دیباچہ
(مولانا محمد عثمان صاحب فارقلیط چیف ایڈیٹر روزنامہ الجمیعۃ دہلی)
اس کتاب میں قازقستان کے جن مظلوموں کی داستان مظلومی بیان کی گئی ہے اسے افسانہ قرار دینا نہ صرف مظلوموں پر مزید ظلم ہوگا بلکہ کمیونسٹ نظام کی ظالمانہ گرفت کے ساتھ بھی بڑی ناانصافی ہوگی۔ اگر تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی زندگی کی داستانیں ترک وطن کے مسلسل واقعات سے بھری پڑی ہیں، اسلامی تاریخ کا تو پہلا باب ہی اسی ہجرت سے شروع ہوتا ہے جس نے ترک وطن کے ساتھ وطن کی واپسی کا جذبہ پیدا کیا اور یہ ہجرت واپسی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ جب کبھی فاتح اور طاقتور قوموں نے کمزور قوتوں پر جبر کا حربہ استعمال کیا تو مفتوح اور ناتواں قوموں نے وطن پر ترک وطن کو ترجیح دی اور انھوں نے عزت نفس کی خاطر نہ وطن کے گلستانوں اورشفاف نہروں کی پروا کی اور نہ ان گلی کوچوں کو یاد کیا جہاں انھوں نے بچپن اور جوانی کے ایام گزارے تھے، کیونکہ عزت نفس ہی انسان کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جس پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو اس کتاب میں وہی نفسیاتی حقیقت نظر آئے گی جسے اصطلاح میں صیانت نفس اور قومی غیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اگر ایک طرف مظلوموں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے تو دوسری طرف ہجرت کے ان واقعات کی یاد دلاتی ہے جو اسلامی دنیا کے لیے ہمیشہ باعث افتخار رہے ہیں۔ یہ سبق ہمیں ہجرت ہی سے ملتا ہے کہ اصولوں کی خاطر انسان کو اپنی ہر محبوب متاع سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔ اسلام کے پیغمبر نے مکہ مکرمہ کی جن گلیوں میں پرورش پائی اور جس شہر کے در و دیوار پر آپ نے پیدا ہوتے ہی نظر ڈالی وہ سب اصول اور سچائی کی خاطر قربان کر دیے گئے۔ آپ نے مخالفوں کے جبر و تشدد سے تنگ آ کر اپنے محبوب وطن کو ترک کیا، آپ نے چلتے وقت مکہ کو مڑ کر دیکھا اور یہ کہہ کر کہ “اے میرے وطن مکہ! تو مجھے محبوب ہے مگر جس سچائی کی خاطر تجھے چھوڑنا پڑا ہے وہ تجھ سے بھی زیادہ محبوب ہے” مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، مگر یہ روانگی اس لیے نہ تھی کہ مکہ کی وادی حریفوں کے حوالے کر دی گئی اور انھیں من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا، بلکہ اس لیے تھی کہ کامیابی کے ساتھ واپسی ہو او جبر کو صبر کے ہتھیاروں سے شکست دی جائے۔ آپ کے حریف جو فلسفہ ہجرت سے ناواقف تھے یہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ ہجرت کا ایک مقصد واپسی بھی ہوسکتا ہے، اس لیے انھوں نے یہ سن کر کہ آپ وطن سے بے وطن ہوئے اطمینان کا سانس لیا، ان کا فیصلہ کچھ اور تھا اور قدرت نے کوئی دوسرا ہی فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ آپ مدینہ منورہ پہنچے اور تعمیر کا ایک نقشہ اس طرح ترتیب دیا کہ اس میں واپسی کے تمام رنگین نقوش ابھر آئے اور ہر نقش نے زبان حال سے کہا کہ کاتب تقدیر کے فیصلہ کی تکمیل اسی مکہ میں جا کر ہو گی جس نے خدا کے فرستادہ کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
تاریخ کے اہم ترین واقعات میں ایسی مثالیں موجودہیں بعض دفعہ ظلم کی رسی دراز ہوتی ہے اور بعض دفعہ اسے دراز ہونے کی مہلت نہیں ملتی۔ جن ممالک میں ظلم کی رسی دراز ہوئی وہاں یہ خیال ہی دماغوں سے محو ہو گیا کہ اگر ظلم کی ابتدا ہے تو اس کی انتہا بھی ہے۔ جو لوگ ایسے مقامات سے ترک وطن پر مجبور ہوئے وہ گویا اپنی جگہ یہ فیصلہ کر بیٹھے کہ آئندہ ان کی یا ان کی نسلوں کی واپسی نہ ہو گی اور ان کی امتیازی شان کو دوبارہ عروج پانے کا موقع نہ مل سکے گا، لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب طویل زمانہ کے حالات نے پلٹا کھایا اور مظلوموں کو واپسی کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ اصولوں کے مقابلے میں جبر کی شدت اور زمانہ کا طول کوئی چیز نہیں، وہی قومیں جو بے بسی کی حالت میں نکالی گئیں، کسی وقت جا کر انھوں نے اپنے آپ کو اپنے وطن ہی میں پایا اور ان کی ناتوانی نے بھی توانائی کا روپ دھارن کیا۔ یہی نظارہ ہم کو پیغمبر اسلام کی ہجرت میں نظر آتا ہے۔ گو آپ کا زمانہ ہجرت بہت مختصر رہا مگر ہجرت برائے واپسی کا فیصلہ اٹل ثابت ہوا اور آپ اپنے جاں نثار رفقا کے ساتھ مکہ مکرمہ لوٹے اور اس شان کے ساتھ کہ مکہ کی اسلامی مرکزیت تاریخ کا ایک اہم باب بن گئی اور چودہ سو سال بعد بھی اس کی یہ شان باقی ہے۔
زیر نظر کتاب میں جو داستان بیان کی گئی ہے وہ قازقوں کے اس گروہ سے متعلق ہے جس کا آبائی اور روایتی مسکن سنکیانگ یا چینی ترکستان ہے۔ چونکہ یہ لوگ جنگ جو اور بہادر تھے اس لیے وہ ابتدا میں کمیونسٹوں کے دباؤ کا مقابلہ کرتے رہے لیکن ایک منظم اور جابر حکومت کا مقابلہ ان کے بس کا نہ تھااس لیے وہ شکست قبول کرنے کے بجائے تکلا مکان اور تبت کے صحراؤں اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں نکل گئے اور مرتے مرتے بھی دو ہزار کی تعداد میں کشمیر پہنچ گئے اور بالآخر حکومت ترکی کی دعوت پر ترکی میں قیام پذیر ہوئے۔ جن لوگوں کو اس بات کی جستجو تھی کہ یہ لوگ اپنے وطن مالوف کو خیرباد کہنے پر کیوں مجبور ہوئے اور کن اسباب کی بنا پر انھوں نے ہجرت کی مشکلات انگیز کیں، وہ ترکی پہنچے اور ان لوگوں سے مل کر وہ تمام باتیں سنیں جو اس کتاب کا جلی عنوان ہیں۔ زیرنظر کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ترکی میں مقیم ان ہی قازقوں کی زبان سے سن کر لکھا گیا ہے، اسی کے ساتھ خانہ بدوش زندگی اور ان کے اجداد کے حالات بھی درج کیے گئے ہیں جواس لحاظ سے کافی دلچسپ ہیں کہ اس سے پہلے ان کی زندگی پر کسی کو لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
جدید قازق رہنماؤں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد رہنما عثمان بطور سب سے زیادہ مشہور ہیں جو جہادِ حریت میں شہید ہوئے۔ عثمان بطور نہ صرف لڑائی کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے بلکہ قیادت کی اہلیت میں بھی بے مثال تسلیم کیے گئے تھے، لیکن ان کی مہارت دو سامراجوں سوویت یونین اور چین کے سامنے اپنا جوہر نہ دکھا سکی۔ انھیں خو داحساس تھا کہ وہ ان نظاموں پر غالب نہیں آسکتے البتہ وہ ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دے سکتے تھے۔ وہ لڑائی جو روس اور چینی اشتراکیت کے خلافت جاری رہی اور ١٩٣٠ء اور ١٩٥١ء کے درمیانی عرصے میں شدت کے ساتھ بڑھتی رہی، اس کا نتیجہ قازقوں کی ہجرت کی شکل میں نکلا جس کا پورا حال اس کتاب میں درج کر دیا گیا ہے، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان قازقوں کی ہجرت کا نتیجہ واپسی کی شکل میں نہ نکل سکے گا؟ کیا انھیں اور ان کی نسلوں کو پھر سے اپنے وطن مالوف کو دیکھنا نصیب نہ ہوگا؟ اسلامی ہجرت کی نفسیات سے جو چیز ابھرتی ہے اس کے پیش نظر مایوسی کی کوئی وجہ نہیں، ممکن ہے روس یا چین میں کوئی نیا انقلاب آئے جو موجودہ انقلاب کی تلافی کر سکے اور مہاجرین کے لیے اپنی آغوش کھول دے۔
یہ کتاب اگر ایک طرف مظلوموں کی ترجمانی کا حق ادا کرتی ہے تو دوسری طرف بالشویک روس کے جبر و تشدد کو بھی بے نقاب کرتی ہے کیونکہ بالشویک نظام جو کمیونزم کی دعوت دیتا ہے ایک ایسا ستم گسترانہ نظام ہے کہ اگر اس کے ڈھانچے سے ظلم و جبر کا عنصر نکال دیا جائے تو اس کا درجہ حرارت نفی کے درجے میں آ جاتا ہے۔ یہ نظام جبر کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا، اس کے خمیر کا تقاضا ہے کہ وہ جبر کو دعوت دے۔ اگر اس جبر کی آزمائش کے لیے کوئی حریف نہ مل سکے تو وہ اس کے لیے اپنے ساتھیوں کو منتخب کر لیتا ہے اور اس کے سربراہ خود اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم مصنف کتاب گوڈ فرے لیاس کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے خود قازقوں کی زبان سے اس داستان کے ٹکڑے جمع کیے اور پھر انھیں وقف عام کر دیا۔ ہم یہاں جناب گوپال متل صاحب کو بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ کتابوں کے انبار سے موتی نکالنے میں ہمیشہ کامیاب رہے، اگر ان کی سعی کارفرما نہ ہوتی تو شاید اس کتاب کا ناظرین کے ہاتھوں میں پہنچنا بہت دشوار ہوتا۔
پیش لفظ
افراد قصّہ
بحرقطب شمالی اور بحرہند، بحرمتوسط اور بحر جاپان کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ چلا گیا ہے جو الطائی کہلاتا ہے۔ اس کی ہری بھری وادیوں اور سرسبز بلندیوں سے وہ قومیں اور وہ رہنما اُبھرے جو ایشیا میں دور دور تک پھیل گئے۔ پیکنگ، دہلی، سمرقند تک اور یورپ کے قلب تک بھی۔ ان میں بہت سے ایسے نام شامل ہیں جو نقطۂ نظر کے اختلاف کے ساتھ دلوں میں خوف اور نفرت، تعظیم اور فخرکے جذبات پیدا کرتے ہیں؛ چنگیز خاں، تیمورلنگ، مغل شہنشاہ اور ایطلا تک ان میں شریک ہیں جنھیں الطائی کے قازق اورمنگول اپنے پُرکھوں میں شمار کرتے ہیں۔
ایسے رہنماؤں کے نقش قدم پر جو چلے وہ خود بھی رہنماؤں کی طرح سخت کوش، پر اعتماد، حوصلہ مند، نڈر اور مہماں نواز لوگ تھے اور آج بھی اُن کی آس اولاد میں یہی خصائص پائے جاتے ہیں۔ وہ ہروقت کمربستہ رہتے ہیں کہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر دنیا کے دوسرے سرے پرپہنچ جائیں۔ کسی جنگجو سردار کی رہنمائی میں ایسے کارنامے انجام دیں جن سے شہرت حاصل ہو۔ اپنی کلائیوں پرشکرے بٹھائے اپنے محبوب پہاڑوں میں بے دھڑک گھوڑ ے دوڑاتے پھریں۔ ہر بہار اور خزاں کے موسم میں اپنے نمدہ دار خیموں کوحسب ضرورت وا دیوں میں بلندی یا پستی میں نصب کریں اور بیرونی دنیا سے بےخبر رہ کر اپنے گلّوں کو چراتے رہیں اوریہ بے خبری اس حد تک ہو کہ اس عظیم “راہ ریشمی” کی بھی انھیں پروا نہ ہوجو چین اور یورپ کے درمیان پھیلی پڑی ہے اور جس پر سے پانچ سو سال پہلے مارکو پولو اپنے گھوڑے پر سواربالکل ان کے خیموں کے دروازوں کے سامنے سے گزرا تھا۔
لیکن مارکوپولو کے زمانے کو صدیاں بیت گئیں اور جیسے جیسے یہ صدیاں الطائی کے قریب سے گزرتی گئیں دنیا چھوٹی ہوتی چلی گئی اور الطائی کے بسنے والوں کو دنیا کے سمٹنے کی اس وقت تک نہ تو اطلاع ہوئی اور نہ انھیں اس کی کوئی پروا ہوئی جب تک کہ انیسویں صدی کے آخر میں بیرونی دنیا نے رفتہ رفتہ انھیں اپنے گھیرے میں نہ لے لیا۔ اس اثنا میں خود ان کی آبادی بڑھتی چلی گئی اور وہ بجائے سمٹنے کے پھیلنے لگے۔ انہی کی طرح ان کے مویشی، دو کوہان والے اونٹ، دنبے، بھیڑ، بکریاں اور پسندیدہ گھوڑے بھی بڑھتے چلے گئے۔ منگول بیشتر مشرق کی طرف پھیلے۔ قازقوں کی بڑی تعداد مغرب کی طرف چلی اور اس علاقہ میں پھیل گئی جوسوویت قازقستان کہلاتا ہے۔ آہنی پردے کی سیدھی جانب یہ علاقہ تقریباً اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ پورا یورپ لیکن ان کی کچھ تعداد مشرق کی طرف زنگاریہ کے علاقہ میں اور ایک بڑے پہاڑی سلسلے میں پھیل گئی جو تئین شان یا کوہ ملکوتی کہلا تا ہے۔
یہ سچی کہانی قازقوں کے ایسے جنوبی گروہ سے متعلق ہے جس کا روایتی مسکن اسی علاقہ میں ہے جس پر روسی اورچینی شہنشاہیت میں صدیوں سے تنازعہ چلا آتا ہے۔ اسی صدی کے شروع میں ان دونوں کے درمیان جو خطِ تقسیم تھا وہ الطائی سلسلۂ کوہ کے ساتھ ساتھ اور ملکوتی سلسلۂ کوہ کے شمال میں تھا لیکن اس تقسیم پر نہ تو روسی قانع تھے نہ چینی۔ اس متنازعہ سرحد کے دونوں طرف مٹی میں سونا تھا، خام دھاتیں تھیں، کوئلہ تانبا وغیرہ تھا اور یورینیم دھات بھی۔ یہ وہی علاقہ تھا جس پرکبھی قازق آزادی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور اس کے حقیقی مالک بھی تھے۔ بیش قیمت معدنیات کے علاوہ کوہِ الطائی اور کوہِ ملکوتی اور دوسرے زیریں سلسلہ ہائے کوہ مویشیوں اور بھیڑوں کے لیے عمدہ چراگاہیں بھی اپنےدامن میں رکھتے ہیں۔
زمانہ ماضی میں قازق یہ کرتے کہ ان دونوں لالچی شہنشاہیت پسندوں کوآپس میں لڑوا دیتے۔ یہ طریقہ ابتدا میں کامیابی سے چلتا رہا لیکن بالشویک چیرہ دستی نے زار کی بالا دستی کو غصب کر لیا تو یہ چال ناکا م ہوگئی، روس میں اشتراکی حکومت کے قائم ہونے کے پندرہ سال کے اندرہی اشتراکیوں نے چین کے صوبہ سنکیانگ پر اقتصادی اور اس کے بعد سیاسی قبضہ کرلیا۔ اسی صوبے میں ہماری کہانی کے آٹھ لاکھ قازق آباد تھے، ایک ذرا سے وقفے کے علا وہ اسی زمانے سے اشتراکیوں کا قبضہ چلا آتا تھا۔
گذشتہ ربع صدی سے الطائی اور کوہ ملکوتی کے قازق بڑی دلیری سے مگر نا کام لڑائی لڑ رہے ہیں۔ جب حملہ آور ان کے وطن میں گھس آئے تو بجائے نگوں ساری سے شکست قبول کرنے کے قازقوں نے انھیں لڑ کر نکال دینا چاہا۔ جنگجوئی قازقوں کے خون میں رچی ہوئی ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انھیں جنگ سے محبت ہے، مگر اب ان کی جنگ کسی مفاد یا ناموری کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ اپنے طرز زندگی کو بچانے کے لیے تھی اور جب ان میں تاب مقاومت باقی نہ رہی تو بچے کھچے قازق تکلا مکان اورتبّت کے تپتے ہوئے صحراؤں اور بے برگ و گیاہ پہاڑوں میں نکل گئے مگر انھوں نے شکست قبول نہیں کی۔ راہ میں بہت سے مر گئے لیکن ان کی کچھ تعداد کوئی دو ہزار کے قریب صعوبتیں جھیل کر کشمیر پہنچ گئی اور تھوڑے عرصہ بعد ترکی نے انھیں دعوت دی کہ آکر ان کے ملک میں آباد ہوجائیں۔ یہیں انھوں نے ہمیں اپنی کہانی سنائى۔ بلکہ دراصل ہم خاص طور سے ان کے پاس گئے اور انھیں اس پر آمادہ کیا کہ ہمیں اپنی کہانی سنائیں۔ کیونکہ ادھر تویہ واقعات پیش آرہے تھے اورادھراشتراکی ان واقعات کو بیرونی دنیا سے چھپائے ہوئے تھے۔ پھر ہماری سمجھ میں اس کی وجہ فوراً آ گئی کہ اسے وہ کیوں پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔
جب ہم قازقوں سے ان کے واقعات سن رہے تھے توہمارا تخیل بار بار ماضی کے دھندلکوں میں ابراہیمؑ، اسحٰقؑ، یوسفؑ، موسٰیؑ، داؤدؑ، یوحناؑ اور الیاسؑ پیغمبروں کی طرف جاتا تھا۔ قازقوں اور قدیم عبرانیوں کے طرز زندگی میں بے حد مشابہت ہے یا تھی۔ حالانکہ قازق ترکوں کی طرح مسلمان ہیں اور چودھویں صدی سے بھی پہلے سے مسلمان چلے آتے ہیں۔ وہ اس کے بھی مدعی ہیں کہ ان کی اور ترکوں کی نسل ایک ہی ہے اور ان میں سے بعض واقعی ترکوں سے مشابہ ہوتے ہیں مگربیشتر ان میں سے منگولی ناک نقشے کے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا طرزِ زندگی اس زمانے سے چلا آتاہے جب سارے ایشیا میں گھومتے پھرتے قبیلوں نے ایک عام انداز کی زندگی کا ڈول ڈالا۔ یہ طرز زندگی ان بزرگوں کے طرز زندگی سے بہت ملتا جلتا ہے جن کا ذکر عہد نامۂ قدیم میں آیاہے اور آج کل کے بدوی قبائل کی زندگی سے بھی، اور ان گا تھ اور ہن قوموں سے بھی جو ازمنۂ تاریک میں یورپ کو تخت و تا راج کر رہی تھیں۔ مگر ہمیں اکثرحیرت ہوتی ہے اس خیال سے کہ ہم اس زمانے کو اگرعہد تار یک سے موسوم کرتے ہیں تو آنے والی نسلیں ہمارے زمانے کو کس نام سے پکاریں گی۔
جہاں تک مجھے علم ہے قازقوں کی خانہ بدوش زندگی کے حالات اب تک کسی نے نہیں لکھے لہذا ہم نے ان کے کارناموں اور صعوبتوں کی داستانِ پاستان لکھنے کی کوشش کی ہے مگر کسی غیر کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ خود انہی کے نقطۂ نظر سے۔ اس سے پہلے کہ ان کا طرز زندگی فراموش ہو جائے ہم یہ دکھا نا چا ہتے ہیں کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے اوراب بھی دل و جان سے ہیں اور ان پر اشتراکیت کا عذاب نازل ہونے سے پہلے وہ کس قسم کی زندگی بسرکرتے تھے، جب انھیں ایک گھٹیا نوآباد قوم قرار دے کران کے ساتھ جارحانہ سلوک کیا گیا تو انھوں نے اسی طرح مدافعت کی جیسے ہم نے ہٹلر کے تفوق جتانے پر کی تھی۔ چین کے صوبہ سنکیانگ یا جسے غیر چینی باشندے مشرقی ترکستان کہنا زیادہ پسند کرتے ہیں، میں بسنے والے آٹھ لاکھ قازقوں میں سے کم ازکم ایک لاکھ اب مر چکے ہیں۔
جب یہ بچے کھچے تارکین وطن کشمیرپہنچے تو جوکچھ بھی مختصر حالات ہیں اس عظیم قازقی داستانِ پاستان کے اخباروں میں پیش کیے گئے، ان سے ایک غیرمعمولی اخلاقی توانائی اور جرات مندانہ سرتابی کا اظہارہوتا تھا۔ اس واقعہ میں بہ انداز دگر وہی عزم صمیم کارفرما نظرآتا ہے جوان پیشرو زائرین میں موجزن تھا جنھوں نے انگلستان کو ترک کر کے بحر اوقیانوس کے اس پار ایک نئی جماعت کے قیام کی ٹھانی تھی یا ان بضد اور باہمت بنی اسرائیل میں پایا جاتا تھا جنھوں نے فرعون سے سرتابی کی اور حضرت موسٰیؑ کی سرکردگی میں صحرامیں نکل کھڑے ہوئے اور ان دس ہزار یونانیوں میں بھی کارفرما تھا جن کے ایشیا کے ایک اور علاقے سے بچ نکلنے کے واقعے کو زینوفون نے لافانی بنا دیا۔ جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ قازق محسوس کرتے ہیں کہ کشمیر میں وہ سکون سے نہیں رہ سکیں گے اور حکومت ترکیہ کے مدعو کرنے پر ترکی جانے والے ہیں تو ہم نے طے کر لیا کہ ہم خود ترکستان جائیں گے اوران سے معلوم کریں گے کہ انھوں نے اس درجہ خوفناک سفر کو طے کرنے کے لیے اپنی جان کو جوکھم میں کیوں ڈالا اور پھر آزادی تک پہنچنے کے لیے انھوں نے جو دو ہزار میل کی مسافت طے کی اس میں ان پر کیا گزری۔
یہ داستان دراصل انیسویں صدی کے اختتام پر ١٨٩٩ء سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ سال ہے جس سال عثمان بطور یعنی عثمان سورما پیدا ہوا۔ چینی تقویم کے مطابق جس کی پیروی قازق کرتے تھے۔ یہ سال “جنگی سورما” کا سال شمارکیا گیا۔ اس زمانے میں قازق قبائلی ہمیشہ کی طرح زندگی بسر کررہے تھے۔ چنگیز خاں ہی کے زمانے سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسحاقؑ کے زمانے سے۔ روایت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت لوطؑ سے یہ طے کیا کہ کس کے خیمے دائیں ہاتھ کو اورکس کے خیمے بائیں ہاتھ کو لگائے جائیں گے چا ہے میدان ہوں چاہے یہودیہ کی پہاڑیاں۔ بالکل اسی طرح قازقوں نے اپنے درمیان اور منگولی پڑوسیوں کے درمیان کوہ الطائی اور کوہ ملکوتی اور ان پہاڑوں کے بیچ کی زمین جو زنگاریہ کہلاتی ہے، عبرانی بزرگوں کی طرح تقسیم کرلی۔ کچھ اور لوگ جو اس حصۂ زمین پر رہتے تھے اور کھیتی باڑی کرتے تھے وہ بھی رہتے رہے۔ عبرانی بزرگوں ہی طرح موسموں کے مطابق قازق اپنے خیموں کی جگہ بدلتے رہے۔
موسم بہار اور موسم گرما میں یہودیہ سے کہیں اونچے پہاڑوں پر قازق چڑھ جاتے، پہاڑوں کی چراگاہیں سطح سمندر سے دس دس بارہ بارہ ہزار فٹ بلندی پرہوتیں۔ برف کی تہ تک جہاں برف ہمیشہ جمی رہتی ہے ان میں رس بھرا سبزہ لہلہاتا رہتا۔ جب خزاں کی سرد ہوائیں برف بدوش آتیں تو یہ قبائل وسطی ایشیا کے وسیع صحراؤں اورلق دق میدانوں کے کنارے اُتر آتے۔ یہاں انھیں اپنی روزی بلکہ رہائش اور لباس کے لیے بھی خدا ہی کا آسرا ہوتا یا پھر اپنے مویشیوں کا۔ اس سارے علاقہ میں قازق جہاں چاہتے گھومتے پھرتے۔ اکثر ان کی کلائیوں پر شِکرے بیٹھے ہوتے جیسے کسی زمانے میں ہمارے بڑوں کو ان کا شوق تھا۔ وہ اپنے گھوڑوں پر سوار چلتے رہتے اور کئی کئی مصرعوں کے بند گاتے جاتے اور بند کسی لمبی آکار پر ختم ہوتا اور یہ آکار وادیوں میں دیر تک ارغنوں کی طرح گونجتی چلی جاتی۔
ترکی میں جو قازق مہاجر اب موجود ہیں ان میں سے سب نہیں بیشتر وہ ہیں جن کا تعلق کیرائی قبیلے سے ہے، یہ قبیلے والے اُلّو کے پروں کا ایک طرہ اپنی تمک یا ٹوپی میں لگاتے ہیں تاکہ قازقوں کے دوسرے قبیلوں میں ممیّز رہیں۔ پورے کیرائی قبیلے کے افراد کی تعداد لاکھوں پر ہے لیکن اشتراکیوں کی عملداری سے پہلے عموماً وہ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے، ہر چھوٹے قبیلے میں کوئی سو خاندان ہوتے تھے، تین چار سو افراد۔ ان کا ایک سردار ہوتا تھا، دولت کے اعتبار سے وہ چاہے مالدار نہ ہوں لیکن جانوروں کے لحاظ سے وہ آسودہ حال ہوتے تھے۔ ایک اوسط قبیلے کے پاس کچھ انفرادی اور کچھ شرکتی سب ملا کر کوئی دس ہزار بھیڑیں، دو ہزار مویشی، دو ہزار گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ ہوتے، لہذا جہاں ان کا پڑاؤ ہوتا وہاں شور مچا رہتا۔ بے شماربھیڑیں اوران کے بچے ممیاتے، مویشی ڈکراتے، اونٹ بَلبلاتے، ان آوازوں میں اونٹ کے گھونگھرؤں کی جھنکار، مویشیوں کے گلے میں لٹکے ہوئے گھنٹوں کی آواز اور بھیڑوں کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں کی صدائیں شامل ہو کر عجب شور برپا کرتیں۔
جب قازق پڑاؤ بدلتے توجتنے تندرست جا نور ہوتے سب پر قبیلے والوں کا طرح طرح کا سامان لادا جاتا اور چھوٹے بچے بھی لاد د یے جاتے۔ بچے جب ذرا بڑے ہو جاتے تو انھیں پہلے بھیڑ پر سوار کیا جاتا،پھر گائے پر اور آخر میں گھوڑے پر۔ یوں چھوٹی سی عمر ہی میں ہرقازق لڑکا اور لڑکی عمدہ شہسوار بن جاتی۔ چینیوں یا اشتراکیوں سے بہت سے لڑکوں نے اپنی پہلی لڑائی دس سال کی عمرمیں لڑی، حالانکہ جدید قازق رہنماؤں میں سب سے مشہور رہنما عثمان بطورجن کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے بارہ سال کی عمرسے پہلے کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوا۔
لڑائی کے فن میں عثمان بطور کا استاد ایک چھاپہ ماررہنما بوکو بطور تھا۔ یہ قازقوں میں اسی طرح مشہورتھا جیسے انگلستان میں رابن ہڈ، البتہ مشرقی ترکستان کے باہر اسے بہت کم لوگ جانتے تھے۔ بوکو بطورکے زمانے میں مانچوحکومت تھی۔ ٹیکس لینے والے چینی حکام قازقوں کے علاقوں میں در آتے اور ان کے مویشی زبردستی لے جاتے، اسے وہ ٹیکس وصول کرنا کہا کرتے؛ اسی طرح چینی کسان گھس آتے اور قازقوں سے ان کی کھیتی باڑی کرنے کی زمین چھین لینے کی کوشش کرتے۔ ان دونوں حملہ آوروں سے قازق لڑتے رہتے۔ بعد کے زمانے میں چینی اور روسی اشتراکیوں نے کوشش کی کہ قازق مارکس کے بتائے ہوئے طریقوں پراپنی زندگی بسرکریں۔ وہ قازقوں کو پکڑ لے جاتے اور ان سے زمینوں پرغلاموں کی طرح کام لیتے یا روسی مالکوں کی کانوں اورکارخانوں میں ان سے جانوروں کی طرح سلوک کرتے۔ قازق ان اشتراکیوں سے مسلسل لڑتے رہے۔
قازقوں کا ایک سردار حسین تجّی آج کل ترکیہ میں دیویلی کے قریب رہتا ہے، ہم نے جب اس سے دریافت کیا کہ تم نے اپنا وطن کیوں چھوڑا؟ تو اس نے کہا:
“جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ انسان مرجائے۔ جانور انسان کو خدا سمجھتا ہے، یہ بالکل لغو بات ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کو خدا سمجھنے پر مجبور کیا جائے۔”
اس سے تقریباً ایک صدی پیشتر ایک اور قازق رہنما کائن سری نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات اس وقت کہی تھی جب روسیوں نے ایک قازق کو رشوت دے کر صلح کی شرطیں منوانی چا ہی تھیں۔ اس کا قصہ یہ ہے کہ روسی قاصد نے قازق سے جب پوچھا : “مضبوط سینگوں والا مینڈھا چاہے کتنے ہی بڑے گلے کا رہنما کیوں نہ ہو کیا شیر کا مقابلہ کر سکتا ہے؟”
کائن سری نے کہا:
“وہ شخص جو کسی بڑے مقصد کے لیے جال بچھاتا ہے اپنی مردانگی کو جال ہی میں چھوڑ جاتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ انسان لڑ کرمرجائے یا بے آب صحرا میں دم توڑ دے، بجائے اس کے کہ بےعزتی کو قبول کر لے اور غلام بن کر زندہ رہے؟”
اس عقیدہ کے ساتھ ہمارے ہی زمانے کے قازق کمرمیں تلوار لگاتے، ہتھ گولے پیٹی میں لٹکاتے، رائفل یا مشین گن شانے پر آویزاں کرتے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر میدان جنگ میں کود پڑتے، اب ان میں چنگیز خاں اوراطلا اور تیمورلنگ کی طرح ملک گیری یا کشورکشائی کا جذبہ نہیں تھا، وہ اب آخری لڑائی لڑ رہے تھے اپنے محبوب طرز زندگی کو بربادی سے بچانے کے لیے۔ دو نہایت قوی شہنشاہیاں سوویت یونین اورچین، چنگیز خاں سے بھی زیادہ قوی اور زیادہ بے رحم، اسے مٹا دینے پر تلی ہوئی تھیں۔ قازقوں کو اس کا احساس تھا کہ اتنے زبردست غنیموں سے وہ کبھی جیت نہ سکیں گے۔ مگر اس کے باوجود ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ حسین تجّی اور کائن سری کی طرح وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ جانوروں کی طرح زندہ رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔
وہ لڑائی جوچینی قومی تحریک کے خلاف شروع ہوئی اور بعد میں چینی اور روسی متفقہ اشتراکیت کے خلاف جاری رہی، ۱۹۳۰ء اور ۱۹۵۱ء کے درمیا نی وقفوں کے ساتھ نہایت شدّت سے بڑھتی رہی۔ ۱۹۵۶ء میں یہ جنگ اپنے پورے عروج پر تھی۔ تکلا مکان کے لق و دق صحرا اور شمالی تبت کے سنگلاخ پہاڑوں میں قازق تارکینِ وطن کشمیر پہنچنے کے لیے راہ تلاش کررہے تھے۔ جہاں تک ہمارے قصے کا تعلق ہے اس ہجرت کا انجام پندرہ مہینے کے بعد ٥٤،١٩٥٣ء میں ہوا : یعنی کشمیر سے ترکی کا ہوائی، بّری اور بحری سفر۔ یہاں ترکی حکومت کی مہربانی سے ان قازق مہاجرین کو مسکن ملا اگرچہ شاید وہ پکی چھتوں وانے مکانوں پر اپنے خیموں ہی کو ترجیح دیتے ہوں۔
قازقوں کا قصّہ سنانے سے پہلے ان خاص خاص اشخاص کا تعارف کرا دینا ضروری ہے جن سے ہمیں حالات معلوم ہوئے۔ پہلا شخص علی بیگ ہے، یہ اپنے وطن میں ایک سردار تھا۔ ترکی قانون کسی ایسے عہدے کو تسلیم نہیں کرتا کیونکہ شاید اعلیٰ افسروں کے علاوہ ترکیہ میں سب انسانوں کو برابر سمجھا جاتا ہے لیکن علی بیگ ان افراد میں سے ایک ہے جو برابر ہوتے ہوئے بھی اوروں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ جس کسی نے بھی سلیحلی میں علی بیگ سے اُس کے گھر پر ملاقات کی ہے اس نے خود دیکھ لیا ہوگا کہ وہ اب بھی کوئی تین سو خاندانوں کے قبیلے کا سردار ہے۔ اسی کے پڑوس میں اس کا زمانۂ جنگ کا رفیق و معاون حمزہ رہتا ہے۔ علی بیگ اور حمزہ، انہی دونوں نے قازقوں اور اشتراکیوں کی طویل کش مکش کے واقعات ہم سے بیان کیے ہیں جنھیں ہم اس کتاب میں درج کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ اسی جدال و قتال میں نمایاں طور پر بسر ہوا ہے، ہم ان کے بے حد شکر گزارہیں اور دل سے مدّاح ہیں۔ اور اگر ہم سے سمجھنے میں کہیں کوتاہی ہو گئی ہو یا نادانستگی میں ہم سے کوئی غلط بیانی ہوگئی ہوتو ہم صمیم قلب سے ان سے معافی کے خواستگار ہیں۔ اس موقع پر ہم اپنے اس انگریز دوست کی بھی ستائش کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے ساتھ ترکی گیا اورترجمان کے متفرق فرائض ادا کرتا رہا۔ ہم ڈگلس کیرو تھرز رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے طلائی تمغہ یافتہ کے بھی شکر گزارہیں جنھوں نے وسطی ایشیا کے متعلق اپنی بے مثل جغرافیائی معلومات نہایت کشادہ دلی سے ہمارے سامنے پیش کر دیں اور اپنی نادر تصاویر کا قیمتی ذخیرہ بھی ہمارے حوالے کردیا۔ آخرمیں حسن، علی بیگ کے بیٹے کا شکریہ بھی ہم پر واجب ہے کہ بہت سا ترجمے کا مفید کام انھوں نے کیا۔
آسودگی کے زمانے میں علی بیگ کے پاس تین بڑے خیمے تھے، یعنی ہر بیوی کے لیے ایک خیمہ۔ ان خیموں میں علی بیگ کی بھیڑوں ہی کے اون سے بنائے ہوئے نمدے کا استر لگا ہوا تھا۔ علی بیگ چونکہ سردار تھا اس لیے اس کے خیمے سفید تھے، باقی قبیلے والوں کے خیمے یا تو کالے تھے یا بھورے خاکستری۔ جب وہ اپنی جاڑوں کی قیام گاہ سے گرمیوں کی قیام گاہ کو روانہ ہوتا تو ہر خیمہ اتار لیا جاتا اور اس کے مختلف حصّے جو کئی کئی من کے ہوتے لپیٹ کر اونٹوں اور بیلوں پر لاد دیے جاتے۔ ہر خیمے کے دس یا بارہ حصّے ہوتے تھے۔ جب ان سب کوجوڑ کر خیمہ نصب کیا جاتا تو اس کی سوزن کاری کی سقف کوئی تیس فٹ کے قطرمیں پھیلی ہوتی۔ اس کے بیچوں بیچ دھواں خارج کرنے والے گول سوراخ کے نیچے ایک بڑا آہنی ظرف ہوتا جسے پانچ چھ قوی الجثہ آدمی بہ مشکل اٹھا کرعلی بیگ کے بڑے سے بڑے اونٹ پر لادتے۔ ان دنوں علی بیگ “مِنگ باشی” یعنی ہزار خاندانوں کا سردار تھا اور اس کے ذاتی مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کی تعداد ہزاروں پر پہنچتی تھی۔ جس قبیلے کا علی بیگ سردار تھا، اس قبیلے والوں کے پاس تین لاکھ بھیڑیں، چودہ پندرہ ہزار چھوٹے بڑے مویشی، نو دس ہزار دودھیالی گائیں اور شاید ایک ہزاراونٹ تھے، ان کے علاوہ اتنے گھوڑے تھے کہ ہر مرد، عورت، لڑکے اور لڑکی کو سواری کے لیے ایک ایک گھوڑا مل جائے۔
علی بیگ اور حمزہ اپنے وطن میں پڑوسی تھے۔ حمزہ کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اپنی قوم کے دشمنوں سے اس نے دست بدست کم سے کم ایک سو سولہ لڑائیاں لڑی ہیں۔ اس وقت بھی اس کی عمر صرف۳۳ سال ہے لیکن دس سال کی عمر میں وہ اپنے بیس سالہ بڑے بھائی یونس حجی کے شانہ بشانہ لڑائی میں شریک ہوا تھا۔ قد و قامت میں وہ علی بیگ سے چھوٹا ہے لیکن ذہنی اعتبار سے وہ اتنا ہوشیار ہے کہ بیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے کرنل کے برابر کا رتبہ اس نے حاصل کرلیا تھا۔
اپنے وطن مشرقی ترکستان میں علی بیگ، حمزہ اور ان کے قبیلے والے موسم گرما میں زیادہ تر دہی اور پنیر کھاتے اور جاڑوں میں گوشت، روٹی تمام سال کھاتے تھے۔ قازق گھر والیوں کو اپنی اس ہنرمندی پر بڑا ناز ہے کہ دودھ سے وہ چھبیس قسم کی چیزیں بنا سکتی ہیں۔ ان میں پتھر کی طرح سخت، بھیڑ کا پنیرہوتا ہے جسے وہ اشتہا انگیزی کے لیے کھانے سے پہلے چباتے رہتے ہیں اور خمیر کی ہوئی چھاچھ “کومیس” بھی ہوتی ہے جسے سفرمیں مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے ہیں اور اسے دعوتوں میں مزے لے لے کر پیتے ہیں۔
سب سے اچھی کومیس وہ سمجھی جاتی ہے جو گھوڑی کے دودھ سے تیار کی جاتی ہے لیکن عموماً ہرجانور کے دودھ سے تیار کی جا سکتی ہے۔ حسب ضرورت دودھ دینے والا جانور ہونا چاہیے۔ اشتراکیوں کی تاخت سے پہلے وہ قازق خاندان بہت غریب سمجھا جاتا تھا جس کے خیمے میں کومیس کا ایک مشکیزہ آویزاں نہ نظر آئے۔ مشکیزہ کے منہ میں ایک ڈوئی سی پڑی رہتی اور جب بھی گھر کا کوئی آدمی اس کے قریب سے ہو کر گزرتا تو زور زور سے اس ڈوئی کو گھما دیتا تاکہ خمیر خوب اچھا اٹھے۔
ترکیہ میں ایک اور مہاجر جو خصوصیت سے قابل ذکرہے، وہ شخص ہے جس نے کوہ الطائی کے عثمان بطور کے حالات ہمیں بتائے۔ اس کے ساتھی اسے کارا ملّا کہتے ہیں، بھاٹ کارا ملّا۔ ہماری ملاقات سے کچھ ہی پہلے کارا ملانے عثمان سورما کی شان میں ایک رزمیہ نظم کہی تھی۔ ہم دیویلی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے، ہم نے اسے اپنی جائے قیام پر بلا کر اپنے دستی ٹیپ ریکارڈ پر یہ نظم ریکارڈ کرلی تھی۔ ترکیہ کے عین قلب میں یہ ایک چھوٹا سا تجارتی شہر ہے سلیحلی کی بستی سے چارسو میل کے فاصلے پر۔ سلیحلی میں قازق مہاجروں کا ایک اور گروہ ٹھہرا ہوا تھا جس میں سب ملا کرسات آٹھ سوقازق تھے۔
کارا ملّا نے اپنی رزمیہ نظم کچھ گا کراور کچھ لحن سے اور کچھ تحت اللفظ سُنائی۔ جس پس منظر میں اس نظم کو پیش کیا گیا وہ نہایت نامناسب تھا۔ اپنے وطن مشرقی ترکستان میں کارا ملّا نہایت اعزاز کے ساتھ سردار کے خیمے میں بیٹھتا۔ خیمے کے بیچ میں بڑی سی دیگ اُپلے یا لکڑی کی آنچ پرچڑھی رہتی۔ بل کھاتا ہوا دھواں آہستہ آہستہ خیمے کی نمدہ دارسقف کی طرف اٹھتا اور اوپر کے گول سوراخ میں سے نکل کر رات کی سرد ہوا میں تحلیل ہو جاتا۔ تھوڑی دیر کے بعد خیمے کے دروازے کا پردہ اُٹھتا اور مرد، عورتیں، لڑکے اور لڑکیاں چپکے سے اندر آجاتیں۔ جوجو اندر آتا جاتا اپنے کفش پوش ایک طرف کو اتار دیتا اور حسب حیثیت قریب یا دور کی جگہ پر بیٹھتا جاتا۔ خیمے کی درمیانی آگ کے چاروں طرف زمین پر نمدے کا فرش ہوتا۔ گدوں، نمدوں اور گھر کے بُنے ہوئے قالین پاروں پر سب آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے خاموش اور آنکھیں پھاڑے۔
دیویلی میں کارا ملّا کے سامعین صرف چھ سات قازق ہو تے جو اسی کی طرح مہاجرتھے اور اسی کی طرح انمل بے جوڑ یورپی کپڑے پہنے ہوتے جو ترکی ہمدردوں کے عطا کردہ ہوتے۔ ان کے علاوہ سامعین میں ایک ترکی فلسفی تھا، لسانیات کی پروفیسر ایک ترکی خاتون تھیں، ان کے شوہرجو انہی کی طرح اسی جامعہ میں ایک مدرس تھے، ان دونوں کا ایک مشترک معاون تھا قازق زبان بولنے والا، ہمارا وہ ساتھی جسے ہم انگلستان سے لائے تھے اور اس وقت ریکارڈنگ مشین چلا رہا تھا۔ خیمے کے خاموش پردے کے بدلے یہاں ایک لکڑی کا دروازہ تھا، جب اس میں سے لوگ اندر آتے یا باہر جاتے تو یہ زور سے چرچراتا۔ ذرا ذرا سی دیر کے بعد کوئی لاری شور مچاتی کھڑکی کے قریب سے گزرتی رہتی یا مرغا بانگ دینے لگتا، اور جب ہم نے ریکارڈ مکمل کرنے کے بعد کارا ملّا اور اس کے دوستوں کو سُنایا تو یہ ساری آوازیں بھی اس میں شدت کے ساتھ موجود تھیں۔
مشرقی ترکستان میں قازقوں کے گرمائی مسکن شاہراہوں سے اتنے فاصلے پر ہوتے تھے کہ لاریوں کے دھماکوں سے ان کے سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا تھا لیکن بعد کے زمانے میں یہ لاریاں ان کے سرمائی مسکنوں کے قریب سے گزرنے لگی تھیں، یہ لاریاں عموماً روسی اشتراکیوں کی ہوتی تھیں اور ان میں مشرقی ترکستان کی لوٹ کا سامان بھرا ہوتا تھا اُسی لُوٹ کو وہ خراج کہتے تھے۔ زندہ جانور، کسانوں سے چھینا ہوا بے پیسے کوڑی کا گیہوں، وہ خام دھاتیں اورسونا تک لُوٹ کے سامان میں شامل ہوتا تھا جسے الطائی میں بیگاروں سے کھدائی کر کے حاصل کیا جاتا تھا۔
عثمان بطورکا جو رزمیہ گانا کارا ملّا سنایا کرتا تھا اس میں بھی قازق شاعری کی طرح قدیم تاریخ اور روایت کے اتنے ناقابل فہم اشارے اورحوالے تھے کہ ہم کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر اس میں ایک مصرع تھا “وہ جو طلائی کفتان پہنتا ہے”، اس پر ہم دیر تک غور کرتے رہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پھر چند ہفتے بعد ہم کونیا کا عجائب گھر دیکھنے گئے جس میں رقص کرنے والے درویشوں کے تبرکات رکھے ہوئے تھے۔ یہاں ہم نے دیکھا کہ اس فرقے کے بانی نے چھ سات سو سال پہلے ایک قسم کا خرقہ پہنا تھا جو کفتان کہلاتا تھا۔ یہ ایک خاص قسم کا کرتا تھا جو سینہ بند پر پہنا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کا پہننے والا دشمن کے ہتھیاروں سے محفوظ رہتا ہے لیکن شاید بدقسمتی سے عثمان کے کفتان میں یہ خوبی نہیں تھی۔ سالہا سال تک وہ دشمنوں کے گزند سے محفوظ ضرور رہا لیکن بالآخر اشتراکیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
عثمان بطور کومرے ابھی صرف پانچ سال ہوئے ہیں مگر قازقوں میں اس کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں اوراس کا بھی ہمیں یقین ہے کہ آہنی پردے کے پیچھے بھی اکثر قازق گھرانوں میں یہ کہانیاں کہی جاتی ہوں گی، اس کے مداحوں نے اس کے نام سے ایک سنہ بھی مقررکر دیا ہے، اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ۱۹۳۹ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی تو قازق کہیں گے “عثمان بطور کے ۴۰ میں یہ بات ہوئی تھی”۔ مگراس عقیدت کے با وجود بعض مہاجروں نے کارا ملّا کی رزمیہ نظم پرخاصی لے دے کی کہ اس نے بطلِ حُرّیت سے شجاعت کے بعض وہ واقعات منسوب کردیے جو دراصل دوسرے سورماؤں کے کارنامے ہیں۔ اس کہانی میں اس قسم کے چند کارناموں کا ذکر آیا ہے۔ اگر ہم نے غلطی سے انھیں کسی غلط شخص سے منسوب کر دیا ہو تب بھی اس کا کافی ثبوت موجود ہے کہ یہ کارنامے انجام ضرور دیے گئے لہذا بہادری کے ان واقعات کو قازقوں کی عظیم رزمیہ کے اجزا سمجھنا چاہیے جو ایک فرد کے کا نا موں سے کہیں زیادہ حیثیت رکھتی ہے کہ ایک پوری قوم کے کارناموں پر مشتمل ہے۔
جب کوئی بھاٹ اپنے گیت سناتا تو ساتھ ساتھ ڈمبری بھی بجاتا۔ ڈمبری ایک لمبا سا ساز ہے ستار کی طرح کا، مگر اس میں صرف دو تار ہوتے ہیں اس لیے اسے ایک قسم دو تارہ سمجھنا چاہیے۔ کارا ملا جیسےاستاد ان تاروں کو کچھ اس انداز سے چھیڑتے ہیں کہ ہر تارایک زخمے سے دو آوازیں دیتا ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک زخمے میں دو سُر کیسے پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر مشّاق استاد کے زخمےسے پیدا ہونے والے سُر اس وقت تک گونجتے رہتے ہیں جب تک دوسرا زخمہ نہ لگا یاجائے۔ دیویلی میں کئی دفعہ میں نے اس ساز کو بجاتے دیکھا ہے۔ سازکار کبھی تو بڑے انہماک سے اسے بجاتے ہیں اور کبھی بڑی بے توجہی سے۔ کا را ملا ایک دھن بڑی دلکش بجاتا ہے، یہ دھن بہت موثر اور دکھ بھری تھی،ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنے وطن واپس جانے کی آرزو اس میں تڑپ رہی ہے۔ اس نے بتا یا تھاکہ یہ دھن الطائی کی ہے مگر اس کا نام اس نے نہیں بتایا۔
بہت سے قازق ڈمبری بجانا جانتے ہیں اور ترکی میں جن سے ہماری ملاقات ہوئی نہ صرف گانا جانتے تھے بلکہ دھن پر اپنے بول بھی کہہ لیتےتھے۔ سینکڑوں سال پرانی دھنوں پر انھوں نے اپنے نئے نئے بول اُٹھالیے تھے۔ اس قسم کے بہت سے نو ساختہ گانوں کے ریکارڈ بھر کے ہم اپنےساتھ لے آئے لیکن عموماً یہ نئے بول ان لوگوں کے کہے ہوئے ہیں جو ہمیں اپنا گانا سنایا کرتے تھے مثلاً کارا ملاّ، علی بیگ کی تینوں بیویاں، پندرہ سولہ برس کے لڑکے لڑکیاں یہ گانے بناتے اور گاتے۔ایک دھن ہم سلیحلی سے بھی ریکارڈ کرکے لائے تھے۔ یہ دھن ایک عجیب شکل کے ساز پر بجائی گئی ہے۔ یہ سیدھی سادی سی بانسری ہے جس میں صرف تین سوراخ ہوتے ہیں اس بانسری کا نام سیبزکا ہے۔ بانسری بجانے والا بانسری کے او پری سرےکے اندر اپنی زبان اس طرح داخل کرتا ہے کہ اس سے سیٹی کی آواز پھونک مارنے پر پیدا ہوتی ہے۔ یہ بانسری ایک کلے کی طرف رہتی ہے اور دوسرےکلے سے مشک باجے کی طرح ایک بانسری صرف آس دیتی رہی ہے۔ اِس پر اسرار طریقہ سے وہ ایک ایسا غیرمعمولی نغمہ پیدا کرتا ہے جو کارا کی روانی کی عکاسی کرتا ہے۔ کارا، کالا، ارتعش وہ بڑا دریاہے جو کوہ الطائی سےنکل کر سوویت قازقستان اور سائبیریا کے چوڑے چوڑے بنجر میدانوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا دریائے اوب میں جاملتا ہے جوآگے چل کر بحر منجمد شمالی میں جا گرتا ہے۔
جہاں تک ہمیں علم ہے ہم نے جتنے قازقی نغمے دیویلی اور سلیحلی میں ریکارڈ کیے وہ پوری آزاد دنیا کے لیےبالکل ناشنیدہ ہیں سوائے شایدایک گیت کے جسے روسی فوج نے جنگ کے زمانے میں اپنا کوچ کا گیت بنالیا تھا۔ ہمارے ریکارڈ کیے ہوئےسرمائے میں ایک گیت کا عنوان ہے “بگلے کی پرواز”، یہ گیت علی بیگ کی دو بیویوں خدیجہ اور مولیا نے گایا ہے۔ بگلوں کو قازق بُرےشگون کے پرندوں میں شمارکرتے ہیں اس لیےیہ گیت غمناک ہے۔ اسی طرح ایک اور درد ناک گیت “نوحہ” ہے، یہ گیت ایک دس سال کی لڑکی نے گایا ہے اور اس میں اپنے مرحوم باپ کی یاد کو تازہ کیا ہے۔ “پریم تاؤ میرے وطن کےپہاڑ” ایک ایسا گیت ہے جس میں اپنے وطن کو بڑی دلسوزی سے یاد کیا گیا ہے اور مشرقی ترکستان کے پہاڑوں کی جتنی محبوب چوٹیاں ہیں، ان سب کا بڑی محبت سے اس گیت میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک اور گیت جو مولیا کا گایا ہوا ہے “بادر بودہ” کہلاتا ہے۔ کارا ملا اور اس کے ہمنواؤں نے “اطفال مکتب” کا گیت ریکارڈ کرایا جس کا مصرع ہے “کرو علم حاصل بنامِ خدا”۔ “یہ بدلتی ہوئی دنیا” اور “اے دنیا” جو دو گیت ہیں، غالباً چار سو سال پہلے ان کی دُھنیں بنی تھیں، لیکن جو بول ان میں گائے گئے ہیں، وہ خاص طور پر ہمارے لیے اب لکھے گئے ہیں۔ ہمیں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ قازقوں کو اپنی روایتی دھنوں پر نئے بول کہنے کا بڑا شوق ہے۔ ان کے تصور کے لیے تو یہ بات اچھی ہے لیکن سورماؤں کے کارناموں پر جو پرانی رزمیہ داستانیں لکھی گئی تھیں وہ رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
جب بھاٹ کارا ملا اپنی رزمیہ منظومات ریکارڈ کرا چکا تو ہم نے اس سے فرمائش کی کہ عربی رسم الخط میں انھیں لکھ بھی دے، کیونکہ قازق عموماً عربی ہی میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے کارا ملا اور اس کے دوستوں کی دعوت کی۔ اگر الطائی کے سلسلۂ کوہ کے خیمے میں ہم اس کے مہمان ہوتے تو ہم سب کو ایک ہی گہری رکابی میں اپنی انگلیاں ڈبو ڈبو کر کھانا پڑتا اور چونکہ قازقوں کے آداب طعام سے ہم ناواقف تھے اس لیے شاید ہماری انگلیاں جھلس بھی جاتیں، لیکن دیویلی میں ہم سب چھری کانٹے سے کھاتے تھے، اس لیے ترکی ہوٹل کا مالک رکابیوں میں کھانا لگا لگا کر لاتا رہا، حسین تجی کارا ملا کے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف مَیں تھا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہو چکے تو حسین تجی نے بھاٹ پر پُر لطف فقرے کسنے شروع کیے۔ کارا ملا خاموشی سے انھیں انگیز کرتا رہا بلکہ اور سب کی طرح بظاہر ان سے لطف اندوز ہوتا رہا، پھر ہم سب نے مل کر اسے اکسانا شروع کیا کہ وہ بھی کچھ بولے، اس پر اس نے دبی زبان سے کہا:
“اگر مجھے یہ اپنی ٹوپی عاریتاً دے دے تو میں اسے اس کی تگنی قیمت ادا کروں گا”۔
حسین تجی کا دبلا پتلا ناک نقشہ اور منگولی چہرہ تھا، ہلکی نیلی آنکھیں اور چھدری چگی ڈاڑھی ایک رنگ کالی تھی، اس میں ایک بال بھی سفید نہیں تھا، حالانکہ وہ ساٹھ سے اوپر تھا۔ بہت بڑے گھیر کی گول ٹوپی اس کے سر پر رکھی عجیب چیز دکھائی دیتی تھی۔
حسین تجی سے کارا ملا کم از کم دس سال چھوٹا ہے مگر اپنے معمر دوست کے برعکس اس کے اگلے دانت سارے غائب ہیں۔ اس کی وجہ وہ صعوبتیں ہیں جن سے زندگی میں اسے دوچار ہونا پڑا۔ یقیناً اس کا اصلی نام کارا ملا نہیں ہے جس کے معنی ہیں کالا مُلّا، بلکہ اس کا نام کریم اللہ ہے۔ شاید اس وجہ سے اس کا نام کارا ملا پڑ گیا ہو کہ اس کا رنگ کالا تھا، یا اس وجہ سے کہ وہ تعویذ گنڈے ملاؤں کی طرح کرتا ہو گا۔ بہرحال ہم وثوق سے وجہ تسمیہ نہیں بتا سکتے۔ لیکن وہ ایک سچا مسلمان ہے اور سچے مسلمان جادو ٹونے اور ٹوٹکے نہیں کیا کرتے۔ البتہ قازقوں میں بھی ایسے نیم ملا ہوتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے عالموں کی دیکھا دیکھی اس قسم کے ڈھونگ رچا لیتے ہیں۔
تفصیلی حالات تو آگے چل کر ہمیں معلوم ہوں گے۔ حسین تجّی نے اشتراکیوں کی تاخت سے تنگ آ کر بیس سال ہوئے اپنا آبائی مقام بارکُل چھوڑ دیا تھا اور غزکل – غازکول نام کی ایک جھیل کے قریب بود و باش اختیار کر لی تھی۔ غازکول کے لفظی معنی ہیں ہاتھ بھر کی جھیل ڈول کی شکل کی۔ لہذا اس کا نام سُنتے ہی ہر قازق سمجھ جاتا ہے۔ یہ ایک تنگ اور لمبی سی جھیل ہے جس کی شکل ڈول جیسی ہے۔ قازق نام بامعنی ہوتے ہیں اور جنھیں ان کی زبان آتی ہے وہ نام ہی سے اس کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں۔ ایک نام مجھے بہت پسند آیا “چہکتی چڑیوں کی وادی”۔ لیکن ایسے ناموں میں ایک بڑی دقت بھی ہوتی ہے، وہ یہ کہ دور دور کے علاقوں میں بھی ناموں کا توارد ہو جاتا ہے۔ سست رو خانہ بدوش کےلیے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تیز رفتار زمانے کے باشندوں کے لیے ایک ہی جیسے نام پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔
جب حسین تجّی بارکل اور غزکل میں اپنے نمدہ دار خیموں میں بیویوں اور بچوں اور لواحقین کے ساتھ رہا کرتا تھا تو اس کا ایک دوست تھا، سلطان شریف۔ یہ بھی قریب ہی رہتا تھا۔ ہماری ملاقات سلطان شریف سے “مرکز قیام” میں ہوئی۔ یہ مرکز استنبول کے قریب ہے۔ قازق مہاجروں کو زمین دینے سے پہلے ترکی حکومت کچھ عرصہ “مرکز قیام” میں رکھتی ہے۔
سلطان شریف سے ہمارا تعارف مشرقی ترکستان کے ایک اور مہاجر محمد امین بغرا نے کرایا جس کا اب اپنا نہایت خوشنما گھر استنبول کے روبرو باسفورس کے ایشیائی علاقے میں ہے۔ محمد امین قازق نہیں ہے، ترکی کا رہنے والا ہے، یہ ان ترکوں میں سے ہے جو زمیندار ہیں اور تاجر ہیں اور مشرقی ترکستان میں اسی وقت سے آباد رہے ہیں جب سے قازق وہاں آباد ہوئے، ان کی تعداد بھی قازقوں سے زیادہ ہی ہے۔ لیکن محمد امین کا باپ خُتن کا امیر تھا اور خود محمد امین سنکیانگ کی علاقائی حکومت کا نائب صدر تھا۔ مشرقی ترکستان ہی کو چینی لوگ سنکیانگ کہتے ہیں۔ جب ١٩٤٩ء میں اشتراکیوں نے اس علاقائی حکومت پر قبضہ کیا تو محمد امین وہاں سے بچ نکلا اور کشمیر پہنچ گیا۔ اس افتاد کے پڑنے کی وجہ سے وہ ان تمام سازشوں سے واقف ہے جن کی وجہ سے اسے ترک وطن کرنا پڑا اور جو قازق مقاومت میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔
علی بیگ، حمزہ، کارا ملا، حسین تجّی، سلطان شریف اور محمد امین سب ابھی جیتے ہیں۔ مشرقی ترکستان کی جہدِ آزادی میں ان کے علاوہ جن لوگوں نے حصہ لیا اور جن کے ناموں اور کارناموں کا اس کتاب میں ذکر ہے، وہ سب مر چکےہیں مگر ان کی یاد ان کے بہادر ساتھیوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
پہلا باب
سورما کی پیدائش
قازقوں کے نمدہ دار خیموں کے آس پاس آئے دن پیدائشیں اور موتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کوئی ایسا غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا کہ اس کا کوئی باقاعدہ نقشہ رکھا جائے یا اس پر حاشیہ آرائی کی جائے۔ یہ تو ایک نظامِ قدرت ہے کہ مناسب موسم اور وقت مقررہ پر بھیڑ، بکری، گائے، اونٹنی اور گھوڑیوں کے ہاں بچے ہوتے رہیں، انسانوں کے ہاں بھی اسی فطری طریقے اور تقریباً ایسی ہی پابندی کے ساتھ بچے ہوتے رہتے ہیں۔ البتہ موسم کی قید تولید انسانی میں نہیں ہوتی۔ جانوروں کے نوزائیدہ بچوں کی طرح انسانی بچوں کو بھی والدین کی خاص توجہ، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کوہستانی قبیلوں میں والدین کو بہت کام کرنے پڑتے ہیں اس لیے بچے زیادہ سے زیادہ اپنے ہی وسائل پر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ چنانچہ بچے متواتر تجربے کیے جاتے ہیں اور طرح طرح کی غلطیاں کرتے رہتے ہیں اور بچے اپنے بڑوں کے طرزِ عمل کو بڑے غور و خوض سے دیکھتے رہتے ہیں اور مفید و کارآمد باتیں سیکھتے رہتے ہیں۔
بچوں کی پیدائش جیسے واقعات کو قازق خیموں میں کوئی اہم واقعہ نہیں سمجھا جاتا اس لیے ان کا کوئی نقشہ یا گوشوارہ نہیں بنایا جاتا۔ البتہ سال بھر کے تیج تہواروں کا حساب رکھا جاتا ہے، مثلاً رمضان شریف اور عیدین کا۔ ترکی میں جتنے قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جو ہمیں یہ بتا سکتا کہ عثمان بطور کس دن یا کس مہینے میں پیدا ہوا۔ ہاں یہ سب جانتے تھے کہ کس سال میں پیدا ہوا۔ اس کے ماں باپ کو مرے عرصہ ہو گیا۔ اس کے تین بھائی اور بہن گمان غالب یہ ہے کہ مر چکے ہیں۔ بالفرض اگر جیتے بھی ہوتے تب بھی اس کی تاریخ پیدائش سے ناواقف ہوتے کیونکہ عثمان بطور پہلونٹی کا تھا۔ اس کے دوستوں کا بیان ہے کہ وہ خود کبھی اس موضوع پر گفتگو نہیں کرتا تھا۔ سلطنت چین کے اس دور دراز علاقے میں ایسا کوئی محکمہ نہیں تھا جس میں پیدائش و اموات کا اندارج کیا جاتا ہو۔ ہمیں بس اتنا معلوم ہے کہ وہ ١٨٩٩ء میں پیدا ہوا تھا، یعنی اسی سال جس سال بوئر جنگ شروع ہوئی۔
عثمان کا باپ اسلام باعی صرف گلہ بان یا مویشیوں کا پالنے والا نہیں تھا، وہ ایک منفرد قسم کا “خشک” کسان بھی تھا۔ اس کا مسکن کک تُغائی میں تھا جو الطائی کا ایک ضلع ہے جہاں روسی، چینی اور منگولی علاقوں کی حدود ملتی ہیں۔ وہاں سے یہ مقام کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ “خشک” کسان ہونے کی وجہ سے اسلام باعی جب چاہے باہر جا سکتا تھا۔ اسے دوسرے “تر” کسانوں کی طرح فصل کے لیے پانی نکالنے کی ضرورت نہیں تھی جو میدانوں میں کھیتی باڑی کرتے اور نہری پانی کے محتاج رہتے۔
ہر موسم بہار میں اسلام باعی اپنے بیل جوت کر زمین پر ہل چلاتا اور گیہوں کا بیج ڈال دیتا۔ اس کے بعد وہ اپنے بال بچوں اور نمدہ دار خیموں اور اپنے گلوں اور ملازموں کے لے کر الطائی کی اونچی چراگاہوں میں چلا جاتا۔ کھیتوں میں جو بیج ڈالتا، اُسے ہوا، پانی، سورج اور خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا کہ آپ ہی آپ بیج پھوٹیں، فصلیں تیار ہوں اور پک جائیں۔ وقت کا اندازہ لگا کر وہ فصلیں کاٹنے کے لیے پھر نیچے اُتر آتا۔
چنانچہ ١٨٩٩ء میں بھی اسلام باعی نے اپنی بیویوں کو ساتھ لیا اور کوہ الطائی کی بلندیوں پر جا کر اس نے اسی طرح خیمے لگائے جیسے حضرت ابراہیم نے یہودیہ کی پہاڑیوں میں لگائے تھے۔ اس کی ایک بیوی کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ہمیں یہ تو ٹھیک نہیں معلوم کہ اس نے کس مقام پر خیمے لگائے تھے لیکن توکُز تارو ہی ایک ایسا مقام تھا جو اس کے لیے مناسب تھا۔ یہ ایک وادی ہے جس کے نام کے معنی ہیں “نو دنتی کنگھی”۔ اس وادی کا یہ نام اس وجہ سے پڑا تھا کہ سر بفلک پہاڑوں کے نو شگافوں سے چشمے اُبل کر اس وادی میں آن ملتے۔ الطائی کی بلندیوں سے ان کا ٹھنڈا یخ پانی جنگل اور چراگاہوں کی اس سرسبز وادی میں آتا تھا۔ اسی فراخ وادی میں اسلام باعی اور اس کے ساتھ سو خاندانوں کا قبیلہ گرمیوں بھر قیام کرتا۔
مشرقی ترکستان میں توکُز تارو نام کی کئی وادیاں ہیں جیسے کک سو یا نیلے سمندر نام کی کئی کئی جھیلیں ہیں اور کئی چشمے قزل اُزون یا سُرخ چشمے کہلاتے ہیں۔ عجیب نام کا ایک درہ بھی ہے جو “درۂ بادِ مُعزّز” کہلاتا ہے، اسے چینی لوگ لاؤ فنگ کو کہتے ہیں۔ چین کے صوبہ سنکیانگ کے دار الحکومت اُرمچی کو سوویت قازقستان سے تین شاہراہیں جاتی ہیں، ان میں سے ایک اس درۂ باد معزز میں سے گزرتی ہے۔ جب اس صوبے میں پہلا اشتراکی گورنر چن شُوجن متعین ہوا تو چینی فوجی دستے سے لدی ہوئی ایک لاری درے کے اوپر بگڑ گئی۔ لاری کا ڈرائیور اس کی خرابی دور کرنے میں لگا ہوا تھا کہ باد مُعزز نے اس پر اور لاری پر اور لاری کے مسافروں پر برف کے تودے لگانے شروع کر دیے اور سب کے سب جم کر مر گئے۔ ان کی لاشیں بھی اس وقت ملیں جب کئی مہینے بعد برف پگھلی۔ روایت یہ ہے کہ درۂ باد معزز اکثر اس سے بھی بدتر عذاب نازل کرتا ہے مثلاً ایسی ہوا بھی چلا دیتا ہے جس سے پورے پورے قافلے اڑ کر دُور نیچے گہری جھیل میں جا پڑتے ہیں۔
کچھ دنوں بعد اسلام باعی کی بیوی کے ہاں زچگی کا وقت آ پہنچا۔ جب اسے درد لگے تو اس نے ایک ملازم کو اپنی ماں کے پاس اطلاع دینے کے لیے بھیجا، ماں کا خیمہ ایک قریب کی وادی میں لگا تھا، وہ اپنے ٹٹو پر سوار ہو کر بیٹی کے ہاں آ پہنچی، آتے ہی اس نے اسلام باعی کے “عااُول” یعنی خیمے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک رسا تان دیا۔ بیٹی سے اس نے کہا کہ اس رسے کے آگے دو زانو ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اس پر اس طرح ڈال دو کہ دونوں بغلیں رسّے پر ٹک جائیں۔ پھر اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر اس رسے پر اپنا دباؤ ڈالو۔ رُک رُک کر بس یہی کرتی رہو۔ جب درد اور بڑھ گئے تو ماں ایک بَرّے کی کھال کا بنا ہوا چھوٹا مشکیزہ اٹھا لائی اور بیٹی سے بولی “جب تم آگے کو دباؤ دیا کرو تو اس مشکیزہ میں زور سے ہوا بھرو”۔ بالآخر جب ماں نے دیکھا کہ اب زچگی کا وقت آ پہنچا تو اس نے اسلام باعی سے نمدے کے چند ٹکڑے منگائے اور جوں ہی اس کی بیٹی رسّے پر دباؤ ڈالنے کے لیے ذرا اونچی ہوئی اس نے جھٹ یہ نمدے اس کے نیچے رکھ دیے۔ اس کے بعد بڑی بی نے اسلام باعی سے کہا “اب تمھاری ضرورت نہیں ہے جب تک بچّہ نہ ہو جائے، تم اندر نہ آنا”۔ اسلام باعی خیمے سے باہر نکل کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد ایک تیز باریک سی آواز خیمے میں سے برآمد ہوئی اور درختوں میں بادِ شمال کی سرگوشیوں میں تحلیل ہو گئی۔ سنگ ریزوں سے چشمے کی کانا پھوسی اس آواز میں جذب ہو گئی اور پھر یہ آواز مویشیوں کی آوازوں اور گھنٹیوں کی صداؤں میں گھلتی چلی گئے۔ جب اسلام باعی کے کان میں یہ آواز پڑی تو اس نے خیمے کا پردہ اُٹھایا اور اپنے کفش پوش دونوں پاؤں ٹکرا کر جھٹکے تاکہ عااُول میں بچھے ہوئے قالین ان سے خراب نہ ہونے پائیں۔ اندر جاتے ہوئے وہ دروازے میں سے جھک کر نکلا تاکہ دروازے کی چوکھٹ سے بالکل چھونے نہ پائے ورنہ آگے چل کر یہ بُرا شگون رنگ لاتا ہے۔ اسی وجہ سے دہلیز پر سے بھی وہ بہت احتیاط سے پھلانگا۔
اندر پہنچنے کے بعد اسلام باعی نے ساس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے سر ہلا کر ظاہر کیا سب خیریت ہے۔ پھر اس نے اپنی بیوی سے کہا :
“بچے کا نام کیا رکھنا چاہیے؟ اس کا فیصلہ کیا ہم اللہ پر چھوڑ دیں کہ خیمے سے باہر نکل کر میری نظر سب سے پہلے جس جاندار پر پڑے اسی پر اس بچے کا نام رکھ دیا جائے یا قرآن شریف میں دیکھ کر ہم خود ہی اس بچے کا نام تجویز کر دیں؟”
اسلام باعی کی بیوی کو معلوم تھا کہ اس سوال کا جواب کیا دینا ہے، کیونکہ بچے کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ہی بارہا اس مسئلے پر گفتگو ہو چکی تھی۔ بیوی نے کہا “قرآن شریف دیکھ کر نام رکھنا چاہیے”۔ چنانچہ بچے کا نام عثمان رکھا گیا۔ نام کا دوسرا حصہ “بطور” یعنی بطل یا سورما، جس سے اس کے اہل وطن نے اسے جانا پہچانا، ۱۹۴۲ء تک اس کے نام کا جزو نہیں بنا تھا۔ ۱۹۴۲ء میں اس کی قوم نے اُسے “بطور” کا خطاب دیا اور اسی کے ساتھ تمغۂ آزادی سے بھی اسے سرفراز کیا۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ چھٹپن میں جب کبھی اسے چوٹ پھیٹ لگ جاتی تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر چمکارتی اور کہتی “آہا میرا بیٹا بڑا بہادر سورما ہے۔ سورما کہیں رویا کرتے ہیں”۔
جب عثمان کا نام رکھا جا چکا تو اسلام باعی قبیلے کے رواج کے مطابق پھر خیمے کے باہر آیا اور اس نے ایک بھیڑ حلال کی اور اس کا پیٹ چاک کر کے اس کی اوجھڑی نکالی اور اپنی ساس کو پہنچا دی۔ بڑی بی نے اُسے صاف کر کے دودھ میں پکنے کے لیے چولھے پر چڑھا دیا، جب یہ خوب پک چکی اور دودھ گاڑھا ہو گیا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے اتار کے رکھ دیا، کیونکہ اس کے پینے سے زچہ میں طاقت آتی ہے اور دودھ افراط سے اترتا ہے۔ اس کے بعد جب اسلام باعی نے بھیڑ کی کھال اُتار لی تو اس کی ساس نے گوشت کے پارچے بنا کر اس گرم پانی کی دیگ میں انھیں ڈال دیا جو خیمے کے وسط میں آگ پر لٹکی ہوئی ہوئی تھی۔ اس سالم بھیڑ کی یخنی اور گوشت زچہ ہی کو کھلایا پلایا گیا اور جب تک یہ ختم نہ ہو گیا زچہ کو سوائے بچّہ کی نگہداشت کے کوئی اور کام نہ کرنے دیا گیا۔
دیگ کے ساتھ ہی تانبے کی ایک بڑی سی کیتلی آگ پر لوہے کے تِپائے میں لٹکی کھول رہی تھی۔ اس میں سے پانی سے لے لے کر عثمان کی نانی نے بچّے کو نہلایا۔ پھر سوتی کپڑے سے پونچھ پانچھ اسے ایک موٹا سا روئی بھرا لمبا کرتا پہنا دیا جس کا گریبان پیچھے کی طرف تھا۔ اس کے بعد اسے ایک لکڑی کے پنگوڑے میں لٹا دیا جس میں ملائم نمدے کے ٹکڑے بچھے ہوئے تھے۔ یہ نمدے بعد میں حسبِ ضرورت یا تو دھو ڈالے جاتے یا جلا دیے جاتے، صرف دودھ پلانے کے وقت تو عثمان کو گود میں لیا جاتا ورنہ سارے وقت پنگوڑے ہی میں پڑا جھولتا رہتا۔ یوں ہی پڑے پڑے وہ اتنا بڑا ہو گیا کہ پیٹ کے بل کھسکنے اور رینگے لگا۔ اس عمر کو پہنچنے کے کچھ عرصے بعد جب وہ اپنی کھٹولی پر لیٹا ہوتا تو اس کے ہاتھ اس کے پہلوؤں میں باندھ دیے جاتے۔ اگر آپ اس کی ماں سے پوچھتے کہ بچے کو انگوٹھا چوسنے یا اپنے ہاتھوں کو سر کے اوپر کیوں نہیں رکھنے دیا جاتا تو وہ ترس کھانے کے انداز میں کہتی سبھی جانتے ہیں کہ اگر ہاتھ پہلوؤں میں رہیں تو بچہ آرام سے سوتا ہے، اگر اس کے ہاتھ سوتے میں سر کے اوپر رہیں گے تو اسے دورے پڑنے لگیں گے۔ اگر آپ کہیں اس سے یہ کہہ بیٹھیں کہ سوتے میں بچے کے پاس کوئی ایسی چیز رکھ دینا چاہیے جسے وہ اپنی ماں سمجھے تو شاید یہ سن کر وہ خوف سے آپ کا منہ تکنے لگے گی۔
پرورش کے ان معاملات میں وہ چاہے راستی پر ہو چاہے غلطی پر، عثمان اچھی طرح بڑا ہوتا چلا گیا۔ اس کی ماں کا دودھ افراط سے تھا اس لیے اس کا پیٹ بھرنے کے لیے اسے کسی بکری کے تھنوں سے لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی بلکہ ہوا یہ کہ اس کی ماں اسے دو سال سے بھی اوپر دودھ پلاتی رہی اور شاید اس غلط فہمی میں پلاتی رہی کہ ان ایام رضاعت میں دودھ ضامن ہو جائے گا اور دوسرا بچہ جلدی پیدا نہ ہو گا۔ لیکن اس کی یہ توقع بعد میں غلط ثابت ہوئی۔ جب عثمان کے دو دانت نکل آئے تو اس کی ماں نے اسے بھنبھوڑنے کے لیے گوشت لگی ہڈی دینی شروع کر دی اور جب اس کی انگلیوں میں پکڑنے کی سکت آ گئی تو اسے روٹی کا ٹکڑا بھی ملنے لگا، جب وہ ذرا اور بڑا ہوا تو اس کی ماں اسے گود میں لے کر اس کے منہ سے پیالہ لگا دیتی اور وہ بکری اور گائے کا دودھ پی لیتا، کبھی اس کی ماں اور اکثر اس کا باپ ایک لمبی سی میٹھی روٹی میں سے ایک ٹکڑا اپنی چھری سے کاٹ کر دے دیتا۔ یہ روٹی ایک چینی پھیری والے سے خریدی جاتی تھی مگر دراصل یہ روٹی زاری روس سے آیا کرتی تھی۔
جب عثمان نے رینگنا شروع کیا تو پلنگڑی کی طرح اب بھی اس کی ماں نے اسے اسی کے حال پر چھوڑ دیا۔ گھر کے کام ہی اتنے زیادہ تھے کہ وہ اس کی نگرانی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے باپ کا زیادہ وقت گھر سے باہرگزرتا تھا۔ بیشتر تو وہ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کرتا اور کبھی کبھی اپنی چھرّے دار بندوق لے کر شکار کھیلنے نکل جاتا۔ جاڑوں میں وہ اپنے شکاری شاہین سے شکار کھیلا کرتا، ایسا بھی ہوتا کہ دو دو تین تین دن کے لیے گھر سے چلا جاتا۔ لہذا تمام قازق بچوں کی طرح عثمان کو اپنی احتیاط خود ہی کرنی پڑتی۔ شرارتوں کے نتائج اور خطرات میں پڑنے کے عواقب اسے خود ہی انگیز کرنے پڑتے۔ پیدا ہونے کے بعد ملّا نے جو تعویذ اس کے گلے میں ڈالے تھے اس کے ماں باپ سمجھتے تھے کہ یہ تعویذ عثمان کو ہرگزند سے محفوظ رکھیں گے۔ان تعویذوں میں عثمان کا نام لکھا ہوا تھا اور قرآن مجید کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ کپڑے کے دو ٹکڑوں میں یہ تعویذ سلے ہوئے تھے اور ان میں ایک ڈوری پڑی تھی۔ عثمان زندگی بھر ان تعویذوں کو اپنے گلے میں پہنے رہا۔ قازقوں کے عام رواج کی طرح اس کے مرنے پر یہ تعویذ بھی شاید اس کے ساتھ ہی دفن ہوتے، لیکن جن اشتراکیوں نے اس کا سر تن سے جدا کیا، نہ تو سر کو دفن کیا اور نہ دھڑ کو۔ جب عثمان خودبخود کھڑا ہونا اور چلنا سیکھ گیا تو اسے سب سے زیادہ خطرہ اس کھلی ہوئی آگ سے تھا جو عااول کے وسط میں متواتر جلے جاتی تھی اور اس دیگ اور کیتلی سے بھی جو اس آگ پر لٹکتی رہتی تھی، اگر وہ لوہے کے اونچے تپائے پر بے خیالی میں جا پڑتا یا گرنے سے بچنے کے لیے ان کھولتے ہوئے ظروف کو پکڑ لیتا تو پانی یا آگ سے جل جاتا بلکہ شاید جل کر مر جاتا۔ اسلام باعی کے قبیلے میں اس قسم کے حادثے اکثر پیش آ چکے تھے۔ لیکن یہ اللہ کا کرم تھا یا پھر تعویذوں کی برکت کہ وہ اس مصیبت سے بچا ہی رہا۔
جب وہ چل کر خیمے کے دروازے کے باہر جانے کے قابل ہو گیا تو اس کی ماں نے ایک اور حفاظتی تدبیر کی، وہ یہ کہ اس کے سینے پر کوٹ کے نیچے حفاظت سے ایک ٹکڑا روٹی کا رکھ دیا کرتی تاکہ اگر پڑاؤ سے دور نکل جائے اور راستہ بھول جائے تو بھوکا نہ مرنے پائے۔ یہی سوچ کر اس کی بہن کے گلے میں ایک تھیلی ڈال دی گئی تھی جس میں بھنے ہوئے چنے یا مٹر کے دانے بھرے ہوئے تھے۔ آج کل ترکی میں بھی قازق مائیں اسی پرانے دستور پر عمل کرتی ہیں۔ بھنا ہوا غلّہ زمانۂ قدیم سے خانہ بدوشوں کا احتیاطی کھاجا سمجھا جاتا ہے۔ حضرت داؤد کے زمانے تک میں اس کی مثال موجود ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے لیے محاذ جنگ پر بھنا ہوا غلّہ اور سردار کے لیے پنیر کے ٹکڑے لے کر گئے تھے۔
جب عثمان اپنی ماں کے خیمے سے باہر نکل کر چلنے کے قابل ہو گیا تو پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ان پالتو کتّوں سے دوستی گانٹھی جو خیمے کے باہر بیٹھے حفاظت کرتے تھے اور جب کبھی کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھتے تو بھونکنے لگتے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس کے ماں باپ کو اس دوستی کا علم ہو جاتا تو وہ عثمان کو اس خلا ملا سے باز رکھتے، کیونکہ مسلمان کتے کو نجس سمجھتے ہیں اور دنیا کے اس حصے میں تو بے قیاس نسلوں سے یہ چلا آ رہا تھا کہ کتے ہی سارے خیمے کی گندگی ٹھکانے لگاتے۔ لیکن عثمان کے ماں باپ کو اپنے ہی کاموں سے کب فرصت تھی کہ یہ بھی دیکھتے کتے کیا کر رہے ہیں اور کہیں ان کے بچے کے ہاتھ پاؤں تو نہیں چاٹ لیتے۔
کچھ دنوں بعد عثمان اور آگے بڑھ کر کے کھیتوں میں نکل جاتا جہاں اس کے باپ کے بھیڑوں کے گلّے چرتے ہوتے۔ کبھی ان سے کھیلنے پہنچ جاتا اور کبھی ان کے کے لیے ماں باپ کا دیا ہوا دانہ چارہ لے جاتا۔ جب ذرا جی کھل گیا تو ان پر سوار ہونے لگا۔ اسی میں اگر گر پڑتا تو کبھی ہنستا اور کبھی روتا اور پھر سوار ہو جاتا۔
لیکن ادھر تو عثمان اس قابل ہوا کہ ایسے کام کر سکے، ادھر گرمیاں ختم پر آ پہنچیں اور اسلام باعی کو نو دنتی کنگھی کی وادی سے اتر کر کارا ارتعش کی وادی میں آ کر یہ دیکھنا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں فصلیں کیسی ہوئیں۔ اسلام باعی کے لیے سال کی اچھی فصل یہ ہوتی تھی کہ اس کا بویا ہوا غلّہ سو گنا ہو جائے یا اس سے کچھ زیادہ۔ کیونکہ یہاں گیہوں کا پودا ایک فٹ سے اونچا نہیں ہوتا۔ اگر کسی سال فصل خراب ہو جاتی تو اسے اپنے جانور منڈی میں بیچ کر پن چکی والوں سے غلّہ خریدنا پڑتا کیونکہ شہر میں انہی پن چکی والوں سے وہ آٹا پِسوایا کرتا تھا۔ بعض قازقوں نے کہیں کہیں پن چکیاں لگا رکھی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسلام باعی بھی ایک آدھ چکی کا مالک ہو جاتا۔
عثمان بطور کے سال اول میں یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ لڑکا کتنا نیک قدم پیدا ہوا ہے اور اللہ نے فصلوں میں کتنی برکت دی ہے، اسلام باعی اور اس کی بیویوں اور اس کے ملازموں نے نمدے دار خیموں کو جلدی جلدی اتارا اور ان کے تمام حصوں کو لپیٹ کر سڈول پلندے لگا دیے۔ عورتوں نے لکڑی کے بڑے صندوقوں میں اپنے بسترے، قالین، لباس، دستاویزات اور کتابیں احتیاط سے رکھیں۔ ان چوبی صندوقوں کے اوپر تانبے، پیتل کے پترے چڑھے ہوئے تھے تاکہ ان سے لدے ہوئے جانور اگر پانی میں سے گزرتے ہوئے پانی میں گِر بھی پڑیں تو ان کے اندر کے سامان تک پانی نہ پہنچ سکے۔ لوہے کی بڑی دیگ جو کوئی من بھر کی تھی خود اسلام باعی کے چھانٹے ہوئے ایک مضبوط اونٹ پر لادی گئی، جب سارا سامان لد چکا تو ایک اونٹ کے دونوں کوہانوں کے درمیان عثمان کی پلنگڑی جکڑ دی گئی اور خود عثمان کو بھی تسموں سے اس پلنگڑی میں باندھ دیا گیا۔ راستے میں کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ اس کی ماں اسے اپنے گلے میں پڑی جھولی میں ڈال لیا کرتی۔ افراد خاندان کا اَور جو سامان تھا وہ بقیہ جانوروں پر لاد دیا گیا۔ اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے سب بار برداری کی سکت کے مطابق لدے ہوئے تھے۔ جب یہ سارے مرحلے طے ہو گئے اور انھیں اطمینان سے طے کرنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ نہ لگتا تھا تو اسلام باعی، اس کی بیویاں اور اس کے ملازم اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اسلام باعی کے قبیلے کے اور کتنے خاندان اس قافلے میں شریک ہوئے۔ صرف وہ شریک ہوئے ہوں گے جو اسلام باعی کی طرح “خشک” کسان ہوں گے، وہ لوگ جن کا کام صرف گلے چرانا ہے نو دنتی کنگھی کی وادی میں اس وقت تک ٹھہرے رہے ہوں گے جب تک خزاں کی زمہریری ہوائیں نہ چلنے لگی ہوں گی اور پالا اور برف باری سے انھیں یہ اندازہ نہ ہو گیا ہوگا کہ اب انھیں بھی اسلام باعی کی طرح اپنے سرمائی مقام پر واپس پہنچ جانا چاہیے۔
اسلام باعی کے کچھ ساتھی اور ملازم بھی اوپر کی وادی میں اس لیے رُکے رہ گئے ہوں گے کہ چرنے کے لیے کچھ جانور کچھ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے۔ جب ان کے گلے بان مناسب وقت پر ان جانوروں کو نچلی وادی میں لے کر پہنچے تو قازقوں کے پرانے دستور کے مطابق اسلام باعی نے انھیں گنا نہیں، بلکہ یہ دریافت کیا: “وہ کالی بھیڑ کہاں ہے جس کی اگلی ٹانگیں سفید تھیں اور وہ پھیکے بھورے رنگ کی گائے کہاں ہے جس کا سیدھا سینگ اوپر کو اٹھا ہوا تھا اور وہ دھبیلی بکری کدھر ہے جس کے بال چھلے دار تھے؟”
اس کے ملازموں میں نے کہا :
“کالی بھیڑ کو بھیڑیا اٹھا لے گیا اور گائے نے اگلا بایاں پاؤں ایک چٹان کے شگاف میں اس بری طرح پھنسایا کہ اس کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ہمیں اسے حلال کر دینا پڑا۔ اب رہ گئی دھبیلی چھلّے دار بالوں والی بکری، وہ بڑھیا ہو چکی تھی، ہمیں جب گوشت کی ضرورت پڑی تو ہم نے اسے حلال کر لیا”۔
اگر بیان پر اسلام باعی کو یقین آ جاتا تو وہ کہتا “اللہ کی مرضی یوں ہی تھی”۔ اور اگر یقین نہ آتا تو کہتا “ہم اس معاملے کو بعد میں طے کریں گے”۔ پھر اس کے بعد یہ ہوتا کہ کبھی زبانی جھگڑا ہوتا، کبھی مار پیٹ تک نوبت پہنچتی۔ شاید قضیہ قاضی تک پہنچتا یا پنچ اس کا فیصلہ کرتے۔
جیسے جیسے عثمان بڑا ہوتا گیا اس کا گھومنا پھرنا بھی بڑھتا گیا اور ہمّت اور دلیری کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ اس کے پاس بہت کم کھلونے تھے یا شاید ایک چھری کے علاوہ اس کے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ چھری اس کے لیے سارے کھلونوں سے زیادہ وقیع تھی۔ وہ ایک لکڑی کا گھوڑا بنائے خیموں کے چاروں طرف بھاگتا پھرتا۔ کبھی کبھی وہ اپنے کسی ساتھی کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اور ساتھی اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اور دونوں اس طرح دوڑ لگاتے۔ ایسے کھیل عموماً کُشتی پر ختم ہوتے۔ یہ مذاق کا مذاق ہوتا اور طاقت کی آزمائش بھی۔ اس طرح لڑکے آپس میں اپنا اپنا مقام بناتے۔ عثمان کو خاندانی لحاظ سے بھی قدرے فوقیت حاصل تھی کیونکہ اس کا باپ جوزباشی یعنی سو خاندانوں کا سردار تھا لیکن لڑکپن اور نوجوانی میں اس کی اطاعت و عزّت کا سبب اس کی اپنی شخصیت تھی۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی نو عمری ہی میں سب نے تسلیم کر لیا تھا کہ یہ لڑکا غیر معمولی ہے۔
تمام قازق بچوں کی طرح عثمان کی پرورش بھی سختی سے ہوئی تھی۔ اپنے باپ کے خیمے میں وہ کھانا کھاتا اور اپنا بیشتر وقت بسر کرتا، سوتا وہ ماں کے خیمے میں تھا۔ اسے بہت کم حقوق حاصل تھے۔ باپ کی بات کو سننا اور اس کے حکم کی فوراً تعمیل کرنا اس کے فرائض میں داخل تھا۔ اگر وہ کبھی غصے سے بے قابو ہو جاتا اور آپ ہی اس کی زبان چلنے لگتی تو اس کا باپ اس ہنٹر کی طرف ہاتھ بڑھاتا جو خیمے کے دروازے کے بائیں جانب خاندان والوں کی لگاموں اور زینوں کے ساتھ لٹکا رہتا۔
لیکن اکثر یہ ہوتا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو بلا کر کہتا:
“عورت! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سور یا شاید کتّا میرے عااول کے آس پاس اس وقت تھا جب میں اس بیٹے کی پیدائش سے نو مہینے پہلے اپنے گلوں کی نگرانی کر رہا تھا ورنہ اس میں یہ جانوروں کے سے انداز کہاں سے آئے کہ بے اجازت بولے جا رہا ہے؟”
جب ایسی کوئی بات ہوتی تو عثمان رات کو بے کھائے پیے سو رہتا۔ پچاس سال پہلے چھوٹے لڑکے عموماً یہی کرتے تھے۔ وہ لڑکے بھی جن کے گھر نمدے دار خیموں کے بدلے گارے اور اینٹ پتھر کے ہوتے اور جو خیمے کے دروازے کے پاس زمین پر تہہ دار گدّے پر پڑے رہنے کے بجائے لوہے اور تار کی مسہریوں پر موٹے موٹے گبّھوں پر سویا کرتے تھے۔
باوجود اس قسم کی تنبیہوں کے ہمیں معلوم ہوا کہ عثمان اپنے باپ سے محبت کرتا اور اس کی عزت کرتا تھا۔ جب دونوں باپ بیٹے سوار ہو کر یا پیدل پہاڑوں میں گھومتے پھرتے تو باپ طرح طرح کی باتیں بیٹے کو سمجھایا کرتا، ایسے مواقع پر عثمان جو بات بھی چاہے آزادی سے اپنے باپ سے پوچھ سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ بیشتر سوالات جانوروں ہی کے بارے میں ہوتے ہوں گے۔ ان سب جنگلی جانوروں کے متعلق اس نے پوری معلومات حاصل کر لی جو اس کھلی زمین پر قازقوں ہی کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے آبا و اجداد ان دیہاتوں کی عام زمینوں پر زندگی بسر کرتے تھے جو بعد میں شخصی ملکیتوں میں تبدیل ہو گئیں۔
جب عثمان کی عمر نو یا سات یا پانچ سال کی ہوئی، یہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ وہ آٹھ یا چھ یا چار سال کا نہیں تھا تو ملّا بلایا گیا اور عثمان کی ختنہ کرا دی گئی۔ اس موقع پر بہت بڑی دعوت ہوئی کہ بچے کی زندگی کا پہلا سنگ میل تھا۔ ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب عثمان آٹھ سال کا ہوا اور اس کے باپ نے اسے قازقوں کے ایک مکتب کے خیمے میں داخل کرا دیا۔ عثمان کے خیمے کی طرح مکتب کا خیمہ بھی عااول ہی کہلاتا تھا۔
جس مکتب میں عثمان نے جانا شروع کیا وہ انہی کے قبیلے کا تھا اور اس کے چلانے کا ذمہ دار یہی قبیلہ تھا جس کا سردار اسلام باعی تھا۔ اس میں ڈیسک یا میز کرسی نہیں تھی بلکہ زمین پر چند چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں اور اس میں کم سے کم تعلیمی سامان تھا۔ تقریباً قازقوں کے ہر پڑاؤ میں ایک مکتب ضرور ہوتا تھا تاکہ بچوں کو چینیوں کے کسی اسکول میں جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ کیونکہ ان کے اسکولوں میں پڑھائی چینی زبان میں ہوتی تھی اور پڑھانے والے مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ یہ نظریہ زبان نہ صرف قازقوں ہی کا تھا بلکہ ان تمام دوسرے نسلی گروہوں کا بھی جو مشرقی ترکستان میں آباد تھے، مثلاً ترک، منگول، کرغی، تاتاری، ازبک جن سے قازق عموماً علاحدہ رہتے تھے، بالخصوص بیسویں صدی کے آغاز سے۔
چنانچہ آٹھ سال کی عمر میں عثمان نے مکتب جانا شروع کیا جہاں اس کی ختنہ کرنے والا ملّا مذہبی رہنمائی بھی کرتا اور بچوں کو پڑھاتا بھی۔ سب سے پہلے عثمان کو قرآن مجید شروع کرایا گیا اور چونکہ قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لیے عربی پڑھنا اور لکھنا بھی اسے سکھایا گیا۔ آگے چل کر بچوں نے اور چیزیں بھی پڑھیں مثلاً چنگیز خاں اور ایطّلا کی تاریخ کے علاوہ زمانۂ حال کے سورماؤں مثلاً بوکو بطور کے حالات، جو زندہ تھا اور بہادری کے کارنامے کر رہا تھا۔ پھر حساب اور جغرافیہ تھا اور سب سے اہم شاعری کہ شعر کیسے کہا جائے اور کیسے پڑھا جائے۔ بہت پرانے گیت اور نظمیں ایسی تھیں جن میں ماضی کی تاریخ درج تھی۔ ان میں بے شمار اشعار تھے جنھیں عثمان اور اس کے ساتھی طلبا سے شام کے وقت خیموں میں باری باری سے سنا جاتا اور بچوں کے والدین بیٹھے سنتے رہتے اور کبھی یاد دلانے کے لیے اشارے بھی دیے جاتے۔ جو سب سے زیادہ اشعار سناتا اس کی سب سے زیادہ تعریف ہوتی۔ یاد کرنے میں لڑکیوں کا حافظہ لڑکوں سے بہتر ہوتا تھا۔ لیکن عثمان لڑکیوں سے بھی بازی لے جاتا تھا۔
مکتبی تعلیم کے آغاز ہی سے قازقوں کی دل پسند قدیم موسیقی پر بچے اپنے بنائے ہوئے بول بٹھانے کی مشق کرنے لگتے تھے۔ ان نئے اشعار میں پرانے گانوں کی تلمیحات اور عہد رفتہ کے رسم و رواج کی طرف اشارے اس کثرت سے ہوتے ہیں کہ انھیں سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ترکی میں قازق لڑکے لڑکیوں کو جب میں ان کے بنائے ہوئے بول گاتے سنتا تو اس سوچ میں پڑ جاتا کہ اگر ہم اپنے بچوں سے قدیم دھنوں پر بول کہنے کی فرمائش کریں تو وہ کیا کریں گے؟
عثمان اور اس کے ساتھیوں نے پہلا گیت جو مکتب میں سیکھا وہ “اطفال کا گیت” تھا جس کا مفہوم یہ تھا: “اے عالم! بنام خدا ہم تیرا خیر مقدم کرتے ہیں، تیری تعلیم کا ایک لفظ بھی غلط نہیں ہے، تیرے شاگردوں کو ایک لفظ بھی غلط یاد نہیں ہے”۔
عثمان کو جو ملّا پڑھایا کرتا تھا بڑا سخت آدمی تھا۔ لیکن عثمان خود بڑا پُر شوق شاگرد تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ گیت گا کر سنانے لگا تھا، نظم لکھنے لگا تھا، گھوڑے کی سواری ایسی عمدہ کرنے لگا تھا کہ اسلام باعی کے قبیلے میں جتنے بھی نو عمر اور جوان تھے سب سے بازی لے گیا تھا۔ ان ہنر مندیوں میں اس کی شہرت الطائی کے دوسرے قبیلوں میں بھی پھیل گئی۔ کارا ملا جیسے گھومنے پھرنے والے بھاٹوں اور اسلام باعی کے ہاں آنے والے مہمانوں نے عثمان کی شہرت کو دور دور تک پہنچا دیا تھا۔ کچھ ہی عرصے میں علاقے کے اس سرے سے اس سرے تک وہ ایک “روحانی” لڑکا مشہور ہو گیا۔ یہ خوبی بڑی عجیب سی لگتی تھی، خصوصاً ان خیموں میں رہنے والوں کی زبانی جن کی پوری پوری زندگی جانوروں کی پرورش میں گزرتی ہو اور جنھیں نہ تو ما بعد الطبیعیات کا کوئی علم ہو اور نہ روحانیت سے کوئی دلچسپی ہو۔ ان کے دلوں میں اپنے روایتی طرز زندگی کو محفوظ رکھنے کی جو ایک وجدانی خواہش اور ایک ناگفتہ عزم صمیم تھا اس کی البتہ ما بعد الطبیعیاتی بنیاد ضرور تھی۔ لیکن لفظ روحانی کا استعمال عثمان کے تمام سابقہ ساتھی جو ترکی میں تھے جان بوجھ کر کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب وہ اس لفظ کو استعمال کرتے تو ان کا اشارہ اس قسم کی باتوں کی طرف ہوتا تھا جیسے قازق طرز زندگی سے اس کی محبت، اپنے خاندان والوں اور اپنے متعلقین کی ذمہ داری اور اپنے پیروکاروں میں اعتماد پیدا کرنے کی صلاحیت۔ اسی میں غالباً وہ اس بے رحم نفرت کو بھی شامل کرتے تھے جو اسے اپنی قوم کے دشمنوں سے تھی، زمانے کے لحاظ سے اسے سب سے پہلے چینیوں سے نفرت تھی۔ لیکن شدت کے لحاظ سے اسے سب سے زیادہ نفرت اشتراکیوں سے تھی۔ یہ اشتراکی چاہے چینی ہوں چاہے روسی، کیونکہ قوم پرست چینیوں کی طرح وہ قازقوں کو گائے بکری سمجھ کر صرف ان کا دودھ نہیں نکال لیتے تھے بلکہ ان کی انفرادیت ہی کو مٹا دینا چاہتے تھے۔
لیکن نوجوانی میں عثمان کو صرف چینیوں سے نفرت تھی کیونکہ اس زمانے میں اشتراکی تھے ہی نہیں، وہ بڑے اشتیاق سے ان قازق سورماؤں کی داستانیں سنا کرتا جو ماضی میں چینیوں سے لڑ چکے تھے۔ اور جیسا کہ ایسی داستانوں اور رزمیہ نظموں میں عموماً ہوتا ہے، دشمنوں پر ہمیشہ غالب آتے تھے۔ انھیں کے نقش قدم پر چلنے کے خواب عثمان بھی ضرور دیکھتا ہو گا۔
ایک دن کا ذکر ہے عثمان کوئی گیارہ بارہ سال کا ہو گا۔ اس کے باپ کے خیمے کے باہر کچھ بے چینی سی پھیلی اور عثمان کا ایک چھوٹا بھائی بے تحاشا بھاگتا ہوا خیمے کے اندر گھس آیا۔ وہ جانتا تھا کہ ایسے مواقع پر یوں بے اجازت خیمے میں گھس آنا تہدید کا باعث نہیں ہوگا وہ زور زور سے کہے جا رہا تھا “بوکو بطور آ رہا ہے۔ بوکو بطور آ رہا ہے”۔
اسلام باعی نے پوچھا “ارے اُدھمی، تجھے کیسے معلوم ہوا کہ بوکو بطور آ رہا ہے۔ تو نے اسے کبھی دیکھا ہی نہیں”۔
“اس کا گھوڑا جس کا ذکر ہم نے داستانوں میں سنا ہے، وہ شبدیز جس کا ایک بال بھی سفید نہیں ہے اور اس پر جو شخص سوار ہے اس کے سر پر بوکو بطور کی زرد تمک ہے اور اس میں کرئی اُلّو کے پروں کا طرہ لگا ہَوا میں لہرا رہا ہے اور اس کے پیچھے بہت سے ہتھیار بند سوار ہیں، بوکو بطور کے سوا اور کون ہو سکتا ہے جو اس سج دھج سے آئے اور اس کا ارادہ حملہ کرنے کا بھی نہ ہو”۔
اب خیمے کے محافظ کتّے بھی زور زور سے بھونکنے لگے تھے۔ اسلام باعی جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کی بیویاں بڑے بڑے چوبی صندوقوں میں اپنے شوہر کی رواجی تمک اور لمبا زرکار چغہ تلاش کرنے لگیں۔ خود انھیں بھی اپنے بہترین فرق پوشوں کی اس وقت ضرورت تھی۔
اسلام باعی نے اپنا لباس زیب تن کرتے ہی خیمے کے دروازے سے باہر نکل کر پردہ اوپر کو اٹھا دیا اور بولا : “خوش آمدید! اندر تشریف لے چلیے۔ آپ کا آنا ہمارے لیے باعثِ تقویت ہے”۔ یہ کہہ کر وہ منتظر کھڑا رہا کہ بوکو بطور گھوڑے پر سے نیچے اُترے اور خیمے میں داخل ہو۔
دوسرا باب
گھر سے عثمان کی جدائی
چالیس سال پہلے جب کوئی مہمان کسی قازق کے گھر آتا بلکہ اس زمانے تک بھی جب اشتراکیوں نے یہ طے نہیں کر لیا تھا کہ ان کی قدیم تہذیب کو مٹا دیا جائے تو اس کا خیر مقدم اسی قدیم روایت کے مطابق کیا جاتا جو زمانۂ قبل تاریخ سے چلی آتی تھی۔ اس میں اس وقت بھی کوئی فرق نہیں آیا جب گیارھویں اور چودھویں صدی کے درمیان قازق مُشَرّف بہ اسلام ہوئے۔ اسلام باعی کے خیمے میں بوکو بطور کی پذیرائی کیسے کی گئی؟ اس کا کوئی مصدقہ بیان ہمارے پاس نہیں ہے لیکن چونکہ قازقوں کے دستوروں اور روایتوں میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، اس لیے ہم بغیر کسی دشواری کے اس منظر کو پیش کر سکتے ہیں ۔
بوکو بطور جب جھک کر خیمے میں داخل ہوا تو اس نے بڑی احتیاط برتی کہ دہلیز سے اس کا پاؤں نہ ٹکرانے پائے اور داخل ہونے میں اس کا لمبا چوغہ دروازے کی چوکھٹ سے نہ ٹکرانے پائے۔ “سلام علیکم” کہہ کر وہ خیمے میں داخل ہوا اور دونوں پیروں کو ٹکرا کر اس نے کفش پوشوں کو دروازے کے قریب ایک پہلو میں اتار دیا اور پھر آگے جائے نشست کی طرف بڑھا۔
اسلام باعی نے “وعلیکم السلام” کہہ کر بوکو بطور کے پھیلے ہوئے ہاتھ کو پہلے اپنے داہنے ہاتھ میں لیا اور پھر دونوں ہاتھوں میں لے کر مصافحہ کیا۔ اس کے بعد مہمان اور میزبان دونوں نے اپنے اپنے ماتھوں، لبوں اور سینوں کو سیدھے ہاتھ سے چھوا، اس کے بعد دونوں دروازے کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے۔ سب ملا کر کوئی سولہ کلماتِ خیر کہے گئے۔ جب میزبان اور مہمان ان تکلّفات سے فارغ ہو لیے اور ان کے ملازمین خاص سے بھی رسوم ادا ہو چکیں تو آگ کے چاروں طرف گھیرا بنا کر سب حسب مراتب دو زانو یا آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ پھر سب نے مل کر دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے اور کوئی قرآنی دعا پڑھی۔ آخر میں سب نے ایک ساتھ آمین کہا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے اور ڈاڑھیوں پر پھیر لیا۔
دعا کے ختم ہوتے ہی اسلام باعی نے کہا “آپ کے تشریف لانے سے ہماری نہایت عزت و حوصلہ افزائی ہوئی”۔ عثمان اس کے پیچھے ہی کھڑا ہوا تھا، اس کی طرف رخ کر کے اور لہجہ بدل کر کے اسلام باعی نے کہا “ارے شریر شیطان! اس لڑکے کو کبھی کوئی تمیز نہ آئے گی۔ اسے یہ تک نہیں معلوم کہ باپ کے مہمان کا استقبال بیٹا بھی اس کے شایان شان کرتا ہے”۔
عثمان اس دستور سے واقف تھا، وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ باپ کی یہ تہدید صرف ایک نمائشی چیز ہے۔ اس پر بھی وہ جھجکتا ہوا آگے بڑھا کیونکہ بوکو بطور بہت مشہور سورما تھا جس کے کارنامے وہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک برابر سنتا رہا تھا، آگے آ کر اس نے بوکو بطور سے آنکھیں چار کر کے بالکل اپنے باپ کی طرح خیر مقدم کے الفاظ کہے اور آخر میں جب اس نے اللہ اکبر کہا تو اس کی آواز بالکل ماند پڑ گئی تھی۔
عثمان کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بوکو بطور نے اسے آگے کھینچا اور اس پر نظریں جما کر بولا “غالباً یہ وہی لڑکا ہے جس کا ذکر میں نے اپنے دوستوں کے خیموں میں اکثر سنا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں اپنی عمر سے زیادہ قوت و دانش ہے اور اس کے لیے ایک شاندار مستقبل مقدر ہو چکا ہے”۔
باپ نے کہا “یہ لڑکا کم عقل ہے، کسی کام کا نہیں ہے۔ بے ہودہ، بھاگ جا احمق۔ ہمارے مہمان کے گھوڑے کی ذرا دیکھ بھال کر”۔
عثمان نے ہمت کر کے کہا “کیا وہ مہمان زیادہ توجہ کے لائق نہیں جس کا گھوڑا اس قدر قابل توجہ ہو۔ اگر اجازت ہو تو میں یہیں ٹھہرا رہوں اور اس بات کا خیال رکھوں کہ گھوڑے کے مالک کو کسی قسم کی زحمت نہ ہونے پائے؟”
بوکو بطور کی گرج دار آواز سنائی دی “واللہ! تم نے سنا لڑکے نے کیا کہا؟ وئ! وئ! اور ابھی وہ بچہ ہی ہے!”
