زبان کے تھا، قطعہ:
جدائی سرو قد تیری سے اے گل جو ہو دل تنگ تو پیجے پیالہ |
مثال فاختہ کرتا ہوں کوکو کہ غم کے درد کی مستی ہے دارو |
غزل:
یار غافل ہے میرے درد سے ہوشیار کرو درد مندوں کے اگر دل سے ہوئے ہو محرم آکے قسمت سے ترے غم میں گرفتار ہوا جن نے آدست سوں اُمید کے دامن پکڑا قدر بوجھو دل خونخوارۂ عاشق کی اگر |
بے خبر جان بچا جا کے خبردار کرو رحم فرما کے مرے حال کو اظہار کرو ہے تو بَرجا کہ مسافر پہ ٹُک یک پیار کرو یوں نہیں شرط مروت کہ اُسے خوار کرو سر چڑھا گُل کی طرح زینتِ دستار کرو |
عرض احوال کیا چاہتا ہے فدوی یہ
وقت نوکر کی نوازش کا ہے دربار کرو
کوچہ گردی اختیار کرکے رات و دن گرد دولت سراے ملکۂ فرنگ کے پھرتا تھا۔ کوئی طرح فتح الباب مقصد کی نظر نہ پڑتی تھی، ہمیشہ بدرگاہ چارہ ساز بیچارگان و دستگیر در ماندگاں و مُناجات نیم شبی و دعاہاے سحری اوقات بسر کرتا تھا۔ ابیات:
نہیں سنتا کوئی احوال میرا نہ دل چھوڑا نہ دیں تس پر تغافل |
لَبالَب دل میں یہ حسرت بھری ہے کسی نے بھی کسی سے یوں کری ہے |
پھر اتفاقاً ایک روز کیا دیکھتا ہوں کہ مردُم بازار ہراساں و گریزاں ہیں اور دوکان دار اپنی دوکان بند کرتے ہیں اور ایک جوان چوں شیر ژیاں ماند پِیل دَماں و رَعد غَراں جوشاں و خَروشاں شمشیر دو دستی پھراتا ہوا مثال شراب خواران سَرمست و زِرہ دَر بَر و خود بر سر و جوڑی طپنچہ کی در کمر مسلح و مکمل چلا آرہا ہے۔ میں اُس کا تَخالُف اطوار و تَبَاعُد اَوضاع دیکھ دیکھ کر اپنے دل سے کہتا تھا، فرد:
ہر گھڑی چھپ چھپ کے مت مار اُس کو اے دل مان جا
شوخ ہے ہندوستاں زا دیکھ لے تو جان جا
پیچھے اُس کے دو غلام سیم اَندام، دل آرام بہ لباس فرنگ با زینت تمام ایک تابوت مُزین از جواہر و یاقوت اوپر سر کے لیے چلے آتے ہیں۔ میں نے دیکھنے اس مقدمہ ہوش ربا کے سے نہایت مُتعجب اور متحیر ہو کر تعاقب کیا۔ ہر چند اکثر مردم بہ ایما و اشارت مانع اس جرات بے جا کے ہوئے، مطلق خاطر میں نہ لایا اور چلا۔ اُس نبرد آزما نے براے العین مشاہدہ کرکے طرح دیا۔ جس وقت کہ وہ یکہ تاز میدان شجاعت کا داخل محل خاص کا ہوا، میں بھی جان سے گذر کے ساتھ اُس کے شامل ہوا۔ تب تو اُس شیر نر نے غصہ ور ہو کر ایسا مجھ پر حملہ کیا کہ صرف ایک ضربت میں کام اِس ناکام کا انجام کو پہنچا دے۔ میں نے قسم دے کے کہا کہ ایک ہی وار میں اس بیمار سراسر آزار کا از دار ناپائیدار اور آلام نافِرجام صبح و شام سے پیچھا چھُڑا کہ ایسی زندگانی سے مرگ بہتر ہے اور خون اپنا معاف کروں گا اور نہایت احسان مند اور مرہون منت رہوں گا۔ اس مرد دلاور و جوان زور آور نے دریافت کرنے احوال میرے کے سے سحاب اپنے جنوں کا کہ بیچ تراکم کے تھا، منتشر کیا اور مجھ کو اپنے اوپر گاڑھا جان کر بہ سلوک و آدمیت پیش آیا اور از راہ مہربانی بسیار و الطاف بے شمار پرسش احوال میرے کے کی۔ میں نے مفصل طومار عشق اس آفت صبر و آرام کا نہایت درد و رقت سے پڑھا۔ غزل:
یار کے رہنے کی منزل ہے سمجھ ترپھڑاوے کیوں نہ قاتل دل مرا صبر کب تک درد میں آوے مجھے |
بارگاہ حضرتِ دل ہے سمجھ کیا کرے ناچار بسمل ہے سمجھ ہے نہیں ایوب، یہ دل ہے سمجھ |
عشق میں حسرتؔ کو ناصح کچھ نہ کہہ
اپنے فن میں خوب کامل ہے سمجھ
اس عزیز نے دریافت کر کے کہا کہ الحمد للہ والمنۃ کہ یہ سرشتہ کام تیرے کا ہاتھ میرے ہے۔ بذریعہ ایں خاکسار مطلب بزرگ اور مہم سترگ اپنے کو پہنچے گا اور گلدستہ مراد کا ہاتھ اپنے کے لاوے گا، خاطر جمع رکھ اور اندیشہ کو مزاج اپنے میں راہ نہ دے۔ پس پھر میری حجامت بنوا کر خلعت پاکیزہ عنایت کیا اور کہا کہ یہ تابوت اسی شاہزادہ مرحوم و مغفور کا ہے اور میں کوکا اس کا ہوں۔ وزیر کے تئیں تیر از راہ تدبیر میں نے مارا تھا کہ باعث نجات اس عالی درجات کا اس وقت ہوا۔ آخر نداے کُلُّ نَفسٍ ذَائِقةُ المَوت کی دے کے رخت ہستی کا طرف سراے جاودانی کے کھینچا۔ میں ہر مہینہ میں ایک دفعہ تابوت اس کا لے کر نکلتا ہوں اور ماتم کرتا ہوں ؎
کچھ نہ پوچھو سبب اس درد کا مجھ سے یارو دام میں مفت ہوا جاتا ہے یہ صید اسیر |
دیکھ کر حال مرا نالہ و فریاد کرو ذبح کرنا ہے شتابی تو اے صیاد کرو |
القصہ فضل الٰہی جو شامل حال میرے ہوا، بعد مدت بسیار کے خراب آباد مفلسی و پریشانی کے سے نکل کر اوپر ساحل جمعیت و کامرانی کے پہنچا اور امید قوی ہوئی۔ جس وقت کہ فرہاد دشت پیماے روز کا بیچ کوہ مغرب کے گیا اور شیریں شب کی نے زلف مُشک فام اوپر چہرۂ مشرق کے دراز کی، جوان مع تابوت تیار ہوا اور ایک غلام کے عوض میرے تئیں تابوت سر پر دے کر ہمراہ لیا اور فرمایا کہ بیچ سفارش تیری کے ملکہ سے نہایت عجز و الحاح کروں گا، تو خاموش رہیو اور بیٹھا سنیو۔ میں ارشاد اس کے کو ہدایت جان کر آداب بجا لا کر روانہ ہوا۔ جواں رستم تواں پائیں باغ بادشاہی میں پہنچا۔ وہاں جو دیکھا تو ایک اور ہی عالم نظر پڑا کہ درمیان چمن زار ارم نمودار کے چبوترہ ایک مرمر سفید تر از بیضۂ جانور سیمرغ مثمن اور صحن گلشن مستحکم ہے اور فرش چاندی و مسند زربفتی اور شامیانہ جھالر مروارید ریشم کی طنابوں اور نقرئی اِستادوں سے کھینچا ہے۔ تابوت اس جا پر رکھ کے ہم دونوں شخصوں کو اشارت کی کہ پیچھے ایک درخت کے نشست کرو۔ بعد ایک لمحہ کے روشنی مشعل کی نمودار ہوئی اور وہ ماہ شب چہار دہم باچندے کنیز مثل انجم با دل پرغم و مزاج برہم برآمد ہو کر مسند پر آ بیٹھی۔ کوکا از راہ ادب کے دست بستہ استادہ رہا۔ آخرش وہ بہ موجب ایماے ملکہ کے آداب بجا لا کے حاشیۂ بساط پر بیٹھا۔ بعد فراغ فاتحہ ختم کے بازار خوشامد کا گرم کیا اور پس از ذکر اذکار اور طرف کے عرض کیا کہ ملکۂ جہاں سلامت! بادشاہزادۂ عجم کا غائبانہ عاشق و دیوانہ ہو کر بہ استماع خوبی ہاے ذاتی و صفاتی شیفتہ حسن و جمال لایزال صاحبہ غنج و دلال بہ صورت گدایان بہ ہزار تباہی و جاں کاہی تخت سلطنت کو چھوڑ کر مانند ادہم کے جملہ عیش و لذات ترک کر کے بہ قول اس کے، دوہا:
سائیں تیرے کارن چھوڑا شہر بَلکھ
سولہ سَے سہیلیاں توڑے اٹھارہ لکھ
اور یہ بھی اس کی شان میں ہے ؎
نہ کوئی ایوب سے صابر کا ہمدم پھر ہوا پیدا نہ کوئی اس عشق میں مجنوں سے زور آور ہوا پیدا |
نہ کوئی یعقوب سا مانند چشم تر ہوا پیدا نہ کوئی اس مسخرے فرہاد کا ہمسر ہوا پیدا |
مگر شہزادۂ ملک عجم از سر ہوا پیدا
وارد اس شہر کا ہوا ہے اور جو میں نے حملہ اس کے مارنے کا کیا تو تلوار کی آنچ کے آگے ثابت پایا۔ یہ فدوی فریفتہ جوانمردی اور قصد عظیم اس کے کا ہو کر عرض کرتا ہے کہ اگر ملکہ از راہ مسافر پروری و عاشق نوازی کے سرفراز و ممتاز باریابانِ بساط انجمن خاص کا اسے فرماوے تو بعید اہلیت و مروت سے نہ ہوگا ؏
قدر گُل بلبل بداند قدر جوہر جوہری
یہ بات سن کر نہایت متعجب ہوئی اور آرے بَلے کہا۔ تب اس مرد نیک ذات و پاک سرشت نے بہ اشارہ میرے تئیں بلایا۔ میں جو مشتاق دیدار ہو رہا تھا، بہ سرعت و عجلت تمام تر جا پہنچا۔ دیکھنے صورت و مشاہدۂ جمال اس کے سے بے خود و مستغرق ورطہ تحیر کا تھا۔ آخرش مجلس برخاست ہوئی اور وہ مرد روانہ دولت خانہ کا ہوا۔ ڈیرے آ کر مجھ سے فرمایا کہ میں نے سفارش اور حقیقت تمھاری بہ وجہ احسن عرض کی ہے۔ بہ ذوق تمام ہر شب بلا ناغہ آن کر گلشن وصال کے سے گل کامیابی کے چُن اور داد کامرانی و عیش جاودانی کی دے۔ فرد ؎
یار کا ملنا زندگانی ہے
زندگانی جاودانی ہے
بہ مجرد سننے اس کلام کے قدم بوس ہوا اور کوکا نے میرے تئیں گلے لگایا۔ جس وقت کہ آفتاب ہنگامہ آرا روزگار کا بیچ خلوت خانۂ مغرب کے گیا اور ماہتاب مجلس افروز شب کا نور افزاے ستارہ انجم کا ہوا۔ یہ مجنوں طالبِ وصالِ لیلیِ فرنگ کا روانہ پائیں باغ ملکہ کا ہوا۔ آخرش اس مکان مینو نشان پر پہنچ کے اوپر چبوترۂ خاص کے مسند پر جا بیٹھا اور وہ معشوقہ بہ قصد ملاقات میری کے عہدہ داروں کو بشارت فراغت کی دے کے ساتھ ایک کنیز محرم راز کے برآمد ہوئی اور مسند پر تشریف لائی۔ میں نے نہایت تعشق اور ولولہ سے قدم بوس کیا اور ان نے میرے تئیں از راہ محبت کے کہ “دلہا را بہ دلہا راہ باشد” فرمایا کہ اے نادان! وقت ہاتھ سے جاتا ہے جلد روانہ ہو۔ میں نے باغ سے نکل کر مارے خوشی کے راہ گم کی۔ بلکہ اپنے تئیں آپ میں نہ پاتا تھا۔ نازنین آشفتہ اور غصہ ہوتی تھی کہ شتاب مکان سکونت کے میں پہنچ کر میرے تئیں مخمصہ سے رہائی دے کہ تاب و طاقت پیادہ پائی کی نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ حویلی غلام میرے کی متصل ہے، خاطر جمع رکھ۔ چنانچہ ایک قفل کسی کا توڑ کر داخل اس حویلی کا ہوا۔ خالی گھر میں جو تلاش کیا تو مطبخ میں نان و کباب اور طاقچۂ ایوان پر شیشہ شراب کا ہاتھ آیا۔ واسطے رفع ماندگی اور خوف کے شراب پُرتگال سے دو دو جام لیے اور نان و کباب نوش جان کیے۔ ابیات:
خدا کے واسطے ساقی پلا شراب مجھے اسی سبب تو کسی سے نہیں لگاتا دل |
جِلا، خمار کے ہاتھوں نہ کر کباب مجھے برا لگے ہے زمانہ کا انقلاب مجھے |
تمام شب بہ عیش و نشاط ادا کی، شعر ؎
نہ مجھ کو خوف دوزخ کا نہ جنت کی طمع دھرنا | مرا مطلب سجن سے ہے طلب دیدار کی رکھنا |
جس وقت کہ دُزد شب کا بیچ بندی خانہ تَحت الارض کے گیا اور عسس روز کا ہنگامہ افروز شَش جہت کا ہوا، بادشاہ کے تئیں خبر غائب ہونے ملکہ کی پہنچی۔ حکم والا نے شَرف نفاذ کا پایا کہ دروازہ شہر پناہ سے راہ صادر اور وارد کی بند ہو اور نَوشتہ جات بادشاہی بنام راہ داران و گذربانان و عاملان و کارپردازان مع ہرکارہ ہاے معتبر ارسال ہوئے اور کٹنی و دَلالہ محتالہ و ساحرہ افسوں گر کہ مشہور و معروف تھیں حضور میں بلا کر فرمایا کہ شہر میں خانہ بہ خانہ تلاش جا کے کریں۔ جو کوئی کہ خبر بادشاہ زادی کی لاوے تو ہزار اشرفی انعام پاوے۔ بہ طمع زر کے کٹنیاں محلہ بہ محلہ سَیراں و طَیراں ہوئیں۔ چنانچہ ایک پیر زن شیطان کی خالہ کا گذر بیچ اس حویلی کے پڑا۔ جو مانند دل ہاے بیدار کے دروازہ حویلی کا کشادہ پایا، اندرون آن کر دیکھتی کیا ہے کہ بختوں نے یاری اور طالعوں نے مددگاری کی ہے کہ ہُما اَوج سعادت کا بیچ دام کے آیا ہے۔ سامنے کھڑی ہو کر زبان بیچ مدح اور تعریف کے کھولی اور یہ شعر عرض کیے، شعر ؎
گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے کرم تمھارے پہ کر توقع، یہ عرض رکھتے ہیں مان لیجےپڑے ہیں ہم بیچ میں بلا کے، کرم کرو واسطے خدا کے ہوئے ہیں بندے تری رضا کے، جو کچھ کہ حق میں ہمارے کیجےاگر کبھی جھوٹ کچھ ہوا ہے کہ جس سے اتنا ضرر ہوا ہےتو ہم سے وہ بے خبر ہوا ہے، دلوں سے اس کو بھلا ہی دیجے |
غریب و عاجز جفا کے مارے فقیر و بے کس گدا تمھارے
نپٹ پڑی ہے ہمن پہ غم کی، جگر میں آتش لگی الم کی
ہوئے ہیں ہم ظلم کے نشانے، ہوئے ہیں طعنے کے اب ٹھکانے |
بعد اس گفتگو کے کہا اے صاحب زادی! میں ایک دختر عاجِزہ حاملہ رکھتی ہوں کہ درد زہ میں گرفتار ہے اور بے اختیار نان و کباب چاہتی ہے۔ ملکہ نے عالمِ مستی شراب میں از راہ رحم دلی کے اس کے تئیں نان و کباب دیا اور انگوٹھی انوٹھی گراں قیمت، بیش بہا ہاتھ سے نکال کر انعام فرمائی کہ اس کو بیچ کر زیور بنا لیجیو اور ماما تو گاہ بہ گاہ آیا کر، گھر تیرا ہے۔ وہ آفت کا پرکالہ، شیطان کی خالہ ہزاروں ہزار دعوات مزید حیات و ترقی عمر درجات ادا کر کے رخصت ہوئی اور باہر نکل کر نان و کباب ڈال دیا اور انگوٹھی مٹھی میں رکھی کہ یہ خوب پتا ہے۔
اس عرصہ میں مالک خانہ مرد مردانہ طرف شکار گاہ کے سے دلیرانہ گھوڑے تازی نژاد پر سوار، نیزہ آبدار در کنار، آہو کر کے شکار، تیز رفتار آ پہنچا اور قفل ٹوٹا و پیر زن کو چھوٹا پایا۔ ایک ہاتھ میں جھونٹا پکڑ کر لٹکاتا ہوا لایا۔ آتے ہی ایک پیر میں رسی ڈال اور دوسرے پیر پر پیر کو دھر کھینچا و دوپارہ کیا۔ میں نے بہ مجرد دیکھنے اس حالت پر ملامت کے رنگ و روپ اوپر چہرے کے متغیر کیا اور لرزہ اوپر بدن کے پڑا۔ اس جوان نے افواہ سے سنا تھا، عقل سے دریافت کیا اور میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ کوئی بھی ایسی نادانی و بے وقوفی کرتا ہے کہ دروازہ کھول کر بیٹھنا اور اندیشہ اخفاے راز کا نہ کرنا۔ یہ حرکت محض بے جا ہے۔ تمھارا آنا اور ملکہ کا تشریف لانا سر افرازی اور بندہ نوازی کا موجب ہے۔ خدمت گاری و جاں نثاری میں ہرگز دریغ نہ کروں گا۔ ملکہ نے ہنس کر کہا کہ شہزادہ حویلی غلام اپنے کی مقرر کر کے مجھ کو لایا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ واسطے تسلی میرے کے تھا۔ اس جوان نے در جواب عرض کیا کہ گروہ سلاطین ولیِ نعمت اور خداوند نعمت سکنہ طبقہ روے زمین کے ہیں، اس میں کچھ جھوٹ نہیں۔ بندہ بے زر خریدہ غلام تمھارا ہے۔ بہ خوشی و خاطر عیش کیجیے۔ ان شاء اللہ کچھ خطرہ نہ ہوگا اور اگر یہ دَلّالہ محتالہ میرے ہاتھ سے سلامت جاتی تو البتہ جاے تاسُّف اور باعث خلل کا ہوتا اور اس وقت جو راز سربستہ برملا نہ ہوا تو قیامت تک ہرگز معلوم نہ ہوگا۔ بارے تا مدت شش ماہ اس صاحب مروّت و مَعدنِ فتوت نے کوئی دقیقہ از دقایق مہمانداری و دلجوئی سے فروگذاشت نہ کیا۔
ایک روز یہ فقیر بیچ یاد وطن اور والدین کے دلگیر تھا، جوان نے عرض کیا کہ اگر تمام عمر خود بدولت اقبال اور ملکہ صاحب جمال تشریف ارزانی رکھ کر کلبۂ احزان اس ناتواں کے تئیں رونق افروز بہ وجود فایض الجود کے رکھیں تو بندہ سعادت دارین اور فخر اپنا جان کر ایک ساعت فرمانبرداری سے غافل و عاطل نہ ہوگا اور اگر مزاج مبارک دل برداشتہ ہوا تو حسب الارشاد جس جا پر حکم ہو بہ فضلِ الٰہی سالِماً و غانماً رکاب سعادت میں جلو داری کر کے پہنچا وے اور تو کس لایق ہے۔ تب میں نے زبان بیچ تعریف اس مرد صاحب درد کے کھولی اور کہا قدرت خدا کی معمور ہے اور اس جہاں آفریں نے تجھ سے شخص صاحب مُروت و فتوت کے تئیں پیدا کیا ؏
آفریں باد بر ایں ہمت مردانۂ تو
تیری خوبی اور خوش خلقی نے اس قدر مرہون منت بے شمار کا کیا ہے کہ عہدہ برآئی معلوم۔ حق تعالیٰ بہ ایں جوانمردی و غور رسی سلامت رکھے، لیکن ارادہ فقیر کا وطن مالوفہ کو ہے کہ بہ ارادۂ شکار دولت خانہ سے برآمد ہوا تھا اور میں آپ شکار غزالہ نیلی چشم کا ہوا ہوں۔ مدتِ مَدِید و عَہد بعید گذرا ہے کہ خبر میری والدین مخدوم نشأتین کو نہیں پہنچی، واللہ اعلم احوال انھوں کا کیوں کر ہو۔ تب اس نوجوان بہزاد خاں نے ایک راس اسپ تیز رفتار واسطے سواری میری کے اور ایک مادیان باد رفتار صاحب جان و رواں و دواں واسطے ملکہ کے منگوا کر آپ گلگون صبا رفتار اپنے پر سوار ہوا اور اسباب جنگ کا اوپر اپنے آراستہ کر اور مجھ کو اور ملکہ کو آگے کر فاتحہ پڑھ کے مُعتصِم بہ عُروۃ الوُثقاے فضل الٰہی کا ہو کے روانہ ہوا۔ اوپر دروازہ شہر پناہ کے پہنچ کر ایک نعرہ مہیب مارا اور قفل دروازہ کا توڑا اور دربانان و چوکیداران بادشاہی کو بہ زجر و توبیخ پیش آ کے للکارا کہ جا کے اپنے آقا سے کہو کہ بہزاد خاں ملکہ مہر نگار اور شہزادہ بختیار کو کہ خویش دل ریش تمھارا ہے مردانہ وار بر باد پاے تیز رفتار سوار مستعد کار زار لیے جاتا ہے اور یہ شعر عرض کرو، فرد ؎
اگر جنگ جوئی بہ میداں در آئے
ز ما ہر کرا ملک بخشد خداے
و اِلّا خوش رہ۔ مُلازمان بادشاہی نے ورطۂ حیرت میں مستغرق ہو کر یہ عرض بیچ حضور باریابان بِساط فیض مناط کے پہنچائی۔ بادشاہ از روے غضب کے نہایت برہم ہوا وزیر اور میر بخشی کو حکم فرمایا کہ اس بدبخت کو ساتھ ان دونوں بے حیا کے اسیر دستگیر کر کے لے آؤ۔ چنانچہ ہر دو رکن السلطنت العالیہ کے با فوج نمایاں فی الفور سوار ہوئے اور باہر میدان میں آئے۔ تب بہزاد خاں رستم تواں نے ملکہ اور شاہزادہ کو زیر دیوار ایک پل کے کہ بارہ پُلے سے کم نہ تھا کھڑا کیا اور مرکب تازی نژاد و جنوں نہاد کو گرم کر کے فوج میں مانند گرگ دَر رَمہ کے آ بیٹھا۔ دونوں سرداروں کو بہ ضرب تیغ آبدار عَلف دار بَدار البوار پہنچایا اور تمام فوج نے شکست پائی۔ سننے اس خبر وحشت اثر اس حادثہ کے سے بادشاہ مضطرب ہو کر آپ با دلاوران صاحب شجاعت رو بہ میدان لایا۔ بہزاد خاں کمال تہور و دلاوری سے اس فوج پر بھی فتحیاب ہوا۔ بقول آنکہ ؏
یہ فتح داد حق ہے جسے دیوے کردگار
وہاں سے بہ دلجمعی تمام مع ملکہ و شاہزادہ ذوی الاحتشام کے روانہ ہوا۔
پس یہ عاصی بعد انقضاے چند مدت کے بیچ ولایت والد اپنے کے پہنچا اور عرضی بیچ خدمت پدر بزرگوار و بادشاہ عالی مقدار کے از روے کمال اشتیاق قدم بوس کے ارسال کی۔ وہ گردوں جناب خورشید قباب بہ استماع خبر فرحت اثر آمد آمد فرزند دلبند جگر پیوند سوار ہو کر واسطے استقبال کے باچندے خواص و مردم شاگرد پیشہ اوپر کنارے دریا کے کہ درمیان جانبین واقع تھا، رونق افزا ہوا اور میں نے از راہ کمال اشتیاق قدم بوسی کے گھوڑا بیچ دریا کے ڈال کر اپنے تئیں بیچ حضور پر نور حضرت قبلہ و کعبہ خداوند نعمت کے پہنچایا اور سعادت قدم بوسی حاصل کیا۔ جس گھوڑے پر میں سوار تھا وہ گھوڑا کُرہ مادیان سواری ملکہ کا تھا۔ اس گھوڑی نے بچے اپنے کو دیکھ کر اپنے تئیں بیچ دریا کے ڈالا۔ بادشاہزادی بے قرار بلکہ قریب ہلاکت کے ہوئی۔ بہزاد خاں واسطے استخلاص ملکہ کے پیچھے سے دریا میں پہنچا۔ چنانچہ از گردش فلکی ملکہ اور بہزاد خاں دونوں شخص مستغرق دریاے رحمت الٰہی کے ہوئے۔ بادشاہ نے جتنا کہ جال ڈلوایا اور ملاحوں کے تئیں تاکید کی، کچھ نشان نہ پایا۔ ناچار یہ فقیر خدمت والدین کے سے دل گیر بہ حالت گَدایاں سر گرداں دشتِ جنوں کا ہوا اور اسی پہاڑ گذرگاہ عاشقاں پر پہنچ کے چاہا کہ اپنے تئیں ضائع کروں کہ اس پیر صاحب راے روشن ضمیر نے فرمایا کہ دونوں شخص ملکہ و بہزاد خاں زندہ ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ بہ خوشی ملاقات ہوگی، خاطر کو جمع رکھ۔ بہ موجب ارشاد ہدایت بنیاد اس پاک نہاد کے بیچ خدمت تمھاری کے آ پہنچا ہوں اور امیدوار دیدار سَراسَر انوار ملکہ اور بہزاد خاں کا ہوں۔ احوال کثیر الاختلال فقیر کا یہ ہے کہ گزارش کیا۔
جس وقت درویش سویم حقیقت احوال پُر اختلال نہایت قیل و قال سے گزارش کر چکا، سفیدہ صبح کا کنارے افق کے سے منتشر ہوا اور مؤذن سحر خیز جامع مسجد کے نے بانگ نماز بآواز بلند کی اور آوازہ نقارۂ دولت سراے خدیو آفاق کے سے سامع افروز ہوئی۔ سلطان درویش عنوان خدادان نے زیر چار دیواری مقبرہ مُنورہ مُعنبر و معطرہ کے سے اٹھ کر قصد دولت خانہ مبارک کا کیا اور کہا، شعر ؎
عشق کے نور سے روشن ہوا سینہ میرا عشق کے غم کی ہوئی جب ستی گرمی مجھ میں |
ید بیضا ہوا اب دل کا نگینہ میرا عطر عنبر کا ہوا تب سے پسینہ میرا |
اور جلدی سے مانند ماہ کے سریع السّیر ہو کر بیچ شاہ بُرج کے گیا اور تبدیل لباس فقیری کا کر کے خلوت فاخرہ سلطنت کے تئیں زیب قامت کا کیا اور مانند آفتاب جہاں تاب کے برآمد ہو کے اُمرا و وزرا و ارکان دولت و اَعیان مملکت کو بہ نور جمال اپنے کے روشن و منور کیا۔ چنانچہ ہر ایک آداب و تسلیمات و کورنشات بجا لا کے اپنے اپنے پاے پر قائم ہوئے اور بادشاہ نے کشکچوں سے فرمایا کہ شَرق رَویہ بیچ قبرستان کے فلانے مقبرہ میں چار درویش بہ منزلہ اربعہ عناصر کے متفق اللفظ و و المعنی ہو کر مانند مصراع رباعی کے استقامت پذیر ہیں، ان سے جا کر اظہار اشتیاق ملاقات سراسر بہجت و نشاط و سر بسر مروت و انبساط میری کا کرو اور یہ شعر گزرانو ؎
نظر آتا ہے اشکِ گرم سے سیلاب آتش کا کہیں کیونکر نہ میری آنکھ کو گرداب آتش کا |
نہ نکلیں کیوں کے شعلے آہ کے اب دل سے اے ظالم |
چنانچہ ملازمان بادشاہی نے حسب الحکم اعلیٰ خاقانی حضرت ظِلِّ سبحانی کے پیغام بادشاہ کیوان بارگارہ کا بیچ حضور موفور السرور درویشوں کے جا کر اظہار کیا اور ہر چہار فقیر روشن ضمیر استماع اس پیغام نیکو انجام کے سے متحیر و متعجب ہو کر روانہ جناب مقدس کے ہوئے۔ بادشاہ نے دیکھنا جمال فقیروں کا از جملہ مغتنمات جان کر سلام علیک میں سبقت کی اور کہا، شعر ؎
آئیے بیٹھیے کرم کیجیے
بے تکلّف یہ گھر تمھارا ہے
اور درویشوں نے علیکی دے کر پُشت تعظیم کی خم کی اور موافق ارشاد خجستہ بنیاد حضرت ظل الٰہی سلطنت پناہی ابہت دستگاہی کے بہ فراغت بیٹھے اور بادشاہ نے سب ارکان خلافت کو مرخّص کرکے مجلس خلوت کی آراستہ کی اور ساتھ فقیروں کے متکلم ہوا کہ یہ خاکسار ذرہ بے مقدار امیدوار الطاف درویشانہ و اَعطاف بزرگانہ سے یوں ہے کہ شب گذشتہ میں اوپر حقیقت حال خیریت اشتمال تین صاحبوں کے اطلاع حاصل کی، اب متَرصد ہے کہ درویش چہارمیں بھی سرگذشت اپنی سے استفادہ بخشے کہ اَلِانتظَارُ اَشدُّ مِنَ المَوتِ میں گرفتار ہوں ؎
ہمیشہ اس تمنا ہی میں حسرتؔ کی گذرتی ہے
نہ جانوں کب تلک اُس سے مرا دل بہرہ یاب ہوگا
فقیر بہ سبب دبدبۂ سلطنت اور اوّل ملاقات کے باعث سے محجوب اور مؤدّب مانند غنچہ گل کے منقبض تھے، اتنے میں ایک شعر ایک شخص زبان اپنی سے بر لایا اور کہا، شعر ؎
قیامت جیتے جی ہی آ گئی سر پر خدائی میں ہم اپنے قتل کا چرچا جو از بس سب سے سنتے ہیں |
نہ سمجھے تھے کہ اس گردوں کا ایسا انقلاب ہوگا نہیں کرتے خبر دل کو کہ اس کو اضطراب ہوگا |
بادشاہ نے فرمایا کہ واسطے رفع حجاب کے یہ عاصی تمھارے آگے سرگذشت اپنی مفصّل بیان کرتا ہے کہ مجھ کو بھی ایک رفقا اپنے سے جان کر بے تکلّف ہو جاؤ اور حرف بے گانگی کا درمیان سے اُٹھ جائے، شعر ؎
اب جو میں تم سے ملا اور سب کو یار اپنا کیا
اور بھی جی دوستی میں بے قرار اپنا کیا
القصّہ ہر چہار درویش متوجہ بہ استماع داستان مبارک بادشاہ کے ہوئے۔
بیان قصہ بادشاہ فرخ سیر کہ باعث اس احوال کا ہے
قصے جور و جفا کے سَو سَو ہیں آبرو سے نباہ دیوے حق |
دل میں میرے کباب کی سی طرح زندگی ہے سراب کی سی طرح |
یہ خاکسار بعد رحلت والد بزرگوار کے تخت سلطنت کے اوپر رونق افزا اِس دیار کا ہوا۔ ایلچی ہر چہار طرف کے واسطے مبارک باد کے آئے اور نامہ و پیام و سوغات و تحفہ جات ہر انواع کے لائے اور کہا ؏
تخت شاہی کے تئیں فخر ہے تجھ ذات سے آج
اس ضمن میں ایک سوداگر وارد اس دِیار عالی تَبار کا ہوا اور ایک لعل بے بہا ساڑھے تین مثقال وزن کا نذر گزرانا کہ آگے آب و تاب اُس کی کے لعل بدخشاں کا بھی بے آب تھا۔ چنانچہ ثانی اُس کے کوئی رقم از قِسم جواہر کے سے بیچ جَواہر خانہ کے بلکہ بیچ تمام سلطنت میری کے نہ تھا۔ میں نے اُس کے تئیں از جملہ مغتنمات جان کر مقرر فرمایا تھا کہ جس وقت دربار مجرائیوں سے معمور ہووے اس لعل پارے کو حاضر کیا کریں۔ اوّل میں ملاحظہ کرتا بعد ازاں سب حاضران دربار معلیٰ کے دیکھتے اور بے اختیار زبان بیچ تعریف و توصیف آبداری اور رنگینی اس کی کے کھولتے۔ ایک روز ایلچی فرنگ کا دربار میں حاضر تھا کہ ملازمان حضور موافق قاعدۂ مستمرہ کے لعل کو لائے۔ میں نے دیکھا اور سبھوں کو دکھایا۔ سب ارکان خلافت بیچ تعریف اُس کی مدح پرداز ہوئے۔ ایک وزیر صاحب تدبیر کہ وقت اعلی حضرت کے سے بیچ کاروبار وزارت مقرر و ممتاز تھا، دست بستہ ہو کر آداب بجا لایا اور عرض کیا کہ اگر جاں بخشی ہو تو غلام کچھ عرض رکھتا ہے۔ میں نے فرمایا کہ کہہ۔ تب اُن نے عرض کیا کہ قبلۂ عالم سلامت! ذات ملکی صفات بادشاہوں کی حق سبحانہ تعالیٰ نے عدیم المثال اور بے نظیر پیدا کی ہے، اوپر ممالک محروسہ روے زمین کے صاحب حکم کیا ہے اور زر و جواہر و تحفہ جات جہاں کے نصیب اولیاے دولت قاہرہ کے ہوئے ہیں۔ بادشاہان دریا دل سے یہ بات خیلے بعید اور نہایت تعجب کی ہے کہ ایک پارہ لعل کو ہر روز طلب کرنا اور تعریف بیش از قیاس فرمانا اور سب کو رطب اللسان اور عذبُ البیان ہونا نہایت نازیبا اور خلاف ریاست ہے۔ اگر حاضران محفل مُنِیف و کار پردازان بارگاہ شریف روبرو از راہ ادب کے خاموش ہیں لیکن غائبانہ کہتے ہوں گے کہ بادشاہ نہایت ندیدہ جواہر کا اور مفلوک مزاج ہے۔ حضرت پیر و مرشد سلامت! بیچ دَار السُّرور نیشاپور کے ایک سوداگر ہے کہ اس کے پاس ایک کُتّا ہے کہ اُس کے گلے میں جو پٹّہ پڑا ہے سات سات مثقال وزن کے لعل اس میں جڑے ہیں اور بر سرِ بازار بیچ دوکان کے رہتا ہے اور تمام خلقت آیند و روِند دیکھتی ہے اور اس عزیز کو خواجہ سگ پرست کہتے ہیں۔ بہ مجرد استماع اِس بات کے میرے دل میں آتش غضب شعلہ افروز ہوئی کہ سوداگر کا مزاج کفایت شَعار و خسّت اطوار ہوتا ہے یہ بات خلاف قیاس اور باہر احاطۂ بشریت سے ہے اور فرمایا کہ وزیر کو لے جا کے دار پر کھینچو کہ بار دیگر کوئی شخص خلاف گوئی بہ حضور بادشاہ عظیم الشان کے نہ کرے۔ پس حسب الحکم قضا توام میرے کے ملازمین بادشاہی وزیر کو واسطے گردن مارنے کے لے چلے کہ یکایک ایلچی فرنگ کا دست بستہ کھڑا ہوا اور زبان بیچ شفاعت وزیر کے کھولی اور عرض کیا۔ فرد ؎
کیجیے جاں بخشی اور تقصیر معاف
بات اس کی کو نہ بوجھو تم زِ لاف
تجھ سا بادشاہ عادل رعیت پرور جو خون ناحق کرے اور وبال جان وزیر کا اپنے اوپر لیوے جاے فَراواں تاَسُّف اور تَلہف کا ہے۔ اول لازم یہ ہے کہ تحقیق فرمائیے۔ بعد ثبوت راست و دروغ کے جیسا مناسب ہو عمل میں لائیے۔ بارے التماس ایلچی فرنگ کا مُلتفی ساتھ اجابت کے کر کے حکم محبوس کرنے کا فرمایا اور کہا کہ اگر یہ بات اور صورت حال ساتھ صدق مقال کے جلوہ گر ہوئی تو جاں بخشی ہے، و اِلّا بہ انواع عذاب مَورد عتاب اور خطاب کا ہوگا۔ القصہ وزیر کو بیچ زنداں خانہ کے لے گئے۔ پس یہ خبر وحشت اثر بیچ گھر اُس کے پہنچی۔ زن وزیر نے بہ گریہ و زاری و نوحہ و بے قراری سر کے بال کھسوٹ کے زیور دور کیا اور لباس بدن کا پھاڑا لیکن وزیر ایک دختر عاقلہ اور فرزانہ رکھتا تھا کہ ہمیشہ بیچ عیش و عشرت کے اور راگ و رنگ و شراب و کباب میں مشغول رہتی تھی۔ والدہ اُس کی نے آ کر اُس کو سرگرم ناے و نوش کا پایا۔ ایک جھکّڑ دو دستی کہ جس کو دو ہتھڑ کہتے ہیں اوپر سر کے ماری اور کہا کہ اے کمبخت بے وفا و اے بدبخت پُر جفا! اگر آج کے روز ایک کانا کھدرا یا کَنونڈا بیٹا ہوتا تو وہ بھی کام آتا اور اپنے باپ کو قید سے چھڑاتا۔ تجھ کمبخت کو کیا کروں کہ وارث میرا قید ہے اور تو شراب و کباب اور راگ ورنگ کی صید ہے۔ فرد ؎
جَلا دے حُسن کے شعلے سے اپنے خاک کر مجھ کو
میں اس جینے سے تنگ آئی ہوں ظالم، پاک کر مجھ کو
دختر عاقلہ و بالغہ کا دریافت کرنے اس مصیبت کے سے نشہ اتر گیا اور رقص موقوف کیا اور از راہ غیرت کے نہایت پیچ و تاب کھا کے کہا کہ اے مادر مہربان! آفات ناگہانی سے پناہ مانگیے اور حادثات زمانہ سے صبر کیجیے کہ الصّبْرُ مِفْتَاحُ الْفَرَح کہتے ہیں اور بیٹے پر کیا موقوف ہے۔ اگر بیٹی صاحب فراست و کِیاسَت ہو تو بیٹے پر فخر رکھتی ہے۔ فرد ؎
نہ ہر زن زن است، و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
پس ددا اپنے کو بلا کر بیچ خلوت کے کہا کہ اگر مجھ کو زندہ چاہتا ہے تو سرانجام تجارت کا تیار کر دو، اِلَّا خون اپنا کروں گی اور سر تیرے دھروں گی۔ ددا لڑکی کا بولا کہ اے صاحب زادی! فرد ؎
خیال ٹھٹھ کا بہت نام خدا جی پر ہے
چشم بد دور مزاج ان دنوں شوخی پر ہے
حقیقت اس کی یہ ہے کہ عین عنفوان شباب میں جو کوئی کہ گل روے مبارک کا دیکھے گا، بے اختیار بلبل وار شیفتہ رنگ و بوے اس چمن لطافت و ملاحت کا ہوگا اس وقت پیچھا چھڑانا مشکل پڑے گا۔ اشعار:
جو کہ دیکھے اس آفتاب کے تئیں گرم بازار دل جلوں کا ہے کھولیو مت بزار میں ہرگز |
کیا کرے جی کے اضطراب کے تئیں کوئی نئیں پوچھے ہے کباب کے تئیں اس جنوں کے بھرے کباب کے تئیں |
میں آ گے سے جتاتا ہوں بقول آنکہ “یکے نقصان مایہ و دیگر شماتت ہمسایہ” یعنی باعث بدنامی و برہم زنی ننگ و ناموس حضرت وزیر الملک ارسطو فطرت آصف سطوت کا ہوگا۔ اس خورشید آسمان عقل و فرہنگ کے تئیں یہ سخن ددا کا گراں بار پلہ میزان تمیز کا نہ آیا۔ آپ بہ تاکید شدید اور بہ جد و جہد تمام کے بیچ تہیہ اسباب تجارت کے ہوئی۔ ددا کے متابعت طبع شریف اس کی کو باعث زندگی اپنی کا جانتا تھا جو کچھ کہ شایان تاجران عمدہ خاندان کے ہوتا ہے، واسطے خرید تحفہ جات ہر دیار کے لکھ ہا خرچ کر کے اطلاع اس فرزانہ کو کی۔ چنانچہ اس یگانہ جہاں نے از راہ عیاری کے لباس مردانہ اوپر قامت کے آراستہ کیا اور بیچ نصف شب کے مانند ماہ چہار دہم کے برج حمل محل کے سے نکل کر سریع السَیر ہوئی۔
زن دستور نے دریافت اس کیفیت کا کرکے اخفا راز کا از جملہ واجبات جانا اور تاکید اکید جمیع خادمان محل کو کی کہ کوئی اظہار اس حادثۂ جاں گزا کا نہ کرے، خبر شرط ہے والا ندامت کھینچے گا۔ القصہ وہ عاقلہ بعد مدت سہ ماہ بیچ دار المعمور نیشاپور کے پہنچی اور بہ طریق سیر روانہ اردوے معلی کی ہوئی۔ بیچ عین رونق بازار کے ایک دوکان میں سوداگر کو رونق افزا دیکھا کہ جواہر گراں مایہ اور اسباب نفیسہ رو برو اس کے موجود ہے اور کئی خدمت گار سلیقہ شعار دست بستہ حضور میں مستعد خدمت کے ہیں اور دوکان میں ایک صندلی بچھی ہے اور اوپر گدی مخمل کے ایک کتا لیٹا ہے اور پٹہ چودہ لعل کا زیب گلوے ناقص اس کے کا ہو رہا ہے اور ایک لگن طلائی میں پانی بھرا ہے اور دو غلام بیچ خدمت سگ کے حاضر ہیں، ایک رومال سے پونچھتا ہے اور ایک چَنور سے سے مَگس رانی کرتا ہے۔ اور ایک قفس فولادی دھرا ہے کہ دو جوان خوبرو چار ابرو مقید سَلاسِل غموم و ہموم کے بیٹھے ہیں۔ وزیر زادی بیچ اس تماشے کے مشغول ہوئی اور ایک خلقت واسطے دیکھنے حسن و جمال اس کے مجتمع تھی۔ فرد ؎
تیر نگہ تھے کھانے سو کھا چکے کسو کے
بہتر ہے داغ دل میں اب تو بھلا کسو کے
بارے وقوع اس واقعہ کے سے نگاہ سوداگر کی دختر وزیر پر جا پڑی۔ بہ مجرد معاینہ دیدار پر انوار اور وضع شوخ و طنَّاز اس کی کے بہ ہزار جان عاشق جمالِ لیلی تمثال اس بدیع الجمال کا ہوا اور کہا کہ اگر قدوم مسرت لزوم اپنے سے میرے غریب خانہ کو رونق افروز کرے تو سر عزت و افتخار اس خاکسار کا اوپر اوج آسمان کے پہنچا دے گا، بعید از تَفَقُّدَات اور تلطفات سے نہ ہوگا ؎
جو تیرے عشق میں کوئی جی جلا فرہاد ہو جاوے کہاں تک بلبلوں کا دل چمن سیں شاد ہو جاوے |
تو ایسا شخص تو شیریں کا پھر استاد ہو جاوے ہمیشہ دام لے جب باغ میں صیاد ہو جاوے |
اس عاقلہ نے حصول مدعاے خاص اپنا بیچ ملاقات کے جان کر کمال اشتیاق سے دوکان سوداگر کے تئیں رونق افزا جواہر زواہر دیدار سراسر انوار اپنے سے کیا۔ وہ مرد جہاندیدہ، گرم و سرد زمانہ چشیدہ نہایت تملق اور تعلق خاطر سے پیش آیا اور رسم تواضع و مہمانداری کی بہ جان و دل بجا لایا اور پوچھا کہ کس ملک آباداں سے تشریف ارزانی فرمایا ہے اور موجب آنے کا اس ملک بیگانے میں کیا ہے۔ اس عاقلہ نے کہا کہ باپ میرا سوداگر ہے اور مال دنیا سے گنجینہ بے شمار رکھتا ہے۔ میرے تیں بیچ حین حیات اپنے کے واسطے آزمائش کے اسباب تجارت کا ہمراہ دے کر روانہ اس ولایت کا کیا ہے کہ بچشم خود مال گزاری اور سلیقہ شعاری اور تجارت پیشگی میری دیکھے تو بالکل خاطر جمع ہو۔ کس واسطے کہ، فرد ؎
فرزند اگرچہ بے تمیز است
در چشم پدر بسے عزیز است
اس باعث سے یہ اول سفر میرا ہے کہ بیچ اس ولایت بیگانہ کے اتفاق آب و خور کا پڑا۔ اس بزرگ دانش سترگ نے کہا کہ یہ بے مقدار بیچ اس شہر کے پارۂ عزت و افتخار رکھتا ہے اور پیشہ تجارت سے خوب کچھ دیکھا اور کیا ہے۔ اگر آپ از راہ تَفَضُّلات و عنایات کے کلبۂ احزان میرے کے تئیں رشک ارم کا کریں تو خرید و فروخت معرفت میری سے ان شاء اللہ نتیجہ نیک ہوگا۔ جب کہ اشتیاق اس کا بے حد و نہایت دیکھا، فرمانا اس کا قبول کیا اور کہا، فرد ؎
وہی پابند ہو سکتا ہے تیرے دام الفت کا
جو قید ننگ و نام اپنے ستی آزاد ہو جاوے
تب ان نے کہا کہ از براے خدا یہ میری زبان سے فرماتے ہیں۔ پس دیوان خانہ خاص واسطے دختر وزیر کے خالی کیا اور لوازمہ اکل و شرب کا الوان طعام و اقسام اشربہ و عطریات سے حاضر کیا۔ بعد اس کے ایک تماشا عجب نظر آیا کہ ایک دسترخوان زر بفتی اور غوری حبشی میں پلاؤ اور گوشت واسطے کلب کے طلب کیا۔ پس دونوں غلاموں نے مگس رانی کر کے بہ احتیاط تمام اس کے تئیں کھلا کر پس خوردہ اس کا ان دونوں جوان مقید قفس فولادی کو بہ ضرب شلَّاق کھلایا اور بہ زجر و توبیخ پانی بھی اس کا جھوٹا پلایا اور موے سر ان کے تا بہ کمر پہنچے تھے اور ناخن مانند چنگال زاغ و زغن دراز ہوئے تھے۔ دختر خجستہ اختر یہ مقدمہ دیکھ کر سخت آزردہ ہوئی اور کھانا پینا اس کے گھر کا مکروہ بلکہ حرام جانا اور استفسار اس احوال حیرت مآل کا کیا۔ تاجر نے کہا کہ یہ قصہ پر غصہ آج تک میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا بلکہ اس واسطے خواجہ سگ پرست مشہور ہوا ہوں لیکن تم کو مفصل اطلاع دوں گا، موقوف بر وقت ہے۔ اس عاقلہ کو کام اپنا منظور تھا اس بات کے خیال نہ پڑی۔
قصہ کوتاہ تا مدت دو ماہ وہ جادو نگاہ ساتھ اس مرد محبت دستگاہ کے متفق اور مجتمع رہی اور اس قدر دل سوداگر کا بیچ کمند زلف تابدار اپنی کے پھنسایا کہ ایک لمحہ مفارقت اس کی کو باعث مرگ اپنی کا اور موجب ہلاک کا جانتا تھا اور بے اختیار کہتا تھا کہ میرے تئیں حق تعالیٰ نے دولت دنیاوی سے بہت کچھ دیا ہے لیکن نور چشم و راحت جان ناتواں کہ بعد میرے وارث اس مال و دولت کا ہو، نہیں ہے۔ میں نے تجھ کو بیچ فرزندی کے لیا اور یہ سب نقد و جنس بہ خوشی تجھ کو نذر کیا بلکہ شادی اس مقدمہ کی مقرر کرکے تمامی عمدہ و اکابران شہر کو بہ طور ضیافت اپنے ڈیرے بلایا اور مطلع اس معاملے کا کیا اور کہا، فرد ؎
اگر حسرتؔ کا سودا بن پڑا اس عشق بازی میں
تو مجنوں پھیر ویرانہ تیرا آباد ہو جائے
چنانچہ اس عاقلہ نے بعد قابو کرنے اور محیط ہونے کے پگڑی پھیر رکھی اور از روے عقل کے نہایت ملول اور غمگین بیٹھی۔ سوداگر نے دیکھ کر سبب کلال و مَلال طبع کا استفسار کیا، تب اس عاقلہ نے کہا کہ مجھ کو دو مشکل پیش ہیں۔ فرد ؎
نہ ہوں اس عشق میں کیوں کر میں نالاں
کہ سینہ غم کے سینے سے ملا ہے
اگر بیچ خدمت سراپا افادت تمھاری کے اوقات گذاری کروں تو والد بزرگوار مانند یعقوب کے بیچ غم مہاجرت اس یوسف ثانی کے نابینا ہو جائے گا اور کہے گا کہ بہ سبب سن طفولیت کے خانماں فراموش کر کے اور کہیں کا ہو رہا اور جو قصد اُس سمت کا کروں تو جدائی تمھاری نشتر زن جگر کی ہو ؏
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
اسی فکر میں شب و روز باگریہ دلسوز میری گذرتی ہے بلکہ کمال سودا ہے، دیکھیے کیا صورت واقع ہو اور نقش مدعا کا کس پہلو بیٹھے۔ در جواب اس کے اُس دانش پناہ عشق آگاہ نے کہا کہ اے فرزند! اگر مرکوز خاطر مبارک کا یوں ہے کہ یہاں سے کوچ کیجیے تو بسم اللہ۔ فرد ؎
اگر ملنا ہے اپنے باپ سے، کاہے کو دکھ کھینچو
ابھی غم سے نکل کر دل کو اپنے شاد کر ڈالو
مجھ کو یہاں کسی کی اُلفت دامن گیر خاطر کی نہیں کہ جس سبب سے پابند اس ملک کا ہو رہوں، بلکہ عین خوشی و خاطر یوں ہے کہ جس میں رضامندی تمھاری ہو بجا لانا اس کا از جملہ واجبات ہے۔ دختر وزیر کی نے اس بات کے سننے سے مانند زر کے شگفتہ ہو کر بیچ طیاری اسباب روانگی کے قَدغن بلیغ فرمایا اور ایک ہفتہ کے عرصہ میں سب اسباب لاد کے نَقارہ کوچ کا بلند کیا۔ بہ فضل الٰہی بعد انقضاے عرصہ دو ماہ کے وہ قافلہ با سوداگر پیر مرد و سَگ بے نظیر بیچ ولایت قلمرو میری کے آ پہنچے اور بیچ باغ بادشاہی کے رخت اقامت کا ڈالا۔ پس ایک شہرۂ عظیم تاجر کے آنے کا بیچ ہر کوے و برزن کے پڑا۔ دختر وزیر نے بیچ خدمت مادر مہربان کے پہنچ کر آداب تسلیمات و کورنشات بجا لا کر عرض کیا کہ دو روز کی مہلت اور ہو تو والد بزرگوار کو قید و زنداں سے خلاصی دے کر گوشۂ اخفا کے بیچ بیٹھوں۔
بارے بادشاہ نے سواری واسطے سیر باغ طلب کی۔ پس جس وقت کہ شہسوار آفتاب کا بیچ جولاں گاہ عرصہ سپہر کے نمودار ہوا، میں نے اپنے تئیں بیچ باغ کے پہنچایا اور سوداگر کو مع کتّے اور پِنجرہ فولادی کے حضور طلب کیا۔ بہ موجب حکم کے اُس سوداگر نے تحفہ ہاے عجیب و غریب نذر گزرانے۔ میں نے احوال سگ پرستی اور قید کرنا دو جوانوں کا استفسار کیا کہ راست بے کم و کاست مُفَصل بیچ حضور لامع النور کے اظہار کر۔ تاجر نے بہ مقدور خود بیچ اِخفاے راز سربستہ کے دریغ رکھا لیکن بدون اظہار اسرار کے مخلصی نہ دیکھی بقول اس کے ؎
نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفل ہا
بیان سرگذشت خواجہ سگ پرست
عرض کیا کہ حضرت سلامت! یہ غلام عقیدت اِلتیام سوداگر بچہ ہے اور دو نَوجوان قفس فولادی میں برادران کلاں اس بے سر و ساماں کے ہیں۔ جس وقت کہ والد بزرگوار والا تبار اس خاکسار کے نے جہان فانی سے رخت ہستی کا طرف سراے جاودانی کے کھینچا۔ بقول اس کے، رباعی:
جیسا ہی کہ ہلکا ہے گا آنے کا رنگ دنیا کی ہے چال بندی یارو حسرتؔ |
ویسا ہی سبک تر ہے گا جانے کا رنگ فانوس خیال ہے گا زمانے کا رنگ |
اور مال بسیار و دولت بے شمار ترکہ چھوڑا۔ یہ دونوں عزیز مصر بے تمیزی کے قابض و متصرف ہوئے۔ بعد فراغت ماتَم داری کے باہم مصلحت کر کے میرے تئیں بُلایا اور کہا: جو کچھ مالیت پدر کی سے نقد اور جنس ہے حِصَّہ رسد بہ موجب شَرع کے تقسیم کر لیں اور جس کے جی میں جو آرزو ہووے ہوس دل کی نکالے اور چاہے سو کرے، بقول اس کے ؏
ہر کسے مصلحت خویش نکو می داند
میں نے عرض کیا کہ اگر مربی موا تو کیا غم ہے، تم دونوں بزرگ بجاے پدر میرے سر پر سلامت ہو۔ مجھ کو سواے کھانے اور کھیلنے کے کچھ اور سروکار نہیں ہے بلکہ امیدوار تعلیم کا ہوں کہ سعی موفورہ تمھاری سے ساتھ علم و ہنر کے بہرہ ور ہوں۔ مجھ کو حصہ برادرانہ سے کچھ غرض نہیں۔ یہ دنیا چند روزہ ہے۔ بہ قول اس کے، رُباعی:
جب تک رہی جگ میں زندگانی حسرتؔ دیکھا تو یہ حیث و بحث ناحق کا ہے |
تب تک سُنی دہر کی کہانی حسرتؔ ہے خواب و خیال زندگانی حسرتؔ |
در جواب ان دونوں برادران یوسفی نے کہا کہ اگر سِن تمیز اور عنفوان شباب میں تو دعوا حصہ مال پدری کا کرے اور یہ مال ہم سے تلف ہو جاوے تو پھر عہدہ بر آ ہونا مشکل ہے۔ اگر حضور حاکم وقت کے بہ رضا و رغبت اپنے فارغ خطی بہ مہر قاضی و مفتی و گواہی اکابران شہر کے لکھ دے تو کیا مضایقہ، ہم از راہ شفقت برادرانہ تجھ کو پرورش کریں گے۔ میں نے بہ موجب اِستدعا اُن کے لا دعویٰ ورثہ باپ کے سے لکھ دیا اور رہنے لگا۔ بعد چند روز کے بقول آنکہ ؏
خوے بد را بہانۂ بسیار
میرے تئیں گھر سے خارج کیا اور صاف جواب دیا۔ قبلہ گاہ رضواں دستگاہ اس فدوی کو نہایت الطاف اور اشفاق سے پرورش کرتا تھا اور باعث خورد سالی کے بہ نسبت ان دونوں کے قرب منزلت میری دل میں زیادہ رکھتا تھا۔ چنانچہ جب کبھی کہ وہ مشفق شفیق واسطے تجارت کے مرحلہ پیماے ملک و دیار کا ہوتا تو ایک تحفہ واسطے میرے مقرر لاتا۔ چنانچہ ایک یہ کتّا اور دو غلام میرے تھے۔ ایک روز کی نقل ہے کہ قبلہ گاہ نے بیچ حین حیات اپنی کے مجھ سے بیچ خلوت کے کہا تھا کہ اگر یہ دونوں بھائی تیرے تجھ سے بد سلوکی کریں اور حصہ برادرانہ سے محروم رکھیں تو وہ جو فلانی حویلی تیرے نام کی ہے اور اس کے صحن میں جو شجر رشک طوبی کا سایہ انداز ہے، نیچے اس درخت کے پانچ ہزار اشرفی ایک حوض میں زیر زمیں امانت سپرد کی ہیں، وہاں سے لیجیو اور صرف وجہ معاش اپنی کا کیجیو۔ پس میں اُس حویلی میں جا رہا اور یہ بھائی کہ ناواقف تھے خاموش رہے اور مزاحم احوال میرے کے نہ ہوئے اور وہ حویلی قبضہ میرے میں چھوڑی۔ تب میں نے اُس زر پر دستگاہ پا کے دوکان تجارت کی ترتیب دی اور ایک گونہ اعتبار بیچ شہر کے پیدا کیا اور یہ دو غلام وفادار بیچ خدمت کے حاضر تھے۔ بعد عرصہ تین سال کے میرے تئیں مال بِسیار و دولت بے شمار و عزت و اعتبار درمیان تجار کے حاصل ہوا۔ ایک روز غلام میرا زار زار و بے قرار نہایت پر اِضطرا دوڑا ہوا آیا اور کہا کہ تمھارے دونوں بھائیوں کو ایک یہودی ضرب و شلاق کر رہا ہے، مشکیں بندھی ہیں اور تازیانے پڑتے ہیں۔ یوں بھائیوں سے تم نے جو دل سخت کیا ہے، جانتے ہو اُن کا کیا حال ہو رہا ہے۔ یہ بات سن کر بے اختیار گھر سے برآمد ہوا اور اُس معرکے میں آ کر اُس یہودی سے پوچھا کہ ان بندہ ہاے خدا نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس قدر ظلم اور ستم تو روا رکھتا ہے۔ اُن نے در جواب کہا کہ اگر تجھ کو ان پر رحم آتا ہے تو تو زر ہمارا دے اور ان کو چھڑا لے۔ میں نے اُسی وقت مبلغ خطیر دے کر ان کو چھڑا کر اپنے ڈیرے لایا اور علاج جراحت ہاے نہانی کا کر کے حمام میں نہلایا اور خلعت پوشاک فاخرہ پہنایا۔ فرد ؎
تقدیر میں جو کچھ ہو سو ہو وے ہووے
تدبیر کا کیا حال دکھاوے رووے
کچھ تفتیش احوال کی نہ کی کہ باعث خجالت اور شرم ساری ان کی کا ہوگا۔ چند روز خوش و خرم باہم اور سب بات سے بے غم رہے۔ ایک روز میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید یہ ہمراہی میری سے غصہ کھاتے ہوں، کس واسطے کہ اعتبار اور آبرو تاجر کی سفر سے ہے۔ پس تمامی مال اپنے کے تین حصہ کیے۔ ایک حصہ میں نے رکھا اور دو حصے ان دونوں بھائیوں کو دے کر روانہ ترکستان کا کیا اور غلام و نَفَر و اَسپ و اشتر و خیمہ و خَرگاہ و سایر ضروریات کے سے ہر ایک کو جدا جدا اسباب تیار کر دیا اور بلکہ قافلہ سالار سے سفارش کر کے کہ ان کو زیر سایہ اپنے کے رکھیو اور ہر چیز سے ممد و معاون رہیو، وداع کیا اور کہا، فرد ؎
رخصت ہوتا ہے مرا یار، خدا کو سونپا
کیا کروں بس نہیں لاچار، خدا کو سونپا
بعد ایک مدت کے جو سوداگروں نے معاوَدَت کی، میں منتظر شب و روز چشم براہ تھا کہ سب قافلہ آیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ بھائی میرے قافلے کے ہمراہ نہیں ہیں۔ ایک شخص سے جو تحقیقات احوال کا کیا تو اُن نے کہا کہ ایک بھائی تمھارا مال قمار بازی میں ہارا اور فقیر ہوا اور دوسرا ایک شورہ گر کی لڑکی پر عاشق ہو کر اور سب مال اس کے پیچھے صرف کر کے بہ زبان حال یوں پڑھتا ہے، رباعی ؎
احوالِ دلِ خراب ظاہر تجھ پر اس پر تُو جلا جلا کے مارے ہے جان |
دل سوختہ و کباب ظاہر تجھ پر ہے اس کا خیال و خواب ظاہر تجھ پر |
سننے اس ماجراے جاں گداز کے سے از راہ غیرت کے دیوانہ ہوا اور خواب و خور اپنے اوپر حرام کی۔ بعد ازاں مال و جواہر ہمراہ لے کر بہ طریق یلغار اُس شہر میں جا پہنچا اور تحقیق کر کے انھیں بیچ فَرودگاہ اپنی کے لایا اور حمام کرا کے پوشاک پہنائی اور کچھ باز پُرس نہ کی کہ باعث خجالت کا ہوگا۔ اُسی شہر میں ہر ایک کے واسطے مَتاع اور اَسباب خرید کیا اور تہیہ سفر کا کر کے روانہ وطن کا ہوا۔ جب کہ نزدیک آیا اُن کو دو منزل چھوڑ کر اپنے تئیں داخل شہر کا کیا اور سب سوداگروں سے کہا کہ ہمارے بھائی آتے ہیں، استقبال کے واسطے تیار ہو کہ بہ عزت و حرمت تمام درچشم ہم چشماں رونق افزاے وطن مالوفہ کے ہوں کہ اس اثنا میں ایک شخص نالہ و گریاں میرے پاس آیا اور کہا کہ کاش تمھارے بھائی اس راہ سے نہ آتے کہ از باعث شُہرہ مالیت انھوں کے ڈاکہ اُن پر پڑا اور تمامی اموال بہ غارت گیا بلکہ کئی آدمی مارے گئے۔ میں نے پوچھا کہ وے دونوں کہاں ہیں۔ کہا کہ برآمد شہر کے اوپر عُریاں و برہنہ بیٹھے ہیں۔ فی الحال رخت بھیجا اور بلا کر گھر میں رکھا۔ چنانچہ چند روز بسر لے گئے۔ ایک روز بہ طریق مصلحت کے انھوں سے کہا کہ ارادہ سفر کا درپیش رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہمراہ تمھارے روانہ ہندوستان کا ہوں۔ دونوں نے کہا کہ ازیں چہ بہتر۔ پس مع احمال و اثقال اوپر کشتی کے سوار ہوئے اور لنگر اُٹھا کر بادبان کھول دیے۔ قضایاً برادران کلاں کے تئیں ساتھ کنیزک میری کے تعشق پیدا ہوا۔ چنانچہ ان نے برادر دوسرے کے ساتھ کہ مراد منجھلے بھائی سے ہے مصلحت کی اور کہا، فرد ؎
چھوٹی نہ یہ بت پرستی ہم سے حسرتؔ
ایسا ہی ملا ہے یار اللہ اللہ
ان نے کہا کہ چھوٹے بھائی کو بیچ میں سے اٹھا ڈالیے اور عیش بے وسواس کیجیے پھر اس کنیز پر اور ہر چیز پر کہ ہم کو عزیز ہے، قابض و متَصرف ہوں گے۔ صلاح یہ ہے کہ اس کے تئیں دریا میں ڈالا چاہیے تو گوہر مقصود کا بیچ ہاتھ کے آوے۔ القصہ ایک رات بیچ خواب کے سرشار تھا، برادران کلاں نے پکارا کہ اے بھائی یہاں آوو اور قدرت الٰہی کو بہ چشم خود تماشا کرو کہ دریا میں حق تعالیٰ نے کیا کیا خلقت پیدا کی ہے کہ ایک آدمی شاخ ہاے مرجاں ہاتھ میں لیے ناچتا اور کیا کیا تماشے کرتا ہے۔ میں بہ مجرد سُننے اس بات کے مخمور آنکھیں ملتا ہوا اوپر لب کشتی کے آ بیٹھا اور جھک کر دیکھنے لگا۔ ایک برادر نے ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر اور پیچ کشتی کا چرخ کر کے میرے تئیں اوندھا دریا میں ڈالا۔ ہر چند شناوری کرتا تھا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بارے ورطۂ ہلاکت میں کتا میرے ہاتھ میں آ گیا اور میں نے اپنے تئیں سبک کیا۔ پس بعد ہفت شبانہ روز کے بدستیاری اس سگ وفادار کے اوپر ساحل دریا کے پہنچا اور براے تحصیل قوت کے افتاں و خیزاں راہ آبادی کی لی، تا آنکہ بیچ ایک شہر کے داخل ہو کر بر سر بازار آن کھڑا ہوا۔ ناگاہ دو شخص بہ لباس عجمی سامنے سے نمودار ہوئے۔ شکر الٰہی کا بجا لایا اور جی میں تصور کیا کہ شاید آشنا ہوں گے، چاہیے کہ رفع حاجت گرسنگی میری کریں اور رعایت ہم وطنی بجا لاویں۔ جب کہ اور نزدیک آئے معلوم ہوا کہ دونوں برادر بہ جان برابر ہیں۔ میں نے دوڑ کر سلام کیا اور پاؤں پر لوٹ گیا۔ وہ دیکھتے ہی نہایت متعجب اور متحیر ہوئے۔ اتنے میں برادر میانہ یعنی منجھلے بھائی نے ایک طمانچہ میرے منھ پر مارا۔ میں برادر کلاں کے دامن میں جا چھپا، اُن نے بھی ایک لات ماری۔ غرض ان دونوں بے رحم ستم گار نے میرے تئیں بعد زجر و تو بیخ خوب شلاق کیا۔ ہر چند خدا اور رسول کو شفیع لا کر عجز و الحاح کرتا تھا، کچھ فائدہ نہ تھا۔ تب میں نے یہ بند مخمس کا حسب حال اپنے پڑھا ؎
بے وفا ہرگز وفا پر جی کے تیں لانے کے کی نئیں شیوۂ جور و جفا سے اپنے پھر جانے کے نئیں |
بھول کر بھی یہ مروت کی طرف آنے کے نئیں غم ترا یہ سنگدل اے دل، کبھو کھانے کے نئیں |
اِن کی اُلفت میں نہ دل آنسو بہاوے یاں تلک
تا آں کہ خلقت اُس شہر کی جمع ہوئی اور گناہ میرا پوچھا۔ دونوں صاحبوں نے گریبان پارہ کیا اور کہا کہ یہ بدبخت ہمارے بھائی کا نوکر تھا، اُس کو دریا میں ڈالا اور مال پر خود قابض و متصرف ہوا۔ ہم جستجو اس کی میں مدت سے تھے، آج پایا ہے۔ اس عرصہ میں چند نَفر پیادہ حاکم کے کہ بیچ سرہنگی عمرو عیار سے بھی گوے سبقت کی لے گئے تھے آ پہنچے اور میرے تئیں کشاں کشاں بہ ایں حالت پریشاں و بد سلوکی برادراں و خویشاں روبرو حاکم کے لے جا کر کھڑا کیا اور قصاص چاہا۔ سو اشرفی کارسازی حاکم نے قبول کی کہ اس کو جی سے مارا چاہیے تاکہ عبرت اوروں کو ہووے اور کوئی شخص ایسی نمک حرامی پر جرات نہ کرے۔ حاصل کلام کا یہ ہے کہ رسّی میرے گلے میں ڈالی اور سولی پر باندھا۔ اس وقت سواے اُن دونوں بھائیوں کے کوئی آشنا نظر نہ پڑتا تھا مگر یہ کتا کہ احوال میرا دیکھ کر ہر ایک کے پاؤں پر لوٹتا تھا اور میری نظر طرف آسمان کے تھی کہ اس وقت میں دست گیر درماندگان کوے ناکامی و چارہ ساز بے چارگان عالم بے سر انجامی سواے خداوند حقیقی کوئی نہیں، خیر جو کچھ کہ میری قسمت اور نصیب میں ہے راضی و شاکر ہوں بقول اس کے، اشعار ؎
کون ہے جُز خدا کسی کا کوئی مادر و خواہر و زن و فرزند |
کہ سُنے مدعا کسی کا کوئی نہیں ہے آشنا کسی کا کوئی |
اس اثنا میں حاکم کے تئیں درد قولنج کا بہ شدت پیدا ہوا۔ اُس وقت ایک شخص اَعیان اُس کے سے کہتا تھا کہ بَندیوانوں کو قید سے خلاص کرو تا بہ دعاے مسکیناں و محتاجاں شفاے کامل حاصل ہو۔ فی الحال ایک خواص سوار ہوا اور گذر اُس کا طرف دار اس ناپائیدار کے پڑا۔ ریسمان میرے گلے کی شمشیر سے قطع کی اور زندان خانے میں جا کر سب بندی آزاد کیے۔ میں نے رسّی گلے اپنے سے دور کی اور شکر الٰہی بجا لا کے باہر آیا اور اُس شہر سے اپنے تئیں نکال کر افتاں و خیزاں بیچ ایک قریہ کے پہنچا۔ ایک فقیر اس مکان میں سکونت رکھتا تھا۔ میں نے اس کے تئیں سلام بادَب تمام کیا اور جاتے ہی بیٹھ گیا۔ بعد ایک ساعت کے ماحَضر واسطے درویش کے لائے۔ چنانچہ اُن نے کھانا میرے تئیں بھی کھلایا۔ بعد فراغ طعام کے متوجہ اوپر حال اس بے حال کے ہو کر احوال پُرسی میری کی کہ بابا کہاں سے آیا اور حقیقت اپنی کہہ۔ میں نے عرض کیا ؎
نالہ ہمارے دل کے غم کا گواہ بس ہے درکار نئیں زباں سے کہنا بیان غم کا |
دینے کی نئیں شہادت انگشت آہ بس ہے اے آبروؔ ہمارا حال تباہ بس ہے |
فقیر روشن ضمیر نے اوپر احوال تباہ میرے کے نہایت تاسُّف کیا۔ اس عرصہ میں ایک مرید اس کا دس تومان نذر لایا۔ فقیر نے وہ مبلغ خطیر مجھ کو دیا اور کہا: یہ سرمایہ لے، خداے تعالیٰ اس زر سے تجھے بہت برکت دیوے گا، ہو سکے تو اداے دین کا کیجو، واِلاّ خیر، میں نے معاف کیا۔ پس میں دعاے خیر کہہ کر روانہ ہوا۔ برکت اُس دس تومان زر سے بہ شمار دو سو روپے ہوئے۔ بعد ایک سال کے کہ پھیر اُس گاؤں میں واسطے ملازمت اس فقیر کے پہنچا تھا، چالیس غلام بہ کمر مرصّع دست بستہ بیچ خدمت اپنی کے رکھتا تھا۔ مال بے شمار بیچ حضور اُس مرد خدا کے لا کر قدم بوس حاصل کیا اور کہا کہ بہ یمن دعاے فقیراں کہ شامل حال فرخندہ مآل اس خادم الفُقرا کے ہے، بہ ایں جمعیت اور حشمت پہنچا اور ہر چند میں نے چاہا کہ کچھ قبول کرے، ہرگز نہ لیا۔ بعد دو تین روز کے خدمت اس بزرگ کے سے روانہ ہوا اور ایک شہر میں پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ خلقت بسیار جمع ہے اور ہر چہار طرف سے غُل ہو رہا ہے۔ میں نے جو سبب پوچھا تو یہ کہا کہ دو چور پکڑے گئے ہیں کہ واسطے چوری کے حاکم کے گھر میں بیٹھے تھے۔ اب ان پر سیاست ہے۔ غور کر کے جو دیکھا تو معلوم کیا کہ وے دونوں بھائی ہیں، خون برادری کمال جوش پر آیا اور حاکم کے ہاتھ سے بہ عوض مبلغ خطیر چھڑوا کر اپنے مکان پر لایا اور پوشاک پاکیزہ پہنا کر پوچھا کہ اے برادران! کنیز من چہ شد۔ کہا کہ بیماری سے فوت ہوئی تب میں نے از راہ الفت کمال کے کہا، رباعی:
تم دور دیار ہم سے اتنا ہی رہے فرمان برادری کا اس سے آگے کیا ہے |
دریا دریا ہماری آنکھوں سے بہے جو جو کیے جور تم نے سو سو تو سہے |
تا مدت سہ ماہ اس شہر مینو چہر کے اتفاق رہنے کا ہوا۔ بعد اس کے وہاں سے سفر کیا اور بھائی ہمراہ تھے۔ جس وقت کہ نزدیک آبادی کے قافلہ فرود آیا، وقت نماز عصر کا تھا کہ ہر دو برادر نے کہا: جی چاہتا ہے کہ پیادہ پا ہو کر سیر صحرا کی کیجیے، کس واسطے کہ یہاں شکارگاہ نہایت خوب ہے اور فرماں روا اس ملک کے نے تیار کروائی ہے۔ بہ موجب صلاح انھوں کے باہم پیادہ پا روانہ ہوئے۔ جب کہ قریب ایک فرسخ کے نکل گئے اور اس مکان سے کچھ نظر نہ آیا، میں نے پوچھا کہ شکار گاہ کہاں ہے جو تم کہتے تھے۔ بردار میانی سراسر طوفانی نے کہا کہ خاطر جمع رکھ، اب کوئی دم میں منظور نظر ہوتا ہے۔ تا آں کہ متصل ایک چاہ کے پہنچے۔ اتنے میں منجھلے بھائی صاحب کنویں کے سر پر آن کھڑے ہوئے اور کہا کہ ایک ایسا ہی تماشا عجیب اس میں نظر آتا ہے کہ ساری عمر نہیں دیکھا ہے۔ اشتعالک اس کی سے برادر کلاں نے دوڑ کر ملاحظہ کیا اور کہا کہ واقعی اس قسم کا عجائبات آج تک نظر نہیں پڑا۔ سبحان اللہ آدمی سے بھی کچھ نہیں بچا ہے۔ یہ کلام سراسر ایہام سن کر میں بھی از راہ سادگی اور محبت برادرانہ کے پچھلی بد سلوکیاں ان کی بھلا کے اور اعتماد ان کے کلام پر لا کے متوجہ طرف چاہ کے ہوا۔ جو میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو سواے تاریکی کے کچھ نظر نہ پڑا۔ یہ کہا چاہتا تھا کہ مجھ کو سواے اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا ہے کہ ہر دو برادران نے بہ قصد تمام میرے تئیں کنویں میں ڈھکیل دیا۔ فرد ؎
چہے چوں گور ظالم تنگ و تیرہ
ز تاریکیش چشم عقل خیرہ
وہ چاہ اسی واسطے تھا کہ جو بادشاہ اس ولایت کا کسی پر پُرغضب ہوتا تو اس کنویں میں ڈلوا دیتا۔ وہ شخص اجل گرفتہ چند روز میں بھوکا اور پیاسا جان بحق تسلیم ہوتا۔ پس ان دونوں نابکاروں نے قافلے میں جا کر اظہار کیا کہ بھائی کو بھیڑیا لے گیا۔ سننے اس حادثہ جاں گزا کے سے اکثر دوستوں نے تاسف اور حسرت کر کے کوچ کیا۔ اس وقت بے کسی میں یہ سگ وفادار کہ ہمراہ آیا تھا، بر سر چاہ اقامت پذیر رہا اور قاعدہ یہ مقرر کیا کہ ہر پگاہ کو شہر میں جاتا اور وجہ قوت اپنا لاتا اور مجھ کو بھی پہنچاتا۔ ایک پیر زال اس نواح میں رہتی تھی اور اتفاقاً چند سبوچے پر از آب اس کے دھرے تھے۔ یہ کتا اس کے نزدیک جا کر لوٹا اور اشارہ پانی کا کیا۔ پیر زن نے ایک ظرف سفالی میں پانی بھر کے رو برو اس کے دھرا۔ کتا متوجہ آب نوشی کا نہ ہوا اور دامن اس ضعیفہ کا منھ میں پکڑ کر اشارہ طرف چاہ کے کیا۔ ان نے قرینہ عقل سے دریافت کر کے کہا کہ شاید کوئی شخص کنویں میں مقید ہوا ہے۔ ایک ڈول اور رسی لے کر وہ نیک بخت بر سر چاہ آئی اور ڈول پر آب تہ کنویں میں چھوڑا اور وہ کتا عف عف کرنے لگا۔ میں متوجہ طرف بلندی کے ہوا اور ڈول پر از آب سے پانی پیا اور شکر بدرگاہ کارساز بے نیاز بجا لایا۔ چنانچہ مدت شش ماہ اسی وطیرے سے گذارے۔
ایک روز ایک شخص کو لائے اور کنویں میں ڈالا۔ وہ اجل گرفتہ ایسا ہی بے ضرب گرا کہ دو سہ پہر میں انتقال کر گیا۔ وقت نیم شب کے ایک ریسمان کنویں میں جو آئی، دیکھتا ہوں کہ ایک خوان طعام، ایک سبوچہ پر از آب اس میں بندھا ہے۔ میں نے وہ کھانا نوش جان کر کے پانی پیا اور رسی کو حرکت دی، اوپر والوں نے کھینچ لی۔ باقی جو کچھ پس خوردہ رہا تھا ان خدمت گاروں نے کھایا اور کتے کو بھی کھلایا۔ ایک مہینہ تک اسی طور سے گزران کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک روز شب کے وقت آدھی رات میں کسی شخص نے رسی ڈالی اور بآواز ملائم کہا کہ اے غریب بے چارہ ستم رسیدہ! سر ریسمان کو کمر اور ہاتھ اپنے سے مستحکم باندھ۔ میں سننے اس مژدہ راحت افزا کے سے نہایت خوش ہو کے شکر بدرگاہ الٰہی بجا لا یا اور جی میں کہا کہ شاید زمین کی سیر کوئی روزوں اور بھی قسمت میں ہے اور وہیں رسی کو اوپر اپنے لپیٹا اور ان نے کھینچ لیا اور میں اوپر آیا۔ فی الفور رسی کو کھول کے ان نے میرے تئیں ہمراہ لیا۔ ایک جا پر دو راس اسپ و یراق حاضر کیے تھے، ایک پر آپ سوار ہوا اور دوسرے پر مجھ کو سوار کیا اور تمام شب مسافت بعید قطع کی۔ جس وقت کہ خاتون شب کی پلنگ پر سے اٹھ کے بیچ خلوت خانے مغرب کے گئی اور ترک خورشید کا بیچ میدان صحرا کے پرتو انداز ہوا۔ شعر ؎
نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے خدا حافظ ہے میرے دل کا یارو برنگ ماہی بے آب نس دن |
مسافر دشمنوں میں آ پڑا ہے کہ پتھر سے یہ شیشہ جا بھڑا ہے سجن میں دل ہمارا تر پھڑا ہے |
کرے کیا آبروؔ کیوں کر نہ رووے
رقیباں کے صنم بس میں پڑا ہے
اس سوار ستم شعار نے میری طرف نگاہ تند سے دیکھا اور تلوار نکال کر بہ قصد ہلاک میرے ایک وار چلایا۔ میں اس کی ضرب کو بچا کر گھوڑے سے اترا اور قدموں پڑا اور نہایت عاجزی سے گڑگڑایا کہ میرے مارنے سے کیا حاصل ہوگا مثل ہے بگلا مارے پکھنا ہاتھ۔ تب ان نے کہا کہ اے کمبخت! وہ جوان کہاں ہے کہ جس کے واسطے تخت سلطنت کا چھوڑ کر آوارہ دشت ادبار کی ہوئی ہوں۔ میں نے دریافت کر کے کہا کہ اے نازنین! وہ جوان اُسی روز جنت نصیب ہوا تھا۔ یہ طعام اور آب ہر روزہ میں تناول کرتا تھا اور تم کو دعا دیتا تھا اور اس قدر جزع و فزع عمل میں لایا کہ ان نے میرے حال پر رقت کی اور کہا کہ سوار ہو وقت فرصت کا نہیں ہے۔ تمام روز افسوس و دریغ کیا اور میری طرف رخ توجہ کا نہ فرمایا۔ فرد ؎
آنچہ دلم خواست نہ آن می شود
ہر چہ خدا خواست ہماں می شود
تا آں کہ آفتاب مغرب میں گیا اور ایک مکان پر طرح اقامت کی ڈالی۔ اس نے از راہ مہربانی کے احوال میرا پوچھا۔ میں نے جو کچھ کہ راست بہ راست تھا گزارش کیا۔ تب ملکہ نے مجھ سے فرمایا کہ سن، اے عزیز! میں دختر روشن اختر فرماں رواے زیر آباد کی ہوں۔ ایک روز نظر میری خلف الصدق وزیر اعظم کے اوپر پڑی، بہ ہزار جان و دل فریفتہ اور عاشق اس کی ہوئی اور دایہ محرم اسرار اپنی سے کہا۔ شعر ؎
مرتی ہوں میرے حال پہ دایہ نظر کرو بےکس کو بس میں کر کے سو تم مارتے ہو کیوں |
ٹک جا خدا کے واسطے اس کو خبر کرو وہ کچھ نہیں خدا کا تو تھوڑا سا ڈر کرو |
اے نالہ ہاے شوق! اگر تم میں درد ہے
اس بے وفا کے دل میں تو جا کر اثر کرو
مبلغ نمایاں اور زر بسیار کارسازی میں خرچ کیے تاکہ خلوت میں بلا کر مقصد حاصل کیا۔ چنانچہ ہر شب اتفاق ملاقات کا ہوتا تھا۔ ایک رات اس کو پاسبانوں نے التباس شب رو میں پکڑا اور بادشاہ کے حضور میں لے گئے، بہ سبب اس کے کہ شب میں پہچانا نہیں کہ پسر وزیر ہے۔ بادشاہ نے حکم قتل کا فرمایا۔ بعد از شفاعت ہواخواہان فرمایا کہ بیچ چاہ سلیمانی کے ڈالیں۔ میں شکر الٰہی بجا لائی کہ یار میرا مارا نہ گیا اور میں رسواے خاص و عام نہ ہوئی۔ ہر روز آب وطعام بھیجتی تھی کہ گرسنگی سے ضائع نہ ہو۔ ایک رات میری خاطر میں گذرا کہ زندگی بے یار حیف ہے۔ شعر :
جان میری پر سزا ہے جو کہ گذرے ہے عذاب
یار سے ہو کر جدا پھر زندگانی حیف ہے
فی الحال دو راس اسپ باد پاے سبک رفتار اور سلاح پاکیزہ اور دو خرجین پر از زر و جواہر لے کر بر سر چاہ آئی اور اس عزیز کو نہ پایا لیکن نصیبے تیرے نے یاوری کی کہ مجھ سی شخص با دولت و زر میسر آئی۔ یہ کہہ کر نان و کباب نکالا اور باہم ناشتہ کیا اور شب و روز راہ طے کر کے ایک شہر میں آکر طرح سکونت اختیار کی اور وہ آپ مسلمان ہوئی اور میں نے بہ موجب شرع کے نکاح کیا۔ صندوقچہ زر و جواہر پاس اپنے رکھ کر دوکان جواہر فروشی کی لگالی۔ تا آں کہ در اندک فرصت مشہور و معروف ہوا۔ ایک روز بازار میں ازدحام نظر آیا۔ بعد تحقیقات کے معلوم ہوا کہ دو نفر عجمی بہ تہمت دزدی گرفتار ہیں اور خون کے قصاص کے امیدوار ہیں۔ آگے جا کر دیکھتا ہوں تو برادران عزیز از جان سلمہ الرحمن ہیں اور بہ خواری تمام سر و پا شکستہ و دست بستہ مجروح و خستہ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لاتے ہیں۔ میری آنکھوں میں جہاں تاریک ہوا اور اشک خونیں دریچہ چشم سے جاری ہوئے۔ ملازمین حاکم کو ایک مشت دینار دیے کہ صبر کرو تاکہ میں سوال و جواب ان کا کروں اور میں بہ تعجیل تمام حاکم کے پاس آیا اور یک دانہ قیمتی کہ سابق ازاں بہ قیمت یک صد تومان حاکم لیا چاہتا تھا اور میں راضی نہ تھا، کارسازی میں دے کر اُن کے چھڑانے کا پیغام کیا۔ حاکم نے کہا: اگر مدعیوں کو راضی کرو تو ان کی جاں بخشی ہوگی، والا معلوم۔ تب میں نے پانسو تومان ان کو دیے اور ان کو لے کر گھر آیا۔ اب کی دفعہ عورت اپنی کو چھپایا کہ مبادا یہ شیطان ہیں کچھ خلل کریں۔ سر اپنا ان کے پاؤں پر ڈال کر نہایت عجز کیا اور شبانہ روز بیچ خدمت گاری کے حاضر رہا۔ تا یک سال احوال بدیں منوال گذرا۔ ایک روز خورشید آسمان دلبری کی حمام میں جا کر نہا آئی، مگر غافل ازیں کہ ہر دو مرد مردانے گھر میں ہیں چادر سر سے دور کی۔ برادر میانہ کی نظر جیوں ہی کہ اُس کے قد و قامت پر پڑی تفنگ عشق کی جگر کے پار ہوئی اور بیچ تلاش ہلاکت میری کے مستعد ہوا۔ چنانچہ ایک رات کو یاد وطن کی کر کے آہ سر دل پُر درد سے بر لایا اور کہا کہ پردیس کی بادشاہی پر وطن کی گدائی فخر رکھتی ہے۔ میں نے کہا کہ خوب کہتے ہو، مجھ کو بھی اشتیاق وطن کا سلسلہ جنباں ہے۔ بارے اَندک فرصت میں تیاری کر کے روانہ ہوا۔ ایک منزل میں منجھلے بھائی صاحب بولے کہ اگر مقدور ہوتا تو ایک مقام کرتے کہ فضا اس سیر کی نہایت دلچسپ ہے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے کیوں کر جانا۔ کہا کہ ایک دفعہ ہمارے تئیں اتفاق اس راہ کا پڑا ہے۔ یہاں سے ایک فرسخ پر ایک چشمہ واقع ہے کہ آب زُلال اُس کا یاد از سَلسبیل و تسنیم بہشت کی سی دیتا ہے اور گل و اشجار اُس کے کام عطر گل کا کرتے ہیں کہ روضۂ رضوان اور فردوس الجنان پر فخر رکھتا ہے۔ میں نے قافلے میں صلاح اقامت کی دی اور کوچ موقوف کیا۔ وقت صبح کے کہ ہنوز روشنی کامل نہ ہوئی تھی، ہر دو برادر مسلّح اور مکمل ہو کر کہنے لگے کہ وقت بہار کا ہاتھ سے جاتا ہے۔ شتاب روانہ ہوجیے کیونکہ دھوپ میں کچھ لطف نہیں۔ جس وقت کہ میں نے سواری طلب کی اُس وقت کہا کہ پیادہ پا بڑا لطف ہے اور مکان بھی متصل ہے، کچھ احتیاج سواری کی نہیں۔ ہم تینوں بھائی اور یہ کتّا اور دو غلام مع حقہ و قہوہ طرف صحرا کے روانہ ہوئے اور تیر اندازی کرتے ہوئے متصل ایک باغ کے آئے۔ اتنے میں ایک غلام کو کسی کام کے بہانے طرف قافلے کے بھیجا۔ جب کہ اس کو دیر لگی، دوسرے کے تئیں اُس کے بلانے کو روانہ کیا۔ اس عرصہ میں مجھ کو احتیاج قضاے حاجت درپیش آئی۔ ایک جھاڑ کے نیچے بیٹھ کر متوجہ و مشغول استنجے کا ہوا کہ یکایک برادر کلاں نے سر پر پہنچ کر ایک تلوار ماری کہ تا بنا گوش پارہ کیا۔ میں کہ یہ کہتا ہی تھا کہ اے ظالم! یہ ظلم ناحق کیا ہے، کہ دوسرے نے دوڑ کر اوپر پشت کے تلوار ماری کہ بے ہوش و خموش ہو کر گرا۔ اس کتے نے کئی ایک زخم پنجے و دَندان تیز تر از نوک سنان سے اُن کو زخمی کیا اور اُن کے ہاتھ سے آپ بھی زخمی ہوا۔
القصہ برادران بے ایمان نے از راہ مکر و فریب کے ایک ایک زخم ہلکا سا اپنے بدن پر لگا کے اور پارچہ پوشیدنی اپنے خون میں سرخ رنگ کر کے قافلے میں جا کر کہا کہ قزّاق بد ذات در عین سیر و طیر ہمارے سر پر آئے اور جنگ عظیم واقع ہوئی۔ چنانچہ ایک بھائی مارا گیا اور ہم زخمی و خوار یہاں تک آئے۔ اُس ملکہ زیرآباد نے کہ حقیقت اُن کی سے خوب مطلع نہ تھی اپنے تئیں بہ ضرب خنجر ہلاک کیا اور یہ دونوں شخص مکر و خَدع سے روتے تھے اور بہ زبان حال کہتے تھے ؎
عجب نصیب ہمارے ہیں اس دیار میں ہاے تو کچھ تو درد ہمارا بھی اب سمجھ ساقی |
پڑے ہیں دام میں صیاد کے بہار میں ہاے کریں ہیں بادہ پرستی کے ہم خمار میں ہائے |
آخر کو یہ دونوں صاحب مال و دولت ہمراہ لے کر ساتھ قافلے کے روانہ ہوئے اور میں مجروح جنگل میں بے ہوش پڑا تھا۔ اس عرصہ میں دختر بادشاہ فرنگ کی براے سیر باغ با مَہوشان گُل اندام کے پہنچی اور حقیقت احوال میرا دیکھ کر سواری کھڑی کی اور فرنگی جَراح اُستاد کامل کو بلا کر امیدوار انعام کا کیا اور کہا کہ بیچ غسل صحت اس کی کے جس قدر جلدی کرے گا، مورد عنایات بے غایات کا ہوگا۔ اُس مرد جَرّاح نے زخموں کو دھو کر بخیہ کیا اور مرہم لگایا اور وہ ملکہ شفیقہ ہر روز دو تین بار واسطے خبر گیری میری کے تشریف لاتی اور شورباے مرغ اپنے ہاتھ سے پلاتی اور اکثر کہتی کہ کس ظالم و ستمگار، جفا کار، مردم آزار نے یہ ظلم و ستم روا رکھا ہے۔ بُتِ بزرگ سے نہ ڈرا۔
القصہ بہ فضل شافی مطلق در عرصہ یک ماہ بہ حالت اصلی درست ہوا اور وہ نازنین مہ جبین ایک آہ جاں سوز و جگر دوز سینہ سے بر لا کر تفحص احوال میری پر متوجہ ہوئی۔ میں نے مفصل حقیقت اپنی گزارش کی۔ فرمایا کہ کچھ غم نہ کر۔ جس وقت عاشق آفتاب کا بیچ کوچۂ مغرب کے گیا اور معشوق ماہ تاب بیچ صحن سما کے جلوہ پرداز ہوا، بیچ نصف شب کے اپنے تئیں میرے پاس پہنچایا اور میں ہر توجہ سے بیچ خاطر داری و دل جوئی اُس کے مُقصر نہ تھا اور گلشن وصال اُس پری تمثال کے سے گل کامیابی کے چُنتا۔ چنانچہ دایہ اُس کی بھی اس راز پر مطلع ہوئی۔ ایک روز وقت شب کے وہ ملکہ جادو ادا خورشید لقا در حضور پُر نور والد بزرگوار اپنے کے تشریف رکھتی تھی اور میں فرصت کو غنیمت جان کر گوشۂ باغ میں بیچ اداے قضاے نماز کے مشغول تھا کہ ناگاہ وہ ملکہ خدمت پدر کے سے مُرخّص ہو کر اوپر بستر خواب کے آ بیٹھی اور دایہ سے کہا کہ وہ کم مایہ آج فرصت پا کر ساتھ کسی خواص کے ہوگا، دیکھوں تو کہاں ہے اور کیا کرتا ہے۔ اس تلاش میں اُٹھ کر رو برو میری آئی اور طرز عبادت میری کا دیکھ کر تعجب کرتی تھی کہ یہ دیوانہ ہو گیا، اُٹھا بیٹھی کر رہا ہے۔ جس وقت کہ میں نے فرض سنت و نفل سے فارغ ہو کر دست دعا کا بیچ جناب حضرت قاضی الحاجات کے اٹھا کر ساتھ گریہ و زاری کے مناجات پڑھی، ملکہ قہقہہ مار کے ہنسی اور کہا کہ اے مرد عجمی! دیوانہ ہوا ہے۔ میں بجاے خود خشک و ہراساں ہو گیا۔ معشوقہ آگے میرے آئی اور پوچھا کہ کیا کرتا تھا، دایہ نے کہا کہ یہ مرد مسلمان ہے، خداے نادیدہ کی پرستش کرتا ہے۔ ملکہ برہم ہوئی اور کہا کہ پس دشمن اپنا بغل میں پالتی ہوں۔ یہ کہہ کر از راہ غم و غصہ کے میرے پاس سے اُٹھ گئی۔ میں بھی اپنے حجرہ میں آیا اور دروازہ بند کر کے بیچ نماز کے مشغول رہا۔ دو روز کے بعد شب سویم کو نشہ شراب میں سرشار آئی اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اور پیالہ پی کر دائی سے کہا کہ یہ شخص بیچ غضب بُت بزرگ کے گرفتار ہو کر زندہ ہے یا مردہ۔ دائی نے کہا کہ رمقے از جان باقی دارد۔ کہا کہ ہر چند نظروں سے گر گیا ہے لیکن یہ اس سے کہہ کہ باہر آوے۔ میں بہ مُجرد طلب اس مست غضب کے سراسیمہ دوڑا گیا اور سلام کر کے ایک طرف کو کھڑا ہوا۔ بعد ایک ساعت کے خشمگیں نظروں سے دیکھ کر دائی سے کہا کہ اگر میں اس کو مار ڈالوں تو بت بزرگ مجھ سے راضی ہووے۔ دائی نے کہا کہ یہ بہتر ہے مگر یہ بات بت بزرگ ہی پر موقوف رکھیے۔ تب ملکہ نے یہ فرمایا کہ اس کو کہہ کہ بیٹھے۔ میں بہ موجب ارشاد کے بیٹھ گیا۔ ملکہ نے دائی سے کہا کہ اس کو شراب دے کہ وقت مرگ کے سختی نہ دیکھے۔ دائی نے ایک جام پر از شراب گلفام میرے تئیں دیا۔ جس وقت کہ اُس کے پینے سے دماغ میرا گرم ہوا از راہ دلیری کے برسر سخن آیا اور کہا، فرد ؎
دلم بردی و دلداری نہ کردی
غمم دادی و غمخواری نہ کردی
یہ سن کر زیر لب خندہ کیا اور کہا کہ اے دائی! شاید تجھ کو نیند آتی ہے۔ اُن نے از راہ عقل دریافت کر کے کہا کہ واقعی ملکہ کو صاحب کرامات کہا چاہیے۔ دعا و ثنا کہہ کر اُٹھی اور محل خواب گاہ اپنی میں جا کر سو رہی۔ ملکہ نے بعد ایک لمحہ کے پیالہ مانگا، میں نے پُر کر کے دیا۔ جس وقت شراب پی کر پیالہ میرے تئیں دینے لگی، میں نے بوسہ اوپر دست مبارک کے دیا اور پیروں پر پڑا۔ نازنین صنم نے ہاتھ جھاڑ کر کہا کہ اے جاہل! بت بزرگ سے کیا بدی دیکھی کہ پرستش خداے نادیدہ کی کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ اے سرخیلِ معشوقانِ طَنّاز! پرستش اس خداے بے ہمتا کی کرتا ہوں کہ تجھ سا گل بیچ گلزار جہاں کے نشو و نما کیا ہے اور مجھ سے بیچارے کے تئیں اسیر طرۂ تابدار تیری کا کیا ہے۔ اور تیرا بت بزرگ کیا بلا ہے، ایک سنگ تراشیدہ بے حس و حرکت ہے کہ جس کی پرستش سے نہ فائدہ دین کا نہ دنیا کا۔ جس وقت عبادت معبودِ حقیقی کی کرے گی اور اس راہ ضلالت سے کہ از رہ گمرہی تیری کے ہے، نکلے گی، معلوم ہوگا کہ عبادت الٰہی کیا اثر رکھتی ہے۔ فرد ؎
مَر اُو را رسد کبریا و منی
کہ ملکش قدیم است و ذاتش غنی
جس وقت میں نے دیوان معرفت الٰہی کا کھولا و از دلائل قاطع و حُجت ساطع وَحدانیت سے آگاہ کیا تب ان نے بہ صدق دل کلمہ طیبہ زبان پر جاری کیا اور تا صبح روتی و استغفار کرتی رہی اور فرمایا کہ والدین میرے کافر ہیں، اس کا کیا علاج ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اُن کے کفر و اسلام کی باز پرس تجھ سے نہیں ہونے کی۔ کہا کہ میں نامزد پسر عمّو کی ہوں، اگر وہ مجھ سے نزدیکی کرے گا تو نطفہ کافر کا پیٹ میں قرار پکڑے گا۔ اِس واسطے ایک ترکیب میرے ضمیر پر آئی کہ فکر بھاگنے کی کیا چاہیے تا اس تہلکہ سے خلاص ہوں لیکن چند روز مفارقت میری اختیار کرنا از جملہ واجبات ہے۔ قافلۂ سوداگران میں جا کر مقام کر، میں دائی کو ہر روز واسطے خبر تیری کے بھیجوں گی اور جواہر گراں بہا تجھ تک پہنچا دوں گی۔ جس وقت کہ سوداگرانِ بلادِ عجم کے از راہ دریا کے مسافت کریں، تو بھی تیاری اپنی کر کے مجھ کو اطلاع دے تو میں رات کے تئیں تن تنہا تیرے پاس پہنچوں گی۔ میں نے کہا فدایت شوم، بہتر ہے۔ دایہ کے ساتھ کیا کرو گی۔ کہا ؎
دہم جامے کہ باجانش ستیزد
کہ تا روزِ قیامت بر نہ خیزد
وقت صبح یک مشت زر سرخ میرے تیں دے کے رو برو دایہ کے رخصت فرمایا اور میں مفارقت کر کے بادل پُر حسرت خدمت اس کی سے مرخّص ہو کے بیچ کارواں سراے کے آیا۔ تب ایک کوٹھری لے کر شب و روز بیچ فراق اُس دلفریب کے بآہ و سوز خونِ جگر کھاتا تھا۔ ایک مدت پیچھے سوداگروں نے از راہ دریا ارادہ وطن کا کیا۔ جس وقت کہ مجھ کو کہا کہ تو بھی تیاری اپنی کر، میں نے واسطے رفع تہمت کے کہا: مگر کسی سرمایہ پر ارادہ کروں، بقول آں کہ اوچھی پونجی خصمی کھائے۔ تب انھوں نے کہا کہ اس کفرستان میں کب تلک رہے گا۔ میں نے کہا کہ خوب اگر تم ایسا ہی کہتے ہو تو ایک میں اور ایک لونڈی اور ایک کتا اور ایک صندوقچہ، یہ کچھ بساط ہے۔ میرے لایق جہاز میں جگہ مقرر کیجو۔ میں شہر میں جا کے اور اسباب لا کے تمھارے ساتھ ہوتا ہوں۔ سبھوں نے متفق ہو کر کہا کہ جلد جا کر اسباب اپنا لا۔ چنانچہ لباس خواب کا اور کتّا جہاز میں سوار کیا۔ جو معلوم ہوا کہ وقت صبح کے بادبان بلند ہوگا رُفقاے سفر سے مُرخّص ہو کر شہر کو آیا کہ کنیز اپنی کو لے آؤں۔ وہاں سے شہر میں آ کر دائی سے کہا کہ اے مادر مہربان! واسطے رخصت ہونے کے تیری خدمت میں آیا ہوں، اگر بہ توجہ عالیہ یک مرتبہ دیدار ملکہ کا نصیب ہو تو بعید اشفاق سے نہ ہوگا اور یہ بندہ بے درم خریدہ ہو کر خط غلامی کا منقوش خاطر عقیدت مآثر کے رکھے گا۔ دائی نے از راہ مہر وَرزی کے نظر اوپر حال تباہ میرے کر کے فرمایا کہ فلانی جا پر متصل حَرم سَرا کے اقامت پذیر ہو، میں خبر کر کے بلا دوں گی۔ چنانچہ اندرون دولت سراے اُس بدیع الجمال نیکو خصال کے دائی نے اظہار عرض اور شیفتگی میری کا کیا۔ ملکہ درمیان لوگوں کے راضی نہ ہوئی اور جواب صاف دیا۔ لیکن بیچ نصف شب کے سب کو رخصت کر کے صندوقچہ جواہر بے بہا کا لے کر بغل میں برآمد ہوئی۔ میں جو منتظر آمد آمد کا تھا، دیکھ کر نہایت شاد ہوا اور صندوقچہ اس کے ہاتھ سے لیا۔ دونوں باہم جلد قدم اُٹھا کر وقت نور کے دریا پر پہنچے اور سوار ہوئے۔ ملاحوں نے لنگر اُٹھا کر بادبان بلند کیا اور شَلّک توپ کی سر دے کر جہاز روانہ ہوا۔ از بس خوشی سے کہ گویا فرمان دہی ہفت اقلیم پر دست رس پایا، خوش و خرّم چلے۔ تا چاشت بہ سُرعت اتم کشتی چلی جاتی تھی کہ سمت بندر کے سے صدا توپ کی سرزد ہوئی۔