اسلام باعی نے کہا “مہمانوں کا خیال رکھنا باپ کا فرض ہے، اس شریر کی طرح جو چھوٹے لڑکے ہوتے ہیں انھیں نسبتاً ہلکے کام کرنے چاہئیں اور مناسب یہ ہے کہ جو کچھ ان سے کہا جائے وہ کریں”۔
عثمان تو جانتا ہی تھا کہ باپ بظاہر ناراض ہو رہا ہے مگر دل میں اس طرز عمل سے خوش ہے۔ ادھر بوکو بطور کی تعریف سے بھی وہ بہت خوش تھا لہذا فوراً خیمے سے باہر بھاگا تاکہ اونچے شبدیز کی خبر گیری کرے۔
باہر نکل کر اس نے دیکھا کہ بوکو بطور کا ایک ملازم قازقوں کے اٹل اصولوں کے مطابق گھوڑے کو ٹہلا رہا تھا تاکہ اتنے لمبے سفر میں سواری دینے کے بعد اس کی ٹانگیں کہیں اکڑ کر نہ رہ جائیں۔ عثمان نے ملازم سے گھوڑے کی لگام لے لی اور نڈر ہو کر اس کی زین پر چڑھ بیٹھا۔
سائیس قریب ہی کھڑا ہوا تھا۔ وہ حیران رہ گیا اور بے اختیاری میں اس کے منہ سے نکلا “وایا پرامائی! یہ تو اعجاز ہے اعجاز! آقا کا گھوڑا اسے نہیں پھینکتا! میں نے تو پہلے کبھی دیکھا نہیں کہ اس نے اپنے اوپر کسی اور کو سوار ہونے دیا ہو۔ اس لڑکے کے مقدر میں لوگوں کا رہنما بننا ضرور ہے اور تمام منہ زور گھوڑوں کی سواری کرنا بھی اس کے لیے مقسوم ہو چکا ہے”۔
اپنے ملازم کی حیرت زدہ باتیں بوکو بطور نے خیمے کے اندر سن لیں اور وہ اٹھ کر خیمے کے دروازے پر آ گیا۔ عثمان کو دیکھ کر بولا “آہا! شریر لڑکے، تو میرے گھوڑے پر بھی سوار ہو گیا”۔
عثمان نے جھجکتے ہوئے کہا “میں نے سوچا کہ اسے کھلانے پلانے سے پہلے ذرا ٹھنڈا کر لوں”۔
بوکو بطور ہنسا، بولا “غنیمت ہے کہ جب تو نے اس کی رکاب میں پاؤں رکھا تو اس نے تجھے چبا نہیں ڈالا۔ اس نے چونکہ تجھے نہیں کاٹا اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ میرا یہاں آنا ٹھیک رہا”۔
اب عثمان نے ہمت کر کے پوچھا “اگر آپ اجازت دیں تو میں اب اسے کھلانے پلانے لے جاؤں؟”
بوکو بطور نے کنکھیوں سے اپنے میزبان کی طرف دیکھا کہ وہ بھی سن لے اور اونچی آواز میں بولا “ہرگز نہیں، اسے نہ تو پانی پلانا اور نہ کچھ کھلانا، کیونکہ رات ہونے سے پہلے مجھے یہاں سے روانہ ہو جانا ہے”۔
اسلام باعی نے گھبرا کر کہا “نہیں نہیں! آپ کا اتنی جلدی رخصت ہونا میری مہمان نوازی کو شرمندہ کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔” پلٹ کر اس نے آواز دی “بیوی! جلدی سے چائے اور نان لاؤ۔ اس میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ہمارے مہمان بد دل ہو رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں جلدی لاؤ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے چلے جانے سے ہمیں شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑے”۔
یہ سنتے ہی اسلام باعی کی “باعی بی شا” یعنی زوجۂ اوّل نمکین چائے سے بھرے ہوئے تانبے کے پیالے اٹھا لائی اور ان کے ساتھ روایتی نمکین نان پارے بھی۔ یہ نان پارے ایک رومال میں تھے جس کے چاروں کونوں کو یک جا کر کے گرہ لگا دی گئی تھی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر بوکو بطور کو پھر خیمے میں آ کر اپنی مقررہ جائے اعزاز پر بیٹھنا پڑا۔ اب وہ کھانے کے لیے تیار ہو رہا تھا مگر بار بار عذر کرتا جاتا تھا کہ میں ایسی نوازش کا مستحق نہیں ہوں، میں اس اعزاز کے لائق نہیں ہوں۔ اس نے اسلام باعی کی بیوی کے ہاتھ سے پیالہ لے کر چائے پینی شروع کر دی۔ دانت بند کیے وہ شڑپّے لگا رہا تھا اور غٹر غٹر گھونٹ گلے میں اتار رہا تھا، ایک گھونٹ اور دوسرے گھونٹ کے درمیان جو وقفہ ملتا اس میں وہ سخت نان کے ٹکڑے کو منہ میں رکھنے سے پہلے چائے میں ڈبو لیتا۔
جب قازقوں کے دستور کے مطابق بوکو بطور نے روٹی کھا لی اور چائے پی لی تو اسلام باعی نے بوکو بطور سے کہا “کیا اب اجازت ہے کہ میں عثمان کو بھیج کر گھوڑے کو دانہ پانی دلواؤں کیونکہ کہا یہ گیا ہے کہ جب گھوڑے سے دن بھر محنت لے لی جائے تو پہلے اسے پانی پلایا جائے اور اس کے بعد اسے کھلایا جائے تاکہ اگلے دن پھر اس سے محنت لینے کے لیے طاقت آ جائے”۔ بوکو بطور نے نیچی آواز میں کہا “ایسے میزبان کی نوازشوں کی تعریف نہیں ہو سکتی”۔ اسلام باعی نے اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھا “اگر زحمت نہ ہو تو ریوڑ کا معائنہ فرما لیا جائے تاکہ پسندیدہ جانور حلال کر لیا جائے اور میری بیویاں طعام شب تیار کر دیں”۔
بوکو بطور نے از راہِ کسر نفسی کہا “اس خانہ بدوش کے لیے کوئی جانور حلال نہ کیا جائے۔ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ رات ہونے سے پہلے مجھے روانہ ہو جانا چاہیے”۔
اسلام باعی نے اسے یہ کہہ کر یاد دلایا کہ “میں نے بھی تو عرض کیا تھا کہ آپ کے اس طرح رخصت ہونے سے میری مہمان نوازی شرمندہ ہو گی اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گھوڑے کو کھلا پلا دینے کے بعد اس سے محنت نہیں لینی چاہیے”۔
بوکو بطور نے گھوڑے کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا اسے تو اُڑا دیا اور بولا “ایسے میزبان کو شرمندہ کرنا اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ہے۔ اچھا تو میزبان کو جس بات میں سب سے کم زحمت ہو وہ کی جائے”۔
اسلام باعی لپک کر خیمے کے دروازے پر گیا اور آواز دے کر کہا “لڑکے! شب دیز کو دانہ پانی دے دو۔ اس کے آقا کا آج رات کو یہیں قیام رہے گا۔ بوری میں سے دانہ نکال لاؤ، مگر پہلے اسے دریا پر لے جاؤ تاکہ وہ تازہ پانی پی لے۔ اتنے گھوڑے کو دانہ پانی ملے، سب سے عمدہ یک سالہ بّرے خیمے کے دروازے پر لائے جائیں تاکہ ان میں سے طعامِ شب کے لیے مہمانِ گرامی خود انتخاب فرما لیں”۔
عثمان شب دیز کو دریا کی طرف لے چلا۔ باپ نے کہا تھا کہ اس کی لگام پکڑ کر لے جانا مگر وہ اس پر بڑے فخر کے ساتھ سوار جا رہا تھا اور بوکو بطور کے ملازم حیران ہو رہے تھے کیونکہ اس گھوڑے نے ان میں سے کسی کو بھی اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دیا تھا اور نہ اس پر سوار ہونے کی کسی میں ہمت ہی تھی۔ اس پر اب تک سوائے بوکو بطور کے اور کوئی سوار ہی نہیں ہوا تھا۔
خیمہ بوکو بطور کے خدم و حشم سے خالی ہو چکا تھا۔ خیمے میں واپس اپنی جگہ آ کر چھاپہ مار سردار اب بھی اصرار کیے جا رہا تھا “دایا پرامائی! میرے لیے کوئی جانور حلال نہ کیا جائے۔ کیا میں نے اور میرے محافظوں نے جب اپنے دوست کے ہاں آنے کا ارادہ کیا صبح تڑکے اپنے پڑاؤ سے روانہ ہونے سے پہلے خوب ڈٹ کر کھایا نہیں تھا؟” اسلام باعی نے اپنی ضد جاری رکھی “کھانا تو کھانے کے لیے ہی ہوتا ہے اور پیٹ اس لیے ہوتا ہے کہ اسے بھرا جائے۔ موقع ملنے پر جو شخص اپنا پیٹ نہیں بھرتا اسے روزوں میں اور بھی زیادہ بھوک لگتی ہے”۔
بوکو بطور نے کہا “لیکن میزبانوں کے گھر والوں کے لیے باعثِ زحمت بننا بڑی ناشائستہ حرکت ہے”۔
اسلام باعی کی زوجۂ اول بیچ میں بول اٹھی “کام ان آنسوؤں سے کہیں اچھا ہے جو مہمان کے اور ایسے جلیل القدر مہمان کے خالی پیٹ جانے پر ہم عورتوں کو بہانے پڑیں، یا اگر وہ پیٹ بھر کر بھی جائے مگر کھانا اس کے لائق نہ ہو”۔
بالآخر بوکو بطور کو اس پر رضامند ہونا پڑا کہ خیمے کے دروازے پر جائے جہاں یک سالہ بّروں کا ایک ریوڑ کھڑا ممیا رہا تھا۔
اسلام باعی نے کہا “انتخاب کرنا مہمان کا کام ہے مگر میری بیوی حاتانم نے بڑی سچی بات کہی ہے۔ اگر کوئی مہمان ازراہ تکلف ایسے جانور کا انتخاب کرے جو اس کے لائق نہ ہو اور میزبان کے لائق بھی نہ ہو تو اس صورت میں میزبان کو اس وقت تک اپنی آنکھیں بند کیے رہنا چاہیے جب تک کوئی اور بہتر جانور انتخاب نہ کر لیا جائے”۔
بوکو بطور کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک پیدا ہوئی۔ بولا “جب میزبان ایسا ہو تو مہمان کے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ ریوڑ کا بہترین جانور چن لے”۔ یہ کہہ کر ایک بڑے تیار بّرے کے سر پر اس نے ہاتھ رکھ دیا۔ اسے فوراً لے جا کر حلال کیا گیا اور رات کے کھانے کے لیے اسے بنا ڈالا گیا۔
اسلام باعی نے کہا “ان کے لیے بھی پسند کیجیے جو آپ کے ساتھ آئے ہیں۔ ساتھیوں کی تعداد چونکہ بیس تھی اس لیے بوکو بطور نے تین اور بّروں پر اپنا ہاتھ رکھا اور جب اسلام باعی نے شکایت کی کہ یہ ناکافی ہیں تو اس نے تین اور کے سروں پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ان چھ میں سے کچھ بھی نہیں بچا تھا کیونکہ قازق کھانے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ میزبانی اور مہمانی کے نہ بدلنے والے دستور جب دونوں جانب سے اس طرح ادا ہو چکے تو اسلام باعی اپنے مہمان کو پھر خیمے میں لے آیا اور خیمے کے دروازے کے سامنے گھر کے بُنے اور رنگے ہوئے شوخ رنگ کے قالینوں پر رکھی ہوئی گدّیوں پر دونوں آدمی پہلو بہ پہلو بیٹھ گئے اور عورتوں نے منتخب بّروں کے پارچوں کو ایک ایک کر کے بڑی دیگ میں ابلنے کے لیے ڈالنا شروع کیا۔ سری علاحدہ رکھ لی تاکہ پارچے کھا لینے کے بعد اسے بھون کر چاولوں کے ساتھ کھایا جائے۔ تھوری دیر بعد گھوڑے کو دانہ پانی دے کر عثمان خاموشی سے اندر آ گیا۔ آگ کی دوسری جانب خیمے کے دروازے کے قریب وہ اس طرح بیٹھ گیا کہ کسی طرح بھی اس کا وجود حائل نہ ہونے پائے، لیکن بغیر ان کی نظروں پر چڑھے ان دونوں بزرگوں کو دیکھتا بھی رہے اور ان کی باتیں سنتا بھی رہے۔ لیکن اسے اندر آئے کچھ زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ اسے اچانک معلوم ہوا کہ وہ دونوں خود اسی کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
بوکو بطور کہہ رہا تھا “لڑکا جو خیمے کے دروازے کے پاس بیٹھا ہے میں جانتا ہوں کہ کس قسم کا ہے”۔
عثمان کے باپ نے کہا “بہت سے لڑکوں سے کم عقل ہے۔ وادی میں شاید ہی کوئی ایسا لڑکا ہو جو کم عقلی میں اس سے برھ کر ہو۔ کھیلوں میں مثلاً سر پٹ بھاگتے گھوڑے کی پیٹھ پر کمالات دکھانے میں، زین پر سے پھسل کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے آ جانے اور پھر زین پر پہنچ جانے میں، یا چڑھے ہوئے دریا میں تیرنے میں، یا عااُول میں ملّا کے پس پشت مضحکہ خیز اشعار کہنے میں، ان سب حماقتوں میں اس سے کوئی بازی نہیں لے جا سکتا”۔
بوکو بطور زور سے ہنسا “وئ وئ! واقعی یہ سب حماقتیں ہیں۔ ایسے اور بھی بہت ہوں گے جو سر پٹ دوڑتے گھوڑے کی زین سے پھسل کر پیٹ سے چمٹ جاتے ہیں اور پورے قد و قامت کی بھیڑ کو گھوڑا دوڑا کر زمین سے اٹھا لیتے ہیں، ایسے بہت ہوں گے جو تیر سکتے ہیں اور جو شعر کہہ سکتے ہیں، لیکن ایسے شاذ ہی ہوتے ہیں جو یہ ساری باتیں ہنر مندی سے کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔ عثمان یہاں آؤ، میرے پاس آ کر بیٹھو۔ ہاں، اب مجھے بتاؤ تمھیں اور کیا کیا آتا ہے؟ بندوق سے نشانہ لگانا آ گیا۔ تلوار کے ایک وار میں بھیڑ کا سر اڑا سکتے ہو؟ زحل کے گرد تم کتنے حلقے دیکھ سکتے ہو یا مشتری کو کتنے چاند اپنے حلقے میں لیے ہوئے دیکھتے ہو؟”
اسلام باعی نے کچھ بولنے کا ارادہ کیا تو اس نے کہا “نہیں دوست! لڑکے کو خود بولنے دو، تبھی میں جان سکوں گا کہ جو قصے میں نے اس کے بارے میں سنے ہیں کہاں تک ان میں صداقت ہے”۔
عثمان نے کہا “یہ کام تو ایسے ہیں جو کیے جاتے ہیں۔ صرف ان کا تذکرہ بے کار ہے اور جب تک کوئی صحیح استاد نہ ملے کوئی لڑکا انھیں کیسے کر سکتا ہے؟” “یا اللہ! میں اس کے باپ کے سامنے کہتا ہوں اور خود اس کے سامنے بھی کہ اس کا مثل اس کے بعد کبھی پیدا نہیں ہو گا، افواہ کم از کم ایک بار تو سچی ثابت ہوئی، کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اس موضوع پر مزید گفتگو کروں گا”۔
اتنے کم سن لڑکے کے لیے بوکو بطور جیسے آدمی کے منہ سے ایسی باتیں کچھ مبالغہ آمیز نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ ثابت ہے کہ بوکو بطور نے یہی الفاظ متعدد بار مختلف مواقع پر کہے ہیں۔ ہمیں یہ تو صحیح نہیں معلوم کہ بوکو بطور نے اسلام باعی سے کس ملاقات میں اپنی تجویز کا تذکرہ کیا لیکن اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ جو تجویز آگے بیان کی جائے گی وہ بوکو بطور نے ہی پیش کی تھی۔
قازقوں کی یہ سدا کی عادت ہے کہ کھانے سے پہلے سنجیدہ معاملات پر گفتگو نہیں کرتے۔ اس لیے جب بوکو بطور نے یہ کہا کہ مجھے سنجیدگی سے گفتگو کرنی ہے تو اس کے بعد معمولی واقعات پر بات چیت ہونے لگی اور عثمان یہ محسوس کر کے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی، چپکے سے اٹھا اور پھر دروازے کے قریب مقام خاکسارانہ پر جا بیٹھا۔ وہاں وہ بیٹھا توجہ سے سنتا رہا اور اس کے بزرگوں نے اسے یکسر فراموش کر کے کچھ اور ہی باتیں شروع کر دیں۔ اپنے گلوں کی، شکار کی، آنے والی فصل کی، اپنے قبیلے والوں کے معاملات کی، ناسازگار بیرونی دنیا کی جو انھیں گھیرے لے رہی تھی۔ یہ آخری موضوع ان کی گفتگو کو چینیوں کی طرف لے آیا۔ اسلام باعی نے اپنے مہمان سے نظریں چرا کر پوچھا “کیا یہ سچ ہے کہ خِطائیوں نے بوکو بطور کے سر کی قیمت لگا رکھی ہے؟”
بوکو بطور نے بے پروائی سے جواب دیا “مجھ سے یہی کہا گیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اچھا ہے۔ جو خطرے میں ہوتے ہیں ہمیشہ لمبی عمر پاتے ہیں”۔
“کیا قیمت لگائی ہے؟”
“میں نے سنا ہے کہ دس ہزار تائل”۔
١٩١١ ء کے بھاؤ سے یہ رقم ڈھائی ہزار پونڈ کے قریب بنتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرقی ترکستان میں دس تائل میں گھوڑا خریدا جا سکتا تھا۔
“یہ تو بڑی رقم ہے۔ کیا اسے اس کا خوف نہیں ہے کہ کوئی اتنی بڑی رقم کے لالچ میں اسے دغا دے جائے گا؟”
بوکو بطور ہنسا۔
“میرے اپنے آدمی تو ایسا نہیں کریں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ خِطائی اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے یہ رقم تو ادا کر دیں گے، مگر انعام پانے والے دروازے تک نہیں پہنچیں گے کہ گلے میں رسی کا پھندا پڑ جائے گا۔ خون کی اس رقم کو کوئی اور مرد یا عورت حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں پا سکے گی۔ یا اگر کسی نے یہ روپیہ لے بھی لیا تو اس میں اسے خرچ کرنے کی ہمت کہاں سے آئے گی؟”
“کتنے آدمیوں کو معلوم ہے کہ آج کی رات وہ کہاں بسر کر رہا ہے؟”
بوکو بطور نے جواب دینے سے پہلے احتیاط سے چاروں طرف دیکھا پھر بہت نیچی آواز میں بولا “صرف وہ جانتے ہیں جنھوں نے اسے اپنے خون شریک بھائی کے خیمے میں داخل ہوتے دیکھا”۔ اسلام باعی نے چونک کر اب چاروں طرف دیکھا اور بولا “خاموش! اگر کسی کن سُنیاں لینے والے نے ہمارے اس عہد کا ذکر سن لیا جو راز ہے ہم دونوں کے درمیان یا جسے صرف وہ ملّا جانتا ہے جس نے ہمارے باہمی عہد کا حلف اٹھاتے وقت ہم دونوں کے خون کو ایک پیالے میں ملایا تھا تو سمجھ لو کہ ہمارے لیے روزِ بد آ پہنچا”۔
“ایک شخص ایسا ہے جسے میں چاہتا ہوں کہ اس کا علم ہو جائے۔ میری یہ خواہش کیوں ہے اس کی وضاحت مَیں بعد میں کروں گا”۔
“وہ کون ہے؟”
“وہ لڑکا جو سامنے خیمے کے دروازے کے قریب بیٹھا اپنے دونوں کان ہماری باتوں پر لگائے ہے۔ لیکن اب کھانے کے بعد کے لیے اس موضوع کو اٹھا رکھو۔ جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو دل ہرا ہوتا ہے۔ دوست سے دل کی بات کہنے کا وقت یہی ہوتا ہے۔ لفظ زیادہ بڑے اور شیخی بھرے ہوتے ہیں، جب پیٹ کی ہوا سے پھولنے کے لیے ان کے لیے ضرورت سے زیادہ جگہ موجود ہوتی ہے”۔
ہماری کہانی کے اب پھر کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں لیکن یہ بات بھی کچھ انہونی سی ہے کہ جب دو شخص نہایت مقدس قربت میں منسلک ہو جائیں تو اس کے لیے کوئی دستاویز بھی تیار کی جائے۔ اگر یہ صورت ہوا کرتی تو اس تعلق خاص کی افادیت ہی ختم ہو جاتی۔ بوکو بطور اور اسلام باعی تو ایسے آدمی تھے کہ ان کے بارے میں یہ سوچا ہی نہیں جا سکتا کہ ان کے خون شریک بھائی نہیں ہوں گے اور یہ بھی قطعی نا ممکن تھا کہ بوکو بطور کا اگر اسلام باعی سے خون بندھن نہ ہوتا تو عثمان کے ساتھ بوکو بطور کا اس نوع کا رویہ ہوتا۔
قازق معاہدوں میں خون کا بھائی چارہ دو آدمیوں میں سب سے پکا بندھن سمجھا جاتا ہے، ایک ماں کے پیٹ کی اولاد سے بھی زیادہ، زن و شوہر کے تعلقات سے بھی قوی تر، کیونکہ اسلامی قانون کے مطابق ان میں تین دفعہ طلاق دینے پر علاحدگی ہو جاتی ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا بندھن ہے جو جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی۔ زندگی بھر ایک دوسرے کی مادی خدمات تو لازم و ملزوم ہوتی ہی ہیں، مرنے کے بعد بھی ان دونوں کی روحیں جنت میں یکجا ہو جائیں گی۔ کیونکہ بہ اعتبار مسلمان ہونے کے قازق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب جسم مر جاتے ہیں تو روحیں اپنی اصل کی طرف رجوع کرتی ہیں اور مدغم ہو کر ایک ہو جاتی ہیں۔
اچھا تو اب ہمیں یہ تصور کرنا چاہیے کہ اُدھر عورتیں کھانا پکانے میں لگی ہوئی تھیں اور ادھر یہ دونوں خون شریک بھائی خاموش ہو کر ماضی کا وہ خواب دیکھ رہے ہیں جب ان کی جوانی میں مُلّا ایک پیالہ لایا تھا، پھر اس نے ان دونوں کی کلائیوں میں شگاف دیے تھے اور اپنے ساتھ ساتھ ان دونوں سے عہد کے الفاظ کہلوائے تھے۔ مرغ کا ایک پٹّھا پاس ہی حلقوم کی کھال سے بندھا ہوا ایک ساں شور مچائے جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ خون شریک کرنے کی کارروائی بھی ہو رہی تھی اور خیمے کے باہر مرغ کی اس چیخ پکار کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا کیونکہ مرغ کے پٹھوں کی تو یہ عادت ہی ہوتی ہے کہ شور مچاتے رہیں۔ آخر میں دونوں خون شریک بھائیوں نے پیالے میں اپنے اپنے انگوٹھے ڈبوئے اور آپس میں گلے ملے، ان میں سے ایک نے مرغ کے پٹھے کو آزاد کر دیا اور خیمے کا پردہ اٹھتے ہی وہ پھڑ پھڑا کر بھاگ گیا۔ یہ دونوں آدمی اپنے اپنے کام پر اس طرح چلے گئے گویا کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہی نہیں، لیکن اس عہد کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک کو حق حاصل ہو گیا تھا کہ اگر کبھی دشمنوں کے نرغے میں پھنس جائے تو اپنے خون شریک بھائی سے ایک رات کے لیے سر چھپانے کی جگہ طلب کرے اور اگلے دن صبح کو ایک صبا رفتار گھوڑا اسے تیار مل جائے؛ اس کے علاوہ خطرات اور میدان جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا بھی جانبین پر فرض ہو جاتا تھا۔ پھر ان دونوں خون شریک بھائیوں میں کوئی راز نہیں رہتا تھا، ایک کے دریافت کرنے پر دوسرے کو سب کچھ بے دریغ کہہ دینا پڑتا تھا بشرطیکہ وہاں تیسرا کوئی اور موجود نہ ہو۔
شاید یہ دونوں ایسے ہی خواب دیکھ رہے ہوں گے کہ عورتیں گرما گرم شوربے کے بھرے ہوئے پیالے اور بَرّے کے پارچے لے کر آ گئیں اور پہلے بوکو بطور کو، پھر اسلام باعی کو یہ چیزیں پیش کرنے لگیں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے خیمے کے دروازے پر گرم پانی سے ان کے ہاتھ دھلوائے گئے، پھر اپنی اپنی جگہ واپس آ کر انھوں نے برکت کے لیے کوئی دعا پڑھی۔ سپاٹ روٹی کے بڑے بڑے ٹکڑے پیش کیے گئے جس کے بعد بڑی سی گہری رکابی میں اپنے سیدھے ہاتھ ڈبو ڈبو کر انھوں نے گوشت کے پارچے نکالنے اور کھانے شروع کیے۔ گوشت چباتے جاتے اور شوربے کے پیالے منہ سے لگا کر شڑپّے لگاتے جاتے تاکہ گوشت حلق سے نیچے آسانی سے اتر جائے۔ یہ بالکل وہی طریقہ تھا جو آتے ہی بوکو بطور نے چائے اور نان خوری میں اختیار کیا تھا۔ جب خوب پیٹ بھر کر کھایا جا چکا تو ملازم نے گرم پانی سے پھر ان کے ہاتھ دھلائے اور کھانے والوں کے زانوؤں پر جو لمبا سا تولیہ پڑا ہوا تھا، اس سے دونوں نے ہاتھ پونچھے۔ ملازمین نے باقی ماندہ کھانا اٹھا کر جگہ صاف کر دی۔ اتنے میں عورتیں تازہ چائے کے پیالے لے آئیں، ان میں سے دار چینی کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ ذائقہ کے لیے اس چائے میں شکر بھی ڈالی گئی تھی اور نمک بھی۔ گرم چائے کو وہ زور زور سے شڑکتے رہے اور درمیانی وقفوں میں غیر مسلسل گلوئی صدائیں خارج کرتے رہے، جن کا مطلب قازقوں کے آداب اکل و شرب میں یہ لیا جاتا ہے کہ کھانا بہت تھا اور مزے دار بھی۔
جب دونوں بزرگ اپنی اپنی گدیوں پر سستانے کے لیے بیٹھ گئے تو اسلام باعی نے چیخ کر کہا “ارے کاہل لڑکے ایندھن لا۔ جب ہوتا ہے جب مجھے تجھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آگ جوڑ اور دھونکنی سے شعلے اٹھا۔ جانور تک جان گئے ہوں گے کہ رات ہو گئی اور چاروں طرف اندھیرا پھیل گیا ہے”۔
عثمان نے چپکے سے اپنے بھائیوں سے کہا اور وہ خیمے کے باہر جو لکڑیوں کا ڈھیر لگا تھا اس میں سے کولیاں بھر بھر کر لکڑیاں لانے لگے۔ جن اپلوں کے انگاروں پر ابھی برے کا گوشت پک چکا تھا ان پر ایک نے احتیاط سے لکڑیاں چنیں اور دوسرے نے دھونکنی سے ہوا دینی شروع کی۔ یہاں تک کہ خیمے میں شعلوں کی زبانیں لہرانے لگیں اور ان کے عجیب و غریب سائے خیمے میں اس طرح ناچنے لگے جیسے آسمان پر بجلی کے کالے کوڑے بن رہے ہوں اور یہ سائے خیمے کی نمدے دار دیواروں سے ٹکرا کر خاموشی سے پاش پاش ہونے لگے۔
اسلام باعی نے جب دیکھا کہ شعلے خوب بھڑک اٹھے ہیں تو اس نے عثمان بطور کو آواز دے کر منع کیا کہ اب اور آگ نہ بھڑکائی جائے۔ اب بوکو بطور نے عثمان کو بلایا۔ عثمان آگے آ کر نہایت ادب سے کھڑا ہو گیا۔ بوکو بطور نے کہا “یہاں بیٹھ جاؤ، میرے پاس۔” چنانچہ عثمان بیٹھ گیا اور منتظر رہا۔ دیر تک خاموشی رہی، کچھ دیر بعد بوکو بطور نے لڑکے کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا:
“کھانا کھانے سے پہلے ہم گفتگو کر رہے تھے کہ میرے سر کی قیمت لگا دی گئی ہے”۔ پھر اسلام باعی کی طرف رخ کر کے کہا “کیوں بھائی، یہی بات ہو رہی تھی نا؟”
اسلام باعی نے تصدیق کرتے ہوئے کہا “جی ہاں، یہی بات ہو رہی تھی”۔
“وہ جو خطرے میں پیدا ہوتے ہیں لمبی زندگی پاتے ہیں، یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، کیونکہ خدا کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ہوشیار رہیں لیکن جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو موت سبھی کو آتی ہے”۔
اسلام باعی نے کہا “خدا نہ کرے کہ موت ان کو آئے جو اس خیمے میں ہمارے ساتھ ہیں اور خدا کرے ان میں کوئی عمر دراز پائے بغیر نہ مرے”۔
اور اس کی بیویوں نے کہا “آمین”۔
بوکو بطور نے کہا “اس کا اختیار اللہ کو ہے لیکن جو دانش مند ہوتے ہیں خصوصاً ایسا شخص جو ہزاروں کی رہنمائی کرتا ہو، مثلاً مَیں، ایسا شخص پیش بینی کرتا ہے اور اپنے منصوبے بناتا ہے تاکہ اچانک وہ روزِ بد نہ آ جائے کہ اس کے پیرو بغیر رہنما کے رہ جائیں۔ کیوں بھائی یہی بات ہے نا؟”
“جی ہاں۔ یہی بات ہے”۔
بوکو بطور نے کہا “رہنمائی خدا کرتا ہے، انسان نہیں کرتا۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رہنما کا لڑکا بھی باپ کی خوبیوں سے متصف ہو ہی۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کا لڑکا یا اس کی لڑکی باپ کے دستے کی یا پورے قبیلے کی رہنمائی امن کے زمانے میں کرے مگر جنگ کے زمانے میں اپنی قسمتیں اسے سونپ دینا، جب تک وہ اس کا اہل نہ ہو، گناہ ہے۔ خدا کا گناہ”۔
اسلام باعی بولا “جیوٹ گھوڑے کو خدا ہی ہدایت کرتا ہے کہ پہاڑوں میں جب کوئی خطرہ قریب ہو تو اپنی گھوڑیوں اور بچھروں اور بچھیروں کی حفاظت کے لیے تیار ہو جائے”۔
بوکو بطور نے کہا “تم نے اچھی مثال دی، اگر مجھے نکال لیا جائے تو میرے پاس اور کوئی گھوڑا نہیں ہے جو میرے گلے کی حفاظت کرے”۔
یہ کہہ کر اس نے عثمان کا چہرہ اپنی طرف پھیرتے ہوئے پوچھا “یہ لڑکا ہے ایسے دم خم کا گھوڑا؟ کیا خیال ہے تمھارا ابو عثمان؟”
اسلام باعی اچانک اور غیر متوقع طور پر مسکرانے لگا، اس کی مسکراہٹ میں کچھ شرارت بھی تھی۔ بولا:
“اتنا تو میں جانتا ہوں کہ یہ آختہ گھوڑا ہے۔ اس سے زیادہ اور کچھ کہنا، میرا یعنی اس کے باپ کا کہنا مناسب نہیں ہے، پھر یہ کہ ابھی اس کی عمر مشکل سے بارہ سال کی ہو گی”۔
بوکو بطور نے کہا “مگر وہ اتنا بڑا تو ضرور ہے کہ میرے ساتھ چلے، تاکہ میں اس کے متعلق کچھ معلوم کر سکوں”۔
باپ نے بیٹے سے پوچھا “لڑکے تم کیا کہتے ہو؟”
“اگر میرے باپ کی مرضی ہو اور بوکو بطور کی بھی، تو میں بہ خوشی جاؤں گا”۔
بوکو بطور نے کہا “مجھے جو کچھ تجھ سے کہنا ہے اسے غور سے سن۔ کیونکہ ہم جس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے، وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تیرا باپ اچھی طرح جانتا ہے کہ چنگیز خاں کے زمانے سے نہیں بلکہ شروع ہی سے ہم قازق ان پہاڑوں پر گھومتے رہے ہیں، ہم نے کبھی کسی کو خراج نہیں دیا اور نہ کبھی کسی کی اطاعت قبول کی سوائے خدا کے اور اپنے منتخب سرداروں کے۔ پھر صحرائے گوبی کے پیچھے سے غیر ملکی کافر آئے اور ہمیں غلام بنانے کی تدبیریں کرنے لگے۔ تیرا باپ جانتا ہے اور اس سے زیادہ ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ میں جہاد کرتا رہا ہوں، پچھلے بیس سال سے ان اہل خِطا سے مقدس لڑائیاں لڑتا رہا ہوں اور اپنے لوگوں کو ابھارتا رہا ہوں کہ وہ بھی جہاد کریں۔ ایک نہ ایک دن ہم انھیں اُسی صحرا میں واپس دھکیل دیں گے جہاں سے وہ آئے تھے اور ہم انھیں برباد کر دیں گے، چاہے ان کی تعداد تکلا مکان کے ذروں کے برابر ہی کیوں نہ ہو”۔
بوکو بطور ایک ذرا کی ذرا چپ ہوا اور بولا:
“اے عثمان! تیرا باپ امن پسند آدمی ہے اور میں ان میں سے ہوں جو لڑ کر زندہ رہتے ہیں اور جنھیں لڑائی سے محبت ہوتی ہے۔ لیکن ہم دونوں کو اپنی قوم سے محبت ہے، اس کا طور اور ہے اور میرا کچھ اور۔ جتنی محبت اسے امن سے اور مجھے جنگ سے ہے اس سے بڑھ کر ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اس وقت سے جب ہم تیرے برابر کے لڑکے تھے۔ کل رات کو سوتے میں یہ بات میرے دل میں آئی کہ اس خیمے میں کوئی اور ایسا موجود ہے جو امن کے طریقوں میں اپنے باپ کی سلیقہ مندی رکھتا ہے تاہم وہ اس لائق ہے کہ میں اسے اپنی جنگ کرنے کی ہنر مندی سکھا دوں۔ پھر جب میں رخصت ہو جاؤں تو ہمارے سدا کے دستور کے مطابق جنگ بجائے دو یا دو سےبھی زیادہ دماغوں کے، صرف ایک دماغ کے تحت آئندہ جاری رہ سکتی ہے۔ اور جب میری آنکھ کھلی تو پَو پھٹ رہی تھی اور میرے دل میں آئی کہ میں یہاں آؤں اور بہ چشم خود دیکھوں۔ چنانچہ میں یہاں آیا”۔
اب پھر ایک ذرا دیر کے لیے خاموشی ہو گئی اور اب کے اس کے اس سکوت کو عثمان کی ماں نے توڑا۔
“آنے والے زمانے میں لوگ میرے بیٹے کو اسی طرح بطور کہیں گے جیسے آج کسی اور کو کہتے ہیں، آپ اسے لے جائیے اور سکھائیے اور اگر یہ نا اہل ثابت ہو تو اسے اس کے باپ کے خیمے میں واپس بھیج دیجیے”۔ عثمان بولا “اگر میں نا اہل ثابت ہوا تو میں ہرگز واپس نہیں آؤں گا۔ مر جانا پسند کروں گا”۔
یہ طے ہو گیا کہ بوکو بطور عثمان کو اپنے ساتھ لے جائے گا اور اسے چھاپہ مار سردار کی تربیت دے گا۔ رات گئے تک بزرگ بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میں عثمان خاکساری سے اپنے بھائیوں میں جا بیٹھا۔ اور جب ضرورت ہوتی تو آگ دہکا دیتا، مگر بڑوں کی باتوں میں پھر شریک نہیں ہوا۔ انھیں تمام پہلوؤں پر غور کرنا تھا، خصوصاً اس پر کہ اس شبہ سے اسلام باعی کو کیسے بچایا جائے کہ اس کا بیٹا چینیوں سے لڑ رہا ہے۔ چینیوں کو اس سے کیسے باز رکھا جائے کہ وہ اسلام باعی کو گرفتار کر کے طرح طرح کے عذاب دے کر یہ دریافت نہ کر لیں کہ بوکو بطور کہاں پوشیدہ ہے؟
عثمان بڑے اشتیاق اور خاموشی سے باتیں سن رہا تھا جن میں چینی افسروں سے شدید نفرت بھری ہوئی تھی۔ ان کے مظالم، قازق وطن کی سر زمین کے نیچے سونے اور دوسری معدنیات کی جو دولت دبی پڑی تھی اس کے لیے چینیوں کی حرص و آز، چینیوں کے چنگل میں پھنس جانے والوں پر ان کی اذیتیں اور ذی استطاعت قازقوں کا زرِ رستگاری ادا کر کے ان کے قبضے سے رہائی حاصل کرنا۔ اس کے بعد بوکو بطور نے ان چینی سوداگروں کو برا بھلا کہا جو جابرانہ قیمتیں وصول کرتے، ان چڑھ آنے والے چینیوں کی برائی کی جو الطائی کی زمینوں کو دباتے چلے جا رہےتھے، یہاں تک کہ اس کے حقیقی آقا تنگ حدود میں گھر کر رہ گئے تھے اور اپنے آبا و اجداد کی طرح سب حسب مرضی آزادی سے گھوم پھر بھی نہیں سکتے تھے۔
عثمان ان باتوں کو سنتا رہا اور سینے میں اس کا دل جلتا رہا۔ بوکو بطور کے زیر اثر اسے چینیوں سے نفرت ہو گئی اور یہ نفرت زمانے کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی۔ جب چینی خطرہ ١٩٣٠ء کے لگ بھگ وسیع تر اشتراکی خطرے میں مدغم ہونے لگا تو قومیت پسند چینیوں سے اسے جو نفرت تھی، اس میں کچھ کمی آئی اور اس نے سوچا کہ چینی اور روسی اشتراکیوں کے خلاف قومیت پسند چینیوں کا حلیف بن جائے، مگر پھر اس نے سوچا کہ قازق طرز زندگی کے دشمن تو دونوں ہی ہیں اس لیے ان سے بھی میل نہیں ہو سکتا۔
عثمان پر اعتراض کرنا مشکل ہے۔ جو قومیں چینیوں کے ما تحت تھیں انھیں اپنا کوئی مستقبل سوائے اس کے نظر نہ آتا تھا کہ چینی بن جائیں۔ چالیس سال بعد جون ١٩٥٢ء میں چین کے ایک سابق نائب صدر ڈاکٹر چوچپا ہوا اپنی فارموسا کی جلا وطنی سے استنبول میں مہاجر ترکی رہنما محمد امین بُغرا کو لکھ رہا تھا :
“نہ صرف سنکیانگ (مغربی ریاست) خود چین میں ہے بلکہ بہت سا وہ علاقہ بھی جو اس کے پیچھے ہے کبھی چینی سلطنت میں شامل تھا، یہی وجہ ہے کہ چین کے کل باشندے اسے ایک مقدس ورثہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ چینی خون کئی قوموں کے خون کا آمیزہ ہے۔ آسمان تلے صرف ایک خاندان کا نظریہ محض ایک شاعرانہ نمود نہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ ہمارے روز مرہ کے طرز عمل کے لیے ایک معیار بھی ہے۔
عظیم راہبوں کے سوانح میں ایک دلچسپ قصہ سنکیانگ کے ایک راہب جمولوش کا لکھا ہے کہ بربری حملہ آوروں کے زمانے میں وہ ایک عسیر المدت بادشاہت میں پہنچا، بادشاہ نے اسے دس حسین چینی دوشیزائیں دیں، تاکہ راہب کی اعلیٰ صفات ذہنی اور راہب اور ان دوشیزاؤں سے جو اولاد پیدا ہو، ان میں منتقل ہو کر دائم و قائم ہو جائیں۔۔۔۔۔ اگر جمولوش کی کوئی اولاد ان حسین بیویوں سے ہوئی ہو گی تو چینیوں کے معاشرے ہی میں جذب ہو کر چینی باشندوں ہی کا حصہ بن گئی ہو گی۔۔۔۔
جدید چینی نسل کئی نسلی عناصر سے مرتب ہوئی ہے۔ چینی ثقافت اور چینی عوام کی مسلسل قوت کا سبب یہی ہے۔”
محمد امین بغرا نے جواب میں لکھا کہ “وہ ترکی، منگولی اور تبتی قومیں جو اب چینیوں کے زیر اقتدار ہیں، ان کی زبان، مذہب، رسم الخط اور دوسرے خصائص چینیوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے۔ترکستان چین کی قدرتی حد کے پیچھے ایک علاحدہ جغرافیائی رقبے میں واقع ہے اور اس کی چھیانوے فی صدی آبادی ترکی ہے، لہذا اسے خود مختار ہونا چاہیے۔ وہاں اسی لاکھ سے زیادہ ترک ہیں جن میں ترکی بھی ہیں اور قازق وغیرہ بھی۔ دنیا میں دس سے زیادہ ایسی آزاد قومیں ہیں جن کے افراد کی تعداد ترکستان سے کم ہے۔”
عثمان کا چینیوں سے نفرت کرنا اور ان سے لڑتے رہنا، مختصراً انہی وجوہ سے تھا اور یہی سبب ہے کہ علی بیگ، حمزہ اور دوسرے قازق بعد میں بھی اُن روسی اور چینی اشتراکیوں سے لڑتے رہے جو قازق انفرادیت کو مٹا دینے کے درپے تھے۔
جس رات کو بوکو بطور نے عثمان کو جہاد کرنے میں اپنا جانشین بنانے کی تربیت دینے کی پیش کش کی، اس کے اگلے دن علی الصباح اسلام باعی، اس کے گھر والوں اور مہمان سب نے اٹھ کر نماز فجر ادا کی اور کوئی گھنٹہ بھر بعد عثمان نے اپنا ضروری سامان ایک بغچی میں باندھا اور اپنے نئے نگراں و استاد کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر پڑاؤ سے روانہ ہو گیا۔ عا اُول سے وہ فارغ التحصیل ہو چکا تھا اوراب سے اسے عملی تجربے کے مکتب میں سبق حاصل کرنا تھا۔
اس کے احساسات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ جب سے وہ بڑوں کی باتیں سننے لگا تھا وہ بوکو بطور کے کارنامے سنتا چلا آ رہا تھا۔ جب کبھی بھی اسلام باعی کے خیمے میں کوئی مہمان آتا تو ہر پھر کے تذکرہ اس چھاپہ مار سردار ہی کا ہوتا رہتا۔ گھومتے پھرتے بھاٹ اس کی شان میں اپنے لکھے ہوئے گیت گاتے اور طویل رزمیہ نظمیں سناتے اور عثمان کے مکتب کے ملّا نے خود عثمان کو شعر لکھنے اور انھیں قدیم دُھنوں میں گانے سکھائے تھے جو سب کومحبوب تھیں۔
لہذا عثمان کی آنکھیں بوکو بطور کے سر کے گرد ضرور نور کا ایک دائرہ دیکھ رہی ہوں گی اور جب وہ دونوں ایک ساتھ اوپر الطائی کی وادیوں کی جانب سوار چلے جا رہے ہوں گے تو عثمان کی ناک میں جہاد کے مقدس مقصد کی خوشبو آ رہی ہو گی۔ اگرچہ ہمیں یہ ٹھیک نہیں معلوم کہ یہ کب کا واقعہ ہے اور وہ کہاں گئے، تاہم ہمیں اس کا یقین ہے کہ خزاں کا آخر آ پہنچا تھا اور برف کی تہ اس مقام کی جانب اترتی چلی تھی جہاں اسلام باعی کا پڑاؤ ہوتا تھا۔ بہر حال جب بھی یہ واقعہ ہوا ہو اور جہاں کہیں بھی یہ گئے ہوں، ان کا رخ برف کی تہ کی طرف تھا۔ کیوں کہ بوکو بطور پہاڑوں کے اندر چھپنے کے ایسے مقام تلاش کرتا تھا جنھیں ڈھونڈھ نکالنا دشمن کے لیے مشکل ہو۔
لہذا کچھ ہی عرصے بعد وہ برف کی تہ کی جانب چلے جا رہے تھے۔ بوکو بطور آگے تھا۔ گھوڑوں کا رخ وہ ران کے دباؤ کے اشاروں ہی سے بدل لیتے۔ پتلی پتلی لگاموں کے کھنچاؤ سے گھوڑوں کے سر اونچے ہو جاتے۔ ان ہی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قازق اپنے گھوڑوں کو کس قدر عزیز رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک کہاوت ہے کہ “بھلے گھوڑے کو چابک کی ضرورت نہیں ہوتی”۔
ان کا راستہ بھوری خشک چراگاہوں اور ایسے گنجان درختوں میں سے ہو کر جا رہا تھا کہ کسی کو سان گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کسی کا گزر ہو سکتا ہے۔ بوکو بطور نے پلٹ کر دیکھا کہ عثمان پر کیا گزر رہی ہے اور مسکرا کر کہا:
“کیا یہاں سے اپنے گھر واپس پہنچ سکتے ہو؟”
“نہیں صاحب، مگر میرا گھوڑا مجھے لے جا سکتا ہے”۔
بوکو بطور نے کہا “ٹھیک”۔ تھوڑی دیر بعد اس نے پھر پلٹ کر کہا:
“گھوڑے پر اعتماد اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ راستے سے واقف ہو۔ مگر ایک وقت ایسا آتا ہےجب کوئی نیا راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے یا کوئی پرانا راستہ نئے گھوڑے کو دکھانا پڑتا ہے، جو شخص میرے نقش قدم پر چلے اسے یہ سیکھنا چاہیے کہ نئی راہ کیسے تلاش کی جاتی ہے۔ یہ بات اسے دوسروں کو بھی بتانی چاہیے اور اپنے گھوڑے کو بھی”۔ عثمان نے یہ ڈھنگ بھی سیکھ لیا۔ جب وہ جوان ہو گیا اور بوکو بطور کا چغہ اسے مل گیا تو وہ فخریہ کہا کرتا کہ لڑائی کے بعد میں اپنی پوشیدہ کمین گاہوں میں اس طرح چپکے سے رو پوش ہو سکتا ہوں کہ سنکیانگ، شنگھائی اور کن سو تینوں صوبوں کی چینی فوجیں میری ہوا بھی نہ پائیں۔ حالانکہ وہ اتنے قریب پہنچ جاتی ہیں کہ میرے کانوں میں ان کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور میں ان کی گولیوں کی زد میں ہوتا ہوں۔ لیکن رفتہ رفتہ زمانہ بدل گیا اور اس کی زندگی کے اختتام سے پہلے اس کے دشمنوں نے ہوائی جہازوں سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا اور ان سے بچنا خاصا دشوار ثابت ہونے لگا تھا۔ مگر اکثر ایسا ہوتا کہ ہوائی جہاز بھی اس کا پتا چلانے میں ناکام رہتے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ تک ہوائی جہازوں کی بہت کمی تھی۔
عثمان اپنے گھوڑے پر سوار بوکو بطور کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی اس کے پہلو بہ پہلو بھی ہو جاتا۔ عثمان کی تیز نگاہوں نے ان نظر نہ آنے والی علامتوں کو بھی دیکھ لیا جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ پڑاؤ اب قریب آ رہا ہے۔ چٹانوں کے بعض حصے بہت سے جانوروں کے گزرنے کی وجہ سے گھس کر چکنے ہو گئے تھے، کسی کسی خار دار جھاڑی میں بھیڑوں کے اون کے ریشے اٹکے رہ گئے تھے اور کہیں کہیں بھیڑوں کی مینگنیاں پڑی دکھائی دے رہی تھیں۔
بوکو بطور نے پوچھا “تم پہلے کبھی یہاں آئے ہو؟”
“کبھی نہیں”
“تمھارا باپ آیا ہے”۔
اور عثمان کی سمجھ میں پہلی دفعہ یہ بات آئی کہ کبھی کبھی اس کا باپ صبح سویرے ہی اٹھ کر پڑاؤ سے کیوں چلا جاتا تھا اور اگلے دن یا اس سے بھی اگلے دن تک واپس کیوں نہ آتا تھا۔ اس انکشاف سے بھی اسے ایک سبق حاصل ہوا، وہ یہ کہ اپنا راز اپنے تک رکھنا چاہیے، ورنہ دوست یا عزیز ذرا سی بے احتیاطی سے بھانڈا پھوڑ دیتا ہے۔ راز داری قازقوں کی ایک مخصوص صفت ہے، جو ان کے حالاتِ زندگی کی وجہ سے ناگزیر ہو گئی ہے۔ مگر اس کی وجہ سے دوسروں کے لیے دشوار ہو جاتا ہے کہ ان کی رضا جوئی کریں، یا خود آپس ہی میں انھیں سلوک رکھنا مشکل ہو جا تا ہے۔ عثمان کے لیے یہ مشکل اور بھی سخت ہو گئی تھی کیونکہ جھوٹ بولنے پر وہ خاموش رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ حالانکہ اسی کے ساتھ کے دوسرے جی دار قازق اس اصول پر کاربند نہیں تھے۔
اس کے بعد جو اٹھارہ مہینے گزرے، ان میں بوکو بطور بہت سے حملوں میں عثمان کو اپنے ساتھ لے گیا اور اسے بہت سی وہ باتیں سکھائیں جو کسی چھاپہ مار سردار کو معلوم ہونی چاہئیں۔ گولی کا نشانہ کیسے بنایا جائے، پہلے جنگلی خرگوشوں اور پھر انسانوں کو اور اس وقت جب گھوڑا پوری رفتار سے دوڑ رہا ہو بندوق کو کمر تک اٹھا کر ہی گولی چلا دی جائے، مسلسل بیس گھنٹے تک گھوڑے پر ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ کر آرام سے کیسے سوار رہا جائے اور چار گھنٹے دم لینے کے بعد اسی گھوڑے پر پھر بیس گھنٹے کے لیے روانہ ہوا جائے۔ بعد کے حصۂ عمر میں اپنے محافظوں کے ساتھ ایک ہفتہ میں تین سو میل گھوڑے پر طے کرنا عثمان کے لیے معمولی بات تھی۔
عثمان میں ہمت و قوتِ برداشت بڑھاتے رہنے کے علاوہ بوکو بطور نے اسے یہ بھی بتایا کہ کامیاب حملوں کی رہنمائی کیسے کی جاتی ہے کہ اپنے دستے کے افراد کے جوش و خروش کو شروع میں ٹھنڈا کیا جائے اور جب بے فکر ہو کر دشمن کی زیادہ تعداد آگے نکل جائے تب ایک دم سے حملہ کر کے باقی ماندہ فوج کو کاٹ ڈالا جائے اور اس سے پہلے کہ اگلی فوج لوٹ کر آئے، الطائی کی جانی پہچانی کمین گاہوں میں بعجلت تمام روپوش ہو جانا چاہیے۔ پہاڑوں میں جب درّے برف سے تنگ ہو جاتے تو بوکو بطور دشمن کے دستے یا کارواں کی راہ بند کر دیا کرتا اور اوپر سےبڑے بڑے پتھر لڑھکانا شروع کر دیتا۔ دشمن پلٹ کر بھاگتا، مگر آگے چل کر اسے معلوم ہوتا کہ ابھی جہاں سے وہ گزر کر آیا ہے وہ راہ بھی مسدود ہو چکی ہے۔
بوکو بطور عثمان سے اکثر کہا کرتا “یہ ایک اچھی زندگی ہے بیٹا عثمان!” پھر اس زور سے قہقہہ لگاتا کہ زین پر سے پھسلتا پھسلتا بچتا۔ “چپکے سے دشمن کے عقب میں پہنچ گئے اور اس سے وہ سامان جنگ چھین لیا جسے وہ تمھارے جسم میں داخل کرنا چاہتا تھا، اتنے میں کہ وہ اپنی رائفل بھرے اور گولی چلائے تم اپنے گھوڑے اڑا کر اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ تمھیں اس میں بڑا لطف آئے گا عثمان!”
چھاپہ اور شب خون مارنے کا بوکو بطور کو اس قدر شوق تھا اور اس کے حملے سے ایسی سنسنی پھیلتی تھی کہ اس کے متعلق سینکڑوں قصے اور داستانیں مشہور ہو گئی ہیں۔ جب اس نے عثمان کو اپنی شاگردی میں لیا تو وہ دور دور چینی ترکستان اور اس کے پیچھے تک تاخت کر رہا تھا۔ سالہا سال تک وہ منچو حکومت والوں کی چوٹیاں مروڑنے اور ٹانگیں کھینچنے میں لگا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بے حد قوی تھا اور اسے چینیوں نے اگرچہ کئی بار گرفتار کیا لیکن زیادہ عرصہ تک اسے اپنی قید و بند میں نہ رکھ سکے۔ بعض دفعہ وہ اس کے بیڑیاں ڈال دیتے اور ہتھکڑیاں لگا دیتے، لیکن وہ انھیں توڑ لیتا اور اس کے گرفتار کرنے والے یا قید خانے کے محافظ رائفلیں ہی اٹھاتے رہ جاتے اور بوکو بطور فرار ہو جاتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حسب دستور اسے بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر بیل کی تازہ اتری ہوئی کھال میں سی دیا۔ اتنی بڑی کھال کا جانور ہی تلاش کرنے میں خاصی دیر ہو گئی۔ بوکو بطور اس نفرت انگیز ماحول میں دنوں قید رہا۔ بعض کا بیان ہے کہ مہینوں سلا پڑا رہا۔ لیکن ایک دن صبح جب قید خانے کے محافظ اسے کھانا دینے گئے تو دیکھا کہ کھال خالی پڑی ہے۔
ہم تصور میں دیکھ سکتے ہیں کہ عااول میں آگ کے سامنے دونوں بیٹھے ہوئے ہیں اور سو رہنے سے پہلے بوکو بطور عثمان کو اپنے بچ نکلنے کے قصے سنا رہا ہے۔ عثمان دم بخود سن رہا ہے اور اس کے دل میں امنگیں اٹھ رہی ہیں۔ عثمان بھی اس کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہے لیکن وہ اس بات کو بھی سمجھ رہا ہے کہ بوکو بطور کی جرات مندی میں مآل اندیشی کی کمی ہے۔ آزادی کے لیے کشمکش کرنے میں حوصلے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ہوشیاری کی بھی۔ عثمان نے اس اہم اصول کو گرہ میں باندھ لیا تھا کہ اپنا راز کسی سے کہہ کر غیر ضروری خطرہ مول نہیں لینا چاہیے اور اس افسوسناک حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اپنوں ہی میں باغی بھی ہوا کرتے ہیں جن کا پتہ چلاتے رہنا چاہیے۔ یہ واقعہ کہ بوکو بطور بیل کی کھال میں اسماعیل نامی ایک ترکی بدکردار کی دغا بازی کے باعث سیا گیا تھا، عثمان کی نظر میں زیادہ اہمیت رکھتا تھا بہ نسبت اس واقعے کے کہ بوکو بطو رنے اپنی قوت کی وجہ سے دوبارہ آزادی حاصل کی۔ عثمان کے نزدیک قوت ایک عطیہ خداوندی ہے، اسی طرح دانشمندی بھی اور جس کے پاس یہ دونوں ہوں اسے اپنا اطمینان کر لینا چاہیے کہ وہ دونوں کو اچھی طرح استعمال کر رہا ہے یا نہیں اور جو ان کا صحیح استعمال کرتا ہے اس کی حفاظت اللہ کرتا ہے۔
بوکو بطور کے جنگ کرنے کے طریقے سیکھنے کے علاوہ عثمان نے یہ بھی سیکھ لیا کہ چینی سرحد کے محافظوں کے بغیر روکے ٹوکے چینی سرحد کو کس طرح پار کیا جائے۔ اُن دنوں سرحد پار کا علاقہ زاری روس کہلاتا تھا اور بوکو بطور اسے “رشّی” کہا کرتا تھا۔ اسے پار کر لینے کے بعد وہ بے خوف و خطر آگے سفر کر سکتے تھے۔ کیونکہ روسی افسروں میں بہت سے دوست تھے۔ بعض اوقات وہ شمال کی جانب بارہ سنگھے کے علاقے میں پہنچ جاتے جو جنوبی سائبیریا میں تھا، کم از کم ایک بار وہ آلما آتا تک بھی جا پہنچے جو آج کل کے سوویت جمہوریہ قازقستان کا صدر مقام ہے اور جہاں کے ثمرستان اور عمدہ موسم سارے ایشیا میں مشہور ہیں۔
جب وہ الطائی واپس آئے تو اپنے ساتھ نئے حاصل کیے ہوئے اونٹوں کی ایک لمبی قطار بھی لائے۔ ان اونٹوں پر وہ ہتھیار اور گولہ بارود لدا ہوا تھا جو روسیوں نے انھیں دیا تھا۔ اس وقت اور بعد میں جب سرخوں نے سفیدوں سے اقتدار لے لیا، روسیوں کی حکمت عملی یہ تھی کہ سنکیانگ میں چینیوں کے لیے جتنی خرابیاں پیدا کی جا سکیں کی جائیں۔ کیونکہ اس صوبے پر روسیوں کی نظر تھی اور اب بھی ہے۔ اس سرحد کے ساتھ ساتھ دو سو میل چوڑی پٹی ہے جس کے مطالبے سے زاروں کے زمانے سے اب تک ماسکو نے دست برداری نہیں کی ہے۔ سوویت حکومت نے ١٩٤٦-٤٧ء میں اس پٹی کا ایک حصہ دبا لیا تھا اور ا ب تک اس پر انہی کا قبضہ ہے۔ سوویت روس کا مطالبہ دوسرے حصوں کے لیے اب تک سرکاری طور پر واپس نہیں لیا گیا ہے بلکہ اسے اب بھی التوا میں ڈال رکھا ہے۔ اس علاقے میں سونا ہے اور قیمتی خام دھاتیں ہیں، اور اگر ترکی کے قازق مہاجروں کا کہنا صحیح سمجھا جائے تو وہاں یورینیم بھی ہے؛ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ روسی وہاں ایٹمی کارخانہ بنانا چاہتے ہیں اور بعض کا بیان ہے کہ روسیوں نے کارخانہ کھول بھی لیا ہے۔
روسیوں نے جو ہتھیار بوکو بطور کو دیے تھے، ان سے بوکو بطور نے بڑے پیمانے پر چینیوں پر حملہ کر دیا۔ اس نے سب سے پہلے “حر الطائی” طلب کی۔ جنگی مشورتی مجلس کا یہ قازقی نام چنگیز خاں کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ الطائی تئین شن اور بارکل کیرئی قازقوں کے جتنے ہزاری اور دہ ہزاری سردار تھے ان سب کو اس نے بلا بھیجا۔ ان بلائے جانے والوں میں سے بہت سے رقابت یا بے تعلقی کی وجہ سے نہیں آئے، یہ لوگ وہ تھے جو خراج لینے والے چینیوں میں اب تک نہیں پھنسے تھے اور انھیں ابھی اس کا خوف محسوس نہیں ہوا تھا کہ “آسمان کے نیچے ایک خاندان” میں وہ جذب ہو جائیں گے۔ تاہم دس ہزار کی جمعیت تیار کرنے میں بوکو بطور کامیاب ہو گیا۔
اس جنگ میں اسے شکست اٹھانی پڑی اور سخت نقصان ہوا۔ تئین شان پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں پر کیو کلوک کے قریب ایک لڑائی ہوئی جو پیش خیمہ تھی ایک اور ایسی ہی لڑائی کا۔ اس کا حال مناسب مقام پر بیان ہو گا۔ پھر کارا شہر میں تشنہ پہاڑوں کو عبور کرنے کا خطرہ مول لینے سے پہلے بوکو بطور نے اپنے چہار دہ سالہ شاگرد کو اپنے پاس بلا کر کہا:
“میں تم سے استدعا کر تا ہوں کہ تم اب واپس چلے جاؤ۔ کیونکہ تمھارے قبیلے والوں کو اب تمھاری ضرورت ہے”۔
اور عثمان نے ایک قدیم پیغمبر کی طرح کہا:
“میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ جب تک اس دنیا میں میری روح میرے جسم میں رہے گی میں آپ کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا”۔
اور بوکو بطور نے محبت سے جواب دیا:
“نہیں تمھارے قبیلے والوں کو تمھاری ضرورت ہے اور جیسا کہ میں پیشین گوئی کر چکا ہوں: تمھارے بعد تم جیسا کوئی اور پیدا نہیں ہو گا۔ اگر تم مر گئے تو تمھارے قبیلے والے ان بھیڑوں کے گلے کی طرح رہ جائیں گے جن کا کوئی گلہ بان نہ ہو”۔
عثمان نے التجا کرتے ہوئے کہا کہ “میرے ساتھ آپ بھی چلیے میرے باپ، کیونکہ میں آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑ سکتا”۔
“نہیں میرے بیٹے، میرا کام ختم ہو گیا۔ اب میں اس سرزمین کا پتہ چلانے جاتا ہوں جہاں وقت پڑنے پر، جب تمھاری زمین تم پر تنگ ہونے لگے، تم پناہ لے سکو۔ میں تمھیں اتنی دور اس لیے لایا تھا کہ تمھیں راستہ دکھا دوں”۔
استاد اور شاگرد کے جدا ہو جانے کے بعد بوکو بطور خطرناک تشنہ پہاڑوں کو عبور کر کے غزکُل کی جھیل پر پہنچا جو رول کی طرح سیدھی اور سکڑی ہے۔ اس کی آخری لڑائی ایک اور قریب کی جھیل کے کنارے ہوئی جس کا نام اچیک کُل ہے۔ جب گھمسان کا رن پڑا تو اس کی بے قاعدہ فوج چینیوں کی باقاعدہ فوج کے آگے نہ ٹھہر سکی اور انجام کار وہ اس بری طرح منتشر ہوئے کہ پھر نہ سنبھل سکے۔ مارے جانے والوں میں بوکو بطور کی پہلی بیوی تھی اور بوکو بطور کا سب سے چھوٹا بھائی شوکو بطور۔ یہ دونوں میدانِ جنگ کے قریب ہی دفن کیے گئے۔ بوکو بطور اور ان کے دوستوں نے ان قبروں پر لوحیں نصب کیں جو ١٩٥٠ء تک قائم تھیں۔ اگر اس کے بعد انھیں ہٹا نہ دیا گیا ہو تو خانہ بدوش قازقوں میں سے جو اب بھی وہیں قرب و جوار میں رہتے ہیں، ادھر جانے والوں کو یہ یادگاریں دکھا سکیں گے، کیوں کہ بوکو بطور اور اس کے خاندان والوں کی عزت و تکریم اب بھی ان کے دلوں میں جوں کی توں قائم ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ اشتراکیوں نے ان قبروں کو ضرور مٹا دیا ہوگا تاکہ ان کی یاد مٹ جائے جو ان میں آسودہ تھے۔
جنگ کے بعد بوکو بطور نے اپنی قوم کے پانچ ہزار افراد، ان کے گلے اور ریوڑ اور خاندانوں کو جمع کیا اور انھیں غیر آباد علاقوں میں لے گیا، تاکہ ایسے نئے مسکن تلاش کریں جن تک چینی مرکزی حکومت کی رسائی نہ ہو سکے۔ بنی اسرائیل کی طرح یہ سب کے سب اکٹھے روانہ نہیں ہوئے بلکہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں، لیکن ان میں وہی تنظیم کار فرما تھی جو حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو منظم کرنے میں اختیار کی تھی، یعنی گروہ بندی کر دی تھی۔ ہزار ہزار، سو سو، پچاس پچاس اور دس دس افراد کی۔
استاد کے حکم کے مطابق عثمان نو دنتی کنگھی کی وادی میں اپنے باپ کے خیمے میں پہنچ گیا اور بوکو بطور اپنے ساتھیوں سمیت جنوب کی طرف چلتا رہا اور تکلا مکان صحرا اور پر خطر تشنہ پہاڑوں کو عبور کرتا رہا۔ اس سفر میں کتنے ہی مر گئے، لیکن بوکو بطور اور اس کے ساتھیوں کی ایک خاصی بڑی تعداد صحرا کی صعوبتیں جھیلتی، پہلے اچیک کل پہنچی اور پھر لڑائی کے بعد کُنلون کے زبردست پہاڑوں کو پار کر کے تبت جا پہنچی۔ انھوں نے سب سے پہلے وہ طویل سفر طے کیا جس کے بعد کم سے کم تین مرتبہ قازقوں کو ہر بار اتنی ہی مصیبتیں جھیل کر طے کرنا پڑا۔
بوکو بطور کا ارادہ ترکی جانے کا تھا لیکن جب وہ لاسا پہنچا تو چینی اژدہے نے اپنے پنجے بڑھا کر اسے دبوچ لیا۔ اس کا سر تن سے جدا کر کے کئی دن بعد سنکیانگ کے صدر مقام اُرمچی کے دروازوں میں سے ایک پر لمبے سے بانس پر چڑھا کر لٹکا دیا گیا۔ جہاں سر کاٹا گیا تھا اس سے یہ مقام ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے۔ بوکو بطور کا سر وہاں لگا رہا اور چیلیں جھپٹ جھپٹ کر اس کے گوشت کے آخری ریشے تک نوچتی رہیں اور دھوپ اور ہوا نے اسے خشک کر کے سکیڑ دیا، یہاں تک کہ صرف کھوپڑی ہی کھوپڑی رہ گئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ اہل اختیار نے اسے بھی اتار کر پھینک دیا اور اس کے بدلے کسی اور کا سر اُس بانس پر چڑھا دیا۔
اور ان لوگوں میں سے جو بوکو بطور کے ساتھ تھے، کچھ تبت ہی میں رہ پڑے اور وہیں کے لوگوں میں انھوں نے شادیاں کر لیں اور ان کے خاندان بڑھ گئے اور اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ کچھ نے ہمالیہ عبور کیا اور ہندوستان میں پہنچ گئے لیکن ان میں سے بیشتر تھوڑے تھوڑے کر کے اپنے وطن ہی کو لوٹ گئے۔
تیسرا باب
عثمان بطور کا آغازِ شباب
عثمان بطور اگرچہ صرف چودہ سال کا تھا، تاہم جب نو دنتی کنگھی کی وادی میں وہ اپنے باپ کے خیموں میں واپس پہنچا تو نہ صرف پکا چھاپہ مار بن چکا تھا بلکہ اپنے وقت کے سب سے مشہور چھاپہ مار سردار کا متوقع جانشین بھی سمجھا جانے لگا تھا۔ بوکو بطور کی اٹھارہ مہینے کی تربیت میں اس نے میدانِ جنگ میں دیوانہ وار گھوڑے کو سرپٹ دوڑانے کی سنسنی خیز سرخوشی کا تجربہ بھی حاصل کر لیا تھا۔ کولھے کے قریب رائفل رکھے وہ گولیاں بھر بھر کر چلاتا رہتا اور اپنے گھوڑے کو اپنے جسم اور ٹانگوں سے قابو میں رکھتا بلکہ اپنے تعاقب کرنے والوں پر زین ہی پر گھوم کر گولیاں چلاتا اور جب حملہ ختم ہونے کا اشارہ کیا جاتا تو دشمن کے نرغے میں سے صاف نکل جاتا اور گھوڑا دوڑا کر پہاڑی کمین گاہوں میں پہنچ جاتا۔ کئی بار یہ ہو چکا تھا کہ اسے دس دس بلکہ پچا س پچاس افراد کے دستوں کی کمان دی گئی لیکن اکثر یہ ہوتا کہ وہ بوکو بطور کے شبدیز کے قریب سے قریب لگا رہتا تاکہ یہ جان جائے کہ بوکو لڑائی میں اپنے آدمیوں کی رہنمائی کس طرح کرتا ہے اور ان پر اپنا اثر کیسے قائم رکھتا ہے۔
جنگی چالوں کے لحاظ سے بوکو بطور کی پسندیدہ حکمت عملی یہ تھی کہ دشمن کو پریشان کیا جائے۔ بجلی کی طرح حملہ کیا اور پہاڑوں میں غائب ہو گئے، تاکہ دوسرا حملہ کہیں اتنی دور کیا جائے کہ چینیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا ہو۔ جب یہ صورت حال ہوتی تو ان کے لڑنے والے آدمیوں کے ساتھ نہ ان کے بیوی بچے ہوتے اور نہ ریوڑ اور ان کے پاس کوئی سامان بھی نہیں ہوتا تھا، سوائے سامان جنگ کے جو کوتل گھوڑوں پر لدا رہتا۔ لہذا جب یہ ضرورت محسوس کرتے تو ایک ایک دن میں سو سو میل طے کر لیتے اور چینی اگر تیس میل بھی دن بھر میں طے کر لیتے تو سمجھتے کہ انھوں نے کوئی بڑا کارنامہ کر لیا۔ لیکن آخر میں غالباً روسیوں کی شہ پر بوکو بطور نے ایک ایسی جنگ کا اقدام کیا جس کے لیے اس کے پاس نہ تو مناسب سامانِ جنگ تھا، نہ ذرائع رسل و رسائل ٹھیک تھے اور نہ صحیح قسم کے لڑنے والے آدمی ہی تھے۔ اپنے وطن کے پہاڑوں میں قازق سوار ایک زبردست دشمن ثابت ہوتے تھے۔ ابھی یہاں، ابھی وہاں، نڈر، پھرتیلے اور اپنے علاقے کے چپے چپے سے پوری طرح واقف، مگر گھمسان کی لڑائی میں وہ اتنے کامیاب نہ تھے اور فصیل دار شہر کا محاصرہ کرنا تو سرے سے ان کے بس کی بات ہی نہیں تھی اور مشرقی ترکستان میں ایسے ہی شہر زیادہ ہیں۔
یہی وجہ تھی کہ ١٩١٣ء میں ہی بوکو بطور کو کچھ ایسی ہزیمت اُٹھانی پڑی کہ اس کے لیے صرف دو صورتیں باقی رہ گئیں، یا تو اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر دے، جس کے معنی یہ تھے کہ یقیناً قتل کر دیا جائے یا پھر راہ فرار اختیار کرے۔ اس کے ساتھیوں کے لیے ایک صورت تو یہ تھی کہ چپکے سے کھسک کر کمین گاہوں میں روپوش ہو جائیں اور اس وقت تک چھپے رہیں جب تک چینی انھیں بھول نہ جائیں، یا پھر یہ کریں کہ جہاں کہیں بھی ان کا سردار جائے یہ بھی اسی کے ساتھ لگے رہیں۔ قازقوں کا طریقہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے۔ ہر لڑنے والے کو فرداً فرداً مکمل آزادی تھی کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک کو پسند کر لے۔ ہر شخص جانتا تھا کہ اگر اس نے دوسری بات کو پسند کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے خیمے اور فصلیں اکھاڑے اور اپنے پورے خاندان، بیوی بچوں، اپنے گلوں اور ریوڑوں کو ساتھ لےکر کم از کم ایک ہزار میل کے سفر پر روانہ ہو جائے اور اس سفر میں ہر وقت خطرے سے دوچار ہونے کے لیے تیار رہے۔ یہ خطرہ چینیوں کی طرف سے بھی ہو سکتا تھا اور تبتیوں کی طرف سے بھی اور سب سے زیادہ اندیشہ بنجر صحراؤں اور پہاڑوں کی طرف سے ہو سکتا تھا کیونکہ ان کا راستہ انہی میں سے ہو کر جاتا تھا۔
بوکو بطور بہت بدقسمت تھا کہ وہ لاسا ایسے وقت میں پہنچا جب تبت کی تاریخ میں اس سے زیادہ چینیوں کا اقتدار پہلے کبھی نہیں تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس نے اس خطرے کا احساس کر لیا تھا، جبھی تو اس نے عثمان کو الطائی واپس جانے کا حکم دیا تھا۔ ورنہ وہ اس لڑکے کو گھر واپس بھیج دینے کے بدلے ٹھیک ارض موعود تک اپنے ساتھ لے جاتا۔
عثمان نے اپنے گھر کی جانب سفر کارا شہر کے قریب سے شروع کیا تھا۔ یہ ایک فصیل دار شہر ہے۔ تئین شان پہاڑوں کے جنوبی دامنوں میں ایک جھیل کے کنارے۔ عثمان کے مسکن سےکارا شہر تین سو میل کے فاصلے پر ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ گھوڑے پر اس نے یہ سفر ایک ہفتے میں طے کیا۔ اس سفر میں وہ مشہور شہر طرفان میں سے گزرا جو سطح سمندر سے ٩٦٠ فٹ نیچےایک وادی میں ہے۔ طرفان میں اتنی گرمی ہوتی ہے کہ یہاں کے عورت مرد صرف رات ہی کو کھیتی باڑی کر سکتے ہیں لیکن طرفان کے انگور دو انچ لمبے اور ایشیا بھر میں سب سے میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں۔ تربوز بھی یہاں کے اتنے ہی بڑے اور شیریں ہوتے ہیں۔
راستہ جیسا کچھ بھی تھا، کچھ تو مزروعہ زمینوں میں سے تھا اور کچھ لق و دق میدانوں اور صحراؤں میں سے۔ بعض مقام ایسے تھے کہ ان میں پتھریلی زمین پر سے گزرنا ہوتا تھا اور راہ کا تلاش کرنا مشکل ہو جاتا۔ لیکن اس کی نشاندہی اونٹ، گھوڑے اور دوسرے جانوروں کے وہ پنجر کرتے تھے جو تھوڑے تھوڑے سے فاصلے پر پڑے ہوتے۔ چیلوں اور گیدڑوں کی خوش نصیبی سے یہ جانور بیدم ہو کر گرتے اور مرتے رہتے۔ کبھی کبھی راستے کے کنارے پتھروں کا ایک ڈھیر سا نظر آتا جو زبان حال سے کہتا کہ میں تمھارے ہی طرح کے ایک انسان کی ڈھیری ہوں۔ اس راہ میں جو مسافر مر گیا وہ یہاں دفن ہے۔ تنہا مسافر کو خواہ وہ تجربہ کار ہی کیوں نہ ہو، جب ایسی راہ سفر اختیار کرنی پڑتی تو اسے اپنے ہوش و حواس ہر وقت قائم رکھنے پڑتے۔ اور عثمان کو جو ابھی صرف چودہ سال ہی کا تھا اور بھی زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت تھی۔ اس کی کچھ شہرت بھی ہو چلی تھی۔ اگر کوئی چینی افسر یا فوجی اسے دیکھ لیتا اور پوچھ بیٹھتا کہ تم اتنی کم عمر کے قازق اپنے گھر سے اتنی دور یہاں کیا کررہے ہو؟ تو شاید اس سے کوئی جواب نہ بن پڑتا۔ لہذا جب بھی وہ کسی فصیل دار شہر یا بازار میں اپنے اور گھوڑے کے لیے کھانا دانا خریدنے جاتا ہوگا تو ضرور اس کا دل لرزتا ہو گا، مگر جب دن گزرتے رہے ہوں گے اور وہ کسی ایسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوا ہوگا تو اس کا خوف روز بروز کم ہوتا چلا گیا ہو گا۔
جب عثمان اپنے باپ کے خیمے پر پہنچا تو کوئی اچھا فربہ برہ اس کے لیے حلال نہیں کیا گیا، کیونکہ قازقوں کا یہ دستور نہیں ہے۔ اتنا لمبا سفر دشمنوں سے بچتے ہوئے طے کر لینے پر بھی اس کے باپ نے اسے مبارکباد نہیں دی۔ بلکہ اگر وہ سلامتی سے اس سفر کو طے نہ کرتا تو اسلام باعی اسے احمق قرار دیتا۔ اس کے علاوہ اسلام باعی کو اس کی احتیاط بھی رکھنی تھی کہ لوگ اس کے بیٹے کی غیر حاضری پر چہ میگوئیاں نہ شروع کر دیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی دغاباز یا محض افواہ باز چینیوں کو اس راز سے آگاہ کر دے۔
چنانچہ عثمان پھر اپنے باپ کے خیموں میں پہلے کی طرح رہنے لگا۔ گویا پچھلے بیس مہینوں میں کوئی غیر معمولی بات اسے پیش نہیں آئی تھی۔ اس کے واپس آ جانے کے بعد اکثر ایسا ہونے لگا کہ پڑاؤ میں اکثر انجانے آدمی آ جایا کرتے۔ انھیں عثمان پہچان جاتا لیکن اپنی واقفیت کا کوئی اظہار نہ کرتا۔ اس کا باپ قازقوں کی روایتی مہمان نوازی کے مطابق ان کی خاطر مدارت کرتا اور وہ اگلے دن صبح سویرے اس طرح رخصت ہو جاتے جیسے عثمان سے ان کی پہلی کوئی ملاقات نہیں ہے۔ لیکن عثمان کو وہ یہ باور کرا جاتے کہ وقت آنے پر وہ سب اس کی ایک آواز پر اس کے گرد جمع ہو جائیں گے اور چینیوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ عثمان ان کے نام اور مقام اپنے حافظے میں محفوظ کر لیتا اور انھیں کاغذ پر نہ لکھتا، تاکہ پرچول کرنے والی آنکھوں سے یہ راز بچا رہے۔ اسے کاغذ کا اعتبار نہیں تھا۔
ایسے ہی ایک مسافر سے عثمان نے پہلی بار سُنا کہ اس کے پیارے استاد کا سر قلم کر دیا گیا۔ اس کا کوئی ثبوت تو نہیں ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ عثمان نے جب یہ خبر سُنی تو اس نے قسم کھائی کہ میں بوکو بطور کی موت کا ہزار گُنا بدلہ لوں گا۔ اپنی زندگی کے بعد کے حصے میں اس نے اپنا یہ اصول بنا لیا تھا کہ مشرقی ترکستان سے چینیوں کا نام و نشان تک مٹا دینے کی کوشش میں لگا رہے۔ بوڑھے، بچے، عورتیں کسی پر ترس نہ کھائے اور ان سے کسی قسم کا معائدہ نہ کرے۔ یہ امر مشتبہ ہے کہ اس جارحانہ اصول کو عثمان نے پہلے اختیار کیا یا چینیوں نے، لیکن یہ ایک ایسا اصول ہے جسے دونوں فریقوں نے ١٩٤٤ء کے بعد بھی ترک نہیں کیا جب مشرقی ترکستان اور خود چین حصول خود مختاری کے لیے چینی اور روسی اشتراکیوں کی ملی جلی فوجوں سے برسرِ پیکار تھا۔
واپس آنے کے چند سال بعد تک عثمان ایک نوجوان قازق کی سی عام زندگی بسر کرتا رہا۔ وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ اپنی عمر کے نوجوانوں کے کھیلوں اور مقابلوں میں شریک ہوتا، نیم وحشی گھوڑوں کو پہاڑوں پر سے گھیر لاتا اور مقامی چینی افسروں کے دیے ہوئے نشان سے انھیں داغتا اور ان کا اندراج کراتا۔ شکاری شاہین جو اس کے گھر میں الطائی لومڑیوں کو شکار کرنے کے لیے پالے جاتے، ان کو سدھانا اس نے سیکھ لیا تھا۔ لومڑیوں کی کھالیں انھیں اپنے کپڑوں میں استر لگانے کے لیے درکار ہوتیں۔ وہ اپنے باپ کی بھیڑوں کا اون بھی کاٹتا، ترقی یافتہ ملکوں کی طرح نہیں کہ سال میں ایک دفعہ اون کاٹا جائے، جب اون خوب اچھی طرح بڑھ آئے بلکہ جب بھی مقامی بازار میں اون کے دام چڑھے ہوئے ہوں یا جب گھر والوں کو نمدے کی ضرورت ہو، اس کام کے لیے عثمان اپنے ایک ملازم سے کوئی ایسی بھیڑ پکڑواتا جس کا اون عرصے سے کاٹا نہ گیا ہو اور ایک بڑی سی قینچی سے، جس سےہمارے ہاں مالی گھاس کے چھوٹے قطعے تراشتے ہیں، اس کا اون کاٹ لیتا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے یہ طریقہ بڑا سست اور نفع بخش بھی کم ہے، کیونکہ ایک بھیڑ کا اون کاٹنے میں عثمان کا ایک گھنٹہ صرف ہو جاتا تھا۔ لیکن ہماری ضرب المثل کی طرح قازقوں میں وقت اور دولت ہم معنی لفظ نہیں ہیں۔
جب عثمان کوئی سولہ برس کا ہوا، اس کی تاریخ پیدائش کسی کو معلوم نہیں ہے، تو اس کے باپ نے کہا “اب تمھیں اپنی شادی کی فکر کرنی چاہیے”۔
اسلام باعی نے کہا “میں نے اور تمھاری ماں نے اس معاملے پر بہت غور کیا ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ تم پہلونٹی کے ہو۔ تمھیں اس عمر میں شادی کر لینی چاہیے، جب تم بالغ ہو جاؤ تاکہ ہماری نسل ختم نہ ہونے پائے”۔
عثمان نے پوچھا “کیا کوئی مناسب رشتہ آپ کی نظر میں ہے؟”
اسلام باعی نے کہا “ہمارے پڑاؤ میں تو نہیں ہے، یہ تم بھی جانتے ہو؛ لیکن ایک لڑکی ہے جس کی تعریف سُنی ہے، باعی ملّا کی بیٹی۔ وہ ہے تو ہمارے قبیلے ہی کا، مگر ہمارا ہم خیال نہیں ہے۔ اس کی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں، اس لیے وہ زرِ شادی زیادہ طلب نہیں کرے گا”۔
عثمان نے پوچھا “کیا قائنی میری محرم نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس سے شادی نہیں ہو سکتی۔ شرع نے ایسے رشتے کو حرام قرار دیا ہے”۔
اسلام باعی نے کہا “تم جانتے ہی ہو، ہمارے قبیلے کا یہ رواج چلا آتا ہے کہ اگر چار پشتوں تک بھی ایک جَد نہ ہو جاتا ہو تو نکاح جائز سمجھا جاتا ہے اور وہ کیا مثل ہے: وہ جو اپنی سات پشتوں کے اجداد کے نام نہ بتا سکتا ہو، جھوٹا اور کافر ہے۔ آٹھ پشتوں تک باعی ملا کا اور میرا کوئی جد مشترک نہیں ہے”۔
عثمان کی ماں خاموش بیٹھی ان کی باتیں سُن رہی تھی، اب وہ بولی “جب میں نے تمھارے باپ سے شادی کی تو میں نے ملازمہ کی حیثیت سے ان کی والدہ کے خیمے میں پورے سال بھر شادی سے پہلے خدمت کی۔ پھر جب ملا نے ہم دونوں سے پوچھا: بتاؤ کیا تم دونوں کو یقین ہے کہ تم دونوں یک جا خوش و خرّم رہ سکو گے، تو ہم دونوں نے سچے دل سےکہا: ہاں”۔
اسلام باعی نے کہا “میری باعی بی شا، یہی تمھارے بیٹے کو بھی کرنا ہو گا۔ شادی ہونے تک لڑکی تمھارے خیمے میں ملازمہ کی طرح کام کرے گی۔ مگر ذرا اس کا خیال رکھنا کہ ان دونوں میں کوئی بے وقوفی کی حرکت نہ ہونے پائے، ورنہ مجھے تمھارے فرض کی عدم ادائیگی کی قیمت زر شادی کی صورت میں بھرنی پڑ جائے گی۔ اگر اس لڑکی نے خوشنودی حاصل نہیں کی تو وہ جیسی آئے گی اپنی ماں کو لوٹا دی جائے گی، اس سے آپس میں کسی قسم کا بگاڑ نہیں ہونے پائے گا۔ اور اگر اس لڑکی نے رضامندی حاصل کرلی تو ان دونوں کی شادی کر دی جائے گی”۔
لہذا شادی کرانے کے لیے ایک مناسب آدمی تلاش کر لیا گیا۔ اس نے پہلے عثمان باعی سے طویل اور مفصل گفتگو کی۔ اس کے بعد لڑکی کے باپ کے خیمے میں گیا اور یہ معلوم کیا کہ اپنی لڑکی دینے کے لیے اسے کتنے اونٹ، مویشی، بھیڑ، بکریاں یا گھوڑے لینے ہیں۔ باعی ملا کوئی تیس میل دور رہتا تھا اور رشتہ کرانے والے کو بڑی ہوشمندی اور سلیقہ شعاری کی ضرورت تھی، کیونکہ لڑکی والا ڈرتا تھا کہ لابان کی طرح مرے گرے مویشی پر کہیں لڑکی کا سودا نہ ہو جائے۔ اس لیے شرائط طے ہونے میں خاصی دیر لگ گئی۔ بہرحال یہ معاملہ بھی ختم ہو گیا مگر صرف آزمائش کی حد تک، کیونکہ قازقوں میں یہ رواج ہے کہ ناپسندیدگی کی صورت میں فریقین میں سے کوئی بھی رشتہ واپس لے سکتا ہے۔
لیکن قائنی شروع ہی سے ہر دلعزیزی حاصل کرنے لگی۔ عثمان کی خوشنودی بھی اس نے حاصل کر لی اور اس کے خیموں میں رہنے والوں کی بھی۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھی اور شعر کہنا اور گانا بھی جانتی تھی۔ اس کے علاوہ محنت مشقت سے جی نہیں چراتی تھی اور نہ صرف دستکاریوں میں ہوشیار تھی بلکہ ایک پُرانی گھسی گھسائی سنگر کی سلائی کی مشین سے بھی سی لیتی تھی۔ یہ مشین کسی قازق سردار نے کوئی چالیس سال پہلے اپنی بیویوں کے استعمال کے لیے منگائی تھی۔
ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ جب عثمان کی شادی ہوئی تو اس کی پہلی بیوی کی کیا عمر تھی اور نہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں اور کتنی شادیاں کیں۔ اس کا البتہ ہمیں یقین ہے کہ کسی ایک وقت میں بھی اس کی چار سے زیادہ بیویاں نہیں تھیں، کیونکہ شریعت اسلامی میں ایک وقت میں اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے اور عثمان اپنے مذہبی اصولوں پر سختی سے کاربند تھا۔ اس کی ایک بیوی اس کے ساتھ خیمہ میں رہتی تھی، باقی بیویوں کے اپنے الگ الگ خیمے تھے۔ قازقوں میں یہ بُرا سمجھا جاتا تھا کہ ایک خیمے میں دو بیویاں رہیں۔
قائنی یہاں آتے ہی بستر کی توشکیں، قالین، کشیدہ کاری کے پردے اور خاص خاص موقعوں پر پہننے کے لیے نفیس لباس تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔ اس عرصہ میں عثمان کے باپ اور ماں اور ملازم ان چیزوں کی فراہمی میں لگے رہے جو رواج کے مطابق دولہا کے ماں باپ کو مہیا کرنی پڑتی ہیں۔ انھوں نے کئی بھیڑوں کا اون اُتروایا، خیموں کے قریب جو چشمہ بہتا تھا اس میں اس اون کو دھو دھلا کر صاف کیا اور اسے زمین پر پھیلا دیا تاکہ اسے پیروں سے مالیدہ کر کے کوئی ¾ انچ موٹا نمدا بنا لیا جائے۔ اس نمدے کی ضرورت عثمان کے نئے خیمے کےلیے تھی۔ خیمے کے ہر حصے کے لیے اس کے فرش کے مطابق نمدا تھوڑا تھوڑا سا بنانا تھا تاکہ خشک ہونے پر اس کے سکڑنے کی گنجائش رہے۔ اون کو پانی میں بھگو کر خوب اونچا اونچا فرش پر پھیلایا گیا، پھر دنوں روزانہ کئی کئی گھنٹے ملازم ننگے پیروں سے اسے مالیدہ کرتے رہے اور حسب ضرورت اس میں اون کا اضافہ کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ دب دبا کر خوب دبیز ہو گیا اور ایسا کہ ہوا اور بارش کا اس میں سے گزر نہ ہو۔ عثمان چونکہ ایک سردار کا بیٹا تھا اور اپنے حلقے کا خود بھی سردار تھا اس لیے وہ سفید خیمے میں رہتا تھا۔ جو اس سے کمتر درجے کے لوگ تھے وہ سیاہ یا مٹیالے خیموں میں رہتے تھے۔