القصہ جس وقت بادشاہ کو خبر ہوئی کہ دائی موئی پڑی ہے اور ملکہ غائب ہے، سننے اس حقیقت کے سے حکم والا صادر ہوا کہ مستحفطان طرق و شَوارِع جَزایر و بَنادر کو فرمان عالی پہنچے کہ تفحص و تجسس کریں اور جتنے تاجر و مسافر کنیزک خوبرو رکھتے ہوں لا کر نذر گزرانیں۔ جو کنیز کہ سرکار والا لیویں گے اس کی قیمت عنایت ہوگی اور باقی بجنسہ پھیر دی جائیں گی۔ سوداگروں نے کنیزکیں خوبرو صاحب جمال خرید کر واسطے محصول و کرایہ جہاز کے صندوقوں میں چھپائی تھیں اور میں نے بھی اُس گرامی گوہر کو ایک صندوق میں رکھا تھا۔ یکایک کشتیوں پر فوج ملازمان شاہ بندر کہ نواح دیگ تھا آن پہنچے اور کہا کہ کنیزکیں جہاں تک لی ہیں قیمت اُن کی کہو اور سب کنیزکیں لے چلو۔ جو کنیزک کہ بادشاہ پسند کر کے رکھیں گے، قیمت اُس کی ملے گی اور باقی پھیر آویں گی۔ چنانچہ ہمراہ سب کنیزکوں کے معشوقہ میری کو بھی لے گئے۔ شام کے وقت سب کنیزکیں پھیریں مگر مجھ برگشتہ طالع کی معشوقہ پسند کر کے رکھ لی۔ جس وقت کہ میں مفارقت اس کی سے متردد اور متفکر ہوا سب سوداگروں نے کہا کہ تجھ کو قیمت اُس کی سے دو چند دیتے ہیں کچھ غم و غصہ نہ کر۔ میں راضی نہ ہوا اور وہاں سے پھر کر شہر میں آیا۔ وقت شب کے جانبازی کر کے بیچ دولت سراے شاہ بندر کے پہنچا اور ہر چند جستجو کی، نشان نہ پایا اور مدت ایک ماہ تک کوچہ گردی کی، کچھ فائدہ نہ ہوا۔ تا آں کہ ایک روز بیچ حویلی وزیر کے آیا اور ہر چہار طرف نگاہ کی، وہاں بھی سراغ نہ ملا مگر ایک بدرو دیکھا کہ چند سیخچے آہنی اُس کے دہانے پر لگے ہیں۔ فی الفور ایک حربہ معقول پیدا کر کے وقت شب میں سیخچے توڑے اور مثل سگ کے تنگ ہو کر در آیا اور ہر چہار طرف کھوج کیا۔ ناگاہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک باغیچہ میں نیچے ایک درخت کے بہ آواز حزیں دعا بیچ جناب حضرت مسببُ الاسباب کے مانگتی ہے کہ الٰہی! میں مسلمان ہوئی اور تجھ کو پہچانا۔ جس شخص کے سبب سے یہ دولت ایمان کی نصیب میرے ہوئی اس سے ملا، بہ تصدق حضرت پیغمبر و پنجتن پاک دوازدہ امام و چہاردہ معصوم کے۔ میں یہ سُن کر آواز پر چلا اور جا کے قدم۔بوس ہوا۔ بارے اُن نے دیکھتے ہی بہ اشتیاق تمام گلے لگایا اور حقیقت پوچھی۔ میں نے جو کچھ کہ تھا ظاہر کیا۔ اُس ماہتاب آسمان شہریاری کے نے کہا کہ وزیر نے لونڈیوں میں مجھ کو پسند کر کے رکھ لیا اور باقی کنیزکیں حضور میں لے گیا۔ بادشاہ نے ان میں مجھ کو نہ پایا، سبھوں کو پھیر دیا۔ اب میں یہاں گرفتار رنج و مصیبت کی ہوں۔ ہرچند کہ چاہتی تھی اپنے تئیں ہلاک کروں مگر پس و پیش مترصد لطائف غیبی کی تھی۔ بارے اب تجھ کو دیکھا تو خاطر جمع ہوئی اور اب ایک فکر اور کیا چاہیے کہ جس سبب سے اغلب ہے کہ اس قید سے چھوٹوں اور تیرے ہاتھ آؤں۔ تب میں نے پوچھا کہ وہ فکر کہو کیا ہے۔ کہا کہ بُت بزرگ کو دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ البتہ نام سُنا ہے۔ کہا کہ دستور ہے کہ جس شخص پر کچھ ستم ہوتا ہے یا کوئی اسے ستاتا ہے، وہ شخص لباس سیاہ پہن کر بت خانہ میں جا بیٹھتا ہے۔ بعد اس کے جو لوگ کہ واسطے زیارت کے آتے ہیں، اُسے بھی کچھ دیتے ہیں اور روز چہارم ایک خلعت سرکار سے مرحمت کر کے رخصت کرتے ہیں۔ تو جا کر وہاں بیٹھ۔ زائر وہاں کے مال و متاع بسیار تجھ کو دے کر رخصت کریں گے۔ تو ہرگز قبول نہ کیجیو اور کہیو کہ مجھ کو مال درکار نہیں۔ آیا ہوں کہ درد میرا پوچھو اور دوا کرو۔ و اِلّا یہیں رہ کر عید کے روز اپنے تئیں قربانی کروں گا۔ داد مجھ عاجز غریب کی بُت بزرگ لے گا اور مادر برہمناں ایک پیر زال کہ یک صَد و ہیجدہ سال سن اُس ناپاک کے سے گذرے ہیں اور چھتیس بیٹے رکھتی ہے اور تمامی برہمن اور سکنہ فرنگ کے اُسے محبوبہ بُت بزرگ جانتے ہیں، جس وقت کہ وہ آوے یا تجھ کو بُلاوے دامن اُس کا نہ چھوڑیو اور گریہ و زاری اس قدر عمل میں لائیو کہ احوال پرسی تیری کرے، تب اُس وقت کہیو کہ میں مرد عجمی ہوں آوازہ عدل و انصاف تمھارے کا سُن کر واسطے طواف بُت بزرگ کے آیا تھا۔ شاہ بندر نے عورت میری کو لیا ہے اور عاشق اس کا ہو کر گھر میں رکھا ہے اور قاعدہ ہمارا یہ ہے کہ اگر ہاتھ مرد نا محرم کا عورت ہماری کے لگے، ہم پر لازم ہے کہ اس کو جان سے ماریں تب کھانا پینا حلال ہو اور جب تک وہ جیتا رہے، طعام ہم پر حرام ہے۔ یہ کہیو دیکھیو فضل الٰہی سے کیا ہوتا ہے۔
القصہ نازنین کو وداع کیا اور خدا کو سونپا۔ فرد ؎
رخصت ہوتا ہے مرا یار، خدا کو سونپا
کیا کروں بس نہیں لاچار، خدا کو سونپا
بیچ دیوہرہ کے آ کر مکان مذکور میں اقامت کی۔ تین روز گذرے، اس قدر زر و زیور اور لباس جمع ہوا کہ حد قیاس سے باہر تھا۔ چوتھے روز برہمن موجب قاعدہ مستمرہ کے آئے اور خلعت فاخرہ لائے اور تکلیف رخصت کی کی۔ میں نے قبول نہ کیا اور فریاد بر لایا کہ اے ساکنانِ عَتبہ بلند رتبہ! میں واسطے گدائی کے نہیں آیا بلکہ داد خواہی کو آیا ہوں اور حضور بُت بزرگ کے اپنا ماجرا لایا ہوں اور مادر برہمناں سے کچھ کہا چاہتا ہوں۔ جس وقت کہ حقیقت احوال میری کی بیچ خدمت اُس پیر زال کے گزارش کی، بندہ کو حضور طلب کیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک تخت مرصع پر بُت بزرگ با جواہر گراں بہا و لباس ہاے فاخرہ و مَروارید بیش بہا پہنے ہے اور آگے بت بزرگ کے ایک تختہ کہ زر سے آراستہ کیا ہے اُس پر مادر برہمناں بیٹھی ہے اور دو طفل دہ سالہ و دوازدہ سالہ چپ و راست اس کے حاضر ہیں اور اس کے ساتھ بیچ عیش اور بازی کے مشغول ہیں۔ میں نے رو برو آ کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور بہ موجب تعلیم اُس ملکہ عاقلہ کے عمل میں لایا اور بہ گریہ و زاری تمام دامن اس کا پکڑا۔ جب اُن نے احوال میرا سُنا کہا کہ اے عجمی! مگر تم عورت اپنی کو تنہا رکھتے ہو اور کہتے ہو کہ دوسرے کا ساجھا مطلق نہ ہو۔ میں نے کہا کہ آرے۔ یہ عیب ہم میں مقرر ہے۔ کہا کہ عیب نہیں، یہ خوب قاعدہ ہے۔ پھر پوچھا کہ حاکم بندر کون ہے؟ بیٹے اور خادموں اُس کے نے کہا کہ فلانا شخص ہے۔ اُس کا نام سُن کر بہت برہم ہوئی اور کہا بڑا مَردَک ہے۔ دونوں فرزند اپنے کو فرمایا کہ سوار ہو کر بارگاہ فرماں روا میں جاوو اور کہو کہ اے غافل و جابل! والدہ ہماری نے کہا ہے کہ حکم بُت بزرگ کا یوں ہے کہ فلانے کو جو حاکم بندر کیا ہے، مرد ظالم و مردم آزار ہے اور اس مرد عجمی پر ستم روا رکھا ہے۔ لازم ہے کہ رقم قتل حاکم بندر کا لکھ کر اس مرد عجمی کو دے اور جو کچھ کہ مال و اموال اثاث البیت خواہ کم خواہ زیادہ ہووے یہ نظر کردہ ہمارا ہے، اُس کو بخش دے اور راضی کرے۔ اِلّا آج کی رات تجھ کو سنگ سیاہ کروں گی۔ وے دونوں برہمن زادے بہ موجب فرمانے مادر اپنی کے بُت کدہ سے باہر آئے اور سوار ہوئے۔ ایک جماعت پنڈواں کنشتیاں و زُنّار داراں بیچ جلو ان کے با دُہل و کوس و سُرنا و کُرَّنا و ذکر گویاں و ناقوس نوازاں داخل شہر ہوئے اور طرف پاے گاہ بادشاہ کے متوجہ ہوئے۔ خلقت شہر کی اور از اہل فرنگ خاک سُم مرکبان ہر دو برہمن زادوں کے بہ طریقِ تبرک لے کر سرمۂ چشم بینا کا کرتے تھے اور کحل الجواہر جانتے تھے۔ خبر اُن کی آنے کی سُن کر بادشاہ عالی جاہ، کیوان بارگاہ، ملائک سپاہ واسطے استقبال کے آیا اور گلے لگایا۔ ہمراہ اپنے لے جا کر اوپر مسند کے بٹھلایا اور باعث قدم رنجہ فرمانے کا پوچھا۔ انھوں نے پیغام زبانی والدہ اپنی کا، جو کچھ کہ اُن نے کہا تھا، اظہار کیا۔ بادشاہ نے تامل کر کے کہا کہ خوب! شاہ بندر کو لاویں اور برابر اس مرد عجمی کے کھڑا کریں تاکہ حقیقت اس مقدمہ کی پوچھوں اور وجہ احسن موافق شرع اپنی کے عمل میں لاووں۔ یہ بات سُن کر میں مضطرب ہوا کہ اگر رو برو بادشاہ کے یہ ماجرا اِنفصال ہوگا تو مقرر وہ بدرِ منیر آسمان عقل و تدبیر کی حضور میں طلب ہوگی اور بادشاہ اپنی بیٹی کو پہچان کر داخل محل کرے گا۔ اُس وقت یہ تمام سیاست اپنے ہی اوپر آتی ہے، یہ طرز خوب نہیں۔ برہمن زادوں نے قرینے سے دریافت کیا کہ یہ حکم خلاف مرضی اس جوان کے ہوا ہے، از راہ کمال طیش اور غصہ کے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مُتّفق اللفظ وَ المعنی ہو کر کہا کہ دولت دنیاوی و حشم ظاہری نے تجھ کو خبط اور دیوانہ کیا ہے کہ حکمِ بُتِ بزرگ سے انحراف کرتا ہے یا یہ کہ قول ہماری والدہ کا خلاف جانتا ہے۔ اگر فرمانا بُتِ بزرگ کا اور ہماری ماں کا تو سب جھوٹ جانتا ہے تو آج رات کو معلوم ہوگا۔ ہم نے دریافت کیا ہے کہ غضب بتِ بزرگ کے سے تو نہیں ڈرتا۔ یہ کہہ کر روانہ ہوئے۔ بادشاہ فرنگ نے بہ التجاے تمام اُن کو بٹھلایا۔ اتنے میں اُمرا و نُدَما نے متفق ہو کے زبان بیچ بد گوئی شاہ بندر کے کھولی کہ اکثر خلقت ہاتھ ظلم و ستم اُس کے سے عاجز و جاں بلب ہے۔ بارے بادشاہ نے رقم قتل شاہ بندر کا اور معافی مال و اموال اور گھر بار اُس کے کا جوان عجمی کو لکھ کر حوالے کیا اور نذر و نیاز بسیار برہمن زادوں کے آگے رکھ کر نہایت اعزاز و اکرام سے رخصت کیا اور عرضی بیچ خدمت مادر برہمناں کے لکھی کہ حسب الامر کرامت اثر رقم قتل شاہ بندر و ضبطی اموالش بہ این مرد تاجر عجمی کو لکھ کر حوالے کیا۔ آگے اختیار ہے، جو کچھ مناسب جانیں عمل میں لاویں۔ آپ بہر صورت خاوند اور مختار ہیں۔ مادر برہمناں نہایت خوش دل ہوئی اور فرمایا کہ نقارہ بجاویں۔ بہ مجرد صداے نقارہ کے پان صد سوار مسلح و مکمل حاضر ہوئے۔ فرمایا کہ شاہ بندر کو پکڑ لاوو اور حوالے اس مرد عجمی کے کرو۔ چنانچہ سوار حسب الحکم فی الفور عمل میں لائے۔ میں زمین بوسی کر کے روانہ ہوا اور تیغ بے دریغ سے شاہ بندر کا سر کاٹا اور مال و اموال اور گھر بار اُس کا بیچ قبضہ و تصرف کے لایا اور خلعت شاہ بندر کا کہ عنایت ہوا تھا، پہنا۔ بعد ازاں داخل محل کے ہوا اور اس معشوقہ دلنواز سے بغل گیر ہو کر دو گانہ شکر کا بیچ درگاہ کارساز بے نیاز کے ادا کیا۔ دوسرے روز دربار کر کے سپاہ و رعیت کو بقدر حوصلہ و مقدور اپنے کے راضی کیا۔ بعد چند روز کے حسن تدبیر و کارسازی میری سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بادشاہ فرنگ کا کوئی کام بے مشورت اور بے اطلاع اس فدوی کے نہ کرتا۔ اس اوج دولت اور شان و شوکت میں بھی خدا آگاہ ہے کہ شب و روز یہی خیال رہتا تھا کہ احوال برادران عزیز کا کیا ہوگا۔ بعد مدت سہ سال ایک قافلہ از راہ دریا کے آیا۔ ملک التجار نے میری ضیافت کی۔ میں سوار ہو کے گیا۔ اس قافلے میں دونوں برادروں کو پہچانا کہ مثل خدمت گاران پریشان احوال اور تباہ ہیں۔ وقت معاودت کے ملازمان سرکار اپنے سے کہا کہ ان دونوں نوجوانوں کو ساتھ لے آؤ۔ چنانچہ حمام کروا کے اور خلعت فاخرہ پہنا کے ملازمت شاہ فرنگ کی کروائی اور ہر ایک کو جدا جدا خدمت عمدہ دلوائی۔ چند روز نہیں گذرے کہ ان بے حیاؤں نے پاس خاطر میرا باوجود مسلوک ہونے اور اس قدر جمعیت و دولت کا مدنظر نہ کر کے بیچ قتل کرنے میرے کے مصلحت کی۔ واسطے اس کے کہ ایک روز وہ نازنین مہ جبین صبح باغ میں طرف دریا کے سیر کرتی تھی کہ ناگاہ نگاہ منجھلے صاحب کی ساتھ نگاہ اس کی کے ہم نگاہ ہوئی اور بے اختیار عاشق ہو کر برادر کلاں سے یہ ماجرا کہا۔ وہ بھی متفق مصلحت مرگ میری کا ہوا۔ اتفاقاً ایک شب کو میں غافل سوتا تھا اور وہ در یکتا واسطے قضاے حاجت کے گئی تھی کہ ناگاہ ہر دو جوان مثل یاجوج و ماجوج کے اوپر چھاتی میری کے آن چڑھے اور رسی میرے گلے میں ڈال کر خفا کیا کہ اس اثنا میں کتے نے فریاد کی اور میں بے ہوش ہوا۔ ان نابکار ظالم ستمگار نے میرے تئیں دریا میں ڈالا۔ جس وقت کہ موج دریا نے میرے تئیں ساحل پر پہنچایا، اس وقت ہوش میں آ کر دیکھتا کیا ہوں کہ دھوبی کپڑے دھوتے ہیں اور مجھ کو گود میں لے کر پیچ چاولوں کی پلاتے ہیں اور شاید کہ رسی بھی میرے گلے کی انھوں نے دور کی تھی۔ آخر الامر وقت شام کے گھاٹ پر سب اپنے گھروں کو چلے اور میرے تئیں انبار کاہ میں ڈال گئے کہ کوئی جانور رات کے وقت میرے تئیں توڑ نہ ڈالے۔ میں تمام شب بے ہوش اور بدحواس تھا۔ صبح کے وقت جو ہوشیار ہوا تو ایک کھیت سبز نظر آیا۔ اس طرف کو روانہ ہوا۔ آن کے دیکھتا کیا ہوں کہ ایک جھوپڑی کسی کی آباد تھی اور چند مردم سیاہ فام بد سرانجام نے آگ جلائی تھی اور ہولے کھاتے تھے۔ مجھ کو دیکھ کر اشارہ کیا کہ نخود بریاں تو بھی کھا۔ میں نے مشت نخود اس بے خودی میں کھائے اور خدا کو یاد کیا اور پانی پی کے ایک گوشے میں سو رہا۔ حقیقت احوال میرا انھوں نے نہ پو چھا نہ میں نے ان کی زبان سمجھی، نہ انھوں نے میری حالت دریافت کی۔ دوسرا روز جو ہوا تو پھر وہی نخود بریاں میری غذا ٹھہری کہ سواے اس کشت کاری کے اور کچھ ذکر نہ تھا۔ میں نے دو پتھر لے کر اور آرد سائیدہ کرکے روٹی پکائی۔ بدستور میرے وے بھی عمل میں لائے اور نہایت محظوظ ہوئے کہ یہ ڈول ہم نے تجھ سے سیکھا۔ خیر وہاں سے یہ رفاقت سگ حضور بہ از فرزند دور کے روانہ ہو کر تین دن رات چلا کیا اور وہ دشت حدت و ہوا سے مانند دشت محشر کے تھا اور سواے ریگستان کے کچھ اور نظر نہ آتا تھا۔ وہ آرد نخود کہ تیار کر کے ہمراہ لیا تھا، قدرے قدرے موافق تبرک کے خرچ میں لاتا۔ چوتھے روز ایک حصار فلک فرسا نمودار ہوا۔ چہار طرف اس کے سیر کیا اور دیکھا کہ ایک دروازہ تھا، مقفل ساتھ تین قفل کے۔ وہاں سے مایوس ہو کر آگے کو چلا تو بالاے ایک کوہ کے پہنچا کہ خاک اس کی سیاہ مانند سرمہ تھی۔ وہاں سے جو سواد ایک شہر کا نظر آیا، خوش وقت ہو کر بہ شوق تمام رہ گزا ہوا۔ جس وقت کہ دروازۂ شہر پر پہنچا بسم اللہ کہہ کر کے داخل ہوا۔ دیکھا تو ایک مرد لباس فرنگی پہنے ہوئے اوپر ایک کرسی کے بیٹھا تھا۔ آواز بسم اللہ کی سن کر میرے تئیں بلایا اور احوال میرا پوچھا۔ میں نے عذر کیا کہ طاقت گفتار نہیں ہے۔ وہ عزیز میرے حال پر رحم کر کے نان و کباب لایا۔ میں نے چاہا کہ اس طعام سے رفع گرسنگی حاصل کروں کہ ناگاہ لقمۂ اول کھاتے ہی بے ہوش ہو اوپر زمین کے گرا۔ وقت شب کے جو میں ہوش میں آیا اس مہربان مسافران کے نے احوال پرسی میری کی۔ میں نے مشقت دریا و محنت صحرا اور نقصان مال اور تصدیعہ دادن برادران چند دفعہ ایک ایک اظہار کیے۔ پھر ان نے پوچھا کہ اب کیا ارادہ ہے۔ میں نے کہا: چاہتا ہوں کہ چند روز زیست کے اس شہر میں گذران کروں۔ اب نہ طاقت سیر صحرا کی ہے اور نہ قوت سفر دریا اور نہ زاد راحلہ، مگر یہی دل پر خون و پاے پر آبلہ رکھتا ہوں ؏
از ضعف بہ ہر جا کہ نشستیم وطن شد
ان نے کہا کہ اے عزیز! تو عجمی ہے اور حق دین اسلام کا مجھ پر رکھتا ہے۔ بیچ اس شہر کے تو مت جا۔ یہ بِیل و غِربال اور توبڑا لے کر اس ٹیلے پر جا اور زور کر کے کھودنا شروع کر۔ جو کچھ کہ کھودے گا غربال سے چھان کر توبڑے میں ڈال کر میرے پاس لے آ۔ بعد اس کےجو کچھ کہوں مطابق اس کے عمل میں لانا۔ میں بہ مجرد فرمانے اس مرد کے اس مکان پر گیا اور موافق ارشاد کے عمل میں لایا۔ جواہر و زواہر بسیار اس خاک میں ظاہر ہوئے کہ آنکھ دیکھنے سے خیرہ کرتی تھی۔ توبڑے میں پر کیے اور دانہ کلاں واسطے اپنے چھپائے اور توبڑا اوپر دوش کے اٹھا کر حضور اس کے حاضر کیا۔ ان نے کہا: یہ دولت عظمی نصیب تیرے کی ہے۔ تو لے اور ایک نان اور میوہ مجھ کو دیا اور کہا کہ اس شہر میں کسی نے تجھ کو دیکھا نہیں ہے۔ جا اور جان اپنی سلامت لے جا۔ میں راضی نہ ہوا اور کہا کہ البتہ اس شہر میں داخل ہوں گا۔ اس عزیز نے لاچار ایک انگشتری اپنے ہاتھ کی نشانی دی اور کہا کہ درمیان چوک کے ایک شخص میری صورت ہے، تو اس کے پاس جا اور جو کچھ کہ وہ کہے عمل میں لا۔ میں نے دعا کہی اور داخل شہر کا ہوا ۔شہرے دیدم بہ کمال آراستگی و آبادی معمور و بازار دلکشا۔ زن و مرد بہ انبساط اختلاط باہم چکنا چور، ہر ایک مست شراب و مخمور، مرداں با مرداں و زناں بہ زناں در بیع و شرا مشغول ومسرور۔ میں طرف چوک کے روانہ ہوا۔ خدمت اس بزرگ کے پہنچ کر سلام کیا۔ اُس عزیز نے احوال پرسی کی اور کہا کہ برادر گردن شکستہ نے تیرے تیں دیکھا اور داخل ہونے شہر سے منع نہ کیا؟ میں نے کہا کہ رات میں بیچ خدمت اس بزرگ کے رہا اور وہ مبالغہ تمام سے مانع ہوا تھا، میں نے قبول نہ کیا۔ تقصیر اس کی نہیں ہے۔ تب اس نے از راہ تاسف کے کہا کہ افسوس اے ظالم! یہ سب تکالیف کہ تجھ پر گذریں سہل تھیں لیکن یہاں نہ آنا تھا۔ تب میں نے پوچھا کہ مجھ کو حقیقت اس شہر کی سے مطلع کرو کہ تم اور بھائی تمھارا دونوں مانع ہوئے، باعث اس کا کیا ہے؟ تب ان نے کمیت زبان اپنی کے تئیں بیچ عرصہ بیان کے جولاں گر تقریر کا کیا کہ سکنہ اس شہر کے کافر ہیں۔ جو کوئی مصیبت زدہ وارد اس شہر کا ہوتا ہے، اپنے گھر میں جگہ اقامت کی نہیں دیتے تاکہ فرماں رواے اس شہر کو اطلاع نہ ہو اور جب فرماں روا کو خبر ہوتی ہے تو وہ ایک بت رکھتا ہے کہ شیطان بیچ اس کے رہتا ہے اور تکلم کرتا ہے اور نام و نشان و حسب و نسب اس شخص کا بتاتا ہے اور بادشاہ سجدہ اس بت کا کرواتا ہے۔ جو کوئی چاہے کہ بے رخصت اپنے وطن کو بھاگ کر جائے، یہ خیلے مشکل ہے۔ کس واسطے کہ جیوں جیوں وہ چلتا ہے توں توں آلت اس شخص کی بڑھتی ہے تا بہ حدیکہ راہ چلنے سے عاجز رہتا ہے اور یہ بھی ہے کہ جو کوئی سجدہ بت کا کرتا ہے اور کتخدا ہونا چاہتا ہے، اس کو دختر اپنی دیتے ہیں۔ میں یہ حقیقت سن کر بیزار ہوا اور اپنے بھائیوں کے حق میں دعاے بد کی۔ اس مرد بزرگ سے کہا کہ اب دامن دولت تمھارا پکڑا ہے، میرے حق میں جو بہتر ہو سو کرو۔ ان نے کہا کہ خاطر جمع رکھ۔ ایک عورت تیرے واسطے تجویز کی ہے۔ میں نے کہا وہ کون ہے۔ کہا کہ دختر وزیر، پانزدہ سالہ، سرو قد، شکر لب، شیریں گفتار، نہایت خوبصورت اور صاحب جمال ہے۔ قاعدہ یہاں کا یوں ہے کہ جو کوئی مرد اجنبی وارد ہوتا ہے اور بت بزرگ کو سجدہ کرتا ہے جو کچھ مرتبہ اور جس چیز کی آرزو رکھتا ہے، اس کو سرانجام کر دیتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالی روز آئندہ وقت صبح کے فرماں روا واسطے زیارت بت کدہ کے جائے گا۔ میں تیرے تئیں ہمراہ اپنے لے جا کر شرف ملازمت بادشاہ اور زیارت بت بزرگ و آداب و کورنش و قدم بوس بادشاہ دوست بوس برہمن کہ کلید فتح الباب مقاصد کا ہے مؤدی کرکے بیچ دامن بادشاہ کے چنگل آرزوے درخواست دختر وزیر کا ماریو۔ میں احوال تیرا مفصل عرض کر کے اس مقدمہ کو کرسی نشین کروں گا۔
القصہ وقت صبح کہ بادشاہ اور خلق اللہ از ہفت سالہ تا ہفتاد سالہ پسران خوش لقا و دختران خورشید سیما و تمامی ارکان سلطنت و رئیسان صاحب حیثیت رونق افزا و ہنگامہ افروز بت خانے کے ہوئے۔ مجھ کو وہ مرد لباس فاخرہ سے قامت آراستہ کر کے اوپر ایک مرکب کے سوار کر کے ہمراہ اپنے لے گیا۔ میں نے اس جلسے میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک بت تراشیدہ مزین بہ جواہر و زر با تاج و گہر اوپر تخت مرصع کے بہ لباس ملوکانہ زیب آراے مسند حشمت و جلال کے ہے اور ایک چھوٹے تخت پر مادر برہمناں کہ مرغوب اس بت کی ہے، بڑی ہی شان اور زیب تمام سے بیٹھی ہے اور دو طفل دوازدہ سالہ دست راست و چپ مغرق مع زر و جواہر کے دو زانو اس سے لگے ہوئے بیٹھے ہیں اور بادشاہ و امرا و ساکنان فرنگ با دانش و فرہنگ دست بستہ مؤدب دو زانو حضور اس بے شعور سنگ معذور کے تئیں معبود کرامت آمود اپنا جان کر بہ جان و دل متوجہ ہیں۔ میں نے زمیں بوسی و سجدہ بت بزرگ کو کر کے اور قدم بوسی بادشاہ و مادر برہمناں کی بجا لا کے دامن بادشاہ کا پکڑا اور درخواست دختر وزیر با تدبیر کی کی۔ بادشاہ نے اس مرد سے پرسش احوال میرے کی کی۔ اس نے عرض کیا کہ یہ عزیز خویش و اقارب میرا ہے اور بہ امید زیارت بت بزرگ کے آیا ہے اور دختر وزیر کو دیکھ کر تیر نگاہ اس کے سے گھائل اور جان و دل سے مائل اور تم سے سائل ہوا ہے۔ امیدوار ہے کہ امر سراسر اثر صاحب تخت و چتر کے سے وزیر روشن ضمیر سراپا عقل و تدبیر کے تئیں پہنچے کہ اس کے۔تئیں بیچ غلامی کے سرفراز و ممتاز اور اس آرزو سے بے نیاز کرے، بعید از غریب پروری و مسافر نوازی سے نہ ہوگا۔ فرمان فرما نے فرمایا کہ اس مرد کو ساتھ دختر وزیر کے جفت کریں کہ حکم نادر بت بزرگ کا یوں ہے۔ برہمن نے رشتہ زنار گلے میں ڈال کر ساتھ اس گل عذار کے، کہ دل اس کی آرزو میں تار تار اور چشم اس کی امید وصال میں اشکبار تھی، عقد ازدواج کا منعقد کیا اور سجدہ پایہ تخت اس سنگ سخت و بد بخت کا کروایا۔ اس اثنا میں ایک آواز جوف بت میں سے بر۔آئی کہ اے خواجہ زادہ! خوش آمدی و صفا آوردی، اب الطاف بلا اکناف ہمارے کا امیدوار رہ۔ ایک مرتبہ سننے اس کلام کے خلایق زمیں بوس ہوئی۔ بارے بادشاہ نے خلعت فاخرہ مرحمت کیا اور حکم نوازش نقار خانے کا ہوا۔ آوازہ بیچ جہان کے منتشر ہوا کہ ایک عجمی کو بت بزرگ نے از راہ کرم و فضل کے اپنا خاص بندہ کیا اور دختر وزیر کی مرحمت ہوئی۔ مدت یک سال ہم بریں منوال با عیش و نشاط کمال خورم و خوش حال گذرے اور وہ معشوقہ حاملہ ہوئی۔ اس عرصہ میں اسقاط حمل سے بیمار ہو کر چند روز میں ودیعت حیات کی سپرد کی اور مجھ کو سخت پریشانی و خانہ خرابی نے لے لیا۔ از راہ پیچ و تاب کے زار و نزار نہایت بے قرار اور سرشار تھا کہ زنان قبایل و عشایر واسطے ماتم پُرسی کے آئیں۔ ہر ایک کیا جوان، کیا لڑکی آتی تھی اور جو اندام اپنی کے تئیں میرے ماتھے پر ٹکر مارتی تھی اور بیٹھتی تھی۔ قریب تھا کہ دھکے سے مارا جاؤں کہ ناگاہ ایک شخص نے پس پشت سے آ کر گریبان میرا پکڑا۔ پہچانا تو وہی شخص تھا کہ جن نے کتخدا کیا تھا۔ مجھ سے پوچھا کہ گریہ و زاری اور اس قدر بے قراری کیوں کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ اب ایسا معشوق ماہ پارہ اس خانماں آوارہ سے جدا ہوتا ہے، کیوں نہ روؤں۔ کہا: اے مرد مرگ اپنی پر رو، اس کے لیے کیا روتا ہے۔ میں نے منع کیا تھا تیری خاطر میں نہ آیا ؏