جب شادی کا دن آیا تو ملا نے دولہا اور دلہن سے پوچھا “کیا تم دونوں یکجا خوش رہ سکو گے”۔ اس پر دونوں نے کہا “ہاں”۔ ملا نے ان دونوں کے میاں بیوی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس رات ایک بڑی ضیافت ہوئی جس میں دلہن والے اور دولہا والے اور یقیناً ملا جی بھی شریک ہوئے اور دولہا دلہن پہلی بار ایک علاحدہ خیمے میں سوئے۔ اگلے دن سے اسلام باعی کے ذاتی ملازم اور کارکن عثمان کے ماتحت نہیں رہے اور عثمان نے بھی ان سے کام لینا چھوڑ دیا۔ جب تک باپ جیتا رہا، عثمان کو ان پر کوئی اختیار نہیں رہا۔
عثمان کی شادی کو چند مہینے ہی ہوئے تھے کہ الطائی کے پہاڑی درّوں پر خفیف سی بدلیاں چھا گئیں۔ یہ بدلیاں اس دھماکے سے اٹھی تھیں جس نے چار پانچ ہزار میل دور زار کے ظلم و ستم کو برباد کر دیا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر جبر و تعَدّی کی ایک اور حکومت قائم کر دی تھی۔ ١٩١٧ء کے اکتوبر میں جو انقلاب ہوا تھا (ہماری تقویم کے مطابق یہ مُبینہ انقلاب نومبر میں ہوا تھا) اس میں قازقستان کے تارکین وطن نائمان قازق قطار در قطار روسی چینی سرحد کو عبور کر کے آنے لگے۔ یہ مہاجر اپنے گلے اور ریوڑ لیے گروہ در گروہ آتے رہے۔ ان میں سے کچھ لوگ الطائی کے جنوب مغرب میں خُلدزاکی سرحد کو مصائب جھیل کر پار کر گئے۔ کچھ تارباغتائی پہاڑوں کو گرتے پڑتے پار کر گئے، جہاں سے زنگاریہ کو راستہ جاتا ہے۔ بعض ارتعشِ اسود کی وادی میں سے ہو کر آئے اور بعض خود الطائی کے بلند و پست کو طے کر کے آئے۔
مہاجروں کی یہ آمد اونٹ کی رفتار یعنی تین میل گھنٹہ کے حساب سے ہوتی رہی اور ایک سال سے زیادہ تک جاری رہی۔ یوں کوئی ایک لاکھ قازق موجودہ ممالک سوویت سے اٹھ کر مشرقی ترکستان میں داخل ہو گئے کیونکہ اشتراکیت ان کے روایتی طرز زندگی کےلیے ایک خطرہ ثابت ہونے لگی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے لاکھوں مویشی بھی تھے۔ اونٹ، گائے، بیل، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے۔ آخر میں ترکِ وطن کی یہ تحریک رُک گئی، کیونکہ لینن کے ماتحت اشتراکیوں نے ایک دم سے یہ ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ روس چھوٹی قوموں اور وسطی ایشیا کی مقبوضہ آبادیوں کا پشت پناہ ہے۔ جب دس سال بعد اسٹالین نے اجتماعی زراعت کی تحریک شروع کی اور ناپسندیدہ کسانوں کو زبردستی کانوں اور کارخانوں میں دھکیلنا شروع کر دیا تو قازقوں نے پھر اپنے وطن سے نکلنا شروع کر دیا۔ اس دفعہ کوئی ڈھائی لاکھ قازق قافلے بنا بنا کر جنوب مشرق کی طرف چل کر اپنے خاندانوں، گلوں اور ریوڑوں سمیت مشرقی ترکستان میں پہنچ گئے۔ اس سے قازقستان جو ممالک متحدہ سوویت روس کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہے، جانوروں سے تقریباً بالکل محروم ہو گیا۔ ١٩٣٣ء میں جب شنگ شی تسائی کی صوبہ داری میں روسی اشتراکیوں نے ان تارکین وطن کا بہت پیچھا لیا تو ان کے اکثر خاندان چند سال کے عرصہ میں دوبارہ سوویت قازقستان میں واپس آ گئے لیکن کچھ مشرقی ترکستان ہی میں رہ پڑے۔ ان میں سے کچھ لوگ تبت اور ہندوستان نکل گئے اور کسی نے ان کی روک ٹوک نہیں کی۔ جو ہندوستان پہنچ گئے وہ یہاں کے موسم کی تاب نہ لا سکے اور ان میں سے بہت سے مر گئے۔
عثمان نے یقیناً ان خانہ بربادوں کو چینی عملداری میں گھسٹتے دیکھا ہوگا اور وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ اشتراکی مظالم سے اپنے طرز زندگی کو بچانے کے لیے یہ مہاجر ایک امید موہوم پر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ہیں لیکن ان کی آمد اور ترک وطن کے سبب نے عثمان کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا اور نہ ان سب قازقوں پر ان کا کوئی اثر ہوا جو ایک اور یعنی چینی جبر و تشدد کا شکار تھے۔ عثمان کی نظروں میں وہ چینی جن سے انھیں ہمیشہ سے سابقہ رہا تھا اب بھی قازقوں کے دشمن ہی تھے اور قازقوں کے دوست روسی تھے مگر دوست کس قسم کے تھے یہ آگے چل کر انھیں معلوم ہوا۔
چوتھا باب
علی بیگ اور حمزہ کی ابتدائی زندگی
الطائی پہاڑوں میں عثمان کی جائے پیدائش سے کوئی ڈھائی سو میل کے فاصلے پر ایک شہر مناس ہے جہاں مقامی قازق خانہ بدوش اور ترکی اور دوسرے کسان خرید و فروخت کے لیے جایا کرتے ہیں۔ خانہ جنگی کی زد میں آنے سے پہلے اس کی آبادی چالیس ہزار تھی۔ سوویت سرحد جو آگے جا کر ٹھیک اس کے عقب میں ترشول کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ جو سڑک چلتی ہے، اس پر صوبے کا صدر مقام اُرمچی ہے، اس سے پچاس میل مغرب کی جانب مناس ہے۔
مناس اس صوبے کا صدر مقام بھی ہے جو اسی کے نام پر صوبہ مناس کہلاتا ہے۔ اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو تیئن شان کےعظیم سلسلۂ کوہ سے نکلتا ہے۔ اس سلسلۂ کوہ کے شمال میں شہر مناس واقع ہے۔ یہ دریا بھی مناس کہلاتا ہے، پہاڑوں کی چٹانی بلندیوں سے یہ دریا تیزی سے اچھلتا کودتا اور سینکڑوں برف کے تودوں سے تقویت حاصل کرتا، مناس کے شہر سے صرف چند میل کے فاصلے پر رونما ہوتا ہے اور پھیل کر ایک چوڑی گزرگاہ بنا لیتا ہے۔ اس پر ایک لکڑی کا پل ہے جس کے کم از کم نو در ہیں۔ پہاڑوں میں اس دریا کی گزرگاہ صرف چند میل کی ہے لیکن وہ اتنے ہی فاصلے میں دس ہزار فٹ نیچے اترتا ہے کیونکہ مناس شہر سطح سمندر سے صرف تین ہزار فٹ اونچا ہےاور سات سو فٹ اُرمچی سے نیچا۔ اُرمچی سطح سمندر سے تین ہزار فٹ اُونچا ہے۔ ان دونوں مقاموں کے پیچھے تیئن شان یا کوہ ملکوتی کی سر بفلک چوٹیاں اور اچھوتی برف کی دندانے دار ماہی پشت دیواریں ہیں جو اُرمچی کے جنوب میں بوغدو الہ یا کوہِ رب تک پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں۔
دریائے مناس اگرچہ اتنا بڑا دریا ہے لیکن وہ سمندر تک نہیں پہنچتا اور دلدلوں اور دور دور تک پھیلے ہوئے سرکنڈوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ یہ سرکنڈے بیس بیس فٹ اونچے ہوتے ہیں اور ان میں جنگلی جانور رہتے ہیں، اگر کوئی شخص ان سرکنڈوں میں پہنچ جائے تو اسے چوکنا رہنا پڑتا ہےکہ کہیں کوئی جنگلی سُور اُس پر نہ جھپٹ پڑے یا بد قسمتی سے کسی ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں کوئی شیرنی اپنے بچوں کو لیے بیٹھی ہو۔ لیکن اس نقصان کی تلافی یوں ہو جاتی ہے کہ یہ سرکنڈے ان لوگوں کو پناہ بھی دیتے ہیں جو قانون کی گرفت سے بچے رہنا چاہتے ہیں، یا اگر کوئی مفرور دستہ اِن میں چھپ رہے تو پلٹ کردشمن پر چھاپہ بھی مار سکتا ہے۔ پچاس سال سے وقتاً فوقتاً ایسا ہوتا بھی چلا آ رہا ہے۔
لیکن فی الحال دریائے مناس کے نچلے حصے سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ اس کے ایک امدادی دریا سے واسطہ ہے، جو قزل ازون کہلاتا ہے۔ یہ دریا پہاڑ کے برف پوش سینے سے نکلنے والے کوئی بارہ چودہ چشموں کے ملنے سے بنتا ہے۔ ان میں سے ہر چشمہ بیس سے تیس فٹ تک چوڑا ہے، مگر چار فٹ سے گہرا کوئی نہیں ہے۔ قزل ازون کے منبعے وہ تین بڑی چوٹیوں کے عظیم تودہ ہائے برف ہیں جو پہلو بہ پہلو بیس ہزار فٹ کی بلندی پر سے شمالی میدان کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔اسی میدان میں مناس ان سے سولہ ہزارفٹ نیچے ہے، اگرچہ ان سے مناس کا فاصلہ صرف پچاس میل ہی ہے۔
قزل ازون میں پانی چونکہ برف کے تودوں میں سے آتا ہے اس لیے عموماً نہایت صاف و شفاف ہوتا ہے لیکن بارشوں کے بعد اس کے امدادی چشمے عجب اشارتی طور پر سرخ ہو جاتے ہیں، یہ سرخی کسی پہاڑی کی معدن ہے اور اسی رنگ کی وجہ سے یہ دریا قزل ازون یا دریائے سرخ کہلاتا ہے۔
دریائے سرخ کی وادی میں اونچی اور میٹھی گھاس کثرت سے پیدا ہوتی ہے، چینیوں کی تاخت سے پہلے قازق خانہ بدوش اپنے ریوڑوں کو یہیں چرایا کرتے تھے۔ گرمیوں میں اس وادی کے اوپری حصے میں چلے جاتے اور جاڑوں میں نچلے حصے میں اتر آتے، بالکل اسی طرح جیسے الطالی کے باشندے کیا کرتے اور یہاں دریائے سرُخ کے کنارے ١٩٠٨ء میں علی بیگ اور ١٩٢٢ء میں حمزہ پیدا ہوا۔ یہ دونوں سردار تھے جو قازق خود مختاری کے لیے بعد کی جہد آزادی میں عثمان بطور کے پہلو بہ پہلو لڑتے رہے۔
علی بیگ کا ابتدائی حصۂ عمر نسبتاً پُرامن گذرا۔ اس کا باپ رحیم بیگ ایک سرخیل تھا جس کا کام چینیوں سے لڑنا نہیں بلکہ ان سے گفت و شنید کرنا تھا، بلکہ ان کے مطالباتِ زر میں کمی کرانے کے لیے رشوت دینا بھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو قازقوں کے روایتی طرز زندگی کے مطابق پروان چڑھایا لہذا علی بیگ جب دس سال کا ہوا تو خیمے کے مکتب میں ملا سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوا۔ اس سے پہلے ہی اسے اپنے باپ کی بھیڑیں چرانے کی خدمت سونپ دی گئی تھی اور سترہ سال کی عمر تک وہ اس خدمت کو انجام دیتا رہا۔
حمزہ کی پرورش بالکل مختلف طریقے پر ہوئی۔ جب وہ سات سال کا ہوا تو اس کے باپ کا انتقال ہو گیا اور اس کی دیکھ بھال اس کے ایک بڑے بھائی یونس حجی کے سپرد ہوئی جو بوکو بطور کے ماتحت یک ہزاری سردار تھا اور اسی نسبت سے وہ الطائی کے عثمان سے قریبی وابستگی رکھتا تھا۔
یونس حجی بوکو بطور کے ساتھ تبت نہیں گیا، شاید اس وجہ سے کہ اس میں چھاپہ ماری کا جذبہ زیادہ شدت سے کارفرما تھا۔ اسے خون میں سنسنیاں دوڑانے والے کارنامے اس سے زیادہ پسند تھے کہ صحراؤں اور پہاڑوں کو عبور کر کے اس جنتِ ارضی میں پہنچ کر دائمی امن کی فضا میں اپنے مویشی چرانے لگے جس کا سکون خطرے میں پڑ چکا تھا۔ چنانچہ حمزہ کی زندگی کے ابتدائی سال بلکہ تیس سال تقریباً مسلسل محاربوں میں گزرے تھے۔ وہ اس سال مکتب میں داخل ہوا تھا جس سال اس کے باپ کا انتقال ہوا، مگر اُسے تین سال بعد ہی مکتب چھوڑ دینا پڑا۔ کیونکہ١٩٣٢ء میں جب وہ دس سال کا تھا تو بڑا بھائی مقامی مسلمانوں کے ان گروہوں میں شریک ہو گیا جو صوبے کی چینی حکومت سے برسر پیکار تھے۔ خانہ بدوش قازق جب چھاپہ ماری کی لڑائی لڑتے تو اس میں نہ صرف مرد شریک ہوتے بلکہ عورتیں اور بچے بھی۔ اپنے گھروں کا سامان اور ریوڑ اور گلے بھی ان مقاموں کے قریب لے جاتے جہاں انھیں جدال و قتال کے لیے جانا پڑتا۔ لہذا دو سال تک یعنی دس سال کی عمر سے بارہ سال کی عمر تک، حمزہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہا اور بعض اوقات اپنے بھائی کی طرح کسی کی چھینی ہوئی بندوق یا طپنچہ یا تلوار ہی لے کر لڑائی میں شریک ہو جاتا۔ دوسرا اتنا ہی اہم کام وہ یہ بھی سیکھ گیا کہ بڑے بڑے نمدے کے خیمے اونٹوں اور مویشیوں پر کس طرح پندرہ منٹ کے اندر اتارے اور تہہ کر کے لادے جا سکتے ہیں تاکہ وہ دشمن کے ہاتھ نہ پڑ سکیں۔ جب وہ سوتا تو اپنی بندوق، گولی بارود اور تلوار اور ان کے ساتھ اپنے گھوڑے کی لگام اور زین بھی اتنے قریب رکھ کر سوتا کہ فوراً ہی ان تک رسائی ہو جائے۔ یہ بات بھی اس نے سیکھ لی تھی۔
کم سنی کے باوجود چھاپہ ماری میں حمزہ کتنا مشہور ہو گیا تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا نام اشعر پڑ گیا تھا یعنی اتنی ہوشیاری سے بچ جانے والا جیسے کہ مکھی بچ جایا کرتی ہے۔
ہمیں حمزہ نے اس کی کہانی سنائی، جیسی کچھ بھی اسے یاد تھی کہ اس موقع پر اس کے بھائی نے کیوں حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ سنکیانگ کے چینی صوبہ دار یانگ تسنگ ہے ہن کو جس سے بوکو بطور لڑتا اور ناکام ہوتا رہا، ١٩٢٨ء میں چینی دشمنوں ہی نے مار ڈالا تھا۔
قازق اس کو ایک جانور سمجھتے تھے لیکن ایک انصاف پسند جانور، یا اگر ایسا نہیں تو کم از کم ایسا جانور جس کے ساتھ احترامی سلوک کیا جائے لیکن جو حکومت اس کے مرنے کے بعد قائم ہوئی، اس نے قازقوں اور دوسرے مقامی مسلمانوں کو دبانا شروع کر دیا۔ ان مسلمانوں میں ترک تھے اور تن گن بھی جو ترک نہیں تھے، چینی تھے۔ سنکیانگ کی سرحد پر چین کے شمال مغربی صوبوں میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں ایک تنگن جنرل ماؤچنگ ین نے ١٩٢٩ء میں اتنی کامیابی کے ساتھ علم بغاوت بلند کیا کہ ایک دفعہ تو اس نے آزاد جمہوریۂ مشرقی ترکستان کے قیام کا اعلان بھی کر دیا اور بڑی طاقتوں سے کہا کہ اس جمہوریہ کو تسلیم کریں۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کی فوجیں ارمچی کے دروازوں پر پہنچ گئی تھیں مگر اُسے فتح نہ کر سکیں۔
یونس حجی اس لڑائی کے میدان میں اتنے قریب تھا کہ جنگ کی دھمک دریائے سرخ کے کنارے اس کے موٹے نمدے کے خیمے میں بھی محسوس ہو رہی تھی۔ جنرل ماتنگن تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چینی بھی تھا اور مسلمان بھی۔ یونس حجی کا نظریہ قازق نقطۂ نظر سے یہ تھا کہ چینی مسلمان بہرحال عام چینیوں سے بہتر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا، اپنے خاندان والوں اور حمزہ کو لیا اور اپنے ریوڑ لے کر جنگ آزادی میں شریک ہونے کے لیے نکل کھڑا ہوا اور جنرل ماچنگ ین کے تحت نہیں، بلکہ اس کے پہلو بہ پہلو لڑائی میں شامل ہو گیا۔
“ما” کے معنی ہیں گھوڑا اور یہ نام عموماً چینی مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ ہماری کہانی میں “ما” نام کے اور جنرلوں کا بھی ذکر آئے گا۔ یہ جو جنرل ما تھا اسے لوگ “بڑے گھوڑے” کے نام سے بھی جانتے تھے اور اس کے کارنامے اتنے اہم ہیں کہ چین کے اس حصے کے گرد جو صحراؤں اور پہاڑوں کی بندشیں ہیں، انھیں پھلانگ کر ان کی شہرت بیرونی دنیا میں پہنچ گئی لیکن ان میں بہت سے باتیں ایسی بھی ہیں جو ہماری اس کتاب کے دائرے سے خارج ہیں۔ ہم نے صرف ان واقعات کو لیا ہے جو قازقوں کی جنگ آزادی پر اثر انداز ہوئے۔
جب حجی یونس نے ١٩٣٢ء میں حملہ آوروں میں شمولیت کی تو اس نے الطائی کے عثمان کو بھی شرکت کی دعوت بھیجی۔ عثمان اس وقت ٣٣ سال کا تھا، یونس حجی سے چند سال چھوٹا، لیکن وہ علاقۂ جنگ سے اتنی دور تھا کہ دھماکوں کی آوازیں اس تک نہیں پہنچتی تھیں، اس لیے اس کی روحِ پیکار بیدار نہ ہوئی تھی۔ لہذا اس نے ٹھنڈے دل سے اس کے تمام پہلوؤں پر غور کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس نظر سے یونس حجی جنرل ما کو دیکھتا تھا، بالکل اس کی مخالف نظر سے عثمان نے اسے دیکھا۔ عثمان کے نزدیک سب سے بڑی قابل غور بات یہ تھی کہ جنرل ما اگرچہ مسلمان ہے لیکن چینی تو پھر بھی ہے۔ اس نوبت پر عثمان قازقی جنگِ آزادی میں چینیوں کی سرداری کا تو ذکر ہی کیا، ان کی مدد تک قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا بلکہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ بھی پوری مدد اس نے چینیوں سے قبول نہیں کی۔ ایک لحاظ سے یونس حجی نے بھی چینیوں کی مدد منظور نہیں کی اور نہ کبھی اس معاملہ کو اہمیت دی کہ “بڑا گھوڑا” ما کیا کر رہا ہے۔ یونس حجی اپنی لڑائی خود ہی لڑتا رہا۔ یہ بغاوت خاص طور سے اس لیے اہمیت رکھتی ہے کہ یہ پہلی بغاوت تھی جس میں سوویت حکومت کا ہاتھ واضح نظر آتا ہے، یوں اس سے پہلے بھی چینی علاقوں میں روسی درپردہ شورشیں برپا کرا چکے تھے۔ اس باب میں سرخ ماسکو نے سفید سینٹ پیٹرز برگ ہی کی حکمت عملی ورثے میں پائی تھی اور اسی پر آئندہ تعمیر بھی ہوتی رہی۔ جب زار کی حکومت ختم ہوئی تو سرخوں سے بچنے کے لیے کتنے ہی سفید روسی فرار ہو کر سنکیانگ کے چینی علاقے میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اب وہ اس عذاب میں مبتلا ہو گئے کہ ان کے ایک طرف تو اپنے وطن روس کی محبت تھی اور دوسری طرف اشتراکیت سے نفرت، کیونکہ ماسکو کی پالیسی ان دونوں کا عجیب و غریب آمیزہ تھی۔ لہذا سفید روسیوں کی موجودگی سے کبھی تو سوویت حکومت کو اپنے منصوبوں کی تکمیل میں مدد ملتی کبھی اس علاقے پر قابو رکھنے میں ان کی طرف سے مزاحمت ہوتی، اس حقیقت کا اظہار یہاں یوں کرنا پڑا کہ اس سے اس پس منظر کے بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے جس پر قازق کہانی عملاً پیش کی گئی تھی۔ ١٩٣٤ء کے آتے آتے، یعنی قازق جنگ آزادی میں حجی یونس کے میدانِ جنگ میں آنے کے دو سال کے اندر ہی اندر اُرمچی میں سوویت قونصل جنرل ایپری سوف صوبے بھر میں سب سے زبردست حاکم بن چکا تھا۔ وہ شخص جس نے خفیہ پولیس منظم کی اور روسی جس کے ذریعے ملک میں دہشت پھیلا رہے تھے وہ ایک روسی تھا جس کا نام پوگودن تھا۔ انہی دو آدمیوں کے زیر اثر اشتراکی اداروں کا وہ جال سارے ملک میں پھیلا، جو روسی مشیروں کے تحت تھا۔ جن میں سے بعض سفیدوں کے روپ میں چینی سرحد پر آئےا ور ایسے “ماہر” بن کر جنھیں ماسکو نے عاریتاً دیا ہو، ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنے آپ کو “سرخ” ظاہر نہیں کیا۔ ١٩٣٢ء میں “بڑا گھوڑا” ما ارمچی کے دروازوں سے پیچھے دھکیل دیا گیا کیونکہ مقتول گورنر یانگ کے جانشین جنرل چن شو جن نے چینی حکومت کو بغیر بتائے ہوئے سوویت حکومت سے ایک معاہدہ کیا کہ صوبائی حکومت کے ہر شعبے میں “مشیروں” کو متعین کرنے کے عوض اور روسیوں کو تجارت کرنے کی خصوصی آسانیاں دینے کے بدلے میں اسے جنگی ہتھیار مل جائیں، اس طرح وہ بہت سے سفید روسی فوجی جو جنرل چن کی طرف سے بڑے گھوڑے “ما” سے لڑ رہے تھے دراصل سرخ روس کے مسلح کیے ہوئے تھے اس کے کچھ ہی عرصے بعد ان پر سرخ روسیوں کا پورا قبضہ بھی ہو گیا۔ لیکن اس زمانے میں سوویت حکومت بڑے گھوڑے ما کو بھی اسلحہ دے رہی تھی اور اس کوشش میں مصروف تھی کہ قازقوں، ترکیوں، منگولیوں اور دوسری ترکستانی قوموں کے قومی شعور کو ابھار کر سیاسی اور جنگی ہتھیار بطور چینیوں کے خلاف بروئے کار لا سکے، بالکل اسی طرح جیسے زاری روس بوکو بطور کو ہتھیار دیتا تھا۔ اشتراکی روس اب یونس حجی اور عثمان کو اسلحہ دے رہا تھا۔ جنرل چن کے ساتھ جو خفیہ معاہدہ کیا گیا تھا اس سے سوویت حکومت کو متوقع فوائد حاصل نہیں ہو سکے کیونکہ ١٢؍ اپریل ١٩٣٣ء کو اس کا زوال ہو گیا۔ اگلے سال ماسکو نے بڑے گھوڑے ما کی حوصلہ افزائی کی کہ ارمچی کا دوبارہ محاصرہ کر لے، اس پر نئے چینی صوبیدار شنگ شی ستائی نے اپنے پیش رو کا تتبع کرتے ہوئے اپنی حکومت سے نہیں ماسکو سے امداد کی درخواست کی۔ سوویت حکومت نے اس دفعہ اور بھی مُنہ پھیلایا اور ایک ایسے معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی رو سے چینی صوبہ سنکیانگ ایک سوویت نو آبادی بن کر رہ گیا۔ اسی کے ساتھ شنگ نے اعلان کیا کہ مقامی قوموں کی کل شکایات کا تدارک کیا جائے گا۔
یعنی قازقوں کو جلد محسوس ہو گیا کہ ان کی شکایتیں بجائے گھٹنے کے اور بڑھ رہی ہیں۔ تیرہ ہزار چینی “رضا کار” منچوریا کے پناہ گزین جو جاپانیوں سے بچ کر سائبیریا میں نکل گئے تھے اب سوویت چینی سرحد کو عبور کر کے الطائی اور دوسرے ان شمالی صوبوں میں در آئے جہاں بیشتر قازق آباد تھے اور صوبیدار شنگ کا واسطہ دے کر انھیں “ہموار” کرنے لگے۔ ان کے اس طرز عمل پر قازقوں نے شنگ کو قصوروار ٹھہرایا حالانکہ روسیوں نے انھیں تربیت دی تھی اور انھیں ہتھیار بند کیا تھا۔ ادھر صوبے کے بیرونی علاقوں میں یہ ہو رہا تھا، اُدھر خود صوبائی حکومت پوری طرح روسی قبضے میں آتی جا رہی تھی؛ ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ قازق جو دنیا کی سب سے زیادہ انفرادی قوم ہیں، یکایک اس اشتراکیت سے دوچار ہو گئے جسے صوبیدار کے اشتراکی مشیروں نے ان پر ٹھونس دیا تھا۔ یہ صوبیدار اپنے آپ کو نمائندہ ظاہر کرتا تھا چینی کومنٹنگ کا جو اشتراکیت کے خلاف ہیں۔ اس قلب ماہیت سے اگر قازق بھونچکے ہو کر رہ گئے ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
دراصل قازق کئی سال میں جا کے اس حقیقت کو سمجھے کہ خود قازقوں ہی کی مثل کے مطابق روسی “دو مونہوں” سے بول رہے تھے اور ہر منہ الگ زبان بول رہا تھا۔ ایک منہ “ارمچی” کے مشیروں کی زبان سے چینی صوبیدار شنگ کا نام لے کر بول رہا تھا اور رفتہ رفتہ صوبے کے نظم و نسق کو اشتراکیت میں تبدیل کر رہا تھا۔ دوسرا منہ خفیہ طور پر صوبائی حاکموں کے خلاف مقامی قوموں کے کانوں میں تاجروں اور روسی ایجنٹوں کے ذریعے بغاوت پھونک رہا تھا اور نفرت انگیز چینیوں کو نکال باہر کرنے میں اس کی امداد کے وعدے کر رہا تھا۔
عثمان، یونس حجی اور دوسرے قازق رہنما لڑنے والے لوگ تھے، سیاستداں نہیں تھے لیکن رفتہ رفتہ ان پر یہ حقیقت کھل گئی کہ انھیں فریب دیا جا رہا ہے اور سوویت حکومت انھیں صرف مہروں کی طرح استعمال کر رہی ہے تاکہ ایسی بدنظمی پھیل جائے کہ روسی مشرقی ترکستان اور اس کی دولت پر نظم و قانون کا نام لے کر قبضہ کر لیں یا یوں سمجھیے کہ مقامی قوموں کے لیے سوویت کی دوستی کا دکھاوا ایک زبردست فریب تھا جس کی آڑ میں وہ اشتراکیت پھیلا رہا تھا۔
یونس حجی اور کمسن حمزہ بڑے گھوڑے ما کی طرف سے لیکن اپنے طور پر ١٩٣٢ء-٣٤ء دو سال تک لڑتے رہے۔ اس دوران میں یونس کو یاد آیا کہ بوکو بطور کے چھاپے مار دست بدست لڑائی میں باقاعدہ افواج کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے اس لیے اس نے چینی انداز پر اپنے ساتھیوں کو تربیت دینی شروع کی۔ ہماری رائے یہ ہے کہ جنرل ما کی باقاعدہ فوجوں کو کسی شہر کا محاصرہ کرتے دیکھ کر یونس کو خیال آیا کہ اپنی فوجوں کو اسی قسم کی تربیت دے۔ لہذا انھیں باقاعدگی سے لڑنا سکھایا تاکہ روس کے تربیت یافتہ اور صوبیدار شنگ کے رضا کاروں سے اچھی طرح نمٹ سکیں لیکن آزاد قازق اس قسم کی لڑائی لڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے حالانکہ بعد میں سوویت سرحد کے قریب سنکیانگ کے صوبے خلدزا سے جو قازق روسیوں نے بھرتی کیے وہ اس طریق جنگ کو اچھی طرح سیکھ گئے۔ آگے مناسب موقع پر ہمیں معلوم ہوگا کہ سوویت حکومت نے اپنے غلام بنائے ہوئے قازقوں کو کس طرح تربیت دی کہ قانوناً جو علاقہ چینیوں کا تھا اس کی زمین پر آزاد قازقوں سے لڑیں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس سے بہت کچھ واضح ہو جائے گا کہ ایشیا میں اشتراکیت کو کیسے فروغ دیا گیا۔
١٩٣٤ء کے اختتام پر صوبہ دار شنگ کے تحت جو صوبائی چینی حکومت تھی اس نے جنرل ما کی باغی فوجوں کی کمر توڑ دی تھی ان “ہتھیاروں”، “رضاکاروں” اور “مشوروں” کی مہربانی سے جو برادرانہ طور پر شنگ کو سوویت حکومت نے پیش کیے تھے۔ خود جنرل ما نے باوجود اپنی شکست فاش کے سوویت ترکستان میں پناہ لی، اس کے بعد اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔ ترکی میں جو قازق مہاجر ہیں ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وہ روسی لشکر میں ایک افسر بن گیا لیکن یہ امر مشتبہ ہے گو نا ممکن نہیں۔
جب بغاوت فرو ہوئی تو یونس حجی اور حمزہ جو اب بارہ سال کا تھا دریائے سُرخ پر واپس آ گئے اور حمزہ خیمے کے مکتب میں پھر جانے لگا۔ اور بھی بہت سے دل برداشتہ قازق لوٹ آئے مگر ان میں سے دو نے کچھ دنوں بعد سوچا کہ ان کے پرانے گھر خاصے بے آرام ہوتے جا رہے ہیں، چنانچہ ١٩٣٦ء میں انھوں نے اپنے خیمے اکھاڑے اور جیسا کہ بوکو بطور پہلے کر چکا تھا، اپنے گلّے اور ریوڑ لے کر اپنے مسکنوں سے نکل کھڑے ہوئے اور مشرقی تئین شان پہاڑوں میں بارکل کے میدانوں اور بلند علاقوں میں چراگاہیں تلاش کرنے نکل گئے تاکہ وہاں آرام سے رہ سکیں۔ ان کے نام ہیں حسین تجّی اور سلطان شریف اور ہم ان سے ترکی میں پہلے مل چکے ہیں۔ مگر جب یہ وطن سے نکلے تو انھیں اور ان کے بیشتر ساتھیوں کو جن کی تعداد شاید پندرہ ہزار تھی، اس کا بھی خیال نہیں تھا کہ وہ سنکیانگ کی سرحد یا تبت سے آگے جا سکیں گے۔
حسین تجّی اور سلطان شریف جنوب کی طرف چلتے رہے اور شہر حامی سے آگے نکل گئے جو کیومل بھی کہلاتا ہے اور چین کی طرف سے گوبی کے صحرائے عظیم کو عبور کرنے کے بعد پہلا شہر یہی آتا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے تکلا مکان کا وسیع صحرا طے کیا جس میں صرف ریت ہی ریت نہیں ہے اور اگرچہ آج کل اس کا بڑا حصّہ بنجر ہے تاہم کہیں کہیں اس میں جو اُجڑی ہوئی آبادیوں کے نشان ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی یہ صورت ہمیشہ سے نہیں تھی، بوکو بطور کی طرح بالآخر یہ بھی بُرے شگون والی جھیل غزکل پر پہنچ گئے جو ڈول کی طرح لمبی اور سیدھی ہے۔ انھیں یہاں اچھی چراگاہ مل گئی لیکن اتنی اچھی نہیں جتنی بارکل کی تھی۔ یہ چراگاہ جھیل کے چاروں طرف دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کا کچھ حصّہ تیمورلک صوبے میں تھا جو جھیل کے شمال اور مغرب میں ہے اور کچھ حصّہ خان امبل کے پہاڑوں میں جو مشرق کی طرف چنگھائی صوبے میں ہے۔ اس کے علاوہ انھیں معلوم ہوا کہ تجارتی شہر تنگ ہوانگ جہاں بدھ کے ہزاروں بتوں کے مشہور غار ہیں اور چین کے بہت سے حصوں سے جاتری جہاں جوق در جوق جاتے ہیں، صوبہ کنسو کی سرحد کے اس پار قریب ہی واقع ہے۔
قازق چونکہ خانہ بدوش تھے اس لیے جب کبھی چینی حکام ٹیکس وغیرہ وصول کرنے میں زیادہ تشدد کرتے تو سنکیانگ،کنسو اور چنگھائی ان تین علاقوں میں سے کسی ایک کو اپنی رہائش کے لیے انتخاب کر لیتے۔ قازق اپنے خیمے اور جانور لے کر کسی ایک صوبے میں چلے جاتے اور وہاں کے افسر انھیں درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے پڑا رہنے دیتے۔ حسین تجّی اور سلطان شریف کو جب بارکل میں لڑائی لڑنی پڑی اور جب انھیں تکلا مکان کو عبور کرنا پڑا تو ان کے جانوروں کا بہت نقصان ہوا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں ان کے پاس اونٹ، بھیڑیں اور گھوڑے اتنے ہو گئے کہ وہ بارکل سے بھی زیادہ دولتمند ہو گئے۔ بدھ کے ہزاروں بتوں کے غاروں والا شہر تنگ ہوانگ اگرچہ پہاڑوں کی دوسری طرف ستّر میل کے فاصلے پر تھا پھر بھی قازقوں کے لیے ضروریات کی خرید و فروخت کے لیے بہت اچھی منڈی تھی کیونکہ یہاں جاتری بہت آتے تھے حالانکہ قریب سے قریب شاہراہ سے بھی یہ شہر ستّر میل دور تھا۔
ان پندرہ ہزار قازقوں میں سے جو حسین تجّی اور سلطان شریف کے ساتھ بارکل سے آئے تھے کوئی پانچ ہزار، کچھ عرصے بعد چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر ہندوستان جانے کے ارادے سے روانہ ہونے لگے۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کتنے پہنچے اور کس راستے سے گئے، ہو سکتا ہے کہ وہ تبّت اور نیپال سے لاسا اور کھٹمنڈو ہو کر گئے ہوں یا غالباً ختن، یارقند اور کاشغر اور قراقرم پہاڑوں کو عبور کر کے گئے ہوں۔ جو غزکل میں رہ گئے تھے ان میں سے بعض گھبرا کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔ کچھ ایسے تھے جو دوستوں سے ملنے وطن آتے جاتے رہے اور ان کے دوست ان سے ملنے کے لیے یہاں آتے جاتے ر ہے۔ اس طرح بہت قریبی تو نہیں لیکن غزکل کے قازقوں اور دور شمال میں الطائی پہاڑوں اور تئین شان میں بسنے والے قازقوں میں تعلق قائم رہا۔ بھاٹ کارا ملّا ان قازقوں میں سے ایک تھا جو غزکل گئے اور ہندوستان تک ہو آئے مگر اس نے ہم سے کہا کہ ہندوستان اسے پسند نہیں آیا کیونکہ وہ مرطوب بھی تھا اور گرم بھی، اسی وجہ سے اس کے بہت سے بہادر ساتھی ملیریا، ٹائیفائڈ اور ہیضہ سے مر گئے۔ لہذا وہ مشرقی پاکستان واپس آ گیا اور ۱۹۵۰ء تک وہیں رہا۔ اس کے بعد واقعات کچھ ایسے رونما ہوئے کہ اسے مجبور ہو کر انتخاب کرنا پڑا کہ واپس ہندوستان جائے یا اشتراکیت کو قبول کرے۔ فیصلہ کرنے میں اسے دیر نہیں لگی۔ حسین تجّی اور سلطان شریف نے بغیر یہ جانے ہوئے کہ دشمن دراصل اشتراکیت ہے، ۱۹۳۰ء ہی میں فیصلہ کر لیا تھا پھر کارا ملّا کی طرح ان کے سامنے بھی یہی دو راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ اشتراکیت ان کے طرزِ زندگی کو کس طرح متاثر کرے گی، ویسے ہی انھوں نے بھی کارا ملّا کی طرح فیصلہ کر لیا۔
لیکن قدیم راہ ریشمیں، تکلا مکان،غزکل، تیمورلک، خان امبل پہاڑوں اور تنگ ہوانگ پر تیرہ سال اور گذر جاتے ہیں تب قازقوں کی کہانی میں ان کی اہمیت کا وقت آتا ہے اور جب وہ وقت آتا ہے تو ان کا حصّہ اس میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔ لیکن اب ہم ۱۹۳۴ء میں واپس چلتے ہیں اور غزکل سے سات سو میل دور چل کر تیز دماغ حمزہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ اب بارہ سال کا ہے اور اپنے بھائی یونس حجی سے استدعا کر رہا ہے کہ ان کے پڑاؤ کے خیمے کی مسجد میں جو ملّا نے مکتب کھول رکھا ہے، اس سے نکال کر اسے کسی اور بہتر مکتب میں بھیج دیا جائے۔ آخر میں یونس حجی اس کی بات مان لیتا ہے اور حمزہ کو مناس بھیج دیتا ہے جہاں قازق استاد عبداللطیف نے دریائے مناس کے کنارے اپنا ایک خیمہ لگا رکھا ہے اور شاگردوں کو “بنام خدا” درس دیتا ہے جیسا کہ قازق مکتب کے بچوں کے گیت میں اس کا مذکور ہے۔ حمزہ سچا مسلمان ہے لیکن تاریخ، جغرافیہ، حساب اور عام تعلیم میں صرف مذہبی نقطۂ نظر سے درک حاصل کرنا نہیں چاہتا بلکہ وسیع تر نقطۂ نظر سے بصیرت حاصل کرنی چاہتا ہے لہذا وہ اب کے مناس کے ایسے مکتب میں داخل ہوتا ہے جس کا معلم عبد العزیز قازق نہیں ہے بلکہ ترک ہے۔ عبد العزیز کی قومیت ہی اس بات کی علامت تھی کہ دو مونہی اشتراکی حکمتِ عملی منصوبے کے مطابق ٹھیک نہیں چل رہی۔ مقامی قوموں کو چینیوں کے خلاف اُبھارنے کی حد تک ان کی پالیسی پوری طرح کامیاب تھی لیکن انھیں ایک دوسرے کے خلاف بھی ابھار رہی تھی۔ انھیں یہ محسوس کرا رہی تھی کہ مشرقی ترکستان کے تمام غیر چینی بسنے والے جو پوری آبادی کے ۹۵ فیصدی تھے اگر آزادی حاصل کرنی چاہتے ہیں تو انھیں متحد ہو جانا چاہیے۔ جب سوویت کے خفیہ ایجنٹوں نے مقامی قوموں پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے قومی شعور کو بڑھائیں تو ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا۔ چنانچہ انھوں نے مختلف قومی گروہوں میں اور ان تمام گروہوں اور چینیوں میں نا اتفاقی پھیلانی شروع کر دی۔ ماسکو جانتا تھا کہ ترکوں، قازقوں، منگولیوں، ازبکوں اور دوسروں میں اتحاد باہمی جس قدر بڑھے گا چینی حکومت سے چھٹکارا پا جانے کے بعد انھیں نگل جانا اسی قدر دشوار ہو جائے گا۔
عبد العزیز اپنے شاگردوں کو نہ صرف مذہبی تعلیم دیتا بلکہ مذہب کے علاوہ دوسری ہدایات بھی دیتا۔ صوبیدار شنگ نے سوویت حکومت سے ۱۹۳۴ء میں جو معاہدہ کیا تھا اس کی رو سے اسکولوں کو اجازت نہیں تھی کہ آئندہ انگریزی کی تعلیم بدستور دیتے رہیں۔ اس کے علاوہ پورے صوبے میں مقامی زبان میں نئی کتابیں پڑھائی جانے لگیں۔ اس معاہدے کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا لیکں تمام کتابیں سوویت حکومت کے مجوزہ نصاب میں داخل ہو گئی تھیں یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ سوویت اور شنگ کے معاہدے پر دستخط ہونے سے بہت پہلے ہی سوویت حکومت نے سنکیانگ کے چینی صوبے کو اشتراکی بنانے کی تدبیریں کر لی تھیں۔
نئی کتابیں بڑی احتیاط سے مرتب کی گئی تھیں تاکہ قازقی، ترک اور منگولی معلمین اور والدین کو اس کا شبہ بھی نہ ہونے پائے کہ اشتراکیت اس ذریعے سے ان قوموں میں داخل کی جا رہی ہے۔ کتابیں مرتب کرنے والوں نے جا بجا سوویت نظام کی خوبیوں اور نظام سرمایہ داری کی برائیوں کا موازنہ کیا تھا اور مشرقی ترکستان والوں کو یہ باور کرایا تھا کہ آج کل تم سرمایہ دارانہ نظام کے شکار ہو۔
مثال کے طور پر بارہ سال کی عمر والے حمزہ اور اس کے ہم سبقوں کو جہاز ٹیٹانِک کے ڈوبنے کا قصّہ کچھ اس طرح سنایا تھا:
“ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بہت بڑا جہاز تھا، دنیا میں اس سے بڑا جہاز اور کوئی نہیں بنا، اس کے مالک چند انگریز سرمایہ دار تھے۔ انھوں نے اس جہاز میں ایک بینڈ رکھا تھا تاکہ مسافر خوب ہنسی خوشی سفر کریں۔ سارے مسافر جب عیش و عشرت میں پڑ گئے تو جہاز کے ملازم بھی اپنے فرائض کی طرف سے بے پروا ہو گئے اور تساہل کرنے لگے، اپنے اپنے فرض سے وہ غافل ہو گئے اور خود بھی مزے اُڑانے لگے۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ ایک دن آدھی رات کے بعد یہ بڑا جہاز ایک برف کے پہاڑ سے ٹکرا گیا۔ بینڈ نے جلدی سے ناچ کی والہانہ دھنیں بجانی موقوف کر دیں اور اس کے بعد مذہبی دھنیں بجانی شروع کیں لیکن خدا سے اب رجوع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ چند منٹ میں جہاز ڈوب کر سمندر کی تہ میں بیٹھ گیا، صرف چند دولتمند سرمایہ داروں نے روپیہ دے کر کشتیوں میں جگہ حاصل کر لی اور ڈوبنے سے بچ گئے۔ باقی سارے مسافر اور جہاز کے ملازم غرق ہو گئے۔
ان کا حسرت ناک انجام دیکھ کی ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور سرمایہ داری کو ہمیں ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر جہاز کا کوئی سوویت کپتان ہوتا اور جہاز کے ملازم سوویت ہوتے تو ان غلطیوں کا ارتکاب کبھی نہ کرتے جن کے باعث ٹیٹانِک غرق ہوا اور اتنی ساری قیمتی جانیں اس کے ساتھ تلف ہوئیں۔”
اس قسم کی ہدایتی کہانیوں میں ملا کر صحیح سائنسی تعلیم دی جاتی تھی۔ چنانچہ حمزہ نے عبد العزیز کی سوویت کتب نصاب میں پہلی دفعہ پڑھا کہ دنیا گول ہے، اسے یقین نہیں آیا اور وہ جو ملّا اسے مذہبی تعلیم دیا کرتا تھا اس سے دریافت کرنے جا پہنچا۔ ملّا نے اسے نہایت وثوق سے تاکید کی کہ ایسے نظریات کو ہرگز قبول نہ کرنا کیونکہ ایسی باتیں کفر ہوتی ہیں۔
حمزہ سے اس نے کہا “تم خود میدان میں جا کر دیکھ لو۔ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ دنیا سپاٹ ہے، اگر کوئی سیدھا چلتا جائے تو کئی دن بعد اس کے کنارے پر پہنچ جائے گا اور اگر وہ پھر بھی نہ رکا تو نیچے گر پڑے گا۔”
عبد العزیز کے شاگردوں بلکہ بلکہ ان کے بزرگوں میں بھی اس موضوع پر بحث مباحثے ہوتے رہے۔ اس وقت یعنی ١٩٣٥ء میں کچھ مغربی یورپ میں رہنے والے اور چند ہندوستانی مشرقی ترکستان میں آباد تھے، ان میں ایک مناس میں بھی تھا۔ اس کے قازق اور ترک دوستوں نے اس مسئلے کے متعلق اس کی رائے معلوم کرنی چاہی۔ اس نے انھیں بتایا کہ میں کچھ ایسے لوگوں سے واقف ہوں جو جہاز میں سوار ہو کر پوری دنیا کے گرد گھوم آئے اور جہاں سے روانہ ہوئے تھے پھر اسی مقام پر لوٹ آئے۔ یہ سن کر مقامی مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ نصاب کی کتابوں نے بالکل صحیح بات بتائی ہے۔ اس طرح کی تصدیقوں سے قازقوں کا اعتماد سوویت کی صدق بیانی میں بڑھتا چلا گیا۔
مناس کے مکتب میں حمزہ دو سال رہا یعنی ١٩٣٦ء تک۔ اسی سال حسین تجّی اور سلطان شریف بارکل سے نکل کر اس جھیل کے کنارے جا کر خیمہ زن ہوئے اور گھمسان کے رن میں حمزہ بھی شامل ہو گیا۔
علی بیگ جو اس وقت تک اس قبیلے کے ٹیکسوں کے مسائل طے کرنے کا افسر تھا، اب وہ بھی حملہ آوروں میں شامل ہو کر یونس حجی کی سرکردگی میں دس ہزاری سردار بن گیا۔ جب صوبیدار شنگ نے یہ خبر سنی تو اس نے علی بیگ پر دس لاکھ تائل جرمانہ کر دیا۔ اس رقم کا مطلب ہوا پانچ ہزار گھوڑے، دو ہزار اونٹ یا چار ہزار مویشی یا تیس ہزار بھیڑیں۔ ظاہر ہے کہ علی بیگ اتنا بڑا جرمانہ ادا نہیں کر سکتا تھا لیکن مناس کے مسلمانوں نے جن میں ترک بھی شامل تھے اور قازق بھی، باغیوں سے ہمدردی کی اور آپس میں چندہ کر کے علی بیگ کی طرف سے یہ جرمانے کی رقم ادا کی۔
روسیوں کی خفیہ امداد کی وجہ سے یہ بغاوت دور دور پھیل گئی، اب کے اس میں الطائی کا عثمان بھی شریک ہو گیا، بغاوت کا ایک مرکز مناس بھی تھا۔ یہاں سے تین شخص جنگی سرگرمیوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک قازق تھا جس کا نام باعی ملّا تھا (عثمان بطور کا خسرنہیں) دوسرا ایک منگول تھاجس کا نام جی جن یعنی “زندہ بدھ” تھا جو کوہستان الطائی کا رہنے والا تھا اور تیسرا ایک ترک کسان اسمٰعیل حجی نامی تھا جس کا “چو آنگ تسو” یعنی بڑا کھلیان ان سڑکوں پر تھا جو سوویت قازقستان کو آتی جاتی تھیں اور پل مناس کے قریب ملتی اور جدا ہوتی تھیں۔
اسمٰعیل حجی کے گھر میں سے شاہراہوں کا مقام اتصال صاف دکھائی دیتا تھا۔ جتنی آر جار ارمچی سے پچاس میل جنوب مشرق کی جانب اور سوویت سرحد کو دو سو میل مغرب اور شمال مغرب کی جانب ہوتی سب کو وہ اپنے گھر میں سے دیکھ سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اونچے سرکنڈوں کے جنگل قریب ہی تھے، اگر ذرا بھی خطرہ محسوس کرتے تو اسمٰعیل حجی اور اس کے دونوں شریکِ بغاوت ان سرکنڈوں میں فوراً آسانی سے جا چھپتے، یہاں اندیشہ صرف جنگلی سور ہی کا ہو سکتا تھا۔ لہذا صوبیدار شنگ کے سپاہی اکثر اس باغیوں کے صدر مقام کے قریب آتے رہے مگر باغیوں کے سرداروں کو گرفتار نہ کر سکے شاید انھیں اس کا علم ہی نہ ہو کہ سردار یہاں رہتے ہیں۔
اسمٰعیل حجی خود ایک معمر، پستہ قد، تنگ سینہ اور دبلا پتلا سا آدمی تھا۔ اس کے دبلے سادھوؤں کے سے چہرے پر چھوٹی کالی ڈاڑھی کی جھالر سی لگی ہوئی تھی۔ دیکھنے میں وہ بہت کمزور دکھائی دیتا تھا لیکن وہ بڑا پکا قوم پرست، رحمدل اور مہذب انسان تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہ کسی مسلمان بھائی نے اس سے کچھ مانگا ہو اور اسے نہ ملا ہو۔ اس میں تعصب بھی نہیں تھا، جیسا کہ منگول اور جی جن سے اس کی دوستی سے ثابت ہے۔ یہاں پھر اس کی شہادت موجود تھی کہ سوویت کی جوڑ توڑ ناکام ہو رہی تھی۔ اس تگڈم کا تیسرا رکن باعی ملا بھی اسی ناکامی کی ایک اور شہادت تھا۔کیونکہ وہ ایک قازق تھا اور اس وقت الطائی اور تیئن شان کے قازقوں کا سردار۔
اسمٰعیل حجی علاوہ کسان ہونے کے کہ اپنی زمین خود کاشت کرتا تھا، کوئی بارہ ہزار بھیڑوں کا مالک بھی تھا۔ ان میں سے بیشتر کو وہ عام شرائط پر ٹھیکے پر دے دیتا تھا یعنی ٹھیکہ لینے والے سے سال کے اختتام پر دگنی تعداد میں بھیڑیں واپس لیتا۔ اون، پنیر اور جانور جو زیادہ پیدا ہوئے ہوں وہ ٹھیکیدار کے۔ اسمٰعیل حجی نے کوئی تین ہزار بھیڑیں انھیں شرائط پر دریائے سرخ کے علاقے میں بسنے والے علی بیگ اور یونس حجی کے قبیلے کو دے رکھیں تھیں۔ اس طرح ان کی دوسری سرگرمیوں کی طرف دشمنوں کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا۔
تینوں سردار بیٹھے ہوئے مشورہ کرتے رہتے اور لاریاں جن میں سے اکثر میں فوجی سوار ہوتے ان کے گھر کے قریب سے ارمچی کو آتی جاتی رہتیں۔ یہ لاریاں عموماً روسی ہوتی تھیں اور ان میں منجملہ اور چیزوں کے سامان حرب بھی ہوتا چینیوں کے لیےبھی اور باغیوں کے لیے بھی۔ اکثر ان میں روسی سامان تعمیر اور تعمیر کرنے والے ہوتے جو ایک نئی شاہراہ سوویت سرحد سے لانچاؤ تک بنا رہے تھے۔ یہ شاہراہ صحرائے گوبی سے ہو کر پندرہ سو میل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ لانچاؤ سے یہ شاہراہ چنگ کنگ کو چلی گئی ہے، جو کبھی پہلے چین کا دار الحکومت تھا۔ وہ علاقہ جس کا تعلق ہمارے قصے سے ہے یعنی جو لانچاؤ تک ہے، ١٩٣٨ء میں بن گیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال اور نگرانی چینی حکومت نہیں سوویت حکومت کرتی تھی۔ صوبہ کنسو کا صدر مقام لانچاؤ جہاں یہ علاقہ ختم ہوتا ہے چین کے سب سے بڑے دوسرے دریا ہوانگ ہو کے کنارے ہے۔ یہ دریائے پیکنگ کے جنوب میں بحر زرد میں گرتا ہے۔ سوویت سرحد سے بحر اوقیانوس کا جو فاصلہ ہے اس دو تہائی فاصلے پر لانچاؤ خود واقع ہے،لہذا ١٩٣٨ء میں جمہوریۂ چین کے دل پر سوویت اثرات پوری طرح چھا چکے تھے۔
شاہراہ کو بنانے کے لیے ایک لاکھ سے اوپر قازق، ترک، منگول اور دوسرے ترکستانی باشندے زبردستی پکڑ کر لائے گئے یعنی شاہراہ کا جو مفہوم ہے وہ اس سے پورا نہیں ہوتا۔ قافلے کی پرانی راہ اور اس میں بس اتنا فرق تھا کہ یہ سڑک بجائے ادھر ادھر پھٹتے جانے کے مستقلاً سیدھی چلی گئی تھی، یہ ندی نالوں میں سے بھی گزرتی اور خشک آبی راہ گزاروں پر سے بھی، جن میں ایک دم تیز بہتا ہوا پانی آجاتا ہے۔ اسے پوری طرح پکّا بھی نہیں کیا گیا۔ جب یہ بن گئی تو اس پر سیکڑوں لاریاں اور موٹریں دوڑنے لگیں، پہلے اس راستے کو طے کرنا ایک خطرناک مہم سمجھا جاتا تھا۔ چُنکنگ، نانکنگ اور پیکنگ سے سوویت سرحد تک پہنچنے میں جتنا وقت لگتا تھا، اب اس میں کئی کئی ہفتوں کی کمی آگئی۔ اس شاہراہ کے بنائے جانے سے پہلے اُرمچی کو پیکنگ سے جانے میں صحرائے گوبی عبور کر کے جانے کے بدلے، روسی ریلوں سے جانے میں کم وقت لگتا تھا۔
لیکن اگر اس روسیوں کی بنائی ہوئی سڑک نے مرکزی چین کو باہر کی طرف پھیلے ہوئے چینی صوبوں سے قریب تر کر دیا تو اس نے چین کے اندرون کو اسی قدر سوویت روس سے بھی قریب تر کر دیا اور اس نے سب سے مغربی علاقے سنکیانگ کو مع اس کے پسماندہ وسائل کے سوویت ریاست کے اتنے قریب کر دیا کہ اسی کا ایک حصہ بن جانے میں بس تھوڑی ہی سی کسر رہ گئی، آج بھی ظاہراً دوستی کے باوجود چینی اور روسی دونوں حکومتیں جانتی ہیں کہ اب بھی کوئی دو سو میل چوڑی زمین کی پٹی ایسی ہے، خلد زا اور تارباغتائی کے درمیان اور سنکیانگ کی شمالی حد کے ساتھ جہاں کسی سرحد کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اس پورے علاقے کے مدعی چین اور سوویت روس دونوں ہیں۔
لیکن ١٩٣٦ء میں یہ سڑک ابھی بننی شروع نہیں ہوئی تھی اور سنکیانگ پر روس کے قبضہ کرنے کے ارادے اتنے واضح نہیں ہوئے تھے، اس لیے تیز نظر رکھنے والے جو بظاہر اسمٰعیل حجی کے کھلیان کے باہربھیڑوں کی نگرانی کر رہے تھے، روسی لاریوں اور ان میں سوار ہونے والوں کو دیکھ کرخوشی کے نعرے لگاتے تھے۔ لاریوں کے علاوہ اونٹوں کی لمبی قطاریں آتی تھیں جن پر گیہوں، چائے، نمک اور غالباً افیون لدی ہوئی تھی اور یہ سب چیزیں مناس کی منڈی میں جاتی تھیں یا اس سے بھی آگے کسی اور شہر کا رخ کرتیں۔ اسی قسم کے کارواں اون سے لدے، روسی سرحد کی جانب تارباغتائی یا خلدزا کو جاتے دکھائی دیتے۔ تارباغتائی کو چغوچک اور خلدزا کو ایلی بھی کہتے ہیں۔ بعض دفعہ مویشیوں کے گلے اور بھیڑوں کے بڑے ریوڑ بھی سست رفتاری سے اسی سمت جاتے نظر آتے کیونکہ جب سوویت میں اشتراکیت کی تحریک نے زور پکڑا تو قازقوں کے ساتھ ان کے تمام جانور بھی وہاں سے نکل گئے۔ حکومت اب مشرقی ترکستان سے بڑی تعداد میں جانور خرید رہی تھی۔ ان کی قیمت کی ادائیگی سے چینی صوبیدار شنگ کی مدد کرنی مقصود تھی تاکہ وہ اس بغاوت کو فرو کر سکے، جسے سوویت حکومت نے ہوا دی تھی۔
اسمعیل حجی کے گھر میں تینوں سردار “سرخ ڈاڑھی والوں” کے مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے تھے، یہ سرخ ڈاڑھی والے ان چینی فوجوں کے بچے کھچے سپاہی تھے جنھیں جاپانیوں نے منچوریا سے نکال دیا تھا۔ یہ لوگ حال ہی میں مشرقی ترکستان میں، سوویت علاقے میں سے الطائی، خلدزا اور تارباغتائی ہوتے ہوئے در آئے تھے۔ علی بیگ اور حمزہ کو اب یقین آ گیا ہے کہ سرخ ڈاڑھی والے کو خاص طور پر سوویت حکام نے تربیت دے کر مشرقی ترکستان میں بھیجا تھا کیونکہ ان میں سے بعض پہاڑی لڑائیوں میں قازقوں سے بخوبی لڑ سکتے تھے اور بعض پروپیگنڈا کرنے میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ مگر واقعہ یہ تھا کہ جتنا پروپیگنڈے کا اثر ہوتا تھا اس سب پر ان سرخ ڈاڑھی والوں کے مظالم پانی پھیر دیتے تھے۔
ان سے قازقوں کی ٹکر فوراً ہی ہو گئی کیونکہ مشرقی ترکستان میں یہی لوگ ایسے تھے کہ وار کا جواب وار سے دیتے تھے اور ایسے ہتھیار بھی رکھتے تھے جن سے وار کر سکیں۔ رفتہ رفتہ قازقوں کو اس کا احساس ہوا کہ سرخ ڈاڑھی والے اشتراکیوں کے ایجنٹ ہیں۔ ان سے قازقوں کو ایک تو اس وجہ سے نفرت ہونے لگی کہ یہ سوویت کے کارکن تھے، دوسرے ان کے بے رحمانہ سلوک کی وجہ سے۔ یونس حجی ان قازقوں میں سے ایک تھا جنھوں نے ان کی سیاسی اہمیت کو تاڑ لیا تھا مگر کئی سال تک انھیں یہ نہ معلوم ہو سکا کہ یہ سوویت حکومت کے بھیجے ہوئے ہیں، وہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ لال ڈاڑھی والے چینی اشتراکیوں کے آوردے ہیں، جن کی نمائندگی شنگ کرتا ہے۔ اتنے یہ حقیقت حال سے آگاہ ہوں، مشرقی ترکستان میں اشتراکیت اپنے پنجے جما چکی تھی۔
پانچواں باب
قازقوں کا طرزِ جنگ
ممالک متحدہ سوویت روس سے لال ڈاڑھی والوں کی آمد اُن قازق قبیلوں کی آمد سے بالکل مختلف تھی جو سوویت یونین سے اپنے خیمے اور سامان اونٹوں پر لاد کر قافلوں کی صورت میں نکلے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے بے شمار مویشی، بھیڑ بکریاں اور لمبے لمبے بالوں والے گھوڑے تھے اور وہ ایسی چراگاہوں کو تلاش کر رہے تھے جن پر کسی اور کا قبضہ نہ ہو، سرخ ڈاڑھی والے منظم اور تربیت یافتہ فوجی تھے۔ سوویت کی بنی ہوئی وردیاں پہنے اور سوویت قسم کی رائفلوں اور مشین گنوں سے لیس، اس پر بھی سالہا سال بعد مقامی آبادی نے سوویت حکومت سے ان کی موجودگی پر احتجاج کیا۔ سرخ ڈاڑھی والے بہر حال چینی تھے اور وہ اس صوبیدار کی ملازمت میں تھے جو خود چینی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے روسی مشیر اس کے سارے کام کرتے تھے، لہذا ابتدا میں سرخ ڈاڑھی والوں سے قازق یہ سمجھ کر لڑتے رہے کہ ان بدترین قسم کے ڈاکوؤں کو چینی حکومت نے ان کے ملک میں بھیج دیا ہے، یہ وحشی جانور تھے جو بڑی بے رحمی سے نہ صرف مزاحمت کرنے والوں کو گولی سے اڑا دیتے بلکہ بے قصور لوگوں کو بھی گولی مار دیتے تاکہ انھیں مرتے دیکھ کر اپنا جی خوش کریں۔
ترکی میں جو قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ ہمارے جانور چُرا لے جاتے اور قتل کرنے سے پہلے ہماری بیویوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کرتے۔ مقامی چینی بھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ منچوریا سے آئے تھے اور وہاں کے لوگ ایک اکھڑ غیر مہذب بولی بولتے ہیں۔ یہ لوگ چور تو تھے ہی، خونی اور قاتل بھی تھے۔ اگر وہ کسی کے مسکرانے میں ایک دانت پر بھی سونے کا پترا چڑھا ہوا دیکھ لیتے تو اتنے ذرا سے سونے کے لیے اسے قتل کر دیتے۔
اسمٰعیل حجی، جی جن اور باعی ملّا بیٹھے ملٹ کے سرے والے لمبے روسی سگریٹ پیتے رہتے اور چائے کے پیالے پر پیالے خالی کرتے رہتے اور بڑی گرم جوشی سے لال ڈاڑھی والوں کو ختم کرنے کے مسئلے پر طول طویل بحثیں کرتے رہتے۔ سارے ملک میں ان کے خلاف شورش برپا تھی، اس صورت حال سے صوبہ دار شنگ سخت پریشان تھا لیکن اس کے روسی مشیر دل ہی دل میں بہت خوش تھے۔ تینوں سردار نہایت افسوس کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سرخ ڈاڑھی والوں کا مقابلہ میدانِ جنگ میں نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ان سازش کرنے والوں نے کچھ اور منصوبے بنائے اور خفیہ طور پر انھیں الطائی، خلدزا، تار باغتائی، طرفان کے علاقوں میں بھیجا۔ ان کے علاوہ حسین تجی اور سلطان شریف کے پاس غزکل بھی انھیں بھیجا۔ غزکل پر سرخ ڈاڑھی والوں نے ابھی تاخت نہیں کی تھی۔ جب کبھی بھی سرخ ڈاڑھی والے اپنی بارکوں سے نکلتے تو باغی سرداروں کو اطلاع دی جاتی کہ کس کس راستے سے جائیں گے تاکہ ان پر چھاپہ مارا جا سکے۔ جب بھی کوئی سرخ ڈاڑھی والا اکیلا دُکیلا کسی آباد مقام سے گزرتا تو اس کا پیچھا کیا جاتا اور اس کے چھرا بھونک دیا جاتا یا اگر اس کا موقع نہ ملتا تو اوپر سے پتھر برسا کر اسے مار ڈالا جاتا۔
اس قسم کی چالیں کامیاب ہوئیں لیکن ان کا رد عمل بھی ہوا۔ خنجر زنی اور سنگ باری کی وبا سارے علاقے میں پھیل گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ پر امن چینی سوداگر اور کسان جو مدتوں سے مشرقی ترکستان کے باشندوں میں رہتے چلے آئے تھے، بلکہ پشتہا پشت سے وہ بھی سرخ ڈاڑھی والوں کے خلاف اس خونی معرکے میں اپنے آپ کو مبتلا پانے لگے۔
جس رفتار سے چینیوں اور مقامی قوموں کے تعلقات خراب ہو رہے تھے، اسی رفتار سے مشرقی ترکستان پر قبضہ ہو جانے کی امیدیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ١٩٣٩ء میں روسیوں نے مختلف مقامات پر اپنی چھوٹی چھوٹی چھاؤنیاں بنا لی تھیں، خصوصاً نئی شاہراہ کے کنارے کنارے، مثلاً حامی میں جو لمبے تئین شان سلسلۂ کوہ کے جنوب میں ہے اور سوویت سرحد سے کوئی سات سو میل کوّے کی سیدھی پرواز۔ اسی سال مارچ میں عالمی جنگ کے شروع ہونے سے چند مہینے پہلے روسیوں نے چینی صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ مشرقی ترکستان سے پہلے تمام غیر ملکیوں کو سوائے روسیوں کے نکل جانے کا حکم جاری کرے۔ عملاً اس حکم کی زد یا تو انگریزوں پر پڑتی تھی یا ہندوستانیوں پر۔ ان میں نو عورتیں اور بارہ بچے ایسے بھی تھے جنھیں پامیر کے سولہ ہزار فٹ بلند درّوں میں سے سال کے سرد ترین موسم میں پا پیادہ گزرنا پڑا۔ ٹائمز اخبار کا بیان ہے کہ جب وہ گلگت پہنچے تو برف نے ان کے زخم ڈال دیے تھے اور ان کے چیتھڑے لگے ہوئے تھے۔
لیکن ١٩٣٦ء میں روسی یا سوویت ارادے مشرقی ترکستان میں راز ہی تھے اور قازق سرخ ڈاڑھی والوں کے عذاب سے نجات پانے کی تدبیروں میں کلیتاً منہمک تھے۔ مضافات میں جو قازق آباد تھے ان کی مخصوص ذمہ داری تھی کہ جب سرخ ڈاڑھی والے ادھر سے کوچ کریں تو ان پر چھاپہ ماریں، ان پر جو چھاپے مارے گئے ان میں سے کسی کی مفصل کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو سکی لیکن حمزہ نے بتایا کہ اس کے بھائی یونس حجی نے اس قسم کی لڑائی کی تربیت اسے کیسے دی تھی۔ یونس نے اس فن کو بوکو بطور سے سیکھا تھا جس نے عثمان کو سکھایا تھا۔ عثمان کا بیٹا شیر درماں ١٩٥٣ء تک اس قسم کے چھاپے سوویت اور چینی اشتراکیوں پر مارتا رہا اور یہ باور کر لینے کے چند اسباب ہیں کہ اس وقت ١٩٥٥ء میں بھی جب ہم یہ واقعات لکھ رہے ہیں وہ ایسے ہی چھاپے مار رہا ہو گا۔
حمزہ کا بیان ہم نے ٹیپ رکارڈ کر لیا تھا آگے جو کچھ لکھا جائے گا اس کا خلاصہ ہو گا۔
“ہماری جنگی چالیں ہمیشہ زمین کے مطابق ہوتی تھیں۔ کھلے میدانوں میں ہم اپنی کمین گاہوں سے گھوڑوں پر سوار ہو کر دشمن کے عقب میں سرپٹ گھوڑے دوڑا کر پہنچ جاتے اور اسی دوران میں زمین کی سطح ہی سے گولیاں چلاتے رہتے۔ پہاڑوں میں ہم اپنے گھوڑے، عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ جاتے اور چٹانوں اور جھاڑیوں کے پیچھے دبک کر بیٹھ رہتے۔ حملہ کرنے کے لیے میں آدمیوں کا انتخاب کرتا اور ان کے گھوڑوں کا بھی۔ ان سے کہہ دیا جاتا کہ گولی چلاؤ مار ڈالنے کے لیے۔ گھوڑوں کو نہیں بلکہ سواروں کو، اگر لاریاں ہوں تو ان میں جو سوار ہوں انھیں نہیں بلکہ لاریاں چلانے والوں کو۔ قیدی ہم کبھی نہ بناتے تھے کیونکہ ہمیشہ چلتے پھرتے رہنے کی وجہ سے قیدیوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہمارے لیے مشکل تھا۔
پہاڑوں میں ہم اپنی رائفلوں میں دو لمبے سریے لگا لیا کرتے تھے۔ ان سے صحیح نشانہ لگانے میں بڑی مدد ملتی تھی۔ کھلے میدان میں ہم زمین کی سطح سے گولیاں چلاتے۔ ہم اگرچہ اپنا پہلا حملہ عقب سے کرتے لیکن اس حملے کے بعد ہم اس کا بھی انتظام رکھتے کہ جتنی بھی سمتوں سے حملے ہو سکیں، کیے جائیں۔ لڑنے والوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ دشمن کے قریب ہوتے چلے جائیں اور تلواروں سے دشمن کا صفایا کر دیں۔ بعد کے زمانے کی لڑائیوں میں تلواروں کی کمی ہو گئی تھی اس لیے ہم نے خار دار گرز استعمال کرنے شروع کر دیے تھے۔ ان کی ضرب لگانی جسے آ جاتی تھی تو وہ اسے تلوار کے برابر ہی مہلک بنا لیتا تھا۔
پہاڑوں میں ہمیشہ ہم اس کوشش میں رہتے تھے کہ دشمن پر وار اس وقت کریں جب وہ کسی تنگ وادی میں سے گزر رہا ہو۔ الطائی اور تئین شان میں ایسی وادیاں بہت ہیں۔ دشمن کے گزر جانے کے بعد ہم اس کے بچ نکلنے کے راستے کو پانچ چھ آدمیوں کے متحرک دستے سے ہی بند کر لیتے تھے۔ کھلے میدان میں ہم سواروں کا ایک چھوٹا دستہ ان ہدایات کے ساتھ بھیجتے تھے کہ جب دشمن ان کا پیچھا کرے تو پلٹ کر اس سمت میں فرار ہوں جہاں ہم گھات لگائے بیٹھے ہوں۔ اگر دشمن ان کی چال میں آ جاتا تو ہم اسے اپنے سامنے سے گزر جانے دیتے اور پھر عقب سے ان پر گولیاں چلاتے اور حملہ کر دیتے۔ ایک اور چال ہم اکثر یہ چلا کرتے کہ کسی چینی کھلیان میں آگ لگا دیتے اور جب ہمیں معلوم ہوتا کہ چینی فوجی دستہ ہمیں پکڑنے کے لیے آ رہا ہے تو ہم فوراً وہاں سے ٹل جاتے۔ جب وہ ہمیں گرفتار کرنے میں ناکام ہو کر لوٹتا تو ہم اس پر شب خون مار دیتے۔”
حمزہ کا یہ بیان تھا کہ “جب میں لاریوں پر چھاپہ مارتا تو ہر لاری کے لیے صرف ایک آدمی متعین کرتا۔ دستے کو سخت احکام دے دیے جاتے کہ جب تک میں گولی نہ چلاؤں کوئی گولی نہ چلائے اور جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں ہم سواریوں کو نہیں مارتے تھے صرف ڈرائیوروں کو، ہم سڑک کے کنارے لیٹ جاتے تاکہ ہمارا نشانہ خطا نہ ہونے پائے۔ حالانکہ اس قسم کے حملے ہم صرف رات ہی کو کرتے تھے۔جب ڈرائیوروں کے گولی لگ جاتی تو ٹرک بے قابو ہو کر ڈگمگاتا چلا جاتا اور کچھ فاصلے کے بعد الٹ جاتا۔ ان میں جو لوگ سوار ہوتے ان میں کئی مر جاتے یا اپاہج ہو جاتے۔ جو صحیح سلامت بچ رہتے ہم انھیں ایک ایک کر کے چھانٹ لیتے اور جو باقی رہ جاتے انھیں چھوڑ دیتے۔ ایسے حملوں میں ہمارے آدمیوں میں سے شاذ ہی کوئی مارا جاتا۔ اگر اتنے زیادہ ہتھیار ہمارے ہاتھ آتے کہ ہم ان سب کو اٹھا کر نہ لے جا سکتے تو ہم انھیں گڑھے کھود کر دبا دیتے۔ اور جو چیزیں ہمارے کام کی نہ ہوتیں انھیں ہم کچل ڈالتے یا اُن میں آگ لگا دیتے۔ بڑی توپیں، بھاری سامان حرب جو بغیر گاڑیوں پر لادے ہوئے نہ لے جایا جا سکتا ہو وہ ہمارے کسی کام کا نہیں تھا۔ کیونکہ پہاڑوں میں ہم اسے نہیں لے جا سکتے تھے۔ حملے کے انتظامات بڑی احتیاط کے ساتھ کیے جاتے تھے۔ پہلے تو قازق دنوں دشمن کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرتے رہتے تاکہ اس کی عادتوں سے واقف ہو جائیں۔ اس کے بعد کبھی پچاس میل دور ایک چھوٹا سا چھاپہ مار دیتے اور ساری رات گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں اصلی چھاپہ مارنا ہوتا اس مقام پر آ جاتے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قازق چھاپہ مار ایک ہی گھوڑے پر سوار ضرورت پڑنے پر چار ہفتے میں ایک ہزار میل طے کر لیتا تھا۔”
حمزہ کے بیان میں دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی رکھنے کو بہت اہمیت دی گئی تھی، اس کا کہنا یہ تھا کہ جب یہ معلوم کر لیا کہ دشمن کیا کارروائی کرے گا تو سمجھ لو آدھی لڑائی تم نے جیت لی۔
آخر میں اس نے کہا “جنگلی جانوروں کا شکار ہم اسی طرح کھیلتے ہیں اور ہم اپنے دشمنوں کو جنگلی جانور ہی سمجھتے ہیں، لیکن شاید دشمنوں سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جنگلی جانوروں کا شکار کھیلنا ہر قازق کو پسند ہے۔ کبھی پہلے وہ جنگ کو بھی ایک کھیل ہی سمجھتا تھا جس میں افراد کی ذہانت اور چالاکی کی سنسنی خیز ٹکر ہوا کرتی تھی۔ لیکن چینیوں نے خصوصاً اشتراکیوں نے ایک اور قسم کی جنگ شروع کی جس کی بنیاد پروپیگنڈا اور اذیت رسانی پر تھی، وہ بے گناہوں کو یرغمال بطور پکڑ لے جاتے اور ان کے دباؤ میں بہادروں کو مجبور کرتے کہ شکست قبول کر لیں۔ کنوؤں میں زہر ڈال دیتے تاکہ جانور اور انسان جو بھی پانی پیے تکلیف سے مر جائے یا پھر پیاس سے سسک سسک کر مرے یا اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر کے اپنا سر کٹوائے۔”
تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حمزہ اور علی بیگ اور یونس حجی اور عثمان اپنی لڑائیوں سے اسی قدر لطف اندوز ہوتے ہوں گے جتنے شکار کھیلنے سے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیوں کے لیے یہ لوگ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔ حمزہ جب ١٩٥١ء میں ٢٩؍ سال کی عمر میں کشمیر پہنچا ہے تو اس وقت تک وہ ایک سو سولہ لڑائیاں لڑ چکا تھا، ان میں بیشتر لڑائیاں دست بدست مقابلوں پر ختم ہوئیں جن میں رائفلیں اور خودکار ہتھیار بے کار ہو جاتے ہیں اور صرف تلواریں ہی کام آتی ہیں۔
قازقوں کا سب سے مرغوب شوق شکرے سے شکار کھیلنا تھا مگر ان کے شکاری پرندے شکرے، بہری وغیرہ نہ تھے بلکہ شاہین جو دو دو تین تین فٹ اونچے ہوتے اور ان کے کھلے ہوئے پروں کی لمبان چھ فٹ سے بھی زیادہ ہوتی۔ آسودہ حال قازق اور بہت سے ایسے بھی جو زیادہ آسودہ نہ ہوتے شاہین کی آنکھوں پر ٹوپیاں چڑھائے، چمڑے کے لمبے دستانے پہنے، کلائی پر شاہین کو بٹھائے، گھوڑوں پر سوار، زین میں لگے ہوئے لکڑی کے اڈے پر کلائی ٹکائے، شکار کھیلنے نکلتے تھے۔
شاہین کا شکار ایسا شوق نہیں تھا جس سے تنہا کوئی لطف اندوز ہو لے۔ تماشا دیکھنے کے لیے اکثر دوستوں کو دعوت دی جاتی تھی۔ اگر شاہین سے شکار کھیلنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو قازقوں کی یہ کہانی مکمل نہیں ہوگی۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہ ان کے طرزِ زندگی کا ایک نمایاں رخ ہے، دوسرے اس سے قازقوں کے چھاپہ ماری کے اصول بڑی حد تک مشابہت رکھنے کی وجہ سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ اچھا تو آئیے علی بیگ، یونس حجی اور نوجوان حمزہ کے ساتھ ہم بھی تئین شان میں شاہین کے شکار کا تماشا دیکھنے چلیں۔
سورج نکلا ہی تھا کہ گھڑ سواروں کا ایک دستہ ہنستا بولتا روانہ ہوا اور شاہین کے مالک کے پیچھے ایک ٹیڑھی میڑھی قطار بنا کر پہاڑی راستے پر چل پڑا۔ پہاڑ کی تین چوٹیاں جو “تین بہنیں” کہلاتی ہیں، کمر کمر سفید بادلوں میں چھپی ہوئی ہیں اور ان کے سروں پر برف کے تاج دھرے ہیں۔ یہ چوٹیاں اب بالکل گھڑ سواروں کے سروں پر ہیں۔ شاید آگے کسی وقت دن میں بارش ہو گی۔ تئین شان کے شمالی ڈھلانوں پر عموماً بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں گرمیوں میں خوب گرج چمک کے ساتھ بارش ہوتی ہے اور جاڑوں میں خوب برف پڑتی ہے۔ اسی سلسلۂ کوہ کے دوسری طرف بمشکل ڈیڑھ سو میل جنوب کی طرف خوفناک “کوہ تشنہ” کا سلسلہ ہے جہاں بارش کی ایک بوند بھی نہیں پڑتی۔
بل کھائے ہوئے راستوں پر گھوڑے اپنے سواروں کو لیے چڑھے چلے جاتے ہیں اور کوئی من چلا گانے لگتا ہے۔ گانے کی آواز سنتے ہی شاہین اپنے آقا کی کلائی پر کچھ بے چین ہونے لگتا ہے لیکن اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اس لیے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ اڑ جائے۔ اس کے علاوہ اتنے دن سے مقید ہے کہ اسے اپنا آقا پر بھروسا کرنا آ گیا ہے اس لیے وہ صرف یہ کرتا ہے کہ جس چمڑے کی کلائی پر وہ بیٹھا ہوا ہے، اس پر اپنے پنچے ذرا اور زور سے جما دیتا ہے اور زیادہ توجہ سے اپنے جسم کو سنبھالے رہتا ہے تاکہ گھوڑے کی جنبش سے اس کا جھونک نہ بگڑنے پائے۔
چونکہ خوشی کا موقع ہے اس لیے گیت عموماً شگفتہ اور رومانی ہوتا ہے یا کوئی چھوٹی داستان نظم ہوتی ہے اور پھر ایک ایک کر کے گانے والے کے ساتھ سب اپنی اپنی آوازیں ملانے لگتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ گانے والا کوئی ایسا گیت گاتا ہے جو خود اس کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ دھن نہیں صرف الفاظ۔ اس صورت میں سب خاموشی سے اس ہنسی کی بات کے منتظر رہتے ہیں جس کا ہر بند میں آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جب یہ ٹیپ آتی ہے تو سب کے سب خوشدلی سے مل کر گانے لگتے ہیں:
کائی۔ لی۔ لی۔ لیھہ
دائی۔ دُن۔ یا۔ آ۔ آ۔ آ
ان کی یہ آواز تنگ ہوتی ہوئی وادی کے اس طرف کی بڑی بڑی چٹانوں اور جنگلوں میں گونجتی چلی جاتی ہے اور ٹکرا کر پھر واپس آتی ہے اور صدا اور عکس صدا کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوتا ہے جب دوسرا بند شروع ہو جاتا ہے۔ جب یہ ٹولی خوب جی بھر کے گا چکتی ہے تو ان میں سے کوئی ایک قطار کے آخر سے آواز دے کر پوچھتا ہے “ابھی اور کتنی دور ہمیں لے جاؤ گے۔ میرے گھوڑے کے نعل ایسے نہیں ہیں کہ وہ برف کے تودوں پر سواری دے، خاص کر سال کے اس حصے میں۔” کوئی اور کہتا ہے “دیکھتے نہیں اس کے شاہین کو اتنی ناکامیاں ہو چکی ہیں کہ اسے ہمیں اتنے اوپر لے جانا پڑے گا جہاں کے خرگوشوں اور لومڑیوں کو اس سے پہلے کبھی سابقہ نہ پڑا ہو ورنہ اس کا شاہین ہرگز نہیں جھپٹے گا۔”
تیسرا کہتا ہے “ارے تم سمجھے نہیں وہ ہمیں بادلوں کے اوپر لے جانا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے شاہین کی ناکامی کو نہ دیکھ سکیں”۔ شاہین کا مالک مسکراتا رہتا ہے مگر منہ سے کچھ نہیں کہتا کیونکہ پچھلے پورے ہفتے شاہین کے سدھانے والے پہاڑوں کی وادیوں کا اپنی تیز نظروں سے جائزہ لیتے رہے اور دل ہی دل میں ان مقامات کو یاد رکھتے رہے جہاں کوئی لومڑی یا شاید کوئی بھیڑیا دن کو اچھے وقت سے کھلے میں دکھائی دے جائے۔
جب وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا مقام ان کی نظر میں آ گیا ہے تو آ کر آقا کو اس کی اطلاع دیتے ہیں “چہکنے والی چڑیوں کی وادی میں کھلی چراگاہ کے پیچھے، نیلی چھوٹی جھیل کے کنارے روزانہ صبح کو سورج نکلنے کے دو گھنٹے بعد ایک لومڑی اپنے بچوں کو لے کر پانی کے کنارے جایا کرتی ہے”۔
“وادی زاغ میں جہاں ایک اونچا چیڑ کا درخت کھلی جگہ میں کھڑا ہے ایک بھیڑیا دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے تک اکیلا دھوپ میں پڑا رہتا ہے”۔
شاہین کا مالک پوچھتا ہے “بھیڑیا کتنا بڑا ہے؟”
“ناک کی پھننگ سے دم کے سرے تک آٹھ بالشت کا ہے۔ اچھا تیار جانور ہے اور اس کھال کھردری اور داغدار ہے”۔
آقا خفگی سے کہتا ہے “تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسے گھٹیا جانور یا بچدار لومڑی پر اپنا شاہین چھوڑوں گا؟ شرم نہیں آتی تم دونوں کو؟ کوئی اور بہتر شکار تلاش کرو۔ ورنہ تم دونوں کے حق میں اچھا نہیں ہو گا”۔
لہذا سدھانے والے پھر تلاش شروع کرتے ہیں۔ اب کے ان میں سے ایک یہ خبر لاتا ہے کہ ایک پورا اونچا بھیڑیا جس کے ساتھ اس کا جوڑا نہیں ہوتا روزانہ صبح کو وادی کی تہ میں جو سبزہ زار ہے اس میں سے گزرتا ہے اور جہاں وادی تنگ ہو جاتی ہے اور اس پر چٹانیں اور جھاڑیاں آ جاتی ہیں وہاں جا کر غائب ہو جاتا ہے”۔ شاہین کا مالک کہتا ہے “یہ اچھا شکار ہے میں جا کر اسے خود دیکھوں گا”۔
اور اس موقع پر پہنچ کر احتیاط سے وہ وقت یاد کر لیتا جب بھیڑیا دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی ذہن میں رکھتا ہے کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اس کےبعد وہ سبزہ زار کے اوپر ایک چٹان کی دراڑ تلاش کر لیتا ہے جہاں سے وہ شاہین کو ٹھیک اس وقت چھوڑ سکے جب بھیڑیا پہاڑی کے پیچھے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ آخر میں وہ اس جگہ کا تعین بھی کر لیتا ہے جہاں اسے گھوڑا چھوڑنا ہوگا تاکہ بھیڑیا نہ تو اسے دیکھ سکے اور نہ اس کی بو پا سکے۔ اس وقفے کا بھی صحیح اندازہ کر لیتا ہے جس میں گھوڑے باندھے جائیں گے اور مقررہ چٹان پر بھی پہنچ جانا ہو گا۔ ان سب باتوں سے فارغ ہو کر وہ گھر واپس آتا ہے اور دن اور وقت مقرر کر کے اپنے دوستوں کو دعوت دیتا ہے۔ جیسے ہی یہ ٹولی شاہین والے کے منتخب مقام پر پہنچتی ہے اور وہ اپنے گھوڑے پر سے اترتا ہے تو گانا وانا سب بند کر دیا جاتا ہے اور سب اس کی دیکھا دیکھی گھوڑوں پر سے اتر پڑتے ہیں۔ وہ انگلی کے اشارے سے وہ مقام دکھاتا ہے جہاں سے شاہین کو چھوڑنا ہوتا ہے اور سب کے سب پہاڑی پر اتر چڑھ کر بغیر کسی آواز کے اس چٹان پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے جائے شکارصاف دکھائی دیتی ہے۔
کچھ دیر بالکل خاموشی رہتی ہے۔ صرف کبھی کبھی اونچی اڑتی ہوئی کسی چڑیا کی چہکار یا پہاڑی بکرے کی آواز یا جنگلی گلہری کی کرخت تیز سیٹی سنائی دیتی ہے۔ پھر یکایک ایک لمبا سایہ ہری ہری گھاس پر آہستہ آہستہ سرکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دور سے بل کھاتے ہوئے راستے پر وادی کے سرے سے آتا ہوا نظر آتا ہے۔ تماشائی دل میں کہتے ہیں “یا اللہ بھیڑیا ہے بچہ نہیں ہے۔ پورا بڑا نر ہے۔ جوان، رفتار میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ دس بالشت سے ایک انگل بھی کم نہیں ہے۔ واقعی زبردست جانور ہے۔ کیا ایسے صید پر شاہین چھوڑا جائے گا، اگر چھوڑا گیا تو دونوں میں سے کون جیتے گا؟”
انھیں زیادہ دیر تک تذبذب میں نہیں رہنا پڑتا، آنکھوں پر سے ٹوپی ہٹتے ہی شاہین ایک دم سے ہوا میں بلند ہو جاتا ہے اور فوراً چاروں طرف نظر دوڑا کر بھیڑیے کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ بڑا پرندہ دو دن کے فاقے سے ہے اور بھوک سے اس کا برا حال ہے، ذرا توقف نہیں کرتا اور نیچے ہی نیچے جھپٹا چلا جاتا ہے۔ پتھر یا گولی کی طرح نہیں بلکہ خاموشی سے پر مارتا بے رحمی سے، بغیر کوئی غلطی کیے، پردار دشمن، نڈر، پر اعتماد، فریب نہ کھانے والا، خطرے سے بے خطر۔ بھیڑیا جب آگے بڑھتا ہے تو شاہین اپنے بڑے بڑے پنجے اس کے سر کے نیچے اتار دیتا ہے۔ شاہین کی جھپیٹ میں آ کر بھیڑیا گر کر لڑھک جاتا ہے، منہ مارتا ہے اور دانت چباتا ہے، اپنے پنجے اور دانت حملہ آور پر جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر اتنے ہی میں شاہین اپنی مڑی ہوئی چونچ سے بھیڑیے کی آنکھیں پھوڑ ڈالتا ہے۔ چند لمحوں میں لڑائی ختم ہو جاتی ہے اور بھیڑیا مر جاتا ہے۔
تماشائی دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں اور اپنے گھوڑوں کا رخ کرتے ہیں، ڈھلان پر بھاگنے کے باوجود بعض کے سانس پھول جاتے ہیں کیونکہ قازق اپنے پیروں سے زیادہ گھوڑوں پر زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں، بہر حال چٹکی بجاتے میں وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑائی کے منظر پر پہنچ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شاہین کا مالک وہاں پہنچ کر شاہین کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا چکا ہے اور بھیڑیے کی کھال اتارنے میں مصروف ہے۔ جب وہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے تو شاہین کی آنکھیں دوبارہ کھول دیتا ہے تاکہ خوب سیر ہو کر بھیڑیے کی لاش کو کھا لے۔
ایک تماشائی کہتا ہے “خوب پرند ہے۔ دائی یا پرامائی، بھیڑیا تین منٹ میں مر گیا اور شاہین نے تنہا ہی اسے ہلاک کر دیا۔ شکاری کتوں کی مدد کے بغیر ہی!”
کوئی اور تائید کرتے ہوئے کہتا ہے “بے شک پرند کے ساتھ اس کے سدھانے والے کی بھی تعریف کرنی چاہیے مگر ذرا بھیڑیے کا قد و قامت تو دیکھو کھال کا ناپ تھوتھنی سے دم کی نوک ساڑھے نو بالشت ہے”۔
ایک اور نے حاسدانہ طور پر کہا “شاہین تک کے پر بھی تو ناپ میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں”۔ مگر دل میں قائل تھا کہ اگر میرا پرند ہوتا تو لومڑی سے بڑے جانور پر اسے نہ چھوڑتا۔
کسی نے ہنس کر جواب دیا “تمھارے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے تو زیادہ ہی ہے اگر یہ جانور تم پر چھوڑا جاتا تو میں خوب جانتا ہوں کہ کس کی جیت ہوتی۔ چاہے تمھارے ہاتھ میں تلوار ہی کیوں نہ ہوتی؟”
اس کے جواب میں ایک اور بولا “جو شخص اپنی انگلی کی ایک پور شاہین کی چونچ کی نظر کر چکا ہو اس کے منہ سے ایسی بات بھلی نہیں لگتی”۔
ایسے سانحے تو بہت کم ہوتے ہیں لیکن بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتے ضرور ہیں۔ نوگرفتہ شاہین صرف ایک ایسے مالک کا لحاظ کرتا ہے جو پہلے جان بوجھ کر اس سے بے رحمی سے پیش آئے اور پھر جب اسے سدھا لیا جائے تو بہت احتیاط اور توجہ سے رکھے۔ اس طرح دونوں میں ایک طرح کی مفاہمت ہو جاتی ہے اور کم از کم انسان کی طرف سے یہ مفاہمت محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن پرند اپنے آقا کو قبول کر لینے پر بھی اور سب سے بھڑکتا رہتا ہے، دوسروں کے لیے یہ شاہین اب بھی جنگلی، بے قابو، وحشی اور خطر ناک ہی ہوتا ہے۔
شاہین جاڑوں میں پکڑے جاتے ہیں، شکاری سفید ڈوریوں کا جال اس طرح بناتا ہے کہ بیس ڈوریوں میں بیس اور ڈوریوں کے پھسلنے والے پھندے لگاتا ہے۔ اس جال کو وہ زمین پر ڈال دیتا ہے اور جب اس پر پہلی برف پڑ جاتی ہے اور اسے پوری طرح چھپا لیتی ہے تو ایک زندہ چوزہ اس کے قریب باندھ دیتا ہے۔ یہ چوزہ چیختا ہے۔ شاہین جھپٹ کر آتا ہے مگر جب وہ مرے ہوئے چوزے کو پنجوں میں دبا کر اوپر اڑتا ہے تو پھندے اس کی ٹانگوں میں الجھ جاتے ہیں اور وہ مجبور ہو جاتا ہے۔ جال لگانے والا دوڑ کر آتا ہے، پھڑپھڑاتے ہوئے پرند پر ایک کپڑا ڈال دیتا ہے اور چمڑے کے دستانے پہنے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اسے دبوچ کر آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے تاکہ جب اسے کپڑے اور جال سے نکالے تو دکھائی نہ دینے کی وجہ سے وہ اڑنے سے معذور رہے۔
اس کے بعد یہ کیا جاتا ہے کہ زمین میں دو لکڑیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور ان کے درمیان ایک رسی تان دی جاتی ہے، ایک اور چھوٹی رسی کا ایک سرا شاہین کے پاؤں میں بندھا ہوتا ہے اور دوسرا سرا دونوں میں سے کسی لکڑی میں باندھ دیا جاتا ہے۔ پاؤں کی رسی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بدنصیب پرند زمین پر اتر نہیں سکتا اس لیے مجبور ہوتا ہے کہ پہلی رسی پر اپنا توازن قائم کیے بیٹھا رہے ورنہ سر نیچے اور ٹانگیں اوپر لٹکتا رہے گا۔
ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اور ایسی حالت میں اسے مسلسل کئی دن رات تک رکھا جاتا ہے، کوئی دس دن، پھر سدھانے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ اڑنے کے قابل نہیں رہا۔ اب کبھی کبھی اس کا سدھانے والا اس کی آنکھیں کھولتا ہے اور اسے چوہیا یا خرگوش کھانے کو اور تھوڑا سا پانی پینے کو دیتا ہے، اتنا کھانا اور پانی نہیں دیا جاتا کہ وہ سیر ہو جائے بلکہ صرف اتنا کہ وہ زندہ رہے اور اسے زیادہ بھوک لگنے لگے۔
جب اس کا سدھانے والا سمجھ لیتا ہے کہ اب کوئی اندیشہ نہیں رہا تو وہ اسے پھر ٹوپی پہنا دیتا ہے اور اس کی رسی پکڑ کر اپنے چمڑے کی کلائی پر بٹھا لیتا ہے اور اپنے پڑاؤ میں سوار ہو کر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ اگر پرند تمیز سے بیٹھا رہتا ہے تو گھر جانے پر اسے ذرا موٹی رسی بیٹھنے کو ملتی ہے اس کے بعد لکڑی پر اسے بٹھایا جاتا ہے اور آخر میں کسی درخت کی ٹہنی پر۔ لیکن وہ شاہین کو ہمیشہ بندھا رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سوائے سدھانے والے کے وہ ہر ایک پر جھپٹ پڑے گا اور یہ عموماً وہ چاہتا بھی ہے کیونکہ اس کی اس خو کی وجہ سے اسے کوئی چرا بھی نہیں سکتا، اس کے علاوہ اس کی وحشت باقی رہنی چاہیے ورنہ وہ کسی کو بھی شکار نہیں کرے گا۔
وہ دن بھی بالآخر آ پہنچتا ہے جب شاہین کا مالک اسے پہلا شکار کھلانے پہاڑوں میں لے جاتا ہے۔ اسے پورے دو دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے اور اسے کسی ایسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے جو بہت فاصلے پر نہ ہو، اس طرح مالک اس مقام پر شاہین کے پیٹ بھر کے کھا لینے سے پہلے جا پہنچتا ہے۔ جب تک وہ پہنچتا ہے شاہین اپنے شکار کو نوچ نوچ کر اس کا کچا گوشت بھوک بجھانے کے لیے نگلتا رہتا ہے لیکن چونکہ وہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور خود کھانے میں مصروف ہوتا ہے اس لیے اسے قریب آ جانے دیتا ہے۔ مالک جلدی سے اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے۔ جانور کی کھال جلدی سے اتارتا ہے کیونکہ اسے استر کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر شکار کی لاش شاہین کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ شاہین اس بات کو جلدی سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ شکار کرے گا اسے کھانے کو مل جایا کرے گا اور اسی وقت سے انسان اور پرند میں ایک معاہدہ ہو جاتا ہے جو کسی ایک کے مرنے ہی پر ختم ہوتا ہے۔
چھٹا باب
اشتراکیوں کی پسپائی
سُرخ ڈاڑھی والوں سے لڑائی پورے مشرقی ترکستان میں سالہا سال تک چلتی رہی، لیکن ١٩٣٨ء تک اس کے شعلے تئین شان کے علاقہ میں اتنے فرو ہو گئے تھے کہ حمزہ پھر اپنے مکتب جا سکے۔ لیکن الطائی میں جنگ کچھ تیز ہو گئی تھی۔ عثمان پہاڑوں میں تاخت کرتا پھر رہا تھا۔ جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی اسے موقع ملتا وہ چینیوں پر چھاپہ مار دیتا۔ اپنے منتخب چھاپہ ماروں کے ساتھ وہ چھاپے پر چھاپہ مارتا، یہاں تک کہ وہ اپنے دشمنوں کے لیے کابوس بن گیا۔ الطائی کی بلندیوں میں ایسی بے شمار کمین گاہوں کا اسے بے مثل علم تھا جنھیں سوائے چند قازقوں اور منگولوں کے اور کسی نے دیکھا تک نہیں تھا۔ جب چینی اسے گرفتار کرنے کے لیے اپنے دستے اس کے تعاقب میں بھیجتے تو وہ اُن کی گرفت سے بچ نکلتا اور جب چینی واپس جاتے ہوئے کسی تنگ وادی یا سکڑے پہاڑی راستے میں پھنس جاتے تو ان میں سے بیشتر کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا اور کُھلے میدانوں میں ان پر اچانک حملہ کر کے ان کا قلع قمع کر دیا جاتا۔ حملے کی رہنمائی خود عثمان کرتا، اپنے ساتھیوں سے بہت آگے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑتا اور اپنی زین کی سطح ہی سے مشین گن سے گولیاں برساتا رہتا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ اندھا دھند گولیاں چلا رہا ہے لیکن درحقیقت وہ چار ہی گولیوں میں وہ افسروں یا سربرآوردہ لوگوں کو ڈھیر کر دیتا۔ اس کی نشانہ بازی اس قدر مہلک تھی کہ مشرقی ترکستان کے قازقوں میں اور ترکی میں بھی اس کی شہرت ویسی ہی تھی جیسی سوئٹزرلینڈ میں ولیم ٹیل کی۔ ان لڑائیوں میں وہ ہمیشہ زندہ سلامت نکل آیا۔ کوئی ہلکا سا زخم کبھی آ گیا تو آ گیا۔ عثمان کے ساتھی جیسا کہ قازقوں کا ہمیشہ سے شعار رہا ہے اپنے سردار کی فدائیانہ خدمات انجام دیتے تھے۔ وہ اسے نہ صرف بوکو بطور کا سچا جانشین سمجھتے تھے بلکہ خود چنگیز خاں کا بھی۔ حوصلہ مند، بے رحم، شجاع، محتاط، نازاں، وہ کبھی کسی سے ایسےکام کو نہیں کہتا تھا جسے وہ خود نہ کر سکتا ہو۔ اس کے ساتھی جانتے تھے کہ جس کام کو وہ ٹھیک سمجھتا ہے پھر اس سے مُنہ نہیں موڑتا، نہ تو اپنے دشمنوں پر ترس کھاتا ہے نہ اپنے آپ پر۔ کبھی کسی حریف، دوست، مقصد یا اپنے ضمیر سے سمجھوتہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے ساتھی یہ محسوس نہیں کرتے تھے کہ تاریخ کے اسٹیج پر وہ نصف صدی تاخیر سے رونما ہوا ہے۔ گُھڑ سواروں کی رہنمائی کرنے میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، لیکن آخر میں اسے اپنے آدمیوں کو بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلے میں لے جانا پڑا، اس صورت حال میں بھی اس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا بیان اس کے مناسب موقع پر آئے گا۔
اس عرصے میں تئین شان میں یونس حجی، باعی ملا، علی بیگ اور دوسرے قازق سردار سیاسیات کی طرف متوجہ تھے۔ ابتدا میں اس کے باعث بڑی تباہی آئی۔ ١٩٣٩ء میں دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کا زمانہ تھا۔ صوبہ دار شنگ نے جو بدستور روسی مشوروں پر عمل کر رہا تھا ایک دم سے اپنی دہشت انگیزی کم کر دی اور پیشکش کی کہ مقامی افسر قازق خود مقرر کریں تاکہ اپنے امور کے انتظامات وہ خود کریں، مثلاً اپنے اسکول چلانا، ٹیکس لگانا اور چراگاہوں کا تقسیم کرنا۔ بہت سے قازقوں نے اس پیشکس کو جلدی سے قبول کر لیا اور یہ نہ سمجھ سکے کہ صوبہ دار شنگ ان عہدوں کو محض بطور چارہ پیش کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے قازق خود شاہین پکڑنے کے لیے جال میں چوزے لگایا کرتے تھے۔ جب نئے افسروں نے عہدے سنبھال لیے تو شنگ نے اپنی خفیہ پولیس بھیج کر ان سب کو حراست میں لے لیا اور ان پر الزام یہ لگایا کہ وہ سب “حلق آزادلک الاری مو” عوامی آزاد پارٹی کے ممبر ہیں، حالانکہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ پارٹی اور خود صوبہ دار شنگ بھی سوویت کے زیر اثر تھے۔ ان گرفتاریوں کا انداز خاص اشتراکی تھا۔ رات ڈھلے خفیہ پولیس کی ایک پارٹی مطلوبہ شخص کے گھر یا خیمے پر پہنچتی اور اس میں رہنے والوں کو زور زور سے آوازیں دیتی کہ باہر نکل آئیں۔ ان میں سے اکثر اپنے شب خوابی کے کپڑے پہنے ہی باہر نکل آتے تھے۔ پھر عورتوں اور بچوں کو نہایت بدتمیزی سے واپس اندر دھکیل دیا جاتا اور مطلوبہ شخص کے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کر پولیس کی گاڑی میں دھکا دے دیا جاتا۔ اسے کپڑے تک نہ بدلنے دیا جاتا اور جیل پہنچا دیا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ پولیس والوں نے گھر کی تلاشی لی، عورتوں کی عصمت دری کی اور گرفتار کرانے کے لیے باغیانہ کاغذات خود اس کے گھر میں رکھ کر برآمد کر لیے۔ لیکن اس زمانے میں عوامی پارٹی کا ممبر ہونا خلاف قانون نہیں تھا۔ آخر کو تو یہ پارٹی سوویت کی سرپرستی ہی میں قائم ہوئی تھی۔ اس لیے اس حقیقت کو چھپانے کی کوئی ممبر کوشش نہیں کرتا تھا لہذا بغاوتی سرگرمیوں کی شہادت صرف اس وقت مہیا کی جاتی جب مطلوبہ شخص کو واقعی خطرناک سمجھا جاتا۔
ان گرفتاریوں میں قازقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے لوگ بھی شامل کر لیے جاتے، مثلاً ترک، منگولی، ازبکی وغیرہ۔ لیکن ایسے رہنما بھی ان میں موجود تھے جو اس جال میں پھنس جانے سے بچے رہے کیونکہ جب صوبہ دار شنگ نے عہدوں کی پیشکش کی اور غیر محتاط لوگوں نے جھٹ اُسے قبول کر لیا تو یہ لوگ نہایت دانشمندی سے دور ہی رہے۔ جو لوگ قید و بند سے بچے رہے ان میں علی بیگ اور یونس حجی دونوں تھے اور اسمٰعیل حجی ترک کسان بھی۔ جس کا گھر لال ڈاڑھی والوں کے خلاف پیکاری منصوبے بنانے کا اڈا بنا ہوا تھا۔ لیکن آخر آخر میں شنگ نے اسمٰعیل حجی کو گرفتار کر لیا۔ اُسے گرفتار کیا گیا پھر چھوڑ دیا گیا اور پھر گرفتار کر کے اس قدر تکلیفیں دیں کہ وہ مر گیا۔ اس کے دونوں ساتھیوں جی جن منگولی “زندہ بدھ” اور باعی ملا قازق کو دعوت نامہ ملا کہ صوبہ دار شنگ کے مہمان ہونے کے لیے ارمچی آئیں، دوسروں کی طرح بغیر کسی بات کا شبہ کیے انھوں نے دعوت منظور کر لی اور جب مہمانوں کے اعزاز میں بظاہر خوشیاں منائی جا رہی تھیں، جلاد ان پر جھپٹ پڑے اور ان کا کام تمام کر دیا۔
باعی ملا کا چغہ خفیہ طور پر علی بیگ کو پہنایا گیا لیکن ١٩٤٠ء میں تقریباً سقوط فرانس کے وقت وہ بھی گرفتار کر کے اُرمچی لے جایا گیا جہاں اسے اٹھارہ مہینے ایک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔ اس زمانۂ نگرانی میں جہاں
کہیں وہ جاتا، چینی نگراں اس کے ساتھ رہتے۔ یہاں تک کہ رات کو بھی اسی کمرے میں رہتے جس میں وہ اپنی بیوی کے ساتھ سوتا۔ کمرے میں صرف ایک پلنگ تھا اس پر نگران سوتے۔ لیکن علی بیگ چونکہ اپنے خیمے کے فرش پر سونے کا ساری عمر سے عادی تھا اس لیے یہاں بھی فرش پر سونے میں اُسے کسی قسم کی زحمت نہیں ہوتی تھی۔
علی بیگ کی گرفتاری سے کچھ ہی پہلے شنگ کی بُلائی ہوئی ایک کانفرنس میں ایک مندوب کی حیثیت سے یونس حجی ارمچی گیا تھا، وہ حمزہ کو اپنے ساتھ لیتا گیا تاکہ اُرمچی میں اس کی تربیت جاری رہے۔ یہاں وہ پورے دو سال مقیم رہے، حالانکہ چاروں طرف دہشت کا راج تھا۔ گلیوں کے نکڑ پر سفید بکس رکھے ہوئے تھے کہ لوگ کسی پر اتہامات لگا کر گم نام درخواستیں ان میں ڈال دیں۔ شنگ کی خفیہ پولیس یہ معلوم کرنے کی زحمت نہیں کرتی تھی کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ صحیح ہیں یا غلط، اس لیے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ کس دن بلکہ کس گھڑی خفیہ پولیس آکر اس کا دروازہ پیٹنے لگے گی اور اسے کسی ایسے جرم میں پھانس کر لے جائے گی جو اس نے نہیں کیا۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو تکلیفیں پہنچائی جاتیں اور وہ غریب یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتا کہ کس دشمن نے اس کے خلاف درخواست دی ہو گی۔ پھر خود ہی کسی کا نام دل میں سوچ کر اس کے خلاف گمنام درخواست ڈال دیتا۔ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ہزاروں بے گناہ اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ علی بیگ اور حمزہ کا اندازہ یہ ہے کہ صوبہ دار شنگ کے دہشت ناک راج میں نو سال تک ہر سال دس ہزار بے قصور آدمی موت کے گھاٹ اُتارے گئے۔
ستمبر ١٩٣٩ء میں حمزہ کے ارمچی جانے سے کچھ ہی پہلے شنگ کے روسی مشیروں نے فیصلہ کیا کہ صوبےمیں مذہبی تعلیم ختم کر دی جائے۔ چنانچہ صدر مقام میں دو سال تک حمزہ کو صرف غیر مذہبی تعلیم ہی ملتی رہی۔ وہ اس تبدیلی کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن تبدیلی کا ذمہ دار وہ چینیوں کو ٹھہراتا تھا، روسیوں کو نہیں۔ لیکن روسیوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو چلے تھے۔ جو کتابیں حمزہ پڑھ رہا تھا وہ روسیوں کی نگرانی میں مرتب کی گئی تھیں۔ سوویت یونین ایک اشتراکی ریاست تھی۔ حمزہ کے بعض مکتب کے ساتھی اب اشتراکی بن چکے تھے بلکہ ان میں چند قازق بھی شامل ہو چکے تھے اور جب مکتب سے فارغ التحصیل ہو کر نکلے تو ان کو شنگ کی صوبائی حکومت میں اچھی ملازمتیں مل گئیں۔ حمزہ اشعر تیز دماغ اس تذبذب میں پڑ گیا کہ کیا اشتراکیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو چینی جو بُری ہوتی ہے اور دوسری روسی جو اچھی ہوتی ہے۔ ایک وہ جو چینیوں کے خلاف مقامی قوموں کی پشت پناہی کر رہی تھی اور دوسری وہ جو جابر و ظالم شنگ کی پیٹھ ٹھونک رہی تھی اور محکوم قوموں کے سر اس سے کچلوا رہی تھی۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ عوام کے سامنے اشتراکی دو منہ سے بولتے ہوں اور خفیہ طور پر ان کا مقصد ایک ہی ہو، اگر وہ دو مونہوں سے بولتے ہیں تو کس مُنہ کا اعتبار کیا جائے؟
ان دنوں واقعی میں کسی کے لیے یہ جان لینا مشکل تھا کہ کس پر یقین کیا جائے۔ مثال کے طور پر جب اگست ١٩٣٩ء میں شنگ نے صوبے میں بسنے والی مختلف قوموں کو دعوت دی تھی کہ اپنے اپنے مندوب اُرمچی بھیجیں تاکہ نیا بنیادی دستور بنایا جائے جس کی رو سے ہر شخص کے ساتھ انصاف کیا جائے تو اس وقت شنگ کی نیت نیک تھی یا بد، یہ ایک ایسا دعوت نامہ ضرور تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا، ورنہ بعد میں شنگ کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ دیکھو میں نے تو تمھیں آزادی دینے کےلیے بلایا تھا مگر تم آئے ہی نہیں۔
لہذا مناسب وقفے میں کوئی تین ہزار مندوبین جن میں یونس حجی بھی تھا، مقررہ تاریخ پر اُرمچی پہنچ گئے اور صوبہ دار شنگ نے اعلیٰ پیمانے پر ان کی خاطر مدارات کی۔ پھر مذاکرات کی ابتدائی کارروائی بطور اور (بقول شنگ) یہ یقین کرنے کے لیے کہ تمام مذاکرات امن کے ماحول میں جاری رہیں گے، شنگ نے ہر مندوب کو حکم دیا کہ جنھوں نے اُسے چُن کر بھیجا ہے انھیں ایک خط لکھے کہ جتنے بھی ہتھیار موجود ہوں، وہ سب فوراً حکومت کے حوالے کر دیے جائیں۔
ہمیں اس کا علم نہیں کہ مندوبین میں سے کتنوں نے شنگ کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ بہت کم نے اور قازقوں میں سے شاید کسی نے بھی یہ خط نہیں لکھا۔ اور اگر ایسے خطوط لکھے بھی جاتے تب بھی اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کوئی نہ کرتا۔ بہرحال یہ تین ہزار مندوبین اگلی اپریل تک اُرمچی ہی میں تھے اور نئے بنیادی دستور پر غور و خوض شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر اپریل ١٩٤٠ء میں ان تین ہزار مندوبین میں سے اٹھارہ کو شنگ نے گرفتار کر لیا۔ ان میں یونس حجی بھی شامل تھا اور جب بالآخر ٤١-١٩٤٠ء میں ان مندوبین کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت ملی تو وہ اٹھارہ ان کے ساتھ نہیں گئے اور نہ اس کے بعد کسی نے انھیں زندہ دیکھا۔
اُرمچی میں صرف ایک قازق ایسا تھا جو بتا سکتا تھا کہ ان کا کیا حشر ہوا۔ شنگ کی خفیہ پولیس میں یہ شخص لاری ڈرائیور تھا۔ اس کا ایک کام یہ بھی تھا کہ جن کو مار ڈالا گیا ہو، ان کی لاشوں کو لاد کر لے جایا کرے۔ جسے مارنا ہوتا اس کی گُدی پر گولی مار دی جاتی اور اس کی لاش فصیل شہر سے باہر پھنکوا دی جاتی۔ اس شخص کی تنخواہ تو کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن جو لوگ لاپتہ ہو جاتے، ان کے ورثا کو یہ بتا کر کہ ان کی لاشیں کہاں پھینکی گئی ہیں، وہ خاصی رقمیں کما لیتا تھا۔
گرمیوں کے موسم میں ایک دن وہ بجائے مقتولین کی لاشیں لادنے کے، ان کے قاتلوں یعنی شنگ کے مقرر کردہ جلادوں کو اپنی لاری میں سوار کر کے چھوڑنے جا رہا تھا کہ ایک اُجاڑ مقام پر لاری کا انجن کچھ خراب ہو گیا۔ اس نے انجن کا ڈھکنا کھول کر ٹھونک بجا کر خرابی کا پتہ چلانا شروع کیا۔ مشرقی ترکستان میں سارے ڈرائیور بڑے شوق سے انجنوں پر جھکے رہتے ہیں کیونکہ اس طرح انھیں اپنی فوقیت جتانے کا کچھ موقع مل جاتا ہے۔ ادھر تو ڈرائیور اپنے کام میں لگا ہوا تھا، ادھر اس کے نو ٩ مسافروں نے ایک ٹھنڈی سایہ دار جگہ تلاش کی اور پڑ کر سو رہے۔ ڈرائیور نے انجن ٹھیک کر لیا اور جب ان نو جلادوں کو بے غل و غش سوتے دیکھا تو ایک ایک کر کے سب کے گلے کاٹ دیے۔ اس طرح سے فارغ ہو کر وہ اُرمچی اپنی لاری واپس لے آیا اور یہاں رپٹ درج کرائی کہ پہاڑوں میں قازق لٹیروں نے لاری کو روک لیا اور سارے مسافروں کو اپنی تلواروں سے مار ڈالا۔ مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں قازق ہوں اور جب اس کے مالکوں نے مقام واردات پر اس واقعہ کی تصدیق کرنے کے لیے کچھ اور آدمیوں کو بھیجا تو چیلوں، گدھوں اور گیدڑوں نے اس کام کی تکمیل کر دی تھی جس کا آغاز ڈرائیور نے کیا تھا۔ لہذا جو کچھ ڈرائیور نے کہا تھا اس کی تردید کسی طرح بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اور تو کسی کو یقین نہیں آیا، لیکن ڈرائیور کے مالکوں کو اس کے بیان کا یقین آ گیا۔
اس بھیانک شخص کا نام قالی تھا اور اس کے ہم قوم قازق بھی اس سے دُور رہتے تھے۔ بعض کہتے تھے کہ وہ جاسوس ہے کیونکہ شنگ کا کام کرتا ہے اور اُجرت پاتا ہے۔ اور بعض کا کہنا یہ ہے کہ:
“اگر وہ جاسوس تھا، محض اس وجہ سے کہ شنگ سے اُجرت لیتا تھا تو اس وقت کیا تھا جب ہم سے پیسے لے کر یہ بتاتا کہ شنگ کے ہاتھوں ہمارے پیاروں کا کیا حشر ہوا، اور اس وقت کس کے لیے جاسوسی کر رہا تھا جب اس نے کسی سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا اور شنگ کے جلادوں کے گلے کاٹ ڈالے۔ مقتولوں کی جیبوں میں سے ظاہر ہے کہ اس کے ہاتھ کچھ زیادہ رقم نہیں آئی ہو گی”۔
قالی کے کردار کا اندازہ کرنے کے لیے آگے چل کر ہمیں ایک مختصر سا موقع اور ملے گا جب وہ قازقوں کی کشمکش میں ایک بڑے نازک موقع پر اچانک کہیں سے اُبھر آتا ہے۔ یہ بات اور ہے کہ اس واقعہ کے مشاہدے کے بعد بھی ہم اس کے سمجھنے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکیں۔
جب حمزہ کا بھائی گرفتار کر لیا گیا تو حمزہ ارمچی کے مدرسہ میں پڑھ رہا تھا۔ اس نے قالی سے اپنے بھائی کے انجام کے متعلق دریافت نہیں کیا بلکہ جیسے ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ یونس حجی قتل کر دیا گیا، وہ خاموشی سے قزل ازون واپس چل دیا۔ حمزہ اس وقت انیس سال کا نوجوان تھا۔ اس لیے شنگ کی خفیہ پولیس بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ روسی پوگوڈِن کی طرف سے سخت خطرے میں تھا۔ اس کے بھائی کو شبہ میں گرفتار کر کے مار ڈالا گیا تھا تو حمزہ کو مُتہم کرنے میں اسے کیا دیر لگتی۔ خوش بختی سے حمزہ نے اپنےخیالات کا اظہار اپنے مکتب میں نہیں کیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی تو ایک واقعہ تھا کہ حمزہ ایک ایسے مکتب میں پڑھ رہا تھا جس پر اشتراکیوں کا قبضہ تھا اور اسی مدرسے کی سیاسی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ یہ باتیں بھی حمزہ کے حق میں تھیں۔ لہذا یونس حجی کا چھوٹا بھائی ہونے کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا گیا اور اسے اپنے گھر واپس جانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔
قزل ازون سیدھے جانے کے بدلے حمزہ مشورہ کرنے کے لیے پہلے اسمٰعیل حجی کے پاس گیا۔ اس نے پہلے دیکھ لیا، تینوں سڑکیں خالی پڑی ہیں۔ بڈھا اسمٰعیل اب بھی وہیں موجود تھا لیکن شنگ کے آدمیوں کے ہاتھوں اس نے جو تکلیفیں اٹھائی تھیں ان سے بالکل نڈھال ہو گیا تھا۔ اس نے حمزہ کو مشورہ دیا کہ مناس سے دُور رہے کیونکہ وہاں بھی اُرمچی کی طرح ہر گلی کے نکڑ پر سفید بکس رکھے ہوئے تھے۔ جب رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا تو حمزہ اس کے گھر سے نکل کر قزل ازون کے کنارے اپنے خیمے میں پہنچ گیا۔ یہاں اس کے دوستوں نے فوراً دن اور رات کا پہرہ لگا دیا تاکہ مناس سے آنے والے راستے کی نگرانی رکھیں اور اگر کسی انجانے آدمی کو آتا دیکھیں تو اسی وقت اس کی خبر کریں لیکن کوئی نہیں آیا۔
کچھ عرصہ بعد علی بیگ اچانگ مناس واپس آ گیا۔ حمزہ نے ایک قاصد بھیج کر اس سے پوچھا کہ کیا بغیر کسی خطرے میں مبتلا ہوئے ہماری ملاقات ہو سکتی ہے؟ وہ دوست جو پیغام لے کر گیا تھا، جب واپس آیا تو کچھ مذبذب تھا، اس نے حمزہ سے کہا:
“وہ مناس میں مِنگ باشی یعنی ایک ہزاری سردار بن کر آیا ہے اور قصائی شنگ کا تنخواہ دار ملازم ہے۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ کہیں خطائیوں نے اسے اپنے اصولوں پر نہ لگا لیا ہو۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ان کی تنخواہ پاتا ہے۔ مگر جب اصولوں کا تسلیم کرنا ایک طرف ہو اور شدید اذیتیں دوسری طرف ہوں تو پھر اصول مان لینے پر کسی کو دوش کیسے دیا جا سکتا ہے؟”
حمزہ نے حقارت سے کہا: یہ بازاری غپ ہے اور اس پر کسی سچے مسلمان کو یقین نہیں کرنا چإہیے۔ میں اس وقت ارمچی ہی میں تھا جب شنگ کے اذیت دینے والوں نے اسے ایک گھر میں نظر بند کر رکھا تھا اور نماز پڑھنے میں بھی وہ مداخلت اس لیے کرتے تھے کہ کہیں خدا سے ہم کلام ہونے کے پردے میں وہ کسی قریب ہی چھپے ہوئے ساتھی سے باتیں نہ کر رہا ہو۔
دوست نے مشتبہ اندزا میں پوچھا: “تو اس وقت کیا تم خود ایک خطائی مدرسے میں زیر تعلیم نہیں تھے، ہو سکتا ہے کہ انھوں نے خطائی زبان کے ساتھ ساتھ خطائی اصول بھی تمھیں سکھائے ہوں۔۔۔”
حمزہ نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا: “اور یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے میرے بھائی یونس حجی کو خرید لیا ہو اور شاید اسی قصور میں اُسے گرفتار کیا ہو”۔
دوست نے کہا: “نہیں۔ تمھارے بھائی پر کوئی بھی شبہ نہیں کر سکتا۔ رہے تم تو کیا تم اس کے بھائی نہیں ہو۔ لیکن یہ علی بیگ ہے۔ کیا اس کا باپ رحیم بیگ ہمارے لوگوں اور خطائیوں میں بیچ کا بچولی نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا اس کے بیٹے نے اس کی جگہ نہیں سنبھال لی۔ کیا وہ اب اس قصائی شنگ کا ملازم نہیں ہے جس نے تمھارے بھائی کو گرفتار کیا اور ایسا غائب کیا کہ آج تک اس کا پتہ نہیں چلا؟”
حمزہ بولا: “تم نے میرے بھائی کے بارے میں جو کچھ کہا بالکل ٹھیک کہا، لیکن علی بیگ کو گرفتار کر کے اُرمچی لے جانے سے پہلے جب ہم لال ڈاڑھی والوں سے لڑ رہے تھے تو کیا اس زمانے میں یہی علی بیگ، اس کا نائب تمن باشی دہ ہزاری سردار نہیں تھا۔ کیا سارے علاقے میں علی بیگ ایک سچا محب وطن مشہور نہیں ہے جس پر شنگ نے دس لاکھ کا جرمانہ کیا تھا اور یہ رقم لوگوں نے خود ہی بخوشی ادا کر دی تھی کیونکہ علی بیگ اس کی ادائیگی کے قابل ہی نہیں تھا۔ لہذا تم سے نہیں بلکہ خود اس کے منہ سے میں یہ سنوں گا کہ وہ قصائی شنگ کا سفیر بن کر مناس کیوں آیا ہے”۔
حمزہ نے دوبارہ کسی کو مناس بھیجنا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں نئے منگ باشی نے خود ہی پیغام بھیجا کہ آ کر ملاقات کرے۔ اس دعوت نامے کی مزید تفصیلات قاصد کو معلوم نہیں تھیں، اس لیے حمزہ فوراً ملنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب حمزہ اور علی بیگ ملے تو گرم جوشی سے گلے ملے اور قازقوں کے روایتی اخلاق کے مطابق انھوں نے دائیں رخسار ملائے اور جدا ہو کر مصافحہ کیا اور “اللہ اکبر، اللہ اکبر” کہتے رہے۔ پھر داہنے ہاتھ سے اپنی اپنی پیشانی، لب اور سینے کو چھوا۔ مسلمانوں میں عام طور سے یہی رواج ہے۔ دونوں ابھی نوجوان ہی تھے۔ حمزہ اُنیس اور علی بیگ چونتیس سال کا تھا۔ اس ملاقات کے بعد سے ان دونوں کے مقدر ایسے ایک ہوئے کہ مرتے دم تک جُدا نہیں ہوئے۔
اس طرف سے اطمینان کر کے کہ کوئی کن سنیاں تو نہیں لے رہا، چھپا ہوا مائیکروفون اس زمانے تک دنیا کے اس دور دراز حصے میں نہیں پہنچا تھا، علی بیگ نے اپنے منصوبے بیان کیے۔ اس نے صاف صاف بتایا کہ مجھے ہوشیاری سے ایک ایک قدم اٹھانا ہوگا۔ اُرمچی میں جو اٹھارہ مہینے میں نے گھر کی قید میں کاٹے ہیں، مجھے دن بھر اور رات کو بھی اشتراکیت ہی کے سبق پڑھائے جاتے تھے۔ میرے معاملے میں فرق صرف اتنا تھا کہ مجھے کسی قسم کی جسمانی اذیت نہیں دی جاتی تھی۔ آمادہ کرنے کے لیے شنگ کو جارحانہ طریقہ پسند نہیں تھا۔ یہ وہی ڈھنگ تھا جو بعد میں کوریا میں گرفتار ہونے والے فوجیوں کے ساتھ برتا گیا، یعنی لکچر دیے جاتے، ان سے مضامین لکھوائے جاتے، اشتراکی پالیسی کے طول طویل فقرے زبانی یاد کرائے جاتے۔ اشتراکی نظریہ اور عمل پر سوالات کی مسلسل بوچھار کی جاتی۔ پچھلی فروگزاشتوں کے جبری “اعترافات” کرائے جاتے۔ اس طرح کی باتیں گھنٹوں، دنوں، ہفتوں اٹھارہ مہینے تک جاری رہیں۔ عام قازقوں کی طرح علی بیگ کا حافظہ نہایت عمدہ تھا اور اس کا چہرہ جذبات سے عاری بالکل سپاٹ رہتا تھا۔ علی بیگ نے اپنے سکھانے پڑھانے والوں کو بالآخر یقین دلا دیا کہ ان کی کل تعلیم اس میں رچ گئی ہے۔
اب وہ وقت آ پہنچا جب مشرقی ترکستان سے ہزاروں میل دور بہت کچھ تبدیلیاں دنیا میں ہو رہی تھیں۔ ان سے شنگ پریشان رہنے لگا تھا۔ اکتوبر ٤١ء کا زمانہ تھا اور یورپ میں سوویت فوجیں فتح مند جرمنوں کے آگے بھاگی چلی جا رہی تھیں، ہزاروں لاکھوں روسی حیران و پریشان ہو کر جرمنوں کی اطاعت قبول کرتے چلے جا رہے تھے۔ اور متوقع تھے کہ ہٹلر انھیں اشتراکی وحشت سے چھٹکارا دلائے گا۔ شنگ نے دیکھا کہ ہٹلر کی فوجیں روز بروز ایشیا کی طرف بڑھتی چلی آ رہی ہیں اور پورا سوویت نظام ڈھا جا رہا ہے۔
ان حالات کو دیکھ کر شنگ نے بھی رُخ بدلنے میں دیر نہیں لگائی۔ اب اس نے ایک نئی پالیسی اختیار کی۔ مقامی قوموں کے لیے بھی اور قومیت پسند چین کے لیے بھی۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ علی بیگ کو بلا بھیجا، وہ اس طلبی پر یہ سوچ کر روانہ ہوا کہ اب دوبارہ اپنے وطن زندہ واپس آنا نصیب نہ ہوگا، کیونکہ اسے یاد تھا کہ جب باعی ملا اور جی جن کو بڑے سرپرستانہ انداز میں شنگ نے بلایا تھا تو ان کا کیا حشر ہوا۔ ان کے بعد یونس حجی پر کیا گزری، یہ بھی اسے یاد تھا۔ لیکن بے اطلاع گدی میں گولی مار دیے جانے کی بجائے اس نے دیکھا کہ شنگ اسے منگ باشی کا عہدہ پیش کر رہا ہے جو مقامی گورنر کے برابر ہوتا ہے، اور وہ بھی صوبۂ مناس کے لیے جو اس کا جنم بھوم تھا۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آتا تھا۔ ادھر یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں یہ کوئی جال نہ ہو، پھر بھی اس نے ہمت کر کے پوچھ لیا کہ “میرے فرائض کیا ہوں گے؟” شنگ نے کہا: “تمھیں پوری آزادی ہوگی کہ جس طرح چاہو مقامی باشندوں کی شکایتیں رفع کرو اور حکومت سے انھیں بر سر پیکار نہ ہونے دو”۔ علی بیگ جانتا تھا کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ لیکن زندہ رہنا بہرحال گھر میں مقید رہنے اور اُرمچی میں اشتراکیت کو اپنے اندر سما لینے سے بہتر تھا۔ پھر اُسے اس کا موقع بھی مل رہا تھا کہ شنگ کی مخالفت کی تنظیم کرے، اس لیے اس نے اس پیشکش کو قبول کر لیا۔
قوم پرست چینیوں کی سربراہی سے شنگ مسلسل سات سال سے سرتابی کرتا چلا آ رہا تھا۔ ان سے مصالحت کرنے میں بھی شنگ اب کامیاب ہو گیا اور جب اس صوبہ کو دوبارہ چین میں شامل کر دینے پر شنگ نے خوشیاں منانے کا اعلان کیا تو مادام چیانگ کائی شیک خود بہ نفس نفیس اس میں شریک ہونے کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز اُرمچی پہنچیں۔ واقعہ یہ ہے کہ صوبہ سنکیانگ میں اس وقت اشتراکیت پوری طرح پسپا ہو رہی تھی۔ سوویت اثرات بھی دور ہوتے جا رہے تھے۔ مگر کچھ زیادہ دور بھی نہیں۔
شنگ کی اس بازآمد کو قبول کرنے میں مقامی آبادی کومنٹینگ سے پیچھے ہی رہی۔ ایک دن علی بیگ نے بعجلت تمام حمزہ کو بلا بھیجا۔ اس وقت علی بیگ مناس میں مقیم تھا۔ جب حمزہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے گلے ملنے اور روایتی آداب سے فارغ ہونے کے بعد احتیاط سے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیں۔ درست اور مناسب یہی تھا کہ حمزہ خاموش رہے اور پہلے اپنے سے بڑوں کو بولنے دے۔
علی بیگ نے حمزہ سے کہا: “شنگ کا بھائی مارا گیا۔ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی بیوی کا بھی”۔
حمزہ نے کہا: “یہ رضائے خداوندی ہے، جل جلالہ۔ مگر شنگ خود کیسے بچ گیا۔ اس کے مظالم تو اپنے بھائی اور بھاوج سے کہیں زیادہ ہیں”۔
علی بیگ بولا: “اس میں کیا شک ہے۔ شاید وہ اپنی حفاظت زیادہ کر رہا ہوگا”۔
حمزہ نے صمیم قلب سے کہا: “خدا کرے کہ اس کا روز جزا بھی جلد آ جائے۔ وہ تو لاکھوں انسانوں کا قاتل ہے۔ ایسوں پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام سدا جاری نہیں رہتے۔”
خود چینی اشتراکی لیڈر ماؤ زی تنگ کا بھائی اس وقت شنگ کی ماتحتی میں ایک افسر تھا اور ١٩٤٢ء میں اس کی موت بھی اسی طرح واقع ہوئی۔ شنگ اور ایک سال تک صوبہ دار رہا۔ اس کے بعد اسے چُنگ کِنگ واپس بلا لیا گیا تاکہ مرکزی حکومت میں وزیر زراعت بن جائے۔ نہ تو علی بیگ ہمیں بتا سکا نہ حمزہ کہ وہ کب تک اس عہدے پر مامور رہا۔ ان کا بیان یہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ “غائب” ہو گیا۔ یہ چونکہ شنگ کی کہانی نہیں ہے، اس لیے اس قصے کو ہم یہیں چھوڑتے ہیں۔
دو سال کے عرصے میں جب علی بیگ شنگ کے متعین کیے ہوئے مناس کے منگ باشی کی حیثیت سے کام کرتا رہا، وہ خفیہ طور پر قازق قومی تحریک کو فروغ دینے میں پوری طرح ساعی رہا اور قومیت سے قطع نظر ترکوں، منگولوں وغیرہ سے بھی دوستی کرتا رہا کیونکہ وہ بھی مخالفین میں سے تھے۔ اس وقت علی بیگ اور ان سب کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ سیاسی اتحادِ باہمی کے ذریعہ مشرقی ترکستان کو آزادی دلوائی جائے۔ اگر کچھ چینی ہم خیال مل جائیں تو انھیں بھی اس تحریک میں شامل کر لیا جائے۔ اس کے برعکس الطائی میں عثمان بطور ہتھیاروں سے تیزی کے ساتھ راہ آزادی اپنے لیے کھول رہا تھا۔ اُسے اس کی مطلق پروا نہیں تھی کہ جن چینیوں سے وہ لڑ رہا ہے، وہ اشتراکی ہیں یا قومیت پسند۔ بس ان کا چینی ہونا ہی کافی تھا۔ تاہم متوازی راہیں نہ ہونے کے باوجود بھی عثمان بطور اور علی بیگ عموماً حمزہ کے ذریعہ مسلسل ایک دوسرے سے مشورہ کرتے رہتے تھے۔
اور پس منظر میں ہٹلر کی تاخت کے باوجود روسیوں کو اتنا وقت اب بھی مل جاتا تھا کہ قازقوں، ترکوں اور منگولوں کو چینیوں کے خلاف اُبھارتے رہیں اور چینیوں کو مقامی باشندوں کے خلاف اُکساتے رہیں۔ لیکن دونوں سمتوں میں ان کے اثرات زائل ہوتے چلے جا رہے تھے اور جب اسٹالن گراڈ سے جنگ کا رخ پلٹا اور ایشیائی روسی حکومت سے جنگ کا چڑھا ہوا طوفان اُترنے لگا، اس کے بعد تک اشتراکی جوڑ توڑ ناکام ہی ہوتا رہا۔ ١٩٤٣ء میں ماسکو کے احکام پر سامراجی اثرات کو مٹانے کے لیے جو لیگ شنگ نے قائم کی تھی وہ ختم کر دی گئی اور تاریخ میں پہلی بار برطانوی اور امریکی قونصل خانے چینی حکومت کی درخواست پر اُرمچی میں گھل گئے۔
بہت سے قازقوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ روسی اقتدار کے زوال پر انھیں کیا کرنا چاہیے۔ چینیوں کے خلاف اپنی قومی تحریک کو جاری رکھنے کے لیے وہ سالہا سال سے روسی امداد پر تکیہ کیے ہوئے تھے اور مخالفین میں وہ چینی اشتراکی بھی شامل تھے جنھیں شنگ نے ان پر مسلط کر رکھا تھا۔ انھیں روسی ایجنٹوں نے بڑی احتیاط سے سکھایا تھا کہ روسیوں کو اپنا دوست سمجھیں۔ سوویت یونین ہی سے چینی تاجروں کے ذریعہ انھیں جانوروں، اون، اور کھالوں کے بدلے ایسی چیزیں ملتی تھیں جیسے چائے، شکر، تمباکو وغیرہ۔ مقامی قوموں کی طرح قازق بھی روسی لاری چلانے والوں اور سڑکیں بنانے والے انجینیروں سے دوستانہ تعلق رکھتے تھے اور سرخ ڈاڑھی والے چینیوں کے مقابلے میں ان روسی فوجی دستوں کو ترجیح دیتے تھے جو بہت سے شہروں میں چھاؤنیاں بنائے پڑے تھے۔ جب یہ روسی فوجی دستے ١٩٤٣ء میں شہر چھوڑ کر جانے لگے تو اکثر لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ اب پھر لال ڈاڑھی والوں کا بھیانک راج شروع ہو جائے گا۔ تین سال اور گزر گئے، تب ان کی سمجھ میں آیا کہ روسی محض ان پر اشتراکیت کا جُوا رکھنے کے لیے آئے تھے اور اشتراکیت اور سُرخ ریشیت دراصل ایک ہی چیز ہے۔
چنانچہ ١٩٤٣ء میں چُنگ کنگ سے شنگ کی جگہ پر ویو چُنگ ہن آیا تو باوجود بہتر سلوک اور اصلاح کے وافر وعدوں کے اکثر قازقوں نے سرد مہری سے اس کا استقبال کیا۔ شنگ کا خطاب "توپان” یا فوجی گورنر تھا۔ ویو چُنگ ہن صرف صوبائی صدر کہلاتا تھا۔ اس نے انگریزی تعلیم حاصل کی تھی اور اسی وجہ سے اُسے اکثر چوسر ویو کہا جاتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ میں قازقوں، ترکوں، منگولوں، ازبکوں کو مقامی آزادی دینے آیا ہوں۔ وہ اپنے اپنے افسروں کا انتخاب کر لیں۔ حمزہ بھی ان لوگوں میں شریک تھا جنھوں نے اس اعلان کو قابل غور قرار دیا۔ وہ اس سے کچھ ہی پہلے اشتراکیت کے خلاف ایک سخت کتابچہ شائع کر چکا تھا۔ بڑی امیدوں اور جوش و خروش کے ساتھ اس نے فوراً عہدہ کی پیش کش قبول کر لی۔ چونکہ وہ ان کمیاب قازقوں میں سے تھا، جو چینی زبان روانی کے ساتھ بول بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔ وہ قازقوں اور چینیوں دونوں کے لیے ناگزیر تھا یا اسے ناگزیر ہونا چاہیے تھا۔
مشرقی ترکستان کے باشندوں پر چینی اشتراکیوں نے خصوصاً لال ڈاڑھی والوں نے جو مظالم کیے تھے، ان پر حمزہ کے دل میں غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ حمزہ نے انھیں نہایت شدت کے ساتھ بُرا بھلا کہا تھا۔ انھوں نے مہمان نوازی کے اَن لکھے قدیم دستور کو اس طرح غارت کیا تھا کہ ابھی جن مہمانوں کو کھلایا پلایا، انھی کو قتل کر ڈالا اور جن میزبانوں کے ہاں خود مہمان ہوئے انھیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ حمزہ نے انھیں ملزم ٹھہرایا تھا کہ وہ ٹیکس وصول کرنے کے بہانے لوٹ رہے تھے۔ مسافروں کو ذرا ذرا سے فائدے کے لیے لوٹ لیتے اور قتل کر دیتے۔ روپیہ وصول کرنے یا معلومات حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو ناقابل بیان اذیتیں دیتے، بے گناہوں کے خلاف غلط الزامات قبول کرتے اور جھوٹے گواہ بناتے۔ حمزہ نے آخر میں اپنے ہم وطنوں سے زور دے کر کہا تھا کہ دنیا کے پردے پر سے چینی اشتراکیوں کا نام و نشان تک مٹا دیں۔
حمزہ کا کتابچہ دراصل مروجہ اشتراکیت کے خلاف ایک پُر زور دعوتِ عمل تھی۔ اسے نظریۂ اشتراکیت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس نے اس کے نتائج سے لگایا تھا اور اس نے اب بھی اس بات کو نہیں سمجھا تھا کہ صوبہ دار شنگ کی نو سال کی دہشت ناک حکومت کے باوجود اشتراکیت کے ثمر پختہ ہونے سے ابھی بہت دُور تھے۔
کچھ قازق ایسے تھے جو حمزہ کے برعکس صدر ویو کے پیچھے اس امید پر ہو لیے کہ مشرقی ترکستان کی آزادی درجہ بدرجہ امن کے ساتھ حاصل کریں۔ نتیجے کے طور پر ہماری کہانی میں نئے نئے نام آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے چونکہ بیشتر نام ایسے ہیں جنھیں وسطی ایشیا کے باہر کوئی نہیں جانتا، اس لیے ہم صرف ان ناموں کو لیں گے جو ہمارے لیے ناگزیر ہیں۔ پھر بھی یہ نئے آنے والے اتنے غیر اہم نہیں ہیں، کیونکہ ان کے ہاتھوں میں ایک ایسے ملک کی قسمت تھی جو برطانیہ عظمیٰ، فرانس اور جرمنی سب کے یکجائی رقبے کے برابر ہے۔ اگرچہ اس کے باشندوں کی تعداد صرف اسی لاکھ ہے، لیکن شاید یہ بتائی ہوئی تعداد غلط ہے۔ مشرقی ترکستان کی قسمت کا فیصلہ بالآخر ماسکو اور نان کنگ میں ہوا، لیکن اس فیصلے میں بڑی حد تک مشرقی ترکستان کے باشندوں کا بھی ہاتھ تھا۔
ادھر تو سیاست داں خصوصاً چینی، اُرمچی میں گفت و شنید کر رہے تھے، اُدھر عثمان کی لڑائیاں جاری تھیں۔ لال ڈاڑھی والوں سے اپنے آدمیوں کو بچائے رہنے کے باعث اسے لوگوں نے “بطور” کا خطاب دیا تھا اور اب اس خطاب کو عام طور سے سب نے تسلیم کر لیا تھا۔ یہ محض اسی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ الطائی چینیوں سے پاک ہو چکا تھا اور ٢٢ جون ١٩٤٣ء کو الطائی کے باشندوں نے جن میں منگول بھی شامل تھے اور قازق بھی، عثمان کو اپنا خاں یا شہزادہ بنا لیا تھا۔ اس طرح اسے چنگیز خان اعظم کا جائز جانشین قرار دیا تھا۔ یوں بوکو بطور کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہو گئی کہ اللہ نے اسے اپنی قوم کو آزادی دلانے کے لیے منتخب فرمایا ہے۔
عثمان بطور کو خاں کا خطاب بل غُن میں ایک خاص جلسے میں دیا گیا۔ الطائی کو سوویت روس، منگولیا اور اُرمچی سے جو تین سڑکیں آتی ہیں، ان تینوں کے یکجا ہونے والے مقام پر بل غُن واقع ہے۔ اس میں سے ہو کر ایک دریا بہتا ہے جو قریب کی ایک جھیل میں گرتا ہے۔ اس جھیل کے کناروں پر خانہ بدوشوں کے مویشیوں کے لیے نہایت عمدہ چراگاہیں ہیں۔ یہ مقام یقیناً اس لیے انتخاب کیا گیا تھا کہ جلسے میں شرکت کےلیے مندوبین نہ صرف مشرقی ترکستان سے آئے تھے بلکہ سوویت روس اور منگولیا سے بھی۔
منگولی مندوب مارشل چوئی بلسان تھا جو بیرونی منگولیا کی اشتراکی جمہوریت کا صدر تھا۔ سوویت روس کے دو نمائندے قازقستان کے دو قازق سردار تھے۔ ان تینوں کے ساتھ شاندار محافظ دستے تھے جن سے سوویت حکومت کی قوت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ اور عثمان بطور کو مرعوب کرنا مقصور تھا۔
چوئی بلسان کا بیان ہم سے یوں کیا گیا کہ وہ ایک گول چہرے کا آدمی تھا بلکہ گول مٹول آدمی تھا۔ میانہ قد، ڈاڑھی مونچھ صاف، اس موقع پر اس نے مارشل کی فوجی وردی نہیں پہن رکھی تھی بلکہ ایک لمبا نارنجی رنگ کا چُغہ جو گردن سے ٹخنوں تک چلا گیا تھا۔ کمر میں ایک پٹکا بندھا ہوا تھا۔ منگولی سرداروں کے رواج کے مطابق اس نے اپنے سر پر اونچی باڑ کی ہومبرگ ٹوپی پہن رکھی تھی جو انگلستان کی بنی ہوئی تھی اور وسطی ایشیا میں کلکتہ سے آئی تھی۔ ہندوستانی سوداگر یہ ٹوپیاں اونٹوں پر لاد کر نیپال میں سے ہو کر لاسہ لے جاتے اور وہاں سے تبت اور سنکیانگ کی سرحد پر۔ یہاں مقامی سوداگر انھیں خرید لیتے۔ اس قسم کا لین دین پہلے خُتن اور دوسرے مشرقی ترکستان کے شہروں میں ہوتا تھا۔ لیکن ١٩٣٩ء میں اشتراکیوں نے اس سرحد کو بند کر دیا۔ وہ سوداگر جو ہندوستانیوں سے یہ ٹوپیاں خریدتے انھیں پھر اونٹوں پر لاد کر منگولیا لے جاتے۔
قازق نمائندوں کے نام قصین اور سلطان تھے۔ ان کے لباس عثمان بطور کے لباس سے ملتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ارغوانی بھورے رنگ کی جو مخملیں تُمک اُن کے سروں پر تھیں، ان میں پروں کے طرّے لگے ہوئے نہیں تھے۔ کیونکہ تعیمان قبیلے سے ان کا تعلق تھا اور ان کے ہاں اس کا رواج نہیں تھا۔ تُمک کے چوڑے گِردے پر لومڑی کی ملائم کھال کی گوٹ لگی ہوئی تھی۔ کانوں کو ڈھانکنے والے پاکھے ان تینوں مندوبوں نے نیچے اتار کر ٹھوڑیوں کے نیچے باندھ رکھے تھے۔ ان کے پھولدار ریشم کے چغے بھی ایک جیسے تھے۔ ان کے استر سمور کے تھے اور ان پر نفیس سوزن کاری کی ہوئی تھی۔ تینوں قازقوں کی ڈاب میں لمبی کٹاریں تھیں۔ یہ بڑے قیمتی ہتھیار تھے جو نسلاً بعد نسل ان تک پہنچے تھے، ان کا فولاد بہت عمدہ تھا اور ان پر سونے چاندی کا کام کیا ہوا تھا۔ ان کی وضع دمشق کی تلواروں جیسی تھی، مگر یہ تلواریں ان قازق آہنگروں کی کاریگری ہی کے بے مثل نمونے تھے جو پڑاؤ پڑاؤ پھر کر اپنے بھدے اوزاروں ہی سے اتنا نفیس کام کر جاتے تھے۔ قازق سردار گھٹنوں تک اونچے چمڑے کے جوتے پہنے ہوئے تھے اور ان کے اوپر ڈھیلے ڈھالے کفش پوش تھے۔ ان کی وجہ سے ان کے چلنے میں عجب بھدا پن ان کی چال میں آجاتا تھا۔ لیکن جب وہ گھوڑوں پر سوار پچاس ساٹھ محافظوں کو جلو میں لیے، جو اپنے سرداروں سے ملتے جلتے شاندار لباس پہنے اور ہتھیاروں سے لیس تھے، دندناتے ہوئے آئے تو دور دور تک کہیں بھی بھدا پن نہیں تھا۔
چاروں سرداروں کے مابین جو رسمی ادب آداب برتے گئے اور پھر ان کے خدم و حشم میں جو تکلفات بروئے کار آئے ان کی تفصیل بخوف طوالت نظر انداز کی جاتی ہے۔ ان میں مزید پیچیدگی اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ چوئی بلسان مسلمان نہیں تھا وہ بدھ مذہب کا پیرو تھا، اس لیے تینوں قازق سردار اس کا خیر مقدم اس انداز سے نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ آپس میں ایک دوسرے کا کہ السلام علیکم کہا اور جواب ملا وعلیکم السلام۔ اس کے بعد جو سولہ روایتی آداب تھے وہ صرف قازقوں ہی سے مخصوص تھے۔ لہذا انھیں چوئی بلسان سے خوش اخلاقی اور شائستگی سے کچھ ایسی باتیں کہنی پڑیں مثلاً "خوش آمدید۔ بخیر آمدید۔ مزاج شریف؟” جب وہ ان رسمیات سے فارغ ہو لیے تو عثمان بطور نے چوئی بلسان سے اس وسیع خیمے میں داخل ہونے کو کہا جس میں کانفرنس ہونے والی تھی اور اس کے بعد دعوت۔
اس نے نہایت شائستگی سے کہا: “ہمارے مہمان خصوصی کو پہلے اندر تشریف لے جانا چاہیے۔”
چوئی بلسان نے اصرار کیا: “نہیں نہیں، یہ دونوں حضرات مجھ سے زیادہ لائق تعظیم ہیں۔ میں سبقت نہیں کر سکتا۔”
قصین جو دونوں قازق مہمانوں میں معمر تھا، بولا: “جی نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں پہلے داخل ہوں۔” اس کے ساتھی سلطان نے بھی فوراً یہی الفاظ دہرائے۔
کچھ دیر یہی تکلف جاری رہا۔ آخر چوئی بلسان نے دونوں قازقوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مسکراتے ہوئے خیمے کے اندر قدم رکھا۔ خیمے کا دروازہ کافی چوڑا تھا، ورنہ ان تینوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گزرنے میں اِدھر اُدھر چھو جانے کا اندیشہ تھا اور یہ ایک بُرا شگون ہوتا۔ شاید چھو بھی گیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
جب چاروں سردار اندر صلاح و مشورے کر رہے تھے تو باہر مسلّح آدمی پہرہ دے رہے تھے۔ لیکن بات چیت شروع ہونے سے پہلے عثمان بطور کے ملازموں نے روایتی چائے اور نمکین نان سے تواضع کی۔ یہ چائے ایک عجیب و غریب آمیزہ تھی چائے، دودھ، نمک اور مکھن کا۔ سب نے ایک ایک شکر کی ڈلی کلّے میں رکھی اور چسکیاں لینی شروع کیں اور چائے میٹھی ہو کر گلے میں اُترتی رہی۔ اس سے فارغ ہو کر سب نے چوڑے مُنہ والے روسی سگریٹوں کو جلانے سے پہلے ان کے سروں کو مروڑی دے دی تاکہ خشک تمباکو باہر نہ نکلنے پائے۔
بل غُن میں عثمان بطور کے نمدے دار خیمے میں کیا کیا باتیں طے ہوئیں، اس کے متعلق کوئی سرکاری اطلاع نامہ جاری نہیں کیا گیا، بلکہ دراصل یہ پہلا موقع ہے کہ ہم وہاں کی کارروائی شائع کر رہے ہیں۔ چوئی بلسان نے جو عقیدت کے لحاظ سے نہیں بلکہ پیشے کے اعتبار سے اشتراکی تھا، سب سے پہلے اپنے میزبان کو گرم جوشی سے مبارکباد دی کہ اس نے الطائی قازقوں اور منگولوں کو چینیوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس نے بڑی عمدگی سے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ جن چینیوں کو عثمان بطور نے نکال باہر کیا وہ اشتراکی صوبہ دار شنگ کے ملازم تھے اور شنگ خود سوویت حکومت کا پٹھو تھا۔ چوئی بلسان نے اس کے بعد تجویز پیش کی کہ عثمان کو اس آزادی پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے جو اس نے حاصل کی ہے۔ بلکہ اُسے یوں پکّا کر لینا چاہیے کہ خود مختار جمہوریت الطائی قائم کر کے اس کا پہلا صدر خود بن جانا چاہیے۔ اس نے بڑی احتیاط سے اس بات کا بھی اشارہ کیا کہ شاید سوویت حکومت اس پر بھی رضامند ہو جائے کہ اس نئی ریاست میں سائبیریا کا صوبہ الطائی بھی شریک کر لیا جائے۔ یوں روسی حکومت عثمان کو تمام سامان حرب بھی دے گی تاکہ چینی قوم پرستوں کی تاخت سے یہ نئی جمہوریت محفوظ ہو جائے۔ اس منگول نے دبی زبان سے یہ بھی کہا کہ جب الطائی خود مختار ریاست بن جائے گا تو اس کے وسیع ذرائع صرف الطائی باشندوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے جن میں قازقوں اور منگولوں کی اکثریت ہے۔ اس نے یہ بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ چونکہ یہ نئی جمہوریت چاروں طرف سے گھری ہوئی ہوگی، اس لیے اس کی ساری تجارت سوویت حکومت کے رحم و کرم پر موقوف ہوگی۔ کیونکہ قدرتی طور پر چین الطائی کے حق خود مختاری کو ہرگز تسلیم نہیں کرے گا اور اپنی پوری کوشش کرے گا کہ کسی طرح بیرونی دنیا سے اس کی تجارت کا گلا گھونٹ دے۔
عثمان بطور نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ کارروائی کی اس نوبت پر اس نے کوئی حتمی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن یہ بات صاف ظاہر تھی کہ جو تجویز چوئی بلسان نے پیش کی تھی اس میں عثمان بطور کشش محسوس کر رہا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ اس نے چینیوں کو نکال باہر کیا تھا۔ یہ محسوس کر کے اُسے خوشی ہوتی ہوگی کہ چنگیز خاں کا وطن اب اس کا اپنا تھا۔ اس کے ساتھ جو جی چاہے سو کرے۔ خطاب چاہے صدر ہو، خاں ہو یا شہنشاہ، اس سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا۔ کیا چنگیز خاں نے آدھی جانی پہچانی دنیا کو الطائی ممالک بن جانے کے بعد فتح نہیں کیا تھا۔ پہلے کی طرح اب بھی وہی الطائی تھا جو ایک محور تھا، جس کے گرد دنیا گھوم رہی تھی۔ سپاٹ یا لٹّو کی طرح گول، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
اگر چنگیز خاں ایسے کارنامے کر گیا تو عثمان کیوں نہیں کر سکتا؟ پھر کیا بوکو بطور نے اس کی پیشین گوئی نہیں کی تھی۔ اپنی زندگی کے اس بلند مقام پر عثمان بطور بادشاہوں جیسے چہرے مہرے کا انسان دکھائی دیتا تھا۔ تمرّد اور آسودہ حالی کے آثار اس کے چہرے پر البتہ نہیں تھے۔ قد چھ فٹ سے نکلتا ہوا۔اسی نسبت سے پھیلاؤ بھی تھا۔ کوتاہ گردن، گھٹا ہوا رنگ، نیم وا آنکھوں کے درمیان گہری شکنیں، اس کا کردار اس کے چہرے سے عیاں، عزم و عمل کا پتلا، کسی کی باتوں میں نہ آنے والا، مشتبہ، خود سر، بے رحم اور نڈر، ایسا شخص جس پر دوست اور دشمن دونوں اعتماد کر سکیں۔ ایسا انسان جو کسی خاص کام کو انجام دینے آیا ہو۔ جس کا کوئی ذاتی عزم بلند نہ ہو سوائے اس کے کہ اپنی زندگی کے مقصد کو سخت کوشی سے پورا کرنے پر تُلا ہوا ہو۔
ایسا آدمی فطرتاً ہتھیاروں کی لڑائی لڑنے سے زیادہ الفاظ کی لڑائی لڑنے میں زیادہ محتاط ہوتا ہے۔ لہذا جب چوئی بلسان اس کے سامنے مستقبل کی ایک درخشاں مثال پیش کر چکا، جن میں اسٹالن کی دریا دلی پر اعتماد کرنا ضروری تھا تو عثمان بطور نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد چوئی بلسان نے ان ضروریاتِ زندگی کی بڑی بڑی مقداروں کا تذکرہ کیا جنھیں سرحد کے اس پار سوویت حکومت نے کھالوں، اون، مویشیوں اور الطائی کی معدنی دولت سے تبادلہ کرنے کے لیے روک رکھا ہے۔ یہ تبادلہ اس وقت شروع ہو جائے گا جب اس بات کا یقین ہو جائے کہ اس کا فائدہ صرف الطائی کے باشندوں کو پہنچے گا، چینی سامراجیوں کو نہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ چینیوں کے اثرات زائل ہو جانے کے بعد الطائی کے قازق اور منگول اپنے حالات کو خود ہی بے روک ٹوک سنوار سکیں گے۔ یہ دلیل بڑی چالاکی کی تھی، دونوں خانہ بدوش قوموں میں مویشی چرانے کے حقوق پر آئے دن جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔
عثمان شاید یہ جھلکا دیتا کہ قصین اور سلطان چونکہ سوویت قازقستان کے نمائندے ہیں، اس لیے جو ضروریات زندگی ان کے ملک میں تبادلے کے لیے موجود تھیں، ان پر گفتگو کرنے کے حقدار وہ دونوں ہیں مگر وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے اور جب چوئی بلسان نے سوویت روس کے بارے میں اپنی باتوں کی تائید ان سے چاہی تو انھوں نے رضامندی سے اپنے سر ہلا دیے۔ لیکن اس رات کو جب دعوت ختم ہوئی، قصین نے اپنے میزبان سے مہمانوں کے رخصت ہونے کے وقت چپکے سے کہا کہ جب چوئی بلسان یہاں سے چلا جائے گا تو میں تم سے اکیلے میں بات کروں گا۔
نہ معلوم اس کی مذہبی وجہ تھی یا کیا کہ جن خیموں میں منگول ٹھہرائے گئے تھے، وہ مسلمان مہمانوں کے خیمے سے نسبتاً زیادہ فاصلے پر تھے۔ اس لیے رات کی تاریکی میں قصین کا خفیہ طور پر عثمان کے ہاں جانا کوئی دشوار مرحلہ نہیں تھا۔ جب یہ دونوں ملے تو قصین کچھ گھبرایا ہوا تھا۔ چوئی بلسان کی طرح سوویت علاقے سے باہر نکل کر عثمان بطور سے سرکاری ملاقات کرنے سے پہلے اسے بھی سوویت حکومت نے کچھ ہدایات دی تھیں، مگر وہ قازق تھا اور صرف یہی نہیں، وہ ایک مشہور قازق سورما ابلائی خاں کا پوتا تھا جو ابتدائی انیسویں صدی میں روسیوں سے لڑا تھا اور شکست کھانے سے پہلے سالہا سال تک ان کی مزاحمت کرتا رہا تھا۔ چنانچہ قصین خفیہ طور پر طے کر چکا تھا کہ چوئی بلسان کی میٹھی میٹھی باتوں کی تہ میں جو کچھ ہے اس سے عثمان بطور کو آگاہ کر دے۔
ان دونوں نے بیٹھ کر چپکے چپکے باتیں شروع کیں تاکہ موٹے نمدے کی دیواروں میں سے ان کی آواز باہر نہ جا سکے۔ قصین نے قازقستان کے ساڑھے تین لاکھ قازقوں سے سوویت کے وعدوں سے پھر جانے کی شرمناک کہانی سُنائی۔ جب سُرخ سفیدوں سے لڑ رہے تھے تو انقلابِ روس کے شروع زمانے میں انھوں نے قازقوں جیسی چھوٹی قوموں کی پشت پناہی کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔ مگر جوں ہی زاری خطرے پر انھوں نے قابو پا لیا وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے اور سوویت مملکت میں جتنے قازق اور ایشیائی قومیں تھیں سب کو روسی بنانے لگے۔ اس کے بعد اس نے بتایا کہ جب ۱۹۲۳ء میں لینن نے نئی اقتصادی پالیسی شروع کی تو قازقوں کی امیدیں پھر اُبھر آئیں۔ کیونکہ اس کی رو سے نہ صرف چھوٹے کسانوں کا تحفظ ہوتا تھا بلکہ ان خانہ بدوشوں کا بھی جو جانور پالنے میں لگے رہتے تھے۔ ایک بار پھر، صرف پانچ سال بعد ہی خانہ بدوشوں کو معلوم ہوا کہ روسیوں نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ باوجود سابقہ وعدوں کے وہ ان کے جانور چھین لے گئے اور لوگوں کو مجبور کیا کہ اجتماعی فارموں اور زمین دوز کانوں میں زبردستی کام کریں۔ آزاد انسانوں کی طرح تازہ کھلی ہوا میں گھومتے نہ پھریں۔ یہی وہ وقت بھی تھا، جب سوویت حکومت نے مسلمانوں کو ان کے مذہبی حق سے محروم کرنا شروع کیا۔ وہ اپنے مذہب کو نہ تو سیکھیں اور نہ سکھائیں اور ان کے بچے خدا کو بھول کر خود اپنے والدین کی شکایتیں کریں کہ یہ اپنے باپ دادا کی طرح اب بھی نمازیں پڑھے جاتے ہیں۔ انھوں نے اس کی بھی کوشش کی کہ قازق اپنی زبان بولنی چھوڑ دیں اور اس قدیم طرز زندگی کو ترک کر دیں جسے انھوں نے اپنے پرکھوں سے پایا ہے۔ ان پرکھوں سے جن میں چنگیز خاں بھی شامل ہے۔
قصین نے عثمان کو آخر میں یہ بھی بتایا کہ سوویت حکومت میں جو قازق ہیں، انھوں نے تو کبھی ان ضروری اشیا کو دیکھا نہیں جن کے بارے میں چوئی بلسان نے کہا ہے کہ بڑی مقدار میں الطائی آنے کے لیے رُکی ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ قازقستان کے قازق امیر ہونا کیسا پہلے سے بہت غریب ہو گئے تھے۔ کیونکہ سوویت حکومت نے ان سے ان کے جانور چھین لیے تھے، ان کی روزی چھین لی تھی اور انھیں قلاق یعنی امیر کسان کہنا شروع کر دیا تھا، حالانکہ انھیں کسان بننے کی کوئی خواہش نہیں تھی بلکہ وہ اپنے خانہ بدوشانہ طریقوں پر اپنے گلے اور ریوڑ چرانے والے گدڑیے ہی رہنا چاہتے تھے۔
عثمان بطور اب بھی حسب عادت زیادہ نہ بولا اور جب قصین اپنی باتیں ختم کر چکا تو کچھ دیر خاموشی رہی پھر عثمان نے کہا:
"میں نے ایک شریف خاندان کے نو عمر رُکن کی باتیں آج سُنی ہیں۔ لیکن اگر روسیوں کو اس کا علم ہو گیا کہ تم کس کی اولاد میں ہو تو تمھارے واپس جانے پر تمھارے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اگر تم یہاں رہنا چاہو تو اللہ کا دیا ہم دونوں کے لیے بہت ہے۔”
قصین نے جواب دیا کہ "مرنا جینا تو اللہ کے ہاتھ ہے۔ کیا میں اپنے آدمیوں کا اسی طرح ملازم نہیں ہوں جس طرح میں ان کا سردار ہوں۔ مجھے یہ حق کیسے پہنچتا ہے کہ خود تو محفوظ جگہ میں رہ جاؤں اور انھیں زمانۂ بد پر چھوڑ دوں؟ اللہ ان کو اجر دیتا ہے جن کے خیالات نیک ہوتے ہیں۔ اللہ تمھیں اجر نیک دے۔”
تھوڑی دیر بعد قصین چلنے کے لیے اٹھا اور عثمان نے اپنے ملاقاتی کو رخصت کیا۔ وہ خوش خوش اپنے خیمے کو سدھارا۔
اگلے دن چوئی بلسان نے عثمان بطور سے اصرار کیا کہ اس کی تجویزوں کو منظور کر لے، لیکن عثمان انھیں قبول کرنے پر رضا مند نہیں ہوا اور بات چیت بے نتیجہ ختم ہو گئی۔
مذاکرات کے ختم ہونے کے بعد کھیل تماشے ہوئے۔ دونوں قوموں کے پہلوانوں نے کشتی کے لیے ہاتھ ملائے۔ کشتی لڑنے والوں نے اوپر کے دھڑ کے کپڑے اتار دیے، کمر میں ایک ایک "بلباغ” یا پٹکا باندھا۔ ایک پہلوان دوسرے کے اس کمر پٹکے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کھینچتا یا دھکیلتا اور کوشش کرتا کہ اسے گرا دے۔ یا وہ آمنے سامنے کھڑے ہو کر اتنے جھکتے کہ کمر سے دھڑ کا نوے درجہ کا زاویہ بن جاتا اور ایک دوسرے کے کندھوں کو جکڑ لیتے۔ جیتنے والا وہ قرار دیا جاتا جو اپنے حریف سے بلباغ یا کندھے چھڑا لیتا۔ چت کرنے یا دونوں کھوے زمین سے لگانے کی کوئی شرط نہیں تھی۔ تماشائی ادھر اُدھر بھاگے پھرتے یا جوش میں اکھاڑے کے چکر کاٹے جاتے۔ چیخ چیخ کر اپنا مشورہ دیتے، خبردار کرتے، حوصلے بڑھاتے اور پہلوانوں کو بُرا بھلا تک کہتے۔ یہی تماشائی کشتی کی ہار جیت کا فیصلہ کرتے۔ لیکن کشتی لڑنے کی طرح کشتی دیکھنا بھی خاصہ محنت کا کام تھا۔ مگر کشتیوں کے فیصلے عموماً ٹھیک ہوتے تھے کیونکہ قاعدے سیدھے سادے تھے۔
بعض دفعہ کشتی گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑی جاتی لیکن اس کے قاعدے بھی وہی ہوتے۔ جو گرفت چھوڑنے پر پہلے مجبور ہو جاتا ہار جاتا۔ ایسے مقابلوں میں عمدہ گھوڑے کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ سوار کے ہاتھ زیادہ ضروری کام میں مصروف ہونے کے باعث لگام پر نہیں ہوتے۔ کیونکہ قازقوں کے گھوڑے اور منگولوں کے بھی، اپنے سوار کے اشاروں کو سمجھنے میں غیر معمولی درک رکھتے ہیں۔ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ سوار ایک طرف کو پھسلا جا رہا ہے تو وہ فوراً کسی طرح اسے سنبھال لیتے ہیں۔
گُھڑ دوڑ نے لوگوں میں کشتیوں سے بھی زیادہ جوش و خروش پیدا کیا۔ گُھڑ دوڑ میں کوئی تیس چالیس سوار شریک ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے گھوڑے کو بہت کم کھلایا تھا یا بالکل ہی بھوکا رکھا تھا۔ دوڑ کا آغاز ایک گھاس بھری وادی سے ہوا جس میں روڑے اور پتھر نہیں تھے۔ دوڑ کی راہ وادی کی چڑھائی پر سے تھی جو کہیں کہیں ایک دم سے اونچی ہو جاتی تھی۔ پورا فاصلہ کوئی پانچ میل کا تھا۔ تماشائی خود بھی گھوڑوں پر سوار مقام آغاز پر جمع تھے۔ دوڑ شروع ہوتے ہی مقابلہ کرنے والوں کے تعاقب میں یہ بھی سرپٹ روانہ ہو گئے اور ایسا بھی ہوا کہ بعض تماشائی مقابلہ کرنے والوں سے پہلے اختتام پر پہنچ گئے۔ انعام ایک چاندی کا "یمبو” یا کفش تھا، یہ ایک سکہ تھا جس کی مانگ دوشیزاؤں میں بہت تھی۔ اسے وہ ان شالوں میں ٹانک لیتی تھیں جنھیں شادی ہو جانے کے بعد وہ سر اور کندھوں پر ڈال لیا کرتیں۔
بہادری کے کھیلوں میں ایک ہلکا کھیل انھوں نے یہ رکھا کہ ایک لڑکی اور ایک لڑکے کو چھانٹ کر ایک ایک گھوڑے پر بٹھا دیا۔ لڑکی کے ہاتھ میں ایک ہنٹر دے دیا اور لڑکے کو اس سے چند گز آگے رکھا۔ عثمان کے آواز دیتے ہی لڑکا سرپٹ روانہ ہو گیا اور لڑکی اس کے پیچھے۔ ایسے مقابلوں میں لڑکی کا گھوڑا لڑکے کے گھوڑے سے ذرا تیز ہوتا ہے، لہذا لڑکی کے چابک سے وہی لڑکا بچ سکتا ہے جو اعلیٰ درجہ کی شہسواری جانتا ہو اور چالاکیاں کر سکتا ہو۔ وہ بار بار اپنے گھوڑے کو ایک دم سے پھیر دیتا ہے۔ لڑکی کو باور کراتا ہے کہ میں اس سمت میں جا رہا ہوں اور پھر یکایک دوسری سمت میں اُڑا چلا جاتا ہے۔ یا ایک دم سے اپنے گھوڑے کو روک لیتا ہے اور زین پر سے پھسل کر گھوڑے کے پیٹ کے نیچے آ جاتا ہے۔ اس توقع پر کہ جب وہ برابر سے گھوڑا اڑا کر لے جائے گی تو اس کا چابک مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا۔
ان مقابلوں میں انعامات نہیں دیے جاتے۔ لڑکی جانتی ہے کہ اگر میں نے اپنے چابک میں لڑکے کے کندھوں کو لپیٹ لیا تو مجھے ایسی کامیابی حاصل ہو جائے گی جو شاذ ہی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔ اور لڑکا جانتا ہے کہ اگر میں اس کی زد سے نہ بچ سکا تو تماشائی مجھ پر آوازے کسیں گے اور میرے ساتھی اس کا طعنہ مجھے مرتے دم تک دیتے رہیں گے۔ ورنہ مجھے ہمت اور شجاعت کا کوئی ایسا غیر معمولی کارنامہ کرنا پڑے گا، جس سے یہ کلنک کا ٹیکہ دور ہو سکے۔
ایک اور دلچسپ چیز رقص تھا۔ اس کی کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ چاہے مسلمان ہو چاہے غیر مسلم، جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے نزدیک عورت کا سب کے سامنے ناچنا بڑی بد اخلاقی میں داخل تھا۔ روایتی قازق رقص صرف مردوں ہی کا حصہ ہے۔ عموماً وہ کوئی کہانی سُناتے ہیں، مثلاً کسی جانور کی پیدائش اور اس کی نشو و نما کی کہانی۔ لیکن اس موقع کے لیے انھوں نے خاص طور پر ہرن کا ناچ تیار کیا تھا۔ جس رقاص کو یہ ناچ پیش کرنا تھا، اُسے سارے وقت سر کے بل ناچنا تھا اور اپنا سارا جھونک ہاتھوں ہی سے سنبھالنا تھا۔ موسیقی کی لے پر وہ اپنے جسم کو جھکاتا اور توڑتا موڑتا ہے اور لے کے ساتھ ساتھ اپنی گردن کے پٹھوں کو اور کندھوں کو سکیڑ کر زمین سے سر کو اونچا کرتا ہے۔ ترکی میں دیویلی کے مقام پر ایک قازق مہاجر نے ہرن کا ناچ ہمیں دکھایا تھا۔ کارا ملا نے ڈمبری پر اس کی سنگت کی تھی۔ یہ ناچنے والا ایک بڈھا تھا جس کی گردن کے پٹھوں کی طاقت زائل ہو چکی تھی، اس لیے اس بے چارے کا سر زمین سے بلند نہیں ہو سکا۔ لیکن شب دیز کا ناچ جو اس ناچ سے مشابہ ہے وہ بخوبی ناچ سکتا تھا۔ کھیل تماشوں کے بعد پھر دعوتیں ہوئیں اور اگلے دن چوئی بلسان، قصین اور سلطان وہاں سے رخصت ہوئے۔ قصین اور سلطان قازقستان میں اپنے گھر واپس پہنچے ہی تھے کہ بیریا کی خفیہ پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا۔ چند مہینے بعد قصین کو قتل کر دیا گیا۔ لیکن سلطان کو چھوڑ دیا گیا۔
ساتواں باب
آنکھیں کھل گئیں
سویت حکومت نے اس تہدید پر فوراً کوئی کارروائی نہیں کی، جو عثمان بطور نے ان کے سفیر کو کی تھی۔ جرمنوں میں سوویت حکومت اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ عثمان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے روسیوں نے صوبے کے دوسرے حصوں کی طرف توجہ کی اور چین کی صوبائی حکومت کے خلاف رکاوٹ پیدا کرنے کی خفیہ کوششیں پھر شروع کر دیں۔ اس میں انھیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ صدر ویو نے جو مقامی خود مختاری کے وعدے کیے تھے وہ اب تک پورے نہیں ہوئے تھے۔ لہذا مشرقی ترکستان میں پھر ویسی ہی شورش پھیل گئی جیسی قصائی شنگ کے زمانے میں پھیلی تھی۔
یہ دبی ہوئی آگ ۱۹۴۴ء میں ایک دم سے خلدزا علاقوں کے قازقوں میں بھڑک اٹھی۔ سوویت جمہوریہ قازقستان کے صدر مقام الما عطا اور ارمچی کی درمیانی سڑک پر جو سوویت سرحد ہے، اس سے خلدزا کوئی پچاس میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں قازقوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔ چین سے انھیں آزادی دلانے کے جو وعدے ان سے روسی ایجنٹ کرتے انھیں یہ قازق بڑے شوق سے سنتے۔ خلدزا ایک اچھے آباد رقبے کا مرکز تھا۔ جس کی آبادی کوئی ایک لاکھ ساٹھ ہزار کی تھی۔ خلدزا صوبے کو ایلی بھی کہتے ہیں اور کبھی اسے اننگ بھی کہتے ہیں۔ دستاویزوں میں کبھی ان میں سے کوئی نام درج ہے، کبھی کوئی۔ کانفرنسیں کرنے کے لیے یہ مقام نہایت مناسب ہے۔ اس پچاس سال میں جس سے ہمارے اس قصہ کا تعلق ہے، ایلی میں کم از کم چار معاہدے ضرور کیے گئے۔ زیادہ کیے گئے ہوں تو ان کا تذکرہ علی بیگ اور حمزہ نے ہم سے نہیں کیا۔ ایلی میں گفت و شنید عموماً چینی صوبائی حکومت اور روسی مرکزی حکومت کے درمیان ہوئی تھی۔ مثلاً جب صوبہ دارشنگ نے صوبے کا اختیار ۱۹۳۴ء میں روسیوں کے حوالے کیا۔ لیکن ایلی کا ایک معاہدہ ایسا تھا جس سے غیر متوقع نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ تھا۔ یہ معاہدہ چینی حاکموں نے مشرقی ترکستان کی مقامی قوموں سے کیا۔ کیونکہ ۱۹۴۴ء میں روسیوں نے جس بغاوت کو ہوا دی تھی وہ زور پکڑ گئی تھی۔
اس بغاوت کا سردار ایک شخص تھا علی ہن طور، جس نے روسیوں کی مدد سے کوئی پچیس ہزار آدمی جمع کر لیے تھے۔ ان میں سے بیشتر قازق تھے مگر خود علی ہن طور قازق نہیں تھا۔ ماسکو کی شہ پر خلدزا اور الطائی کے درمیان جو خلدزا اور تار باغتائی کے صوبے ہیں، ان کی آزادی کا اعلان اس نے کر دیا۔ اس کے بعد اس نے دور دور اپنے ایلچی بھیجے، عثمان بطور کے پاس، مناس میں علی بیگ کے پاس اور دوسرے قازق سرداروں کے پاس اور غزکل جیسے دور دراز مقام پر حسین تجی کے پاس۔ ان سب سے کہلوایا کہ تم بھی میری طرح اپنے اپنے علاقوں کی خود مختاری کا اعلان کر دو۔
چند ہی مہینوں میں تئین شان پہاڑوں کے شمال میں سارا مشرقی ترکستان چین کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور چینیوں کو اپنے فصیل دار شہروں کو بچائے رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ عثمان بطور نے اس عرصے میں الطائی کو خود مختار بنا لیا تھا لیکن خلدزا کی بغاوت سے اس کا امکان پیدا ہو گیا تھا کہ پورا مشرقی ترکستان آزادی حاصل کر لے گا اور یہ معاملہ یقیناً بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔
علی ہن طور کی تجویزوں کے پہنچ جانے کے بعد علی بیگ کچھ عرصے تک انتظار کرتا رہا لیکن ١٩ مئی ۱۹۴۵ء کو یورپ میں جنگ کے ختم ہونے کے دو ہفتے بعد ہی اس نے عثمان بطور کے مشورے سے علم بغاوت بلند کر دیا۔ حمزہ نے چینی حکومت میں اپنے عہدہ سے فوراً استعفیٰ دے دیا اور علی بیگ سے آ ملا۔ علی بیگ نے اسے بہ عجلت تمام خلدزا روانہ کر دیا تاکہ مستقبل کے منصوبوں پر علی ہن طور سے بات چیت کرلے۔ یہاں سے خلدزا کا فاصلہ اگرچہ تین سو میل سے کم ہی تھا مگر پھر بھی حمزہ کو وہاں پہنچنے میں تقریباً چار ہفتے گزر گئے۔ پورے درمیانی علاقے میں شورش برپا تھی اور جگہ جگہ جھڑپیں ہو رہی تھیں حالانکہ یہ بیشتر علاقہ بنجر تھا اور اس میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔ پہلی لمبی سڑک دلدلی علاقے میں سے ہو کر جاتی تھی۔ اس کے بعد کی رہ گزر پہاڑوں میں سے تھی۔ انھیں عبور کرنے کے بعد حمزہ ایلی دریا کے کنارے پہنچا جو خلدزا کے قریب سے بہتا ہوا سوویت قازقستان میں جھیل بل کش میں شامل ہو جاتا ہے۔
علی ہن طور سے حمزہ کی گفتگو ایک سیدھے سادے سے سوال پر ہی مرکوز رہی۔ وہ یہ کہ ہم چینیوں کو کیسے نکال باہر کریں۔ دونوں نے بغیر کسی بحث مباحثے کے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ چینی اشتراکیوں اور چینی قومیت پسندوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں تھا۔ مشرقی ترکستان کے باشندوں کے دونوں ہی دشمن تھے۔ اس لیے دونوں کو خارج کرنے کی ضرورت تھی۔