خود کردہ را علاج و درمانے نیست
پس میرے تئیں بیچ مہمان خانے کے لے گئے اور تمامی املاک اور نقد و جنس خانہ داری کا جمع کر کے بیچنا شروع کیا اور زر نقد بہم پہنچا کر جواہر خریدا اور صندوقچہ میں کر کے رکھا اور میوہ و نان و کباب چالیس روز کا آزوقہ اور تابوت اس اہل خانہ بادل یگانہ کا اُٹھایا اور بادشاہ مع اُمرایان و برہمنان بید خواناں سب ہمراہ ہوئے اور بیچ اُس حصار مقفل سہ قفل کے کہ میں نے آتی دفعہ دیکھا تھا، لے گئے۔ بہت سے آدمیوں نے جمع ہو کر دروازہ کھولا اور میرے تئیں مع صندوق جواہر اور تابوت اور خوراک چہل روزہ کے وہاں چھوڑا اور وزیر اور بادشاہ اور برہمنوں نے عذر خواہی کی کہ اس دار الفنا میں ایک روز آتے اور ایک روز جاتے ہیں، صبر کر کہ بت بزرگ فریاد کو تیری پہنچے اور خوش رہ۔ میں نے چاہا کہ کچھ کہوں کہ اس عرصہ میں اس پیر خیر خواہ نے بہ زبان عجم مجھ سے کہا کہ اگر کچھ عذر لایا تو آتش جہنم میں جلا دیں گے، خاموش ہو جا۔ جو کچھ دیکھتا ہے، تقدیر الٰہیہ سے ہے، کسی کی تقصیر نہیں۔
القصہ میرے تئیں اُس حصار ناہموار میں محبوس اور زِیست سے مایوس کر کے اپنے ڈیروں کو گئے۔ میں تنہا گرفتار مصیبت و بلا نظر اوپر خدا کر کے بیٹھا۔ وقت دوپہر کے تابش آفتاب کی سے اور تعفن اِستخواں ہاے بوسیدہ سے نزدیک تھا کہ جان قالب سے خالی کروں کہ بیچ آرزوے سایہ کے کئی ایک صندوق جمع کر کے سایہ بنایا۔ دن کو اس کے نیچے گذران کرتا اور رات کو اوپر جا کر سو رہتا۔ جس وقت کہ مدت چہل روز آخر ہوئی اور وجہ خوراک کی ہو چکی، نہایت بے قراری سے حیران و پریشان ہوا اور بیچ حق برادران حق ناپسند کے بد دعا کی کہ کس غضب میں ڈالا اور ایک لات اوپر نعش اُس دختر وزیر کے ماری کہ کمبخت اگر تو حاملہ نہ ہوتی اور اس طرح نہ مرتی تو مجھ کو کیوں لے مرتے اور منابات جناب الٰہی میں کرتا تھا اور کہتا تھا، بیت:
بہ قیدِ زندگی ہر کس اسیر است
ز فکر آب و نانش ناگزیر است
کہ ایک پیر زال کو ساتھ ایک نعش مرد کے لائے اور بدستور مذکور چھوڑ گئے۔ میں نے جو دیکھا کہ آخر زنِ ضعیف ہے، ایک پایہ صندوق کا اس کے سر پر ایسا ہی مارا کہ ایک ضربت میں فیصل ہوئی اور خوراک چہل روزہ پر متصرف ہوا۔ بعد چند روز کے ایک اور مردہ آیا کہ غُل کمال اور شورش رجال سنی۔ میں نے کہا کہ کوئی بڑا آدمی مُوا ہے کہ جس کا یہ غل ہے۔ بارے اُسی طرح دروازہ کھلا اور ایک دُختر چہاردہ سالہ باروے چوں آفتاب و گیسوے مشک ناب لباس کتخدائی در بر و تاج عروسی بر سر مع تابوت اور ایک صندوق جواہر اور خوراک موافق قاعدہ معہود کے چھوڑ گئے اور دروازہ حصار کا بند ہوا۔ بہ موجب تقدیر کے بیچ عشق اس نازنین کے پاے بند ہو کر دام اُلفت میں پھنسا اور پوچھا کہ تو کون ہے۔ کہا کہ میں دُختر وکیل مطلق بادشاہ کی ہوں۔ شب زفاف میں شوہر میرے کو درد قولنج نے لیا کہ جان بحق تسلیم ہوا، تو اپنی حقیقت کہہ۔ میں نے سرگذشت اپنی بیان کی اور اُس ماہرو سمن بو کے ساتھ ہم بستر ہوا اور خوش رہنے لگا۔ الغرض ہر ماہ میں ایک مُردہ آتا اور میں آزوقہ پر متصرف ہوتا تھا۔ تا آنکہ وہ سرو جوے بار خوبی کی حاملہ ہوئی اور ایک طفل تولد ہوا۔ کئی ماہ اور گذر گئے۔ طرح محبت و مؤدت کی ایسی پڑی کہ باہم بہ لہو لعب خوش رہتے تھے۔ ایک روز میں نے ہم خوابہ سے کہا کہ کوئی طرح گذاری کی اس قید فرنگ سے کیا چاہیے، واِلا یہ زندگی بہ منزلہ مرگ ہے۔ وہ بھی روئی اور کہا کہ تو مرد ہے کچھ بن سکے تو فکر کر۔ میں نے جو گرد نواح حصار سیر کی تو ایک بدر رو سیخچہ ہاے آہنی سے جڑی ہوئی دیکھی اور معلوم کیا کہ اگر سیخچے ٹوٹیں تو بہزار تنگی گذر ہو۔ پس ہر روز میخ ہاے صندوق کو پتھر پر گھس کے بیچ توڑنے سیخچوں کے مشغول رہا کہ مدت سہ سال میں یہ کام درست ہوا۔ اور اُس دل پسند کے تئیں ایک فرزند اور تولد ہوا۔ بارے بہ ہزار تلاش راہ برآمد ہونے کی درست کر کے اور جواہر گراں بہا و بیش قیمت کہ سرمایہ زندگی اور تجارت کا جانتا تھا ہمراہ لے کر حصار سے باہر ہوا۔ ایک لڑکا عورت کی گود میں ایک میرے کاندھے پر اور کتا ہمراہ اُس وضع سے روانہ ہوا۔ اُس صحرا اور اُس دشت میں کہیں علف اور برگ اشجار اور کہیں بیخ گیاہ سے قوت اپنی کر کے منزل بہ منزل متوجہ آبادی کے ہوئے۔ تا آں کہ بیچ ایک شہر کے پہنچ کر ایک حویلی بر سر دریا کے کرایہ لی اور حمام جا کے حجامت بنوائی اور پوشاک تیار کر کے آمد و رفت مردم شہر سے شروع کی اور چند جواہر خورد ریزہ بیچ کر دوکان تجارت کی آراستہ کی اور چند غلام اور کنیزک براے خدمت مول لے کر رکھے اور شکر الٰہی ادا کیا۔ یہ فقیر اوپر بام خانہ کے اکثر اوقات واسطے سیر دریا کے بیٹھتا اور دور دور نظر کرتا۔ ایک روز دو نفر عجمی دیکھے، بعد ازاں جو دور بین ہاتھ میں لے کر خوب طرح سے غور کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں برادر ہیں۔ چند نفر قراول بھیج کر ان کو بُلوایا۔ بعد ملاقات کے کہا کہ اے بے رحمان، ستمگار و اے ظالمان سراسر آزار! یہ شعار شقاوت آثار تمھارا نہیں جاتا ہے، وہ نکوئی ہماری اور تمھاری یہ بدخوئی۔ لعنة اللہِ علی قومِ الظالِمِین۔ تب تو یے دونوں صاحب میرے پاؤں پر گر پڑے اور زار زار روئے اور ندامت اور پشیمانی کھینچی۔ میرا خون اخوت کا جوش پر آیا۔ تقصیر معاف کی اور نصائح و فضائح کر کے بہ لباس فاخرہ آراستہ کیا اور شب خوابی کے واسطے ایک مکان بنایا۔ چنانچہ شب و روز بیچ پرداخت احوال اُن کے مستعد اور سرگرم رہتا۔ تا ایں کہ ایک روز یہ خاکسار بہ موجب طلب ضیافت کھانے ایک آشنا کے ڈیرے گیا۔ یہ دونوں بھائی بدتر از قصائی از راہ آشنائی گھر میں داخل ہوئے۔ مادر طِفلاں نے کہ قبیلہ جمیلہ اس بے وسیلہ کے تھی، اپنے تیں ایک حجرہ میں ڈالا اور دونوں لڑکے باہر رہے۔ دونوں نابکار مفسد شعار نے ہاتھ دونوں بچہ ہاے صغیر کا پکڑ کے کہا کہ تو حجرہ سے باہر آ اور جو کچھ ہم کہیں قبول کر واِلا دونوں لڑکوں کو تیرے جی سے مار ڈالیں گے۔ وہ عفیفہ پاک دامن راضی نہ ہوئی۔ ان بدبختوں نے ہر دو طفل بے گناہ کا سر تن سے جدا کیا اور وہ بی بی نیک بخت سر اپنا پتھر سے مار کے مر گئی۔ اس عرصہ میں میں پہنچا اور یہ حقیقت دریافت کر کے غلاموں سے فرمایا کہ بگیرید ایں ہر دو قُرم ساقاں را۔ غلام میرے اُن کے تئیں لپٹ گئے اور مشکیں باندھ کے لائے۔ تس پر بھی میں نے قصاص سے درگذر کی اور بیچ پنجرہ فولادی کے حبس فرمایا اور یہ چودہ جواہر کہ بیچ گلے سگ وفادار بہتر از برادران ناہجار کے ہیں، اُسی حصار سے لایا تھا۔ حضرت سلامت! یہ دونوں موجود ہیں اور کوئی بات خلاف معمول عمل میں لایا ہوں یا جھوٹ ظاہر کیا ہو، جو چاہے سو کیجیے۔
میں نے اوپر جواں مردی اور مردانگی اُس پاک دیں و پاکیزہ یقیں کے آفریں اور تحسیں کی اور دختر وزیر سے پوچھا کہ کون شخص ہے۔ اُن عاقلہ و بالغہ نے آداب بجا لا کے عرض کیا کہ یہ کنیز ناچیز دختر وزیر کی ہے کہ واسطے مخلصی والد بزرگوار کے لباس مردانہ اوپر اپنے آراستہ کر کے اس سوداگر کو لائی اور حضور میں حاضر کیا۔ بیشتر جو کچھ مرضی مبارک ہو، انسب و اولیٰ ہے۔ یہ بات سن کر سوداگر بے ہوش ہوا اور ایک نعرہ جانکاہ مارا کہ حاضران مجلس خاموش ہوئے۔ بعد ایک ساعت کے ہوش میں آیا اور کہا: افسوس صد ہزار افسوس، اس قدر محنت اور مشقت ضایع اور برباد گئی۔ تب میں نے کہا کہ اے سوداگر! کیا محنت برباد گئی کہ اس قدر ملول اور مغموم ہوا۔ کہا کہ حضرت سلامت! میرے اولاد نہ تھی اور فرزندی میں اسے لیا تھا، سو کہاں میسر ہوا۔ میں نے اُس کے کان میں مژدۂ وصال دختر وزیر کا کہا۔ بارے خوش ہوا۔ بعد اُس کے اُس لڑکی کو اندرون خاص محل کے بھیج کر تیاری شادی کی کی اور نہایت دھوم دھام و جلوس تمام سے بہ عقد ازدواج سوداگر کے دی۔ وزیر کو اسپ با زین زر اور خلعت زیب آور بھیج کر قید سے چھوڑا اور بہ دستور سابق اوپر کام وزارت کے مامور کیا۔ اُس تاجر سے اور دختر وزیر سے دو پسر تولد ہوئے کہ بیچ کار خدمت سرکار والا کے رکھے، چنانچہ ایک ملک التجار اور دوسرا قورخانہ کا داروغہ ہے۔
جس وقت کہ بادشاہ یہ سرگذشت زبان ہدایت ترجمان اپنی سے بیان کر چکا، فرمایا کہ اے درویشو! مطلب سراسر اظہار اس داستان کے سے یہ تھا کہ تم کو ایک جرات پیدا ہو اور بیچ کہنے حقیقت اپنی درویش چہارم حِجاب نہ کرے۔ اب لازم یہ ہے کہ مجھ کو بھی ایک رفقاے ہمدرد اپنے سے جان کر کسی طرح کا پردہ اور حجاب درمیان میں نہ لاؤ گے۔ میں بھی ایک محتاج تمھاری ملاقات کا ہوں۔
بیان سرگذشت درویش چہارم روبرو بادشاہ فرخ سیر کہ اُمیدوار فرزند کا تھا
درویش چہارم نے زار زار مانند ابر بہار رو کے حقیقت حال خیریت اِشتمال اپنی کے تئیں قلم زبان سے اوپر صفحہ بیان کے یوں نگارش کیا ؎
دن سے محشر کے نہیں عالم میں کم یہ ماجرا یار سے غم کے نہ تنہا پست ہے روے زمیں کام اس کے سے جہاں میں ہے جو کوئی کامیاب گل گریباں چاک اور نالاں ہے جوے آبشار |
کہہ نہیں سکتا جو کر گذرا ستم یہ ماجرا پُشت نہہ افلاک کو کر دے ہے خم یہ ماجرا زندگی کے شہد کو کر دے ہے سم یہ ماجرا دے ہے باغ دہر کو اتنا الم یہ ماجرا |
کہ جہاں پناہ سلامت! یہ بندہ خاکسار کہ بیچ حالت درویشی کے دیکھتے ہو، بادشاہ زادہ ملک چین کا ہے اور وہ شہریار عالی تبار سواے میرے کوئی اور فرزند بیچ مشکوے خلافت کے نہ رکھتا تھا۔ یہ فقیر پنج سالہ ہوا تھا کہ والد بزرگوار نے اس جہان فانی سے رحلت فرمائی اور وقت نزع کے برادر خورد اپنے کے تیں وصیت کی کہ فرزند عزیز موجب خود سالی کے لایق سلطنت کے نہیں ہے تا آنکہ وہ چشم چراغ کاشانۂ شہر یاری کا حد بلوغ کو پہنچے، ولی عہد اپنا تجھ کو مقرر کرتا ہوں کہ بیچ رتق و فتق مُہمات مالی و ملکی کے کوئی دقیقہ از دقایق نا مرعی نہ رہے اور دختر روشن اختر اپنی کو بیچ عقد ازدواج اس کی منعقد کیجو۔ اگر اوپر اس وصیت کے عمل کرے گا تو سلطنت خاندان ہمارے سے نہ جائے گی۔ یہ کہہ کر جان بحق تسلیم ہوا اور عمو میرا بجاے پدر کے سلطنت پناہ ہوا۔ مجھ کو فرمایا کہ بیچ حرم محترم کے پرورش ہووے اور باہر نہ نکلے۔ چنانچہ تا بہ سن چہاردہ سالگی ساتھ لڑکیوں بیگمات کے بیچ بازی اور لعبت پردازی کے مشغول تھا اور نامزد ہونا دختر عمو کا گوش زد میرے ہوا تھا، بخوشی و امیدواری بسر لے جاتا اور یہ شعر اکثر اوپر زبان کے لاتا ؎
نہ پہنچایا کبھی اس سر کے تیں اُس پاؤں تک ہرگز
گلہ مند اس قدر کیوں کر نہ ہوں ہم ان نصیبوں کے
اور مبارک نام ددا میرا صاحب فراست و سراپا کیاست کہ خدمت حضرت خُلد آرام گاہ کے میں زیادہ از حد معتمد بارگاہِ ظِل اللہ کا تھا، گاہ گاہے مردُم محل کو غافل دیکھ کر کے اُس کے پاس میں جاتا۔ وہ عزیز مہربانی بسیار و تلطُف بے شمار بیچ حق میرے کے مبذول کر کے بہ چشم حسرت میری طرف دیکھتا اور عُنفوان شباب پر نظر کر کے یہ شعر پڑھتا۔ شعر ؎
پھر گئی ایسی تری چاہ زنخداں کی ہوا داغ دل کو خانۂ سینہ تر و تازہ رکھے |
یوسف آ کر مصر میں بھولا ہے کنعاں کی ہوا گل کے تیں شاداب رکھتی ہے گلستاں کی ہوا |
اتفاقاً ایک روز ایک کنیز بے تمیز، سراسر ناچیز نے ایک سیلی میری گردن پر ماری۔ میں روتا ہوا مبارک پاس آیا۔ اُن نے از راہ شفقت کے مجھ کو بغل میں لیا اور کہا کہ چل تیرے تئیں بیچ خدمت عموے خوش خو کے لے جاؤں کہ قابل فرماں روائی اور لایق کشور کُشائی کے ہوا ہے تاکہ حق تیرا تجھ کو دے۔ چنانچہ ہمراہ مبارک ددا کے بیچ بارگاہ عمو جان کے گیا۔ اُن نے میرے تئیں دیکھ کے گلے لگایا اور باعث آنے کا پوچھا اور ددا میرے سے فرمایا کہ اے مبارک! فرزند دلبند جگر پیوند نے آج کیوں کر تصدیع کی۔ ددا نے عرض کیا کہ کچھ عرض رکھتا ہے۔ فرمایا کہ نامزد اپنے کو چاہتا ہوگا۔ اے مبارک بسیار مبارک۔ فرد ؎
بر تو ایں مجلس شاہانہ مبارک باشد
ساقی و مطرب و پیمانہ مبارک باشد
حکم والا صادر ہوا کہ منجموں کو طلب کرو۔ چنانچہ فی الفور بہ موجب ارشاد کے اہل تنجیم اُس شیطان الرجیم پاس آ کر حاضر ہوئے۔ بادشاہ نے رمز و ایما سے پوچھا کہ بیچ اس آرزو کے ساعت نیک کب آوے گی کہ کار خیر سے فراغت حاصل ہو۔ نجومیوں نے دریافت مزاج کا کر کے بعد از تامل بسیار و تفکر بے شمار عرض کیا کہ حضرت جہاں پناہ سلامت! تین برس تک قمر در عقرب ہے اور عطارد بیچ بُرج زُحل کے نازل ہے، بہ خیریت ارادہ کار خیر کو موقوف رکھا چاہیے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ بعد از چہار برس کے روز عید ہوگا اور ساعت سعید خوب و خاطر خواہ آوے گی۔ بادشاہ نے طرف مبارک کے مخاطب ہو کے فرمایا کہ معلوم کیا۔ اب تو نور چشم و راحت جان کو بیچ محل کے لے جا تاکہ ساعت خوب آوے۔ بعد ازاں امانت اس کی سلامت و بے خیانت از راہ نیک دیانت کے دی جائے گی۔ پس مبارک اُٹھا اور میں رخصت ہو کے بیچ محل کے آیا۔ بعد تین روز کے عیش محل سے کہ فی الحقیقت زندان خانہ تمام عمر کا تھا، برآمد ہوا اور پاس مبارک کے آیا۔ مجھ کو دیکھ کر بے اختیار رویا۔ دریافت حال اُس کے سے میں نے مغموم اور مُتوحش ہو کر پوچھا کہ اے مبارک خیر ہے؟ اشعار ؎
محروم رہتا ہوں میں نظر بازیوں سیتی شیریں کا کچھ قصور نہ تھا کوہ کن کے ساتھ |
زیادہ ملوں میں یار سے گر دل کو تاب ہو قسمت میں یوں لکھا تھا کہ خانہ خراب ہو |
تب اُس مشفق شفیق بجان و دل رفیق نے کہا کہ کاش اُس روز میں تجھ کو حضور اُس ظالم بے رحم سِتمگار کج فہم کے نہ لے جاتا تو بہتر ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اس حرکت سے کیا واقع ہوا۔ کہا کہ جس وقت تو مجلس میں گیا اور اُمرا باپ تیرے کے نے تجھ کو دیکھا، سب از کہ تا مہ شکر بدرگاہ الٰہی بجا لائے اور کہا کہ صاحبزادہ ہمارا جوان ہوا اور قابل سلطنت کے ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ چند روز میں حق بہ مرکز قرار پاوے گا اور ہم لوگ ملازمان موروثی اپنے حق کو پہنچیں گے۔ یہ خبر بادشاہ کو پہنچی اور میرے تئیں خلوت میں بلا کر کہا کہ اس شریک سلطنت کو دفع کر۔ میں بیچ اپنے دل کے حیران ہوا کہ مبادا تجھ کو جی سے مارے ؎
کیونکہ ہو اس فکر میں مجھ کو قرار اب دیکھیے سلطنت میں کچھ ملامت بھی نظر آنے لگی |
لے چلا دل ہاے وہ غفلت شعار اب دیکھیے کس طرح اس غم سے ہو صحبت برار اب دیکھیے |
بہ مجرد سننے اس خبر وحشت اثر کے چشم اشک بار و دل بے قرار اور جان پر اضطرار ہوئی۔ بارے اس غلام مُرشد پرست و وفا سرشت نے کہا کہ خاطر جمع رکھ، ایک تدبیر میرے ضمیر عافیت پذیر میں آئی ہے کہ باعث نجات ذات بابرکات تیری کے ہوگی اور تو ان شاء اللہ تعالیٰ اِس آفت ناگہانی سے بیچ دار الامن شادمانی کے پہنچے گا۔ فی الفور اٹھ کھڑا ہوا اور مجھ کو اوپر مکان مسکنت والد بزرگوار میرے کے لے گیا اور تسلی افزاے دل وحشت منزل میرے کا ہوا۔ جس جگہ کہ کرسی حضرت ولی نعمت کی بچھی تھی اشارت نیک بشارت اُس کی سے متفق ہو کر کرسی کو اٹھایا۔ فرش کو دور کر کے قدرے زمین کھودی۔ ایک دروازہ نظر آیا کہ مُقفل ہے۔ کلید جیب اپنی سے نکال کر دروازہ کھولا اور نردبان سے آپ نیچے اترا اور مجھ کو بلایا۔ میں نے دریافت کیا کہ ان نے فکر میرا کیا اور یہیں ٹھکانے لگا دے گا۔ لا علاج کلمہ اوپر زبان کے جاری کر کے قدم نردبان پر رکھا اور کہا، فرد ؎
نہ کوئی دوست ہے اس جا نہ کوئی ہے ہمدم
کہ آسرا نہیں مجھ کو بغیر رب کریم