علی ہن طور جو عمر میں حمزہ سے کئی سال بڑا تھا، روسیوں کا مامور کیا ہوا تھا۔ اس لیے اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ چینیوں کو نکال باہر کرنے کی پالیسی کا علم روسیوں کو ضرور تھا اور انھوں نے اس پالیسی کو منظور کر رکھا تھا۔ یہ البتہ کہا جا سکتا ہے کہ روسی اس تحریک کے بانی مبانی نہیں تھے لیکن چینی اشتراکی شنگ کے مظالم نے قازقوں میں نفرت کا جو جذبہ پیدا کر دیا تھا اس کے محرک دو طرح روسی ہی تھے۔ اول یہ کہ شنگ اگرچہ بظاہر چین کی قومی حکومت کا نمائندہ تھا لیکن دراصل وہ ارمچی میں رہنے والے سوویت قونصل جنرل امیری سوف کی ہدایات پر چلتا تھا۔ دوئم یہ کہ ۱۹۳۴ء بلکہ اس سے بھی پہلے سے مقامی قوموں کو روسی برابر اکسا رہے تھے کہ چینیوں کو جڑ بنیاد سے کھود کر باہر پھینک دیں۔
یہاں یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ ادھر تو سوویت حکومت علی ہن طور اور قازقوں کو چینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے میں مدد دے رہی تھی اور ادھر چیانگ کائی شیک سے اگست ۱۹۴۵ء کا چینی روسی معاہدہ کر رہی تھی۔ مذاکرات کے دوران سوویت نمائندوں نے تسلیم کیا تھا کہ سنکیانگ کا صوبہ چین کا حصہ ہے۔
علی ہن طور سے مناس میں بات چیت کر کے حمزہ کے واپس آتے ہی اور چینی روسی معاہدے پر دستخط ہونے سے پانچ ہفتے پہلے ٣ جولائی ۱۹۴۵ء کو خلدزا میں چینیوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ چند ہی روز میں خلدزا، تار باغتائی اور مناس کے درمیانی تکون میں ایک بھی خطائی باقی نہیں رہا۔ چینی سپاہی، شہری، کسان، سرکاری افسر، تاجر، دستکار، مرد، عورت، بچہ ایکوں ایک چھانٹ کر قتل کر دیا گیا۔
مناس شہر پر چینی فوجوں کا قبضہ تھا اور علی بیگ اور حمزہ کی سرکردگی میں قازق دریا کے مغربی رخ پر تھے۔ شہر والے جو تقریباً سبھی مسلمان تھے شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ صرف چینی فوج کا ایک دستہ شہر کی حفاظت کر رہا تھا۔ قازق حملہ آور اپنے آپ میں اتنی قوت نہ پاتے تھے کہ مناس کے بڑے پل کو عبور کر کے شہر پر قبضہ کر لیں بلکہ الٹا انھیں یہ اندیشہ تھا کہ کہیں چینی اس پل کو پار کر کے ہم پر حملہ نہ کر دیں۔ اسی طرح چینی اپنی جگہ پر خائف تھے کہ کہیں قازق پل پار کرکے حملہ نہ کر دیں۔
اب ہوا یہ کہ قالی جو جلادوں کا قاتل تھا، اس وقت مناس میں موجود تھا۔ وہ اب بھی چینی پولیس ہی کا ملازم تھا حالانکہ روسی سربراہ پوگودِن جا چکا تھا اور سوویت کی تربیت دی ہوئی پاؤ اَن چو یعنی خفیہ پولیس اب یکسر قومیت پسند ہو چکی تھی۔ قالی کو حکم ملا تھا کہ اپنی لاری میں روسی پٹرول کے پیپے اٹا اٹ بھر کے مناس میں پڑے ہوئے چینی دستے کو پہنچا دے۔
جب قالی کو معلوم ہوا کہ چینی کمانڈر کو اندیشہ ہے کہ کہیں قازق پل پار کر کے حملہ نہ کر دیں تو قالی اس کے پاس گیا اور بولا: میں پل کو جلا ڈالنے کو تیار ہوں یعنی ان مضبوط پایوں کو نہیں جو پتھر کے بنے ہوئے ہیں بلکہ ان موٹے موٹے شہتیروں کو جن سے پل کی سڑک بنائی گئی ہے۔ لیکن آپ فوجی سپاہیوں کو حکم دے دیجیے کہ میں جب اس کام میں لگوں تو وہ گولی نہ چلائیں۔ کماندار اس بات سے بہت خوش ہوا کہ ایک قازق ہی نے یہ تجویز پیش کی۔
جب اس نے گولی نہ چلانے کا حکم اپنی فوج کو دے دیا تو قالی اپنی لاری پل پر سے گزار کر دوسری طرف قازقوں میں جا پہنچا۔ قازقوں نے جو دیکھا کہ قالی اکیلا چلا آ رہا ہے اور اس کی لاری میں پٹرول کے پیپے لدے ہوئے ہیں تو انھوں نے اس پر گولی نہیں چلائی اور اسے آنے دیا۔
پل پار کرتے ہی قالی نے لاری کا انجن بند کر دیا اور اپنی جگہ سے اتر کر اس نے پل کی نگرانی کرنے والے قازق کماندار سے ملنے کی درخواست کی۔ کماندار سے اس نے کہا: “اگر آپ کی مرضی ہو تو اللہ اور اس پٹرول کی مدد سے میں اس پل کو جلا ڈالوں گا تاکہ چینی اسے عبور کر کے ادھر نہ آنے پائیں۔ یوں قازق فوجیں محفوظ ہو جائیں گی اور ان کی نظروں میں میری وقعت بڑھ جائے گی، اس کے علاوہ چینی اس پٹرول سے بھی محروم ہو جائیں گے جو روسیوں نے ان کے لیے بھیجا ہے۔”
ہمیں اس قازق کماندار کا نام معلوم نہیں ہے۔ اس نے حکم دے دیا کہ پل جلا ڈالا جائے۔
چنانچہ قالی اپنی لاری پر پھر سوار ہو گیا اور لاری کو موڑ کر پل پر روانہ ہو گیا۔ ہر چند قدم کے بعد وہ ایک پیپا کھولتا اور اس کا پچاس گیلن پٹرول لکڑی کے شہتیروں پر انڈیل دیتا اور جب وہ چینیوں کی طرف پل کے سرے پر پہنچا تو صرف ایک بھرا ہوا پیپا بچا رہ گیا تھا۔ باقی سب خالی ہو چکے تھے۔ اس پیپے میں وہ چیتھڑے بھگو بھگو کر آگ سلگاتا اور پل پر پھینکتا رہا۔ باقی کام تیز ہوا نے کیا۔ دونوں حریف بھی خوش ہو گئے اور قالی بھی اپنے اس کارنامے پر پھولا نہ سمایا۔
اس کے بعد قالی کے متعلق ہم نے کچھ اور نہیں سنا سوائے اس کے کہ جب ۱۹۴۹ء میں اشتراکیوں نے دوبارہ ارمچی میں اقتدار حاصل کیا تو پھر وہ ان کے ملازموں میں شامل ہو گیا تھا۔
ستمبر ۱۹۴۵ء میں عثمان بطور نے خلدزا کی طرح الطائی کو چینیوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع کیا لیکن یہ کام کچھ زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا۔ کیونکہ لال ڈاڑھی سے جنگ کرنے کے زمانے میں وہاں کے رہنے والے چینیوں میں بہت سوں کا صفایا کیا جا چکا تھا۔ لیکن بعد میں کچھ نئے چینی آ کر بس گئے تھے جو سمجھتے تھے کہ اب اس علاقے میں کسی قسم کی شورش نہیں ہوگی۔ صوبہ دارشنگ کے کومنتانگ حکومت میں واپس چلے جانے اور پھر ۱۹۴۳ء میں چینی صدر مقام پہنچ جانے پر ہونان کے قحط زدہ علاقے سے اور ۱۹۳۸ء میں جاپانیوں کی تاخت سے بچ نکلنے والے تارکین وطن ایک سیلاب کی صورت میں امنڈ پڑے۔ صحرائے گوبی میں سے وہ اس نو ساختہ سوویت شاہراہ پر پیدل، اونٹوں پر، رکشاؤں اور گاڑیوں میں اس امید پر چلے آ رہے تھے کہ جس طرح امریکنوں نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں مغرب وسطیٰ کو آباد کیا تھا، انھیں بھی چین کے سب سے مغربی علاقے میں آباد ہو جانے کا موقع مل جائے گا۔ ارمچی کے چینی حکام نے مقامی آبادی سے استفسار کیے بغیر ان ہی کی زمینیں اور روپیہ ان تارکینِ وطن کو دینا شروع کر دیا۔ مقامی آبادی خود مختاری کا مطالبہ پہلے ہی کر رہی تھی۔ ظاہر ہے کہ جب ان نفرت انگیز خطائیوں کا سیلاب آنے لگا تو ان کا رد عمل کیا ہوا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ علی ہن طور کو بغاوت کر کے جو کامیابی حاصل ہوئی اس کی ایک بڑی وجہ ان تارکین وطن کا یوں در آنا بھی تھا۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب تھے جو نتیجہ تھے گذشتہ دس سالہ بدنظمیوں کا۔ مثلاً شکایتیں کرنے کے لیے شنگ کے سفید بکس، سوویت شاہراہ بنانے کے لیے شنگ کا عائد کردہ بیگاری طرز کار، نام نہاد خدمت عوام جس سے اشتراکیوں کے مقصد پورے ہوتے اور روپیہ عوام کی جیبوں سے جاتا۔ بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، مقامی حکومتِ خود اختیاری کے جھوٹے وعدے اور ان سب پر مستزاد لال ڈاڑھی والوں کے مظالم و جرائم۔
علی بیگ اور حمزہ نے جو مظالم بہ چشم خود دیکھے ان میں سے چند ہم سے بیان کیے۔ مثلاً جب چینی تارکین وطن نے لال ڈاڑھی والوں کی مدد سے مناس کے مسلم علاقوں پر حملہ کیا تو انھوں نے تمام مردوں کو قتل کر ڈالا اور عورتوں اور بچوں کی ٹانگیں توڑ ڈالیں تاکہ بھاگ کر دوسروں کو اطلاع نہ دے سکیں۔ اس کے بعد بے دست و پا عورتوں کی عصمت دری کی اور ان کے ٹوٹے ہوئے اعضا اور درد کی چیخوں کی بھی پروا نہیں کی۔ آخر میں ان کے گھروں کا مال و اسباب سب لوٹ کر لے گئے۔
ادھر تو اس ظلم و ستم کے ساتھ لال ڈاڑھی والے صوبے میں گھوم پھر کے قازقوں اور منگولوں کے پڑاؤ اور ترکی دیہاتوں کو اجاڑ رہے تھے، ادھر شنگ کی روسی تربیت یافتہ خفیہ پولیس شہروں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے شکار پکڑ رہی تھی اور ان میں سے کوئی ایک لاکھ کو موت کے گھاٹ اتار چکی تھی، اور ان سے بھی زیادہ لوگوں کو طرح طرح کی اذیتیں دے رہی تھی اور ان کی رہائی کے لیے ان کے عزیزوں سے بڑی بڑی رشوتیں لے رہی تھی۔ ان مظالم کے بعد جو بغاوت ہوئی تو شہری آبادیوں پر اس سے بھی زیادہ بربادی آئی۔ پورے پورے علاقے اجاڑ دیے گئے اور ہزاروں فاقوں اور بیماریوں سے مر گئے۔ یہ وہ بھیانک پس منظر ہے جس پر ١٩٤٥ء میں قازقوں کے ہاتھوں چینیوں کے قتل عام کو جانچنا چاہیے۔
علی ہن طور اور حمزہ کی بات چیت میں چینیوں کا نام و نشان مٹانے کی تاریخ مقرر کرنے کے علاوہ کچھ اور بھی فیصلے ہوئے۔ علی ہن طور نے حمزہ سے صاف صاف کہہ دیا کہ روسی میری مدد کر رہے ہیں، اسے یقین تھا کہ حمزہ اس بات کو سن کر مطمئن ہو جائے گا۔ حمزہ نے اسے دھوکا نہیں دیا۔ لیکن حمزہ اور علی بیگ اور غالباً عثمان بطور بھی اپنے طور پر سبھی اس کوشش میں تھے کہ مشرقی ترکستان کی پرانی بسنے والی قوموں کی ایک جمہوری اور متحدہ خود مختار حکومت قائم ہو جائے، اس کے لیے ضروری تھا کہ روسیوں سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جائے اور چینیوں سے بھی۔ قازق سرداروں کو اعتماد تھا کہ جنگ ان دونوں حکومتوں کو اس قدر کمزور کر دے گی کہ وہ مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ لیکن اگر علی ہن طور نے محض روسیوں کے احکام پر بغاوت کی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روسی اپنے اندر اتنی طاقت موجود پاتے تھے کہ شنگ کے زمانے میں ہٹلر کے حملے کی وجہ سے جو صوبہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اسے اب دوبارہ اپنے قبضے میں لا سکتے تھے۔ اگر یہ صحیح تھا تو مشرقی ترکستان کو خود مختاری حاصل کرنے کے مواقع کچھ زیادہ امید افزا نہیں تھے۔
خلدزا سے مناس واپس آنے کے بعد حمزہ نے اس صورت حال پر غور کیا، کیا آزاد دنیا ہماری مدد کر سکے گی؟ ارمچی میں امریکی اور برطانوی قونصل خانے کھل گئے تھے لیکن یہ دونوں ملک بہت دور تھے۔ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑوں کے پیچھے یا وسیع صحرائے گوبی کے اس پار۔ اس کے برعکس سوویت مملکت اس مقام سے صرف پچاس میل کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے اور علی ہن نے مشورے کیے تھے۔ اسے یاد تھا کہ روسیوں نے کچھ عرصہ تک خلدزا کو اپنے علاقہ میں شامل کر لیا تھا۔ یہ جنرل بڑے گھوڑے ما کے عہد میں ہوا تھا۔ اس کے بعد روسیوں نے اشتراکی شنگ کو یہ علاقہ واپس دے دیا تھا۔
جولائی کے قتل عام میں جو حصۂ ملک چینیوں سے آزاد کرا لیا گیا تھا اس میں تین علاقے شامل تھے۔ ان تینوں کا مجموعی رقبہ اتنا تھا جتنا کہ انگلینڈ، ویلز اور اسکاٹ لینڈ کا۔ خلدزا سے الطائی تک یہ خبر نہایت مسرت کے ساتھ سنی گئی اور سب کو امید ہو گئی کہ خود مختاری حاصل کرنے کی جانب یہ فیصلہ کن اقدام کیا گیا ہے۔ ہر شہر نے اپنے اپنے آزادی کے تمغے بنائے جن پر وجود میں آنے والی مشرقی ترکستان کی جمہوریہ کے پانچ تارے اور ہلال منقش تھے۔ علی ہن طور نے ایک خاص تمغا علی بیگ کو دیا جس نے جواب میں فوراً ایک تمغا علی ہن طور کو پیش کیا۔ مناس، تار باغتائی اور دوسرے شہروں نے ایسے ہی امتیازی نشان علی بیگ، حمزہ اور علی ہن طور کی خدمت میں پیش کیے۔
ستمبر میں جب عثمان بطور الطائی کو چینیوں سے پاک کر رہا تھا، حمزہ نے ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس ایک نہایت اہم مسئلے پر بلائی گئی تھی، وہ یہ کہ مشرقی ترکستان کے دوسرے حصوں میں سے چینیوں کو کیسے خارج کیا جائے۔ علی ہن طور کی نمائندگی اس کے بھائی نے کی۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عثمان بطور جان بوجھ کر اس میں شریک نہیں ہوا۔ چار دن کی گفت و شنید کے بعد مندوبین با دلِ ناخواستہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مخالفانہ کارروائی کرنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔ اس وقت تک دس ہزار باقاعدہ چینی فوج صوبے میں جمع ہو چکی تھی اور بوجوہ اچھے ہتھیاروں سے لیس۔ ادھر قازقوں کے پاس اس کے تین چوتھائی تو آدمی تھے اور وہ بھی بے قاعدہ اور بے ہتھیاروں کے، جدید اسلحۂ جنگ ان کے پاس نہیں تھا۔ اگر کچھ تھا تو علی ہن طور کی فوجوں کے پاس۔ روسیوں نے پورے ہتھیار اسے بھی نہیں دیے تھے، اس اندیشے سے کہ کہیں یہ لوگ روس ہی پر نہ پلٹ پڑیں۔ لہذا قازقوں کے پاس وہ ہتھیار تھے جو ان کے پاس لڑائیوں میں ہاتھ آئے تھے، انھوں نے کہیں سے چرائے تھے یا کسی اور ذریعے سے حاصل کیے تھے۔ بعض کے پاس نل کے ٹکڑوں کی خانہ ساز بندوقیں تھیں، اسی طرح کا خانہ ساز گولہ بارود تھا، اکثر قازقوں کے پاس ہتھ گولے اور تلواریں تھیں یا لمبے سونٹے تھے جن میں کیلیں لگی ہوئی تھیں، وردی ایک کے پاس بھی نہیں تھی۔ دوران جنگ میں بھی وہ زمانۂ امن ہی کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ اپنے گلے اور ریوڑ بڑھاتے رہتے، جہاں جہاں لڑنے والے جاتے ان کے جلو میں یہ جانور بھی جاتے یا اگر انھیں پیچھے چھوڑ دیا جاتا تو انھیں سے پنیر اور جما ہوا دہی انھیں مہیا ہوتا اور ان کی کھالوں سے ان کے کپڑے تیار ہوتے۔
چینیوں پر التوائے تاخت کے منفی فیصلے کے علاوہ ایک مثبت فیصلہ بھی کیا گیا۔ سب نے اس پر رضا مندی ظاہر کی کہ عثمان بطور کو کماندار اعلی بننے کی دعوت دی جائے۔ اس تجویز کے بارے میں علی ہن طور کے دل میں کیا تھا یہ نہ معلوم ہو سکا کیونکہ اس کے زیر کمان پچیس ہزار آدمی تھے یعنی عثمان بطور سے کم سے کم دوگنے لیکن اس نے اس فیصلے کو قبول کر لیا اور دونوں سرداروں نے اب اس پر غور و خوض شروع کیا کہ حملہ کرنے سے پہلے اس مسئلے کو طے کرنا چاہیے کہ جن علاقوں کو آزاد کرایا گیا ہے ان کا اور ان کے ساتھ الطائی کا تحفظ کیسے کیا جائے۔
جب ان کا آمنا سامنا ہوا تو دونوں سرداروں نے ایک دوسرے کو ناپسند کیا۔ عثمان بطور ایک سچا فدائی وطن تھا۔ نہایت مذہبی خیالات کا آدمی اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے کہ میں خطائیوں کو اپنے ملک سے خارج کر دوں۔ علی ہن طور قازق نہیں تھا اور نہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ مجھے من جانب اللہ کسی خدمت پر مامور کیا گیا ہے۔ سوائے ذاتی ترقی کے اس کا کوئی مقصود زندگی نہیں تھا۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ چینیوں سے مل جانے اور آسمان کے نیچے ایک خاندان میں شامل ہو جانے سے چینی اسے فوقیت نہیں دیں گے لہذا وہ اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ روسیوں کی مدد سے کسی طرح صوبہ سنکیانگ کا صدر یا کم سے کم نائب صدر بن جائے۔ قصین نے بل غن میں اسے جو باتیں بتائی تھیں ان کی وجہ سے عثمان بطور روسیوں کے مقاصد کو مشتبہ نظروں سے دیکھتا تھا لیکن اس پر بھی وہ سمجھتا تھا کہ چینیوں سے اپنی اس لڑائی میں روسیوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لہذا عثمان اور علی ہن طور میں قدر مشترک بہت ہی کم تھی۔
تاہم فوری فیصلے جنگی معاملات کے بہ اتفاق کیے گئے کہ گھمسان کی لڑائی سےبچتے رہیں۔ جب اور جہاں بھی ممکن ہو دشمن کو پریشان کیا جائے اور چند ایسے مضبوط مقام بنائے جائیں جن سے تینوں نئے آزاد کرائے ہوئے علاقے محفوظ رہیں۔ حمزہ کو دونوں پسند کرتے تھے اس لیے اسے ترقی دے کر کرنل بنا دیا اور مناس اور یلذر پہاڑوں کے درمیانی علاقے کا اسے کماندار بنایا۔ اس علاقے کا وہ سیاسی افسر بھی متعین کیا گیا۔ علی بیگ کو شادان یا خمِ خاکی کا افسر بنا دیا گیا۔ یہ علاقہ الطائی کی سڑک پر مناس کے شمال مغرب میں ہے۔
لیکن سب کو اس بات پر تعجب ہوا کہ قتل عام کا خون بہا وصول کرنے کے بدلے چینیوں نے مشرقی ترکستانیوں کو ایلی میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ انفرادی طور پر قازق رہنماؤں نے اس کے متعلق کیا رائے قائم کی یہ تو معلوم نہیں لیکن انھیں سوائے اس دعوت کو قبول کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ جتنی اور مقامی قومیں تھیں وہ سب اپنے مندوبین بھیجنے پر فوراً رضامند ہو گئیں۔ چینیوں کے ساتھ ایک مشروط معاہدہ ٢ جنوری ١٩٤٦ء کو ہو گیا لیکن اسے مرکزی چینی حکومت سے بھی منظور کرانا تھا چنانچہ ایلی کے گیارہ نکاتی معاہدہ پر ٦ جون سے پہلے دستخط نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد یکایک کم از کم کاغذ پر مقامی قومیں اپنے مقامی معاملات کی ذمہ دار ہو گئیں۔ صوبائی صدر اب بھی چینی ہی تھا لیکن وزیروں اور نائبوں میں اٹھارہ مقامی قومیت کے اور صرف بارہ چینی ہوتے تھے۔ ایک صوبائی اسمبلی بھی بنانی تھی جس میں مقامی قوموں کو نمائندے بھیجنے تھے۔ آگے چل کر ان سب باتوں پر عمل ہوا۔ نئے صوبائی دستور کے ساتھ انھیں چاسر ویو کے بدلے ایک نیا چینی صدر جنرل چانگ چی شنگ بھی ملا اور انھیں ایک مقامی "فوج” بنانے کا حق بھی ملا جس میں چھ رجمنٹیں تھیں، بیشتر قازقوں کی۔
یہ باتیں اتنی عمدہ تھیں کہ ان پر کسی کو یقین نہیں آتا مگر یہ حقیقت تھی۔ ١٦ اگست کو خور غوث کے سرحدی شہر سے چار سوویت افسر وردیاں پہنے سرحد پار کر کے آئے اور خلدزا میں علی ہن طور کے گھر پر نہایت اخلاق کے ساتھ ملنے گئے۔ اس ملاقات کے ختم ہونے پر انھوں نے بڑی شائستگی سے علی ہن طور کو خور غوث آ کر ان کے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ علی ہن طور نے دعوت منظور کر لی اور افسروں کے ساتھ ان کی کار میں بیٹھ کر چلا گیا وہاں سے پھر وہ واپس نہیں آیا۔
ترکی میں جو قازق مہاجر تھے ہمیں نہیں بتا سکے کہ اس کا کیا حشر ہوا۔ وہ صرف یہ جانتے تھے کہ اس پر تورانیوں کو ایک کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس کوشش میں پہلی عالمی جنگ کے ختم ہونے کے بعد ترکی جنرل انور پاشا نے سوویت قفقاز میں اپنی جان دے دی تھی لیکن قازق مہاجر کچھ بتا نہیں سکے کہ علی ہن طور کو قید کیا گیا یا وہ اب زندہ ہے یا مر چکا ہے۔
یہ بالکل صحیح ہے کہ مشرقی ترکستان کے نوے فی صدی سے زیادہ باشندے چینی مملکت میں ہوتے ہوئے ایک ترکی زبان بولتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بحیرہ روم کے شمالی ساحلوں پر رہنے والوں میں سے نوے فی صدی لوگ ایک لاطینی زبان بولتے ہیں۔ سوویت یونین کے ایک حصے مغربی ترکستان کے نوے فی صدی باشندے بھی ترکی النسل ہیں لیکن قازقوں کو اس کا یقین ہے کہ ذرا سی بھی شہادت اس امر کی موجود نہیں ہے کہ علی ہن طور سوویت حکومت سے ترکی باشندوں کو آزاد کرانے کی سازش کر رہا تھا۔ وہ صرف انھیں آزاد کرانا چاہتا تھا جو چینی حکومت کے مظالم سہہ رہے تھے اور اس کی یہ کوشش بھی خود سوویت حکومت کے اشارے اور مدد پر تھی لیکن اس کی کامیابی نے مشرقی ترکستانیوں، ترک، منگول، ازبک اور قازقوں کو خود مختاری حاصل کرنے کے اتنے قریب کر دیا تھا کہ سوویت حکومت اس حد تک اسے گوارا نہیں کر سکتی تھی۔ اس سے یہ قومیں نہ صرف سوویت حکومت کی زیادہ محتاج نہ رہتیں بلکہ سوویت قازقستان اور قفقاز میں جو نو آباد قومیں روسیوں کے زیر اقتدار ہیں ان کے دلوں میں بھی دبی ہوئی آرزوئیں اور ولولے ابھر آتے۔
علی ہن طور کی بڑھتی ہوئی خود مختاری روسیوں کی اس پالیسی کے خلاف بھی پڑ رہی تھی کہ وہ ایک اور کٹھ پتلی چینی حکومت کو بر سر کار لانا چاہتے تھے جو صوبہ سنکیانگ میں شنگ کی حکومت سے مشابہ ہو۔ ایسی حکومت کے قیام سے سوویت مشیر، نصابی کتابیں، خفیہ پولیس اور غیر ملکی تجارت کی اجارہ داری یہ سب باتیں دوبارہ وجود میں آ جاتیں اور یہ صوبہ یا تو سوویت نو آباد مملکت میں شامل کر لیا جاتا یا چوئی بلسان کے تحت بیرونی منگولیا کی طرح ایک کٹھ پتلی ریاست میں تبدیل کر دیا جاتا۔ علی ہن طور نے ایسی کسی پالیسی کو ترقی دینے کے بدلے ایک ایسا معاہدہ کر لینے میں مدد دی جس کی رو سے قومی چین کی سرپرستی میں مشرقی ترکستان خود مختاری حاصل کرنے میں بہت کچھ آگے بڑھ چکا تھا لہذا علی ہن کو ختم کر دیا گیا۔
چینیوں اور ترکستانیوں میں ایلی معاہدہ ہونے کے صرف ڈھائی مہینے بعد ہی علی ہن طور کو غائب کر دیا گیا اور دو ہفتے بہ مشکل گزرے ہوں گے کہ روسی اور منگول فوجوں نے الطائی پر چڑھائی کر دی۔ جہاں تک منگولوں کا تعلق تھا تو شاید چڑھائی کرنے میں وہ کسی حد تک حق بجانب تھے کیونکہ صوبہ الطائی بیرونی منگولیا کا ١٩٢٢ء تک ایک حصہ تھا اس کے بعد منگول چین سے الگ ہو گئے۔ بہت سے منگول اب بھی وہیں رہتے تھے، اسی طرح سنکیانگ کے دوسرے حصوں میں بھی ان کی رہائش تھی۔ جب ١٩٤٥ء میں چینی سوویت معاہدے کی بات چیت ہو رہی تھی تو سوویت حکومت نے از خود تسلیم کر لیا تھا کہ یہ صوبہ چین میں شامل ہے۔ الطائی پر چڑھائی کرنے سے سال بھر پہلے اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ چینیوں اور ترکستانیوں نے قدرتی طور پر یہ سمجھ لیا کہ سوویت کے اعلان میں اس صوبے سے وہی صوبہ مراد ہے جس صورت میں کہ ١٩٤٥ء میں موجود تھا۔ سوویت کارگزاروں نے انھیں دھوکا نہ دینے کی یقیناً کوئی کوشش نہیں کی اور یہ بات جلدی ہی ظاہر ہو گئی کہ سنکیانگ کی سرحدوں کے تعین کے متعلق ماسکو کے اپنے مخصوص تصورات تھے اور پھر صرف الطائی ہی اس معاملے میں ان کے پیش نظر نہیں تھا۔
روسیوں کے مخصوص طرزِ کار کے مطابق الطائی میں روسی اور منگولی فوجوں کے در آنے سے پہلے کوئی پانچ سو لاریاں روزانہ سرحد پار کر کے آتیں اور خام دھات ولفرام بغیر کسی کی اجازت اور لڑے جھگڑے بغیر کھود کر لے جاتیں۔ اس کے قرب و جوار میں جو مقامی قازق قبیلے والے اپنے جانور چرایا کرتے تھے، انھوں نے ایک دن دیکھا کہ مزدوروں کے بدلے ان لاریوں میں سے فوجی سپاہی اتر رہے ہیں۔ قبیلے والوں نے جلدی جلدی اپنے جانوروں کو سمیٹا اور انھیں ہنکا کر اپنے پڑاؤ پر لے گئے۔ بعجلت تمام انھوں نے اپنے نمدہ دار خیمے اتارے اور اپنے دوسرے اثاثے کے ساتھ انھیں اپنے اونٹوں اور مویشیوں پر لاد کر جنوب کی جانب روانہ ہو گئے اور بادپا گھوڑوں پر قاصد روانہ کر دیے تاکہ عثمان بطور کو ان گھس آنے والوں کی اطلاع کر دیں۔ یہ قبیلے والے اور ان کے ساتھ ہزاروں اور، بائتِک بوغدو کے سلسلۂ کوہ میں کیری قازقوں کی مشرقی شاخ سے جا ملنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس علاقے میں گدھے کے برابر جنگلی بھیڑیے ہوتے ہیں جن کے بڑے اور بل کھائے ہوئے سینگ ہوتے ہیں، ایک ایک فٹ قطر کے۔ بائتک بوغدو کے شمالی ڈھلان جنگلوں سے خوب ڈھکے ہوئے ہیں۔ پانی کی ان میں افراط ہے اور چراگاہیں بہت عمدہ ہیں، ان کے برعکس جنوبی ڈھلان بالکل بے آب اور بنجر ہیں۔
٧ ستمبر ١٩٤٦ء کو الطائی میں گھس آنے اور علی ہن طور کو غائب کر دینے نے کل قازق رہنماؤں کی آنکھیں کھول دیں بلکہ سوویت کے ارادوں سے پورا ترکستان واقف ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار قازقوں اور دوسرے مقامی باشندوں نے چین کو اپنا حلیف قرار دینے پر رضا مندی ظاہر کی اور سوویت حکومت اور چوئی بلسان کے ماتحت بیرونی منگولیا کی کٹھ پتلی ریاست کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ چینیوں کے شانہ بشانہ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اب دریائے مناس پر سے گزرنے میں قازق چینی فوجوں سے مزاحم نہیں ہوتے تھے اور طرفین فوراً اس پر تل گئے کہ جلے ہوئے پل کی مرمت کر لی جائے۔
لیکن چینیوں میں خود اتحاد نہیں تھا۔ ان کے بہت سے افسر اب بھی یہی سمجھتے تھے کہ قازق صرف لٹیرے اور گھڑ چور ہیں جن سے کوئی شریف آدمی دوستی نہیں کر سکتا۔ بعض مقامی افسر قازقوں کے بدلے اشتراکیوں سے جا ملے۔ بعض نے معاہدۂ ایلی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا حالانکہ ان کی حکومت نے اس پر دستخط کیے تھے۔ صرف مٹھی بھر چینی اس پر قائم رہے۔ اس وقت تک چینی اشتراکیوں کا ستارہ آہستہ آہستہ عروج پر آ رہا تھا اور صرف شمال مغربی صوبہ سنکیانگ ہی میں نہیں بلکہ سارے چین میں سوویت حکومت اب ان کی کھلم کھلا مدد کر رہی تھی حالانکہ چین سوویت معاہدہ صرف ایک سال قبل ہی ہو چکا تھا۔
یہاں سے قازقوں کی کہانی کا اگلا رخ سامنے آتا ہے وہ اب تک چینیوں سے برسرِ جنگ تھے لیکن اب انھیں یقین ہو گیا کہ ان کا حقیقی دشمن اشتراکیت ہے، چاہے یہ چینی ہو چاہے روسی اشتراکیت۔ آئندہ کے لیے انھوں نے اسی طرح اسے اپنا دشمن قرار دے لیا جیسے پہلے چینی قوم پرستوں اور چینی اشتراکیوں دونوں کو اپنا دشمن قرار دے لیا تھا۔ ١٩٤٦ء کے بعد سے قازق مشرق کے بجائے شمال اور مغرب کے حملوں سے اور اس کے بعد مشرق ہی کی جانب سے چین پر اشتراکیت کی یلغار سے اپنے طرز زندگی کو بچائے رکھنے کے لیے جان توڑ کوششوں میں لگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی فوجوں میں تیس ہزار سے زیادہ آدمی کبھی نہیں ہوئے اور ان کی لڑائیاں بیشتر گشتی ہوتی تھیں جن میں عورتیں اور بچے اور جانور بھی مبتلا ہوتے تھے کیونکہ ان خانہ بدوشوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ انھیں پیچھے چھوڑ جائیں۔ ان کے ہتھیاروں کو ہم دیکھ ہی چکے ہیں کہ ان کے پاس چند رائفلیں تھیں، چند مشین گنیں اور کچھ تعداد ہتھ گولوں کی، مگر یہ ہتھیار بھی اس قدر ناکافی تھے کہ بہت سے قازقوں کے پاس صرف تلواریں تھیں یا میخی سونٹے۔ اشتراکیوں کے پاس توپ خانے، بکتر بند گاڑیاں، ٹینک اور ہوائی جہاز تھے لیکن اس پر بھی قازق لڑتے رہے۔
چینی حکمرانوں نے ارمچی سے کوئی روک تھام کا انتظام نہیں کیا مگر محبوب وطن الطائی پر جب سوویت منگول تاخت ہوئی تو عثمان بطور اسے روکنے کے لیے فوراً جانب شمال روانہ ہو گیا لیکن عثمان کے چھاپہ مار جو شنگ کے لال ڈاڑھی والوں سے بخوبی نمٹ لیتے تھے اس نئے لشکر کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قازق لڑنے والوں کو مجبور ہو کر اسی طرح بوئتک بوغدو پہاڑوں میں پسپا ہونا پڑا جیسے روسی سپاہیوں کو ولفرام کھود کر لے جاتے دیکھ کر قازق قبیلے والے پیچھے ہٹ آئے تھے۔ اب عثمان ایسے مقام پر کھڑا ہوا تھا کہ اس کے لیے پیچھے ہٹنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کے پیچھے تیرہ چودہ ہزار فٹ اونچے برفیلے پہاڑ کھڑے تھے اور اس کے سامنے وہ راستہ تھا جس پر سے دشمن پیش قدمی کر سکتا تھا۔ دشمن کو اس نے بار بار منتشر کر کے پسپا کیا لیکن جب وہ دشمن کا پیچھا کر کے ان پر حملہ آور ہوتا تو دشمن کو اتنا قوی پاتا کہ ناچار اسے لوٹ جانا پڑتا۔ ایک سال تک یہی کیفیت جاری رہی۔
اس دوران میں روسی خلدزا میں ذرا گہری چالیں چل رہے تھے۔ علی ہن طور کے غائب ہو جانے کی خبر پھیلنے سے پہلے بہت سے روسی افسر اور اشتراکی سرحد پار کر کے علی ہن طور کی فوج پر قابض ہو گئے اور بظاہر اسے ایک قازق اسحٰق بیگ کی کمان میں دے دیا جو ان کا تنخواہ دار تھا۔ چند ہی روز میں انھوں نے "ناقابل اعتماد” عناصر سے قازقوں کو پاک کرنا شروع کر دیا اور جو باقی رہ گئے انھیں اپنے اصول ٹھسانے لگے۔ روسیوں نے ان سے وعدہ کیا کہ ہم تمھیں وردیاں، تنخواہیں اور راشن دیں گے۔ یہ چیزیں قازقوں کو پہلے کبھی نہیں ملے تھیں۔ ان وعدوں پر شروع میں کسی نے اعتبار نہیں کیا مگر جب یہ وعدے پورے کیے گئے تو قازق تیزی سے ان کی طرف رجوع ہونے لگے۔ ایک سال کے اندر ہی اندر علی ہن طور کے بے قاعدہ اور بے ترتیب قازق چھاپہ مار باقاعدہ منظم فوج میں تبدیل ہو گئے اور اس ابتدائی منزل ہی میں روسی ہائی کمان نے یہ مناسب سمجھا کہ انھیں خاصی تعداد میں ہتھیار دے دیے جائیں۔
جب یہ اقدامات کیے جا رہے تھے تو روسیوں نے معاہدۂ ایلی سے بھی فائدہ اٹھا کر صوبے کے دوسرے حصوں میں اپنے اثر و اقتدار کو پھیلایا۔ اس معاہدہ کی رو سے جو صوبائی اسمبلی بنائی جانے والی تھی وہ اب بن چکی تھی۔ اس لیے روسیوں نے اپنے منتخب کردہ نمائندے خلدزا سے ان ہدایات کے ساتھ بھیجے کہ نئی سیاسی مشین میں ریت جھونک دیں۔ یہی چال اشتراکی ممبر پہلے بھی کہیں مجلس قانون ساز میں چل چکے تھے اور کامیاب رہے تھے۔ ارمچی میں ان کی کامیابی کے مواقع اور بھی زیادہ تھے کیونکہ خلدزا صوبے اور باقی صوبے میں علی ہن طور کے غائب ہو جانے سے قانونی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ اس سے اشتراکیوں کو بر سر کار حکومت کو تباہ کرنے کا ایک قانونی ذریعہ مل گیا تھا لیکن خلدزا اگرچہ سوویت کے زیر اقتدار آ گیا تھا پھر بھی سنکیانگ کے چینی صوبے کا وہ ایک حصہ ہی تھا اس سے یہ ہوا کہ جو قازق یہاں آباد تھے انھیں اجازت تھی کہ ان کے رشتے کنبے کے لوگ جو کہیں اور تھے ان سے وہ اپنا تعلق قائم رکھیں۔ لہذا حمزہ اپنی مرضی کے مطابق آ جا سکتا تھا۔ کم از کم اس وقت تک جب تک اس کی آر جار پر روسیوں کو کسی قسم کے خطرے کا شبہ نہ ہو۔ روسی یہ تو جانتے ہی تھے کہ حمزہ کو اشتراکی تعلیم ملی ہے شاید اس سے انھیں یہ خیال ہوا کہ وہ ان کی پاسداری کرنے لگے گا۔ لیکن اگر ان کا یہ خیال تھا غلط تو تھا۔ اس تعلیم نے اس پر الٹا اثر کیا تھا۔ یلدز پہاڑوں میں جب وہ اپنے عہدے کے سلسلے میں اپنے آدمیوں کی نگرانی کرنے کبھی آگے اور کبھی پیچھے جاتا تو وہ ان دوروں سے فائدہ اٹھا کر یہ بھی دیکھ لیتا کہ علی ہن طور کی فوج کے ساتھ روسی کیا کارروائی کر رہے ہیں۔ اس کے بھائی یونس حجی نے قازق قبیلے والوں کو مرتب ہو کر لڑنے کی ترتیب دینی چاہی تھی مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی تھی اور قازق ایک جتھے کی صورت ہی میں لڑتے رہے۔ حمزہ کے دل میں بار بار یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جس کام میں میرا بھائی ناکام رہا، کیا اسی کام میں روسی کامیاب ہو جائیں گے۔ کچھ عرصے بعد حمزہ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ روسی کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے وہ بہت پریشان ہوا۔ اس کے اپنے آدمی وفادار تھے لیکن ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں تھے، انھیں تنخواہیں نہیں دی جاتی تھیں اور نہ وردیاں دی جاتی تھیں۔ روسیوں کے تربیت دیے ہوئے قازقوں کے پاس یہ تینوں چیزیں تھیں اور ظاہر ہے کہ وہ ان سے بہت خوش تھے۔
اگر روسیوں کو معلوم ہو جاتا کہ حمزہ کیوں بار بار خلداز آتا ہے تو یقیناً وہ اسے آزاد نہ چھوڑتے۔ علی ہن طور کے غائب ہو جانے کے بعد علی بیگ نے قازق سرداروں کو مشورے کے لیے مناس کے اوپر کے پہاڑوں میں جمع ہونے کی دعوت دی۔ مشورہ اس بات کا کرنا تھا کہ اشتراکیت کے بڑھتے ہوئے خطرہ کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ ٢١ اکتوبر ١٩٤٦ء کو تمام نمائندے یکجا ہوئے اور سب نے رضا مندی سے طے کیا کہ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں قومیت پسند چینیوں سے، اگر وہ منظور کریں تو پوری طرح مل کر کام کرنا چاہیے اور دوسری بات یہ کہ جو قازق روسی اثر قبول کر چکے ہیں ان میں اشتراکیوں کے خلاف جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔
پہلی بات پر گفت و شنید کرنے کا کام ایک قازق سردار جانم خاں کے سپرد کیا گیا۔ اس کا ذکر آگے بھی آئے گا۔ فروری ١٩٤٧ء کے اختتام تک ارمچی میں چینی فوجوں کے کماندار جنرل سُنگ ہسی لین کو جانم خاں نے اس پر کسی نہ کسی طرح رضامند کر لیا کہ قازقوں کو پانچ سو رائفلیں، چار مشین گنیں، چالیس ہزار گولیاں، دو ہزار ہتھ گولے اور ایک وائرلیس سیٹ بطور تحفہ دے دے۔ حمزہ سے جب علی بیگ نے اس کا ذکر کیا تو مسکرا کر بولا کہ وائرلیس سیٹ دینے کے ساتھ جنرل سنگ نے یہ شرط لگائی ہے کہ ایک چینی سیٹ چلانے والا بھی سیٹ کے ساتھ جائے گا۔
حمزہ نے علی بیگ کو بتایا کہ اسحٰق بیگ کے تمام آدمیوں کے پاس اب رائفلیں ہیں، اور مشین گنیں کتنی ہیں اس کا مجھے علم نہیں۔ اسحٰق بیگ کے پاس کم از کم پچیس ہزار آدمی ہیں جن میں سے بیشتر قازق ہیں۔ ان میں سے بعض مشرقی ترکستان کے ہیں اور باقی سرحد پار سوویت قازقستان کے۔
جہاں تک اسلحہ کی کمی کا تعلق ہے قازق اس باب میں لاچار تھے۔ جنرل سُنگ کی بھی یقیناً وہی کیفیت تھی جو ان قازقوں کی، اس وقت امریکی اسلحہ چین میں دھڑا دھڑ آ رہے تھے اور ان میں سے بعض ہوائی جہازوں میں ارمچی میں سے ہو کر آ رہے تھے لیکن ان کو اسلحہ دینے کا اختیار چینی مرکزی حکومت اور اس کے امریکن مشیرین کو تھا جو نان کنگ میں تھے، ارمچی سے ہزاروں میل دور۔ پھر یہ بھی تھا کہ بہت سے چینی افسر قازقوں پر بھروسا نہیں کرتے تھے۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ جب جنرل سنگ نے ایسے لوگوں کو ہتھیار دے دیے جنھیں اس کے ساتھی چور اور ڈاکو سمجھتے تھے تو اس نے بڑی ہمت سے کام لیا اور وہ اپنے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکا۔
پروپیگنڈے کے میدان میں علی بیگ اور اس کے دوست اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتے تھے کہ وہ متعدد اشاعتیں ایک اخبار “ریویو” کی شائع کر سکے۔ اس کی وہ بہت ساری کاپیاں چھاپتے اور بڑی رازداری سے اس علاقے میں تقسیم کر دیتے جس پر اسحٰق بیگ کی فوجیں قابض تھیں۔ اس اخبار کا چھپنا اور تقسیم ہونا مخفی رہا۔ خلداز کے علاقہ میں اس کی اشاعت کا ذمہ دار حمزہ تھا اور تار باغتائی کے علاقہ کا ذمہ دار ایک اور قازق قائنیش تھا۔ دونوں کے لیے یہ ایک نہایت خطرناک خدمت تھی لیکن ان میں سے ایک بھی نہیں پکڑا گیا۔
مارچ ١٩٤٣ء میں یلذر پہاڑوں کے علاقے سے حمزہ ارمچی گیا تاکہ نئے صوبائی صدر کی تعیناتی کی رسم میں شرکت کرے۔ علی بیگ اور جانِم خاں بھی وہاں موجود تھے لیکن عثمان بطور نہیں تھا۔ وہ سوویت منگول تاخت کا مقابلہ کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ یہاں نہیں آ سکتا تھا اور چینی فوجی سربراہ اس مہم کی طرف بالکل متوجہ نہیں تھے۔ صوبائی حکومت کا نیا حاکم چینی نہیں تھا بلکہ مقامی قوموں کا ایک نمائندہ تھا۔ یہ ایک ترکی تھا جس کا نام محسود صابری تھا۔ اس تاجر کو آبادی کے ہر قسم کے لوگ پسند کرتے تھے اور اس کی عزت کرتے تھے۔ ایک اور ترکی محمد امین بُغرا، جس کا نام ہم پہلے بھی سن چکے ہیں، ڈپٹی سکریٹری جنرل بن گیا۔ دو قازق سعالی جن کے نام ہمارے لیے نئے ہیں اور جانِم خاں سکریٹری جنرل اور وزیر مالیات بن گئے۔ کوئی اور وزیر ہماری کہانی سے تعلق نہیں رکھتا۔ حالانکہ اب سب ملا کر پچیس وزیر اور نائب وزیر تھے۔ پندرہ ان میں سے مقامی آدمی تھے اور دس چینی۔ علی بیگ اور حمزہ دونوں کو پورا یقین ہے کہ ان دونوں گروہوں میں کچھ لوگ ایسے شامل تھے جو روس کے تنخواہ دار ہیں مگر نام انھوں نے کسی کا نہیں لیا۔ نئی وزارت کا اچھا آغاز کرنے کے لیے تمام سیاسی قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا اور یہ اعلان کر دیا گیا کہ جتنے سرحدی تنازعات ہوں گے انھیں دبانے کے لیے چینی فوجوں سے مدد حاصل کی جا سکے گی۔ سرحدی تنازعات مگھم اصطلاح سے مراد ایسی مداخلت بے جا تھی جیسی کہ سوویت منگول تاختِ الطائی۔
دوسرے اعلان پر شاید سب سے عمدہ تبصرہ یہ واقعہ ہے کہ جانے والا چینی صدر جنرل چانگ اب شمال مغربی چین کے لیے صدر اعظم کے مصالحتی صدر دفتر کا ناظم اعلیٰ ہو کر جا رہا تھا۔ صدر اعظم اس معاملے میں چیانگ کائی شیک تھا۔ اس خطاب سے اگر کسی کو اسٹالن کا مغالطہ ہو جائے تو وہ قابل درگزر ہے کیونکہ بعد میں یہ خطاب اسٹالن نے اختیار کر لیا تھا۔ اس وقت سارا زور مصالحت پر تھا۔
مصالحت کے ناظم اعلیٰ چانگ نے قریب کے صوبہ کنسو کے صدر مقام لانچاؤ میں اپنا صدر دفتر بنایا تھا۔ اسی شہر تک روسیوں اور شنگ نے ١٩٣٨ء میں ایک شاہراہ صحرائے گوبی میں سے نکالی تھی۔ اس طرح ارمچی اور چینی صدر مقام نان کنگ کے درمیان جو تنہا سیدھا راستہ ہے اس پر لانچاؤ واقع تھا۔ قازقوں کو کچھ ہی عرصہ میں یقین ہو چلا کہ سنکیانگ آنے جانے والوں پر چانگ نگرانی رکھتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ کس قسم کی مصالحت کے طالب ہیں، فوراً نہیں تھوڑے عرصے بعد چانگ نے ان لوگوں کی آمد و رفت بند کر دی جو ترکستانیوں اور چینیوں میں اتحاد چاہتے تھے۔ جب اس نے یہ بندش لگا دی تو صوبہ سنکیانگ باقی چین سے کٹ گیا لیکن روس سے نہیں کٹا۔
نئی وزارت کے قائم ہوتے ہی علی بیگ اور حمزہ اپنی اپنی جائے ملازمت پر بہ عجلت واپس پہنچ گئے اور چند روز بعد حمزہ ایک بار پھر خلداز گیا۔ یہاں اس نے روسیوں اور ان کے پٹھوؤں کو بظاہر دوست پایا لیکن زیادہ نہیں۔ دو سو میل ہی کے فاصلے پر وہ عثمان بطور سے بری طرح بر سر پیکار تھے۔ حمزہ کو یقین آ گیا کہ دیر سویر روسی علاقہ مناس پر حملہ کر دیں گے۔ لیکن آزاد قازق سوائے اس کے اور کر بھی کیا سکتے تھے کہ اس حملے کی روک تھام کے لیے چینیوں سے اسلحہ جنگ کی آس لگائے بیٹھے رہیں۔
خلداز سے حمزہ کے واپس آنے کے کچھ دنوں بعد علی اور حمزہ ارمچی جا پہنچے تاکہ جنرل سُنگ اور دو قازق وزیروں سعالی اور جانم خاں سے حصول اسلحہ پر بات چیت کریں۔ وائر لیس سیٹ چلانے والے قضیے کے باوجود قازقوں کو جنرل سنگ پر بھروسا تھا، اس لیے انھوں نے اس سے کہا کہ بےقاعدہ قازق سپاہیوں کو چینی باقاعدہ افواج میں شامل کر لیا جائے۔ اس طرح ایک ہی وار میں ہتھیاروں، وردیوں اور تنخواہوں تک کا فیصلہ ہو گیا۔ ان اخراجات کی کفالت کے لیے جانم خاں بحیثیت وزیر مالیات بالکل آمادہ تھا۔ جنرل سنگ کا رویہ ہمدردانہ تھا اور بلا شبہ وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ یہ پیش کش تقویت بخش ہے۔ لیکن اصول سے اتنا بڑا بنیادی انحراف چونکہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا، اس لیے وہ اسے حیطۂ امکان سے باہر سمجھتا تھا۔ وہ اس پر رضامند ہو گیا کہ اپنی سفارش کے ساتھ اس تجویز کو نان کنگ بھیج دے اور اہل اختیار سے درخواست کرے کہ اس منظوری میں اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے۔
لہذا علی بیگ اور حمزہ اپنے اپنے مقام پر واپس چلے گئے اور انھیں اس کا پریشان کن احساس رہا کہ اگر روسیوں نے اپنے سکھائے پڑھائے قازقوں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا تو ارمچی تک وہ بغیر کسی مزاحمت کے جا پہنچیں گے۔ ہاں اگر ان قازقوں نے ایک زبان ہو کر اپنے ہم وطنوں سے لڑنے سے انکار کر دیا تو بات ہی کچھ اور ہوگی۔ مگر دونوں محسوس کرتے تھے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ منظم فوجیں عموماً اتنی آسانی سے حکم عدولی نہیں کرتیں بلکہ اس کے بدلے یہ ہو سکتا تھا کہ آزاد قازق اپنے بھائی بندوں سے لڑنے سے انکار کر دیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ وہ ہتھیاروں سے لیس ہوں اور یہ ہتھیاروں سے عاری۔
عثمان بطور کی جو خبریں آ رہی تھیں ان سے صورت حال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی۔ الطائی اور بائتک بوغدو کے درمیانی علاقے میں جو حملے اور جوابی حملے ہو رہے تھے ان سے تنگ آ کر روسیوں نے منگولیا سے ایک نئی سڑک بنانی شروع کی جو اجاڑ علاقے میں سے ہو کر عثمان کے مغربی پہلو تک پہنچ جائے۔ اس سے اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اپنے مناس اور ارمچی کے دوستوں سے بالکل کٹ جائے گا۔ اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ عثمان بطور بائتک بوغدو کو بھی الطائی کی طرح خالی کر دے۔ چنانچہ قازق خانہ بدوشوں نے ایک با ر پھر اپنے جانوروں کو جنوب کی طرف ہنکایا۔ اب کی دفعہ تئین شان سلسلۂ کوہ میں جا پہنچے۔ عثمان نے اپنا صدر مقام قزل چالابیل یا کمرِ سرخ میں بنایا جو کیو چنک کے قریب ہے لیکن اس علاقے میں بیشتر ریت کے تودے ہیں اور پانی صرف جاڑوں میں میسر آتا ہے، وہ بھی جب ریت برف سے ڈھک جائے۔
قازقوں کی عظیم پسپائی میں یہ دوسری منزل تھی۔ پہلی منزل وہ تھی جب حسین تجی بارکل سے ہٹ کر غزکل پہنچا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بعض قبیلے والے اپنے سرداروں کے مارے جانے پر الطائی میں اپنے روایتی مسکنوں کو لوٹ گئے ہوں، لیکن بیشتر قازق منگولوں کی طاقت کی وجہ سے نِگھرے ہو گئے اور انھوں نے اس اقتدار کو قبول کر لیا جسے چوئی بلسان جیسوں نے زبردستی مسلط کر رکھا ہے۔ بہت سے قازق بائتک پہاڑوں کو بھی چھوڑ کر چلے گئے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان علاقوں میں منگولی اور سوویت سرحدیں جنوب کی جانب بڑھ کر چین کو غصب کرتی رہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ انھوں نے کتنا چینی علاقہ دبا لیا کیونکہ آج تک اس کا اعلان عام نہیں کیا گیا کہ ان فوجوں نے کوئی نقل و حرکت بھی کی ہے یا نہیں۔ کم سے کم علی بیگ اور حمزہ کے علم میں ایسا کوئی اعلان نہیں ہے۔ یہ سرحدیں قانوناً نہیں بلکہ درحقیقت اس وقت پھیلیں جب عثمان بطور اپنی لڑائیوں کے ساتھ از خود چین کی لڑائیاں بھی لڑ رہا تھا۔ اور جب ١٩٤٦ء میں اسے الطائی سے پسپا ہونا پڑا تھا اس وقت چین کے دوسرے حصوں میں روسیوں کی تحریک پر چینی اشتراکی چینی قوم پرستوں سے بر سر پیکار نہیں ہوئے تھے۔ عثمان بطور کو چینی اشتراکیوں نے پیچھے نہیں ہٹایا تھا بلکہ سوویت اور منگولی باقاعدہ فوجوں نے الطائی کے چینی علاقہ پر جبریہ قبضہ ہوائی حملوں کی مدد سے کیا تھا اور یہ سب کچھ چینی سوویت معاہدۂ دوستی کے تیرہ مہینے کے اندر ہی ہو گیا حالانکہ طرفین میں سے کسی نے بھی اس معاہدہ کو کالعدم قرار نہیں دیا تھا۔ علی بیگ اور حمزہ کا بیان یہ ہے کہ چینی قوم پرستوں نے روسیوں اور منگولوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس وقت جتنی بھی مخالفت ہوئی وہ صرف عثمان بطور اور اس کے چھاپہ ماروں کی طرف سے ہوئی۔
دسمبر ١٩٤٧ء میں آزاد اور بہکائے ہوئے قازقوں میں مناس کے قریب ایک ٹکر ہوئی جس کا اندیشہ بہت عرصے سے تھا مگر اشتراکیوں کو اس میں متوقع کامیابی نہیں ہوئی۔ مادی فائدوں کا لالچ دے کر اشتراکیوں نے قازقوں کو جس طرح توڑ لینا چاہا تھا اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے کیونکہ قازقوں کو اپنے طرز زندگی سے زیادہ محبت تھی۔ “ریویو” کی منقول کاپیوں سے متاثر ہو کر جنھیں حمزہ اور قائنیش نے مخفی طور پر تقسیم کیا تھا کوئی آٹھ ہزار بہکائے ہوئے قازق، نو میں سے تین رجمنٹیں، بغاوت کر بیٹھے اور بجائے اپنے آزاد بھائی بندوں پر حملہ کرنے کے ہتھیاروں سمیت ان سے جا ملے۔ حمزہ نے بڑی مسرت سے ان کا استقبال کیا اور انھیں مناس دریا کے اس پار پہنچا دیا۔ یہاں باقی چھ رجمنٹوں نے علی بیگ کے لشکر پر جو اچانک حملہ کیا، اسے انھوں نے پسپا کر دیا۔ ان کے پسپا ہونے سے پہلے کئی دن تک جنگ جاری رہی اور دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔
ہم لوگوں کے لیے جو زیادہ سلجھے ہوئے انداز جنگ کے عادی ہیں، یہ بات سمجھ لینی آسان نہیں ہے کہ صوبائی حکومت سے اس وقت اور بعد میں بھی، آزاد اور بہکائے ہوئے قازقوں، دونوں کے تعلقات استوار رہے۔ خلدزا نے اپنے چنے ہوئے نمانئندے ارمچی کی صوبائی اسمبلی میں بھیجنے بند نہیں کیے حالانکہ چین اور سوویت حکومت کی درمیانی سرحد آگے پھیل چکی تھی اور جن علاقوں کی نمائندگی یہ نمائندے کرتے تھے، وہ فی الحقیقت اب چین میں نہیں رہے تھے۔ بعض بعض جگہ تو یہ سرحد ڈھائی ڈھائی سو میل آگے بڑھ گئی تھی۔ چینی اشتراکیوں نے جب قوم پرست رہنماؤں کو فارموسا میں دھکیل دیا تو اس وقت بھی یہ سرحد وہیں قائم رہی اور علی بیگ اور حمزہ کا بیان ہے کہ اب تک وہی سرحد قائم ہے۔
لیکن اس عرصے میں خلدزا کے مندوبین صوبائی اسمبلی ارمچی میں اسی مستقل مزاجی سے شریک ہوتے رہے۔ یہ لوگ "ایلی کے باغی” مشہور ہو گئے تھے وہ اب بھی اپنے آپ کو اشتراکی کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ان کا تعلق ہمراہیوں سے کم نہیں تھا۔
جب یہ واقعات پیش آ رہے تھے تو خلدزا اور تار باغتائی علاقوں سے تمام قازق باشندے ترک وطن کر کے نہیں چلے گئے تھے، کچھ تعداد ان کی ضرور چلی گئی تھی۔ آزاد قازق تئین شان پہاڑوں کے شمال ڈھلانوں پر اب بھی قابض تھے اور آزادی سے عثمان بطور سے ان کے نئے صدر مقام قزل چالابیل میں اپنا تعلق قائم کیے ہوئے تھے لیکن اب پورا الطائی ان کے لیے کھلا ہوا نہیں تھا اور دریائے مناس کے مشرق کے علاوہ تئین شان کی پہاڑیوں سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ اس علاقے میں بہت سے قازقوں کے پڑاؤ تھے اس لیے اس کا چھن جانا ان کے لے بہت اہم معاملہ تھا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ ان کی رہائش کی جگہ سکڑتی چلی جا رہی تھی، آزاد قازق مستقبل کی طرف سے مطمئن اور خوش تھے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نان کنگ سے بالآخر اجازت آ گئی تھی کہ چین کی باقاعدہ افواج میں قازق لشکروں کو شامل کر لیا جائے۔ قازق لشکر عثمان بطور کی کمان میں دے دیا گیا تھا اور عثمان نے حمزہ کو فوراً طلب کیا تھا کہ وہ ان تین رجمنٹوں کو لے کر آ جائے جو روسیوں سے بغاوت کر کے ان میں آن ملی تھیں۔ حمزہ کی عمر اس وقت صرف پچیس سال کی تھی اور وہ چینی باقاعدہ فوج میں کرنل بن چکا تھا۔
اس طرح تقویت پا کر عثمان بطور اب اتنا قوی ہو گیا تھا کہ روسیوں اور منگولوں کو بائتک بوغدو اور الطائی سے نکال باہر کرنے کی ایک اور کوشش کر دیکھے۔ جاڑے کا زمانہ تھا اور قازقوں کو عادت تھی کہ موسم چاہے کیسا ہی ہو اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر علاقے میں گھومتے پھریں۔ یہی عادت ان قازقوں کی بھی تھی جو روسیوں کی تربیت پانے کے باوجود روسیوں سے باغی ہو کر آ گئے تھے۔ عثمان نے اپنے آدمیوں کو آگے بھیج دیا تاکہ جتنے علاقے کو اپنے قبضے میں لے سکیں لے لیں اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جب گرمیاں آنی شروع ہوں گی تو اس کے ساتھی اوپر کے پہاڑی علاقوں میں جانا چاہیں گے کیونکہ وہ اپنے جانوروں کو نیچے کی زمینوں میں صرف جاڑوں ہی میں چرا سکتے تھے۔
یہ پہلا اتفاق تھا کہ اس نے اپنے آدمیوں کی رہنمائی جنگ میں خود نہیں کی بلکہ اس کی کمان اپنے بیٹے شیر درماں کو سونپی۔ ٧ دسمبر ١٩٤٧ء کو جب یہ فوج آٹھ دن کی گھڑ سواری کے فاصلے پر دشمن کی ایک چوکی پر حملہ کر رہی تھی، دشمن کے تقریباً سو سواروں کے ایک دستے نے خود عثمان پر کیو چنگ کے قریب اچانک چھاپہ مار دیا۔
یہ واقعہ قازقوں کا ایک کارنامۂ شجاعت بن گیا ہے۔ عثمان بطور اس وقت اپنے نمدہ دار خیمے میں مقیم نہیں تھا بلکہ ایک گھر میں رہتا تھا۔ یہ ایک منزلہ عمارت تھی جس کے چاروں طرف مٹی کی کچی دیوار کھینچی ہوئی تھی۔ دیوار ایک گز موٹی تھی اور اس میں ایک مضبوط سیخوں کا پھاٹک لگا ہوا تھا۔ عثمان نے اتفاقاً ایک صبح کو ٩ بجے کھڑکی میں سے دیکھا کہ چند مسلح آدمی اس پھاٹک کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت تک اسے سان گمان بھی نہیں تھا کہ دشمن کہیں قریب ہی موجود ہے اور جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا سوائے اس دستے کے اس سارے علاقے میں دشمن کہیں بھی نہیں تھا۔ عثمان خود اس قسم کے متعدد حملے دشمنوں پر کر چکا تھا اس لیے رائفل اس کے قریب ہی ہمیشہ رکھی رہتی تھی۔ داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو بھاگ کھڑے ہونے کا بھی وقت نہیں ملا اور ان میں سے دو آدمی سر میں گولی کھا کر مر گئے۔ جو باقی بچے وہ جلدی سے منتشر ہو گئے۔
عثمان کے ساتھ اس وقت اس کے گھر میں اس کی بیوی تھی، ان کی چھ سال کی ایک بچی تھی اور ایک ملازم۔ یہ ملازم بھی مشین گن چلانے میں مشاق تھا اور خوش بختی سے اس کی مشین گن بھی اس کے پاس ہی تھی۔ یہ مکان ایک تنہا مقام پر تھا اور یہاں مدد پہنچنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ عثمان کی بیوی کے پاس ایک خودکار طمنچہ تھا۔ خود عثمان کے پاس اپنی رائفل تھی اور بہت ساری گولیاں تھیں۔ دن کی روشنی میں یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ دشمن دیوار پھلانگ کے یا پھاٹک توڑ کر اندر آ جائے۔ رات پڑے پیچھے البتہ اس کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔
مٹی کی دیوار میں سے گولی آر پار نہیں جا سکتی تھی اس لیے دونوں مرد، عورت اور لڑکی سب مل کر گھومتے پھرے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد دیوار پر سے جھانک لیتے کہ دشمن دیوار پر چڑھنے کی کوشش تو نہیں کرتا یا کوئی سرنگ تو نہیں بنا رہا۔ جب ان میں سے کوئی دشمن کو دکھائی دے جاتا تو ادھر سے گولیاں چلنے لگتیں اور دو گولیاں ایسی بری چلیں کہ ایک سے مشین گن چلانے والا بری طرح زخمی ہو گیا اور دوسری گولی سے لڑکی مر گئی۔ انھوں نے لڑکی کو دفن کر دیا مگر گہری قبر نہیں کھود سکے کیونکہ برف جمی ہوئی تھی اور زخمی مشین گن چلانے والے کو ایسی جگہ سہارے سے بٹھا دیا جہاں سے وہ اب بھی پھاٹک میں سے آنے والے پر گولی چلا سکتا تھا۔
اسی عرصے میں عثمان اور اس کی بیوی نے اپنے گھوڑوں کے خاردار نعل باندھ دیے تاکہ جمی ہوئی برف پر ان کے پاؤں نہ پھسلنے پائیں۔ ٹھہر ٹھہر کر عثمان دیوار کے اس پار دیکھ لیتا اور اگر کوئی اسے نظر آ جاتا تو اس پر تڑا تڑ گولیاں چلا دیتا۔ عثمان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا اور ہمیں یہ مان لینے میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے موقعوں پر تو عثمان چوکتا ہی نہیں ہوگا۔
جب عثمان اور اس کی بیوی نے جانچ لیا کہ کافی اندھیرا ہو گیا ہے تو انھوں نے مشین گن چلانے والے کو خدا حافظ کہا۔ وہ بے چارہ اتنا شدید زخمی ہو گیا تھا کہ ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔ دونوں نے اپنے گھوڑوں پر زینیں کسیں اور ایک دم سے پھاٹک کھول کر برف جمی ہوئی زمین پر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ چند دشمنوں نے ان کا پیچھا کیا لیکن عثمان نے اپنے زین پر گھوم کر ان میں سے کئی ایک کو گولی کا نشانہ بنایا اور جو باقی بچے وہ واپس چلے گئے۔ جب وہ دشمنوں کی زد سے باہر ہو گئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے۔
چند روز بعد جب عثمان واپس آیا تو اسے جلے ہوئے کھنڈر کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اسی میں اسے مشین گن چلانے والے کی جلی ہوئی لاش ملی۔ لیکن نہ معلوم کیوں دشمن کا دستہ اب بھی قرب و جوار میں موجود تھا۔ عثمان بطور کے محافظوں نے دستے کا پیچھا کیا اور بہت سوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ ان میں سے بعض منگول تھے بعض روسی وردیاں پہنے قازق تھے اور بعض روسی تھے۔
قازق سردار کو مار ڈالنے یا زندہ گرفتار کر لینے کی کوشش ناکام رہی لیکن اس حملے کی خبر سنتے ہی اس کے لوگ اس کی حفاظت کرنے کے لیے الطائی سے جلدی جلدی آنے لگے۔ اس امر پر یقین کرنے کے وجوہ ہیں کہ اس حملے کا منصوبہ ارمچی میں روسی طرف داروں نے بنایا تھا۔ جس دن عثمان کے گھر پر حملہ ہوا اسی دن ارمچی میں اعلان کر دیا گیا تھا کہ عثمان بطور مارا گیا۔ معمولی حالات میں یہ خبر دار الحکومت میں کئی دن میں پہنچتی۔ اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اشتراکی جاسوس بہت باخبر رہتے تھے۔ مناس میں علی بیگ کو بھی یہی اندیشہ ہو چلا تھا اور اسے اور عثمان بطور کو یقین ہو چلا تھا کہ جو تین رجمنٹیں آزاد قازقوں سے آ ملی تھیں ان میں بہت سے جاسوس بھی شامل ہیں۔
قازقوں کو جن پر اشتراکی ہونے کا شبہ ہوتا ان سے گڑھے کھدواتے اور ان میں انھیں قید کر دیتے۔ جب وہ کیچڑ پانی میں ہتھکڑیاں لگے پڑے رہتے اور انھیں کئی دن اسی طرح سے گزر جاتے تو انھیں رسیاں ڈال کر باہر نکالا جاتا تاکہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور اپنے ساتھیوں کا نام بتائیں۔ سزا کا یہ بڑا پرانا طریقہ تھا جس میں گناہگار کے ساتھ بے گناہ بھی پھنس جاتا۔ لیکن ان کے مخالفین اشتراکی جو طریقے اختیار کرتے تھے وہ بھی ان سے کچھ بہتر نہیں تھے۔ وہ جسمانی اذیت کے ساتھ ذہنی اذیت بھی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ اشتراکیوں کا عام وطیرہ یہ تھا کہ ملزم چاہے اقرار کرے یا نہ کرے۔ چاہے گناہگار ہو چاہے بے گناہ، آخر میں میں اس کی گدی میں گولی مار دی جاتی۔ مردہ باتیں نہیں کرتا۔ جنھیں قازق گڑھوں میں قید کرتے ان میں سے چند کو مار ڈالتے یا انھیں بھی مار ڈالتے جنھیں خود کچھ کرتے دیکھ لیتے اور ان پر مقدمہ چلانے کی ضرورت نہ سمجھتے۔ جو باقی بچتے انھیں چھوڑ دیتے۔ جو لوگ سخت مصیبتوں میں پھنس جاتے ہیں وہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کا تدارک سختی سے کریں۔ قازق جانتے تھے کہ اگر ہم نے ہتھیار ڈال دیے تو ہمارا کیا حشر ہوگا۔ قازقوں کو علم تھا کہ اشتراکی جاسوس ہمارے طرزِ زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اس لیے انھوں نے بہت سے جاسوسوں کا پتہ چلا لیا مگر سب کا پتہ پھر بھی نہ چلا سکے۔
آٹھواں باب
ناگہانی انقلاب
اپریل ١٩٤٨ء میں چیانگ کائی شیک دوبارہ ریاست چین کا صدر اعلی نامزد ہوا تو نان کنگ میں اس کے اعزاز میں جو جشن منایا گیا اس میں شرکت کرنے کے لیے قازق نمائندہ حمزہ اور عثمان بطور کا بیٹا شیر درمان منتخب کیے گئے۔ حمزہ کی عمر اب چھتیس سال کی تھی اور شیر درمان اس سے دو ایک سال چھوٹا تھا۔ حمزہ چینی زبان روانی سے بول سکتا تھا لیکن شیر درمان چینی میں بات چیت نہیں کر سکتا تھا۔
جلسوں سے جب بھی فرصت ملتی تو شیر درمان اور حمزہ نان کنگ میں اپنا بیشتر وقت جنرل پائی چنگ سی سے مشورے کرنے میں گزارتے۔ یہ جنرل چینی وزیر جنگ تھا اور اس نے چین کے تمام مسلمانوں کو متحد کرنے کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ خصوصاً غیر چینی قازقوں اور ترکیوں اور چینی تن گنوں کو ایک کرنے کا۔ انھیں منظم کر کے اشتراکیوں کے خلاف ایک متفقہ فوج بنانی تھی جو مغربی رخ سے حملہ آور ہو۔ اشتراکی روز بروز قوت پکڑتے جا رہے تھے کیوں کہ انھیں کچھ مدد تو سوویت حکومت سے مل رہی تھی اور کچھ نان کنگ کے باہمی اختلافات سے۔ شمالی مغربی صوبوں کے کل مسلم مندوبین جنرل پائی کے زبردست حامی تھے اور اپنی بستیوں کی طرف سے اسے پوری مدد کا یقین دلا رہے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں انھیں معلوم ہوگیا کہ کومنٹنگ کی کونسلوں میں جنرل پائی کا اثر زائل ہوتا جا رہا ہے اور جنرل اسیمو کے ساتھ جو گروہ اشتراکیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا حامی تھا، زیادہ با اثر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شمال مغربی صوبوں سے جو مسلمان آئے تھے بالخصوص سنکیانگ سے انھوں نے مقدور بھر کوشش یہ سمجھانے کی کی کہ اس مل جل کر رہنے سے ان پر کیا گزر چکی تھی۔ شنگ کی خفیہ پولیس، لال ڈاڑھی والوں کے مظالم، غلامی، عملاً صوبے کو سوویت یونین کے حوالے کر دینا، ساتھ نہ دینے والے رہنماؤں کا غائب ہو جانا، مذہبی جبر، خاندانی زندگی کی بربادی۔
ایک سفید ریش بزرگ نے اس کی حقیقت ہم سے ایک تشبیہی قصے کی صورت میں یوں بیان کی:
“مل جل کر رہنا اس کویل کی طرح ہے جو کسی دوسرے پرندے کے گھونسلے میں اس کے انڈوں کے پاس اپنے انڈے اطمینان سے دے دینے کا حق جتاتی ہے۔ پھر جب کویل کے انڈوں میں سے بچے نکل آتے ہیں اور پر پرزے نکال لیتے ہیں، وہ اس پرندے کے بچوں کو گھونسلے سے باہر نکال پھینکتی ہے جس کے ساتھ وہ مل جل کر رہتی رہی اور پرندے کے بچے زمین پر گر کر مر جاتے ہیں اور آرام سے سو جاتے ہیں کیوں کہ مر جاتے ہیں اور گھونسلے میں بھی پھر امن ہو جاتا ہے۔”
لیکن حمزہ کا بیان یہ ہے کہ جتنی گفتگو اس موقع پر ہوئی وہ ساری کی ساری سیاسی جوڑ توڑ پر ہوئی۔ کوئی قوی عملی شکل ایسی اختیار نہیں کی گئی جو قازقوں کی مرضی کے مطابق ہوتی۔ لہذا جب شیر درمان اور حمزہ چینی دار الحکومت میں دو مہینے ضائع کرنے کے بعد ارمچی واپس آئے تو انھوں نے آکر اپنے سرداروں کو بتایا کہ کومنٹنگ سے کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی:
“وہ ایک دوسرے سے باتیں بناتے ہیں اور سودے بازی کرتے ہیں اور بازاری دکان داروں کی طرح باتیں کرنے میں انھیں مزہ آتا ہے۔ اگر ان کی قیمت کافی لگ جائے تو ان میں سے کئی خود بک جانے کو تیار ہیں۔ اگر یہ لوگ اور ان کے چند امریکی مشیر بھی ہماری طرح نو سال شنگ کی عمل داری میں رہے ہوتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ اشتراکی قیمت اچھی خاصی لگاتے ہیں لیکن جب وہ ان کی آمادگی دیکھ لیتے ہیں اور ان کی بولی کام کر جاتی ہے تو وہ سب کچھ واپس لے لیتے ہیں لیکن جب نان کنگ میں ہم نے انھیں یہ باتیں بتائیں تو انھوں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔”
ان دونوں نوجوان قازقوں کو اپنے گھر واپس آئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ان پر پہلی ضرب پڑ گئی۔ نان کنگ سے جنرل سنگ سی لیئن کو واپس آنے اور اس کے بدلے جنرل تاؤ تزیو کو چینی فوجوں کی کمان سنبھال لینے کے احکام جاری ہو گئے۔ حمزہ اور شیر درمان نے اس کے یہ معنی نکالے کہ وزیر جنگ جنرل پائی گومنتانگ سیاست دانوں سے لفظی جنگ ہار گیا اور سرحدی تنازعات کے لیے جنرل شنگ کی سرکردگی میں متفقہ کارروائی کرنے کی جو پالیسی طے ہوئی تھی اس کے بدلے مشرقی ترکستان میں مصالحتی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ حالانکہ چین کا یہی وہ حصہ تھا جہاں سوویت حکومت آسانی سے اشتراکیوں کی مدد کر سکتی تھی اور کر رہی تھی۔
علی بیگ نے حمزہ سے پوچھا: “اس تاؤ سے ہم کیا توقع رکھیں۔ جنرل سنگ کو ہم جانتے پہچانتے ہیں اور اس نے ہمارے آدمیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کہ اس نے انھیں ہتھیار دیے، کم سہی، کیوں کہ خود اس کے پاس زیادہ نہیں تھے اور اس نے ہم پر بھروسا کیا۔ لیکن یہ تاؤ کیا کرے گا؟”
حمزہ نے نفرت سے کہا: “یہ کرے گا کیا ہمیں ہتھیار واپس کرنے کا حکم دے گا اور پھر شاید یہ ہتھیار اس اندیشے سے اشتراکیوں کے حوالے کر دے گا کہ وہ انھیں ہمارے قبضے میں دیکھ کر ناراض نہ ہوں۔”
علی بیگ نے کہا: “اگر اس نے اپنے ہتھیاروں کا مطالبہ کیا تو دیکھنا میں کیسا جواب دیتا ہوں۔”
جنرل تاؤ نے وہی کیا جس کی پیشین گوئی حمزہ نے کی تھی۔ اس نے بیان دیا کہ باقاعدہ چینی فوج میں جس حکم کے مطابق قازق بھرتی کیے گئے تھے اسے اس کے پیش رو جنرل سنگ نے غلط سمجھا تھا۔ جنرل تاؤ نے یہ بھی بتایا کہ معاہدۂ ایلی نے مقامی قوموں کو یہ حق دیا تھا کہ اپنی مقامی فوج میں جسے چاہیں بھرتی کریں۔ اصل صورت حال چونکہ یہ تھی اس لیے ہتھیار واپس کیے جانے چاہئیں اور وردیاں بھی۔ اگر قازقوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہو تو انھیں مقامی حکومت سے یہ چیزیں حاصل کرنی چاہئیں، لیکن اس نے یہ بھی کہا کہ اشتراکیوں اور کومنٹنگ کے درمیان ایک پر امن فیصلہ تمام اختلافات کا ہونے والا ہے، اس لیے ہتھیاروں کی چنداں ضرورت ہی نہیں تھی۔
یہاں یہ بات بھی سن لیجیے کہ جب اشتراکیوں نے اقتدار حاصل کر لیا تو جنرل تاؤ ارمچی ہی میں رہا اور اس کا رتبہ انھوں نے بڑھا دیا۔
ارمچی میں جب تاؤ آیا تو اس وقت چینی لشکر کی قازق فوجیں عثمان بطور کی سرکردگی میں سوویت اور منگولی حملہ آوروں سے لڑی رہی تھیں۔
عثمان بطور دراصل چینی حکومت کی فوجوں کو حملہ آوروں کے مقابلے میں جنرل تاؤ کی اعلی کمان میں لا رہا تھا۔ اس کے علاوہ جس وقت تاؤ نے یہ کہا کہ اب قازق چینی باقاعدہ فوجوں میں شامل نہیں رہے اس وقت سوویت حکومت نے علاقۂ الطائی کو مع اس کے قیمتی معدنیات کے ممنوع علاقہ قرار دے دیا تھا اور اس کی سرحد کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا تاکہ پرچول کرنے والی آنکھیں یہ نہ دیکھ سکیں کہ چینی علاقے میں سوویت کان کن کیا کر رہے ہیں۔
علی بیگ اور حمزہ کے بیان کے مطابق سوویت حکومت اب بھی الطائی پر قابض ہے (اسے انھوں نے سائبیریا کے الطائی صوبے میں شامل کر لیا ہے)، اس کے علاوہ خلدزا اور تار باغتائی کے بہت سے علاقے بھی روسیوں کے قبضے میں آ چکے تھے۔ حالانکہ چیانگ کائی شیک چین سے باہر نکال دیا گیا تھا اور اس کے بدلے اشتراکی ماوزی تنگ وہاں حکومت کر رہا تھا۔
جنرل تاؤ کے طرز عمل نے مشرقی ترکستان کی تمام مقامی قوموں کو یقین دلایا کہ کومنتانگ حکومت سے کوئی توقع مدد کی نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب قومیں ایک دوسرے سے قریب ہونے لگیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ اگست ١٩٤٨ء میں علی بیگ نے محسود صابری کو تمغۂ ابلائی خاں دیا۔ یہ محسود صابری حکومت کا ترکی صدر تھا اور پہلا غیر قازق تھا جسے یہ اعزاز ملا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ جو تمغا اسے ملا وہ ١٩٤٥ء کی طرح صرف تمغۂ آزادی نہیں کہلاتا تھا بلکہ اسے ابلائی خاں سے موسوم کیا گیا تھا جو قازق تاریخ میں روسیوں سے شروع انیسویں صدی میں لڑ کر شہرت حاصل کر چکا تھا۔
قازقوں سے محسود صابری کو تمغا ملے تین مہینے ہوئے تھے کہ چینی ساتھ رہنے والوں نے جوڑ توڑ کر کے اسے صدارت کی جگہ سے ہٹوا دیا۔ اس کے بعد سے عملاً صوبۂ سنکیانگ مرکزی حکومت کے زیر اثر نہیں رہا۔ اس کی قسمت اب جنرل چانگ کے ہاتھ میں تھی جو شمال مغربی چین کے جنرل اسیمو کے مصالحتی صدر دفتر کا ناظم اعلی تھا۔ خود جنرل چانگ جنرل تاؤ کی طرح بالکل یقین رکھتا تھا کہ کچھ ہی عرصے میں اشتراکی قابض ہو جائیں گے۔ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے انتظامات کر لیے۔ علی بیگ کا کہنا تو یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جنرل چانگ نے درخواست کی تھی کہ ارمچی میں جنرل تاو کو متعین کر دیا جائے کیونکہ وہ روسیوں کے ساتھ اچھی نباہتا ہے۔
محسود صابری کے بعد صدارت پر برہان شہیدی فائز ہوا۔ اس کے متعلق اس سے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جنرل تاؤ اور جنرل چانگ کی طرح وہ اس وقت بھی بدستور صدر رہا جب اشتراکیوں نے ارمچی پر قبضہ کر لیا اور کھلم کھلا عنان حکومت سنبھال لی۔ صوبے کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے پہلا کام برہان شہیدی نے یہ کیا کہ عثمان بطور اور علی بیگ دونوں کو ریاست کا دشمن قرار دے دیا۔ لیکن جتنا سخت یہ اعلان تھا اتنی سخت گیری سے اس پر عمل کرنے کی اس میں قوت نہیں تھی۔ اس لیے دونوں کے نمائندے بے روک ٹوک ارمچی میں آتے جاتے رہے اور ان مسلمان ممبروں سے ملتے رہے جو صوبائی حکومت میں شامل تھے اور ترکستان کی خود مختاری کی حمایت کرنے پر اب بھی قائم تھے؛ ان میں سب سے نمایاں قازق سردار سعالی سکریٹری جنرل اور جانم خاں وزیر مالیات تھے۔ قازق ان دونوں کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی وجوہ حسب موقع پیش کی جائیں گی۔
۱۹۴۸ء میں جنرل تاؤ اور برہان شہیدی کے بر سر اقتدار آجانے سے جو کچھ آئندہ ہونے والا تھا اس کی پرچھائیں مستقبل پر صاف دکھائی دینے لگیں۔ ۱۹۴۸ء کا سال دوسرے ملکوں کے لیے جو مشرقی ترکستان سے بہت دور تھے نہایت ہنگامہ خیز تھا۔ کیونکہ یہ ۱۹۴۸ء ہی تھا جس میں سوویت حکومت نے پراہا میں اشتراکی ناگہانی انقلاب برپا کرایا اور ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ اور پولینڈ کی اشتراکی ٹولیوں کو شہ دی کہ غیر اشتراکی ٹولیوں کے اس کابوس سے نجات پائیں جس سے جرمنوں کے اخراج کے بعد سے وہ اتحاد کیے ہوئے تھیں۔ مختصر یہ کہ جب یورپ میں اشتراکی ساتھ رہنے کے زمانے کو اس طرح ختم کر رہے تھے کہ یا تو اپنے ہم آشیاں کو نگل لیتے یا انھیں آشیاں سے باہر دھکیل دیتے تو چین کے اشتراکی بھی انھی کی پیروی کی تیاریاں کر رہے تھے۔
مارچ ۱۹۴۹ء تک قازقوں اور ترکوں کی آزادی کے لیے اشتراکی خطرہ کوئی سایہ نہیں رہا تھا بلکہ ایک تیزی سے قریب آتی ہوئی حقیقت بن گیا تھا۔ لہذا علی بیگ نے ایک بار پھر کوشش کی کہ ترکستانی مسلمانوں سے جن میں وہ تن گن دستے بھی شامل تھے جو اب تک چینی باقاعدہ فوج میں شامل تھے اشتراکیوں کے خلاف ایک محاذ قائم کرے۔ ان کے کماندار جنرل ماچنگ ہسیانگ نے اس تجویز کو پسند کیا لیکن یہ کہا کہ چونکہ جنرل پائی نان کنگ میں اپنا اثر کھو چکا ہے اس لیے ایسے اقدام میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اس نے قازقوں کے اس شبہ کی تصدیق کی کہ چینی مصالحتی ناظم اعلیٰ جنرل چانگ جس کا صدر دفتر لانچاؤ میں تھا غیر مصالحتی افسروں کو لانچاؤ سے آنے جانے نہیں دیتا تاکہ نان کنگ جاکر جنرل چیانگ کائی شیک سے حقیقت حال نہ کہہ دیں یا ارمچی میں جنرل تاؤ کے اقتدار کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اس طرح اُرمچی کا زمینی اور ہوائی تعلق چین سے بالکل منقطع ہوگیا تھا۔ جنرل تانگ یا جنرل تاؤ کے ساتھ مل کر رہنے کے نظریے سے جس کسی کو بھی اختلاف ہوتا وہ ارمچی میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔
جنرل تاؤ کے جاسوسوں نے قازقوں اور تن گنوں کی گفتگو کا پتہ چلا لیا اور جنرل ما کے پاس فوراً حکام آگئے کہ ان قازق لٹیروں سے تعلقات منقطع کر لیے جائیں جنھیں ریاست نے دشمن قرار دے دیا ہے۔
جنرل ما جنرل تاؤ کے ماتحت تھا۔ اس لیے احکام ماننے پر مجبور تھا لیکن جب رات آئی تو بہت سے تن گنوں کی رائفلیں اور مشین گنیں اور گولیاں اور ہتھ گولے بھی کسی نہ کسی طرح گیہوں کی بوریوں میں پہنچ گئے اور یہ بوریاں اونٹوں پر لدی ہوئی شہر کے دروازوں پر تاؤ کے پہرہ داروں کی نظروں کے سامنے سے دن دہاڑے گزرتی چلی گئیں۔ ساربانوں نے مناس کا راستہ لیا لیکن شہر پہنچنے سے پہلے، جس پر تاؤ کی فوجیں قابض تھیں، سب سے آگے کے اونٹ کو ایسی راہ پر ہنکا دیا جو پہاڑوں میں چلی جاتی تھیں۔ دوسرے اونٹ چونکہ خانہ بدوشوں کے دستور کے مطابق اگلے اونٹ سے رسی بندھے ہوئے تھے اس لیے جدھر اگلا اونٹ چلا یہ بھی چلے گئے، دوسرا قافلہ بھی پہلے قافلے کے پیچھے ہولیا اور ان کے ساربانوں نے انھیں چلنے دیا۔ کیونکہ ساربان سارے مسلمان تھے۔ اگرچہ سب قازق نہیں تھے، وہ اشتراکیوں سے نفرت کرتے تھے لیکن ان میں سے بیشتر سیدھے سادے آدمی تھے اور جو بھی ان پر جوا رکھنا چاہتا اس کے آگے اپنا سرجھکا دیتے۔ جب علی بیگ کے آدمیوں نے اس خفیہ سامان کو نکال لیا تو گیہوں بھر بوریوں میں بھر دیا اور قافلے کو لوٹا کر پھر شاہراہ پر ڈال دیا۔
اس عرصے میں جنرل ما کے قاصد سفر کرکے خفیہ طور پر پہاڑوں میں علی بیگ کے صدر مقام پہنچے یہ طے کرنے کے لیے کہ اشتراکی جب پیش قدمی کریں تو انھیں کیسے روکا جائے۔ ترکی نمائندے بھی وہاں موجود تھے اور مذاکرات گھنٹوں ہوتے رہے۔ زمین پر ابھی برف پڑی ہوئی تھی کیونکہ مارچ ہی کا مہینہ تھا۔ لیکن نمدے دار خیموں کے اندر خوش گوار گرمی تھی اور کھانے کے لیے سال بھر کے برّے بھی موجود تھے لیکن ماحول کچھ کشیدگی کا تھا۔ جتنے بھی وہاں موجود تھے ان میں سے ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ میں اپنے ساتھی پر بھروسا کرسکتا ہوں یا نہیں؟ کہیں وہ اشتراکی تو نہیں ہے اور اس سے بدتر یہ کہ کہیں ارمچی جا کر بھانڈا تو نہیں پھوڑ دے گا کہ جنگی کونسل نے یہ یہ فیصلے کیے ہیں محض اس امید پر کہ اگر اشتراکی جیت جائیں تو اس صلے میں اس کی جان بچ جائے۔
بہت سوچ بچار اور گفت و شنید کے بعد قازق ترکی تُن گن کی مشترکہ جنگی کونسل نے فیصلہ کیا کہ ہماری فوجوں کا اجتماع کارا شہر اور توکسن کے درمیان کیا جائے۔ یہ دونوں شہر تئین شان پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں پر ہیں۔ لانچاؤ کے روبرو اور اشتراکیوں کی پیش قدمی ادھر ہی سے ہو سکتی تھی۔ تن گنوں کے لیے یہ کام بہت سہل تھا۔ کیونکہ ان کے بیشتر مسلح آدمی ارمچی میں تھے اور ایک سڑک بھی موجود تھی۔ ترکیوں کے لیے بھی اس میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ کیونکہ ان کے لیے لڑنے والے آدمی ہی کم تھے۔ لیکن علی بیگ اور اس کے قازقوں کے لیے اس کا یہ مطلب تھا کہ تئین شان کے شمالی رخ پر ان کے جو روایتی مسکن تھے انھیں چھوڑا جائے۔ یہ صحیح ہے کہ علی بیگ اور حمزہ کی ۱۹۴۴ء کی بغاوت میں قازقوں اور چینیوں کی جو لڑائی مناس میں ہوئی تھی اس کے بعد قزل ازون کی وادی چھوڑ کر چلے آئے تھے۔ لیکن وہ پہاڑوں کے شمال ڈھلانوں پر رہتے رہے اور جب چاہتے واپس بھی چلے جاتے۔اب انھیں سلسلۂ کوہ کو عبور کر کے دوسری طرف جانا اور اپنے لیے مسکن تلاش کرنا تھا اور اپنے ریوڑوں اور گلوں کے لیے ایسے علاقے میں چراگاہیں ڈھونڈنی تھیں جہاں بارش نسبتاً بہت کم ہوتی تھی اور سوائے خدا کے کسی کو علم نہیں تھا کہ اب آئندہ پھر واپس آنا کب نصیب ہوگا۔
علی بیگ نے ایک سرسری سا نقشہ اس راستے کا بنایا، جس پر تارکین وطن کو اپنا طویل سفر کرنا تھا۔ انھیں اس کے متعلق کچھ نہیں معلوم تھا کہ کب یہ سفر شروع کرنا پڑ جائے گا۔ اس کا بیٹا حسن انگریزی بولتا اور لکھتا ہے۔ کشمیر میں اس نے انگریزی سیکھی تھی۔ اس نے اپنے باپ کی ہدایتوں کے مطابق مقاموں کے نام لاطینی حروف میں لکھے۔ یہ سفر اپریل کے وسط میں شروع ہوا جب برف اتنی پگھل گئی کہ قازق اپنے لدے ہوئے جانوروں کو اس عظیم سرمایۂ آب پر سے گزار لے جائیں جو پندرہ ہزار فٹ اونچی دیوار کی طرح ڈیڑھ سو میل تک چلا جاتا ہے اور اس میں کہیں بھی اتنا شگاف نہیں ہے کہ کوئی اس میں سے گزر جائے۔ دورانِ سفر میں ان کے مشرق کو وہ تین دیو آسا برف پوش چوٹیاں تھیں جو سطح سمندر سے اکیس ہزار فٹ اونچی تھیں اور قازقوں اور ان کے ریوڑوں اور ان کے شاہین سے شکار کھیلنے والے گروہوں کو سدا سے دیکھتی چلی آئیں تھیں۔
بیشتر راہ انھیں بغیر کسی سڑک کے طے کرنی پڑی اور جانوروں کے لیے چلنا بڑا مشکل ہورہا تھا کیونکہ ان پر خیمے اور گھریلو سامان لدا ہوا تھا۔ اسی میں علی بیگ کی وہ بڑی سی آہنی دیگ بھی تھی جسے اونٹ کی پیٹھ پر رکھنے کے لیے چھ قوی آدمیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ اپنے سفر میں وہ کارا تاؤ — کالے پہاڑوں — میں سے گزرے، یہ پہاڑ تئین شان سلسلۂ کوہ کا ایک حصہ ہیں۔ پھر زورِمتی، اُستی، اُش تاثیر کائی اور کیو کلوک سے گزرے۔ ان میں سے جہاں تک ہمیں علم ہے صرف کیو کلوک نقشوں میں درج ہے۔ اسی کیو کلوک میں چینیوں سے بوکو بطور اپنی آخری سے پہلی لڑائی لڑا تھا۔ کیو کلوک کے معنی ہیں “گھاس کی جگہ”۔ یہ مقام کیوک تاؤ یعنی نیلے پہاڑوں میں ہے۔ کیو کلوک کے قریب وہ اس سڑک پر آ گئے جو اُرمچی سے طُرفان کو جاتی ہے۔ طُرفان دنیا کا سب سے نیچا آباد شہر ہے جو سطح سمندر سے کم و بیش ایک ہزار فٹ نیچا ہے۔
علی بیگ ابھی کیو کلوک پہنچا ہی تھا کہ اسے اطلاع ملی۔ دو سب سے اہم ترکی سردار عیسیٰ بیگ اور محمد امین بغرا جو وزیر نو تعمیرات اور ڈپٹی سکریٹری جنرل تھے، خفیہ طور پر اُرمچی سے فرار ہو گئے تھے کیونکہ انھیں یقین ہو گیا تھا کہ اب حالات بد سے بدتر ہی ہوتے جائیں گے۔ ان دونوں سے یہ توقع تھی کہ اشتراکیت کے خلاف جو متفقہ محاذ بنایا جائے گا اس میں یہ بھی شریک ہوں گے، اس لیے ان کا چلا جانا اس محاذ پر ایک کاری ضرب تھی۔ ان کے ساتھ ارمچی کے کوئی چار سو باشندے اور ان کے بال بچے بھی چلے گئے۔ اس پارٹی کے پاس کسی قسم کے ہتھیار نہیں تھے اور جب پندرہ چینی اشتراکی سپاہیوں کے ایک گشتی دستے نے انھیں کشمیر کی سرحد پر جا لیا تو انھوں نے ان میں سے بہت سوں کو لوٹ کر جانے پر رضامند کر لیا لیکن عیسیٰ بیگ اور محمد امین واپس چلنے پر رضامند نہیں ہوئے۔ اس لیے انھیں اپنے گھر والوں کے ساتھ سفر جاری رکھنے کی آزادی دے دی گئی۔ ابھی صرف اپریل ہی تھا اور قراقرم پہاڑ جن پر سے ان کا راستہ تھا، سطح سمندر سے اٹھارہ ہزار فٹ بلند تھے اور ان پر گہری تازہ برف پڑی تھی، ان پر سے بھی وہ کسی نہ کسی طرح گزر گئے۔ لیکن محمد امین کی بیٹی سردی کی تاب نہ لا کر مر گئی۔ وہ، اس کی بیوی اور بیٹا پہلے کشمیر کے صدر مقام سری نگر گئے۔ یہاں کئی سال رہے پھر استنبول چلے گئے۔ عیسیٰ بیگ آخر میں فارموسا چلا گیا۔ اگر آپ یہ پوچھیں کہ چینی اشتراکی فوج جہاں لڑ رہی تھی، اس سے ایک ہزار میل دور اشتراکی گشتی دستے نے ان بد نصیبوں کو کیسے جا لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ روسی سرحد کا فاصلہ صرف پچاس میل تھا۔
اشتراکیوں کے خلاف متحدہ محاذ میں ترکیوں کی شمولیت کی امید ایک دم سے یوں ختم ہو گئی۔ ١٥ اپریل ١٩٤٩ء کو علی بیگ نے ایک اور جنگی مجلس شوریٰ طلب کی۔ یہ اجتماع خالص “حر الطائی” تھا چنگیز خاں کے نمونے پر، کیونکہ اس میں صرف قازق شامل تھے۔ حر الطائی نے علی بیگ کو اپنا سردار چُنا اور سب کی رائے یہ ہوئی کہ وہ کیوچنگ جا کر عثمان بطور سے ملے اور اسے متحدہ حملے کے لیے آمادہ کرے تاکہ اُرمچی کو جو دونوں سڑکیں مشرق سے آتی تھیں، انھیں اشتراکی ہشت راہ فوج پر بند کر دیا جائے۔ یہ فوج اس وقت سنکیانگ پر بڑھنے کے لیے کنسو میں جمع ہو رہی تھی۔
اسی زمانے میں اشتراکیوں کے خلاف جو تین قوموں کا مشترکہ محاذ بنایا جا رہا تھا، اس میں تن گنوں کی شمولیت معدوم ہونے لگی۔ عثمان بطور سے ملنے ابھی علی بیگ روانہ نہیں ہوا تھا کہ ایک تن گن نمائندہ اس سے ملنے آیا اور اس نے بتایا کہ جنرل تاؤ چینی لشکر میں سے تن گن فوجوں کو خارج کر دینے کی دھمکی دے رہا ہے اور ان سے ہتھیاروں کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
تن گن نمائندے نے کہا: “اگر ہم ہتھیار واپس کرتے ہیں تو ہمارے ہزاروں آدمی قتل کر دیے جائیں گے، اس لیے ہم اس کا یہ حکم نہیں مانیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اور آپ مل جائیں اور ہماری فوجیں مل کر لڑیں۔ رحم کے لیے پکار پکار کر مر جانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم لڑ کر مر جائیں؟”
علی بیگ اس پر رضا مند ہو گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ تن گنوں کے لیے دو ہی صورتیں ہیں، یا تو حکم کی تعمیل کریں یا پھر بغاوت کریں کیونکہ تاؤ اب بھی چین کی حکومت کا سرکاری نمائندہ تھا۔ تن گن چینی بھی تھے اور مسلمان بھی۔ انھوں نے جنرل ما بڑے گھوڑے کے زمانے میں پہلے بغاوت کی تھی اور شدید نقصان اٹھایا تھا اس لیے علی بیگ سوچ میں پڑ گیا اور وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اب کے وہ کیا کریں گے۔ ان لوگوں کے حالات بہت نازک تھے اور ان کے مسکن چنگھائی اور کنسو کے صوبوں میں تھے، جن کا فاصلہ سات آٹھ سو میل کا تھا۔ آخر میں ان کے جنرل اپنے بال بچوں کو لے کر فرار ہو گئے۔ چھوٹے افسروں اور سپاہیوں کو اشتراکی ہشت راہ لشکر نے اپنے قبضے میں لے لیا اور انھیں اپنی تعلیمات پلا کر محافظ دستوں کی صورت میں تقسیم کر دیا، لیکن ان میں سے بعض نے بغاوت کی، اپنی بارکیں جلا ڈالیں اور ہتھیار اور رسد لے کر قازقوں سے جا ملے۔
اب مشترکہ مسلم محاذ میں صرف قازق رہ گئے تھے۔ گھٹتے گھٹتے اب ان کی تعداد پندرہ ہزار فوجیوں کی رہ گئی تھی۔ حالانکہ خلدزا کی بغاوت کے وقت چالیس ہزار تھی۔ ان کے مقابلے پر چینی اشتراکی پارٹی تھی جو برابر قوت حاصل کرتی رہی تھی۔ اس کی نمائندگی مشہور ہشت راہ لشکر کرتا تھا جس کی ہتھیار بندی اور پشت پناہی سوویت یونین کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بہکائی سکھائی خلدزا قازق فوج بھی تھی جس میں پندرہ ہزار سپاہی تھے اور روسیوں کے راست قبضے میں تھی۔ آخر میں جنرل تاؤ کی سرکردگی میں چینی فوجیں تھیں، جن میں دس ہزار فوجی تھے اور جن سے بھی لڑنے کا حکم افسر دیں ان سے لڑنے کو تیار تھیں۔ لیکن اتنی بے یقینی اور اتنے تفاوت کے باوجود آزاد قازقوں نے ہمت نہیں ہاری۔
مئی ١٩٤٩ء میں جب کیوچنگ کے قریب عثمان بطور کے خیمے میں علی بیگ ملنے گیا تو اس وقت تک دونوں سرداروں پر واضح ہو چکا تھا کہ سوائے اپنے قازقوں کے کسی پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انھیں صاف نظر آ رہا تھا کہ جنرل تاؤ اشتراکیوں سے جا ملے گا۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ یہ کیا کہ عثمان بطور کیوچنگ سے ہٹ کر کارا شہر توکسن علاقے میں چلا جائے جہاں مویشیوں کو موسم گرما میں چارہ مل سکتا تھا اور غنیم کے شدید حملے کرنے پر تئین شان پہاڑوں میں اور بھی اندر ہٹایا جا سکتا تھا۔ پچھلے تجربے کی بنا پر انھیں معلوم تھا کہ وہ یہاں محفوظ رہیں گے اور دشمن انھیں تلاش کر کر کے تھک کر لوٹ جائے گا۔
لیکن جب عثمان بطور نے جنوب مغرب کی جانب کارا شہر جانا چاہا تو اُسے معلوم ہوا کہ جنرل تاؤ کی فوجوں نے راستہ روک رکھا ہے۔ کھلے علاقے میں فراری جنگ کرنے میں اپنے ریوڑوں اور گلوں سے اسے ہاتھ دھونے پڑتے، اس لیے اس نے جنوب مشرق کی طرف مڑ کر بارکل جانے کا فیصلہ کیا۔ بارکل کے معنی ہیں “چیتوں کی جھیل”۔ یہاں طویل سلسلۂ کوہ تئین شان کا پہاڑی مشرقی سرا ہے اور ایک محفوظ کھلی ہوئی جگہ ہے۔ ١٩٣٦ء میں ترکِ وطن کر کے غزکل جانے سے پہلے حسین تجی اور سلطان شریف یہیں رہتے تھے۔ بارکل فصیل دار شہر حامی یا کیومل کے شمال میں ہے، جہاں سے ١٩٤٣ء میں روسی حفاظتی دستہ ہٹا لیا گیا تھا۔ حامی صوبۂ کنسو کی سرحد سے دور نہیں ہے۔ یہیں ہشت راہ لشکر سنکیانگ میں پیش قدمی کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا تھا۔ اشتراکی جن دو راستوں میں سے ایک کے ذریعے آ سکتے تھے اس کے بالکل قریب بارکل تھا اور دوسرے سے کارا شہر دُور نہیں تھا۔ بارکل کے گرد جو پہاڑ ہیں وہ کوئی پندرہ ہزار فٹ اونچے ہیں اور ان میں گرما اور سرما دونوں میں مویشیوں کو چارہ مل سکتا ہے۔
جب کیوچنگ میں علی بیگ عثمان بطور سے مشورہ کر رہا تھا تو دونوں سرداروں نے طے کیا کہ ارمچی واپس جانے پر علی بیگ کو امریکی قونصل ہال پیکسٹن سے ملاقات کرنی چاہیے۔ جہاں تک علی بیگ کی ذات کا تعلق تھا یہ ایک خطرناک مرحلہ تھا کیونکہ صوبائی حکومت نے اس کے دشمن ریاست ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ مسٹر پیکسٹن کے سیاسی مرتبے کے لحاظ سے مسٹر پیکسٹن کا ایسے “بد کردار” شخص کی پذیرائی کرنا نہایت خطرناک بات تھی لیکن اس پر بھی وہ رضامند ہو گئے۔ اس ملاقات کے بارے میں علی بیگ نے کم سخنی سے کام لیا۔ زیادہ اس وجہ سے بھی کہ ١٩٤٩ء کے موسم گرما میں اُرمچی سے جاتے ہی ہال پیکسٹن مر گیا، اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے سے کچھ ہی پہلے۔ لیکن یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ قازق سردار نے اس سے دریافت کیا ہوگا کہ آزاد جمہوریتوں سے قازقوں کی واحد ضرورت – اسلحۂ جنگ – کو پورا کیے جانے کے امکانات ہیں یا نہیں۔ وہ اور عثمان بطور اب بھی سر ونسٹن چرچل کی طرح مطمئن تھے کہ جنگ کے بادل کتنے ہی گھرے ہوئے کیوں نہ ہوں، اگر ہمیں کام کے اوزار مل جائیں تو ہم کام کو ختم کر دیں گے۔ لیکن سمندر پار رسد پہنچانا اور بات ہے، چاہے سمندر آبدوزوں سے بھرا پڑا ہو اور قلب ایشیا میں قریب سے قریب دوست ملک کی بندرگاہ کراچی سے رسد پہنچانا کچھ اور بات ہے۔ ایک تو یہاں سے دو ہزار میل کا فاصلہ، دوسرے دنیا کے سب سے اونچے اور بے راہ پہاڑوں پر سے۔ لہذا ہال پیکسٹن آزادی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ جو پیش کر سکتا تھا، وہ ہمدردی اور مشورہ تھا۔ وہ ہتھیار خریدنے کے لیے قازقوں کو روپیہ بھی پیش نہیں کر سکتا تھا کہ وہ امریکہ کے حریفوں سے ہی ہتھیار خرید لیں۔ لیکن اس وقت تک ارمچی بیرونی دنیا سے بالکل کٹ چکا تھا۔ امریکی اور برطانوی نمائندوں کے پاس اپنے قاصد ملازم بھی نہیں رہے تھے اور ان کی معمولی ڈاک کی جانچ پڑتال بھی لانچاؤ میں جنرل چانگ کے مصالحتی صدر دفتر میں کی جاتی تھی۔
علی بیگ کو مسٹر پیکسٹن نے جو مشورہ دیا اس میں یقیناً یہ بڑی قوی دلیل بھی شامل تھی کہ مقامی قوموں کو اپنے اختلافات دور کر کے اپنے ذرائع یکجا کر لینے چاہئیں۔ اس صورت میں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ وہ سختی سے مزاحمت کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ لیکن یہ مشورہ بہت تاخیر سے ملا اور اس کا رُخ بھی غلط آدمیوں کی طرف تھا۔ ترکی تابِ مقاومت تو اسی وقت ختم ہو گئی تھی جب عیسی بیگ اور محمد امین بُغرا ملک سے نکل گئے۔ دو ایک ترکی جانباز اب بھی باقی تھے جن میں سے ایک شخص یول بارز بطورِ خاص قابل ذکر ہے۔ آگے چل کر ہم حسب موقع اس بارے میں بہت کچھ سُنیں گے۔ تن گن بھی تیزی کے ساتھ ترکیوں کی طرح ناامیدی سے بے دست و پا ہوتے چلے جا رہے تھے۔
جون ١٩٤٩ء میں ہال پیکسٹن سے خفیہ بات چیت کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد علی بیگ نے فیصلہ کیا کہ مسلم محاذ بنانے کی سعیِ لاحاصل سے دست بردار ہو جائے اور ان غیر مسلم منگولوں سے گفتگو کی جائے جو کارا شہر توکسن صوبے میں بڑی تعداد میں موجود تھے اور خود علی بیگ اور اس کے ساتھی بھی یہیں تھے۔ قرب و جوار میں سب سے بڑا منگول سردار کارا شہر کا وانگ تھا۔ یہ ایک زبردست سردار بھی تھا اور اس کی مقامی حیثیت بھی بہت زیادہ تھی۔ ایسے شخص کے ساتھ قدیم آداب و رسوم کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری تھا۔ اس لیے اس کے پاس جانے سے پہلے علی بیگ نے تیس قازق سرداروں کی ایک حُر الطائی طلب کی۔ یہ سردار علی بیگ کی ذاتی رہنمائی کو تسلیم کر چکے تھے۔ انھوں نے پہلے بنیادی سوال پر بحث مباحثہ کیا، اگر ہم اشتراکیت سے لڑیں تو ہمارے لیے جیت جانے کا کیا کوئی موقع ہے۔ سب کی رائے یہ ہوئی کہ جیتنے کا موقع ضرور ہے۔
دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ہم ہار گئے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے بارے میں عموماً رائے یہ تھی کہ اس صورت میں قازق قبیلوں کو اپنے ریوڑ اور گلے تکلا مکان صحرا میں سے گزار کر غزکل کی طرف لے جانے چاہئیں جہاں بوکو بطور نے اپنی آخری لڑائی لڑی تھی۔ اور جہاں ١٩٣٦ء میں حسین تجی اور سلطان شریف نے پناہ لی تھی اور اس وقت سے اب تک محفوظ و مامون رہے تھے۔ جنگی کونسل نے محسوس کیا کہ یہ دور دراز مقام اشتراکیوں کے لیے اس قدر فاصلے پر ہے کہ وہ ان کے لیے اپنے آپ کو زحمت نہیں دیں گے، اور بعد میں جب جبر و تشدد ختم ہو جائے گا جیسا کہ ہر جبر و تشدد ختم ہی ہو جایا کرتا ہے تو ہم اپنے اپنے گھروں کو یہاں سے سدھار جائیں گے۔ ایسی صورتیں کئی بار ان کے آبا و اجداد کے زمانے میں پیش آ چکی تھیں لیکن اب کی بار یہ صورت اب تک پیش نہیں آئی تھی۔
یہ عام فیصلے کرنے کے بعد کونسل نے وانگ کا اتحاد حاصل کرنے کے فوری سوال پر توجہ دی۔ یہ خدمت علی بیگ کے سپرد کی گئی اور تفصیلی ہدایات، آداب و رسوم اور عملی موضوعات مرتب کی گئیں۔ علی بیگ کو اپنے ساتھ دو نہایت عمدہ گھوڑے چھانٹ کر لے جانے اور وانگ کو پیش کرنے تھے۔ اگر ان کے بدلے وانگ نے دو اتنے ہی اچھے گھوڑے علی بیگ کو نہیں دیے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ مرحلہ ختم ہو گیا۔ لیکن اگر ابتدائی باتیں بخیر و خوبی ختم ہو گئیں تو اگلا قدم قسموں اور حلف کے تبادلے کا ہونا چاہیے۔ اس صورت میں وانگ کو اس طرح قسم کھانی پڑے گی کہ اس کا منہ رائفل کی نال پر ہو، ایک کارتوس اس کے سر پر، اگر اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو علی بیگ کو کوئی معقول عذر کر کے گھر واپس آ جانا چاہیے اور قازق سرداروں کے جو جنگی منصوبے ہیں ان کا کوئی تذکرہ وہ اس سے نہ کرے۔ اس موضوع پر جنگی کونسل نے تفصیل سے بحث کی۔ بعض کا خیال تھا کہ وانگ کو کسی صورت میں یہ نہیں بتانا چاہیے کہ قازق میدان جنگ میں اپنے کتنے آدمی لا سکیں گے اور انھیں اشتراکیوں کے خلاف کس طرح استعمال کریں گے۔ یہ بڑی احمقانہ بات ہوگی۔ اوروں کا کہنا یہ تھا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ وانگ تمھیں یہ بتائے کہ وہ کتنی فوجیں دے سکتا ہے اور وہ کس حد تک ہتھیار بند ہیں تو ہمیں بھی اسے اسی قسم کی معلومات مہیا کرنی چاہیے، لہذا علی بیگ کو اس کا اختیار دے دیا گیا کہ سب کچھ وانگ کو بتا دے۔
وانگ نے علی بیگ کا خیر مقدم گرم جوشی سے کیا اور تحفوں اور قسموں کا تبادلہ دونوں کے حسب مرضی ہو گیا۔ وانگ نے اسے بتایا کہ وہ کتنے آدمی دے سکتا ہے اور علی بیگ نے اس سے کہا کہ جب ان کی ضرورت ہوگی تو اطلاع دی جائے گی۔ اس وقت تک وانگ کو اور کچھ نہیں کرنا تھا۔ جب اس کا وقت آیا تو اس وقت بھی وانگ نے کچھ نہیں کیا لیکن دھوکا یا فریب نہیں کیا بلکہ واقعات ہی کچھ اس قدر تیزی سے بدلتے جا رہے تھے۔
وانگ سے یہ ملاقات ٨ جولائی ١٩٤٩ء کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد بظاہر کچھ سکون رہا۔ مگر اشتراکی صوبے کو اپنے قبضہ میں لینے کے منصوبے بناتے رہے۔ ٥ اگست کو ہال پیکسٹن سے ایک اور ملاقات ہونے والی تھی جس میں کل قازق سردار تحریک مقاومتِ متحدہ کی ترقی کی کیفیت اس سے بیان کرنے والے تھے، لیکن وقت کے وقت عثمان بطور نے کہلا بھیجا میں شریک نہیں ہو سکوں گا۔ اس لیے یہ ملاقات ملتوی کر دی گئی۔ اس کے تھوڑے دنوں بعد مسٹر پیکسٹن اُرمچی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے، جاتے ہوئے وہ اپنے اختیارات اپنے نائب قونصل ڈگلس میکیرنن کو سونپ گئے تھے۔
علی بیگ کو اس کی اصل وجہ معلوم نہ ہو سکی کہ عثمان بطور اس ملاقات میں شریک کیوں نہیں ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ اس ملاقات میں کوئی ایسا شخص بھی شریک ہو رہا ہو جس پر عثمان بطور کو اعتماد نہ ہو لیکن اغلب یہ ہے کہ وہ نگرانی کی چوکیوں اور گشتی دستوں کے اس جال سے نہیں نکل سکتا تھا جو تاؤ کی چینی فوجوں نے پھیلا رکھا تھا۔ مصالحتی دستے جسے چاہتے روک دیتے اور صرف ساتھ زندگی بسر کرنے والوں کو گزر جانے دیتے۔ ان دستوں نے علی بیگ کے اس قاصد کو گرفتار کر لیا تھا جسے کارا شہر کے منصوبوں سے آگاہ کرنے کے لیے عثمان بطور کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس بدبخت نے اذیتیں پانے پر راز کی کتنی باتیں بتا دیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اشتراکیوں نے بڑے کامیاب جاسوس لگا رکھے تھے اور انھیں قازقوں کے ارادوں اور نقل و حرکت کی ساری خبریں پہنچتی رہتی تھیں۔
جب اگست ١٩٤٩ء بالآخر ختم ہونے لگا تو چینی قوموں کا اقتدار اُرمچی سے اُٹھ جانے کی صرف تاریخ کا تعین باقی رہ گیا۔ صوبائی صدر برہان شہیدی اور دوسرے خفیہ اشتراکیوں نے اپنے نقلی چہرے اُتار ڈالے تھے اور کھلم کھلا ہشت راہ لشکر کی آمد کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اشتراکیوں کے مخالف جو بھاگ سکتے تھے بھاگ گئے تھے، جو باقی رہ گئے تھے وہ پر تول رہے تھے، جنھوں نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا تھا وہ صبح ڈرتے ڈرتے اٹھتے کہ دیکھیے آج کا دن کیا دکھاتا ہے۔ بہت سی دکانیں بند ہو گئی تھیں۔ بہت سے مکان خالی پڑے تھے۔ اگر گھر والوں کو راہ فرار معلوم ہوتی تو اس سے بھی زیادہ مکان خالی نظر آتے۔
قازق وزیروں میں سے جانم خاں اور اس کے بیٹے دلیل نے بارکل میں عثمان بطور سے جا ملنا طے کیا لیکن اپنے دوستوں تک کو اپنے ارادے کی ہوا نہیں دی۔ کسی نہ کسی طرح وہ چند مسلح آدمیوں کے ساتھ حفاظت سے بارکل پہنچ گئے۔ عثمان بطور کو ایک اور حلیف یول بارز مل گیا تھا۔ یہ وہ قوی ترک تھا جس نے اپنے گرد اشتراکیوں کے مخالفین کا ایک ملا جلا گروہ جمع کر لیا تھا۔ ان میں چند اسی کی طرح کے ترک تھے۔ لیکن زیادہ تر وہ چینی فوجی تھے جنھوں نے اشتراکیت کو قبول نہ کرتے ہوئے تاؤ کی مصالحتی فوجوں سے کنارہ کر لیا تھا۔ یول بارز خود ستر سال کا تھا لیکن اس کی عمر نے نہ تو اس کا حوصلہ کم کیا تھا اور نہ ارادوں کو متزلزل کیا تھا۔
جانم خاں کے سوا بہت سے قازق سرداروں نے ارمچی ہی میں رہ جانا پسند کیا۔ اس خیال سے کہ وہ تئین شان پہاڑوں سے کچھ زیادہ دور نہیں تھی اور اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے پر وہ ان پہاڑوں میں پناہ لی سکتے تھے۔
ستمبر کے دن آہستہ آہستہ گزرتے گئے اور شہر میں کھنچاؤ بڑھتا گیا۔ ہشت راہ لشکر کے آنے میں دیر کیوں ہو رہی تھی؟ جب وہ آ جائے گا تو کیا وہ بھی شنگ اور اس کے لال ڈاڑھی والوں کی طرح ظلم و ستم کرے گا۔ کیا یہ لشکر اپنے ساتھ شنگ کے روسی تربیت یافتہ اور روسیوں کے اشاروں پر چلنے والی خفیہ پولیس اور گمنام درخواستوں کے لیے سفید بکس بھی لائے گا۔ شنگ جس ذاتی کاروبار اور ذاتی ملکیت کو ضبط نہیں کر سکا تھا، اس کا اب کیا ہوگا۔ ان افراد کا انجام کیا ہوگا جنھوں نے ذاتی طور پر سیاسیات میں کبھی حصہ نہیں لیا اور ان کا جنھوں نے حصہ لیا۔ کیا نئے آقا دوبارہ عوامی کاموں کے لیے جبریہ مزدوری اسی طرح کرائیں گے جیسے شنگ نے اپنے زمانے میں کرائی تھی اور اس کے خلاف بہت غم و غصہ پھیلا تھا۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اشتراکیوں کے واقعی بر سر اقتدار آ جانے سے بہت عرصہ پہلے ہی انھیں دور رکھنے کے لیے ارمچی کے باشندوں کی تمام امیدیں مٹ چکی تھیں۔ باہر پہاڑوں میں جو قازق تھے صرف انھی میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ اب باقی رہ گیا تھا اور بہت سے قازق کچھ ایسی حرکتیں کرنے کی سوچ رہے تھے کہ روسی ان سے تنگ آ کر مصالحت کی کچھ شرائط طے کر لیں اور غیر مشروط اطاعت قبول کرنے پر مصر نہ ہوں۔
اشتراکیوں نے جو پہلی چال چلی اس کا کسی کو سان گمان بھی نہیں تھا۔ سارے شہر میں اعلانات چسپاں کرا دیے گئے کہ اگلے دن ہر باشندہ شاہراہ پر جا کر روسی ہوائی اڈے پر جانے والے ہشت راہ لشکر کو خوش آمدید کہے۔ جو شخص بھی صبح دس بجے کے بعد گلیوں یا گھر میں بغیر پولیس کے خاص اجازت نامے کے پایا جائے گا، اسے بغیر کسی مقدمے کے فوراً گولی مار دی جائے گی۔
اس وقت اُرمچی میں تین ہوائی اڈے تھے جو چینی، امریکی اور روسی کہلاتے تھے۔ روسی ہوائی اڈہ شمال مغرب میں تھا۔ شہر کے دروازوں سے کوئی چھ میل دُور اس دار الحکومت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی۔ جنھیں اپنی جان کا خطرہ تھا، وہ سب جا چکے تھے۔ پھر بھی ایک لاکھ تیس ہزار باقی رہ گئے تھے۔ لہذا صبح سویرے ہی سے ہوائی اڈے کی سڑک پر لوگ انبوہ در انبوہ چلے جا رہے تھے؛ بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں بہت سوں کی گودوں میں بچے تھے؛ تندرست اور بیمار، غریب اور امیر۔ ستمبر کا آغاز تھا اور جب سورج چڑھا تو ساری فضا خاک سے اٹ گئی اور سانس گھنٹے لگا، گرمی ناقابل برداشت ہو گئی۔ ہوا بالکل بند تھی اور ایک لاکھ سے زیادہ آدمیوں کے گھسٹتے ہوئے قدموں سے جو خاک اڑ رہی تھی، فضا میں بادلوں کی طرح چھا رہی تھی اور کپڑوں پر برس رہی تھی۔ آزادی دلانے والوں کا استقبال کرنے جو لوگ جا رہے تھے ان کے حلق اور پھیپھڑوں میں یہ خاک گھسی جا رہی تھی۔
یہ انبوہِ کثیر سارے دن ہوائی اڈے پر انتظار کرتا رہا لیکن ہشت راہ لشکر نہیں آیا۔ آخر میں لوگوں کو گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی گئی اور جب وہ تھکے ہارے اور بھوکے پیاسے واپس پہنچے تو تازہ اعلانات نے انھیں خبردار کیا کہ اگلے دن پھر ہوائی اڈے جائیں۔ دوسرے دن بھی سب گھسٹتے ہوئے گئے اور لشکر نہیں آیا، لیکن تیسرے دن ہشت راہ لشکر یا اس کا پیش دستہ سچ مچ آ گیا۔ کوئی دو سو روسی ڈکوتا ہوائی جہاز جنھیں روسی جہاز راں چلا رہے تھے، فوجیوں کو بھر بھر کے لاتے اور اڈے پر اُتارتے رہے۔ کوئی چار پانچ ہزار چینی اشتراکی فوجی اور ان کے روسی اسلحہ اسی طرح اُتارے گئے۔ یہ جہاز آتے جاتے اور اپنا بوجھ اتارتے جاتے اور جمع شدہ انبوہ اطاعت شعاری سے آزادی دلانے والوں کے لیے نعرے لگاتا۔ نعرے لگوانے والے سرکاری آدمیوں کے آواز اٹھانے پر مجمع کے دل نہیں صرف آوازیں ساتھ دیتی رہیں، وہ اور کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ورنہ ان کے گولی مار دی جاتی۔ ان کی تصویریں بار بار اُتاری جا رہی تھیں تاکہ اگر کسی کا مُنہ بند ہو یا چہرہ افسردہ ہو یا ہاتھ میں جھنڈیاں نہ ہوں تو اس کا پتہ چل جائے۔ شہر اور ہوائی اڈے کے درمیان انسانی سمندر تین دن تک اترتا چڑھتا رہا۔ اگر کسی کے دل میں مخالفانہ مظاہرہ کرنے کی تجویز بھی تھی تو سیل کر رہ گئی۔
جو اشتراکی ارمچی میں پہلے سے موجود تھے، وہ اس تین دن کی لازمی جاترا میں بیکار نہیں رہے۔ پارٹی کے معتمد ممبروں اور پولیس نے سارے شہر کو ایک ایک گھر کر کے بدخواہوں اور مخالفانہ دستاویزوں اور قیمتی چیزوں کے لیے بھی چھان مارا۔ اس طرح جو معلومات اور رقمیں حاصل ہوئیں، ان سے چین کی اشتراکی پارٹی نے صوبے میں مصالحت کا اگلا قدم اٹھایا۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کتنے بدنصیب ہوائی اڈے نہ جانے کی پاداش میں یا گھروں سے مجرم قرار دینے والا سامان برآمد ہو جانے کی وجہ سے گولیوں کا نشانہ بنے یا سنگینوں پر چڑھے۔
قرین قیاس یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کسی نے بھی اس کارروائی کا سارا انتظام کیا تھا، وہ قازق اور منگول تاریخ کا عالم تھا، کیونکہ مفتوحہ شہر کے تمام باشندوں کو باہر نکال کر اپنے فاتحوں کا خیر مقدم کرنے پر مجبور کرنے کا دستور چنگیز خاں کا بنایا ہوا تھا۔ ایڈورڈ سویم نے جو چنگیز خاں کا ہم عصر تھا اس میں ترمیم کی کہ کیلے کے شہریوں کو حکم دیا کہ گلوں میں طوق و زنجیر ڈال کر رحم کی التجا کرنے شہر سے باہر آئیں، لیکن اشتراکیوں نے ارمچی کے بسنے والوں سے اپنی اطاعت گزاری کا تین دفعہ مظاہرہ کرا کے چنگیز خاں کو بھی مات کر دیا۔
ہشت راہ لشکر کی آمد کی خبر آس پاس کی آبادیوں میں فوراً پھیل گئی۔ چند گھنٹوں ہی میں یہ خبر علی بیگ نے کیو کلوک کے قریب کیومش میں سُن لی۔ اس نے حمزہ اور اشتراکیوں کے مخالف پرچے “ریویو” کے تقسیم کرنے والوں کو پچاس گھڑ سواروں کے ساتھ ایک طے شدہ مقام اتصال پر بھیج دیا۔ یہاں سے انھیں اُرمچی میں بعض قازق سرداروں کو قاصدوں کے ذریعے یہ اطلاع بھجوانی تھی کہ یہاں ان کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے پانچ سردار ہمارے قصے میں اہم حصہ لیتے ہیں: سعالی اور جانم خان، یہ دونوں صوبائی حکومت کے رُکن تھے اور ان سے ہم پہلے مل چکے ہیں؛ ایک دولت مند تاجر عادل اور عبد الکریم مورخ، پانچویں کا نام خدادان ہے۔ یہ ایک بوڑھے با اثر قازق سردار کی بیوی تھی۔ اس سردار کو سب خدادان کا شوہر کہا کرتے تھے کیونکہ قبیلہ پر حکم بیوی ہی کا چلتا تھا اور سردار کے انتقال کے بعد اس کی گدی بیوی ہی نے سنبھال لی تھی۔ سب ملا کر کوئی پندرہ سردار تھے جن کے پاس حمزہ اور قائنیش نے قاصد روانہ کیے۔ ان سب کو اپنے ساتھ اپنے بال بچے، مسلح ملازم، ہتھیار بند ساتھی اور اپنی قیمتی چیزیں بھی لانی تھیں۔ بشرطیکہ اشتراکیوں کی تیز نگاہوں سے انھیں اب تک بچائے رہے ہوں۔
یہ جائے اتصال پیائی یانگ کئو میں تھی۔ پہاڑوں میں یہ ایک دلکشا مقام تھا۔ حمزہ نہیں جانتا تھا کہ تاؤ کی مصالحتی فوج یا خود ہشت راہ لشکر نے اس کی موجودگی کا پتہ چلا لیا تھا یا نہیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اطلاع پا کر وہ ناکہ بندی نہ کر دیں۔ اس لیے اس نے اس چھوٹی سی بستی کے باہر محافظ متعین کر دیے تاکہ تمام راستوں کی نگرانی کرتے رہیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ آنے والوں کے انتظار میں بیٹھ گیا۔
جن مہاجرین کو دعوت دی گئی تھی وہ اپنے اپنے گھر بار لے کر آنے لگے۔ یہاں تک کہ جانم خاں اور خدادان کے سوا سب آ گئے۔ سعالی اپنے ساتھ بہت سے سفید روسیوں کو لے آیا۔ یہ لوگ جانتے تھے کہ اگر روسیوں کے ہاتھ میں پڑ گئے تو جان سلامت نہیں رہ سکتی۔
کئی گھنٹے بعد خبر آئی کہ جانم خاں اور اس کا بیٹا دلیل چند ساتھیوں کے ہمراہ خفیہ طور پر عثمان بطور کے پاس بارکل چلے گئے اور کسی کو اپنی روانگی کی اطلاع نہیں دی۔ اس قاصد کے بعد ہی دوسرا قاصد یہ خبر لایا کہ خدادان نے اُرمچی ہی میں ٹھہرے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حمزہ نے کہا: “مجھے یہی توقع تھی۔ کیا ہم پہلے سے نہیں جانتے تھے کہ کوئی ہمارے بھید اشتراکیوں کو دے رہا ہے۔ اب بات صاف ہو گئی کہ باغی کون ہے”۔
قائنیش نے فلسفیانہ انداز میں کہا: “شاید مٹاپے کی وجہ سے وہ گھوڑے پر سوار نہیں ہو سکتی۔ ہاں اپنے شوہر کے سر پر ہر وقت سوار رہتی ہے۔”
حمزہ بولا: “وہ اتنا بڈھا ہے کہ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ خیر ان باتوں میں ہم اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ دشمن کے ہم پر آن پڑنے سے پہلے ہمیں یہاں سے چل دینا چاہیے۔”
قائنیش نے کہا: “ہم پچاس ہیں، ہزار پر بھاری پڑیں گے۔”
حمزہ نے جواب دیا: “یہ سچ ہے۔ لیکن ہم لڑنے نہیں آئے۔ پیٹ بھر کے لڑنے کا وقت بھی آ رہا ہے۔”
قائنیش نے کہا: “سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔”
یہاں سے سب گھوڑوں پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے۔
راستے میں کسی قسم کی مزاحمت نہیں ہوئی اور سب خیریت سے کیومش پہنچ گئے۔ چند روز بعد علی بیگ کو اطلاع ملی کہ خدادان واقعی اشتراکیوں سے جا ملی ہے، نہ صرف اپنے شوہر کو ساتھ لے گئی ہے بلکہ اس پورے قبیلے کو بھی دشمنوں میں لے گئی جس کے سربراہ دونوں میاں بیوی تھے۔ یہ ایک کاری ضرب تھی جس سے علی بیگ اور عثمان بطور کے لڑنے والے آدمیوں میں خاصی کمی ہو گئی۔ صرف یہی عورت ایک نمایاں قازق سربراہ تھی جو بغیر لڑے جھگڑے خوشی سے اشتراکیوں کی طرف دار ہو گئی۔ شاید قائنیش نے جو فقرہ اس کے بارے میں از راہ تمسخر کہا تھا سچ ہی تھا۔ قازق مہاجروں کا بیان ہے کہ وہ عورت کیا تھی، پہاڑ تھی اور شاید وہ سمجھتی ہوگی کہ لڑائیوں کی بھاگ دوڑ اس کے بس کی نہیں ہے۔ اس کے آ ملنے سے اشتراکیوں کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ اب تک زندہ ہے اور ١٩٥٣ء تک یہی اطلاع تھی کہ وہ اپنے قبیلے کی سربراہ ہے۔
ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ ترکی میں جو قازق مہاجر تھے اس پر اعتراض کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
ان میں سے ایک نے اس کی توضیح یوں کی کہ جو کچھ مرد کرتا ہے وہی عورت بھی کرتی ہے۔ ہر شخص کا معاملہ اپنے اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر ہم اس کی جگہ ہوتے تو شاید ہم بھی وہی کرتے جو اس نے کیا۔ لیکن اللہ بہتر جانتا ہے اور وہی اس کی بُرائی کو جانچے گا۔
لیکن اگر قازق کہیں اشتراکیوں کو شکست دے دیتے اور خدادان ان کے ہاتھ میں آ جاتی تو اُسے مار ڈالتے۔
نواں باب
جنگِ پسپائی
حمزہ نے قائنیش سے ٹھیک ہی کہا تھا کہ خوب پیٹ بھر کر لڑنے کا موقع جلدی آنے والا ہے۔ ارمچی میں روسیوں نے اپنا جماؤ ابھی پورا سا بھی نہیں کیا تھا کہ چینی اشتراکیوں نے صوبے کے دوسرے حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ ان حصوں کے علاوہ جن پر سوویت یا منگولی قبضہ کر چکے تھے ان کے جوڑ توڑ چونکہ کامیاب ہو چکے تھے اس لیے قازقوں کی آبادیوں کے سوا باقی صوبہ بھی بغیر کسی لڑائی کے ان کے قبضہ میں آ گیا۔ جہاں جہاں لڑائی کی ضرورت پیش آئی یہ بات جلدی واضح ہو گئی کہ لال ڈاڑھی والوں کی طرح ہشت راہ لشکر بھی پہاڑوں میں ناکام ثابت ہو رہا تھا۔ لہذا ہوائی اڈے پر اشتراکیوں کی آمد کی طرح اشتراکیوں کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے مشترکہ کارروائی کرنی پڑی، وہ اس طرح کہ ہشت راہ لشکر نے فصیل دار شہروں پر تاخت کی اور روسیوں نے خلدزا کے قازقوں سے جو فوجیں مرتب کی تھیں، انھوں نے کھلی بستیوں اور پہاڑی آبادیوں پر حملے کرنے شروع کیے۔ علی بیگ اور حمزہ کو معلوم نہیں تھا کہ تاؤ کی مصالحتی فوجوں کے ذمے کیا کام ڈالا گیا تھا اور ڈالا بھی گیا تھا یا نہیں۔ لیکن اغلب قیاس یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کو سکھا پڑھا کر لشکر میں شامل کر لیا گیا تھا اور ان میں جو لوگ مشتبہ نظر آئے انھیں ختم کر دیا گیا تھا۔
جو عینی شاہد اس وقت ارمچی میں موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ شہر بغیر کسی مزاحمت کے فتح ہو گئے۔ صرف قازقوں ہی نے جم کر مقابلہ کیا۔ روسیوں کی مرتب کی ہوئی قازق فوجوں ہی سے آزاد قازقوں کو دبانے کا کام لیا جا رہا تھا۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہشت راہ لشکر اشتراکی تعلیمات کو عام کرنے میں مصروف تھا۔ اس سے قازقوں کی جنگی قابلیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ چینیوں کو اس کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا کہ پہاڑی لڑائیوں میں وہ چھلاوہ بنے ہوئے قازقوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اپنے وطن کی پہاڑی لڑائیوں میں بوکو بطور، یونس حجی، عثمان بطور چینی باقاعدہ فوجوں پر ہمیشہ فتح یاب ہوتے رہے تھے۔ صرف کھلے میدان میں نکل آنے پر یا مجبوراً نکال لائے جانے پر ہی قازقوں کو شکست ہوتی تھی۔
اشتراکی اسے گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ انھیں کسی محاذ پر پسپائی ہو۔ اس سے ان کے سیاسی اقتدار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا تھا۔ یہ بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں تھا کہ آزاد قازقوں کو فی الحال ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے کہ جلد از جلد قازقوں سے الجھ کر ان کا قصہ پاک کر دیں اور اس اثنا میں ہشت راہ لشکر اپنی سیاسی جد و جہد جاری رکھے۔ لہذا روسیوں نے آزاد قازقوں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس کام میں ان قازق فوجوں کو جھونک دیا جنھیں علی ہن طور کی مدد سے انھوں نے بھرتی کیا تھا اور جب علی ہن طور سے وہ کام لے چکے تو روسیوں نے اسے ہٹا کر خود ان فوجیوں کو اپنے اختیار میں لے لیا تھا۔ ان فوجوں کے قازق کچھ تو سوویت قازقستان سے آئے تھے اور باقی سنکیانگ کے خلدزا اور تار باغتائی صوبوں سے۔ ان فوجوں میں دس پندرہ ہزار اعلیٰ تربیت یافتہ عمدہ ہتھیار بند قازق تھے جو پہاڑی لڑائیوں میں مشاق تھے اور جدید اسلحۂ جنگ سے لیس۔ ان کے پاس بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک اور پہاڑی توپیں تھیں اور روسی ہوائی جہازوں کی خاصی تعداد بھی ان کی مدد کو موجود تھی۔
کیو کلوک کے قریب علی بیگ کی فوجوں پر ابتدائی حملے اکتوبر ١٩٤٩ء کے آغاز میں شروع ہوئے۔ ارمچی میں ناگہانی انقلاب کے کوئی ایک مہینے بعد یہ سلسلے وار حملے چنیدہ فوجی دستے اس لیے کر رہے تھے کہ آزاد قازق کسی طرح پہاڑوں میں سے نکل کر کھلے علاقے میں آ جائیں۔ یہ لڑائیاں ستر دن تک مسلسل چلتی رہیں۔ حملے اور جوابی حملے بعجلت ہوتے رہے اور دونوں طرف کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ آزاد قازقوں کو نہ تو اس کی توقع تھی اور نہ وہ اس صورتِ حال کے لیے کوئی تیاری ہی کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان کا سامانِ جنگ بہت کم رہ گیا۔ دشمن کی رسد پر حسب دستور چھاپے مار کر وہ کچھ اسلحہ لوٹ لاتے۔ ان چھاپوں میں وہ اکثر کامیاب ہوتے لیکن یہ کام اب اتنا آسان نہیں رہا تھا جتنا کہ شنگ کے زمانہ میں تھا۔
اس قسم کے چھاپوں کے علاوہ تمام لڑائیاں پہاڑوں ہی میں ہو رہی تھیں۔ یہاں بھی چھاپہ ماری ہی ہو رہی تھی لیکن دونوں جانب سے آمنے سامنے کی لڑائی سے بچنے کی کوشش کی جاتی تھی اور دونوں اس کوشش میں لگے رہتے کہ پہاڑوں پر ہم زیادہ اونچائی پر زیادہ تیزی سے چڑھ جائیں تاکہ اوپر سے دشمن پر گولیاں برسا سکیں یا اگر گولیاں ختم ہو جائیں تو بڑے بڑے پتھر حریف پر لڑھکانے لگیں۔ لہذا دن پہ دن یہی ہوتا رہا کہ جانبین کے ہانپتے ہوئے گروہ دیوانہ وار پہاڑی بلندیوں کی جانب بھاگتے کہ موقع کی جگہ پہلے ان کے ہاتھ آ جائے یا پہاڑی کی چوٹی پر پہلے پہنچنے کے لیے گھوم کر دوسری طرف سے جلدی چڑھنا شروع کرتے تاکہ حریف کو علم نہ ہونے پائے اور یہ قلۂ کوہ پر اس سے پہلے جا پہنچیں۔
بعض دفعہ کوہ پیمائی کی یہ ہنر مندیاں بیکار ثابت ہوتیں اور دونوں حریف ایک گولی بھی چلائے بغیر نیچے اتر آتے۔ تئین شان کی زبردست چوٹیاں ان کے پیچھے کھڑی آسمان سے باتیں کرتی رہتیں۔ بعض دفعہ آزاد قازق اتنے اونچے چڑھ جاتے کہ سوویت ہوائی جہاز جو انھیں نیچے وادیوں میں تلاش کرنے کی غرض سے اڑتے آتے تو قازق اوپر سے ان پر گولیاں چلاتے۔ ایک دن ایسی شبھ گھڑی آئی کہ انھوں نے رائفل کی گولیاں چلا کر دو ہوائی جہاز مار گرائے۔ انھیں جو جہاز نظر آتے ان میں سے بیشتر دیکھ بھال کرنے والے جہاز ہوتے اور کچھ دنوں بعد آزاد قازق انھیں حقارت سے دیکھنے لگے اور جیسا کہ دشمن کی توپوں کے بارے میں کبھی ایک کماندار نے کہا تھا، قازق بھی کہنے لگے تھے کہ ان سے گھوڑے اور دوسرے جانور ڈرائے جاتے ہیں۔
دونوں طرف سے چالیں تو ایک ہی طرح کی چلی جاتی تھیں لیکن ان کی لشکر کشی کا مقتضا مختلف تھا۔ اشتراکی چاہتے تھے کہ آزاد قازقوں کو پہاڑوں میں سے نکال باہر کریں اور قازق ان میں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ پھر علی بیگ کا حکم یہ تھا کہ گولی اس طرح چلاؤ کہ دشمن ہلاک ہو جائے اور دشمن سوار ہو تو اس کا خیال رکھو کہ سوار مارا جائے گھوڑا نہیں۔ ہم چلتے پھرتے رہتے ہیں قیدیوں کا وبال ہم کہاں کہاں لیے پھریں گے لیکن دشمن کے ہتھیار، اس کا ساز و سامان اور اس کا گھوڑا یہ سب چیزیں کام کی ہیں، کیونکہ ہمارے پاس انھی تین چیزوں کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔
اس کے برعکس اشتراکی ہلاک کرنے کے لیے گولی نہیں چلاتے تھے کیونکہ انھیں قیدیوں کی ضرورت تھی۔ خصوصیت کے ساتھ وہ آزاد قازقوں کے سرداروں کو گرفتار کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بے سرداروں کے لوگ بے چرواہے کی بھیڑوں کی طرح ہوں گے۔ پھر یا تو انھیں اطاعت قبول کرنی پڑے گی یا پھر اپنے پرانے مسکنوں کو لوٹ جائیں گے اور پہلے کی طرح زندگی بسر کرنے لگیں گے اور یہ بھول جائیں گے کہ کبھی ان میں کوئی تبدیلی آئی بھی تھی یا نہیں۔ اس کے علاوہ اشتراکیوں کے لیے زندہ سردار کو قید میں رکھنا اس سے زیادہ مفید تھا کہ اسے میدانِ جنگ میں ہلاک کر دیا جائے۔ اس کی انھیں امید ہمیشہ رہتی تھی، اگرچہ اس سے انھیں حاصل وصول کبھی نہیں ہوا کہ گرفتار کیے ہوئے سردار کو بہلا پھسلا کر، ترغیب دے کر یا جبر کر کے اشتراکیوں میں شامل کیا جا سکے گا۔ اگر وہ اس پر رضا مند نہ بھی ہو تب بھی اس کی طرف سے بیانات دیے جاتے تھے کہ اس نے اشتراکیت کو قبول کر لیا ہے اور اس کی جانب سے اس کے ساتھیوں اور دوستوں کو مشورہ دیا جا سکتا تھا کہ وہ بھی اشتراکی بن جائیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ قیدی چاہے مرد ہو یا عورت، نہ صرف امکانی اطلاعات کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ یرغمال بھی کہ اس کے دباؤ میں اس کے رشتہ داروں کو اطاعت کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جب اشتراکی کسی کو قیدی بناتے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔ کھانے کو اچھا دیتے اور رہنے کو اچھی جگہ دیتے۔ قیدی کی افادیت جیسے جیسے کم ہوتی جاتی اس کے آرام میں کمی آتی جاتی اگر قیدی عورت ہو یا مرد، رضامند نہ ہوتا تو ایسے سیاسی مخالفین سے جس قسم کا مقررہ سلوک کیا جاتا وہی سلوک اشتراکی بھی اس کے ساتھ کرتے اور آخر میں جب اشتراکی اس نتیجے پر پہنچتے کہ سیاسی لحاظ سے قیدی ان کے لیے بے کار ہے تو فیصلہ کرتے کہ اسے قتل کر دیا جائے یا اسے قید بامشقت دی جائے اور نرمی اور بھلائی کے وہ تمام وعدے جو اس سے اس عرصے میں کیے جاتے سب فراموش کر دیے جاتے۔
قید ہو جانا یقیناً جنگ کے خطرات میں سے ایک خطرہ ہے اور قازق بھی اسے خطرہ ہی سمجھتے تھے لیکن انھیں یرغمال بنانے کی اشتراکی پالیسی اور قیدیوں کو یرغمال بطور استعمال کرنے پر قازق چراغ پا ہو گئے۔ بے شمار بار آزاد قازقوں کو تحریری پیغامات پہنچے یا انھوں نے دور سے آتی ہوئی آوازوں کو کہتے سنا کہ فلاں شخص کے بال بچے اشتراکیوں کے قبضے میں ہیں اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو ان کے حوالہ وقتِ مقررہ پر نہیں کیا تو پہلے اس کی بیوی کو قتل کر دیا جائے گا پھر ایک ایک ہفتہ کے وقفہ سے اس کے بچوں کو یکے بعد دیگرے قتل کیا جائے گا۔ لہذا آواز یا تحریری پیغام بتاتا “اگر وہ شخص ان کی جان بچانا چاہتا ہے اور اپنے پیاروں کو موت سے بچانا چاہتا ہے تو اسے وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔”
جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو ابتدا میں یہ دھمکی کچھ کارگر ثابت ہوئی لیکن کچھ ہی عرصے میں آزاد قازقوں کو معلوم ہو گیا کہ اپنے عزیزوں کو بچانے کے لیے جو شخص اپنے آپ کو اشتراکیوں کے حوالے کر دیتا اس کے ساتھ شروع میں تو جنگی قیدیوں کا سا سلوک کیا جاتا لیکن جب اشتراکی اس سے اپنی مرضی کے مطابق معلومات حاصل کر لیتے یا کر چکتے تو اسے بھی مار ڈالتے اور اس کے عزیزوں کو بھی۔ اس انکشاف کے بعد قازقوں نے کسی کو امان نہیں دی اور “ہلاک کرنے کے لیے گولی چلاؤ” کا حکم ایک بھیانک حقیقت بن گیا۔ اس کے بعد کسی قازق نے از خود اپنے آپ کو اشتراکیوں کے حوالے نہیں کیا۔
اس پر بھی اشتراکیوں نے یرغمال کا سلسلہ جاری رکھا اور لڑائی شروع ہونے کے تھوڑے دنوں بعد ہی قازقوں کو معلوم ہو گیا کہ ان کے دشمن ان کے لڑنے والے آدمیوں پر حملے نہیں کر رہے بلکہ اس کوشش میں مصروف ہیں کہ انھیں ان کے بیوی بچوں اور ان کے ریوڑوں سے کسی طرح الگ کر دیں۔ اگر اشتراکی اس چال میں کامیاب ہو جاتے تو لڑنے والے آدمیوں کو تو نظر انداز کر دیتے اور ان کے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ انھیں بطور یرغمال اپنے ساتھ پکڑ لے جاتے اور ان لڑنے والوں کے ریوڑ (جو ان کی خوراک کے کام بھی آتے تھے) ہانک لے جاتے۔ اس کی وجہ سے لڑائی کی صورت بدلنے لگی۔ اب بجائے اس کے کہ دو جنگجو گروہ آپس میں گتھ جاتے یا ایک دوسرے پر زیادہ بلندی سے حملہ کرتے، سوویت ہوائی جہاز ان خانہ بدوشوں کے پڑاؤ تلاش کر لیتے اور آزاد قازقوں کو ان کے مسکنوں سے بھگا دیتے۔ اس فوجی چال میں اشتراکیوں کو پوری کامیابی نہیں ہوئی مگر قازق صرف بچاؤ کی لڑائی لڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اپنے بال بچوں اور مویشیوں کو بچانے کے لیے وہ اپنی جگہ پر جمے رہتے ورنہ شنگ کے زمانے میں وہ دشمن کو اپنے پیچھے لگا لاتے اور پھر اسے گھیر کر اس کا صفایا کر دیتے۔ اشتراکیوں کی زمینی فوجیں اب قازقوں کو ہوائی جہازوں کی آنکھوں سے دیکھ لیتی تھیں اور ان کی پرانی چالوں میں نہیں آتی تھیں لیکن قازق عورتیں بھی گولیاں چلانی جانتی تھیں اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں بھی۔ اس لیے یہ اپنا بچاؤ خود کر لیتے تھے۔
نئی وضع کی لڑائی کا ایک بزدلانہ رخ یہ تھا کہ تمام پانی کے سرمایوں میں اشتراکی زہر ڈال دیتے تھے۔ اس مہم کے شروع کرتے ہی یا شاید اس کی تکمیل سے پہلے ہی اشتراکیوں نے تمام جانے پہچانے کنوؤں، چشموں اور تالابوں کی ایک فہرست بنائی اور پھر ایک ایک کر کے سب پر پہرے بٹھا دیے۔ جب اس کام کے لیے ان کے پاس آدمی نہیں رہے تو انھوں نے پانی میں زہر ڈالنا شروع کر دیا تاکہ خانہ بدوشوں اور ان کے جانوروں کو پانی نہ ملے۔
قازقوں کے نزدیک پانی میں زہر ڈالنا خدا کا بھی گناہ ہے اور انسان اور جانور کا بھی۔ قازق جب کنویں پر سیر ہو کر پانی پی لیتا ہے تو ایک ڈول پانی کھینچ کر اور رکھ دیتا ہے تاکہ جو بھی اس کے بعد کنوئیں پر آئے، چاہے دشمن ہو چاہے دوست اس کے کام یہ پانی آ جائے۔ وہ پانی کو عطیۂ خداوندی سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ جو شخص کسی پیاسے کو خواہ وہ دشمن ہی کیوں نہ ہو، پیاس بجھانے سے باز رکھتا ہے، وہ خدا کو ناراض کرتا ہے۔ اشتراکیوں نے پانی میں زہر ڈال کر دوست دشمن، انسان حیوان سب کو پانی سے محروم کر دیا۔ ان کی اس بے رحمی نے آزاد قازقوں میں آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بڑھا دی۔ اب انھیں اس میں بالکل شبہ نہیں رہا تھا کہ دشمن ذریات شیطان میں سے ہے اور اہلِ ایمان کے آگے شیطان زیادہ عرصے تک ٹھہر نہیں سکتا۔
سخت لڑائیوں کو جھیلنے اور پہاڑوں سے اچھی طرح واقف ہونے کی وجہ سے علی بیگ کی فوجیں کیو کلوک کے قرب و جوار میں ڈھائی مہینے تک خاصی بڑی جھڑپوں کے باوجود بڑی تباہ کار لڑائی سے بچتی رہیں لیکن اب دسمبر ١٩٤٩ء آ پہنچا تھا اور دشمن سے بھی زیادہ شدید موسم سرما آ پہنچا تھا۔ اس نے قازقوں کو سطح مرتفع سے نکال باہر کیا جس پر گہری برف پڑی چکی تھی۔ نچلے ڈھلانوں پر قازق غیر محفوظ تھے، ان کے خلاف بکتر بند گاڑیاں استعمال کی جا سکتی تھیں۔ اور اشتراکیوں نے کل آبی ذرائع یا تو روک رکھے تھے یا ان میں زہر ڈال دیا تھا۔ اپنے جانوروں کے لیے پانی حاصل کرنے کے لیے قازق اب مجبور تھے کہ ان آبی مقامات پر حملہ کریں جن پر پہرے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے چند پر قبضہ کرنے میں قازق کامیاب ہو گئے لیکن ان معرکوں میں ان کا اتنا سامان حرب ختم ہو گیا اور اتنے آدمی مارے گئے کہ وہ اس نقصان کو گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ دراصل اب وہ وقت آ پہنچا تھا کہ قازق یا تو شکست قبول کر لیں یا تئین شان کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
شکست قبول کرنے کا خیال انھیں کبھی آیا ہی نہیں تھا لیکن انھوں نے دوسری صورت پر سنجیدگی سے غور کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ انھوں نے اس پر غور کیا کہ اس پر عمل کب کیا جائے۔ کیونکہ آپ کو یاد ہوگا کہ جب کارا شہر کے وانگ کو وہ اپنا حلیف بنانے پر گفت و شنید کر رہے تھے تو انھوں نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اگر انھیں یہاں سے جانا پڑا تو کہاں جائیں گے۔ اب وہ وقت آ گیا تھا کہ حسب قرارداد وانگ کو ان کے ساتھ اشتراکیوں سے لڑنے میں شریک ہو جانا چاہیے تھا لیکن کارا شہر پر اس وقت ہشت راہ لشکر پنجے جمائے بیٹھا تھا اور وانگ اپنا وعدہ پورا کرنے سے قاصر تھا۔
اس لیے با دل نخواستہ جانبِ جنوب غزکل جانے کی تیاریاں شروع کیں۔ وہ نہ تو مناس جا سکتے تھے اور نہ اپنے دل پسند مقام قزل ازون، کیونکہ برف نے راستہ بند کر رکھا تھا اور اگر وہاں جانا بھی چاہتے تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جس راہ سے وہ غزکل جانا چاہتے تھے وہ کارا شہر اور طرفان کی درمیانی شاہراہ پر سے ہو کر جاتی تھی اور یہ دونوں بستیاں اس وقت ہشت راہ لشکر کے قبضے میں تھیں۔
آخر میں یہ ہوا کہ قازق چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئے اور جس راستے سے ان کے سرداروں نے مناسب سمجھا اپنا سفر شروع کر دیا۔ اس میں یہ مصلحت تھی کہ مختصر ہونے کی وجہ سے ان پر کسی کی نظر نہیں پڑے گی اور یہ ٹولیاں بے روک ٹوک نکل جائیں گی۔ یہ بتانا کہ ان میں سے کتنی ٹولیاں کامیاب ہوئیں اور کتنی ناکام رہیں محض قیاس پر مبنی ہوگا۔ بس صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں بعض ٹولیاں بالکل صحیح سلامت منزل مقصود پر پہنچ گئیں۔ بعض بالکل ہی نہیں نکل سکیں۔ بعض نے بہت نقصانات اٹھے لیکن ہمت کر کے پہنچ ہی گئے۔
علی بیگ کے ساتھ کوئی چار سو آدمی تھے۔ اتنی بڑی تعداد چونکہ کسی جانی پہچانی راہ سے نظروں پر چڑھے بغیر نہیں گزر سکتی تھی اس لیے بوکو بطور کی پیروی کرتے ہوئے علی بیگ نے کوہ تشنہ کے بھیانک راستے سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان پہاڑوں میں اوسطاً سالانہ بارش صرف ٢ انچ ہوتی ہے اور انسانوں اور حیوانوں کے لیے نہ تو کھانا ہوتا ہے اور نہ پانی۔ اطلاع یہ تھی کہ کوہ تشنہ تک راستہ صاف ہے اور کوہ تشنہ کی راہ کی ناکہ بندی دشمن نے نہیں کر رکھی تھی۔ غالباً اشتراکیوں نے اسے ایک مسلمہ حقیقت سمجھ لیا تھا کہ جو کوئی اس راہ کو عبور کرنے کی کوشش کرے گا وہ زندہ نہیں نکل سکے گا۔ لیکن علی بیگ یہ جانتا تھا کہ اشتراکی خاص طور پر اس کی تاک میں لگے ہوئے تھے۔ اس لیے اسے یقین تھا کہ سب سے خطرناک دکھائے دینے والا راستہ ہی اس کے لیے سب سے محفوظ راستہ ہو سکتا ہے۔ باقی اور بھی اپنی مرضی سے اس کے ساتھ ہو لیے۔
انھوں نے ٢١ دسمبر ١٩٤٩ء کو اپنا سفر شروع کیا۔ اللہ کا بڑا کرم تھا کہ جاڑے کا زمانہ تھا اور سورج اپنی پوری قوت سے نہیں چمک رہا تھا۔ لیکن جنوب مشرق کی طرف جیسے جیسے وہ بڑھتے گئے دن بہ دن مردوں، عورتوں اور بالخصوص بچوں کی پیاس بڑھتی گئی اور جانور بھی پیاس سے بے تاب ہوتے گئے کیونکہ چھ دن سے انھیں پانی نہیں ملا تھا اور ان کے پیروں کے نیچے نمک ہی نمک بچھا ہوا تھا۔ نمک نے گھوڑوں کے سموں کو گلا دیا اور ان کے نعل نکل گئے اور اونٹوں کے پاؤں اس بری طرح زخمی ہو گئے کہ ان میں سے خون ٹپکنے لگا۔ قازقوں نے گھوڑے کی کھال کی گدیاں بنا کر ان کے پیروں پر سی دیں۔ نمک کی چمک اور سرد نمکین ہوا سے مردوں اور عورتوں کو آشوب چشم ہو گیا۔ بچوں کی آنکھیں سرخ ہو کر سوج گئیں اور جانوروں کی آنکھیں بھی دکھنے آ گئیں۔ انھوں نے منہ پر کپڑے لپیٹ رکھے تھے لیکن پھر بھی ہونٹ پھٹ گئے اور خون دینے لگے۔ اور پھر چاروں طرف کہر ہی کہر پھیل گئی اور انھیں راستہ ڈھونڈنا مشکل ہو گیا۔ مرنے والوں میں علی بیگ کا سب سے بڑا بھائی عطّل بیگ ملّا تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کیسے بچھڑ گیا۔ انھوں نے اسے بہت تلاش کیا اور اسے آوازیں دیتے رہے لیکن اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔
قازق اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذکر کبھی تفصیل سے نہیں کرتے۔ اس لیے جو کھکھیڑ انھوں نے اس موقع پر اٹھائی اس کا ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہمارے سامنے انگریزی میں لکھا ہوا قائنیش کا ایک خط ہے۔ ہم نے اس سے کوہِ تشنہ کے سفر کی پوری تفصیلات لکھنے کی فرمائش کی تھی، جواب میں وہ لکھتا ہے:
“اس سفر میں ہمیں سب سے زیادہ تکلیف بے آبی سے پہنچی۔ ہم نے پانی کے بدلے مردوں اور عورتوں کا پیشاب استعمال کیا۔ جانوروں کا خون پیا۔ بے آبی کے باعث ہمارے جانور بہت مرے، صرف اونٹ اسے جھیل گئے۔”
اتنا لکھ کر اس نے موضوع بدل دیا۔
کوہِ تشنہ کو عبور کر لینے کے بعد یہ قافلہ کچھ عرصے بعد نیگ پان یعنی خالی شہر پہنچا۔ یہاں انھوں نے کچھ دم لیا۔ اس شہر کو ١٧٣٦ء میں چینی شہنشاہ چی این لنگ نے فوجی ناکہ بطور آباد کیا تھا۔ اس کے بسانے کے کچھ ہی عرصے بعد سنکیانگ کا نیا صوبہ چینی حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن علی بیگ یہاں پہنچا تو وہ مدت سے ویران پڑا تھا، شاید سو سال سے۔ لیکن اس کے مٹی کے گھر ویسی ہی اچھی حالت میں تھے جیسے دو سو سال پہلے بننے کے وقت تھے۔ نیگ پان کے قریب ایک دریا بہتا ہے، اس کی وجہ سے یہ اجاڑ جگہ ان تھکے ماندے لوگوں کے لیے بڑے آرام کی جگہ بن گئی تھی جو لڑ بھڑ کر اور کوہِ تشنہ کی صعوبتیں جھیل کر یہاں پہنچے تھے۔ اور چونکہ یہ شہر آباد شہروں سے میلوں دور ہے اس لیے کسی اچانک حملے کا بھی اندیشہ نہیں تھا۔
علی بیگ اور اس کے ساتھی نیگ پان میں اپنی تھکن اتار رہے تھے اور آگے سفر کرنے کے لیے قوت مہیا کر رہے تھے کہ پہرہ داروں نے آ کر اطلاع دی کہ ایک قازق بنام امین طہٰ ملّا آیا ہے اور علی بیگ سے تنہائی میں گفتگو کرنی چاہتا ہے۔ امین طہٰ ملّا علی بیگ سے بڑی گرم جوشی سے ملا۔ اور جب چائے اور نمکین نان کی تواضع سے فارغ ہو لیا تو اس نے تفصیل سے بتایا کہ اشتراکیوں نے اسے بھیجا ہے، اس پیشکش کے ساتھ کہ اگر علی بیگ ان سے آ ملے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا اور اسے کوئی معزز عہدہ دیا جائے گا۔
اور آخر میں امین طہٰ ملّا نے کہا: “اور یقیناً یہ پیش کش ایسی نہیں ہے کہ اسے رد کر دیا جائے۔ کیا موت سے زندگی بہتر نہیں؟”
ہم نہیں جانتے کہ علی بیگ کو وہ جواب یاد تھا یا نہیں جو قائن سری نے ڈیڑھ سو سال پہلے روسیوں کے اس قاصد کو دیا تھا جو اطاعت قبول کر لینے کا پیغام لے کر اس کے پاس آیا تھا: “برے مقصد کے لیے جو شخص جال لگاتا ہے وہ اپنی مردانگی کو جال میں چھوڑ جاتا ہے”۔ لیکن علی بیگ نے امین طہٰ ملّا کو اس قسم کی کوئی تہدید نہیں کی، بلکہ شنگ کے زمانے میں اشتراکیوں نے قازقوں پر جو مظالم کیے تھے، ایک ایک کر کے اسے یاد دلائے۔ اشتراکی آقاؤں یعنی روسیوں نے علی ہن طور کے ساتھ جو فریب کیا، ارمچی میں ہشت راہ لشکر کے ہراول نے پہنچ کر بے گناہ لوگوں پر جو ظلم توڑے، ان کے جنگ کرنے کے نفرت انگیز ڈھنگ اور کنوؤں میں زہر ڈال کر خدا اور انسان اور جانوروں کے ساتھ بدی کرنا۔
آخر علی بیگ نے کہا:
“اگر کوئی کافر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی قسم کھائے تو کیا اس پر اعتبار کر لیا جائے۔ جب تک میں موجود ہوں اور میرا خدا موجود ہے، ذاتی اعزاز کے لیے قاتلوں اور ڈاکوؤں کے ہاتھ اپنی روح ہرگز نہیں بیچوں گا۔ تم واپس جا کر ان سے اپنی جان بچانے کے لیے جو چاہو کہو۔ ہم اگرچہ جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، خانہ بدوش ہیں، اپنے گھروں سے نکال دیے گئے ہیں اور ان بے آب و گیاہ پہاڑوں میں سے کسی نہ کسی طرح اپنی جانیں بچا لائے ہیں، لیکن جب تک میری جان میں جان ہے، میں شکست ہرگز قبول نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں ان کے آگے کوئی سر جھکائے گا۔”
امین طہٰ ملّا بیٹھا آہستہ آہستہ اپنا سر ہلاتا رہا۔ منہ سے کچھ نہ بولا اور جب خاصی دیر تک خاموشی رہی تو علی بیگ نے کہا:
“اگر تم قبول کرو تو آج کی رات ہمارے ہاں مہمان رہو اور کل یہاں سے ہنسی خوشی رخصت ہونا۔”
امین طہٰ بولا:
“عزت اور آزادی خدا کی رحمت سے حاصل ہوتی ہے۔ جہاں بھی تم کل جاؤ گے میں بھی تمھارے ساتھ چلوں گا۔ میں ان اشتراکیوں کی طرف ہو کر کس لیے خدا سے لڑوں۔ اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہ میرے ناکام واپس جانے پر وہ مجھے قتل ہی کر ڈالیں۔”
اسی رات کو ایک گوئندے نے خبر دی کہ اشتراکیوں کا ایک دستہ علی بیگ کے قافلے کی راہ روکنے کے لیے بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اگلے دن علی الصباح علی بیگ اور اس کے ساتھی اور امین طہٰ ملا دوبارہ جنوب کی جانب روانہ ہو گئے۔ حالانکہ انسان اور باقی ماندہ حیوان بہت ہی تھکے ہوئے تھے۔ جانوروں کو یہاں پانی تو مل گیا تھا لیکن چارہ یہاں بھی نہیں ملا تھا، اس لیے وہ اس قدر بے دم ہو گئے تھے کہ ان میں بار برداری کی سکت نہیں رہی تھی۔ ذرا بھی کسی جانور پر زیادہ بوجھ رکھ دیا جاتا تو وہ گر پڑتا۔ سب سے بری حالت گھوڑوں کی تھی جنھوں نے مجبوراً نمک زدہ پتے کھا لیے تھے۔ ان کی زبانیں سوج کر کالی پڑ گئیں اور بہت سے مر گئے، باقی گھوڑوں کو اس طرح بچا لیا گیا کہ ان کی زبانوں میں سوئیاں چبھوئی گئیں۔ اس عمل سے کالا کالا خون نکل جاتا اور دم توڑتا گھوڑا فوراً ہی سانوٹا ہو جاتا اور بوجھ لاد کر چلنے کے قابل ہو جاتا لیکن سوار کا بوجھ وہ اب بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ لہذا سوار کو گھوڑے کے ساتھ ساتھ خود بوجھ اٹھا کر گھسٹنا پڑتا۔ عورتیں بچوں کو بھی گود پیٹھ پر لیتیں اور سامان بھی اٹھاتیں۔ تاکہ جو کچھ اثاثہ باقی رہ گیا تھا وہ یہاں ضائع نہ ہونے پائے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ کہر اب بھی چھائی ہوئی تھی اور راستہ سوجھتا نہ تھا۔ علی بیگ کا قافلہ اسی طرح بھٹکتا چلا جا رہا تھا، آخر مجبور ہو کر انھیں دریائے طارم کو عبور کرنا پڑا تاکہ سیدھے راستے پر پھر پڑ جائیں۔
جب علی بیگ اس پر سے گزرا تو دریا پر برف کی تہ جمی ہوئی تھی لیکن یہ تہ موٹی نہیں تھی اور قافلہ دریا کی دو نہروں کے درمیان ایک جزیرے پر پہنچا تو انھیں معلوم ہوا کہ جزیرے اور کنارے کے درمیان خاصا لمبا فاصلہ سطح آب کا تھا۔ جزیرے پر درخت کوئی نہیں تھا صرف لمبی لمبی گھاس تھی۔
علی بیگ نے اپنے ساتھیوں سے گھاس کے گٹھے جمع کرنے کو کہا تاکہ اسے بٹ کر اور باندھ کر ایک مضبوط رسا تیار کریں۔ گھاس کو زمین پر پھیلا کر بٹ لینے کے بعد اسے باندھنے کا کام نہایت احتیاط سے کرنے کا تھا کیونکہ اسی رسے کو پکڑ کر سب کو اس پار پہنچنا تھا۔ اگر رسا کمزور رہا اور بیچ میں وزن نہ سہار سکا تو عبور کرنے والوں کے ڈوب جانے کا اندیشہ تھا۔ رسا بڑی تیزی سے لمبا ہوتا گیا اور اتنا لمبا تیار ہو گیا کہ کنارے تک پہنچ جائے۔
رسا بٹنے والوں سے علی بیگ نے پوچھا: “کیا خیال ہے تمھارا رسا اس پار پہنچ جائے گا؟”
انھوں نے کہا: “رسا تو ادھر پہنچ جائے گا مگر وہ تیراک کہاں ہے جو اس کے ایک سرے کو وہاں تک پہنچا دے؟ فاصلہ اگرچہ زیادہ نہیں ہے لیکن پانی بالکل یخ ہے۔”
ان میں سے ایک نے جواب دیا: “ہو سکتا ہے کہ کنارے تک پہنچنے سے پہلے زمین پر پاؤں ٹک جائیں۔ پھر تیرنا نہیں پڑے گا۔ چل کر ادھر پہنچ جائے گا۔”
علی بیگ نے کہا: “یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے لیکن لمبے اور مضبوط رسے کا مہیا کرنا ہمارے ذمے تھا۔ یہ مشکل ہم آسان کر چکے ہیں اب فوراً ایک تیراک تلاش کرو جو دن کی روشنی ہی میں اس مہم کو سر کر لے۔”
کنارے پر جہاں پانی اتھلا ہو گیا تھا نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی بھاری پتھر تھا جس سے تیراک رسے کا سرا باندھ دیتا۔ اس لیے جب وہ کنارے پر پہنچ لیا تو اس نے اپنے جسم سے رسے کو خوب لپیٹ لیا اور رسے کو کھینچ کر اور پیچھے کو جھٹک کر تان دیا تاکہ دوسرا آدمی رسے کو پکڑ کر پانی میں ڈوبتا ابھرتا چلا آئے۔ اب دونوں سرے دو دو قوی آدمیوں نے پکڑ رکھے تھے اور علی بیگ نے اندازہ کر لیا کہ باقی لوگ اسی کے سہارے دوسری طرف پہنچ سکتے ہیں۔ چاہے کسی کو تیرنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ ایک ایک کر کے کل مرد عورتوں اور ذرا بڑے بچوں نے اپنے کپڑے اتار ڈالے اور ان کے پلندے اپنی کمر سے باندھ لیے، پھر تنے ہوئے رسے کے سہارے پانی میں اترنے شروع ہو گئے۔ لیکن کھینچے رہنے پر بھی پانی کے بیچ میں رسا جھول کر پانی میں ڈوب رہا تھا۔ جب عبور کرنے والے یہاں پہنچتے تو جن کے سینوں سے بچے اور کمر سے پلندے بندھے تھے، خاصی مصیبت میں مبتلا ہو جاتے۔ انھیں اپنا سر اور بچوں کو پانی سے اونچا رکھنا پڑتا تھا تاکہ سانس لے سکیں۔ تاہم آہستہ آہستہ ہانپتے کانپتے اللہ کی مہربانی سے سب کے سب بخیریت پار اتر گئے۔
اس کے بعد جانوروں کو پار کرانے کی مہم تھی۔ کوہ تشنہ میں بہت کچھ ضائع ہو جانے پر بھی بھیڑوں، بکریوں، اونٹوں، مویشیوں اور گھوڑوں کی خاصی تعداد باقی تھی۔ اب علی بیگ ہی کی زبانی اس کہانی کا بقیہ حصہ سنیے:
“ہم نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جس کا گھوڑا بہت جاندار تھا۔ اپنے کپڑے اتار کر وہ اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور اپنے پیچھے ایک اور گھوڑا لے کر پانی میں اتر گیا۔ دوسرے جانوروں نے کوتل گھوڑے کو بغیر کسی سوار کے پانی میں جاتے دیکھا تو بے ہنکارے آپ ہی آپ اس کے پیچھے ہو لیے۔ جب یہ جانور پانی میں پہنچ گئے تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ تیر بھی سکیں گے یا نہیں۔ لیکن یہ سب خوب تیرے اور اس عبوری میں ایک جانور بھی ضائع نہیں ہوا اور جو سامان ان جانوروں پر لدا ہوا تھا وہ بھی پورا صحیح سلامت آ گیا۔ جن جانوروں پر بوجھ کچھ زیادہ تھا ان پر ہم نے بھیڑوں کے مثانوں کے پھکنے بنا کر باندھ دیے تھے تاکہ یہ انھیں پانی میں ابھارے رہیں۔”
یوں علی بیگ کی وہ بڑی سی دیگ بھی پار ہو گئی جو کئی من کی تھی اور بعد میں علی بیگ اور ان کے خاندان کے کام آتی رہی۔
علی بیگ کا کہنا ہے کہ اس نے طارم کو جہاں سے عبور کیا وہ مقام لاوانگ سے دور نہیں تھا جو تکلا مکان کے اور بہت سے ویران شہروں کی طرح ویران پڑا ہے۔ لاوانگ خالی شہر ینگ پان کے ویرانے کی طرح نہیں ہے جہاں کوہ تشنہ سے نکل آنے کے بعد علی بیگ کا قافلہ اترا تھا۔ لاوانگ میں ڈہی ہوئی دیواروں اور حسرت ناک مٹی کے ڈھیروں کے سوا اسے اور کچھ نہیں دکھائی دیا۔ لیکن پرانے درختوں کے موٹے موٹے تنے آسمان کی طرف اپنی ننگی ڈالیاں اٹھائے کھڑے تھے۔ اس سے یہ سن کر تعجب ہوا کہ لاوانگ کبھی اس وجہ سے خالی کرنا پڑا تھا کہ ایک دفعہ طارم میں اس زور کی طغیانی آئی کہ یہ شہر اس میں ڈوب گیا۔ اس کے بعد دریا نے اپنا راستہ بدل دیا اور شہر بے آب ہو گیا۔ تکلا مکان میں جتنے بھی ویران شہر اب تک دریافت ہوئے ہیں سب کے سب بے آبی کی وجہ سے ویران ہوئے۔
اپنے دوران سفر میں ایک دفعہ وہ لوپ بستی کے نزدیک سے گزرے۔ یہ وہی بستی تھی جس کے نام پر جھیل لوپ نور کا نام رکھا گیا اور جس کے بارے میں سالہا سال پہلے سیون ہیڈن نے کہا ہے کہ یہ "گشتی” جھیل ہے کیونکہ چند صدیوں بعد اس جھیل کا مقام بدل جاتا ہے۔ طارم کا پانی اس میں آتا ہے اور طارم اپنی پرانی رہ گزر سے اکتا جاتا ہے تو اس جھیل کو اپنی تہ کی ریت سے بھر دیتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق زمین کاٹ کر ایک اور نئی جھیل بنا لیتا ہے۔ لہذا پرانی رہ گزر کے کنارے جو بستیاں آباد ہوتی ہیں اور جو کھیتی باڑی ہوتی ہے وہ سب بے آبی کی وجہ سے فنا ہو جاتی ہے۔ قازق لوپ کی بستی سے جلدی سے کاوا کاٹ کر آگے نکل گئے کیونکہ پیش بینوں نے آ کر خبر دی تھی اشتراکی اس پر قابض ہو چکے ہیں۔ جھیل سے بچنا بھی ضروری تھا کہ اس کا پانی اتنا کھاری تھا کہ پیا نہیں جا سکتا تھا اور اس کے کنارے اس قدر دلدلی ہیں کہ انسان یا حیوان ادھر چلا جائے تو آدھا اس میں دھنس جائے اور کسی اور ہی کے کھینچے اس میں سے باہر نکل سکتا ہے۔
لوپ سے آگے بڑھنے کے بعد زمین رفتہ رفتہ اونچی ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ الطائی پہاڑوں کے قریب پہنچ گئے۔ یہ پہاڑ تبت کے کیون لون پہاڑوں کا شمالی بازو ہیں لیکن انھوں نے خوشی خوشی ان پہاڑوں پر چڑھنا شروع کر دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ صحرائے تکلا مکان کا سفر ختم پر آ رہا ہے اور ہم حسین تجی کے گھر جلدی ہی پہنچنے والے ہیں۔ حسین تجی اپنے ریوڑوں کو غزکل کے قریب چرایا کرتا تھا۔ وہی جھیل جو لمبی سیدھی اور تنگ ہے اور سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلندی پر ہے۔
حسین تجی نے ان کا نہایت پرتپاک خیر مقدم کیا اور قازقوں کے دستور کے مطابق زبان ہی سے نہیں دل سے بھی کہا کہ میں تمھارا میزبان ہوں اور تم سب میرے مہمان ہو۔ اس لیے میری کل ملکیت، میرے اونٹ، مویشی، گھوڑے اور بھیڑیں سب تمھارے لیے حاضر ہیں، جس طرح چاہو اپنی ضروریات پوری کرو۔ کیونکہ قازقوں میں یہ رواج ہے کہ اگر کوئی شخص غریب ہو تو وہ اپنا خیمہ کسی رئیس کے خیمے کے قریب لگا لے اور وہ دولت مند شخص مثال کے طور پر چالیس بھیڑیں اس کے حوالے کر دے گا اور سال کے ختم ہونے پر جب ان چالیس کے ہاں بچے ہو چکیں گے تو غریب آدمی اپنے محسن کو اسّی بھیڑیں لوٹا دے گا اور جو باقی رہ جائیں گی انھیں اپنے پاس رکھ لے گا۔ علی بیگ اپنے اونٹوں پر دیگ بھی لاد کر لایا تھا اور اپنا روپیہ پیسہ بھی۔ اس لیے حسین تجی اور اس کے دوست سلطان شریف سے اس نے بھیڑیں خرید لیں۔ اسی طرح حمزہ، قائنیش اور امین طہٰ ملا نے دام دے کر جانور خرید لیے۔ لیکن جن کے پاس نقدی نہیں تھی انھیں بغیر کچھ لیے جانور دے دیے گئے۔ جاڑا ختم پر تھا اور موسم بہار شروع ہونے والا تھا اور یہ سہانا موسم اپنے ساتھ جانوروں کے بچوں کا اعجاز بھی لا رہا تھا۔ دو مہینے یا شاید تین مہینے میں کیو کلوک کی لڑائی سے جو لوگ کوڑی کوڑی کو محتاج آئے تھے ان کے پاس اب اپنے جانور ہو گئے تھے اور حسین تجی بھی پہلے سے کچھ کم امیر نہیں رہا تھا۔ لیکن اگر یہ لوگ نہ آ جاتے تو شاید وہ زیادہ امیر ہوتا لیکن مرضی مولیٰ تو یوں ہی تھی!