بھیتر اس مکان کے چار صُفے نظر پڑے کہ بیچ ہر ایک صُفہ کے دہ عدد خم بہ زنجیر طلا آویختہ کیے ہیں اور اوپر ہر ایک خم کے خشت طلائی اور تصویر میمون از زبرجد بٹھلائی ہیں اور ہر ایک خم پُر از اشرفی دھرا ہے اور درمیان ایک صُفہ کے ایک حوض ہے کہ جواہر الوان سے لبریز ہے۔ میں نے کہا کہ اے ددا! ان کے دیکھنے سے کیا ہوگا اور یہ کیا اسرار ہے؟ کہا حقیقت ان بندروں کی یہ ہے کہ باپ تیرا در ابتداے جوانی ساتھ ملک صادق کے کہ بادشاہ جنوں کا ہے، رابطۂ اتحاد و سررشتۂ وداد نہایت مستحکم رکھتا تھا اور قاعدہ یہ تھا کہ ہر سال تحفہ چند در چند از عطر و عنبر و بخور ہاے خوش بو واسطے اُس کے لے جاتا تھا اور کئی روز بیچ خدمت فیض درجت اس کے رہتا تھا۔ ملک صادق وقت مراجعت کے ایک میمون زبرجد اُس کو دیتا تھا اور بادشاہ لا کر بیچ اِس مکان کے رکھتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ حضرت جہاں پناہ! ہر مرتبہ تحفے چند در چند لے جاتے ہیں اور ایک میمون بے جان عوض اُس کے لاتے ہیں، کیا فائدہ؟ در جواب میرے تبسم کر کے فرمایا کہ کسی سے اظہار نہ کرنا خبر شرط ہے۔ یہ میمون کہ تو دیکھتا ہے، ہزار ہزار جن تابع و فرماں بردار ایک ایک کے ہیں و لیکن ملک صادق نے فرمایا ہے کہ جب تک چہلم میمون تمام نہ ہووے کوئی کام امداد ان کی سے نہ ہوگا۔ ہنوز یک سال میعاد میں باقی تھا کہ بادشاہ نے انتقال بہ ملک جاودانی فرمایا اور یہ راز سر بسر گرہ بند رہا۔ اب میری خاطر میں آتا ہے کہ تجھ کو لے کر ملک صادق کے پاس جاووں اور ایک میمون باقی ماندہ لا کر کچھ تماشا دیکھوں اور دکھلاووں کہ شاید اس وسیلہ سے ملک موروثی اپنا پاوے اور ہاتھ اس ظالم کے سے مارا نہ جاوے اور بادشاہ چین و ماچین کا کہلاوے اور ہاتھ اُس نا انصاف کے سے جانبر ہو کے بقیہ زندگانی بخوبی بسر لے جاوے۔ تب میں نے کہا کہ اس مقدمہ میں تو مختار ہے۔ بہتر ہو سو عمل میں لا۔ پس میرے تئیں وہاں سے لا کے بیچ محل کے پہنچایا اور آپ بیچ خرید عطر و عنبر کے مشغول ہوا۔ بعد فراغت کے بیچ خدمت عمو کے جا کر عرض کیا کہ اس کے تئیں بیچ صحراے ہولناک کے لے جا کر ٹھکانے لگا دوں تاکہ کوئی شخص واقف اِس اسرار کا نہ ہووے۔ عمو نے یہ بات سن کر بہت پسند کی اور پروانگی میرے لے جانے کی دی۔ آخر الامر مبارک میرے تئیں وقت نیم شب کے با تحفہ ہاے مسطور شہر سے لے نکلا۔ تا مدتِ یک ماہ طرف مشرق کے چلا جاتا تھا، ایک شب کو کہنے لگا کہ الحمد للہ و المنۃ لشکر جنیان نمودار ہوا اور میں منزل مقصود کو پہنچا۔ میں نے کہا کہ مجھ کو سواے تیرے اور کچھ نہیں نظر آتا۔ مبارک نے فی الفور سرمۂ سلیمانی بغل سے نکال کر میری آنکھوں میں کھینچا۔ بہ مجرد اثر سلیمانی سرمہ کے ایک خلقت انبوہ نظر آئی کہ ہر ایک خوشرو اور خوبصورت تھے، ساتھ مبارک کے در ہزل و مطائبہ مشغول ہوئے۔ رفتہ رفتہ تا بہ بارگاہ پہنچے اور داخل خیمہ کے ہوئے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صندلی ہاے طرح طرح ہر مکان پر بچھی ہیں اور فُضلا و علما و ارکان دولت و اعیان مملکت جا بجا بیٹھے ہیں اور اوپر ایک کرسی مرصع کے بیچ صدر مجلس کے ملک صادق با تاج زر و چار قُب مروارید و تکیہ بر مسند بہ تزک تمام بیٹھا ہے۔ میں نے آگے جا کر با ادب تمام شرائط تسلیم و کورنش شاہانہ پیش پہنچائے۔ اُن نے از راہ مہربانی کے حکم بیٹھنے کا فرمایا۔ بہ موجب حکم کے کار پردازان نے طعام و شراب حاضر کیا۔ بعد فراغ طعام کے مبارک کو بلا کر از چگونگی حالات پوچھنا شروع کیا۔ مبارک نے تمامی سرگذشت بیان کر کے عرض کیا کہ بیچ حضور لامعُ النُور کے واسطے استدعاے مدد اور اعانت کے آیا ہے اور جو انعام کہ والد بزرگوار اس کے کو مقرر تھا، پاوے کہ میمون چہلم پورا ہو اور اس مظلوم بے کس کو بجز ذات فایض البرکات تمھاری کے کوئی مربی نہیں۔
جز بدرگاہت کجا آرم نیاز
آستانت قبلۂ آمال ماست
عموے نابکار اس سرگشتہ روزگار کا اوپر زندگی ناپائیدار اس دار پُر آشوب و شرار، فرمانبرداری اس کے سے راضی نہیں ہے، تا بہ سلطنت بہ مملکت چہ رسد۔ ملک صادق نے سننے اس ماجراے ہوش رُبا کے سے متامل ہو کے فرمایا کہ حقوق خدمت اور دوستی ابہت دستگاہ مرحوم و مغفور کے اوپر ذمہ دست والا ہمت ہماری کے زیادہ از حد ہیں اور یہ بے چارہ از خانماں آوارہ بیچ پناہ دامن دولت کے آیا ہے، حتی المقدور تغافُل و تکاسُل نہ ہوگا۔ بشرط ایک امتحان کے جو کچھ کہ چاہیے دوں گا، یہ اقرار کرتا ہوں اور ایک کام فرماتا ہوں۔ اگر بے خیانت از راہ درستی و راستی سر انجام پہنچائے گا، منزلت اور قدر اس کی زیادہ بادشاہ مغفور سے کروں گا۔ میں نے عرض کیا کہ جو کچھ کام اور خدمت لایق اس فدوی خاکسار و ذرہ بے مقدار کے ارشاد ہو بیچ تقدیم لوازم احتیاط و ہوشیاری اس کی سعادتِ کونین حاصل کرے گا۔ فرمایا کہ تو جاہل ہے، مُبادا خیانت کرے اور بیچ ایسی آفت کے گرفتار ہوے گا کہ مخلصی اس سے تا قیامت معلوم۔ میں نے عرض کیا کہ اگر شفقت ملک کی اوپر حال کثیر الاختلال اس مرغ بے پر و بال کے ہوگی تو خدا تعالیٰ سب آسان کرے گا اور میں بہ جان و دل کوشش فراواں بیچ عمل کے لاؤں گا۔ چنانچہ ایک کاغذ بغل سے نکال کر اور مجھ کو آگے بلا کے بیچ ہاتھ میرے کے دیا اور کہا کہ اس تصویر کو واسطے میرے پیدا کر کے لا اور وقت ملاقات کے یہ دو شعر میری طرف سے کہہ سنا، شعر ؎
سب جان بوجھ کر کے مری بے کلی میاں ناحق کی یہ رُکھائی جو کرتے ہو ہم ستی آخر کو ہوگا خون ہمارا تمھارے سر |
کیا واسطہ تھا آ کے خبر کیوں نہ لی میاں یہ بانکپن کی طرح نہیں ہے بھلی میاں یہ بات ہم نے خوب طرح اٹکلی میاں |
بعد اتمام اس خدمت کے جو کچھ کہ مدعا اور آرزو ہوگی زیادہ اُس سے پاوے گا۔ والّا جو کچھ خیانت کرے گا، خراب ہوگا۔ جس وقت کہ نگاہ میری اوپر تصویر پارچہ حریر کے پڑی از خود بے خود ہوا لیکن خودداری ضرور جان کر خدمتِ فیض درجت اُس کی سے مع مبارک ددا کے رخصت ہوا اور بیچ بادیۂ تلاش و تردد کے گرم پویہ ہو کر دیہ بدیہ، قریہ بہ قریہ، شہر بہ شہر، ملک بہ ملک متلاشی رہا اور محنت بسیار و رنج بے شمار کھینچ کر مایوس مطلق ہوا۔
بعد مدت مدید ہفت سال کے بیچ ایک شہر کے پہنچا کہ تمام مردُم سکنہ اس جگہ کے اسم اعظم الٰہی پڑھتے تھے اور کوئی متنفس خالی ازیں شغل نہ تھا، بہ مجرد داخل ہونے شہر کے ایک کور چشم عجمی ضعیف نظر آیا کہ در بدر گدائی کرتا ہے اور کوئی اس کو کچھ نہیں دیتا ہے۔ میرے تئیں تعجب آیا اور اوپر احوال پُر ملال اس کے رحم کر کے دست بہ جیب ہوا اور ایک دینار طلائی دیا۔ اُس نے کہا کہ اے مرد! معلوم ہوتا ہے کہ تو اہل اس شہر سے نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ فی الواقع مدت ہفت سال سے واسطے حصول مطالب کے نکلا ہوں اور صورت مطلوب کی نہیں دیکھتا ہوں۔ وہ پیر مرد دعا کہہ کر روانہ ہوا اور ہم بھی سیر کرتے ہوئے بیچ ایک مکان ویرانہ کے در آئے کہ عمارت وسیع و جاے رفیع تھی لیکن جا بہ جا شکستہ و افتادہ۔ نہایت عبرت سے میں نے کہا کہ سبحان اللہ ایک وقت کیا تیاری ہوگی اور اب کیا صورت ہے۔ ہم کہ داخل عمارت کے ہوئے، نسیم راحت بہ مشام جان ناتواں پہنچی اور ساتھی اپنے سے کہا کہ کیا بات ہو جو وہ گنج کہ بیچ تلاش اُس کی ایک مدت العمر سرگرداں مانند دانہ تسبیح کے ہو رہا ہوں، اس ویرانہ میں ہاتھ آوے۔ اس عرصہ میں وہ مرد اعمیٰ عصا زناں آ پہنچا اور اس مکان میں کہ زمین تحت عمارت کے تھی داخل ہوا۔ ایک آواز بیچ گوش ہوش میرے کے پہنچی کہ اے پدر! خیر ہے جو آج شتابی مراجعت کی۔ اُن نے کہا کہ اے فرزند! خدا تعالیٰ نے آج ایک جوان کو اوپر حال میرے کے مہربان کیا کہ ایک دینار طلائی خالص مجھ کو دیا۔ ایک مدت سے آرزو طعام لذیذ کی رکھتا تھا، سو خرید کر کے لایا اور واسطے تیرے پارچہ پوشیدنی جو کچھ کہ ضرور تھا، لے آیا۔ اگرچہ اوپر حاجت اُس جوان کے اطلاع نہ پائی لیکن بہ دل دعا واسطے حصولِ مطلب اُس کے کی اور اب تو بھی اُس کے حق میں دعا کر کہ دعا مظلوموں و مستمندوں کی بیچ جناب قاضی الحاجات کے مستجاب ہوتی ہے۔ میرے تئیں سننے اس احوال کے سے ایک رقت نے لیا اور چاہا کہ ایک مُشت درم اس کے تئیں دوں۔ جو خوب نگاہ کر کے دیکھا تو اصل تصویر کہ طومار میں تھی، بعینہ معاینہ کی۔ پس جوں ہی نظر میری اوپر اس گوہر مقصود کے پڑی، نعرہ مار کے بے ہوش ہوا۔ بعد ایک ساعت کے افاقت میں آیا اور کہا، شعر ؎
غم کے پیچھے راست کہتے ہیں کہ شادی ہوتی ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے، اب عید ہے
مبارک نے جو میرے تئیں اس حال سے دیکھا فی الفور بغل میں لیا اور پوچھا کہ تجھے کیا ہوا تھا کہ ایسا بے خود ہو گیا۔ ہنوز جواب نہیں دیا اور نظر طرف مقصد کے تھی کہ نازنین نے آواز کی کہ اے جوان! شرم خدا سے رکھ کہ الحیاء مِن الایمان سے بھی خبر رکھتا ہے کہ نہیں۔ میں فصاحت کلام اُس کی سے نہایت والہ و دیوانہ ہوا۔ مبارک اوپر احوال میرے کے بہ غایت دلبری و دلداری کرتا تھا لیکن حال اندرونہ کے سے مطلع نہ تھا۔ میں نے در جواب اُس کے کہا کہ اے نازنین! فرد ؎
جب سے کہ راہزن مرا وہ سیم بر ہوا
عاجز ہوا، غریب ہوا، در بدر ہوا
میں مسافر غریب ہوں، از وطن آوارہ، بے کس و بے چارہ۔ التماس یہ ہے کہ ایک لمحہ میرے تئیں بیچ خدمت بزرگ اپنے کے راہ دے۔ وہ پیر مرد پہچان کے میرے تئیں اندر لے گیا اور بغل گیر ہوا اور وہ سرو ناز بیچ ایک گوشہ کے پنہاں ہوئی۔ اس بزرگ نے سرگذشت میری پوچھی۔ میں نے ملک صادق کے ماجرے سے کچھ ذکر اور بیان نہ کیا اور کہا کہ اے پدر! میں ایک صورت تصویر کو دیکھ کر عاشق ہوا ہوں، اس سبب سے حیران و سرگرداں اور پریشان بصورت درویشاں پھرتا ہوں اور باپ میرا فرمانروا ملک چین کا ہے۔ یہ تصویر ایک سوداگر سے بہ عوض مبلغ خطیر ناگزیر لی ہے۔ دل اپنا سب تعلقات دُنیوی سے اُٹھا کر سیر ہر ملک و ہر دیار کا کیا تا ایں کہ بہ مقصد پہنچا ہوں۔ باقی اختیار تمھارا ہے۔ پیر مرد نے کہا: اے جوان نیک عنوان! فرزند دلبند میری گرفتار دام بلا اور مصیبت میں مبتلا ہے، کوئی بشر مجال نہیں رکھتا ہے کہ دست ہوس کا بیچ دامن وصال اُس کے مار سکے۔ میں نے باعث اُس کا پوچھا۔
تب اس پیر مرد اعمیٰ نے حقیقت احوال اس وجہ سے اظہار کیا کہ میں بزرگ زادہ والا تبار اس دیار ناہنجار کا ہوں۔ خداے تعالیٰ نے میرے تئیں یہ دختر ہمچو تابندہ اختر کرامت فرمائی کہ بیچ حسن و جمال اور غنج و دلال کے ثانی و نظیر نہیں رکھتی ہے۔ جس وقت کہ آوازہ حسن و خوبی اس کے کا افسانہ ہوا جس نے سنا دل سے دیوانہ ہوا۔ بیت ؎
باولے لاکھوں زلیخا سے پڑے پھرتے ہیں
کئی یوسف ہیں اسی چاہ زنخدان کے بیچ
اتفاقًا یہ مقدمہ گوش زد پسر فرماں رواے اس شہر کے ہوا۔ بہ موجب مضمون اس شعر کے ؎
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد در آید جلوۂ حسن از رہِ گوش |
بساکیں دولت از گفتار خیزد ز جاں آرام بر باید ز دل ہوش |
اُن عزیز نے غائبانہ عاشق اور شیدا اس شیریں شمائل پر ہو کر اظہار بیدلی کا کیا۔ تب والد بزرگوار اس کا یعنی والی اس دیار کے نے میرے تیں خلوت میں بلا کر رضامند نسبت اور بیاہ کا کیا۔ بعد ازاں کہ ہر دو طرف سے کام نے سر انجام پایا، ساعت سعید اختیار کر کے علما و فضلا نے عقد ازدواج کا باندھا۔ بیچ شَب زفاف کے نوشہ نے چاہا کہ شرط مواصلت کی بجا لاوے اور گلشن جمال اُس کے سے گُل کامیابی کے چُنے۔ شعر ؎
دل جلے لالہ کے گلشن میں جب آتی ہے بہار بلبل و قمری کو دام طوق دیتی ہے بتا |
رنگ گُل کو آگ کے شعلے دکھاتی ہے بہار مست دیوانوں کی زنجیریں تڑاتی ہے بہار |
جوں ہی مرد و زن حجرہ سے باہر ہوئے کہ آواز نالہ و آشوب کی بلند ہوئی۔ سب نے متحیر ہو کے چاہا کہ دروازہ حجرے کا کھولیں اور اندر جا کے باعث اس خرابی کے سے مطلع ہوں، یہ بات ہرگز میسر نہ آئی۔ جب ہنگامہ برطرف ہوا اور شور و غل نے تسکین پایا اور دروازہ حجرے کا توڑ کر اندر داخل ہوئے، دیکھتے کیا ہیں کہ نوشہ کی گردن سر سے جدا ہے اور دولہن کف بہ لب بیچ خاک اور خون کے بے ہوش پڑی ہے۔ بہ مجرد دیکھنے اس حادثہ جانگداز کے شادی بہ منزلہ مرگ کے ہوئی۔ مخمس:
شرح اس غم کی زبان سیتی نہیں کی جاتی لکھنے بیٹھے ہیں تو کاغذ کی پھٹے ہے چھاتی |
شارحوں کے تئیں کچھ بات نہیں بن آتی حالت اس دولہا دولہن کی نہیں لکھی جاتی |
یوں قلم حرف کے آگے بہ زبان روتے ہیں
القصہ بادشاہ نے از روے غضب اور قہر حکم واسطے قتل دختر کے فرمایا۔ پھر اسی طرح سے از سر نو آشوب فتنہ و فساد نے سر اٹھایا۔ چنانچہ بادشاہ ترس جان کے سے خلوت نشین ہوا اور فرمایا کہ دولت سراے خاص سے ان کو بدر کریں۔ بہ موجب حکم قضا توام کے یہ بات فی الفور عمل میں آئی اور شُہرہ شہر میں ہوا۔ کنیزوں نے دختر کو لا کر گھر میں رکھا۔ جو قتل شاہزادے کا بہ سبب دختر بد اختر کے ہوا تھا، بادشاہ اور تمام ارکان دولت، دشمن جان اور مال میرے کے ہوئے۔ بعد فراغ تعزیت شہزادے کے اُمرا و نُدما و سائر عوام الناس اوپر قتل میرے اور قصاص دختر اور تاراج اموال کے مستعد ہوئے۔ ایک جماعت کثیر واسطے سر انجام اس کام کے تعین ہوئی۔ جس وقت کہ بیچ حوالی حرم سرا میری کے پہنچے، ناگاہ سنگ اور خشت در و دیوار اور عمارت بام سے برسنے صادر ہوئے۔ اس واردات سے ہر ایک نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی اور ایک آواز مہیب گوش زد بادشاہ کے ہوئی کہ دستِ تَعدّی اور ظلم و آزار اس گل عذار کے سے کوتاہ رکھ۔ والّا جو کچھ کہ بیٹے تیرے نے دوستی اس کی سے دیکھا تو دشمنی اس کے سے دیکھے گا اور بیماری سخت و آسیب واقع ہوں گے۔ چنانچہ حکم اعلیٰ صادر ہوا کہ ان کو گھر سے نہ نکالو اور تعدّی اور ستم سے باز آوو۔ حافظوں نے تلاوت قرآن اور عاملوں نے عمل اور صاحبِ افسوں نے منتر شروع کیے۔ چنانچہ سالہاے سال اسی نوع سے گذرتے ہیں ؏
دیو بہ گریزد ازاں قوم کہ قرآں خواند
اور میں بھی مفصل اس واردات سے مطلع نہیں ہوں۔ مگر ایک روز عاجزہ سے پوچھا تھا کہ تجھ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا اسرار ہے۔ در جواب کہا کہ اتنا معلوم ہے کہ بیچ شبِ زفاف کے شوہر میرے نے چاہا کہ مباشرت کرے، ناگاہ چھت مکان کی چِری اور ایک جماعت پیدا ہوئی۔ ایک تخت مُکلّف بہ جواہر درمیان حجرہ کے آیا اور ایک شخص اوپر اس کے با جمال دلفریب بیٹھا تھا، جماعت نے قصد قتل شہزادے کا کیا اور وہ تخت نشیں میری طرف متوجہ ہوا اور کہا۔ شعر ؎
کیونکہ اب رم کر سکو گے ہم ستی اے من ہرن اے صنم تیرے جمال و خال اور ابرو کو دیکھ |
اب تو ہم نے تم ستی باندھا ہے اپنا جیوڑا اس سیہ کافر نے مسجد کو کیا ہے دیوہڑا |
میں واہمہ سے غش میں آئی اور جان از قالب تہی کی اور معلوم نہ ہوا کہ یہ کون ہے۔ درمیان انسان کے اور اُن کے اتنا تفاوت پایا کہ پاؤں اس گروہ کے مانند پاؤں گوسفندوں کے تھے لیکن، بیت ؎
عشق میں ہند و ترک کے کچھ نہیں ہے بیوڑا
یاں منڈایا سر ہوا آزاد وہ باسیوڑا
پس اے جوان غریب و مہمان عجیب! اس وقت سے کہ مال و اموال میرا قبضہ و تصرف میرے سے باہر گیا اور آشناؤں نے کنارا پکڑا، خادم اور فرماں بردار جدا ہوئے۔ میں بیچ اس کنج ویرانے کے پڑا ہوں اور جس کسی نے کہ رفاقت نیک و بد کی دی اور جدا نہ ہوئی، یہ لڑکی ہے۔ اب کہ کارم بجاں و کاردم بہ استخواں پہنچا ہے بایں شکستگی احوال و دستیاری عصاے چوبیں سے گدائی کوچہ بہ کوچہ کرتا ہوں اور کوئی بدنامی کے باعث بھیک بھی نہیں دیتا ہے۔ فرد ؎
مارا زخاک کویش پیراہن ست برتن
آں ہم ز آب دیدہ صد چاک تا بہ دامن
بعد مدت کے خداے تعالیٰ نے تیرے تئیں اوپر حال ضعیف میرے کے مہربان کیا کہ طعام لذیذ کھایا اور دختر برہنہ تھی اُس کے کپڑے بنوائے۔ اگر خوف وخلل آسیب کا نہ ہوتا تو واللہ یہ عاجزہ بیچ کنیزی تیری کے دیتا اور باعث افتخار و سعادت اپنی کا جانتا۔ اب مُرتکب اس امر ناصواب کا ہونا مصلحت نہیں۔ ہر چند کہ میں نے اس قدر عجز و الحاح کیا کہ بیچ شرح اور بیان کے نہ آوے، وہ پیر مرد ہرگز راضی نہ ہوا بلکہ مُبالغہ اور مُکابرہ حد سے درگذرا اور وقت شام کا ہوا۔ میں اس بزرگ کو دعاے خیر کہہ کے بیچ کارواں سرا کے آیا۔ مبارک خوشی و شادی سے بیچ جامہ کے پھولا نہ سماتا تھا اور کہتا تھا اَلحمدُ للہِ وَالمنَّۃ کہ مقصد دلی پر فائز ہوئے۔ میں تخلل عشق سے بے خود و حیران تھا کہ واللہ اعلم بالصواب یہ مرد دختر اپنی کو مجھے دے یا نہ دے۔ اگر وہ نہ دیوے اور مبارک جو ملک صادق کے واسطے چاہتا ہے تو کس طور سے اس کو راضی کروں اور معشوقہ کو بیچ قابو کے لاووں اور بہ وصال جاناں کامیاب ہوں مگر شرارت جنوں سے نجات پاؤں یا نہ پاؤں۔ اور جو اس شہر میں سکونت اختیار کروں تو ملک صادق یہ بات سن کر واللہ اعلم کیا سلوک کرے۔ بیچ اس منصوبہ اور پیچ و تاب کے نہایت غرق و مشَوّش تھا۔ بارے علی الصباح بیچ بازار کے جا کے لباس فاخرہ واسطے دختر کے اور واسطے اس پیر مرد کے خرید کیا اور میوہ ہاے گوناگوں اور غذاہاے لطیف لے کر بیچ خدمت اس خضر گم گشتگان بادیۂ ناکامی کے پہنچا۔ ان نے نہایت مہربانی اور تَلَطُّف اوپر حال خُسراں مال میرے کے کیا اور فرمایا کہ اے عزیز! تیرے تئیں جان سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ مبادا مفت مارا جاوے تو حسرت قیامت تک باقی رہے۔ میں نے عرض کیا کہ اے پِدر مہربان! ایک مدت سے با دِل بریاں و دیدۂ گریاں رنج غربت کشیدہ و مصائب سفر دیدہ از شہر بہ شہر و دیہ بہ دیہ و صحرا بہ صحرا و کوچہ بہ کوچہ حیراں و سرگرداں ہو کر اوپر سرچشمہ وصال اِس نونہال کے پہنچا ہوں۔ فرد ؎
کے از دست خواہم رہا کردنش
کنونم کہ باشد بہ کف دامنش
القصہ تا مدت یک ماہ بیچ خدمت اس پیر ہدایت مَصِیر کے دوڑا اور کوئی دقیقہ بیچ عجز و انکسار کے باقی کے نہ چھوڑا تا آنکہ وہ مرد کامل سخت بیمار و کاہل ہوا اور مجھ سے فرمایا کہ ہر چند منع کرتا ہوں اور تو دست ہوس کا دامن اس آرزو کے سے کوتاہ نہیں کرتا ہے۔ خوب، آج مصلحت دختر سے کروں گا، دیکھیے کیا کہتی ہے۔ میں سننے اس مژدہ راحت افزا سے بہت خوش وقت ہوا اور آداب بجا لا کے رخصت ہوا۔ تمام شب مارے خوشی کے نیند نہ آئی۔ علی الصباح خوش و خرم بیچ خدمت اُس بزرگ کے آیا۔ اُن نے فرمایا کہ اے جوان! میں نے دختر اپنی تجھ کو دی اور اس کو اور تجھ کو بخدا سپرد کیا۔ پس جب تک کہ دم باقی ہے میرے پاس حاضر رہ، بعد ازاں جو کچھ کہ چاہے عمل میں لائیو، مختار ہو۔ بعد چند روز کے جو اُس پیر صاحبِ تدبیر نے اس جہان فانی کو لبیک بہ داعی اجل گفتہ وداع کیا اور داغ مہاجرت کا اوپر ہمارے چھوڑا۔ تجہیز و تکفین اس کی سے فراغت پا کے مبارک دختر کے تئیں چادر اُڑھا کر بیچ کارواں سرا کے لایا اور میں نے چاہا کہ نیچے قدم اس معشوقہ دِلنواز کے سر اپنا ڈالوں۔ مبارک نے کہا کہ اے عزیز! ملک صادق سے اندیشہ کر کہ تمام یہ محنت و مشقت سالہا سال کی رائیگاں جائے گی۔ میں نے سننے اس نصیحت کے سے کنارا کیا۔ مبارک نے واسطے تسلّی اور تسکین میری کے کہا کہ اس امانت کو سلامت بیچ حضور ملک صادق کو پہنچادیں۔ اگر وہ از راہِ عنایت کے تیرے تئیں مرحمت فرماوے تو بڑا لطف ہے والّا ہاتھ اُس بادشاہ جنوں کے سے جانبر نہ رہے گا۔ بارے دو شتر اور کَجاوے خرید کر کے روانہ منزل مقصود کے ہوئے اور بعد مدت مدید کے قریب آپہنچے۔ ایک آواز ہنگامہ و شور کی مسموع ہوئی اور مبارک نے کہا کہ فوج جنات کی آئی اور الحمد للہ کہ محنت بہ راحت مبدل ہوئی۔ چنانچہ مبارک نے ملاقات کر کے پوچھا کہ آنا تمھارا کیوں کر ہوا۔ کہا کہ جس وقت خبر شاہ کو پہنچی کہ معشوقہ تمھارے ہاتھ آئی، ہم کو تعینات کیا کہ بہ محافظت تمام در ہر منزل و مقام، گام تا گام، مدام ہم عناں ہو کے چلے آؤ۔ اب کہ نزدیک تر پہنچے ہیں، اگر کہو تو ہم ایک لمحہ میں پہنچا دیں۔ مبارک نے کہا: اگر نازنین کو از راہ وحشت کے کچھ آسیب پہنچے تو محنت سالہا رائیگاں ہو جائے اور مورد عتاب و خطاب شاہ کے ہوویں گے، جلدی خوب نہیں۔ سب نے در جواب کہا ؏