لیکن جب بہار کے دن قریب آنے لگے تو علی بیگ اور دوسرے نو وارد کچھ بے چین ہونے لگے۔ انھیں یہ محسوس ہونے لگا کہ عرصۂ دراز تک ایک امن کی دنیا میں رہتے رہتے اور قازقوں کے طرز زندگی کے خلاف اشتراکیوں کے تظلّم سے ناواقفیت کی بنا پر حسین تجی ان خطرات کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے تھا جو انھیں گھیرے ہوئے تھے۔ ان کے اندیشوں کی تصدیق اس وقت ہوئی جب تنگ ہوانگ سے واپس آنے پر حسین تجی کے دو آدمیوں نے وہاں کی روئیداد سنائی۔ تنگ ہوا میں منڈی تھی اور اسی شہر کے قریب ہزار بدھوں کے مشہور بت گلتی ہوئی سیدھی چٹان کے غاروں میں آہستہ آہستہ برباد ہو رہے تھے۔ ان دونوں آدمیوں نے بتایا کہ اشتراکی تنگ ہوانگ میں ابھی ابھی آئے تھے اور جب انھیں معلوم ہوا کہ غزکل کے دو قازق شہر میں آئے ہوئے ہیں تو انھوں نے ہمیں بلا بھیجا اور بڑی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نئی حکومت سے قازقوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں کھلانے پلانے کے بعد انھوں نے ہمیں اپنے خیموں میں واپس بھیج دیا اور ہمیں ایک دعوت نامہ دے کر کہا کہ یہ اپنے سردار کو دے دینا اور ان سے کہنا کہ اپنے نمائندے بھیجیں، جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی اچھا تاکہ کنسو کے دار الحکومت لانچاؤ میں “عوامی نمائندوں” کے اجتماع میں شریک ہوں۔ اس اجتماع میں شمال مغربی چین کے سب حصوں سے نمائندے آ رہے ہیں۔ دونوں آدمیوں نے کہا: اشتراکیوں نے ہم سے کہا ہے کہ تنگ ہوانگ میں تمام قازق بالکل محفوظ رہیں گے بشرطیکہ وہ امتیازی نشان لگائے رہیں۔ یہ کہہ کر انھوں نے وہ امتیازی نشان دکھائے جو اشتراکیوں نے ان دونوں کو دیے تھے اور ان کے دوستوں کے لیے بھی دیے تھے۔
علی بیگ نے ان امتیازی نشانوں کو دیکھا، ان پر اشتراکی لیڈر ماوزی تنگ کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ وہ فوراً حسین تجی کے پاس گیا اور اسے آگاہ کیا کہ امتیازی نشانوں میں کوئی فریب ہے۔ اگر عوامی نمائندوں کے اجتماع میں کوئی لانچاؤ گیا تو وہ کبھی واپس نہ آئے گا۔ یا اگر واپس آئے گا تو اپنے ساتھ اشتراکی فوجیں بھی لائے گا جو قازقوں کے کل جانور ضبط کر کے لے جائیں گی۔ اس نے حسین تجی کو ان تین ہزار نمائندوں کی کیفیت سنائی جنھیں شنگ کے زمانے میں ارمچی بلایا گیا تھا اور پھر انھیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے اپنے آدمیوں کو چٹھیاں لکھو کہ اپنے کل ہتھیار حکومت کے حوالے کر دیں اور جب ہتھیار نہیں آئے تو نمائندوں میں سے اٹھارہ لیڈروں کو جن میں یونس حجی بھی تھا گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔
حسین تجی کو دس سال سے سیاسیات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ علی بیگ کی باتیں سن کر اسے پوری طرح یقین نہیں آیا لیکن اس پر رضامند ہو گیا کہ اپنے بڑے بوڑھوں کو جمع کر کے ان امور پر سوچ بچار کرے۔ ان میں سے بعض بزرگوں نے حسین تجی کی طرفداری کی اور بعض نے علی بیگ کی، اور آخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے چالیس گھڑ سواروں کو تنگ ہوانگ بھیجا جائے اور واپس آ کر وہ مفصل روداد پیش کریں۔
ان چالیس سواروں کے روانہ ہونے کے بعد علی بیگ نے حمزہ اور قائنیش سے کہا کہ غزکل اور تنگ ہوانگ کے درمیانی پہاڑی راستوں پر خفیہ پہرے بٹھا دیں اور بے اجازت کسی کو دروں میں سے آنے جانے نہ دیں۔ چند روز بعد ایک قاصد چوکیوں پر پہنچا اور بولا میں تنگ ہوانگ سے آیا ہوں۔ چالیس سواروں کے سردار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں حسین تجی سے کہہ دوں، اس کے آدمیوں کا خیر مقدم اچھا کیا گیا اور اشتراکیوں کے سردار نے یہ کہہ کر ان کی تعریف کی ہے کہ قازقوں نے اب انقلاب کو کچھ کچھ سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد قاصد نے کہا: ان چالیس کو لاریاں دی گئی ہیں تاکہ انھیں اور دوسرے نمائندوں کو عوامی نمائندوں کے اجتماع میں شریک ہونے کے لیے لانچاؤ لے جائیں۔ فاصلہ چونکہ کوئی پانسو میل کا ہے اس لیے اتنا لمبا سفر گھوڑوں پر سوار ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ مجھ سے یہ بھی کہا گیا کہ میں غزکل کے آس پاس کے قازقوں کو آگاہ کر دوں کہ تنگ ہوانگ میں کسی کو اس وقت تک داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ماوزی تنگ کی تصویر والا نشان اس کے نہ لگا ہوا ہو اور ہتھیار لے کر کوئی اس وقت تک داخل نہیں ہو سکے گا جب تک اس کے پاس اشتراکی کماندار کا اجازت نامۂ خاص نہ ہو۔ جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی۔ آخر میں اس نے یہ بھی کہا کہ جب میں غزکل کی طرف آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ تنگ ہوانگ کے قریب جو درے ہیں ان پر اشتراکی فوجوں کی نگرانی ہے۔
جب قاصد کہہ چکا تو حمزہ نے قائنیش سے کہا: “تو پہلے وہ ہمارے ہتھیار ہم سے لے لیں گے اور بعد میں ہمیں اپنا غلام بنا لیں گے یا قتل کر ڈالیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے شنگ نے میرے بھائی کو قتل کرتے وقت کیا۔ اس وقت کے بعد سے چاہے کوئی ہو جب تک وہ اپنا مقصد نہ بتائے کسی کو گزرنےنہ دیا جائے۔”
قائنیش نے قاصد کی طرف اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر کہا: “اور اسے جانے دیا جائے یا روک لیا جائے۔”
حمزہ نے کہا: “اسے جانے دو کیونکہ اس نے سچ بولا ہے۔ اگرچہ سمجھا کچھ بھی نہیں اور اس میں اشتراکیوں کا سا چھل فریب بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جب حسین تجی یہ سنے کہ ہتھیار لے کر کوئی نہیں جا سکے گا تو سمجھ جائے کہ کیا چال چلی جا رہی ہے۔”
اس کے بعد جس قاصد نے داخلہ کی کوشش کی وہ چالیس سواروں کے سردار کے پاس سے نہیں آیا تھا اور نہ اس کے بعد آنے والا قاصد اس سے کوئی پیغام لایا تھا۔ حالانکہ دونوں کہتے یہی تھے کہ ہم اس کے بھیجے ہوئے ہیں۔ حمزہ اور قائنیش نے جب ان سے پے در پے سوال کیے اور وہ جواب نہ دے سکے یا ادھر ادھر کی ہانکنے لگے تو یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ وہ اس دشمن کے پٹھو ہیں جس سے حمزہ اور قائنیش بر سرِ پیکار تھے لیکن حسین تجی کو ابھی ان سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ دونوں قاصدوں نے یہی کہا کہ ہمیں چالیس سواروں نے یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ غزکل کے قازق ہتھیار ڈال دیں۔ کیونکہ سارے چین میں اب امن ہو چکا ہے۔ پہلے قاصد نے ہتھیاروں کے بارے میں جو کہا تھا اس سے حمزہ اور قائنیش کو یقین ہو گیا کہ یہ دونوں آدمی جھوٹے ہیں لہذا ان دونوں کو جاسوس قرار دے کر گولی سے اڑا دیا گیا۔
جب دن گزرتے چلے گئے اور ان چالیس کی کوئی خیر خبر نہیں ملی تو حسین تجی کے قازقوں میں پریشانی پھیلی۔ ان لاپتہ آدمیوں کے بیوی بچوں اور اقربا نے حسین تجی کے خیمے کے باہر شور مچانا شروع کیا کہ تنگ ہوانگ جاسوس بھیجے جائیں تاکہ ان چالیس کا خفیہ طور پر پتہ لگائیں۔ حسین تجی کو اس کا علم نہیں تھا کہ پہاڑی راستوں کی ناکہ بندی اشتراکیوں نے کر رکھی ہے۔ اس نے علی بیگ سے مشورہ کیا۔ یہ طے ہوا کہ نہایت احتیاط سے دو آدمی چن کر آس پاس کے علاقے اور تنگ ہوانگ کا جائزہ لینے بھیجے جائیں۔ ان دو قازق جاسوسوں کو خودکار ہتھیاروں سے لیس کیا گیا اور ان کے ماوزی تنگ کے تصویری نشان لگا دیے گئے تاکہ اشتراکی جاسوس ان پر شبہ نہ کریں۔
ان کے روانہ ہونے سے پہلے علی بیگ نے بڑی احتیاط سے انھیں ہدایات دیں کہ وہ کس طرح پہاڑوں میں اشتراکیوں کی ناکہ بندی سے بچ نکلیں۔ ادھر حمزہ اور قائنیش کو بھی ہدایت کی کہ انھیں بے روک ٹوک جانے دیا جائے۔ اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ یہ دونوں ٹھیک اس وقت تنگ ہوانگ میں داخل ہوئے جب یہ چالیس آدمی لاریوں میں بھر کے شہر کے دروازوں سے باہر لے جائے جا رہے تھے۔ ان کے ہتھیار ان سے لے لیے گئے تھے اور اگرچہ وہ طوق و زنجیر میں اسیر نہیں تھے پھر بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ یہ لوگ اپنے مقتل کی جانب جا رہے ہیں۔ لاریاں ابھی روانہ نہیں ہوئی تھیں اور یہ دونوں جاسوس ان کے قریب جا پہنچے اور قازق زبان میں انھیں آواز دینے لگے۔ انھیں معلوم تھا کہ مسلح محافظ چینی ہیں، اس لیے ان کی زبان نہیں سمجھ سکیں گے۔ چالیس آدمیوں کے سردار نے انھیں جواب دیا:
“انھوں نے ہمیں حکم دیا کہ غزکل قاصد بھیجیں جو ہمارے بھائیوں سے اور حسین تجی سے جا کر کہیں کہ وہ اپنے ہتھیار حوالہ کر دیں اور تنگ ہوانگ آ کر نئی ریاست کی اطاعت کا حلف اٹھائیں۔ اور جب ہم نے اس سے انکار کر دیا تو انھوں نے ہمیں بتایا کہ قاصد ہماری طرف سے بھیجے جائیں گے اور اگر وہ ہتھیار حوالے کرنے کی رضامندی لے کر نہ لوٹے تو ہمیں قتل کر دیا جائے گا۔ کیونکہ ہم نے قسم کھائی تھی ہتھیار حوالے کر دیے جائیں گے۔ لیکن ہم نے تو ایک لفظ کی بھی قسم نہیں کھائی تھی۔ البتہ اشتراکیوں نے ہمیں بتایا تھا کہ قاصدوں کو یہی کہنے کی تاکید کی گئی تھی۔”
دونوں آدمیوں نے ان سے پوچھا: “کیا تمھاری جان بچانے کے لیے ہم کچھ کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس خود کار ہتھیار ہیں حالانکہ تنگ ہوانگ کی فصیل کے اندر ان کا چلانا حماقت ہے۔”
چالیس آدمیوں کے سردار نے کہا: “نہیں ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ہمیں اس جرم کے لیے مار ڈالیں جس کا الزام ہم پر لگایا گیا ہے۔ جرم تو انھوں نے خود کیا ہے، ہم نے نہیں کیا۔ ہمارا قتل ہونا نہ ہونا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ بہتر ہوگا کہ تم ہمارے ساتھ مارے نہ جاؤ بلکہ جا کر ہماری بیویوں اور ساتھیوں کو بتاؤ کہ یہاں ہو کیا رہا ہے۔”
جب لاریاں روانہ ہوئیں تو ان دونوں نے کہا: “بسلامت روی و باز آئی۔ رہے ہم تو جو کچھ تم نے کہا ہے ہم وہی کریں گے۔”
ان چالیس آدمیوں کا کیا حشر ہوا آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ ان میں سے ایک بھی غزکل واپس نہیں آیا اور نہ ان کی کوئی خبر ہی آئی۔ اس لیے امکان اسی کا ہے کہ اشتراکیوں نے انھیں قتل کرنے کی دھمکی پوری کر دکھائی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انھیں قیدیوں کے اس گروہ کے ساتھ کام کرنے کی سزا دی گئی ہو جو سڑکیں اور پل اور کارخانے بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ کیونکہ اشتراکیوں کا مقصود و معیار ترقی یہی چیزیں ہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو قازق زندگی کے دلدادہ ہوں یہ سزا موت سے بدتر ہے۔
غزکل واپس پہنچنے میں ان دونوں آدمیوں نے کسی قسم کی تاخیر نہیں کی۔ جب انھوں نے جو کچھ دیکھا تھا اور جو کچھ چالیس آدمیوں کے سردار نے کہا تھا بتایا تو لاپتہ آدمیوں کی بیویوں نے اپنے ناخنوں سے اپنے منہ نوچ ڈالے اور خون بہتے چہرے لیے حسین تجی کے ڈیرے پر جا پہنچیں اور انتقام کے لیے چیخنے لگیں۔ ان کے ہمدردوں نے انھیں دلاسہ دینے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا بجھایا۔ اس دن کے بعد سے حسین تجی کے آدمی بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہے اور وہ اس کے لیے آمادہ ہو گئے کہ جس طرح دوسرے قازق الطائی، تئین شان، کیو کلوک اور کیو چنگ میں لڑے تھے، انھیں بھی اسی طرح لڑنا ہوگا۔ لہذا گشتی دستے اور پہاڑوں کی چوکیاں بڑھا دی گئیں اور کچھ دنوں بعد اشتراکی گشتی دستوں سے کچھ جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن ابھی کوئی خطرناک صورت پیدا نہیں ہوئی تھی۔
١٥ مارچ ١٩٥٠ء کو ایک غیر متوقع شخص غزکل کے علاقے میں آیا۔ یہ ڈگلس میکیرنن تھا۔ امریکی نائب قونصل جو ارمچی سے ٹھیک اس دن پر اسرار طور پر غائب ہو گیا تھا جس دن ہشت راہ لشکر کا ہراول اس میں داخل ہوا یعنی ١١ ستمبر ١٩٤٩ء کو۔ ارمچی غزکل سے گھوڑے یا تیز رفتار اونٹ پر چودہ دن کے فاصلہ پر ہے۔ ان ہی پر میکیرنن اب سفر کر رہا تھا۔ لیکن وہ ساڑھے پانچ مہینے سے سفر کر رہا تھا۔ اس نے یہ درمیانی ساڑھے پانچ مہینے کہاں اور کیسے گزارے، یہ علی بیگ کو معلوم نہیں۔ یا شاید اسے معلوم ہو لیکن اس نے ہم سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا یہ اصول ہے کہ دوسروں کے معاملات کا وہ تذکرہ نہیں کرتا۔ ایک امریکی جس کا نام فرینک بسّاک تھا میکیرنن کے ساتھ تھا۔ اس نے "لائف” میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ انھوں نے جاڑا ایک پڑاؤ میں گزارا تھا لیکن اس نے تفصیلات بیان نہیں کی تھیں۔
میکیرنن علی بیگ کو جانتا تھا۔ اس نے کہا مجھے اپنے سامان کے لیے کچھ جانور خریدنے ہیں۔ اس نے رہنماؤں کے لیے بھی کہا جو اسے تبت کی سرحدوں تک پہنچا دیں۔ یہ سرحد کوئی دو سو میل جانب جنوب تھی، شاہین کی پرواز کے لحاظ سے۔ لیکن الطائن پہاڑوں کے راستے سے اس سے کہیں زیادہ دور تھی۔ علی بیگ نے جانور اور رہنما دونوں مہیا کر دینے کا وعدہ کر لیا اور اس کے بعد اس نے میکیرنن کو کیو کلوک کے اطراف کی لڑائیوں اور کوہِ تشنہ میں اپنے سفر کے حالات سنائے۔ اس نے قازقوں کے مستقبل پر بھی گفتگو کی۔ اس نے غالباً امریکیوں سے یہ بھی دریافت کیا کہ ہمالیہ کے اس پار سے کچھ مدد پہنچنے کی توقع کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس نے باور کرایا کہ قازق اس لڑائی میں اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔
رخصت ہونے سے پہلے میکیرنن نے پانچ ڈالر کا ایک نوٹ پھاڑ کر دو ٹکڑے کیے اور دونوں پر اپنے اپنے انگوٹھوں کا نشان لگا کر ایک ٹکڑا اس نے علی بیگ کو دے دیا اور ایک اپنے پاس رکھ لیا۔ اس کے بعد انھوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور دونوں امریکی اپنے ساتھ تازہ دم پندرہ اونٹ، ایک گھوڑا اور قازقوں کے مہیا کیے ہوئے دو رہنما لے کر روانہ ہو گئے۔ رہنما ایک ہفتے بعد واپس آ گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہم امریکیوں کے ساتھ تین دن تک چلتے رہے اور چار دن ہمارے واپس آنے میں لگے کیونکہ واپسی میں ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی۔ ہم تبت کی سرحد آنے سے پہلے ہی واپس چل پڑے کیونکہ میکیرنن نے ہم سے کہا کہ اب ہمیں تمھاری ضرورت نہیں ہے۔
اگر ان کا بیان صحیح ہے تو میکیرنن کا یہ فیصلہ کہ وہ سرحد کے آنے سے پہلے ہی لوٹ جائیں ایک تباہ کار واقعہ تھا۔ علی بیگ نے ان دونوں رہنماؤں کو حکم دیا تھا کہ امریکنوں کو تبت میں اس راستے سے لے جائیں جس پر تبت کے سرحدی محافظ نہیں تھے۔ جس راستے سے امریکی گئے اس پر تبتی محافظین متعین تھے۔ بہت دنوں بعد علی بیگ کو معلوم ہوا کہ انھوں نے میکیرنن کو گولی مار کر ہلاک کر دیا کیونکہ دلائی لامہ کے کوئی ایسے احکام انھیں نہیں پہنچے تھے کہ اسے آنے دیا جائے۔ فرینک بسّاک کو انھوں نے نہیں مارا۔
میں نے علی بیگ سے پوچھا کیا خیال ہے تمھارا؟ میکیرنن کی موت اتفاقی تھی یا اشتراکی سازشوں کا نتیجہ کہ سرحدی ناکے پر احکام نہیں پہنچے حالانکہ لاسہ کے سرکاری بیان کے مطابق جتنے بھی قرب و جوار کے ناکے تھے سب پر احکام پہنچ چکے تھے، مگر اسی ناکے پر نہیں پہنچے جہاں میکیرنن مارا گیا۔ علی بیگ تو اسی وقت بہت متعجب ہوا تھا جب قازق رہنما اپنا کام پورا کیے بغیر واپس آ گئے تھے۔ کیونکہ اس کے اور میکیرنن کے درمیان یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ رہنما امریکیوں کو سرحد پار کرائیں گے۔ اس لیے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میکیرنن اور بسّاک کے ساتھیوں میں کہیں اشتراکی تو شامل نہیں تھے جنھوں نے کوئی چال چل کر رہنماؤں کو پہلے ہی چلتا کرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود تبت میں اشتراکی پٹھو موجود تھے۔ لیکن اس وقت تک پورے تبت پر اشتراکیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن اشتراکی پٹھوؤں کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا کہ ایک سرحد پر دلائی لامہ کا وہ حکم نامہ نہ پہنچنے دیں جس میں میکیرنن کو تبت میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ اگر میکیرنن کے بارے میں چوکی پر کسی قسم کے احکام نہیں پہنچے تھے تو دو امریکنوں میں سے صرف ایک کے گولی ماری گئی۔ دونوں کو ہلاک کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کی توضیح صرف یہ ہو سکتی ہے کہ سرحدی چوکی کو بساک کے آنے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اسے حکم مل چکا تھا کہ میکیرنن کو ہلاک کر دیا جائے کیونکہ اسے سنکیانگ کے معاملات کا ضرورت سے زیادہ علم تھا اور وہ خوب جانتا تھا کہ اس صوبے پر اشتراکیوں نے کس طرح قبضہ کیا ہے۔
رخصت ہونے سے پہلے میکیرنن نے علی بیگ سے اپنے پانچ ڈالر کے نوٹ کو حفاظت سے رکھنے کو کہا تھا اور تاکید کی تھی کہ یہ آدھا نوٹ دلی میں مقیم ایک امریکی افسر کو دکھائے، علی بیگ نے جو مدد میکیرنن کی کی تھی اس کا مناسب معاوضہ دلی کا ایک امریکی افسر پیش کر دے گا۔ لیکن جب علی بیگ نے سنا کہ میکیرنن مارا گیا تو اسے آدھا نوٹ پیش کرنے کی کوئی خواہش نہیں رہی اور اس نے میکیرنن کی یادگار بطور اسے اپنے پاس رہنے دیا۔ یہ آدھا نوٹ اس کے پاس اب بھی ہے، حالانکہ اس کے پاس اپنی پہلے کی چیزوں میں سے اب صرف ایک رسمی لباس ہی رہ گیا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ علی بیگ کو یہ آدھا نوٹ دلی میں پیش کرنا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اپریل ١٩٥٠ء میں علی بیگ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر بیرونی مدد نہ پہنچی تو قازقوں کو وسطی ایشیا سے لڑتے بھڑتے باہر نکل جانا تھا۔
اب ہمیں بارکل واپس چلنا چاہیے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں مئی ١٩٤٩ء میں کارا شہر جانے سے تاؤ کی مصالحتی فوجوں نے جب عثمان بطور کو روکا تھا تو وہ یہاں سے چلا آیا تھا۔ کیو کلوک کی لڑائی کو ختم کرنے تک اشتراکیوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس کے بعد انھوں نے ایک فوج روانہ کر دی کہ جا کر عثمان بطور کے پڑاؤ کا محاصرہ کر لے۔ اسی پڑاؤ میں یول بارز ترکی تھا جس کے ساتھ ترکی اور چینی تھے اور جانم خاں بھی تھا جس کے ساتھ اس کے قازق اور سفید روسی تھے۔ اشتراکیوں نے کرایہ کے قازقوں سے قازق زبان میں آزاد قازقوں سے کہلوایا کہ ہتھیار ڈال دیں۔ انھوں نے نام لے لے کر ایک ایک آدمی سے اپیل کی۔ جس طرح اساطیر الاولین میں رب شکیہ نے گھرے ہوئے یہودیوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھیں ایک اور سرزمین میں لے جاؤں گا جو تمھاری ہی سرزمین کی طرح ہے۔ غلے اور شراب کی سرزمین، روٹی اور تاکستانوں کی سرزمین، زیتون کے تیل اور شہد کی سرزمین، تاکہ تم زندہ رہو اور مرنے نہ پاؤ۔ اسی طرح اشتراکیوں نے عثمان بطور، یول بارز اور جانم خاں کے ساتھیوں سے وعدہ کیا کہ مارکسی معاشی منصوبے کے تحت ان کے لیے مادی مفادات مہیا کیے جائیں گے اور انھیں وعدوں کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر اشتراکیوں کی پیش کش کو قبول نہ کیا گیا تو کس کس اذیت کے ساتھ مقابلہ کرنے والوں اور ان کے متعلقین کو ہلاک کیا جائے گا۔
عثمان بطور اور اس کے آدمی اشتراکیوں کے فوجی اور نفسیاتی حملوں کا مقابلہ نو مہینے تک کرتے رہے اور دن بہ دن دبتے دبتے ایک ذرا سی جگہ میں گھر کر رہ گئے۔ لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ہشت راہ لشکر نے مقامی حاشیہ برداروں کی مدد سے یول بارز پر حملہ کیا۔ وہ بارکل کے جنوب مغرب میں پہاڑی درے تاشی تُو کو روکے ہوئے تھا۔ یہ درہ ان دو راستوں کو ملاتا ہے جو شمالی سڑک اور جنوبی سڑک کہلاتے ہیں اور یہ سڑکیں مشرقی ترکستان کو چین سے ملاتی ہیں اور صحرائے گوبی میں گزرنے سے پہلے حامی میں مل جاتی ہیں۔ حملہ آوروں کے پاس مشینی دستے تھے اس لیے انھوں نے ذرا سی دیر میں یول بارز کو وہاں سے اکھاڑ دیا۔ لیکن جب یہاں سے ہٹ کر یول بارز بارکل کے میدان میں عثمان بطور سے جا ملا تو ان دونوں نے مل کر اشتراکیوں کو تین مرتبہ پسپا کیا اور ان کے بہت سے آدمی مار ڈالے۔ اس ہزیمت پر اشتراکیوں نے تھکے ہوئے ہشت راہ لشکر کو وہاں سے ہٹا لیا اور روسیوں کی سرکردگی میں قازقوں کا لشکر آگے بڑھا دیا اور ان کی مدد روسی ہوائی جہازوں سے کی۔ روسی جہاز رانوں نے جتنے بھی قازقوں کے پڑاؤ انھیں نظر آئے سب پر بمباری کی۔
اس کے بعد اشتراکیوں نے بارکل کے علاقے سے نکاسی کے تمام راستے بند کر دیے اور مسلح محافظوں کے ساتھ “وضاحتی دستے” ان تمام قازق پڑاوؤں تک بھیجے جن تک پہنچنے میں عثمان بطور کے جنگجو حائل نہیں تھے۔ وضاحتی دستوں نے تمام بستیوں کے بے ضرر بسنے والوں کو مع ان کے بال بچوں اور جانوروں کے کیوچنگ کے اجتماعی کمپوں میں پہنچا دیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو ہر پڑاؤ نے وضاحتی دستوں کی مخالفت کی۔ جس نے بھی مخالفت کی اس کا صفایا کر دیا گیا اور دشمنوں پر اس فتح کو اشتراکی اخباروں میں محب وطن فوجوں کی شاندار کامیابی کا نام دے کر خوب اچھالا گیا۔
اس قسم کی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کے بعد اشتراکیوں نے عثمان بطور کے لڑنے والے دستوں کو ختم کرنے کے ارادے سے بارکل کے میدان پر ایک زبردست حملہ کیا۔ اس میں انھیں پھر ناکامی ہوئی اور انھوں نے سوویت حکومت سے تربیت یافتہ روسی فوجیں اور ٹینک اور بھاری توپیں منگائیں۔ اس پر بھی آزاد قازق دو مہینے تک جمے رہے۔ آخر میں ان میں سے بعض قازق صحرائے گوبی میں نکل گئے اور نہ معلوم ان کا کیا حشر ہوا۔ لیکن باقی ماندہ قازق عثمان بطور کے ساتھ لگے رہے۔ عثمان بطور نے حیرت ناک طور پر اشتراکی گھیرے کو توڑ لیا اور اپنے آدمیوں جانم خاں اور یول بارز کے آدمیوں، ان کے بال بچوں اور خیموں اور ان کے ریوڑوں اور گلوں کو اپنے ساتھ لے کے پہلے پہاڑوں کو عبور کیا پھر پانسو میل کا کھلا علاقہ طے کیا اور کئی ایسے فصیل دار شہروں کے قریب سے گزرا جن میں اشتراکی فوجی دستے مقیم تھے۔ ان سب کو پار کر کے وہ خان امبل کے پہاڑوں میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ ستمبر ١٩٥٠ء کے اوائل میں پہنچ گئے تھے۔ ترکی میں جو قازق موجود تھے ان میں سے اس حیرت ناک فوجی مہم میں کوئی شریک نہیں تھا۔ اس لیے ایشیا کے اس حصے کے متعلق معلومات حاصل نہیں ہو سکی لیکن اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ عثمان بطور اپنے سارے ساتھیوں کو نکال لے گیا۔
خان امبل کے پہاڑوں میں ان کے پہنچ جانے سے کچھ ہی پہلے غزکل کے علاقے میں اشتراکی زیادہ سرگرمی دکھانے لگے اور کوہ صادم میں ایک بڑی خطرناک لڑائی ہوئی جس میں جانبین کے بہت آدمی مارے گئے۔ علی بیگ کا بھائی زین الحمید بھی اسی میں کام آیا لیکن اشتراکیوں کا نقصان اتنا زیادہ ہوا کہ انھوں نے پانچ مہینے تک کوئی دوسرا حملہ نہیں کیا۔
جب یول بارز غزکل پہنچا تو اس نے کہا: “میں تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب ہمیں ترکستان چھوڑ کر چیانگ کائی شیک سے جا ملنا چاہیے جو فارموسا جا پہنچا ہے۔ اس صورت میں کہ پورے چین کے خاص علاقے اشتراکیوں کے قبضے میں جا چکے ہیں ہمارا شمال مغربی چین میں رہنا حماقت ہے۔ خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے کہ غزکل میں قازق لڑنے والوں کی مجموعی تعداد چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں ہے”۔ علی بیگ اس کی رائے سے اتفاق کرنا چاہتا تھا لیکن عثمان بطور اور قازقوں کی اکثریت مشرقی ترکستان ہی میں ڈٹے رہنے کو ترجیح دیتی تھی کیونکہ انھیں یقین ہو گیا تھا کہ شمال مغربی چین کے دوسرے آباد حصوں سے اب ہم اتنی دور نکل آئے ہیں کہ اشتراکی اب ہم سے نہیں الجھیں گے۔
علی بیگ اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ یول بارز چلے جانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ چونکہ ستر برس کا بڈھا تھا اس لیے اس کے چلے جانے سے کوئی خاص کمی نہیں واقع ہوتی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یول بارز کے چینی ساتھی قازق طرزِ جنگ سے ناواقف ہیں اس لیے اگر وہ بھی اس کے ساتھ چلے جائیں گے تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا۔ سعالی نے بھی جس کے زیادہ آدمی سفید روسی تھے۔ یول بارز کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ مالدار قازق تاجر عادل، عبدالکریم مورخ اور امین طہٰ ملّا جو علی بیگ کو اطاعت قبول کرنے کے لیے مشورہ دینے گیا تھا اور پھر علی بیگ کے کہنے سننے سے خود بھی باغی ہو گیا تھا، ان سب نے بھی چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ ان تینوں کے ساتھ ان کے بال بچے ہی تھے۔ لڑنے والے آدمی نہیں تھے۔
عثمان بطور کی بارکل سے واپسی پر جب سب لوگ رخصت ہوئے تو علی بیگ نے انھیں خدا حافظ کہا اور جنرل اسیمو چیانگ کائی شیک کو یول بارز کے ہاتھ چٹھیاں بھیجیں اور جنرل آئزن ہاور کو بھی، جن میں اس نے لکھا: “اگر ہمیں کوئی مدد نہیں پہنچے گی تو ہم ایک سال تک اور یہیں اپنا بچاؤ کرتے رہیں گے۔ پھر بھی اگر مدد نہ ملی تو ہم لڑ کر یہاں سے باہر نکلنے کا راستہ بنا لیں گے۔”
دسواں باب
غزکل میں تباہی
غزکل میں عثمان کی جنگ پسپائی کے ساتھ قازق کشمکش آزادی کا ایک اور باب ختم ہوا۔ ٤٩ـ ١٩٤٤ء میں جب ان کی کامیابی شباب پر تھی تو آزاد قازقوں نے عملاً قازقوں کی روایتی چراگاہوں کو آزاد کرا لیا تھا؛ الطائی، تار باغتائی، خلدزا، تئین شان کے شمالی ڈھلان اور درمیانی علاقہ۔ سوویت حکومت کی کھلی مداخلت کے ساتھ مسلسل مد و جزر ہوتا رہا۔ پہلے الطائی ہاتھ سے نکلا۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے تار باغتائی اور خلدزا، بائیتک بوغدو، کیوچنگ، تئین شان، کیو کلوک سبھی ہاتھ سے نکل گئے۔ آخر میں بارکل کے چھن جانے کے بعد قازق ایک ایسے علاقے میں گھر کر رہ گئے جو ان کے روایتی مسکنوں سے کالے کوسوں تھا۔ اس علاقے کو انھوں نے اپنا مامن سمجھ کر آباد کیا تھا۔ صرف تیرہ سال پہلے اس کا گھیرا مشکل سے ڈھائی سو میل کا ہوگا۔ اس کے تین طرف خشک یا نیم خشک صحرا اور پہاڑی سلسلے تھے، چوتھے رخ بے رحم و ظالم دشمن کھڑا خون کی پیاس بجھانے کے لیے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ وہ قازقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا نہیں چاہتا تھا، مبادا وہ اپنے قرب و جوار کے غلام بنائے ہوئے لوگوں کے دماغوں میں ہوائے آزادی بھر دیں۔
اس تنگ جائے قیام میں عثمان بطور کے پہنچنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے سکون رہا۔ کبھی کبھی ہوائی جہاز ان کے سروں پر غراتے۔ حمزہ اکثر اطلاع دیتا رہتا کہ اشتراکی گشتی دستوں سے ہماری بیرونی چوکیوں کی آویزش ہوئی لیکن دونوں طرف سے چند گولیاں چلنے کے بعد وہ حملے کا انتظار کیے بغیر لوٹ گئے۔ اکثر نہیں کبھی کبھی اجنبی مسافر گھوڑے یا اونٹ پر سوار ادھر نکل آتے۔ یہ اجنبی پر امن لوگ ہوتے لیکن بیرونی چوکیوں سے انھیں اس وقت گزرنے دیا جاتا جب ان سے خوب جرح کر لی جاتی۔ لیکن اب جب کہ غزکل کے پڑاؤ کا ہر شخص اشتراکیوں کے گھس آنے کے خطرے سے خوب آگاہ تھا، یہ چنداں ضروری نہیں تھا کہ اشتراکی پٹھوؤں کو دور رکھا جائے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کے ذریعہ یہ معلوم کیا جائے کہ قازقوں کے گھیرے کے باہر کیا ہو رہا ہے۔
چالیس آدمیوں کے قتل کے واقعے کے بعد تنگ ہوانگ کسی کا جانا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ دو ایک دفعہ حسین تجی کے بعض آدمیوں نے وہاں جانے کی ہمت کی لیکن یہ ایک خطرناک اقدام ہوتا تھا جس میں جان جوکھم زیادہ اور فائدہ کم تھا۔ ہمت کرنے والوں کو نہ صرف اشتراکی بیرونی چوکیوں سے بچنا پڑتا جو قائم ہی اس لیے کی گئی تھیں کہ آزاد قازق دوسرے لوگوں سے نہ ملنے پائیں، بلکہ یہ بھی ضروری تھا کہ ان مسلح محافظوں سے بچا جائے جو شہر کے دروازوں پر متعین تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ تخریبی عناصر کی جانچ کرتے رہیں، ہتھیاروں پر نظر رکھیں اور اسے گرفتار کر لیں جو اپنے آنے کی کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے۔ ان تمام مشکلات سے بچ جانے کے بعد جب با ہمت لوگ فصیل دار شہر کے اندر پہنچ جاتے تو انھیں ایسے واقف کاروں کی طرف سے چوکنا رہنا پڑتا جو اشتراکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جھٹ انھیں پکڑوا دیتے۔ یہاں کے بسنے والے دوستوں تک سے بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کہتے تھے کہ کہیں اشتراکیوں کے کان میں اس کی بھنک نہ پڑ جائے کہ یہ بات ہم نے کہی ہے۔
چراگاہوں کے بعد صحرا پھیلا ہوا تھا اس لیے شمال کی طرف سے اشتراکیوں اور پہاڑوں کے باعث کٹ جانے کی وجہ سے قازق اپنی ایک چھوٹی سی دنیا میں گھر کر رہ گئے تھے۔ یہ زندگی انھیں ہمیشہ سے پسند تھی لیکن ان کی اس دنیا پر لالچی لوگ دانت لگائے بیٹھے تھے اور اسے ان سے چھین لینے کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔
مہینوں لڑتے رہنے کی وجہ سے قازقوں کے پاس جنگی سامان اور بھی کم رہ گیا۔ اشتراکی بیرونی چوکیوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ اس لیے رسدی قافلوں کو پہلے کی طرح لوٹ لینا اب آسان نہیں تھا۔ ادھر پھر وہ مجبور ہو گئے تھے کہ اپنے پڑاؤ میں خانہ ساز ہتھیار تیار کریں خصوصاً موٹی موٹی گولیاں ٹھوس سیسے کی، آدھے انچ یا اس سے بھی زیادہ موٹی۔ اپنی بنائی ہوئی بندوقوں کے لیے ایسی ہی گولیوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق یہ گولیاں ممنوع اور خلاف قانون تھیں لیکن قازقوں کو غیر قانونیت اور غیر تحفظیت میں سے ایک کو اختیار کرنا ہی تھا کیونکہ مقابلہ ایسے دشمن سے تھا جو کسی قانون کی پابندی نہیں کرتا سوائے اس قانون کے جس سے اس کا کام نکلتا ہو۔ قازق اسے گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ بالکل غیر محفوظ رہ جائیں۔
عثمان بطور کے آ جانے پر میدان میں جتنی بھی قازق فوجیں تھیں سب کی کمان اس کے حوالے ہو گئی۔ لیکن ہر گروہ کی کمان گروہ کے سردار کے ہاتھ میں رہی۔ یہ سردار اگر چاہتا تو عثمان بطور کا حکم مانتا لیکن اسے آزادی تھی کہ خود بھی جو چاہے سو کرے لیکن ہمیشہ بغیر کسی استثنا کے بنیادی پالیسی کا فیصلہ حر الطائی یا جنگی کونسل میں رائے شماری سے کیا جاتا اور ان کی تعمیل عثمان بطور کے ذمہ ڈالی جاتی۔ اب جو ہدایات وہ دیتا ان کی پابندی سب کو کرنی پڑتی۔
پالیسی کی بنیادی شقیں ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی ہوتیں کہ اب جہاں ہم ہیں کیا ہم امید کر سکتے ہیں کہ اشتراکیوں سے نمٹ لیں گے۔ اگر نہیں نمٹ سکتے تو آگے کو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اشتراکیوں کی بڑھتی ہوئی قوت کی خبریں علی بیگ کو حمزہ کی پہاڑی بیرونی چوکیوں سے پہنچتی رہتی تھیں۔ ان کے پیش نظر وہ اس تجویز کے حق میں تھا کہ موسم سرما ختم ہوتے ہی غزکل چھوڑ کر ہمیں تبت میں سے ہو کر ہندوستان نکل جانا چاہیے۔ اگر ان کے گزر جانے پر دلائی لامہ رضا مند ہو تو خیر، ورنہ انکار کی صورت میں قوت استعمال کی جائے۔ عثمان اور جانم خاں کی رائے یہ تھی کہ غزکل کے علاقہ میں ہم ہمیشہ اپنا بچاؤ کر لیا کریں گے۔ اگر ہمیشہ نہیں تو کم سے کم اس وقت تک جب تک سیاسی حالات دوبارہ بدل نہ جائیں۔ اس کا انھیں تجربہ ہی تھا کہ سیاسی حالات دیر سویر بدلتے ہی رہتے ہیں۔ انھوں نے دلیلیں پیش کیں کہ چینی سیاسی قوتوں کے مد و جزر اور اس سے بڑھ کر شخصیتوں کے تصادم سے بالآخر اشتراکیوں کا زوال شروع ہو جائے گا یا ان میں پھوٹ پڑ جائے گی اور پھر قازق اس قابل ہو سکیں گے کہ اپنے مسکنوں کو لوٹ جائیں اور چین سے زندگی بسر کرنے لگیں۔
علی بیگ نے ان سے اتفاق نہیں کیا۔ وہ اس حقیقت سے متاثر تھا کہ چینی اور روسی حکومتیں در اصل مل کر کام کر رہی تھیں۔ اسے یقین نہیں تھا اور نہ ہے کہ یہ اسی طرح مل کر ہمیشہ کام کرتی رہیں گی یا یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چلتا رہے گا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب تک یہ اشتراک قائم رہے گا اس کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی کہ دو ایسے طاقتور حریفوں کی متحدہ فوجوں سے آزاد قازق نبرد آزما ہو سکیں گے۔ لہذا اس کی رائے یہ تھی کہ وقت نکل جانے سے پہلے ہمیں اشتراکیوں کی پہنچ سے باہر نکل جانا چاہیے۔ جیسے یول بارز اور دوسرے قازق پانچ مہینے پہلے کر چکے تھے۔
چناچہ دو ہی راہیں آزاد قازقوں کے لیے کھلی تھیں جن پر وہ بحث کر رہے تھے۔ جہاں تھے وہیں جمے رہیں اور لڑتے رہیں یا دشمنوں کے گھیرے کو توڑ کر باہر نکل جائیں۔ قدرتی رکاوٹوں مثلاً تکلا مکان، صحرا الطائی اور کنلون پہاڑ اور ہمالیہ کا سلسلہ ان سب کو انھیں عبور کرنا ہوگا۔ پھر زندہ دشمن تھے جن میں صرف اشتراکی ہی شامل نہیں تھے بلکہ تبتی بھی جو شاید مخالفت کر بیٹھیں۔ ان سے بھی آزاد قازقوں کو نمٹنا ہوگا۔ اس وقت آزاد قازقوں کی تعداد تین چار ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ عورتوں اور بچوں سمیت ایشیائے کوچک میں زینوفون اور اس کے دس ہزار یونانی جس مخمصے میں پھنس گئے تھے وہ ان خطرات کے مقابلے میں شمّہ بھر بھی نہیں تھا جو قازقوں کو درپیش تھے، حالانکہ یونانیوں کی تعداد قازقوں سے تقریباً تین گنی تھی۔ لڑ کر نکلنے کی صورت میں انھیں ایشیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں کی مشترکہ افواج سے نبرد آزما ہونا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی قدرتی رکاوٹوں کو عبور کرنا تھا۔
لہذا اس پر متعجب نہیں ہونا چاہیے کہ عثمان بطور، جانم خاں اور بہت سے دوسرے لیڈر اس مہم کو سر کرنے سے کیوں باز رہے۔ دونوں خرابیوں میں سے کم خرابی مزاحمت تھی۔ خصوصاً عثمان بطور کے لیے جو اس یقین سے متاثر تھا کہ بوکو بطور کی پیشین گوئی پوری کرنے کے کے لیے قسمت نے مجھے آلہ کار بنایا ہے: “ایک نہ ایک دن ہم ان کافروں کو انھی صحراؤں میں دھکیل دیں گے جہاں سے وہ آئے ہیں اور وہاں ہم انھیں برباد کر دیں گے چاہے ان کی تعداد تکلا مکان کے ذروں جتنی ہی کیوں نہ ہو”۔
۱۹۵۰ء کے آخری تین مہینوں اور ۱۹۵۱ء کی جنوری میں مسلسل انھی باتوں پر بحث مباحثے ہوتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے اور کس طرح کرنا چاہیے۔ روایتاً مشرقی ترکستان میں جاڑے کا پہلا دن ۱۱ نومبر کو پڑتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ برفباری اس سے بھی پہلے شروع ہو جاتی ہے اور برف پڑجانے کے بعد لڑائی لڑنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ گھوڑوں کی از سر نو نعل بندی کرنی ہوتی ہے اور خاردار نعل باندھے جاتے ہیں جیسے کوچنگ کے قریب چھاپہ پڑنے پر عثمان بطور نے اپنے گھوڑے کے باندھے تھے اور دشمنوں کے نرغے سے بچ نکلا تھا۔ اگر ایسے نعل نہ ہوں تو گھوڑے برف پر قدم نہیں رکھ سکتے۔ ریوڑوں اور گلوں کو چرنے کے لیے چراگاہیں نہیں ملتیں تو انھیں خشک گھاس کھلائی جاتی ہے جسے گرمیوں میں جاڑوں کے پڑاؤ میں رکھ دیا جاتا ہے۔
لہذا دیکھ بھال کے لیے یا چھاپہ مارنے کے لیے جو دستے جاتے وہ رسد اپنے ساتھ لے جاتے اور جاڑوں میں قازق اپنے خیموں میں عموماً بیکار رہتے۔ چینی بھی اس موسم میں لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے کیونکہ برف کی وجہ سے ان کی رسد بروقت نہیں پہنچ سکتی تھی اور اکثر ان کے فوجیوں کے پاس جاڑوں کی وردیاں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ یہی کیفیت اشتراکی ہشت راہ لشکر کی ۱۹۵۰-۵۱ء میں تھی۔ اور ۱۹۳۳ء اور ۱۹۴۳ء کے درمیان شنگ کی فوجوں اور کومنٹینگ فوجوں کا یہی حال تھا۔ اس کے باوجود حمزہ کے آدمی پہاڑی راستوں کی نگرانی کرتے رہے۔ حالانکہ پچھلی گرمیوں میں مسلسل مقامی حملوں نے انھیں زبردستی پیچھے ہٹادیا تھا۔ ستمبر ۱۹۵۰ء میں عثمان بطور کے آجانے پر یہ حملے رفتہ رفتہ ختم ہوگئے اور پورے نومبر دسمبر اور جنوری میں محاذ پر سناٹا رہا۔
ایک حرُ الطائی کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ یکم فروری ۱۹۵۱ء کی صبح کو یکایک اشتراکیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔ کونسل کے خیمے میں سرداروں نے دو رائفلیں چلنے کی آوازیں سنیں اور ان کے بعد شیر کے غرانے کی طرح مشین گنوں کی آوازیں انھیں سنائی دیں اور خیمےکے باہر شور مچنے لگا، اشتراکی آگئے، اشتراکی آگئے۔ انھوں نے قریب رکھے ہوئے ہتھیار اٹھائے اور خیمے سے نکل کر لپکے۔ لوگ بھی اپنے اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے اور چند لمحوں ہی میں سردار اور اُن کے آدمی یا تو لڑائی میں شریک ہونے کی غرض سے اُڑے جارہے تھے یا اپنے خیموں کی جانب۔ یہ خیمے قریب بھی تھے اور پندرہ بیس میل کے فاصلے پر بھی۔ عورتوں اور بچوں نے بغیر کسی کے کہے جلدی جلدی خیمے اُتارنے شروع کر دیے یا جانوروں کی طرف دوڑے اور خیموں کے معاملے کو واپسی پر چھوڑا کہ کبھی اگر واپس آئے تو دیکھا جائے گا۔
اشتراکیوں نے بالکل بے خبری میں حملہ کر دیا تھا پھر بھی ہر قازق پڑاؤ چل پڑا تھا۔ دس ہی منٹ میں کسی کے ساتھ خیمے تھے، کسی کے ساتھ نہیں تھے۔ اور برف کے باوجود سب قریب کے پہاڑوں کی جانب چلے جا رہے تھے۔ ہر پڑاؤ کے گرد لڑنے والے آدمیوں کا پردہ سا پھیلا ہوا تھا۔ دشمن کے گھڑ سواروں اور شتر سواروں پر وہ گولیاں چٹخا رہے تھے، اپنے ڈرتے ہوئے ریوڑوں اور گلوں کو سمیٹتے اور اکٹھے کرتے جا رہے تھے اور دشمن کی بکتر گاڑیوں سے اسے دور ہنکا لے جا رہے تھے۔ اتفاق سے سارے قازق سردار ایک ہی جگہ جمع تھے۔ اگر وہ اپنے اپنے آدمیوں میں ہوتے تو یہ حملہ یقیناً ناکام ہو جاتا۔ اشتراکی حملہ آوروں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی۔ ترکی میں جو مہاجر تھے ان کے قول کے مطابق پیدل، گھڑ سوار، شتر سوار اور بکتر بند گاڑیاں سب ملا کر کوئی تین ہزار آدمی تھے۔ لیکن حملہ آوروں کا سب سے خطرناک جزو بکتر بند گاڑیاں صرف کھلے علاقے میں کار آمد ثابت ہو سکتی تھیں اور حملہ شروع ہونے کے گھنٹہ بھر کے اندر ہی بیشتر قازق پہاڑوں میں جا پہنچے تھے۔
حسب دستور اشتراکیوں نے قازق گھڑ سواروں سے بھڑنے کی کوشش نہیں کی بلکہ سرداروں، ان کے گھر والوں اور ان کے جانوروں میں تفرقہ ڈالنا چاہا۔ گھر والوں کو گرفتار کرنے میں وہ قطعاً ناکام رہے اور جانوروں میں سے بھی آدھے ان کی دستبرد سے بچا لیے گئے لیکن سرداروں کو پھانسنے میں وہ بہت کامیاب رہے۔
عثمان کی سترہ سال کی بیٹی آز آپے اپنے باپ کے ساتھ سوار ہو کر حر الطائی میں شریک ہوئی تھی۔ حالانکہ اس کا بیٹا شیر درمان میلوں دور خان امبل کے پہاڑوں میں اپنے پڑاؤ میں رہ گیا تھا۔ حملے کی منادی سنتے ہی باپ اور بیٹی گھوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ بیٹی دو سو قدم آگے تھی۔ جب وہ ایک تنگ رہ گزر میں سے جا رہے تھے تو عثمان بطور نے دیکھا کہ بہت سے اشتراکی اپنی کمین گاہ سے نکل آئے اور انھوں نے لڑکی کو گھوڑے پر سے کھینچ لیا۔ تعداد میں اشتراکی دو سو سے کم نہ ہوں گے لیکن جب عثمان بطور نے ان پر تاخت کی تو وہ سب کے سب پلٹ کر بھاگے۔ عثمان بطور اکیلا تھا اور مشین گن سے گولیاں برسا رہا تھا۔ اس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ان میں سے کتنے مار گرائے مگر جو زندہ بچے وہ بھاگ نکلے۔ جب وہ اپنی بیٹی کے پاس پہنچا تو وہ زخمی نہیں تھی لیکن اس کا گھوڑا مر چکا تھا۔ وہ اُچھل کر باپ کے پیچھے بیٹھ گئی اور دونوں پلٹ کر پھر سرپٹ روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد وہ جھیل پر پہنچ گئے اور عثمان نے اس کی منجمد سطح پر سے اپنا گھوڑا گزارا لیکن برف ناہموار تھی اور اس کا گھوڑا رپٹ کر گر گیا۔ سوار گر پڑے اور گھوڑے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
عثمان بطور کے پاس اپنی مشین گن تھی اور اس کی بیٹی کے پاس ایک خود کار طمنچہ تھا۔ انھوں نے گھوڑے کے گولی مار دی اور اس کی لاش کی اوٹ لے کر کئی گھنٹے تک دشمن کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ مگر کوئی مدد اس عرصے میں نہیں پہنچی۔ کیونکہ ان کے دوستوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں ہیں؟ اشتراکی قریب آتے گئے اور ان کا گھیرا چھوٹا ہوتا گیا۔ انھوں نے گولیاں نہیں چلائیں کیونکہ انھیں احکام تھے کہ عثمان کو زندہ گرفتار کیا جائے۔
بالآخر وہ اتنے قریب آ گئے کہ چاروں طرف سے دوڑ کر عثمان پر جا پڑیں۔ انھوں نے اتلاف جان کی پروا نہیں کی۔ قازق مہاجر کہتے ہیں کہ اس کوشش میں دو سو سے کم نہیں مارے گئے۔ جب اشتراکی چاروں طرف سے ان پر جھپٹ پڑے تو عثمان اور آز آپے نے بچی ہوئی گولیاں بھی چلا دیں۔ اس کے بعد اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے سوا اور کوئی بھی چارہ کار نہیں تھا۔
اشتراکیوں نے عثمان کی مشکیں کس لیں اور کوئی من بھر کا ایک پتھر ان میں لٹکا دیا۔ پھر انھوں نے اسے ایک گھوڑے پر چڑھا دیا اور اس کے دونوں پاوں رسّی سے کس کر باندھ دیے اور اس ہئیت سے اسے تنگ ہوانگ لے گئے جو یہاں سے پچاس میل دور تھا۔ یہاں کئی دن اور کئی رات اسے اذیتیں دیں اور کبھی کبھی اسے گھوڑے پر چڑھا کر اس طرح بازاروں میں گھمایا کہ اس کے آگے ایک اعلان ہوتا اور ایک اعلان پیچھے ہوتا جس پر لکھا ہوتا تھا: “یہ ڈینگ مارتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا مگر آزاد نہیں کرا سکا۔” لیکن انھوں نے اس کے منہ پر ڈھاٹا نہیں باندھا تھا۔ اس لیے عثمان چیخ چیخ کر تماشائیوں سے کہتا جاتا: “میں مر جاؤں کا مگر جب تک دنیا قائم ہے میرے آدمی لڑتے رہیں گے۔”
آخر میں اسے ارمچی لے جایا گیا جہاں کچھ دنوں میں اشتراکیوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسے مجمع عام میں قتل کرنے کا ایک منصوبہ بنایا تاکہ خوف سے لوگوں کی ہمتیں پست ہو جائیں۔ پہلے انھوں نے اس کا منہ کالا کیا اور ایک لاری میں اُسے کھڑا کر کے بڑے بازاروں میں گھمایا۔ اس کے گلے میں ایک اعلان لٹکایا جس پر پہلے اعلان کو بدل کر یوں لکھا تھا: “یہ کہتا تھا کہ میں ترکستان کو چینیوں سے آزاد کراؤں گا لیکن یہ خود انگریزوں اور امریکیوں کے ہاتھوں میں بِک گیا۔” اس کے بعد وہ اسے شوئی مو کوؤ لے گئے۔ اس نام کے معنی ہیں “پن چکیوں کی وادی۔” ہر طبقہ کے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے نمائندے یہاں بھیجیں تاکہ وہ اسے قتل ہوتا دیکھیں۔ ان میں بچے تھے جو ہر اسکول سے آئے تھے۔ لوگ تھے ہر طبقے اور پیشے کے۔
شوئی موکوؤ میں گرم پانی کے چشمے ہیں اور تہ در تہ پہاڑوں کی تنگ وادیوں میں دلدلیں ہیں۔ یہ پہاڑیاں ان بڑے سر بفلک پہاڑوں کے بچے ہیں جو ان کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ان چشموں کے متعلق مشہور ہے کہ ان میں بیماریاں دُور کرنے کے خواص ہیں۔ ان میں سے بعض پر غسل خانے بنائے گئے ہیں۔ کچھ چشموں پر مقامی بسنے والوں نے دھوبی گھاٹ بنا رکھے ہیں اور بعض سے پن چکیاں چلا کر بستی والوں کے لیے آٹا پیسا جاتا ہے۔ قرب و جوار میں کچھ لوہے اور کوئلے کی کانیں بھی ہیں۔ ١٩٤٩ء کے ناگہانی انقلاب کے بعد سوویت حکومت نے یہاں تین بڑی بڑی بھٹیاں بنائی ہیں، نہ جانے اپنے استعمال کے لیے یا چینیوں کے استعمال کے لیے۔ ارمچی کا سلاح خانہ بھی شوئی موکوؤ ہی میں ہے جس کے چاروں طرف بارکیں، کیمپ اور پریڈ کے میدان ہیں۔
عثمان بطور اور اس کی بیٹی کو یکم فروری ۱۹۵۱ء کو گرفتار کیا گیا تھا اور اگست تک عثمان کو قتل نہیں کیا تھا۔ اشتراکی اخباروں نے قتل گاہ کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ارمچی کے لوگ خود بخود جوق در جوق چلے آ رہے تھے تاکہ اس غدار کا انجام دیکھیں جس نے انھیں سرمایہ داروں کے باتھ بیچ ڈالنا چاہا تھا۔ ایک چشم دید گواہ کا بیان ہے کہ لوگوں کو وہاں اس لیے جانا پڑا کہ سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے یقین ہے کہ اشتراکیوں نے اُسے تماشا یوں بنایا کہ انھیں بغاوت ہو جانے اندیشہ تھا، وہ عوام کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ دیکھو ہماری مخالفت کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے۔ لہذا مقتل نہ صرف زبردستی کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا بلکہ بازار بھی زبردستی کے تماشائیوں سے پٹے پڑے تھے اور اس بھیڑ بھڑکّے میں عوامی پولیس کے خفیہ گُرگے بھی کثرت سے گھلے ملے ہوئے تھے۔ چشم دید گواہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ وہاں موجود تھے وہ بہت خوفزدہ تھے لیکن مجھے یقین ہے کہ اشتراکیوں سے سب متنفّر تھے اور ان کی یہ بے رحمی دیکھ کر ان کے دل بھر آئے تھے لیکن وہ اس خوف سے رو نہیں سکتے تھے کہ کہیں عوامی پولیس انھیں گرفتار نہ کر لے۔
عثمان کا مُنہ کالا کیا گیا تھا۔ اور اس کے گلے میں حقارت آمیز اعلان پڑا تھا۔ جب وہ اپنے مقتل کے قریب پہنچنے لگا تو ایک کارخانے کے سامنے سے گزرا جس میں سیاسی قیدی عورتیں فوجیوں کے لیے وردیاں بنا رہی تھیں، ان میں اس کی بیٹی آز آپے بھی تھی۔
غزکل پر اچانک حملہ کر کے اشتراکیوں نے قازق سرداروں میں سے صرف عثمان بطور ہی کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں ایک اور سردار تھا جانم خان، جو سنکیانگ کا سابق وزیر مالیات تھا۔ اس کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی کہ وہ اشتراکیوں کے چنگل میں کیسے پھنس گیا لیکن اسے بھی ایک وقت تک اذیتیں دے کر اس کے سرکاری تفتیش کرنے والوں نے اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہی اور اپنے دستور کے مطابق انھوں نے جانم خاں کو بہت رضامند کرنے کی کوشش کی کہ اپنے بال بچوں اور متعلقین سے اپیل کرے کہ وہ اپنے آپ کو حاکموں کے حوالے کر دیں تاکہ سب کی جانیں بچ جائیں مگر وہ نہ مانا اور اگر وہ ایسا کر بھی گزرتا تب بھی اس کے آدمیوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ ہر قازق بلکہ صوبے کا ہر باشندہ جانتا تھا کہ اگر کسی قیدی کے گھر والے اپنے آپ کو حوالے بھی کر دیتے ہیں تو قیدی کے انجام میں کوئی فرق نہیں آتا۔
عثمان بطور کے قتل کے عینی گواہ کا بیان ہے کہ جب جانم خاں کو مقتل میں لایا گیا تو اس نے اپنے آپ کو بڑی شان سے سنبھالے رکھا۔ عثمان کو کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو جانم خاں کو ارمچی میں ذاتی طور پر بہت لوگ جانتے تھے کیونکہ وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر یہیں مامور تھا۔ اس کی زندگی بچانے کے لیے اس کے دوستوں نے کوئی مظاہرہ نہیں کیا نہ شہر میں اور نہ مقتل میں، لیکن جب رات ہوئی اور دن کی کہر پہاڑوں کے پہلوؤں پر سے سرک گئی تو دیکھا گیا کہ انھوں نے صدر مقام کے اوپر کی پہاڑیوں کے جنگلوں میں آگ لگا دی ہے اور سارے آسمان پر کئی دن تک دھوئیں کے غٹ کے غٹ مردے کی کالی چادر کی طرح پھیلے رہے یہاں تک کہ آگ خود ہی جل بجھی یا بارش سے بجھ گئی۔ مگر نہایت قیمتی تعمیری لکڑی کے ہزاروں ایکڑ اس آگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اشتراکیوں کو صدر مقام کے قرب و جوار میں قازقوں کی بغاوت کا اس قدر خوف تھا کہ کئی ہفتے بعد تک سڑکوں پر حفاظتی دستے گشت کرتے رہے۔
غزکل میں جب یہ مہلک لڑائی ہوئی تو جانم خاں کا بیٹا دلیل خاں اور عثمان بطور کا بیٹا شیر درماں دونوں بچ نکلے اور ان دونوں کے باپ گرفتار ہو گئے۔ دلیل خاں نے تبّت پار کرنے کی خطرناک مہم سر کی، یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کس راستے سے وہ خیریت سے ہندوستان پہنچ گیا۔ یقین ہے کہ وہ اب بھی وہیں ہوگا۔ اس کے برعکس شیر درماں مشرقی ترکستان ہی میں رہا۔ وہ ابھی تک وہیں ہے۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد عرصۂ دراز تک اس نے لڑائی جاری رکھی۔
اس کا ثبوت خود اشتراکیوں ہی سے ملتا ہے۔ اگست ۱۹۵۳ء میں غزکل کی تباہی کے اٹھارہ مہینے بعد کشمیر میں بعض قازق مہاجر سری نگر کے ترکستانی ہوٹل میں ایک نشریہ سن رہے تھے، اُرمچی کے ایک اشتراکی معلّن نے ایک خبر سنائی جسے سن کر یہ آزاد قازق اچھل پڑے۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ شیر درمان اور اس کے چھوٹے بھائیوں نے اشتراکیوں کی طرف سے صلح کی فیاضانہ پیشکش کو قبول کر لیا ہے۔ سنکیانگ میں اب امن و امان ہے۔
اس خبر کے سننے تک کشمیر میں عثمان بطور کے دوستوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ شیر درمان جیتا ہے یا مر گیا۔ اس اعلان کو سن کر ان میں بجلی سی دوڑ گئی۔
ان سننے والوں میں سے ایک عمر رسیدہ شخص نے کہا: “واللہ اگر شیر درمان اب تک جیتا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ اس نے اپنے باپ کے قاتلوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔ معلّن نے جھوٹا اعلان کیا ہے۔ اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ شیر درمان زندہ ہے اور اشتراکی اسے دبا نہیں سکے کیونکہ یہ لڑکا اپنے باپ کا خلف الصدق ہے۔ اس کے علاوہ ہم اشتراکیوں کی چالوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ انھوں نے اس کی اطاعت قبول کر لینے کی خبر اس لیے نشر کی ہے کہ جو لوگ ناواقف ہیں وہ اسے سن کر پست حوصلہ ہو جائیں۔ ضرور اس نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اشتراکیوں کو ڈر ہے کہ کہیں وہ اس سے بڑی کامیابیاں حاصل نہ کرے جبھی تو انھوں نے ایسی خبر نشر کی ہے۔”
اس پر ایک نوجوان بولا: “اگر شیر درمان اب بھی لڑے جا رہا ہے تو ہمیں واپس چل کر اس کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہونا چاہیے۔”
بزرگوں نے اس تجویز کی تائید میں سر ہلائے۔
ان میں سے ایک نے کہا: “شاباش! مگر یہ بات تم نے جوش میں کہی ہے۔ بھلا تم وہاں جا کیسے سکتے ہو؟ ہندوستانیوں نے ہم سے ہمارے ہتھیار لے لیے اور تبّت کے لوگوں کو آزاد قازقوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور ان کے ملک میں اشتراکی فوجوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مزید برآں جس راہ سے ہم آئے ہیں اگر اس کے علاوہ کسی اور راہ سے واپس جانے کا ارادہ کریں تو جو سرحدیں پاکستان، افغانستان اور نیپال کے روبرو ہیں سب کی نگرانی اشتراکی سپاہی کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو ہم تارکینِ وطن واپس جا کر کوئی نیا فتنہ فساد برپا کر دیں اور ہندوستانی بھی اشتراکیوں کے ساتھ اپنی سرحدوں کا پہرہ دے رہے ہیں تاکہ اشتراکی ان پر یہ اتہام نہ لگانے پائیں کہ تم نے قازقوں کو اشارہ دے کر یہ فساد کھڑا کرا دیا۔”
جوشیلے نوجوان نے کہا: “جس راستے سے ہم آئے تھے اس پر بہت کم بستیاں ہیں۔ ہم تعداد میں کم ضرور ہیں لیکن طاقت میں زیادہ ہیں۔ ہم دشمنوں سے بھی بھگت لیں گے اور توتُک اس –گہری کُہر– اور پہاڑوں اور نئی اور پرانی برف سے بھی نمٹ لیں گے۔”
بزرگوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ اس کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے کیونکہ اگر دس نے ہمّت کی بھی تو مشکل سے ایک وہاں زندہ پہنچ سکے گا۔ دیکھو نا ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔ ہندوستانیوں نے ہم سے ہتھیار رکھوا لیے کیونکہ ہم ان کے ملک میں سیاسی مہاجرین کی حیثیت سے داخل ہوئے ہیں۔ لیکن ایک نہ ایک دن انتقام لینے کا وقت بھی آئے گا اور اس کے لیے ہم کمر بستہ رہیں گے۔
سنکیانگ کی سرحدیں بلکہ سارے چین کی بالکل بند کر دی گئی ہیں، نہ صرف قازق تارکین وطن کے لیے بلکہ آزاد دنیا کے غیر جانب دار ناظروں کے لیے بھی۔ اس لیے یقین کے ساتھ یہ جاننا نا ممکن ہے کہ مہاجروں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔ یا یہ کہ چینی اشتراکیوں نے اس دور دراز علاقے کے بسنے والوں کو مطیع کرنے کی دشواری کے پیش نظر واقعی سنکیانگ کو خود مختاری دے دی۔ اگست ۱۹۵۵ء میں شائع ہونے والے ایک سرکاری اعلان میں اشتراکیوں نے اسی کا ادّعا کیا ہے۔ یہ اعلان شیر درمان کے صلح کی پیش کش کو قبول کرنے کے اعلان کے پورے دو سال بعد کیا گیا۔ اس کے بعد کے اعلان میں بتایا گیا ہے کہ "خود مختار یوئی غر جمہوریت سنکیانگ” کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ اس کے ساتھ مختلف گروہوں کو جن میں قازق بھی شامل ہیں اپنی مقامی حکومت بنانے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ یوئی غر دوسرا نام ہے ترکی کا۔ اگر ہم اس اعلان پر اس کی ظاہری حیثیت سے غور کریں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مقامی قوموں کو پیکنگ اور ماسکو سے آزاد ہو کر اپنے امور کا انتظام خود کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ لیکں اگر واقعی ایسا ہوا تو ان کا پہلا کام اشتراکیت کو ختم کرنا ہوتا۔ لہذا “خود مختاری” کے معنی یقیناً یہ ہوئے کہ جو احکام دیے جائیں ان کی تعمیل کی جائے۔
بہرحال کچھ بھی ہو، اگست ۱۹۵۳ء کے ریڈیو اعلان سے ایک بات تو صاف ظاہر ہے کہ یکم فروری ۱۹۵۱ء کے اچانک حملے کے بعد خان امبل کے پہاڑوں میں شیر درمان کو اشتراکی گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ شیر درمان کے ساتھ اتنی قوت تھی کہ اٹھارہ مہینے تک وہ اشتراکیوں کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا اور یہ کانٹا اتنا بڑا تھا کہ انھیں مصالحت کی پیش کش کرنی پڑی۔ حالانکہ انھیں لڑنے والوں، ہتھیاروں اور اسلحۂ جنگ کے لحاظ سے آزاد قازقوں پر بے انتہا فوقیت حاصل تھی۔ صرف اسی ایک واقعے سے قازقوں کے ہتھیاری کمال کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر ہتھیار، ہر گولی جو شیر درماں اور اس کے ساتھی استعمال کرتے تھے یا تو خانہ ساز ہوتی، یا مردہ دشمنوں یا لوٹے ہوئے رسدی قافلوں سے یہ اسلحہ فراہم کیے جاتے۔ ہوائی جہاز یہ دیکھنے کے لیے برابر پرواز کرتے رہتے کہ وہاں وہ کہاں چھپا ہوا ہے۔ اسے نہ صرف لڑنے والے آدمیوں کو یکجا رکھنا پڑتا بلکہ ریوڑوں اور گلوں، خیموں اور آدمیوں اور ان کے خاندانوں کو سمیٹے رہنا پڑتا۔ کیونکہ انھیں سے اسے مدد اور ہر قسم کا آرام ملتا تھا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں رہ سکتا تھا۔ اچانک حملے سے محفوظ رہنے کے لیے اسے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا اور دشمن کے پٹھوؤں سے بھی۔ بہتر زمانہ آنے پر قازق بھاٹ شیر درمان کی رزمیہ کہانی ضرور لکھیں گے، جیسے ترکی میں دیویلی کے قریب وسطی اناطولیہ کے میدان میں آ بسنے والے کارا ملّا نے عثمان بطور کی رزمیہ داستان لکھی ہے۔
نہیں کہا جا سکتا کہ قازق نقطۂ نظر سے عثمان بطور کی رزمیہ کوئی عظیم نظم ہے یا نہیں۔ کارا ملّا کے بعض ساتھیوں کا بیان ہے کہ اس میں غلط بیانیاں بھی ہیں، لیکن اس سے قازقوں کے اس طرز فکر کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے جس نے ایسے شدید خطرات میں ان کی ہمت کو پست نہیں ہونے دیا۔ ایک لحاظ سے یہ نظم عثمان بطور کی لوح مزار کی عبارت ہے۔ شاید وقت آنے پر شیر درمان کا کتبہ لکھا جائے جس کے پڑھنے سے معلوم ہو کہ اس نے بوکو بطور کی پیشین گوئی کو کس طرح پورا کیا اور اپنے باپ کی توقعات کو بھی۔ حالانکہ قازقوں کے دشمن تکلا مکان کی ریت کے ذرّوں سے بھی زیادہ تھے، اس پر بھی اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے پیارے وطن سے نکال باہر کیا اور ان صحراؤں میں انھیں واپس دھکیل دیا جن میں سے نکل کر وہ وطن عریز کو چرانے آ گئے تھے۔
غزکل کی لڑائی جس کا آغاز آزاد قازق کماندارِ اعلیٰ اور اس کے ایک معاون کی گرفتاری سے ہوا۔ تین دن اور تین رات تک مسلسل جاری رہی اور اس کا انجام اس پر ہوا کہ اشتراکی پیچھے ہٹ گئے۔ باقی ماندہ سردار خصوصاً علی بیگ اور اس کے دو مددگار حمزہ اور قائنیش ادھر اُدھر گھوڑے دوڑاتے پھر رہے تھے تاکہ قازق سوار یکجا ہو کر حملے کریں، ایک مقام اتصال مقرر کریں کہ پہاڑوں میں کہیں سر جوڑ کر بیٹھیں، جن پر تاخت زیادہ ہو رہی تھی انھیں مدد پہنچائیں۔ اشتراکیوں کے سست رفتار شتر سواروں پر موقع دیکھ کر ٹوٹ پڑیں، اپنے خیمے اُتاریں۔ بکھرے ہوئے ریوڑوں کو سمیٹیں اور چھاپے مارنے کی تجویزیں بنائیں۔
علی بیگ کی بیوی مولیا نے خود اپنی ہمّت سے ایک چھاپہ مارا۔ جس وقت اشتراکیوں کا حملہ شروع ہوا تو اس کے پڑاؤ کی عورتوں اور بچوں کو اتنا وقت نہیں ملا کہ اپنے خیمے اُتار لیتے۔ بس اتنا موقع ملا کہ پہلے اپنے بچوں کی طرف لپکیں اور پھر اپنے گھوڑوں کی طرف، جب اوروں کی طرح مولیا بھی روانہ ہونے لگی تو کسی کا ایک کم عمر بچّہ اسے دکھائی دیا جو گھبراہٹ میں چھوٹ گیا تھا۔ اپنی زین پر سے نیچے جھک کر اس نے ایک ہاتھ سے بچّے کو اٹھا لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرپٹ چل پڑی۔ اشتراکی گھڑ سوار ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ کچھ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس کے گولی نہیں لگی ورنہ بعد میں اس نے دیکھا کہ اس کے کپڑوں میں گولیوں کے کئی سوراخ تھے۔
دراصل پہاڑوں کی جانب عورتوں کا یوں سرپٹ روانہ ہو جانا کوئی گھبراہٹ کی دوڑ نہیں تھی بلکہ ایک ایسی پسپائی تھی جو بخوبی تکمیل کو پہنچی۔ حالانکہ پہلے سے اس کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا تھا۔ چکّر کاٹ کر یہ عورتیں اس راستے پر جا نکلیں جہاں پہاڑوں میں ان کے بیشتر جانور چر رہے تھے۔ جب تک تعاقب کرنے والے وہاں پہنچیں مولیا اور ایک چرانے والے لڑکے نے یہ طے کر لیا کہ چپکے سے اپنے پڑاؤ پر پہنچ کر کچھ اپنا سامان نکال لائیں۔ جب وہ خیمے پر پہنچا تو انھوں نے دیکھا کہ دشمن نے ابھی اسے لوٹا نہیں ہے۔ انھیں یہاں دو مشین گنیں اور کچھ کارتوس بھی مل گئے۔ لہذا اب انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ خیمے ہی میں ٹھہرے رہیں اور جب دشمن ادھر آئے تو اس کا قرض مع سود چکا دیا جائے۔ دشمن نے پہلے تو تعاقب کیا اور جب ان کے ہاتھ کوئی نہیں آیا تو وہ لوٹ مار کے خیال سے پڑاؤ پر واپس آیا۔ مولیا اور چرواہے نے دشمنوں کو خیمے کے قریب آ جانے دیا۔ اور جب وہ بالکل پاس آ گیا تو انھوں نے دونوں مشین گنیں چلا دیں۔ دشمن گھبرا کر چھپنے کے لیے بھاگے، اتنے میں اس کے بہت سے آدمی ہلاک ہو چکے تھے۔ اشتراکیوں نے ان دونوں مشین گنیں چلانے والوں پر اندازے سے گولیاں پانچ گھنٹے تک چلائیں اور جب علی بیگ اور اس کے آدمی پڑاؤ پر واپس آئے تو وہاں سے دشمن کھسک گئے۔ مولیا کے ہمّت کر لینے سے ان کا سارا مال و اسباب بچ گیا جس میں علی بیگ کی مشہور دیگ بھی تھی۔
اطمینان ہونے پر جب قازقوں نے حالات کا جائزہ لیا تو انھیں معلوم ہوا کہ قازق زیادہ نہیں مارے گئے تھے۔ انفرادی کوششوں اور مولیا جیسے حوصلے کے کارناموں کی بدولت انھوں نے اپنے بیشتر خیمے بھی بچا لیے اور گھر کا سامان بھی اور کم از کم پندرہ ہزار جانور بھی بچ گئے۔ اونٹ، مویشی، بھیڑیں اور گھوڑے۔ ان کا اتنا کر لینا کوئی بہت عجیب بات نہیں تھی۔ کیونکہ یہ ہم جانتے ہی ہیں کہ قازقوں کی ہر عورت اور بچّہ بھی خوب لڑنا جانتا ہے۔ حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں یہ لوگ بد حواس نہیں ہوتے۔ مزاج کے لحاظ سے دیہاتی نہیں ہوتے حالانکہ نسلی اعتبار سے چرواہے ہوتے ہیں لیکن تیز دماغ ہوتے ہیں اور مشکل سے رام ہونے والے۔
بے شک یہ ممکن ہے کہ اشتراکیوں کا یوں چھوڑ کر چلا جانا اس خیال سے ہو کہ ہم نے ان کے دو سب سے بڑے سرداروں کو گرفتار کر ہی لیا ہے، اب یہ لوگ آپ ہی منتشر ہو جائیں گے۔ پہلے ہی ہلّے میں انھوں نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کر لی تھی اس سے زیادہ انھیں اور کیا چاہیے تھا۔
جب باقی ماندہ قازق سرداروں کو مل کر بیٹھنے کا موقع ملا تو جائزہ لینے پر انھوں نے اس وقت سمجھ لیا کہ اب ان کے لیے ایک ہی راہِ عمل کھلی ہوئی تھی وہ یہ کہ تبّت میں پہنچ جائیں اور اگر وہ گزرنے نہ دیں تو ان سے لڑ کر ہندوستان پہنچا جائے۔ اس پر وہ سب متفق الرائے ہوئے کہ سب کا ایک ساتھ سفر کرنا ناممکن ہوگا۔ اب بھی تین ہزار مرد، عورتیں اور بچے تھے۔ جانور اور خیمے الگ رہے کیونکہ انھیں ابھی چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ تنگ وادیوں اور پہاڑیوں کی گھاٹیوں میں سے انھیں گزرنا تھا اور اتنے زیادہ آدمیوں کے اکھٹے جانے میں قطار کئی میل لمبی بنتی۔ اگر اشتراکیوں کے ہوائی جہاز اس پر حملہ کر دیں یا گھاٹی کی چٹانوں پر سے دشمن گولیاں چلاتا تو یہ لمبی قطار منتشر نہیں ہو سکتی تھی۔ کسی درّے میں سے گزرتے وقت اس قطار کے ایک سرے کا تعلق دوسرے سرے سے بالکل نہ رہتا یا پھر سب کو بہت آہستہ چلنا پڑتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ابھی فروری کا مہینہ تھا اور تبّت کا بد ترین جاڑا ابھی آنا باقی تھا۔ اگر قافلہ اس سے چھوٹا ہوتا تب بھی کھانے اور چائے کا مسئلہ کسی وقت بھی اندیشہ ناک ہو سکتا تھا اور اتنے بڑے قافلے کے لیے ان مشکلات کا کوئی حل ہی نہیں تھا۔
لہذا آزاد قازق جو بچ رہے تھے انھوں نے اپنے اپنے سردار چنے اور چھوٹے چھوٹے گروہ بنا لیے اور اشتراکیوں کی اطاعت قبول کرنے کے بجائے ایک بالکل انجانے مستقبل کی جانب روانہ ہو گئے۔ حسین تجی کا قول ایک مرتبہ پہلے نقل کیا جا چکا ہے یہاں پھر دہرایا جاتا ہے: جانور کی طرح زندہ رہنے سے یہ بہتر ہے کہ انسان مر جائے۔ جانور انسان کی طرف اس طرح دیکھتا ہے جیسے خدا کی طرف دیکھ رہا ہو۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کی طرف اس طرح دیکھے۔
چنانچہ علی بیگ، دلیل خاں، سلطان شریف اور خود حسین تجی نے یکے بعد دیگرے پڑاؤ کو چھوڑا اور اپنے اپنے گروہ اور گلوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جنوب کی جانب الطائن پہاڑوں کے جانے پہچانے راستوں پر بھیانک اور عظیم کنلُون پہاڑوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان پہاڑوں سے یہ لوگ واقف نہیں تھے۔ صرف اتنا جانتے تھے کہ ان کی دوسرے طرف تبت کی اجنبی سرزمین ہے جس پر گزر کر انھیں ہندوستان پہنچنا تھا۔ ہر گروہ نے اپنا راستہ خود انتخاب کیا اور ہر ایک کو نئے نئے واقعات پیش آئے۔ ان کی طرح جو چودہ مہینے پہلے کیو کلوک سے روانہ ہو کر اشتراکی چوکیوں سے بچ نکلے تھے۔ بعض تبت میں خوش نصیب رہے کہ اس میں سے گزرنے میں انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا اور تبت کے رہنے والوں اور تبت کے پہاڑوں سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ کچھ ایسے تھے جن کے مرد، عورتیں اور بچے آدھے مر گئے اور ان کے جانور آدھے ضائع ہو گئے۔ سب کو اپنا وطن چھوڑنے سے نفرت تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ دوبارہ یہاں واپس آنا نصیب نہیں ہوگا لیکن واپس جانے کا خیال کسی کو خواب میں بھی نہیں آیا۔
علی بیگ کے ذاتی گروہ میں اب کے دو سو چونتیس افراد تھے۔ انھیں میں حمزہ اور قائنیش مع اپنی بیوی بچوں کے تھے۔ علی بیگ کی تین بیویاں چھ بچے اور صرف ایک بھائی جو بچ رہا تھا ساتھ تھا۔ باقیوں میں کوئی ایک سو چالیس مرد تھے اور باقی عورتیں اور بچے۔ ان کے ساتھ کئی ہزار بھیڑیں، کئی سو مویشی اور گھوڑے اور کوئی ساٹھ اونٹ تھے۔ جن میں سے ایک پر، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے، علی بیگ کی زبردست دیگ لدی ہوئی تھی۔
یہ قافلہ رول کی شکل کی جھیل سے فروری کے پہلے ہفتے کے آخر میں روانہ ہوا، غزکل کی لڑائی ختم ہونے کے چوتھے دن ہی، اور اس سڑک پر چل پڑا جو علی بیگ نے ڈگلس میکیرنن کے لیے تجویز کی تھی۔ ان کا پہلا مقابلہ اشتراکی فوجوں سے روانہ ہونے کے دوسرے دن ہوا اور آخری مقابلہ اس وقت ہوا جب کشمیر کی سرحد پر وہ داخلے کی اجازت آ جانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہندوستان کی سرحد پر وہ ٨ اگست ١٩٥١ء کو پہنچے۔ جھیل غزکل سے روانہ ہونے کے ساڑھے چھ مہینے بعد۔ اس عرصے میں انھوں نے بامِ دنیا کے نہایت بنجر اور غیر متواضع علاقے میں سفر کیا۔ راستے میں انھیں کئی لڑائیاں لڑنی پریں اور کتنی ہی چھوٹی بڑی جھڑپیں بھی ہوئیں اور تقریباً اس سارے عرصے میں انھیں قدرتی رکاوٹوں سے اتنی شدید کش مکش کرنی پڑی کہ شاید ہمالیہ کی چوٹیوں، ایورسٹ اور کنچن چنگا کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں ہی کو کرنی پڑی ہوگی۔
گیارھواں باب
بامِ دُنیا پر
جو لوگ ان سے واقف نہیں تھے وہ غزکل سے قازقوں کو نکلتے دیکھ کر سمجھتے کہ حملہ آور انھیں بڑی آسانی سے ہلاک کر ڈالیں گے۔ ہزاروں بھیڑیں جن میں کئی کے ہاں بچے ہونے والے تھے، بے قاعدگی سے راستہ کے دونوں طرف برف میں سے کہیں کہیں جھانکتی ہوئی زرد گھاس پر مُنہ مارتی چلی جا رہی تھیں۔ بھیڑوں ہی میں بیل اور گائیں گھریلو سامان سے لدی پھندی بکھری ہوئی تھیں۔ بچے دینے والی گھوڑیوں پر بوجھ لدا ہوا نہیں تھا اور وہ خراماں خراماں چلی جا رہی تھیں۔ بعض گھوڑیوں کے پیچھے ان کے بچے لگے ہوئے تھے۔ گھوڑے بھی بہت سارے تھے اور اپنی گھوڑیوں اور بچوں کی طرف رشک سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے علاوہ دو کوہان والے بالوں دار اونٹ تھے۔ جن کے بال جاڑے کی وجہ سے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک کی نکیل دوسرے کی دُم سے بندھی ہوئی تھی۔ یوں سب ایک قطار میں چل رہے تھے۔ ان پر سامانِ جنگ لدا ہوا تھا۔ فالتو ہتھیار، نمدے دار خیموں کے حصے، لکڑی کے چوکھٹوں پر احتیاط سے لپٹے ہوئے لکڑی کے بڑے بڑے صندوق جن پر پیتلی چادریں چڑھی ہوئی تھیں، ان میں لباس تھے، ضروری کاغذات تھے اور شاید کچھ کتابیں بھی تھیں خصوصاً قرآن شریف۔ اور ایک اونٹ تھا جو سب سے اونچا اور طاقتور تھا، یہ اپنی پیٹھ پر صرف علی بیگ کی زبردست دیگ اٹھائے بڑے فخر سے چل رہا تھا۔
ان جانوروں کی نگرانی گھوڑوں پر سوار مرد، عورتیں اور بچے کر رہے تھے۔ کم سنوں کو چھوڑ کر باقی سب کے ہاتھوں میں ہتھ گولے، رائفلیں، مشین گنیں یا خود کار ہتھیار تھے۔ دس برس کی عمر سے جو بھی اوپر تھا، مرد ہو یا عورت، ہر ایک ان میں سے ہر ہتھیار کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اس پھیلے ہوئے بے ترتیب قافلے کے آگے اور پیچھے اور پہلوؤں میں گھڑ سوار مردوں کا ایک حجاب سا بنا ہوا تھا۔ جانور آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور یہ نگراں ان سے کچھ فاصلے پر زمین کی ناہمواری اور برف کی گہرائی کے لحاظ سے ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔
تارکین وطن کے اس قافلے کے لیے علی بیگ نے ایسا راستہ انتخاب کیا تھا جو آباد شاہراہوں اور بستیوں سے دُور ہے تاکہ اس قافلے کی اشتراکیوں سے اچانک مُڈبھیڑ نہ ہونے پائے۔ اس قافلے کا رُخ جنوب کی طرف تھا۔ انھیں الطائن پہاڑوں میں سے گزر کر تبت کی شمالی سرحد پر کنلُون پہاڑوں میں جانا تھا۔ علی بیگ جانتا تھا کہ ان پہاڑوں کے پیچھے تبت کی عظیم سطح مرتفع ہے جو سطح سمندر سے بارہ پندرہ ہزار فٹ اونچی ہے۔ لیکن غزکل سے نکلنے کے بعد وہ ایسے علاقہ میں آ گیا تھا جس کا نہ تو کبھی کوئی نقشہ بنا اور نہ کبھی کسی نے اس علاقے میں سفر کیا تھا۔ علی بیگ کا بیان ہے کہ ہم سے پہلے اس علاقے کو کسی نے طے نہیں کیا۔ اس کا ہمیں یقین ہے۔
یہ بات جلدی ہی کُھل گئی کہ غزکل کی لڑائی کے بعد جب اشتراکی واپس چلے گئے تو انھوں نے دیکھ بھال کرنے والے گشتی دستے متعین کر دیے تاکہ قازقوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ سفر کے شروع ہی میں علی بیگ کا قافلہ ایک ایسے ہی دستے کے پھندے میں پھنسنے سے بال بال بچ گیا۔ خوش قسمتی سے علی بیگ نے اپنی دور بین سے سامنے کی پہاڑیوں کا جائزہ لیا۔ اس وقت ان کے راستے کے دونوں طرف چٹانیں تھیں جہاں آگے جا کر یہ گھاٹی تنگ ہوتی تھی وہاں علی بیگ کو شبہ ہوا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ اس نے پتہ لگانے کے لیے چند آدمیوں کو آگے بھیجا۔ جب وہ آگے بڑھ کر ان چٹانوں پر چڑھے تو اچانک کوئی بیس اشتراکیوں کے ایک دستے کے سر پر پہنچ گئے۔ یہ انھیں دیکھتے ہی اپنے گھوڑوں کی طرف بھاگے اور دونوں طرف سے چند گولیوں کے چلنے کے بعد اوپر وادی کی طرف فرار ہو گئے۔ علی بیگ نے ان کا پیچھا نہیں کیا اور کچھ دیر بعد وہ بھی رک گئے، تاکہ قازقوں پر نگرانی جاری رکھیں۔
لیکن تھوڑی دور کے بعد وہ راستہ چھوڑ کر ایک پہلو کی وادی میں مڑ گئے اور علی بیگ کو ان کے پیچھے اپنے آدمی بھیجنے پڑے اس اندیشے سے کہ کہیں قافلے کے ادھر سے گزرنے پر وہ پہلو سے حملہ نہ کر دیں۔ لیکن اشتراکیوں نے اس وقت تک حملہ نہیں کیا جب تک کہ پورا قافلہ گزر نہ گیا۔ اس کے بعد وہ پہلو کی وادی سے نکل “حد ادب” رکھتے ہوئے تعاقب کرتے رہے۔
قازق اپنے بوجھ سے لدے ہوئے جانوروں کو ہنکا کر آگے بڑھتے رہے اور کئی گھنٹے اشتراکیوں کا دستہ ان کے پیچھے منڈلاتا رہا۔ علی بیگ حمزہ اور قائنیش اب اس دستے کی موجودگی سے ہراساں نہیں تھے اور اپنے سرداروں کی طرح قافلے کے دوسرے لوگ بھی ان کے پیچھا کرنے سے خائف نہیں ہو رہے تھے۔ زمین اب پھر بہت شکستہ آ گئی تھی اور جب قافلہ ایک تنگ وادی میں داخل ہوا تو اسے سمٹنا پڑا۔
علی بیگ نے کہا: “اچھا مقام ہے یہ۔”
حمزہ نے تائید کی: “ہاں اچھا ہے بلکہ بہت خوب ہے کیونکہ اس سفر میں یہ پہلا اچھا مقام آیا ہے۔ اگر انھیں شبہ ہو گیا اور انھوں نے تاڑ لیا تو مفت میں ہمیں مصیبت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا اور ہمیں ان سے نمٹنے کا اس سے بہتر موقع اور نہیں ملے گا۔”
علی بیگ اور قائنیش نے ایک رائے ہو کر اس موقع پر چھاپہ مارنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ اس کے بعد کے اچھے موقع کو بھی چھوڑ دیا لیکن تیسرے موقع پر علی بیگ نے حمزہ سے کہا: “کتنے آدمیوں کی ضرورت ہے؟”
حمزہ نے کہا: “پانچ یا کچھ زیادہ۔ لیکن بہتر ہوگا کہ راستے کے دونوں طرف پہاڑیوں پر پانچ آدمی اور بٹھا دیے جائیں۔ شاید کوئی اور راستہ بھی ہو جو ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اگر چھاپے کے شبہے میں اشتراکی اس طرف چلے گئے تو ان پر ایک اور چھاپہ پڑ جائے گا اور انھیں زندہ واپس جانا نصیب نہیں ہوگا۔”
علی بیگ نے کہا: “اچھی ترکیب سوچی تم نے۔”
حمزہ نے خود پندرہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور باقی قافلہ خوش خوش آگے بڑھتا رہا کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ اتنے میں کسی نے گانا شروع کر دیا اور شکاری گیت کی لمبی تان وادی کی ننگی چٹانوں سے ٹکرا کر گونجتی چلی گئی۔
جب چھاپہ کی وادی سے کوئی آدھ گھنٹہ بعد رائفل چلنے کی آواز آئی تو گانا ایک دم سے بند ہو گیا۔ کوئی تین منٹ تک یا اس سے بھی کم دھماکے سنائی دیے۔
قائنیش نے کہا: “اتنی کم گولیاں چلیں، یا تو چال ناکام رہی یا اس میں سارے ہی پھنس کر مر گئے۔”
پورا قافلہ اب رک گیا تھا اور گانا بھی بند ہو گیا تھا، حالانکہ اس کا حکم کسی نے نہیں دیا تھا اور کوئی ایک منٹ بعد حمزہ اپنے پانچ آدمیوں میں سے تین کے ساتھ سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا۔
جب حمزہ نے گھوڑے کی لگام کھینچی تو قائنیش نے پوچھا: “شکار کیسا رہا؟”
حمزہ نے ہنس کر کہا: وہ گھوڑوں پر سوار اس صورت سے آگے آئے کہ دو آگے تھے دو پیچھے اور انھوں نے نہ دائیں کو دیکھا اور نہ بائیں کو۔ ہم نے اگلے دو سواروں کو چلنے دیا اور ان کے بعد سولہ سواروں کے دستے کو بھی، اور منتظر رہے کہ پچھلے دو سوار بھی دام میں آ جائیں۔ مگر اگلے دونوں سوار ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکے تھے اور دستہ بھی ہمارے سامنے سے گزر چکا تھا مگر پچھلے دو سوار اتنی دُور رہ گئے تھے کہ تمام چڑیوں کے پھنس جانے سے پہلے ہی مجھے مجبوراً گولی چلانی پڑ گئی۔ دو سو قدم تک تو ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔ ان میں سے تین جو اکٹھے جا رہے تھے، پہلے ہی ہلے میں ڈھیر ہو گئے۔ باقی تیرہ گھوڑوں پر سے کود کود کر راستے کے برابر کی چٹانوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگے مگر وہاں پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں تھی، اس لیے ان کا بھی خاتمہ جلدی ہو گیا۔ پیچھے جو دو سوار رہ گئے تھے انھوں نے گولیوں کی آواز سنتے ہی اپنے گھوڑے پھیرے اور بچ نکلے۔
علی بیگ نے پوچھا: “اور وہ جو دو آگے تھے؟”
حمزہ نے کہا: “ہاں ان کا کچھ پتہ نہیں چلا وہ کہاں گئے۔ تم نے بھی انھیں دیکھا؟”
قائنیش بولا: “وہ ادھر آئے ہی نہیں۔ اس لیے گولیوں کی آواز سُن کر وہ کسی اور راستے سے کترا کر نکل گئے۔ خیر وہ کسی طرف بھی گئے ہوں، تھوڑی دیر میں وہ بھی سنگوا لیے جائیں گے۔ ہمارے ہر پہلو پر پانچ پانچ اچھے آدمی چھوٹے ہوئے ہیں۔”
علی بیگ نے حمزہ سے کہا: “دو آدمی تمھارے بھی کم ہیں۔ وہ خیریت سے تو ہیں ناں؟”
حمزہ نے بتایا: “سولہ گھوڑے اور سولہ رائفلیں ہاتھ آئی ہیں۔ انھیں لانے کے لیے میں اپنے آدمیوں پر زیادہ بار نہیں ڈال سکتا کہ مبادا ان دو خطائیوں سے راستے میں سامنا ہو جائے۔”
علی بیگ نے قائنیش سے کہا: “چھ آدمی لے جاؤ اور مال غنیمت لے آؤ۔ سپاہیوں کے ساز و سامان کے علاوہ اگر ان کی وردیاں ٹھیک ہوں تو انھیں بھی لے آنا۔ انھیں اٹھانے کے لیے ہمارے پاس خالی جانور موجود ہیں۔ پھر کیا خبر کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو اور اس کے ختم ہونے سے پہلے ہمیں کس کس چیز کی ضرورت پیش آئے۔”
قائنیش گھوڑے پر سوار ہوا اور چلتے وقت ہنس کر کہتا گیا: “لڑے تو حمزہ اور مال غنیمت میں لاؤں۔ اگلی باری میری ہوگی۔”
تھوڑی دیر کے بعد کچھ اور گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور اسے کے بعد ہی دونوں طرف پہاڑیوں پر بیٹھنے کے لیے جو دو دستے بھیجے گئے تھے سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوئے آ گئے۔ ان میں سے ایک کے پاس چھینے ہوئے دو گھوڑے اور دو رائفلیں بھی تھیں۔
حمزہ سے علی بیگ نے کہا: “بیس میں سے اٹھارہ شکار، اچھا رہا۔” لیکن اگر بیس پورے ہی ہوتے تو شکار ہزار گنا اچھا رہتا کیونکہ وہ دو جو بھاگ گئے جا کر بتا دیں گے کہ ہم کس راستے پر جا رہے ہیں، کاش پانچ کے بدلے میں نے دس آدمی تمھارے ساتھ کیے ہوتے تو ان دونوں کا بھی پیچھا کیا جا سکتا۔”
حمزہ نے کہا: “اللہ کی مرضی۔ وہی جانتا ہے کہ ہم انھیں جا لیتے یا نہیں، مگر دس آدمی اور دس گھوڑے پانچ آدمیوں اور پانچ گھوڑوں سے پہلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ممکن تھا کہ دس کے ساتھ ہم دیکھ لیے جاتے اور ہمارے دشمن چھاپے سے بچ جاتے اور لڑائی بھی ہوتی جس میں ہمارے بھی کچھ آدمی مارے جاتے۔ پھر رات بھی قریب ہے۔ وہ دونوں جلد از جلد کل شام سے پہلے اپنے آدمیوں میں واپس نہیں پہنچ سکیں گے یا شاید پرسوں پہنچیں، اس حساب سے ہمارے پاس تین دن ہیں یا چار پانچ، اس سے پہلے وہ لوٹ کر ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔ سوائے اللہ کے اور کون جانتا ہے کہ ان تین ہی دن میں کیا ہونے والا ہے۔”
علی بیگ نے اس کی بات مانتے ہوئے کہا: “حق تو یہی ہے۔ الحمد للہ۔ ہم آج کی رات محفوظ ہیں اور کل کی رات بھی بشرطیکہ آگے اور اشتراکی دستے نہ ہوں لیکن اس کا امکان نہیں ہے۔”
مگر ہوا یہ کہ دیکھ بھال کرنے والے ہوائی جہاز نے انھیں اگلے دن سہ پہر کو دیکھ لیا۔ اس لیے ان دو آدمیوں کا بچ نکلنا کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں رہا۔ ہوائی جہاز نے غوطہ مارا اور ان پر مشین گن سے گولیاں چلائیں لیکن جگہ چونکہ کھلی ہوئی تھی، قازق ایک دم سے پھیل گئے اور گولیاں کسی جانور تک کے نہیں لگیں۔ ہاں ان سے چند جانور بدک ضرور گئے۔ قازقوں نے جواب میں گولیاں چلائیں اور بعض نے کہا ہم نے جہاز میں گولی پیوست کر دی۔ لیکن اگر ایسا ہوا بھی تب بھی ان کی گولیاں کارگر نہیں ثابت ہوئی، کیونکہ ہوائی جہاز غرا کر سیدھا اوپر اٹھتا چلا گیا۔ علی بیگ اور حمزہ نے یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ جس سمت میں انھیں جانا تھا وہ ان کے قافلے کے پیچھے تھی۔ اس سے ظاہر ہو رہا تھا ثابت نہیں ہو رہا تھا کہ ان کے آگے یا ان کے پہلوؤں پر تبت میں اشتراکی چوکیاں نہیں تھیں، لیکن اس پر بھی انھوں نے بڑی احتیاط برتی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ لاسلکی سے ان کے قافلے کے مقام کی اطلاع دی جا سکتی تھی اور خبر پا کر انھیں روکنے کے لیے گشتی دستے آ سکتے تھے۔
اگلے دس دن میں علی بیگ کے قافلے پر اوسطاً ہر دو دن میں ایک حملہ ہوتا رہا۔ یہ حملے زمینی ہوتے تھے۔ صرف ایک ہوائی ہوا تھا۔ قازق کہتے ہیں کہ ہم نے ہوائی جہاز گرا لیا تھا اس کے بدلے ہمارے چند جانور مارے گئے، آدمی کوئی نہیں مارا گیا۔ زمینی دستے جو حملے کرتے تھے ان میں بیس سے تیس آدمی ہوتے اور سوائے ایک کے یہ حملہ آور لاریوں یا بکتر بند گاڑیوں میں نہیں بلکہ گھوڑوں پر سوار ہوتے تھے۔ یہ بھی کہ یہ لوگ خطائی ہوتے تھے خلدزا کے بھرتی کیے ہوئے غلام قازق نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے ان سے نمٹنا آزاد قازقوں کے لیے آسان ہوتا تھا۔
ایک دفعہ جو حملہ ہوا تھا اس میں قافلے کے حفاظتی دستوں نے دیکھا کہ فوجیوں سے بھری ہوئی دو لاریاں چنگھاڑتی چلی آرہی ہیں، راستہ بہت ناہموار تھا اس لیے ڈرائیور مجبور تھے کہ راستے بھر آگے نظر جمائے رہیں اور ادھر ادھر نہ دیکھیں۔ اور گھنٹوں ان میں ہچکولے کھاتے رہنے کی وجہ سے لاریوں میں فوجی تھک کر چور ہو رہے تھے۔ لہذا جب قازقوں کے پچھلے حفاظتی دستے نے جس میں اتفاق سے اس وقت صرف دو ہی آدمی تھے ڈرائیوروں کو تین چار ہی گز کے فاصلے سے گولیاں چلا کر مار ڈالا تو لاریاں بے قابو ہو کر الٹ گئیں اور ان میں آگ لگ گئی جو فوجی ان میں سوار تھے ان پر دو چار ہی گولیاں چلانی پڑیں باقی سب دب کر یا جل کر مر گئے۔ ان کے تقرییاً سارے ہتھیار بھی ضائع ہو گئے۔ لیکن دونوں قازقوں نے چند خود کار آلات اور کچھ کارتوس پھر بھی حاصل کر ہی لیے اورجب انھیں لے کر روانہ ہوئے تو ایک نے ہنس کر دوسرے سے کہا: “اچھا ہوا کہ صرف دولاریاں تھیں ایک تمھارے لیے اور ایک میرے لیے۔” دوسرے نے جواب دیا:
“میری خودکار رائفل میں چھ گولیاں چلتی ہیں اور تمھاری رائفل میں بھی۔ لہذا اگر بارہ لاریاں بھی ہوتیں تو کیا تھا دو گولیاں اگر خطا بھی ہو جاتیں تو دس لاریاں پھر بھی ہمارے قبضے میں ہوتیں۔ اگر اتفاق سے بعض لاریاں بہت دور پیچھے ہوتیں جو ہماری مار سے باہر ہوتیں تو ہم پہلے اگلی لاریوں کو تباہ کرتے پھر لپک کر اپنے گھوڑوں پرسوار ہو کر پچھلی لاریوں پر پہنچ جاتے۔ انھیں خبر بھی نہ ہوتی کہ آگے کیا گزر چکی ہے کہ اتنے میں ہم ان کا بھی خاتمہ کر دیتے۔”
اشتراکی سوار فوجوں سے لڑائیوں میں قازقوں کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ مرنے والے سب مرد ہی نہیں تھے کیونکہ عورتیں اور لڑکیاں بھی اب لڑ رہی تھیں۔ جیسے غزکل میں مردوں کے شانہ بشانہ مولیا لڑی تھی۔ جانوروں کی حفاظت بچوں پر چھوڑ دی جاتی کہ جیسی بھی کر سکیں کریں۔ یہ چھوٹے بچے بھی وقت پڑنے پر بڑی ہمت دکھاتے تھے۔ جیسا کہ آگے چل کر مناسب مقام پر بیان کیا جائے گا۔
جب قازق الطائن پہاڑوں سے نکل کر کنلن پہاڑوں کے جنوب مشرقی بازو پر چڑھ گئے تو لڑائی بند ہوگئی۔ اشتراکیوں نے یہاں ان کا پیچھا نہیں کیا کیونکہ انھیں یقین تھا کہ قازق اس پہاڑ میں سے زندہ نہیں گزر سکیں گے لیکن وہ اسے زندہ پار کر گئے اور ان کا کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا حالانکہ تبتی جاڑے کا بد ترین مہینہ فروری تھا۔ جب برف بہت خراب ہوتی اور ڈر ہوتا کہ ان پر جانور پھسل پھسل کر اپنی ٹانگیں توڑ لیں گے تو قازق ان کے چلنے کے لیے برف پر نمدے اور قالین بچھا دیتے۔ یوں سب نہیں تو بیشتر صحیح سلامت نکل گئے لیکن اس طرح سفر بہت سست اور سخت ہو گیا۔ آدمیوں کے لیے بھی اور جانوروں کے لیے بھی خصوصاً بچوں کے لیے لیکن لوٹ کر جانے کا خیال کسی کے دل میں نہیں آیا۔
علی بیگ اور اس کے بیٹے حسن نے ان مقاموں کے نام لکھے ہیں جن سے غزکل چھوڑنے کے بعد وہ گزرے مثلاً اوشاکتی، اوزِن کُل جو غالباً کسی جھیل کا نام ہے، محمود کلغان، جنیش خشوف، سرجون، تبّت ایشی، سنکیر۔ ہم نے کسی نقشے میں یہ نام نہیں دیکھے۔ صرف اس بھدے نقشے میں یہ نام درج ہیں جو علی بیگ نے ہمارے لیے خود بنایا اور غالباً ان میں بیشتر نام خود قازقوں ہی کے رکھے ہوئے ہیں۔
جب قازق اس سطح مرتفع پر پہنچے جو کنلن پہاڑوں کے جنوبی ڈھلانوں کے حاشیے پر ہے تو انھوں نے دیکھا کہ تبت والے انھیں بلندی سے دیکھ رہے ہیں۔ علی بیگ نے ایک دستے کے ساتھ حمزہ کو فوراً روانہ کیا کہ ان سے جا کر ملے اور ان سے دوستی قائم کرنے کی کوشش کرے لیکن حمزہ کے پہنچنے سے پہلے تبّتی پہرہ دار بھاگ گئے۔ حمزہ نے دور فاصلے پر ایک دیہات دیکھ لیا۔ اور اس شام علی بیگ نے کچھ آدمیوں کو اس میں بھیجا کہ دیہات میں بسنے والوں کو رضامند کرکے راستہ بتانے والے لائیں وہ جا کر دو آدمی لے آئے جو علی بیگ اور اس کے قافلے کو ایک بڑے دیہات میں لے گئے لیکن اس دیہات کے لوگ بدمزاج تھے اور انھوں نے کھانا اور چارہ بھی قازقوں کے ہاتھ بیچنے سے انکار کر دیا، حالانکہ ان کے پاس دونوں چیزیں افراط کے ساتھ موجود تھیں۔ ان کی زندگی بقول علی بیگ کے ایسی تھی جیسے سنگی زمانے کے آدمیوں کی۔ ادھر تو وہ جھک جھک کررہے تھے ادھر قازق نگرانوں نے دیکھا کہ دیہات کے اطراف میں لوگ ہاتھوں میں ہتھیار لیے جمع ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ قازق تعداد میں بہت کم تھے اور جگہ بھی بالکل کھلی ہوئی تھی۔ اس لیے تبّت والوں کے حملہ کرنے سے پہلے خود قازقوں نے فورا حملہ کر دیا اور ذرا سی دیر میں انھیں بھگا کر جوکچھ کھانا دانہ درکار تھا لے کر خالی گاؤں میں آگ لگا دی۔ پھر ان دونوں تبتیوں کو ساتھ لے کر جو انھیں اس گاؤں میں لائے تھے وہ انھی کی رہنمائی میں وہاں سے آگے چل پڑے۔
رہنماؤں نے انھیں اس سڑک تک پہنچانے کا ذمہ لیا تھا جو لاسہ کو جاتی تھی۔ ستمبر ۱۹۵۰ء میں جب غزکل چھوڑا تو سعالی اور یول بارز نے لاسا جانے ہی کا منصونہ بنایا تھا۔ اس زمانے میں اشتراکیوں نے تبت پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ البتہ چند اشتراکی اسی وقت پہنچے تھے جس وقت سعالی اور یول بارز پہنچے تھے۔ لیکن جب ۱۹۵۱ء کی فروری کے آخر میں علی بیگ وہاں پہنچا تو اسے علم نہیں تھا کہ اشتراکی اس ملک میں موجود ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی اندیشے کے وہ تبتی رہنماؤں کے ساتھ چلتا رہا اس امید پر کہ یہ راستہ اسے اور اس کے قافلے کو پہلے لاسہ لے جائے گا اور پھر تبت کے عین بیچ میں سے ہو کر نیپال اور اس کے بعد ہندوستان پہنچا دے گا۔
رہنما انھیں کُھلے علاقے میں لے گئے جہاں ہوا نے برف کو اڑا دیا تھا اس لیے فروری کے اواخر ہی میں جانوروں کے چرنے کے لیے وہاں کچھ چارہ موجود تھا اور راستہ بھی زیادہ چڑھائی کا یا دشوار گزار نہیں تھا۔ سردی بھی بہت زیادہ نہیں تھی۔ حالانکہ یہ مقام سمندر سے کم از کم بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ایسے مقام پر آگئے جہاں اونچے اونچے نرسل تھے۔
علی بیگ مناس کا رہنے والا تھا جہاں اسی قسم کے نرسل تھے۔ ان نرسلوں کے اندر کیا ہو سکتا تھا؟ اس تصور سے علی بیگ پریشان ہونے لگا۔ اور جب اس نے دیکھا کہ کچھ اونٹ غیر منجمد دلدل میں دھنسنے لگے تو وہ کھٹک گیا۔ وہ گھوڑا دوڑا کر یہ دیکھنے آگے بڑھا کہ قافلے کو آگے جانا چاہیے یا لوٹ جانا چاہیے، اس کے آگے بڑھتے ہی نرسلوں میں سے گولیاں چلنے لگیں پھر اس نے دیکھا تبتی رہنما دونوں کے دونوں بجائے پلٹ کر بھاگنے کے گھوڑے دبائے اسی جانب چلے جارہے ہیں جدھر سے گولیاں چلی تھیں لہذا علی بیگ نے ان کے بچ نکلنے سے پہلے انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
لیکن وہ اپنا داؤ کر چکے تھے۔ علی بیگ کا سوتیلا بھائی زین الحمید اس وقت نرسلوں کے قریب تھا۔ جب گولیاں چلنی شروع ہوئیں وہ ان بیس اونٹوں کی قطار کی نگرانی کر رہا تھا جن پر ان کا اپنا سامان لدا ہوا تھا۔ پہلی باڑ چلنے پر آگے کا اونٹ مارا گیا۔ اس کی دم سے پچھلے اونٹ کی جو نکیل بندھی ہوئی تھی ٹوٹی لہذا دوسرا اونٹ ٹھہر گیا کہ اگلا اونٹ آگے بڑھے تو یہ بھی چلے مگر اگلا اونٹ مر چکا تھا۔ زین الحمید جب اس کی نکیل کاٹنے کے لیے آگے بڑھا تو اس کی ٹانگ میں گولی لگی اور وہ بھی گر پڑا۔
جب علی بیگ اس کی مدد کو لپکا تو گولیاں سنسناتی ہوئی اس کے قریب سے گزریں اور کچھ گولیاں اس کے لباس کو داغتی ہوئی نکل گئیں لیکن وہ اپنے بھائی کے پاس زخمی ہوئے بغیر پہنچ گیا اور اسے کسی نہ کسی طرح کھینچ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ وہ اونٹوں کو وہیں چھوڑ کر علی بیگ کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا اور دونوں وہاں سے بچ کر محفوظ مقام پر آ گئے۔ اگر تبتی کچھ دیر تک اور گولیاں چلاتے رہتے تو پورے قافلے کا صفایا کر دیتے مگر حسن اتفاق سے قازق زیادہ مارے نہیں گئے۔ زین الحمید چند روز بعد زخم کی تکلیف سے مر گیا لیکن علی بیگ کا تقریباً سارا ذاتی ساز و سامان اس جھڑپ میں جاتا رہا اور اسی میں وہ دیگ بھی گئی جو اگلے اونٹ پر لدی ہوئی تھی۔ اور جب اسے اپنے لباس کا جائزہ لینے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ اس میں چھ گولیوں نے بغارے ڈال دیے ہیں مگر وہ خود زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کے خراش تک نہیں آئی۔
نرسلوں کی دلدل ایک وادی میں تھی جس کے قریب ہی سخت اور خشک زمین پہاڑیوں تک چلی گئی تھی۔ پہاڑیوں کے پیچھے سڑک تھی۔ جیسے ہی گولیاں چلنی شروع ہوئیں قافلے والے بغیر کسی ہدایت کے فوراً خشک زمین پر آگئے اور گولیوں کی زد سے باہر ہو گئے۔ جب گولیاں رک گئیں تو علی بیگ نے قافلے کو رک جانے کا حکم دیا تاکہ قافلے کے کچھ لوگ اگر پیچھے رہ گئے ہوں تو وہ بھی آ جائیں تھوڑی دیر میں کچھ آدمی جانور لے آئے مگر دو نہیں آئے یہ نو سال کے عبد المطلب کے ماں باپ تھے۔
اس فریب کے بعد علی بیگ نے طے کر لیا کہ آئندہ تبتی رہنماؤں پر کبھی بھروسا نہ کیا جائے۔ صرف اپنے قطب نما اور اور اسکول کے اٹلس میں سے پھاڑے ہوئے نقشے سے کام چلایا جائے۔ ستمبر ١٩٤٧ء میں مناس کے قریب بہکائے ہوئے خلدزا کے قازقوں سے جو لڑائی ہوئی تھی اس کے بعد یہ نقشہ علی بیگ کو پڑا ہوا ملا تھا اور اس نے اٹھا کر اسے جیب میں رکھ لیا تھا۔ نہ جانے کیوں جب ہم نے اس سے یہ قصہ سنا تو اس نقشے کو دیکھنا چاہا مگر اس نے کہا کہ جب ہم نے ہندوستانی سرحد کو عبور کیا تو ہمارا کل فوجی سامان ہم سے لے لیا گیا۔ اسی میں وہ نقشہ، قطب نما اور دور بین بھی ضبط کر لی گئی۔ بعد میں علی بیگ نے اپنی یادداشت سے ایک نقشہ بنا کر ہمیں بھیجا جس میں اور بھی نام درج تھے۔ یہ سارے نام سوائے ایک کے اس کے بیٹے حسن نے لاطینی حروف میں لکھے تھے، وہ ایک نام علی بیگ نے عربی حروف میں لکھا تھا اور نام تھا جبل طوسون۔ یہ نام ہم نے کسی اور نقشے میں آج تک نہیں دیکھا۔ پہلا نقشہ جو تھا اس میں سارے نام خط نسخ میں درج کیے گئے تھے۔ اس میں نام کچھ زیادہ نہیں تھے لیکن نقشے میں پہاڑوں اور دریاؤں کے رخ درج تھے۔ اس سے علی بیگ کو کچھ اندازہ ہو گیا کہ قافلے کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
نرسلوں کی وادی کے حاشیے پر جو پہاڑیاں تھیں اس پر چڑھنے کے بعد علی بیگ نے کچھ فاصلے پر سڑک جاتی دیکھی اور اس پر مسلح آدمیوں کے دستے لاسہ کی طرف جاتے دکھائی دیے۔ علی بیگ نے انھیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ اشتراکی سپاہی ہیں اور علی بیگ سمجھ گیا کہ دونوں تبتی رہبروں نے دوہرا فریب کیا تھا، پہلے اپنے آدمیوں ہی سے کٹوانا چاہا اور ان کے ناکام رہنے کی صورت میں اشتراکیوں سے انھیں ختم کرانے کی تدبیر کی۔ ان حملوں سے بچ نکلنے پر علی بیگ نے خدا کا شکر ادا کیا اور سڑک کا رخ اچھی طرح جانچ لینے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو پھر وادی کی طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد قازق بجائے جنوب کی طرف جانے کے مغرب کی طرف چلتے رہے اور لاسہ کے بدلے کشمیر کی طرف بڑھتے رہے۔
علی بیگ جب اپنے قافلے میں واپس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ نو سال کے یتیم عبد المطلب میں اور چند بزرگوں میں بڑے زور کی دوستانہ بحث ہو رہی ہے۔ ماں باپ کے مر جانے سے ننھا عبد المطلب ہی اس خاندان میں باقی رہ گیا تھا۔ اپنے والدین کا تنہا وارث ہونے کی حیثیت سے ان کے جانوروں کا مالک ہو گیا تھا۔ جانوروں میں ایک گھوڑا تھا، دو گائیں اور کوئی دس بارہ بھیڑیں تھیں۔
علی بیگ نے پوچھا: لڑکے کو کیا تکلیف ہے؟
بزرگوں نے کہا: کچھ بھی نہیں، تم خود اس سے پوچھ لو۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اس کی عقل بھی جاتی رہی۔
علی بیگ کے دریافت کرنے سے پہلے ہی عبد المطلب نے مطالبہ کے انداز میں کہا: “کیا میں اپنے باپ کے گھر کا مالک نہیں ہوں اور وہ جو جانور سامنے کھڑے ہیں کیا میرے نہیں ہیں؟”
علی بیگ نے کہا: “بے شک”۔
اس پر عبد المطلب نے کہا: “تو ان لوگوں کو منع کرو کہ میرے معاملات میں دخل نہ دیں۔ اپنی ملکیت کے ساتھ جو میں چاہوں سو کروں۔ یہ روکنے والے کون ہوتے ہیں؟”
علی بیگ نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور بولا: “یقین رکھو کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ تم ان کا کیا کرنا چاہتے ہو؟”
عبد المطلب نے کہنا شروع کیا: “اگر اشتراکیوں سے بچ نکلنے کے بعد میرے ماں باپ خود ہی روانہ ہو جاتے اور اتنے بڑے قافلے کے ساتھ نہ چلتے تو اتنے چھوٹے گروہ پر اشتراکیوں کی نظر بھی نہیں پڑتی اور آج وہ زندہ ہوتے لہذا میں اب اس قافلے کے ساتھ سفر نہیں کروں گا اور تنہا اپنے جانوروں کو لے کر خود ہی سفر کروں گا۔ اس طرح ہم ان لڑائیوں سے بچ جائیں گے جو آئندہ اشتراکیوں سے ہونے والی ہیں۔ میں اور میرے جانور مارے جانے سے بچ جائیں گے اور ہم بغیر کسی نقصان کے ہندوستان پہنچ جائیں گے۔”
علی بیگ نے پوچھا: “مگر تم راستہ کیسے معلوم کروگے؟”
عبد المطلب نے فورا جواب دیا: “جب میں اتنے بڑے قافلے کے پیچھے چلوں گا تو راستہ کیسے بھولوں گا؟”
"لیکن اگر اشتراکیوں اور تبتیوں نے تمھیں دیکھ لیا تو تمھیں مار ڈالیں گے اور ہم قریب نہیں ہوں گے کہ تمھیں بچا لیں۔”
عبد المطلب نے مسکت جواب دیا: “کیا آپ کے بچانے سے میرے ماں باپ کی جان بچ گئی؟”
علی بیگ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے سوچ میں پڑ گیا۔ ان کا سفر خطرات سے بھرا ہوا تھا اور چاہے سب مل کر سفر کریں چاہے الگ الگ۔ سب کی زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں تھی۔ اگر اس کی مرضی ہوگی تو سب خیریت سے سفر کر لیں گے، اور عبد المطلب بھی۔ اور اگر اللہ کو یہ منظور نہیں ہے تو مجبوری، اس کے علاوہ لڑکا بہت جلد تنہائی سے گھبرا کر پھر اپنے ساتھیوں سے آ ملے گا، دو ایک دن میں نہیں تو ایک آدھ ہفتے میں۔ اگر وہ پیچھے بھی رہے گا تو اس کا فاصلہ کچھ زیادہ نہیں ہوگا۔ یہی میل دو میل۔
چنانچہ علی بیگ نے سوچ کر عبد المطلب سے کہا:
“اچھا تو اپنے جانوروں کو لے کر جس طرح چاہو سفر کرو اور جب اکیل سے اکتا جاؤ تو ہم سے پھر آ ملنا۔ فی امان اللہ!”
عبد المطلب نے کہا: “آپ بھی بسم اللہ کیجیے۔ خدا حافظ۔”
یہ کہہ کر وہ اپنے گھوڑے اور چھوٹے سے ریوڑ کے پاس چلا گیا اور جب قافلہ روانہ ہوا تو وہ ٹھہرا رہا۔ جانور اگر حسب عادت دوسرے جانوروں کے ساتھ جانا چاہتے تو وہ اپنے باپ کے گھوڑے پر سوار ہو کر انھیں روک لیتا اور انھیں اس وقت تک روکے رہا کہ وہ جانوروں کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئے، خود چونکہ گھوڑے پر سوار تھا اس لیے قافلے کو دیکھتا رہا۔
قافلے والے اسے پلٹ پلٹ کر دیکھتے رہے، خصوصاً عورتیں اس کے پیچھے رہ جانے پر اسے دیکھتی رہیں اور تاسف سے سر ہلاتی رہیں لیکن کچھ اور لوگوں نے کہا:
“چھوڑو بھی۔ جس طرح خدا ہمارے ساتھ ہے اس کے بھی ساتھ ہے”۔
دن پہ دن قافلہ آگے بڑھتا رہا اور عبد المطلب کے بارے میں قازق باتیں کرتے رہے اور کہتے رہے: “آج وہ صرف ایک میل پیچھے ہے اب تنہائی سے گھبرا گیا ہوگا۔ کل تک وہ ہم میں آملے گا یا آج ہم میں اور اس میں دو میل کا فاصلہ ہے۔ تھک گیا۔ شاید وہ یا اس کے جانور بیمار ہو گئے یا اس کا گھوڑا لنگ کر رہا ہے کیا خیال ہے تمھارا چل کر اس کی مدد کریں۔”
پھر سب کی رائے ہوتی:
“نہیں اسے اس کے حال پر چھوڑو ہم تو خود پریشانی میں مبتلا ہیں اس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں۔ اسے اللہ پر چھوڑو۔”
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو گھوڑے دوڑا کر عبد المطلب کے پاس پہنچ جاتے اور اس سے اس کی کیفیت دریافت کرتے۔ وہ ان کے سوالوں کے جواب ہمیشہ خوش دلی سے دیتا اور کہتا: “جیسا کہ تم خود دیکھ رہے ہو میں اور میرے جانور خیریت سے ہیں” یا “ایک بھیڑ مر گئی اسے چارہ نہیں ملا۔ مگر باقی سب ٹھیک چل رہی ہیں۔”
پرسش کرنے والا کہتا: “یہی حال ہمارا ہے اور بھیڑوں کے ساتھ یہ مصیبت ہے کہ وہ گوشت نہیں کھاتیں حالانکہ دوسرے مویشی کھا لیتے ہیں اور گھوڑے بھی کبھی کبھی گوشت کھا لیتے ہیں۔”
اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور لوگوں نے عبد المطلب کا خیال رکھنا چھوڑ دیا۔ پھر وہ وقت آیا کہ عبد المطلب قافلے والوں کو نظر آنا بند ہو گیا اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی قوت نے جواب دے دیا۔ جیسے کہ خود ان کی قوت جواب دے چلی تھی۔ اور جو لوگ اس پر بھی اسے یاد کرتے تو اسے مردہ سمجھ کر اس کا سوگ مناتے۔
اسی اثنا میں مارچ شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ تیز ہوائیں چلنے لگیں جو برف کو اڑا کر اس کے تودے لگانے لگیں۔ یوں کچھ راستہ صاف نکل آتا اور قافلہ آگے بڑھ جاتا مگر جانوروں کے لیے چارہ نایاب تھا۔ ان کی رفتار بھی سست پڑ گئی تھی کیونکہ کنلن پہاڑوں کو عبور کرنے کے بعد جانور تھک گئے تھے اور آگے سفر کرنے کے لیے انھیں طاقت کی ضرورت تھی۔ علی بیگ نے نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ آگے راہ سفر تالابوں میں سے ہو کر جاتی ہے، دریاؤں کے کنارے کنارے نہیں جاتی۔ لہذا قافلے والوں کے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور ان کی حالت بھی درست ہونی چاہیے کیونکہ راہ کٹھن تھی اور بعض جگہ بالکل سپاٹ چڑھائی آتی تھی۔ سارا علاقہ بالکل بنجر، بھیانک اور بہت بلندی پر تھا۔ سانس تک لینا اس میں دشوار تھا۔
شروع میں وہ ایسے علاقے سے گزرے جہاں بہت کم بستیاں تھیں اور ان بستیوں کے تبتی دشمنی کرتے تھے۔ ان میں سے بعض دیہاتوں کے رہنے والے تھے اور بعض خانہ بدوش لیکن قازقوں نے اب ان سے دوستی کرنے کی کوشش نہیں کی اور سب کو اپنا دشمن سمجھا لہذا جب قازقوں کو کھانے دانے کی ضرورت ہوتی تو ان سے زبردستی لے لیتے۔ اگر پالتو جانوروں کی ضرورت ہوتی تو ان سے جانور بھی لے لیتے خصوصاً بھیڑیں۔ یاک انھوں نے نہیں لیے۔ دو ایک دفعہ انھوں نے غزکل سے آنے والے چھوٹے گروہوں کو بھی دیکھا جو انھی کی طرح کشمیر جا رہے تھے لیکن سردار ایک دوسرے کو سلام کہلوانے کے بعد اپنی اپنی راہ لگ جاتے۔ وہ جانتے تھے کہ چھوٹے گروہ بنا کر سفر میں دوسروں کی نظر ان پر کم پڑتی ہے اور جانوروں کو چارہ بھی کچھ زیادہ ہی مل جاتا ہے۔ اس کا سب کو اطمینان تھا کہ لڑائی میں دشمن کو مار بھگائیں گے۔ بعض اوقات چند افراد ایک گروہ کو چھوڑ کر دوسرے گروہ میں آجاتے تاکہ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ ہو جائیں یا کسی اختلاف کی وجہ سے وہ گروہ بدل لیتے مگر ایسا بہت کم ہوتا تھا۔
علی بیگ کا قافلہ اسی طرح کوئی ایک مہینے تک سفر کرتا رہا اور وہ اس سفر سے حسب توفیق لطف اندوز بھی ہوتا رہا۔ پہاڑوں نے ان کے لیے مسلسل حیرت کے باب کھول رکھے تھے۔ عظیم آسمان سے باتیں کرتے ہوئے ڈراؤنے ختم نہ ہونے والے، کالی کالی چوٹیاں، کسی کسی پر برف کا تاج رکھا ہوا مگر دور دور تک درخت کا نام و نشان تک نہیں۔ حالانکہ جنگلی جانور یہاں کثرت سے تھے۔ جنگلی گدھے (جنھیں علی بیگ زبرا کہتا تھا)، ریچھ، جنگلی بکرے، ہڑیال (قد آور چھوٹے گدھے کے برابر بھیڑیے)، لومڑیاں اور کئی اور جانور جن کے نام قازقوں کو معلوم نہیں تھے۔ ایک جانور تھا جو جنگلی گائے کہلاتا تھا لیکن غالباً وہ یاک ہوگا۔ علی بیگ آج تک نہیں سمجھ سکا کہ یہ گھاس پتی کھانے والے جانور کیسے ان پہاڑی علاقوں میں زندہ رہتے تھے جہاں کئی کئی ہفتے سفر کرنے کے بعد برائے نام گھاس نظر آتی تھی یا میلوں دور الگ تھلگ علاقوں میں کچھ سبزہ ہوتا تھا۔
کالے پتھر کے بارے میں قیاس کیا جاتا تھا کہ یہ ایک قسم کا بسالت ہے۔ بہرحال وہ کچھ بھی ہو اس میں قیمتی معدنیات ضرور تھیں اور علی بیگ کا بیان ہے کہ ان کی تحقیق بھی شروع کر دی گئی ہے۔ انھی میں سے ایک کے متعلق علی بیگ نے کہا تھا کہ ایک ایسا پتھر ہے کہ جو رات کے وقت چراغ کی طرح روشنی دیتا ہے۔
سورج غروب ہونے کی سمت میں جیسے جیسے قازقوں کا قافلہ چلتا رہا، تبتی باشندے کم ہوتے چلے گئے اور ان کے کسی بستی میں پہنچ لینے کا انتظار بھی نہیں کیا جاتا لہذا کھانا اور چارہ انھیں حسب ضروت ان خالی بستیوں سے مل جاتا تھا۔ زیادہ کھلی ہوئی سطح مرتفع پر ہوا کے تند جھونکے خشک گھاس پر سے برف ہٹا دیتے۔ سفر کے دوران میں قازق کئی جھیلوں پر بھی پہنچے اور انھیں پانی افراط سے ملا لیکن درختوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ جب کشمیر کی سرحد قریب آنے لگی تو درخت دکھائی دینے لگے۔ جلانے کے لیے چونکہ لکڑی نہیں ملتی تھی اس لیے اپنے مویشیوں کے گوبر سے کام چلاتے۔ مرد بعض دفعہ شکار کے لیے پہاڑی وادیوں میں نکل جاتے اور ہرن اور جنگلی گدھے مار کر اپنے گھوڑوں پر لاد لاتے۔ اپنے جانوروں کے لیے خرگوش مار لاتے۔ یوں انسانوں اور حیوانوں کے لیے کھانے کی کمی نہیں تھی لیکن جانور بڑی بد دلی سے گوشت کھاتے اور بعض تو بالکل نہ کھاتے۔
مئی ١٩٥١ء کے شروع میں گرمیاں آ چکی تھیں۔ قازقوں کا قافلہ اچانک ایک بڑے تبتی دیہات میں پہنچ گیا۔ حسب دستور قازقوں نے آگے بڑھ کر اس پر حملہ کرنا چاہا مگر دیہات والے اسے خالی کر کے پہلے ہی بھاگ چکے تھے اور قازقوں نے اپنی ضروریات کا سامان یہاں سے لے کر اپنا قافلہ آگے بڑھا دیا۔ قافلہ اب سطح مرتفع کے اختتام پر پہنچ رہا تھا اور ایسے علاقے میں جا رہا تھا جو رفتہ رفتہ اونچا ہوتا چلا جا رہا تھا اور زیادہ بنجر اور نا ہموار بھی۔ یہاں تک کہ قازق سطح سمندر سے اٹھارہ یا بیس ہزار فٹ بلندی پر چلے جا رہے تھے۔ یہ اونچائی تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ ایورسٹ کے کوہ پیماؤں کو آکسیجن کے بغیر عبور کرنی نا ممکن ہوگئی تھی لیکن سوائے قازقوں یا چند تبتیوں کے کوئی اور اس علاقے میں سے نہیں گزرا اس لیے اس کی صحیح اونچائی کا پتہ نہیں چلایا جا سکتا۔
ویران دیہات سے گزرنے کے دو دن بعد قازق ایک ایسی تنگ گھاٹی پر پہنچے جو بڑی وادی ہی کے اختتام پر تھی۔ لیکن اس میں راستہ صاف تھا اور اندازہ ہوتا تھا کہ اس راستے سے ایک اور سطح مرتفع پر قافلہ پہنچ جائے گا اور وہاں شاید چراگاہ بھی مل جائے۔ اس تنگ گھاٹی میں داخل ہونے سے پہلے علی بیگ پیشروؤں کے ساتھ چل رہا تھا۔ تنگ گھاٹی کو دیکھ کر وہ کچھ بے چین ہونے لگا۔ گھاٹی کے پہلو میں جو پہاڑی تھی وہ زیادہ اونچی نہیں تھی لہذا وہ اس پر اپنے گھوڑے کو چڑھا لے گیا تاکہ نیچے کے راستے کو دور تک دیکھ لے۔ ایک مناسب مقام پر ٹھہر کر اس نے اپنی دور بین سے راستے کا جائزہ بڑی احتیاط سے لیا، اسے کوئی غیر معمولی بات نہیں دکھائی دی اور وہ پھر قافلے میں شریک ہونے کے خیال سے پلٹا۔
اس کے پلٹتے ہی چھپے ہوئے تبتیوں نے اس پر گولیاں چلانی شروع کر دیں اور ایک دم سے نیچے گھاٹی میں کئی سو تلواریں سونتے اور شور مچاتے نکل آئے اور قازقوں کے رینگتے ہوئے قافلے پر جھپٹ پڑے۔
یہ حملہ بالکل غیر متوقع تھا لیکن جھپٹتے ہوئے گھڑ سواروں کے آ پڑنے سے پہلے قازق ان کے مقابلے کو تیار ہو چکے تھے۔ مردوں اور لڑکوں نے اپنے گھوڑوں کا رخ دشمن کی طرف کیا اور اپنی تلواریں سونت لیں۔
جن کے پاس تلواریں نہیں تھیں انھوں نے اپنے خاردار سونٹے ہی سنبھال لیے۔ عورتوں اور بچوں نے خود ہی جانوروں کو گھاٹی میں جانے سے روک لیا اور گھیر کر انھیں بڑی وادی میں ہنکانا شروع کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قازق قافلے اور جھپٹے ہوئے تبتیوں کے درمیان قازق گھڑ سواروں کا ایک پردہ سا حائل ہو گیا۔ علی بیگ پہاڑی پر سے اتر کر نیچے آنے بھی نہیں پایا تھا کہ اس کے آدمی جوابی حملہ کر کے تبتیوں میں جا گھسے تھے۔
اب جو لڑائی ہوئی وہ زمانۂ قدیم کے گھڑ سواروں کی وہ آویزش تھی جو چنگیز خاں اور سنہری لشکر کو پسند تھی۔ دشمنوں کی صفوں میں دیوانہ وار گھس جانا اور پار نکل کر پھر منظم ہو کر گھس آنا، تلوار کے وار کرنا، پھر تلوار کے وار روکنا اور پھر وار کرنا اور نشانہ ہمیشہ گھڑ سوار کو بنانا گھوڑے کو نہیں۔ لباس دونوں طرف کے دبیز تھے اس لیے انھیں کاٹنے کے لیے زور دار ہاتھ لگانے کی ضرورت تھی۔ بلکہ تلواروں سے زیادہ اس وقت خار دار سونٹے مہلک ثابت ہو رہے تھے۔ گھوڑوں پر سے گرے بہت، مگر مرے کم۔ قازقوں کا کہنا ہے کہ ہمارے صرف تین آدمی کام آئے، مگر زخمی زیادہ ہوئے۔ زبردست حریف سے یہ لڑائی تین گھنٹے تک جاری رہی۔ اس میں ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کم سے کم دشمن کے بیس آدمی مار ڈالے اور اس سے دوگنے تگنے زخمی کرکے بے کار کر دیے۔ بہت سے گھوڑے اور ہتھیار قازقوں کے ہاتھ آئے، گھوڑے ایک طرح سے اپنے آپ کو قید کراتے تھے کیوں کہ جب گھوڑے کا سوار گر جاتا تو گھوڑا جیتنے والے کے ساتھ ہو لیتا۔ بے سوار کے تندرست گھوڑے میدان جنگ میں ہنہناتے، خُرخُراتے اور اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے اور کنورا کر لڑائی میں گتھے ہوئے سواروں کے پیچھے پیچھے بگ ٹٹ دوڑتے پھرتے۔ ان سے اس منظر کی وحشت و بربریت ہی میں صرف اضافہ نہیں ہوتا بلکہ ان قدیم لڑائیوں کا تصور بھی واضح طور پر ہو جاتا جو قازق اور گھڑ سواروں نے صدیوں پہلے کبھی لڑی تھیں اور فاتحانہ پیکنگ اور دلّی تک یہ سوار پہنچے تھے بلکہ قرونِ تاریک اور قرونِ وسطیٰ میں پورے ایشیا اور پورے یورپ کو انھوں نے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالا تھا۔ انھیں دیکھنے کے بعد ہمیں بیسویں صدی کے وہ اجتماعی تباہی کے طریقے بھی دکھائی دینے لگتے ہیں جو انسان اور حیوان کا نام تک مٹا دیتے ہیں اور دنیا کی شکل ہی بدل دیتے ہیں۔
چیختے چلاتے جنگجو اپنے گھوڑوں پر سوار ایک دوسرے پر تلوار کے ہاتھ مارتے رہے یہاں تک کہ شام کا دھندلکا پھیلنے لگا اور تبتی پسپا ہو گئے۔ میدانِ جنگ قازقوں کے ہاتھ رہا۔ فاتحوں نے اپنے زخموں کو پیشاب سے دھویا تاکہ وہ پکنے نہ پائیں اور جیسی کچھ بھی مرہم پٹّی کر سکتے تھے کی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے تین ساتھیوں کی لاشیں دفن کیں۔ تبتیوں کے عمدہ ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لیا، جو بیکار تھے انھیں ضائع کیا۔ پکڑے ہوئے تبت والوں کے گھوڑوں کو اپنے گھوڑوں سے باندھا اور وادی کا رُخ کیا، جہاں ان کے بیوی بچے ان کے منتظر تھے۔
علی بیگ کا بیان ہے کہ اس لڑائی کے بعد تبت والے دور ہی دور رہے لیکن ان کے دیکھ بھال کرنے والے دور بلندیوں پر سے روزانہ دیکھتے رہتے کہ قازق قافلہ کس راستے سے جا رہا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ ساری خبریں ان اشتراکیوں کو دیتے جو لاسہ پر چھا جانے کے بعد تبت کے مضافات میں چھاؤنی چھا رہے تھے۔
قازقوں کو اشتراکیوں کے قرب و جوار میں موجود ہونے کا پہلا اندازہ اس وقت ہوا جب انھیں یکایک معلوم ہوا کہ اشتراکی زمینی فوجیں ان کے تعاقب میں لگی ہوئی ہیں۔ مقامی باشندے ان اشتراکیوں کی مدد کر رہے تھے کیونکہ وہ قازقوں کو اشتراکیوں سے بھی بدتر لعنت سمجھ رہے تھے۔ لیکن غزکل سے چند قازقوں کے گروہ جو تبت پہلے پہنچے تھے ان کی پذیرائی تبتیوں نے خاصی اچھی کی۔ اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید تبت والوں نے علی بیگ اور اس کے قافلے کو جب اپنے ملک میں داخل ہوتے دیکھا تو ان سب کو اشتراکی حملہ آور سمجھا۔ اگر یہ قیاس صحیح تھا تو اشتراکیوں کو اس مغالطے سے خواہ مخواہ فائدہ پہنچ گیا۔
تبت میں اشتراکیوں سے علی بیگ کا جو پہلا مقابلہ ہوا اس میں اس کا قافلہ تباہ و برباد ہوتے ہوتے بچا۔ پہاڑی لڑائیوں کا قازقوں کو بے مثل تجربہ تھا، اسی سے وہ بچ گئے۔ یہ ان کی خوش قسمتی تھی یا ان کے الفاظ میں اللہ کا کرم تھا۔ اب جس راستے پر وہ چل رہے تھے، وہ اونچے اونچے پہاڑوں میں ہو کر جاتا تھا اور یہ راستہ یکے بعد دیگرے تین دروں میں سے بھی گزرتا تھا۔ قازق قافلہ دو دروں میں سے خیریت سے گزر گیا۔ کسی نے مزاحمت نہیں کی۔ اب وہ تیسرے درے پر پہنچنے سے پہلے ایک تنگ گھاٹی میں چل رہے تھے۔ علی بیگ کی غیر معمولی حس نے پھر زور کیا اور وہ گھوڑا بڑھا کر تنہا اس مقام پر پہنچا جہاں سے راستہ مڑتا تھا۔ یہاں اس نے دیکھا کہ راستہ کو پتھروں سے بند کر رکھا ہے۔
اس کی وجہ معلوم کرنے کی اسے ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس نے اپنے گھوڑے کو پھیرا اور اپنے قافلے کی طرف لپکا۔ ابھی وہ قافلے والی سڑک پر کوئی پچاس قدم ہی گیا ہوگا کہ اس کے پیچھے سے گولیوں کی ایک بوچھار آئی مگر نہ تو اس کے کوئی گولی لگی اور نہ اس کے گھوڑے کے۔ جب وہ قافلے میں جا پہنچا تو عقب سے گولی چلنے کی آواز سُنائی دی اور تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص گرفتار کر کے لایا گیا۔ قافلے کے پیچھے اشتراکیوں کا جو مختصر سا دستہ نگرانی کے لیے لگا ہوا تھا، یہ شخص اس کا آخری فرد تھا۔ تیز نگاہوں نے دور ہی سے بھانپ لیا تھا کہ یہ نہ تو خطائی ہے نہ تبتی بلکہ ترکی ہے، قازقوں کے وطن ترکستان ہی کا باشندہ۔ اس لیے قافلے کے عقبی محافظوں نے اسے دانستہ ہلاک نہیں کیا تھا، اس توقع پر کہ اس سے بہت سی باتیں معلوم ہو سکیں گی۔ اس شخص نے ڈرتے ڈرتے چاروں طرف دیکھا اور جب اسے اطمینان ہو گیا کہ کوئی زندہ اشتراکی سپاہی دور دور تک موجود نہیں ہے تو وہ کھل کر باتیں کرنے لگا۔ اس نے بتایا کہ قریب ہی ایک بڑی اشتراکی فوج پڑی ہوئی ہے جس میں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور ہوائی جہاز بھی ہیں۔ اس فوج کا ایک دستہ اس وقت سڑک پر پیچھے چلا آ رہا ہے۔ تاکہ تبتیوں کی مدد سے قازقوں کو پھانس لے۔
جب علی بیگ نے اس شخص کو دیکھا اور اس کی روداد سُنی تو اسے کے دل میں آئی کہ اس کی باتوں پر یقین کر لے۔ حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کہ جے کنڈو تک کوئی ٹینک یا ہوائی جہاز موجود نہیں تھا۔ یعنی مشرق کی جانب کئی سو میل دور تک۔ اس گرفتار شدہ ترکی سے کہا گیا کہ اگر تم چاہو تو امین طہٰ ملّا کی طرح ہم میں شریک ہو جاؤ، چاہے واپس جا کر اشتراکیوں کی فوج میں پھر شامل ہو جاؤ۔ اس شخص نے کہا: میرے بیوی بچے ابھی ترکستان ہی میں ہیں اور زندہ اشتراکیوں میں سے کسی نے نہیں دیکھا کہ مجھے قازقوں نے گرفتار کر لیا۔ اس لیے مجھ پر یہ شبہ نہیں کیا جائے گا کہ میں نے قازقوں کو بھید دے دیے ہیں لہذا میری خواہش یہ ہے کہ میں واپس چلا جاؤں۔ شاید کوئی دن ایسا بھی آجائے کہ میں اپنی بیوی بچوں سے جا ملوں۔
قازقوں نے اسے خدا حافظ کہا اور اس نے بھی انھیں بہ امان خدا کہا کیونکہ وہ بھی انھی کی طرح مسلمان تھا۔
قازق اب دونوں طرف یعنی آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی گھر گئے تھے اور راستے کے دونوں طرف اونچی سپاٹ پہاڑیاں تھیں۔ اب ان کے لیے کوئی راستہ نکلنے کا نہیں تھا۔ لیکن ہراساں نہیں ہوئے۔ علی بیگ نے قائنیش اور حمزہ کو اپنے پاس بُلایا اور بتایا کہ آگے راستہ پتھروں سے بند کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی اشتراکیوں کی نہیں تبتیوں کی معلوم ہوتی ہے۔
اس کے بعد بولا: “تم دونوں مجھ سے چھوٹے اور جوان آدمی ہو۔ اس لیے اپنے ساتھ بیس بیس آدمی لو پیدل، یہ آدمی مضبوط اور چست ہوں۔ آدمیوں کو لے کر تم سامنے کے پہاڑوں پر راستے کے دونوں طرف چڑھ جاؤ۔ مگر پہاڑیوں میں جہاں ذرا سا جھکاؤ ہے، اس سے ذرا پوشیدہ رہنا۔ وہیں راستہ روکا گیا ہے۔ اس جھکاؤ پر بغیر ان کے دیکھے ہوئے جنھوں نے راستہ روکا ہے، پہنچنے میں تمھیں کتنی دیر لگے گی”۔
حمزہ اور قائنیش نے آپس میں مختصر سا مشورہ کر کے جواب دیا: کوئی دو ڈھائی گھنٹے۔
“اچھا تو تین گھنٹے رکھو۔ شاید کوئی اور ایسی رکاوٹ بھی ہو جو یہاں سے نظر نہیں آ رہی یا شاید تبتیوں سے بچنے کے لیے تمھیں پھیر سے جانا ہوگا۔ اس کے بعد جب تم دیکھو کہ ہمارا قافلہ جانوروں کو لیے اس موڑ پر پہنچے جس کا میں تم سے ذکر کر چکا ہوں اور اس کے بعد ہی پتھروں سے راستہ روکا گیا ہے تو تم تبتی چھاپہ ماروں پر چھاپہ مار دینا اور باقی جو کچھ ہونا ہے اسے خدا پر چھوڑ دو، اور جب تک تم روانہ ہونے کے لیے تیار ہو میں بیس اور آدمی لے کر دس عقبی محافظوں کی مدد کو جاتا ہوں تاکہ ادھر ہم اشتراکیوں کو اس وقت تک روکے رہیں جب تک آگے راستہ صاف نہ ہو جائے۔”
لہذا حمزہ اور قائنیش اپنے پیدل دستوں کو لے کر چھاپہ ماروں سے اوپر پہنچنے کے لیے پہاڑوں پر چڑھنے لگے تاکہ آگے کو راستہ کُھلے۔ ادھر علی بیگ اور اس کے آدمیوں نے جلدی واپس جا کر درمیانی درے کے اوپر پہنچنے کی کوشش کی تاکہ دس عقبی محافظوں کو اشتراکی دستہ نہ دبا لے۔ وہ پہنچ تو گئے مگر عین وقت پر ایک چٹان کے نیچے انھوں نے جلدی جلدی اپنے گھوڑوں کو باندھا اور راستے کے دونوں طرف سپاٹ پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور احتیاط برتی کہ کوئی انھیں دیکھ نہ لے۔ یہاں انھیں وہ دس عقبی محافظ بھی مل گئے جو پہلے سے تاک لگائے بیٹھے تھے کہ دشمن کے پیش دستے کے برآمد ہوتے ہی اسے سنگوا لیں۔ وہ مطمئن تھے کہ اپنے پسپا ہونے تک دشمن کو آگے بڑھنے سے خاصی دیر تک روکے رہیں گے۔
اشتراکی بڑی ہوشیاری سے آگے بڑھ رہے تھے کیونکہ اس ترکی کی زبانی انھیں اشتراکی نگراں دستے کا انجام معلوم ہو چکا تھا لیکن انھوں نے اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھی کہ خواہ مخواہ سڑک چھوڑ کر سپاٹ اور بے راہ پہاڑیوں پر چلنا شروع کر دیں لہذا وہ آگے بڑھتے رہے اور صرف ایک پیش دستہ ان سے کچھ فاصلے سے آگے چلتا رہا۔ اشتراکی سب پیدل تھے کیونکہ اس راستے پر گاڑیاں نہیں چل سکتی تھیں۔ علی بیگ نے ان کے پیش دستے کو پچاس قدم کی حد تک آ جانے دیا۔ پھر گولی چلائی اور یہ گولی اشارہ بھی تھا اس بات کا کہ دوسرے قازق بھی گولیاں چلائیں۔ پیش دستے میں بیس آدمی تھے۔ پہلی ہی باڑ میں ان سب کا صفایا ہو گیا۔ دو ایک جو بچ رہے وہ چھپنے کے لیے ادھر اُدھر بھاگے مگر جب انھیں کوئی جائے پناہ نہیں ملی تو وہ اپنی فوج کی طرف پلٹ کر بھاگے اور اس فوج کو بھی انھوں نے گھبرا دیا۔ یہ حالت دیکھ کر بعض قازق ہڑیالوں کی طرح ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر اچھلتے کودتے ان کے اوپر پہاڑیوں پر پہنچ گئے اور انھیں جو ڈھیلے پتھر ملے انھیں خطائیوں پر انھوں نے لڑھکا دیا۔ اس سے ان میں اور بھی انتشار پھیلا اور پورا لشکر درہم برہم ہونے لگا۔ اشتراکی جلدی سے زد سے باہر ہو گئے اور دوبارہ منظم ہو کر درّے پر اس طرح بڑھے کہ قازقوں کی تاخت سے بچے رہیں اور جب انھوں نے کم خطرے کا راستہ اختیار کیا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا سوائے اپنے ہی مردوں کے۔ اگر ذرا تیزی سے آگے بڑھتے تو شاید ننھے عبد المطلب کو جا لیتے مگر اس کے ساتھ اللہ تھا اور وہ بچ گیا۔
علی بیگ نے اپنے تیس آدمیوں میں سے آدھے تو درّے کی نگرانی کے لیے وہیں چھوڑ دیے تاکہ اشتراکی اگر ادھر سے جمع ہو کر آئیں تو انھیں روکیں اور باقی آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر قافلے کی طرف روانہ ہو گیا۔ قافلہ آہستہ آہستہ ابھی تیسرے درّے کی جانب بڑھ رہا تھا اور اس کے آگے عورتیں اور لڑکے تحفظ کا حجاب بنائے ہوئے تھے تاکہ حمزہ اور قائنیش کی واپسی سے پہلے اگر تبتی حملہ کر دیں تو انھیں پسپا کر دیں۔ علی بیگ نے اپنے بقیہ پندرہ آدمیوں سے کہا کہ تم بھی حجاب تحفظ میں شامل ہو جاؤ۔ اور جیسے ہی آگے سے گولیاں چلنے کی آواز سنو، فوراً درّے کے پہرے پر دھاوا بول دینا لیکن ذرا احتیاط کے ساتھ کیونکہ درّے کے اوپر تبتی نشانہ باز ممکن ہے کہ چھپے بیٹھے ہوں۔ یہ کہہ کر علی بیگ نے ایک مناسب مقام سے اپنی دور بین لگا کر دیکھا تاکہ اطمینان کر لے کہ دشمن پہلو سے تو حملہ نہیں کر دے گا۔ دن بالکل صاف تھا اور چاروں طرف کے بھیانک پہاڑ بے شجر کھڑے تھے۔ کہیں کہیں برف ان پر جمی ہوئی تھی۔ علی بیگ کو سوائے اس راستے کے جس پر قافلہ چل رہا تھا اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا۔ لہذا اگر کسی شک کی وجہ سے وہ خائف تھا بھی تو اب وہ خوف رفع ہو گیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد تیسرے درّے کے اوپر سے گولیاں چلنے کی آواز اسے سنائی دی۔ دوربین سے اس نے دیکھا کہ حمزہ کے آدمی تبتیوں پر ہتھ گولے پھینک رہے ہیں اور پھر دیوانہ وار بھاگتے ہوئے لوگ دکھائی دیے کیونکہ تبتیوں نے پہلے کبھی ہتھ گولوں کو پھٹتے نہیں دیکھا تھا اور چٹانوں کو لانگتے پھلانگتے بھاگے جا رہے تھے کہ کہیں چھپنے کی جگہ مل جائے تو اپنی رائفلوں سے گولیاں چلائیں مگر اس کوشش میں وہ قائنیش کے آدمیوں کے سامنے جا پہنچے جنھوں نے ان پر پیچھے سے گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ درّہ چونکہ تنگ تھا اس لیے حمزہ کے آدمیوں سے جو تبتی آڑ میں آ گئے تھے قائنیش کے آدمیوں کے بالکل سامنے جا پہنچے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ نظر نہ آنے والے دشمن کی گولیاں ایک ایک کر کے انھیں مار ڈالیں۔ اس پہلی لڑائی کی طرح دوسری بھی چند منٹ میں ختم ہو گئی اور قازقوں کا ایک آدمی بھی مارا نہیں گیا۔ انھوں نے فوراً آگے بڑھ کر قاصد بھیجے کہ عقبی محافظوں کو بلا لیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ قافلے سے پیچھے کچھ فاصلے سے چلتے رہیں تاکہ اگر اشتراکی پھر نظر آئیں تو قافلے والوں کو آگاہ کر دیں مگر اشتراکی دوبارہ نہیں دکھائی دیے، کم از کم اس وقت نہیں۔
تبتیوں سے پانچ چھ جھڑپیں ہوئی۔ یہ سب محاربے ابتدائی ڈھائی مہینے میں ہوئے۔ اس سارے وقت میں قافلہ برابر آگے بڑھتا رہا اور پندرہ بیس میل روزانہ طے کرتا رہا۔ لیکن قافلہ اب ایسے علاقے میں داخل ہو رہا تھا جس پر پہاڑی کُہر کئی کئی دن تک ہر چیز کو ڈھک لیتی، اس سے قافلے کی رفتار بہت کم پڑ گئی اور قافلے والوں کے مزاج چڑچڑے ہونے لگے۔ پڑاؤ سے ذرا سی دور جانا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں تھا، کیونکہ اس کا بہت اندیشہ تھا کہ جو جائے گا اُسے لوٹ کر آنا پھر نصیب نہیں ہوگا۔
ایک مہاجر نے بتایا کہ “اس کہر میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوجھتا تھا۔ ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں بھی اگر جانا ہو تو ہم برابر آوازیں دیتے رہتے تاکہ بھٹک نہ جائیں۔”
اور حالت یہ تھی کہ سب کے پاس خیمے بھی اب نہیں رہے تھے۔ جن کے پاس خیمے نہیں تھے وہ اونٹوں اور گاڑیوں کے بیچ میں سُکڑ سُکڑ کر پڑ رہتے تاکہ گرمی رہے اور بچاؤ بھی۔ بعض ان میں سے خصوصاً وہ بچے جن کے پاس سواری کے لیے جانور نہیں تھے اور جن کی دیکھ بھال کے لیے ماں باپ نہیں تھے، اس قدر تھک جاتے کہ جب قافلہ روانہ ہوتا تو پیچھے رہ جاتے اور جب رات کو قافلہ پڑاؤ ڈالتا تو ان میں سے اکثر پھر قافلے میں آ ملتے۔
کُہر برف کے ذروں سے لدی ہوتی اور یہ ذرّے چنگاریوں کی طرح ہر سانس کے ساتھ پھیپھڑوں کو داغتے اور جس ہوا میں وہ سانس لیتے وہ اس قدر لطیف تھی کہ انسان اور حیوان ذرا سی محنت کرنے پر ہانپنے لگتے۔ جانوروں کے لیے چارہ بالکل نہیں رہا تھا اس لیے سِنکے ہوئے گوشت کے بدلے قازقوں نے انھیں کچا گوشت کھلانا شروع کیا اور خود بھی کچا گوشت کھاتے کیونکہ نہ تو ان کے پاس ایندھن تھا نہ کُہر کی وجہ سے چقماق سے آگ جھاڑ سکتے تھے۔ بیشتر جانور گوشت نہ کھاتے اور بھوکے مر جاتے لیکن کچھ کھا لیتے۔ خصوصاً اونٹ اور گھوڑے کُہر سے جانوروں اور انسانوں کو کھانسی کے دورے پڑنے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سردی اور نمی سے ان کے چہرے کالے پڑ گئے تھے اور بہتے آنسوؤں نے ان پر زخم ڈال دیے تھے۔
جب سنسناتی ہوئی ہوا پہاڑوں کے سنّاٹے میں دہاڑنے لگتی تو کُہر ایک دم سے صاف ہو جاتی۔ یہ ہوا ٹھنڈی یخ ہوتی مگر اس کے ساتھ سورج بھی نکل آتا جس سے ان کے جسم بھی گرماتے اور روحیں بھی۔ ہر تندرست شخص فوراً کام کرنے اُٹھ کھڑا ہوتا۔ جلانے کے لیے گوبر جمع کرتا، جانوروں کو گھیر کر سفر کرنے کے لیے یک جا کرتا۔ اگر کسی میں زیادہ جان ہوتی تو پہاڑوں میں نکل جاتا مگر کہر کے خوف سے زیادہ دور نہیں تاکہ کھانے کے لیے ہڑیال یا غزال مار لائے۔ حالانکہ موسم گرما تھا لیکن جانوروں کے لیے گھاس بہت کم تھی اور جو جانور کہر سے بچ رہے وہ سوکھ کر کانٹا ہو گئے۔ ان میں سے اگر کوئی ٹھوکر کھا کر گر پڑتا تو پھر اس سے اٹھا نہ جاتا اور اگر یہ گرنے والا جانور بوجھ بھی اٹھائے ہوتا تو اس کا بوجھ کسی اور پر لادا نہیں جا سکتا تھا۔ کیونکہ کسی میں بھی اتنا دم نہیں تھا کہ ذرا سا بھی زیادہ بوجھ اور اٹھا لے۔ لہذا خیمے اور گھر کا ساز و سامان رفتہ رفتہ چھوڑا جا رہا تھا اور کشمیر تک بہت کم سامان پہنچ سکا۔
ان غیر معمولی بلندیوں اور کہر نے ایک خاص بیماری پیدا کر دی جس کے نام سے ناواقف ہونے کی وجہ سے قازق اُسے “توتک اِس” یعنی ورمِ کہر کہنے لگے۔ کال کے مارے ہوؤں کا جیسے ایک دم سے پیٹ پھول جاتا ہے اسی طرح اس بیماری میں بیمار کا پیٹ پھول جاتا اور اس کے ساتھ ناک سے خون کی تُللّیاں بندھ جاتیں۔ قازقوں کو اپنے وطن میں جو تکلیفیں اور بیماریاں ہوتی تھیں، ان کے لیے ان کی اپنی دوائیں بہت کچھ ہوتی تھیں، اسی طرح جانوروں کی بیماریوں کی بھی؛ لیکن توتک اس کوئی علاج ان کے پاس نہیں تھا۔ اور لڑائیوں میں قافلے کے آدمی اتنے نہیں مارے گئے جتنے کہ اس بیماری سے مرے۔ علی بیگ کے پانچ بچے توتک اِس سے مرے لیکن اس کی تینوں بیویاں اور اس کا بڑا لڑکا حسن بچ گیا۔
جولائی کے اواخر میں قازق بالآخر نیچے اُترنے شروع ہوئے اور اگست کے شروع میں کچھ علامتیں ایسی انھیں دکھائی دینے لگیں جن سے انھیں معلوم ہونے لگا کہ کوئی آباد علاقہ قریب آ رہا ہے۔ یہاں کے نچلے ڈھلان اب بے شجر نہیں رہے تھے بلکہ ان پر درخت اور سبزہ تھا جسے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ آئے لیکن اسی کے ساتھ انھیں محنت بھی کرنی پڑی کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ اگر انھوں نے بھوک کے مارے ہوئے جانوروں کو زیادہ کھا جانے دیا تو وہ مر جائیں گے۔
چلتے چلتے وہ ایک سڑک پر آئے جو شمال سے جنوب کے بدلے مشرق سے مغرب کو جاتی تھی اور علی بیگ نے فوراً طے کر لیا کہ اسی پر چل پڑیں۔ ١٨؍ اگست ١٩٥١ء غزکل چھوڑنے کے ایک سو ترانوے دن کے بعد یہ قافلہ کشمیر کی سرحد کے قریب ایک مقام ردوخ پر پہنچا جو کشمیر کے دار الحکومت سری نگر اور لاسہ کی درمیانی سڑک پر ہے۔
جب قازق سرحد پر پہنچے تو علی بیگ خوش خوش آگے بڑھا تاکہ ہندوستانی سرحد کے محافظوں کو بتائے کہ قافلہ کن لوگوں کا ہے اور کشمیر میں انھیں داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ افسر انچارج نے کہا: “مجھے اپنے کاغذات پہلے دکھاؤ۔” علی بیگ نے ایک ترجمان کے ذریعہ کہا: “مگر ہمارے پاس کاغذات نہیں ہیں۔ ہم قازق ہیں، سیاسی مہاجر جو اشتراکیوں سے بہت لڑائیاں لڑ کر سنکیانگ سے بچ کر نکل آئے ہیں۔”
ہندوستانی افسر پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
اس نے پھر کہا: “مگر بغیر کاغذات دکھائے تمھارا ہندوستان میں داخل ہونا ناممکن ہے۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ تم جو اپنے آپ کو بتا رہے ہو وہی ہو۔ مجھے کیا معلوم تم کون ہو؟”
علی بیگ نے کہا: “لیکن اشتراکی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں پکڑ کر مار ڈالیں؟”
ہندوستانی افسر نے مختصر جواب دیا: “مجھے اشتراکیوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ وہ ابھی تک اس ملک کے کسی حصے میں نہیں آئے۔” اس کے سامنے چیتھڑے لگے، بے حال، ہتھیار بند لوگوں کا ایک دستہ کھڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ یہ لوگ تبتی تو ہیں نہیں اور یقیناً چینی بھی نہیں ہیں۔ ردوخ کا راستہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے سنکیانگ سے آنے والے لوگ عموماً ہندوستان میں داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ تبتیوں نے اسے آگاہ کر رکھا تھا کہ لٹیروں کا ایک گروہ شمال کی طرف سے تبت میں داخل ہو چکا ہے جس نے بہت سے دیہاتوں کو لوٹ لیا۔ دیہات والوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتوں اور قیمتی سامان کو اٹھا لے گیا اور اب مغرب کی طرف مُڑ کر کشمیر کی طرف آ رہا ہے۔ ہندوستانی افسر کو یقین ہو گیا کہ علی بیگ کا گروہ ہی وہ لٹیروں کا گروہ ہے۔
“تم لٹیرے ہو۔ سیاسی مہاجر نہیں ہو۔ وہیں جاؤ جہاں سے تم آئے ہو۔ تم ہندوسان میں داخل نہیں ہو سکتے اور میں اس کی اجازت نہیں دوں گا کہ تم سرحد کے قریب پڑے رہو۔”
علی بیگ نے کہا: “ہم لٹیرے نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ ہم سیاسی مہاجر ہیں۔ ہمیں یہاں پہنچنے کے لیے تبت میں سے گزرنے کے لیے لڑنا پڑا۔ اسے تبتیوں نے لوٹ مار سمجھ لیا ہوگا۔ حالانکہ جب انھوں نے ہماری مدد کرنے سے اور ہمیں گزرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا تو ہمارے لیے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ ان سے لڑ کر راستہ لیں۔”
لیکن اب بھی ہندوستانی افسر نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آخر میں ہار کر علی بیگ وہاں سے یہ کہہ کر واپس ہوا کہ: “اگر اب ہم مرے تو ہمارا خون تمھاری گردن پر ہوگا۔”
بارھواں باب
مامن
قازقوں کو کشمیر میں داخل ہونے سے جب روک دیا گیا تو اس کی تلخی اور بھی زیادہ محسوس ہوئی کہ سرے سے اس کا کوئی اندیشہ ہی نہیں تھا۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ بات تو ہونی شدنی تھی کیونکہ تبتیوں نے پہلے ہی ہندوستانی افسر کو بھڑکا دیا تھا۔ یہ اچھا ہوا کہ قازقوں نے سنکیانگ سے نکلنے اور تبت میں داخل ہونے کی طرح یہاں بھی زبردستی اپنا راستہ بنانے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے بس یہی کیا کہ سرحد سے ایک میل دور ہٹ گئے۔ مگر اس طرح کہ سرحد انھیں دکھائی دیتی رہے۔ جو خیمے بچ رہے تھے انھیں لگا کر وہ انتظار کرنے اور سستانے لگے۔ اگلے چند ہفتوں میں غزکل کے چند اور قازقوں کے گروہ آ پہنچے اور کشمیر میں داخل ہونے کی انھوں نے بھی درخواست کی مگر انھیں بھی ناکامی ہوئی۔ ہندوستانی افسر نے سب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے وطن کو لوٹ جائیں، لیکن اس مشورے پر کسی نے عمل نہیں کیا۔
کچھ دنوں بعد اشتراکی بھی آ پہنچے۔ انھوں نے اپنی فوجیں سب کی نظروں سے دور رکھیں اور سیاسی قاصد ہندوستانیوں کے پاس بھیجے اور “مفاہمتی ٹکڑیاں” جن میں سنکیانگ کے باشندے شامل تھے، قازقوں کے پاس بھیجیں کہ لگے بندھے وعدے کر کے قازقوں کو وطن واپس چلنے پر آمادہ کریں۔ بعض قازق جو بارکل میں عثمان بطور کے ساتھ تھے، مصالحتی ٹکڑیوں سے پہلے مل چکے تھے اور ان کے متعلق سب کچھ جانتے تھے۔ اتنا کہ ان کی کسی بات پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ دوسرے مہاجر بھی بہت کچھ جانتے تھے، لہذا وہ مفاہمت کرنے والوں کی باتیں سنتے رہے اور انھیں بالکل پریشان نہیں کیا۔ مگر جب وہ روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی نہیں گیا۔
اس کے بعد ایک بے چین خاموشی کا زمانہ گزرا اور اسی میں نو سال کا ننھا عبد المطلب اچانک پڑاؤ میں آتا دکھائی دیا۔ پانچ مہینے سے وہ سفر کر رہا تھا، بالکل اکیلا۔ کیونکہ علی بیگ کے قافلے سے وہ الگ ہو گیا تھا۔ اس کا گھوڑا ابھی زندہ تھا اور ایک بھیڑ بھی، لیکن ان میں سے کسی میں بھی اتنی زندگی نہیں تھی جتنی کہ ان کے مالک میں تھی۔ وہ اپنے بل بوتے پر پہاڑوں اور وادیوں، چشموں اور چٹانوں اور برف اور یخ میں سے ہو کر آیا تھا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے اس نے کوئی چھ سو میل کا سفر طے کیا تھا۔ بیشتر سفر ایسے علاقے میں سے کیا تھا جو سطح سمندر سے بارہ یا چودہ ہزار فٹ اور بعض جگہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ اور بھی کئی یتیم لڑکیاں اور لڑکے پیچھے رہ جاتے، کیونکہ ہر شخص تھکا ہوا تھا اور اسے خود اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی خبر گیری کرنی دوبھر ہو رہی تھی۔ عموماً یہ ہوتا کہ یہ پیچھے رہ جانے والے رات کو قافلے کے پڑاؤ میں آ ملتے یا دو دو تین تین دن کے بعد قافلے کو پکڑ لیتے۔ کچھ البتہ لاپتہ ہو جاتے۔ عبد المطلب اپنی مرضی سے اکیلا سفر کرتا آیا تھا۔ بچوں کے ایسے نمایاں کارناموں سے قازق واقف ہی ہوتے ہیں مگر عبد المطلب کا زندہ سلامت آ جانا اُن کے نزدیک بھی ایک معجزہ تھا۔
جب عبد المطلب پیچھے رہ گیا تو اس کے گلے میں فوجیوں کا ایک کرمچ کا تھیلا پڑا تھا جس میں روٹی اور خشک غلہ بھرا تھا۔ اس کی کمر میں ایک چُھری بھی پیٹی میں لگی ہوئی تھی۔ جب اسے خشک گھاس یا پتے یا گلی ہوئی لکڑی کہیں مل جاتی تو وہ چُھری اور چقماق سے آگ جھاڑ لیتا۔ علی بیگ کے قافلے کے پیچھے پیچھے وہ اپنے چھوٹے سے گلے کو لیے چلتا رہتا۔ اس کے لیے یہ ایک بچوں کا کھیل تھا جس میں اسے مزہ آتا۔ اُسے آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا قافلہ اکثر دکھائی دیتا رہتا۔ لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، قافلہ اس کی نظروں سے اوجھل رہنے لگا اور جب قافلہ اُسے بالکل ہی دکھائی نہ دیتا تو علامتوں سے وہ راستہ معلوم کر لیتا۔ سخت زمین اور پتھروں پر جانوروں کے کھروں کے نشان اسے دکھائی دے جاتے یا پھر بھیڑ بکریوں کی مینگنیاں نظر آ جاتیں، جنھیں قافلے والے جلانے کے کام میں نہیں لاتے تھے۔ وہ ان علامتوں کو بچپن سے جانتا تھا اور ان کے معنی بھی خوب سمجھتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے اسی عمر کے بچے آزاد دنیا میں باپ کو کار چلاتے دیکھ کر ہی کار چلانا خود بخود سیکھ جاتے ہیں۔
اس کی خوش نصیبی سے جس قافلے کے پیچھے وہ چل رہا تھا اس کے بعض جانور اس قدر تھک گئے تھے کہ چلنے سے معذور ہو گئے تھے اور بلندی کی لطیف ہوا نے ان کے مرے ہوئے جانوروں کو سڑنے نہیں دیا تھا اور نہ مردہ خور جانوروں اور پرندوں نے انھیں کھایا ہی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے کرمچ کے تھیلے میں ان کا گوشت بھرتا چلتا اور اپنی چُھری سے گوشت کاٹ کاٹ کر اپنے جانوروں کو کھلاتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ آگ جلا کر گوشت کو سینک لیتا لیکن اس کے جانوروں کو اور خود اسے کچا گوشت ہی کھانا پڑتا۔ رات کو عموماً وہ دو چٹانوں کے بیچ میں کوئی دراڑ تلاش کر لیتا اور اس میں دبک کر آرام سے سو رہتا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کوئی درندہ اس کے قریب نہیں پہنچ سکے گا، حالانکہ ایک دفعہ کوئی اس کی ایک بھیڑ رات کو اٹھا بھی لے گیا۔ اس کا لبادہ بھیڑ کی پوستین کا تھا۔ سردی کا وہ ویسے ہی عادی تھا اس لیے یہاں بھی اُسے سردی کم ہی لگتی تھی۔ جب برفیلی کہر چھا جاتی تب بھی وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا۔ کیونکہ رات کو نکلنے والے شکاری جانور بھی اس کہر میں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ لہذا وہ سوتا اور جاگ کر کھاتا اور پھر سو رہتا۔ لیکن جب زبردست ہوا کُہر کو اڑا لے جاتی اور مینگنیوں کو بھی تو پھر راستہ تلاش کرنے میں اسے مشکل پیش آتی۔ اس کے لیے بدترین وقت وہ تھا جب ایک اور راستے نے شمالاً جنوباً اس کے راستے کو کاٹا کیونکہ اُسے معلوم نہیں تھا کہ کب اس کا اور تبتیوں کا سامنا ہو جائے گا۔ مگر وہ ڈرا اب بھی نہیں بلکہ زیادہ ہوشیار ہو گیا۔
عبد المطلب کا آ جانا ایک اعجاز تھا۔ اس سے قازقوں کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ انھوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ اللہ کی مرضی یہ نہیں ہو سکتی کہ اسے اتنی دور صحیح سلامت پہنچا دینے کے بعد عین منزل کے سامنے ہم سب کو مر جانے دے۔
لیکن عبد المطلب بھی مرتے مرتے بچا اور اس کے ساتھ دوسرے قازق بھی۔ ایک رات اشتراکی فوجوں نے اچانک قازقوں پر اسی طرح حملہ کر دیا جیسے غزکل میں کیا تھا۔ لیکن ان سب قازقوں کا دستور تھا کہ سوتے بھی تو اپنی رائفل اور کارتوسوں کی پیٹی اپنی دسترس میں رکھ کر سوتے اور اندھیرے میں بھی اسے اسی طرح تلاش کر لیتے جیسے روشنی میں۔ جلدی سے اپنے کپڑے اور ہتھیار اٹھا کر وہ اپنے خیموں اور خوابگاہوں میں سے نکل کر بھاگے اور پہاڑوں میں جا کر دن نکلنے تک چھپے رہے۔ اس موقع پر عورتیں اور بچے پڑاؤ ہی میں رہے اور یہ پہلا اتفاق تھا کہ اشتراکیوں نے انھیں چھوڑ کر مردوں کا پیچھا کیا۔ مگر جب دن نکل آیا تو قازق پہاڑوں میں اونچے چڑھ چکے تھے اور انھوں نے وہاں سے فوراً جوابی حملہ کیا۔ حملہ آور پسپا ہوئے، بہت سے مارے گئے اور ان کے ہتھیار قازقوں کے ہاتھ آئے۔ ان میں دو ہتھ گولے بھی تھے۔
اشتراکیوں کے حملے اور قازقوں کے جوابی حملے سے ہندوستانی بہت متاثر ہوئے اور جب ایک بار پھر قازق قاصدوں نے سرحد پر جا کر انھیں بتایا کہ اگر انھیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تو ان کا کیا حشر ہوگا، تو افسر انچارج نے ان کی درخواست پر اس شرط کے ساتھ غور کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ پہلے اپنے ہتھیار سب ان کے حوالے کر دیں تاکہ ان کے پُرامن ارادوں کی تصدیق ہو جائے۔ قاصدوں نے اس شرط کو بخوشی منظور کر لیا اور ہتھیار حوالے کرنے کے لیے ایک وقت کا تعین کر لیا گیا۔ جب وقت مقررہ آیا تو قازق سرحد پر حاضر ہو گئے جہاں ہندوستانیوں نے ان سے ہتھیار رکھوا لیے۔ ان میں وہ دونوں ہتھ گولے بھی تھے جو لڑائی میں قازقوں کے ہاتھ آئے تھے۔ لیکن ہندوستانیوں نے کہا، ہم ابھی تمھیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ دلّی سے ابھی تک اس کی اجازت نہیں آئی ہے۔ لیکن انھوں نے وعدہ کیا کہ اجازت ضرور دی جائے گی۔
اس نئی تاخیر سے نہایت مایوس ہو کر قازق بے ہتھیاروں کے اپنے پڑاؤ کی طرف جانے لگے تو انھوں نے دیکھا کہ ہندوستانی انھیں اشارے سے بلا رہے ہیں۔
جب وہ ہندوستانی افسر کے پاس پہنچے تو وہ بولا: “جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، جب تک میرے پاس اجازت نہ آ جائے، میں تمھیں اپنے علاقے میں داخل نہیں کر سکتا۔ لیکن ہم اپنے علاقے کے باہر بھی تمھاری حفاظت نہیں کر سکتے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ تم اپنا بچاؤ آپ کرو۔ تم اپنے ہتھیار واپس لے جاؤ۔ شاید تمھیں آج ہی ان کی ضرورت پڑ جائے۔”
نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آگاہی عمدہ پیش بینی کا نتیجہ تھی یا نہایت باخبر رہنے کی لیکن یہ واقعہ ہے کہ چند گھنٹے بعد ہی اشتراکیوں نے دوبارہ حملہ کر دیا۔ ہندوستانی سرحد کے سامنے یہ پوری لڑائی لڑی گئی۔ اس کا آغاز یوں ہوا کہ اشتراکیوں نے گیارہ قازقوں کو گرفتار کیا اور فوراً ان کے سر اُڑا دیے۔ لیکن آخر میں قازقوں نے اپنے دشمنوں کو مار بھگایا۔ اب کے بھی وہ حسب دستور اوپر چڑھ گئے اور بلندی پر سے بے خوف و خطر ہو کر ان پر گولیاں چلاتے رہے اور مقتولین کا بھی پورا بدلہ لے لیا۔ لیکن ان گیارہ مقتولین میں محمد تُروی کاری ایک فرشتہ صفت ملّا بھی تھا۔ قرآن مجید کا بہت عمدہ حافظ۔ اس کی نیک نفسی اور قابلیت کا شہرہ دور دور پھیلا ہوا تھا۔ اس کے مارے جانے کا قازقوں کو بہت رنج ہوا۔
یہ لڑائی آخری تھی۔ سرحد کے ہندوستانی کماندار کو اب یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی کہ اگر انھیں کشمیر میں داخل ہونے سے مزید روکا گیا تو ان کا کیا انجام ہوگا۔ گیارہ بندھے ہوئے قیدیوں کے سر اس کی آنکھوں کے سامنے اُڑائے گئے تھے۔ بلکہ قازقوں کا کہنا ہے کہ اس بھیانک منظر کو ہندوستانیوں نے فلما بھی لیا تھا تاکہ وہ اوروں کو بتا سکیں کہ اشتراکیوں نے کیا کارروائی کی تھی۔ لہذا سرحد ان کے لیے کھول دی گئی اور وہ قازق جو مناس، کیو کلوک، کیو چنگ، بارکل، غزکل اور تبت کے پُر صعوبت سفر کی لڑائیوں سے بچ رہے تھے اب محفوظ و مامون ہو گئے تھے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جو امن و حفاظت کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ لڑائیوں میں کال سے اور خانہ بدوشی کے باعث اشتراکیوں کے ہاتھوں کتنے قازق مارے گئے۔ شنگ کے زمانے سے ماوزی تنگ کی عملداری تک اٹھارہ سال کے عرصے میں کچھ نہیں تو ایک لاکھ قازق ضرور مارے گئے۔
جب بچے کچھے قازق ١٠ اکتوبر ١٩٥١ء کو اجازت حاصل کر کے کشمیر میں داخل ہوئے تو انھیں اپنے باقی ماندہ ریوڑ، گلے اور ذاتی چیزیں اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت مل گئی۔ لیکن انھیں اپنے ہتھیار اور کل سامان جنگ سرحد پر رکھ دینا پڑا۔ اس میں علی بیگ کی دور بین، قطب نما اور نقشہ تو گیا ہی، اس کی وہ تلوار بھی گئی جس کے بارے میں اس کے خاندان میں روایت چلی آتی تھی کہ یہ تلوار خود چنگیز خاں کی عطا کردہ ہے۔
قازقوں کو سب ملا کر سرحد کے تبّتی رخ پر باون دن انتظار میں پڑا رہنا پڑا، اس کے بعد انھیں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔ حالانکہ محمد امین بغرا جو ترکی لیڈر تھا اور سری نگر میں رہتا تھا، اطلاع پاتے ہی دلّی روانہ ہو گیا تاکہ ذاتی طور پر قازقوں کی طرف سے مسٹر نہرو سے اپیل کرے۔ غزکل اور ہندوستانی سرحد کے درمیان انھوں نے اشتراکیوں سے چھ لڑائیاں لڑیں اور جب اجازت آنے کے انتظار میں سرحد پر پڑے رہے تو دو اور لڑائیاں ہوئیں۔ تبّتیوں سے بھی ان کی تین جھڑپیں ہوئیں۔ غزکل سے علی بیگ کے ساتھ جو دو سو چونتیس افراد روانہ ہوئے تھے، صرف ایک سو پچھتر زندہ سلامت رہے۔ گیارہ ہزار بھیڑیں، ساٹھ گھوڑے، سینتیس گائیں اور پینتالیس اونٹ لڑائیوں میں، کم خوراکی سے اور بیماریوں میں ضائع ہوئے۔ وہ جانور الگ رہے جنھیں انھوں نے اپنے کھانے کے لیے حلال کیا۔ دوسرے گروہوں کی صحیح تعداد ہمیں معلوم نہیں ہو سکی لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ غزکل سے کوئی دو ہزار آٹھ سو قازق روانہ ہوئے تھے اور پندرہ سو اور اٹھارہ سو کے درمیان ان میں سے کشمیر پہنچے۔ ان میں سے بعض اب بھی ہندوستان میں ہیں۔ اس کے برعکس بعض وہ قازق جو سالہا سال سے ہندوستان اور پاکستان میں رہ رہے تھے، ان مہاجروں کے ساتھ ترکی چلے گئے جو غزکل سے آئے تھے۔ ترکی میں مشرقی ترکستان سے بعض قازق بیس سال پہلے چلے گئے تھے اور اب خاصے مال دار ہو گئے ہیں۔ بھیڑوں کی بدولت نہیں تجارت کی بدولت۔
سرحد عبور کرنے کے بعد قازق سڑک کے ذریعے لیہ گئے جہاں موہادی سین، ہندوستانی جرنیل بنفسِ نفیس ان سے ملے اور انھیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر پہنچانے کی پیشکش کی۔ شاید انھوں نے سمجھا ہوگا کہ قازق اس پیش کش کو قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ہوائی جہازوں سے ڈرتے تھے اور انھیں تباہ کاری کے آلات شمار کرتے تھے، لیکن سب نے اسے منظور کر لیا، سوائے بیس آدمیوں کے جنھوں نے جانوروں اور خیموں کو سڑک کے ذریعہ لے جانے کے لیے اپنے آپ کو رضاکارانہ پیش کیا۔ جب قازق کشمیر کے صدر مقام میں پہنچے تو جن کے پاس خیمے نہیں تھے انھیں عارضی طور پر صفا کدل سرائے میں ٹھہرایا گیا لیکن انھیں معلوم ہوا کہ اس کے سارے کمروں میں ترکی اترے ہوئے ہیں۔ ان میں کئی مال دار مہاجر تھے جو اپنی دولت لے کر موقع سے فرار ہو گئے تھے اور بغیر لڑے جھگڑے امن کی جگہ میں پہنچ گئے تھے۔ لہذا چند قازقوں کو کچھ عرصے کے لیے سرائے کے کھلے صحن میں قیام کرنا پڑا۔ اکتوبر کا مہینہ تھا اور سردی خوب بڑھ چکی تھی اور ان کے پاس آگ جلانے کو ایندھن نہیں تھا اور ابھی تبّت کے سفر کے مصائب کے اثرات بھی پوری طرح زائل نہیں ہوئے تھے۔
لیکن یہ سارے معاملات اخیر میں ٹھیک ہو گئے۔ اس پر بھی بعض قازقوں نے محسوس کیا کہ وہ کشمیر میں آباد ہو کر خوش نہیں رہ سکتے حالانکہ یہاں کے لوگ انھی کی طرح مسلمان تھے۔ کشمیر کا ہر شخص بے اطمینان تھا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان میں اس پر تنازع تھا کہ کشمیر کس ملک میں شامل ہو۔ یہ سوال ایسا تھا جسے کشمیریوں کو خود حل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے تھا لیکن اس وقت کوئی اور ملک بھی ایسا نہیں تھا جہاں قازق چلے جاتے۔ قازقوں کے سردار علی بیگ، دلیل خان، حسین تجی اور دوسرے جو ہمارے قصّے میں نہیں آتے، اس معاملے پر اکثر غور کرتے اور ہمیشہ اس نتیجہ پر پہنچتے کہ انھیں صبر سے کام لینا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ علی بیگ نے کشمیر میں پہنچنے کے بعد ہی صدر ٹرومین اور مسٹر چرچل کو خطوط بھیجے تھے اور انھیں قازقوں کی زدہ حالت کی طرف توجہ دلائی تھی۔
ادھر قازق منتظر تھے اور سوچ رہے تھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ علی بیگ کے پاس کلکتہ سے اطلاع پہنچی کہ سعالی کا بارہ سال کا لڑکا عبد الستار ستمبر ۱۹۵۱ء میں کلکتہ پہنچ گیا تھا، لیکن ماں باپ کے بغیر کیونکہ وہ دونوں مر چکے تھے۔ چٹھی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دولت مند تاجر عبد الغانم کا بھی بارہ سال کا لڑکا عادل عبد الستار کے ساتھ ہے اور توکتوگن مورخ عبد الکریم کا نو سال کا لڑکا بھی، جسے لانے کے لیے ارمچی پر اشتراکیوں کے قبضہ کر لینے کے بعد حمزہ اور عادل کو بھیجا گیا تھا، لیکن وہ سعالی اور ترکی سردار یول بارز اور امین طہٰ ملّا کے ساتھ ستمبر ۱۹۵۰ء میں غزکل سے نکل کر لاسہ روانہ ہو گیا تھا۔
علی بیگ نے عبد الستار کو فوراً خط بھیجا کہ تم دونوں لڑکوں کو اپنے ساتھ لے کر کشمیر چلے آؤ۔ انھوں نے خوشی خوشی اس دعوت کو منظور کر لیا۔ یہاں پہنچ کر عبد الستار نے سارے واقعات سُنائے کہ ان تینوں کے والدین کیسے مارے گئے اور یہ لڑکے کس طرح بچ بچا کر کلکتہ پہنچے۔
یہ کہانی بجائے خود ایک رزمیہ داستان ہے اور کشمیر میں جو قازق بھاٹ تھے انھوں نے اسے دلیری کے کارناموں کی ایک نظم بنا دیا۔ یہ نظم قازقوں کے دستور کے مطابق اپلوں اور لکڑیوں کی آگ کی مدھم روشنی میں کسی رات کو خیمے میں گائی جانی چاہیے اور اس طرح پشت در پشت گائی جاتی رہے گی۔ یہ نظم تاریخی اشاروں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی، اس لیے ہم نے وہ سیدھی سادی کہانی لے لی ہے جو علی بیگ اور عبد الستار نے خود سنائی تھی۔ اس پر منظوم داستانِ شجاعت مرتب کی گئی تھی۔ ہم یہاں ایک بار پھر یہ جتانا چاہتے ہیں کہ جب یہ واقعات پیش آئے تو عبد الستار اور عبد الغانم دونوں بارہ بارہ سال کے تھے اور توکتوگن نو سال کا۔
عبدالستار نے کہا:
غزکل سے نکلنے کے بعد ہم ایک مہینے تک سفر کرتے رہے لیکن ہمیں کوئی اشتراکی دکھائی نہیں دیا۔ پھر سردی بہت بڑھ گئی اور برف بہت پڑ گئی اور ہم آگے نہ بڑھ سکے۔
جو ٹولی یول بارز کے ساتھ سفر کر رہی تھی اس میں سب نہیں تو بیشتر چینی تھے اور میرے باپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان میں چند سفید روسی بھی شامل تھے اور کچھ اپنے آدمی تھے جو قازق تھے۔ ہمارے ساتھ کچھ جانور بھی تھے جنھیں میرا باپ اور یول بارز ساتھ لیتا آیا تھا۔ اور جب ہمیں کھانے کے لیے ان میں سے کسی کو حلال کرنے کی ضرورت ہوتی تو جھگڑا ہونے لگتا۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک دن یول بارز کا ایک آدمی میرے خیمے میں گھس آیا۔ میرا باپ آگ پر جھکا ہوا تھا۔ اس شخص نے طمنچے سے میرے باپ کی پیٹھ میں گولی مار دی، زخم کاری لگا، باپ نے چیخ ماری اور عبد الکریم اور عادل جو قریب کے خیموں میں تھے، دوڑے ہوئے آئے کہ دیکھیں کیا ہوا۔ اس شخص نے ان دونوں کو بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس پر امین طہٰ ملّا ایک جرمن طمنچہ ہاتھ میں لیے غصّہ میں بھرا یول بارز کے پاس پہنچا اور اسے فاشِسٹ ہونے کا طعنہ دیا۔ کیوں کہ اس نے اس قسم کے ظلم کو روا رکھا تھا۔ یول بارز کے ساتھیوں نے امین طہٰ ملّا کو پیچھے سے آ کر پکڑ لیا اور اسے رسیوں میں جکڑ کر تلوار سے مار ڈالا۔ اس کے بعد ان چاروں مرنے والوں کی بیویوں نے واویلا مچایا اور اپنے منہ ناخنوں سے نوچ ڈالے اور ان کے منہ لہو لہان ہو گئے۔ پھر انھوں نے چُھریاں سنبھالیں تاکہ یول بارز کو مار ڈالیں کیونکہ اس نے ان کے شوہروں کو قتل کرنے سے اپنے آدمیوں کو روکا نہیں تھا۔ لیکن یول بارز کے نوکروں نے ان سب عورتوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اور عادل کے دو بیٹوں کو مار ڈالا۔ ان میں سے ایک چودہ برس کا اور دوسرا پندرہ برس کا تھا۔
میرے باپ کے زخم کاری لگا تھا مگر وہ ابھی جی رہا تھا۔ اِس نے مجھے اپنے پاس بلا کر کہا یہ طمنچہ لو اور بھاگ کر پہاڑ میں چھپ جاؤ۔ لیکن دن کو بھاگنے سے میں ڈرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھے دیکھ لیں اور پکڑ کر ان کی طرح مجھے بھی مار ڈالیں، لہذا میں عبد الکریم کے خیمے میں گیا۔ وہاں مجھے توکتوگن اور عبد الغانم ملے اور جب رات کا اندھیرا پھیل گیا تو ہم تینوں پڑاؤ میں سے چھپتے چھپاتے نکلے۔ ہم نے اپنے اپنے باپ کے طمنچے ساتھ لے لیے تھے۔ برف خاصی گہری پڑی ہوئی تھی اور ہم پیدل ہی چل پڑے تھے۔ رات کو اور برف گری اور ہمارے پاؤں کے نشان اس میں دب گئے۔ جب ہم کافی دور نکل آئے تو ایک چٹان کے نیچے پڑ کر سو گئے۔ یہ ہمیں معلوم ہی تھا کہ یول بارز کے آدمی ہمیں تلاش نہیں کر سکیں گے۔
اگلے دن صبح کو ہم نے دیکھا کہ یول بارز ہمیں ڈھونڈ رہا ہے اور نام لے لے کر ہمیں آوازیں دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے: “میں تمھیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔ مجھے اس کا بہت افسوس ہے کہ تمھارے ماں باپ مارے گئے۔” مگر ہم نہیں گئے اور وہ ہمارا کھوج نہیں لگا سکا۔
جب شام ہوئی تو ہمیں بھوک لگنے لگی کیونکہ ہم اپنے ساتھ جو تھوڑی سے روٹی لے کر چلے تھے اسے ہم کھا چکے تھے۔ رات اندھیری تھی اور چاند غائب تھا۔ اس لیے ہم دبکتے دبکاتے پڑاؤ پر واپس پہنچے۔ جب ہم ان خیموں پر پہنچے جن میں ہمارے ماں باپ رہتے تھے تو دیکھا کہ انھیں جلا ڈالا گیا ہے اور ہمارے ماں باپ کی لاشیں ان کے نیچے پڑی ہوئی ہیں۔ انھیں دفن تک نہیں کیا گیا تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ برف بہت سخت جمی ہوئی تھی۔ جلے ہوئے خیموں میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس لیے ہم دوسرے خیموں میں گُھسے اور ان میں ہمیں بہت کچھ کھانے کو مل گیا۔ پھر ہم نے اپنے تین اونٹ کھولے اور ان پر سوار ہو کر بھاگے۔
چاند نہ ہونے پر بھی یہ لڑکے رات بھر چلتے رہے اور اگلے دن شام تک کہیں نہیں ٹھہرے۔ پھر وہ کچھ دیر کے لیے ٹھہرے اور اس طرح سوئے کہ دو پہرہ دیتے اور ایک سوتا۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر ایک اکیلا پہرہ دے گا تو شاید جاگ نہیں سکے گا۔ صبح ہونے سے پہلے ان کا سفر پھر شروع ہو گیا تھا اور دوسرے اور تیسرے دن وہ سفر ہی کرتے رہے۔ چوتھے دن وہ ایک جمے ہوئے دریا پر پہنچے۔ اس پر چلنے سے اونٹوں نے انکار کر دیا۔ اس لیے دریا کے بہاؤ کے رُخ پر وہ دریا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ چلتے چلتے وہ کہاں پہنچ جائیں گے۔
انھوں نے پلٹ کر دیکھا کہ کہیں ان کا تعاقب تو نہیں کیا جا رہا ہے تو دیکھا کہ اونٹ پر سوار یول بارز اکیلا چلا آ رہا ہے۔ اس نے آواز دے کر ان سے کہا: “رُک جاؤ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمھیں کوئی تکلیف نہیں دوں گا۔” مگر لڑکوں نے اپنے اونٹ اور تیز کر دیے اور یول بارز نے جب یہ دیکھا کہ درمیانی فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے تو اس نے گولی چلائی جو توکتوگن کے اونٹ کے لگی اور اونٹ گر پڑا۔ ادھر توکتوگن گرے ہوئے اونٹ کے نیچے سے نکل کر عبد الستار کے پیچھے سوار ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ ادھر عبد الغانم نے یول بارز پر گولی چلا دی۔ مگر فاصلہ زیادہ تھا اور یول بارز اپنا اونٹ ان کی طرف بڑھائے چلا آ رہا تھا۔ مگر گولی اس نے کوئی اور نہیں چلائی۔
باقی ماندہ دونوں اونٹوں کو مار مار کر تینوں لڑکے بالآخر جمے ہوئے دریا پر سے گزر گئے اور اس طرح دلائی لامہ کے تبتی سپاہیوں کی پناہ میں پہنچ گئے جنھوں نے ان سے ہتھیار رکھوا لیے اور یول بارز کا پیچھا کر کے پکڑ لائے اور اس کی رائفل بھی رکھوا لی۔
عبد الستار نے کہا: “ہماری سمجھ میں ان کی زبان نہیں آتی تھی۔ اس لیے ہم نے سپاہیوں کو اشارے سے بتایا کہ ہم یول بارز کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمیں مار ڈالے گا۔ اس لیے انھوں نے ہمیں اس سے علاحدہ رکھا اور ہمارے ساتھ نرمی کا سلوک کیا اور کہا: “ہم تمھیں لاسہ لے جائیں گے اور دلائی لامہ کے آگے پیش کریں گے وہی تمھارا فیصلہ کریں گے۔” ہمیں اس سے اطمینان ہو گیا کیونکہ ہمارے مقتول والدین بھی لاسہ ہی پہنچنے کے لیے سفر کر رہے تھے اور جب ہم لاسہ پہنچے اور اپنے اونٹوں پر بازاروں میں سے گزر رہے تھے تو پینتیس سفید روسی جو ترکستان سے بچ نکلے تھے ہمارے قریب سے گزرے اور انھوں نے ترکی زبان میں ہم سے پوچھا: “تم بچے کس کے ہو؟” میں نے کہا: “میں عبد الستار ہوں اور سعالی کا بیٹا ہوں۔” ان میں سے ایک چیخ کر بولا “سعالی؟ سعالی تو میرا دوست ہے۔ وہ کہاں ہے؟” اور جب میں نے اُسے بتایا کہ اسے یول بارز کے آدمیوں نے مار ڈالا تو اس نے اپنے ساتھیوں کو اطلاع دی اور سب نے چیخنا شروع کیا: “وہ شخص یول بارز کہاں ہے؟ ہم اسے قتل کریں گے!” میں نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں بتایا کہ وہ پیچھے اونٹ پر سوار آ رہا ہے اور وہ سب کے سب اس کی طرف لپکے لیکن تبتی سپاہیوں نے انھیں روک لیا اور کچھ اور لوگ بھی ان کی مدد کو آ گئے اور انھوں نے سفید روسیوں سے ہتھیار رکھوانے شروع کر دیے۔ اس پر سفید روسیوں نے مزاحمت کی اور اپنے ہتھیاروں سے محروم نہ ہونے کی خاطر وہ لاسہ میں سے تیزی سے نکل گئے اور آواز دے کر ہم سے کہتے گئے کہ ہم تم سے کلکتہ میں ملیں گے، مگر معلوم نہیں پھر وہ کہاں گئے۔ لاسہ میں پہنچنے کے بعد تینوں لڑکوں کو جیل میں نہیں رکھا گیا بلکہ ایک گھر میں۔ وقت آنے پر دلائی لامہ نے انھیں طلب کیا۔ لزا خاں ایک بڈھا قازق ١٩١٣ء میں بوکو بطور کے ساتھ فرار ہو کر تبت آ گیا تھا اور یہیں رہ پڑا تھا۔ یہ بڈھا قازق ترجمان بنا۔
عبد الستار نے کہا: “دلائی لامہ میری طرح ایک کم عمر لڑکا تھا۔ اس کا طرزِ عمل ہمارے ساتھ دوستانہ تھا”۔ تینوں قازقوں سے اس نے پوچھا: “تم کہاں سے آئے ہو؟”
عبد الستار نے جواب دیا:
“ہم ارمچی سے آئے ہیں۔ ہم تینوں کے باپوں کو یول بارز نے قتل کر ڈالا اور ہمارا سامان اور ہمارے اونٹ سب اس نے چھین لیے۔ ہم اس سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے کہ آپ کے سپاہیوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ لیکن ہمارے ہتھیار انھوں نے ہم سے لے لیے۔”
یہ سُن کر دلائی لامہ نے یول بارز کو حاضر کرنے کا حکم دیا اور جب وہ پیش ہوا تو اس نے بڑی سادگی سے پوچھا:
“ان لڑکوں کے باپوں کو تم نے کیوں قتل کیا؟”
یول بارز نے کہا: “مجھے تو اس بات کی کوئی خبر نہیں لیکن شاید میرے آدمیوں سے ان کا جھگڑا ہوا اور وہ مارے گئے۔ مگر میرا ان کے قتل میں ہاتھ نہیں ہے۔”
اس پر دلائی لامہ نے کہا:
“اچھا اسے چھوڑ دو۔ لیکن ان کے باپوں کا سامان کہاں ہے۔ ان کا سونا، اونٹ اور دوسری چیزیں تمھارے پاس ہیں یا ان لڑکوں کے پاس؟”
یول بارز نے کہا: “سب میرے پاس محفوظ ہیں۔”
دلائی لامہ نے کہا:
“سب چیزیں میرے پاس لاؤ اور میرے سامنے ان لڑکوں کے حوالے کرو تاکہ مجھے معلوم ہو جائے کہ کوئی چیز غائب نہیں ہوئی۔”
یول بارز کے خیمے اس عرصے میں اس کے بیٹے یعقوب کے ساتھ لاسہ پہنچ چکے تھے۔ لہذا یول بارز نے اپنے خیموں سے تمام سامان منگایا اور دلائی لامہ کے حکم کے مطابق سارا سامان لڑکوں کے حوالے کر دیا۔
عبد الستار نے کہا: لیکن دلائی لامہ اب بھی برہم تھا اور اس نے یول بارز کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یول بارز نے یہ چال چلی کہ جلدی سے وہاں سے کھسک گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک سرخ چغہ پہن کر آ گیا اور اعلان کر دیا کہ میں نے بدھ مذہب اختیار کر لیا ہے۔ اس پر دلائی لامہ نے موت کا حکم منسوخ کر دیا اور یول بارز کو معافی دے دی۔
مگر وہ لاسہ سے بھی جلدی ہی نکل گیا۔ کیونکہ عبد الستار کے بیان کے مطابق لانچاؤ سے اشتراکی فوجیں اس عرصے میں یہاں آ پہنچی تھیں۔ کسی نے ان سے ان تین قازق لڑکوں کا تذکرہ کر دیا اور اشتراکی کماندار نے عبد الستار کو بلا بھیجا اور پوچھا: “تمھارے باپ کو کس نے قتل کیا؟”
عبد الستار نے اسے بتایا کہ اس کا باپ کس طرح قتل ہوا۔ اس پر اشتراکی کماندار نے کہا:
“اگر تمھارا باپ اس یول بارز کے ساتھ فرار نہ ہوتا تو آج اپنے وطن میں ایک بڑا آدمی ہوتا۔ آؤ اب ہمارے ساتھ چلو۔ ہم تمھیں ارمچی واپس بھیج دیں گے اور وہ عظمت جو سعالی کو وہیں رہ جانے کی صورت میں ملتی، تمھارے بڑے ہو جانے پر تمھیں ملے گی۔”
عبد الستار نے کوئی جواب نہیں دیا اور اشتراکی افسر نے ایک اور چھوٹے افسر کو بلا کر حکم دیا کہ عبد الغانم اور توکتوگن کو بھی بلا لاؤ اور ان تینوں لڑکوں کی نگرانی اس وقت تک رکھو جب تک کہ یہ ارمچی نہ بھیج دیے جائیں۔ لیکن جاڑے کا موسم تھا اور سڑکیں سفر کرنے کے قابل نہیں تھیں اس لیے انھیں لاسہ ہی میں رکنا پڑا۔ عملاً اب وہ اشتراکیوں کی قید میں تھے، لیکن یہ لڑکے اب بھی دلائی لامہ کی پناہ میں تھے اور اسی گھر میں آرام سے رہتے تھے جس میں انھیں لاسہ پہنچنے پر رکھا گیا تھا، دن کے وقت انھیں بازار جانے اور گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔
اتفاق سے لاسہ میں چند ہندوستانی سوداگر آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کبھی مشرقی ترکستان پہلے بھی ہو آیا تھا۔ وہ ترکی زبان روانی سے نہیں بول سکتا تھا، پھر بھی اٹک اٹک کر کچھ بول لیتا تھا۔ اس نے عبد الستار سے باتیں کیں اور لڑکوں نے اسے بتایا کہ اس کا باپ سعالی کس طرح مارا گیا اور یہ بھی بتایا کہ ارمچی میں اشتراکی کیسے آئے تھے۔ عبد الستار نے جب جانچ لیا کہ یہ سوداگر کیسا آدمی ہے تب اس نے کہا: آپ جب موسم بہار میں ہندوستان واپس جانے لگیں تو ہم تینوں کو بھی اپنے ساتھ لیتے جائیے۔
سوداگر نے کہا: “کاش میں تمھیں اپنے ساتھ لے جا سکتا۔ یہ کام بے حد خطرناک ہے۔ میں تو بس ایک تاجر ہوں، کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں، نہ جاسوس ہوں اور نہ سپاہی۔ بھلا میں اتنا بڑا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہوں کہ تبت سے چوری کر کے باہر لے جاؤں؟ اور چوری بھی مال کی نہیں بلکہ تین نو عمر لڑکوں کی کروں۔ اور یہ لڑکے بھی وہ ہوں جنھیں اشتراکی بہت اہمیت دیتے ہوں، یہاں تک کہ ان کے گھر پر پہرہ بھی لگا رکھا ہو؟” لہذا عبد الستار نے اس معاملہ کو ملتوی کر دیا اور پھر کبھی اس کا ذکر نہ کیا۔ حالانکہ سوداگر سے ان لڑکوں کی ملاقات ہوتی رہی اور دوسرے امور پر باتیں ہوتی رہیں۔ ان باتوں میں برسبیل تذکرہ سوداگر کے کلکتہ جانے کا ذکر ہوتا اور اس مال کا بھی جو وہ یہاں سے خرید کر اپنے ساتھ لے جانے والا تھا۔ سوداگر سے لڑکوں نے یہاں تک پوچھ لیا کہ آئندہ وہ پھر کب لاسہ واپس آئے گا۔
جب موسم بہار آیا اور سوداگر اپنے سفر پر روانہ ہونے لگا تو اس نے عبد الستار کو خدا حافظ کہا اور بولا: “میں تین دن بعد چلا جاؤں گا۔ اب آئندہ تم سے شاید ملاقات نہ ہو سکے۔” عبد الستار نے بھی اسے بہ امان خدا کہا اور جلدی سے عبد الغانم اور توکتوگن کے پاس پہنچا اور بولا: “وہ وقت آ پہنچا ہے جس کا ہمیں اتنے دن سے انتظار تھا اور جو کچھ ہمیں اب کرنا ہے وہ بھی ہم پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔” اسی رات کو تینوں لڑکے جو ایک ہی کمرے میں سوتے تھے، پہلے ایک دوسرے کے کندھے پر چڑھ کر اوپر کی کھڑکی میں پہنچے اور پھر باہر چپکے سے اُتر گئے۔ انھوں نے پہلے ہی سے سوچ سمجھ رکھا تھا کہ شہر میں سے کس راستے سے باہر نکلیں گے کہ کوئی انھیں روکے ٹوکے نہیں، صبح ہونے سے پہلے پہلے وہ میلوں دور نکل چکے تھے۔ زیادہ فاصلہ انھوں نے دوڑ بھاگ کر طے کیا تھا۔ کیونکہ سوائے تین چار دن کے کھانے اور تھوڑے سے سونے کے جو دلائی لامہ نے یول بارز سے انھیں دلوایا تھا ان کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ سونے کا ذکر عبد الستار نے خود نہیں کیا لیکن اگر ان کے پاس اس وقت سونا تھا بھی تو کلکتہ پہنچنے میں اور پھر وہاں سے کشمیر جانے میں وہ سب خرچ ہو گیا ہوگا۔
جب صبح کی روشنی پھیلی تو وہ اس سڑک سے ہٹ گئے جس پر چل رہے تھے۔ لیکن سڑک کو انھوں نے اب بھی اپنی نظر میں رکھا، کیونکہ عبد الستار نے سوداگر سے باتیں کرنے میں اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اسی سڑک سے اس کا گزر ہوگا۔ لیکن وہ یہ بھی خوب جانتا تھا کہ یہاں ٹھہر کر سوداگر کا انتظار کرنا اور اس کے ساتھ ہو جانا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ اشتراکی اس سوداگر کا پیچھا کر کے تلاشی لے سکتے تھے اور لڑکے اگر ان کے ہاتھ لگ جاتے تو وہ انھیں پہلے لاسہ واپس لاتے اور بعد میں انھیں ارمچی بھیج دیتے۔
لہذا جب پھر رات آئی تو تینوں لڑکے پھر سڑک پر آ کر چلنے لگے۔ مگر پہلے سے کم رفتار کے ساتھ، کیونکہ وہ سوداگر اور اس کے قافلے سے تین دن پہلے روانہ ہوئے تھے۔ تیسری رات کو جب انھیں خوب اطمینان ہو گیا کہ رات اور دن میں کسی وقت بھی ان کا تعاقب نہیں کیا گیا تو وہ اور بھی آہستہ چلتے رہے اور چوتھی رات کو وہ اسی جگہ چھپے رہے جہاں ایک دن پہلے پہنچے تھے۔ دو جاگ کر پہرہ دیتے رہے اور ایک سوتا رہا، بالکل اسی طرح جیسے یول بارز سے بچ کر بھاگنے میں انھوں نے کیا تھا۔ لیکن موسم خوشگوار تھا اور دھوپ میں ہلکی ہلکی گرمی تھی اس لیے وہ خوش ہوتے رہے اور مطمئن ہوتے گئے کہ جو ساعت بھی گزر جاتی ہے، ان کی گرفتاری کے خطرے کو اور دور کر جاتی ہے، بلکہ اب انھیں یقین ہو چلا تھا کہ مہم ہنسی خوشی سر ہو جائے گی۔
چھ دن بعد سوداگر وہاں پہنچا جہاں یہ لڑکے تھے اور جب عبد الستار نے اپنے چھپنے کی جگہ سے باہر نکل کر اس سے اپنی پناہ میں لینے کی درخواست کی تو سوداگر کچھ دیر کے لیے برہم ہو گیا۔ پھر اس نے لڑکے کو پیار کیا اور اس کی پیٹھ تھپک کر کہا: “تم نے اچھا کیا کہ پہلے نہیں ملے۔ اشتراکیوں نے واقعی ہمارے قافلے کی تلاشی اگلے ہی دن لے لی۔ میرے ساتھ جو لوگ ہیں، وہ قابل اعتماد ہیں اس لیے اب تم کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔” تھوڑی دیر میں ان تینوں لڑکوں کو ہندوستانی کپڑے پہنا دیے گئے۔ یوں یہ مہم سچ مچ ہنسی خوشی سر ہو گئی اور علی بیگ کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت ملنے سے چند ہفتے پہلے یہ لڑکے ستمبر ١٩٥١ء میں کلکتہ پہنچ گئے۔
جب عبد الستار اپنے باپ کے مارے جانے اور اپنے دو دفعہ بچ جانے کا قصہ سُنا چکا تو علی بیگ نے اس سے پوچھا: “تم ارمچی کیوں نہیں چلے گئے۔ اشتراکی افسر نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمھیں وہی عہدہ دیا جائے گا جو تمھارے باپ کا تھا اور وہ سارا ساز و سامان بھی جسے وہ چھوڑ کر یول بارز کے ساتھ چلا گیا تھا۔”
عبد الستار نے فوراً جواب دیا: “اگر میرا باپ چاہتا کہ میں ترکستان میں رہوں تو وہ مجھے اپنے ساتھ نہ لے جاتا۔”
ان تین کم عمر بندوقچیوں عبد الستار، عبد الغانم اور توکتوگن کی کہانی قازق رزمیہ کا نہ صرف موزوں نقطۂ عروج ہے بلکہ اس امر کی بھی بیّن شہادت ہے کہ قازق قوم ان تمام صعوبتوں کے باوجود جنھیں اسے برداشت کرنا پڑا اب بھی کسی سے نہیں دبتی اور بڑی شان سے زندہ ہے۔ وہ لوگ جن کی زندگی اور موت سے یہ صفحات بھرے پڑے ہیں، اپنے پیچھے ایک ایسی نسل چھوڑ گئے ہیں جن کی رگوں میں شجاعت کا وہی خون دوڑ رہا ہے جو بطور روایت کا حامل ہے اور اسی تندی کے ساتھ جس سے کہ ان کے پرکھوں کی رگوں میں دوڑتا تھا۔ بقول قازقوں کے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اب ہمارا خون دوسری نسلوں میں منتقل ہوگا یا نہیں اور ہمیں اشتراکیت کے اس عذاب سے کب نجات ملے گی جو ہماری انفرادیت کو غارت کرنے کے درپے ہے، اس انفرادیت کے جس کے پچاس سال تذکرے سے یہ کتاب متعلق ہے۔
قازقوں کی باقی کہانی اب کچھ زیادہ باقی نہیں رہی۔ ہم اس کا بیشتر حصہ سُن چکے ہیں، تھوڑا سا بیان اور رہ گیا ہے۔ کشمیر میں پندرہ اجیرن مہینے قازقوں نے بسر کیے۔ آزاد دنیا نے ان کے یہاں پہنچنے کی اطلاع پائی اور پھر ان کے وجود کو فراموش کر بیٹھی۔ پندرہ مہینے کے اس عرصے کے بعد ترکی حکومت نے کشادہ دلی سے ان قازقوں کو مسکنوں کی پیش کش کی اور اقوام متحدہ نے انھیں خشکی اور سمندری راستے سے استنبول پہنچانے کا انتظام کیا۔ یہاں کی حکومت نے غور سے ان کا مشاہدہ کیا کہ ان میں اشتراکیت کا زہریلا مادہ تو سرایت نہیں کیے ہوئے ہے۔ جب ادھر سے انھوں نے اپنا اطمینان کر لیا تو انھیں ترکی زبان سکھائی گئی، جسے انھوں نے چند مہینوں میں سیکھ لیا۔ حالانکہ ترکی زبان لاطینی حروف میں لکھی جاتی ہے اور قازقوں کو عربی رسم الخط کی عادت ہے۔ بالآخر ١٩٥٤ء میں انھیں مختلف نو آبادیوں میں پہنچا دیا گیا جہاں ترکی حکومت نے انھیں رہنے کے لیے مفت گھر دیے۔ زمینیں مفت دیں، جن پر ہل چلائے جا چکے تھے اور بیج ڈالا جا چکا تھا۔ ان کے ٹیکس بھی اس شرط پر معاف کر دیے کہ وہ دس سال یہاں رہیں اور کھیتی باڑی کریں۔
ان قازقوں نے جو دیویلی بھیجے گئے، جو شہر کائی سری کے قریب ہے، اس پیش کش کو قبول کر لیا۔ ان میں حسین تجی، کارا ملا بھاٹ، کم عمر عبد الستار بھی شامل ہیں جنھیں ہم جانتے ہیں۔ وہ قازق جو علی بیگ اور حمزہ کے ساتھ سلیحلی میں آباد ہوئے، انھوں نے حکومت سے اجازت چاہی کہ کاشت کاری کا کام کرنے کے بجائے انھیں زمین کھودنے کے مزدوروں میں شامل کر لیا جائے تاکہ اپنی مزدوری میں سے جو کچھ پس انداز کر سکیں اس سے بھیڑیں اور مویشی خرید لیں۔ ترکی حکومت نے دانشمندی سے ان کی تجویز کو منظور کر لیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ جانوروں کی پرورش کرنے میں قازقوں کی قوم دنیا بھر کی قوموں سے سبقت لے گئی ہے۔ سلیحلی کے قریب ایک نئے پن بجلی کے منصوبے کے سلسلے میں ایک بند بنایا جانے والا ہے۔ اس کا کام اپریل ١٩٥٥ء میں شروع ہونے والا تھا۔ اس کے بنانے کے لیے بہت سے مزدوروں کی ضرورت ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم سے کم اگلے پانچ سال تک سلیحلی کے قازق اچھی مزدوریاں کما سکیں گے، پھر وہ اس لائق ہو جائیں گے کہ دوبارہ گلہ بانی کر سکیں۔
نومبر ١٩٥٤ء میں جب ہم قازقوں کے ترکی میں پہنچنے کے تین مہینے کے بعد ان کے پاس گئے تو انھوں نے اس قلیل عرصے ہی میں چند بھیڑیں خرید لی تھیں، حالانکہ بے روزگاروں کو ترکی حکومت جو گزارہ دیتی ہے وہ ہمارے سکے کے مطابق بارہ آنے یومیہ ہوتا ہے۔ ہم نے ان سے یہ دریافت نہیں کیا کہ یہ بھیڑیں اُن کے پاس کیسے آئیں، کیونکہ قازق اسے پسند نہیں کرتے کہ ان کے معاملات کی پرچول کی جائے۔ مگر ان کی مہمان نوازی کی یہ کیفیت ہے کہ ضرورت پڑنے پر اپنے مہمان کی خاطر تواضع کے لیے وہ اپنے ریوڑ کی آخری بھیڑ بھی بہ خوشی ذبح کر دیتے ہیں۔ ہمارے دو دوست جو ہمارے ساتھ ترکی گئے تھے اور جو قازق زبان خوب بولتے ہیں، سلیحلی میں دس دن علی بیگ کے ہاں مہمان رہے۔ جب انھوں نے اس مہمان نوازی کا بدلہ کچھ غذائی تحفوں سے کرنا چاہا تو علی بیگ بہت ناراض ہوا۔
چونکہ مہمان نوازی کے قوانین توڑنے نہیں چاہئیں اس لیے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے پاس بھیڑیں کہاں سے آئیں۔ غالباً کسی مہربان اور دانش مند سلیحلی کے ترک باشندے نے مناس کے اسمٰعیل حجی کی طرح اس بات کو جان لیا کہ قازق ہماری بھیڑوں کو ہم سے بھی اچھی طرح رکھ سکیں گے اور چند بھیڑیں یہ سمجھ کر ان کے حوالہ کر دیں کہ اس میں دونوں کا بھلا ہوگا۔ نومبر ١٩٥٤ء کے آخر میں کوئی سو بھیڑیں اور دو چار مینڈھے ان کے پاس تھے۔ اس کے بعد بچوں کا ایک جھول نکل بھی آیا ہوگا اور ان کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو چکی ہوگی۔ ریوڑ کی رکھوالی ایک قازق چرواہا اور اس کے بیوی بچے کرتے ہیں۔ اس چرواہے کا انتخاب سب مل کر ایک خاص اجتماع میں کرتے ہیں۔ بھیڑیں ایک سال کے لیے اس کے حوالے کر دی جاتی ہیں، جس کے اختتام پر گنتی کی جاتی ہے اور اُسے دُگنی بھیڑیں لوٹانی پڑتی ہیں۔ جتنی زیادہ ہوں وہ چرواہے کی اور جتنا اون اور پنیر اس عرصے میں تیار ہو وہ بھی اسی کا ہوتا ہے۔ کئی بھیڑوں کے ہاں دو دو اور تین تین بچے ہوتے ہیں۔ اس حساب سے ستمبر ١٩٥٥ء میں گویا ایک