صلاح ما ہمہ آنست کاں صلاح شماست
پس شب و روز با محن و سوز چلے جاتے تھے کہ ایک رات مبارک نے از بس بیداری سے بستر خواب کا گرم کیا اور میں نے اپنے تئیں زیر قدوم میمنت لزوم اس سر تکیہ ناز کے پہنچایا، گریہ و زاری اور عذر خواہی بسیار و نہایت بے قراری درمیان لا کر کہا کہ اے نازنین مہ جبین، باعث آرام خاطر غمگیں! ؏
قسم بجانت کہ بر نہ دارم سرِ ارادت زخاک آں پا
جس روز سے کہ صورت تیری دیکھی مبتلا زلف دل آویز کا ہوا ہوں، دام الفت میں گرفتار ہوں۔ در جواب اس نے فرمایا کہ شہر وطن مالوف میرے سے قصد اس طرف کا کیوں کیا۔ میں نے کہا کہ خوف تظلم بادشاہ کے سے چل نکلا۔ تب کہا کہ چشم کرم کی خدا تعالیٰ سے رکھا چاہیے کہ جو کچھ چاہے سو کرے، لیکن اے جوان! میں نے بھی دل اپنا بیچ وفا اور دوستی تیری کے باندھا ہے، چاہیے کہ بیچ کسی حال کے مجھ سے غافل اور فراموش نہ رہ۔ چنانچہ سخت زار زار مانند ابر بہار کے روئی اور مبارک اوپر اس حال کے مطلع ہو کر نہایت غمگین ہوا اور کہا کہ ایک روغن میرے پاس ہے، وہ بیچ بدن اس گلبدن کے لگاؤں گا کہ ملک صادق نفرت کرے گا اور معشوقہ تیرے ہاتھ آوے گی۔ یہ بات سن کر نہایت خوش ہوا اور شکر الٰہی و حقوق خدمت مبارک کا ادا کیا اور بیچ خواب غفلت کے سو رہا۔ صبح کے وقت ایک آواز جنوں کی سامعہ افروز ہوئی اور میں نے دیکھا کہ چند کس واسطے طلب ہماری کے آئے ہیں اور دو خلعت فاخرہ لائے ہیں اور ہودج زرنگار مزین بہ جواہر آبدار واسطے اس گلعذار کے ہمراہ ہے۔ مبارک نے فی الفور روغن بدن میں اس معشوقہ کے لگایا اور اس ہودج پر سوار کیا۔ جنیاں وہیں حضور میں لے گئے اور ہمارے تئیں تحسین و آفریں کر کے امیدوار انعامات بیش از احاطہ بشری کا کیا۔ شعر ؎
کیا کہوں اپنے دلسِتاں کی طرح
پھر نہ آیا، گیا جو جاں کی طرح
جب وہ صنم حضور ملک صادق کے گئی، نہایت پر ملال و سراپا رنج و نکال اور حال سے بے حال تھی۔ بوے ناخوش روغن کی بیچ دماغ ملک صادق کے پہنچی، برہم ہو کر باہر آیا اور ہم کو بیچ حضور کے بلایا اور مبارک سے فرمایا کہ اے مرد! شرط بجا نہ لایا اور کہا تھا کہ خیانت نہ کروں گا۔ پس یہ بدبو روغن کی کیا ہے؟ یہ بات کہہ کر مورد عتاب و خطاب کا کیا۔ مبارک نے فی الحال بند شلوار کا کھول کر اندام نہاں اپنا دکھایا اور کہا کہ حضرت سلامت! غلام جس وقت مامور اوپر اس امر خطیر کا ہوا اسی وقت رجولیت اپنی کاٹ کر اور حوالہ خازن ملک کی کر کے اور اندک مرہم سلیمانی لگا کے بعد از فرصت رو براہ ہوا۔ تب ان نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ معلوم ہوا کہ یہ خیال محال تیرے سر میں ہوگا، جو یہ امر شنیع بیچ ظہور کے لایا، دیکھ تو تیرا کیا حال کرتا ہوں اور اس قدر غصہ کیا کہ میں تاب نہ لا سکا اور آگے دوڑ کر مبارک کی کمر سے خنجر لے کر اوپر ملک صادق کے مارا۔ بہ مجرد اس عمل کے میرے پیروں پر جھکا۔ میں نے متردد اور متفکر ہو کر معلوم کیا کہ ضربت نے کام پورا نہ کیا کہ اتنے میں وہ یکایک روے زمین پر لوٹ کر مانند گیند ہوا اور طرف ہواے آسمان کے اڑا اور نظر سے غائب ہوا۔ بعد ایک لمحے کے ہواے فلک سے نیچے آیا، مانند رعد کے جوشاں و خروشاں اور مانند برق کے جہندہ۔ پاس میرے آ کر ایک لات ماری کہ میں بے ہوش ہوا۔ جس وقت کہ ہوش میں آیا بیچ جنگل سخت کے پایا کہ بغیر از ریگ بیاباں و مغیلاں کے کچھ اور نہ تھا۔ ایک آہ سرد دل پر درد سے بھر لایا اور مانند مجذوبوں کے صحرا نورد و دشت پیما بادیہ ضلالت و ناکامی کا ہوا اور جس کسی سے مکان ملک صادق کا پوچھا نشان نہ پایا، احوال میرا مطابق مضمون اس شعر کے ہوا۔ شعر ؎
نام لیلی کا دم بہ دم لے لے اُن ڈبائی ہے میرے دل کی ناو |
مارتا ہے جنگل میں مجنوں سر زلف ہے جس پیارے کی لنگر |
لا چار مایوس ہو کر چاہا کہ اپنے تئیں ہلاک کروں، یہ سوچ اوپر اس کوہ کے پہنچا کہ یہ درویش جہاں پہنچے ہوئے تھے اور بادشاہ اس عابد کے سے بیچ اس مکان کے آیا اور تم بزرگوں سے مشرف ہوا۔ اب بیچ خدمت بادشاہ کے ملازمت کیمیا خاصیت حاصل کی۔ آگے دیکھے کہ خواست الٰہی کیا ہے۔
جس وقت کہ سرگذشت درویش چہارم کی تمام ہوئی ناگاہ ایک غلغلہ شادی کا حرم سراے شاہی سے بلند ہوا۔ خواجہ سرایان ڈیوڑھی خاص محل خبر لائے کہ تولد فرزند نونہال چمن شہر یاری مبارک باد۔ فرخندہ سیر اس خبر بہجت اثر سے نہایت خرم و دل شاد ہوا اور فرمایا کہ ظاہر میں تو کوئی بارور نہ تھا، اہل حرم سے دریافت کرو کہ مژدہ راحت افزا کہاں سے سامعہ افروز ہوا۔ عرض کیا کہ فلانی سہیلی کہ مورد عتاب کی ہوئی تھی اور ایک مدت سے داخل مغضوبوں کے ہو کر بیچ عافیت کے مخفی تھی اور مجراے پابوسی سے محروم رہتی تھی اور کوئی ترس اور بیم جاں سے خدمت اس کی نہ کرتا تھا اور متحیر تھی کہ انجام حمل اس کے کا کیوں کر ہو اور کیا ہوگا۔ فرد ؎
نہ ہووے کام دل کا کیونکہ حاصل عجز و خواری سے
کہ دانا سبز ہو افتادگی اور خاکساری سے
الحمد للہ والمنۃ کہ گلبن عصمت و بختیاری کے سے گل مراد کا شگفتہ ہوا اور بادشاہ خدمت ہر چہار درویش دل ریش کے سے رخصت ہو کر اندرون محل کے تشریف لایا اور اس گل گلشن حسن و لطافت بغل میں لے کر بوسہ اوپر پیشانی اُس کے دیا اور بیچ پاے درویشوں کے ڈال کر کہا کہ از قدوم بہجت لزوم تمھارے سے یہ دولت غیر مترقب میسر آئی، شعر ؎
جوانی بیچ زور عشق نے جب پیر کر ڈالا قیامت سحر ہے اس شاہ خوباں کی نگاہوں میں |
مرا قد بار غم نے حلقۂ زنجیر کر ڈالا ہمارے ملک دل کو دیکھیے تسخیر کر ڈالا |
اور بیچ عیش محل کے لے جا کر دائی ہاے صاحب ذکا کے تئیں سپرد کیا اور جشن نو روزی اور شادی عید جمشیدی کرکے داد عیش و نشاط کی دی اور لشکر کو ساتھ داد و دہش فراواں کے سرفراز و بے نیاز کیا اور سہ سال محصول رعیت کو معاف فرمایا اور بندیوانوں کے تئیں قید سے چھوڑا اور کہا، فرد ؎
نو بہار آئی ہے، پابندوں کی زنجیروں کو توڑ
فصل گل میں نئیں گوارا ان کو زنداں کی ہوا
اس عرصہ میں پھر ایک آواز خلل کی محل خاص سے ایسی ہی آئی کہ ایک عالم کانپ اٹھا اور بیچ ورطہ تحیر و گرداب تفکر کے حیران رہے۔ خبر اندرون محل سے آئی کہ جس وقت شہزادہ بلند اقبال کے تئیں بیچ کنار دایہ بلند پایہ رونق افزا کیا، ایک ابر تیرہ غیب سے نمودار ہوا اور دایہ کو مع شاہزادہ احاطہ کیا۔ بعد ارتفاع اس دود حیرت آمود کے دایہ بے ہوش اور طفل ناپیدا ہوا۔ بہ استماع اس سانحہ عجیب و واقعہ غریب بادشاہ اور جملہ حاضران متحیر اور متعجب ہوئے اور کہا، بیت ؎
کیوں نہ ہو اس دکھ سے ہم کو بے قراری الغیاث
ہے ترے تیر نگہ کو زخم کاری الغیاث
القصہ بعد دو روز کے شاہزادہ کو باگہوارہ زریں و مرصع و گہوارہ پوش معہ جھالر مروارید و خلعت فاخرہ پنھا کر بیچ دولت خانہ حضرت ظل اللہ کے لائے۔ دیکھنے اس عجائب و غرائب کے سے جمیع خادمان محل نے مانند گل کے شگفتہ اور مانند تصویر کاغذ کے متحیر ہو کر کہا کہ یا الٰہی! یہ کیا اسرار ہے۔ بادشاہ نے ایک عمارت نوکار مطبوع و دلکش واسطے درویشوں کے متصل خاص محل کے تیار کروائی اور اکثر اوقات بعد از فراغ امور مملکت جلیس ہمدم و انیس دل پر غم درویشاں دل ریشاں کا رہتا۔ چنانچہ ہر مہینہ میں ایک دفعہ ابر تیرہ آتا اور شاہزادے کے تئیں بدستور مذکور لے جاتا اور بعد دو سہ روز کے باخوان ہاے لطیف و کسوت ہاے منیف کہ چشم مردم کی دیکھنے اس کے سے خیرہ ہوتی تھی لے آتا۔ تا آنکہ سن شریف اس کا بہ ہفت سالگی پہنچا۔ بادشاہ اور درویشوں نے مصلحت باہم کی اور ایک عریضۂ نیاز بدیں مضمون لکھا کہ اگر ایں حیرت زدگان را از راہ شفقت و الطاف بلا اکناف کے ورطہ حیرت اس امر عجیب کے سے اوپر ساحل آگاہی کے لا کر اطلاع بخشو گے، بعید از توجہات و مہربانی نہ ہوگا ؎
بہت ہے عشق میں تیرے ہمیں خوشی کی ہوس اگر زمیں پہ بہشت بریں ملے ہم کو |
نکالیں کس طرح اے جان اپنے جی کی ہوس نہ جائے تو بھی مرے دل سے اس گلی کی ہوس |
یہ لکھ کر بیچ گہوارہ شہزادہ کے رکھ دیا اور شہزادہ بہ طریق معہود کے غائب ہوا۔ جس وقت آفتاب عالمتاب بیچ آرام گاہ مغرب کے گیا اور شاہ زریں کلاہ انجم سپاہ ماہ کا اوپر تخت زمردگوں آسمان کے جلوہ افروز ہوا، فرخندہ سیر بیچ صحبت درویشوں کے ہم جلیس و ہم کلام تھا کہ ناگاہ ایک کاغذ بیچ دامن بادشاہ کے آن پڑا۔ دیکھا تو لکھا تھا کہ “ہمارے تئیں مشتاق طاق تصور کر کے تخت پر کہ واسطے سواری کے بھیجا ہے، سوار ہو کر تشریف ارزانی فرماؤ کہ جشن عالی ترتیب دیا ہے اور منتظر قدوم میمنت لزوم تمھارے کا ہوں کہ جاے شما خالی است۔” بہ مجرد پڑھنے خط کے اور ملاحظہ تخت کے بادشاہ مع درویشاں سوار ہوا۔ تخت کو مانند تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے باد صبا اوپر دوش اپنے کے لے اُڑی اور یے پانچوں شخص بے ہوش ہوئے اور یہ شعر بہ زبان دُر بیان خندہ سیر کی سے سرزد ہوا۔ اشعار ؎
اٹھا سر پر بلاے آشنائی ملے کیوں کر نہ حسرتؔ دلبروں سے |
ہوا ہوں مبتلاے آشنائی ہے اس کا دل فداے آشنائی |
وقت ہوشیاری کے اپنے تئیں ایسے مکان پر پایا کہ تمام عمر میں نہ دیکھا تھا اور نہ کسی سے سنا تھا۔ کسی نے کہا کہ ان کی آنکھوں میں سرمہ سلیمانی کھینچو۔ بہ مجرد اس عمل کے دو چار قطرے آنکھوں سے گرے اور ایک جماعت پریوں کی نظر پڑی کہ واسطے طلب کے آئیں تھیں۔ کہا کہ ملک شہبال بن شاہ رُخ نے حضور طلب کیا ہے۔ فرخندہ سیر بہ رفاقت درویشاں روانہ ہوا۔ دیکھا کہ تخت مرصع اور کرسی جڑاؤ متعدد بچھی ہیں اور فوج فوج پری زاد دست بستہ استادہ ہیں اور شہبال بن شاہ رُخ اوپر تخت مرصع تکیہ لگائے بہ تزک تمام بیٹھا ہے اور ایک پری زاد ہفت سالہ بیچ حضور کے بیٹھی ہے اور ساتھ شاہزادہ بختیار بن فرخندہ سیر کے بیچ لہو لعب کے مشغول ہے۔ ملک شہبال بہ مجرد دیکھنے کے اٹھ کر بغلگیر ہوا اور اوپر تخت کے پاس اپنے بٹھایا اور کرم اور نوازش بے اندازہ کرمت فرمائی اور تمام روز بیچ عیش و عشرت اور راگ و رنگ کے گذرا۔ روز دوم جس وقت کہ خسرو گردوں کا بیچ اسپک نیلگوں سپہر کے رونق افزا ہوا، ملک شہبال نے حقیقت احوال فرخندہ سیر کی اور باعثِ رفاقت درویشوں کا استفسار کیا۔ چنانچہ بادشاہ عالی جاہ نے مفصل کیفیت ہر چہار شخص کی کہ بہ منزلہ اربعہ عناصر کے متفق تھے، حواس خمسہ اپنے کے تئیں درست کر کے گزارش کیا اور کہا کہ اگر سعی و توجہ خود بدولت و اقبال کے سے یے مظلومان بے چارہ از خانماں آوارہ، گرم و سرد زمانہ کشیدہ و رنج و راحت دہر چشیدہ کہ بہ دامنِ دولت مستفیض و مستفید ہوئے ہیں، مطلب اور مراد کو پہنچیں تو بعید از بندہ پروری و مسافر نوازی نہ ہوگا ؎
چشمِ ترحم ز تو داریم ما حاجتِ ما از تو بر آید تمام |
قبلہ توئی رو بہ کہ آریم ما دامنت از کف نہ گزاریم ما |
بادشاہ شہبال نے سننے اس ماجراے تعجب افزا کے سے نہایت مستعد و سرگرم ہو کر نگاہ تند و تلخ سے طرف دیواں و عفریتاں و پریاں کے دیکھا اور بزرگان و سرداران جِنیاں کے تئیں جا بجا لکھ بھیجا کہ بہ مجرد مطالعہ اس فرمان قضا جِریان کے اپنے تئیں بیچ حضور لامع النور کے حاضر کریں اور توقف ایک ساعت کا روا نہ رکھیں و اِلّا موردِ عتاب و خطاب کے ہوں گے اور جنس آدم زاد سے کیا مرد و کیا زن، جس کے پاس ہو ہمراہ لاوے اور اِخفا اس معنی کا موجب پریشانی و حیرانی اپنی کا جانے۔ دیوان و عِفریتان و جنیان بیچ اطراف عالم کے پراگندہ ہوئے اور نامہ متضمن تاکید اکید کے جا بجا پہنچائے اور ملک شہبال ساتھ بادشاہ اور درویشوں کے ہم کلام بہ ایں حکایت ہوا کہ مدت سے بیچ آرزوے تولد فرزند دلبند کے تھا اور یہ عہد کیا تھا کہ جس وقت میرے تئیں حق تعالیٰ پسر یا دختر عنایت فرماوے گا تو جو کوئی پسر یا دختر بادشاہان اقالیم میں سے بیچ زُمرۂ انسان کے تولد ہوگا نسبت اس کی ساتھ فرزند اپنے کے مقرر کروں گا۔ بارے اندرون محل کے جو ملکۂ آفاق بارور ہوئی اور بعد اِنقضاے ایام حمل کے دختر خجستہ اختر مُتولد ہوئی، اسی وقت حکم کیا کہ جہاں کہیں بیچ گھر سلاطین زماں کے لڑکا تولد ہوا ہو اس کے تئیں لا کے حاضر کرو۔ بہ موجب حکم قضا توام کے اس شہزادہ بختیار کے تئیں لائے اور میرے تئیں محبت اس کی دامنگیر خاطر کے ہوئی۔ چنانچہ ہر ماہ میں ایک دفعہ حضور میں بلا کر موردِ عنایات کا کرتا ہوں اور شرط تربیت و پرورش کی بجا لاتا ہوں اور بیچ دامادی اپنی کے ممتاز و سرفراز کیا۔ فرخندہ سیر نے سننے اس داستان ہدایت بنیان کے سے خوش وقتی حاصل کی۔
القصہ بیچ ہفتہ عشرہ کے تمامی بزرگان و سرداران، جنات گلستانِ ارم اور شہر سبز اور پردۂ کوہ قاف اور دریاے قلزم کے اور ملک عرب و عجم و ہندوستان وغیرہ اور کوہستان جزائر و بنادر کے بالکل آ کر حاضر ہوئے۔ اول ملک صادق سے طلب اس گلعذار کا کیا کہ شہزادہ چین کا گرفتار زلف پر چین اس کے کا تھا۔ بعد پیچ و تاب بسیار کے لاچار ہو کر حاضر کی۔ بعد ازاں بادشاہ جِنیان ولایت عمان کے سے دختر عفریت کی کہ اس پر شہزادہ ملک نیمروز کا گرفتار اور گاؤ سوار تھا، طلب کی۔ بعد از عذر ہاے بسیار کے وہ بھی آئی۔ جس وقت دختر بادشاہ فرنگ اور بہزاد خاں کے تئیں طلب کیا، سب منکر پاک ہوئے بلکہ قسم اقسام شدید درمیان لائے مگر سردار جنیان دریاے قلزم نے سر آگے ڈالا اور خاموش رہا۔ ملک شہبال نے از روے عقل دریافت کر کے اس کی طرف نگاہ گرم سے دیکھا۔ ان نے عرض کیا کہ جس وقت والد بزرگوار اس شہزادے کا واسطے استقبال کے آیا اور ان نے گھوڑا بیچ دریا کے ڈالا میں کہ واسطے سیر و شکار اس دیار کے سوار ہوا تھا، یکایک نگاہ میری اوپر اس معشوقہ جادو نگاہ کے پڑی۔ بہ مجرد دیکھنے کے بے اختیار عاشق و فریفتہ ہو کر شکار سے خالی ہوا اور صبر و قرار میرا گیا۔ جس وقت کہ ان نے گھوڑی اپنی بیچ دریا کے ڈالی میں نے جلو اس کی پکڑ کے بیچ قابو کے کیا اور جو بہزاد خاں فرنگی کے تئیں بیچ عالم انصاف کے مرد مردانہ پایا، فرمایا کہ اس کے تئیں بھی لے لو، چنانچہ وہ بھی ہمارے پاس سلامت و حاضر ہے۔ یہ کہا اور دونوں حاضر کیے۔ بعد اس کے دختر فرماں رواے شام کے تئیں تلاش کیا اور ہر ایک سے پوچھا کچھ نشان نہ پایا بلکہ سوگند عظیم درمیان لائے۔ ملک شہبال نے فرمایا کہ کوئی غیر حاضر بھی ہے یا سب آ چکے۔ عرض ہوئی کہ مسلسل جادوگر نے ایک قلعہ مستحکم علم سحر سے بیچ کوہ قاف کے بنایا ہے اور اس میں متحصن ہے و اسیر دستگیر کرنے میں اس کے کسی کو طاقت اور مجال نہیں ہے۔ یہ بات سن کر ملک شہبال نے فرمایا کہ جنیان و دیوان و عفریتان فوج فوج و توپ توپ مستعد و مسلح ہو کر جاویں اور اس کو اسیر و دستگیر کر کے حضور میں لاویں اور ملک و مال اس کا تاخت و تاراج کر کے صفاً صفا کی نوبت پہنچاویں۔ بہ مجرد ہونے حکم کے افواج قہار و لایق کارزار افزوں از حد و شمار روانہ ہوئے۔ آخرش تھوڑی فرصت میں داد مردی و مردانگی کی دے کر حلقہ بگوش کیا اور حضور میں لائے۔ جس وقت ملک شہبال نے استفسار ماجرا کیا، مطلق جواب نہ دیا۔ تب بادشاہ نے فرمایا کہ اس کے تئیں با انواع عقوبت و عذاب معاذب کر کے پارہ پارہ کریں اور افواج پری کے تئیں حکم کیا کہ تفحص و تجسس کر کے اس نازنین کو پیدا کریں۔ وے بہ موجب حکم بادشاہ کے ملکۂ شام کے تئیں تلاش کر کے حضور میں لائے۔ درویش دیکھنے اس حکم اور عدالت کے سے بیچ تعریف اور توصیف بادشاہ شہبال کے رطب اللِسان اور عذب البیان ہوئے اور حکم بادشاہ شہبال کا یوں نفاذ ہوا کہ مردوں کے تئیں باہر دیوان خانہ میں اور عورتوں کے تئیں اندر عیش محل کے لے جاویں اور فرمایا کہ شہر کے تئیں آئین بندی و چراغاں و آرائش کی تیاری ہو۔ پس ساعت سعید اختیار کر کے اول شہزادہ بختیار بن فرخندہ سیر بادشاہ کو ساتھ دختر روشن اختر اپنی کے جلوہ افروز تخت عروسی کا کیا اور خواجہ زادہ یمنی کو ساتھ دختر سلطان دمشق کے کتخدا کیا۔ اور بادشاہ زادہ ملک فارس کو ساتھ شہزادی بصرہ کے منعقد کیا اور بادشاہ زادہ عجم کو ساتھ ملکۂ فرنگ کے ازدواج بخشا اور بہزاد خاں کو ساتھ دختر فرماں رواے نیمروز کے منکوح فرمایا اور شہزادہ چین کو ساتھ دختر پیر اعمیٰ کے کہ در قبض تصرف ملک صادق کے تھی، جلوہ عروسی و دامادی کا دیا اور شہزادہ نیمروز کو ساتھ دختر عفریت کے شرف مناکحت بخشا۔
القصہ چالیس روز تک بیچ گلستان ارم کے با عیش و عشرت مشغول رہے اور داد خوشی اور کامرانی کی دی۔ بعد ازاں ملک شہبال نے ہر ایک کو باتحفہ ہاے انواع ہر ملک و دیار کے بہ ہر اطراف مطلوبہ ان کے با جمعیت شایستہ روانہ کیا کہ ہر ایک بیچ وطن اپنے پہنچا اور واسطہ استعانت ملک شہبال کے قابض و متصرف مملکت موروثی اپنی کے ہو کر بقیہ عمر مستعار ساتھ کام دل کے زندگی بسر لے گئے اور خواجہ زادہ یمنی و بہزاد خاں فرنگی بیچ رفاقت فرخندہ سیر کے بہ خواہش دل و رضا مندی جاں حاضر رہے اور خواجہ زادہ یمنی بخدمت خانسامانی اور بہزاد خاں فرنگی بہ علاقہ بخشی گری فوج شہزادہ بلند اقبال بختیار والا تبار کے سربلند ہوئے۔ عاقبتُ الامر بہ مقتضاے اس کے کہ یہ جہان فانی ہے، نداے کُلُ نفس ذائِقةُ الموت کی دے کر آسودہ عالم بقا کے ہوئے۔
الٰہی! جس طرح یہ چار درویش مع بادشاہ فرخندہ سیر و شہزادہ نیمروز و بہزاد خاں فرنگی ہر ایک اپنی مراد کو پہنچے، اسی طرح ہر ایک کی مراد اور مقصد بر آوے۔ مصرع
یا الٰہی! دُعاے خستہ دلاں مُستجاب کُن
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا لا ایلما |
محب علوی، لاہور
محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |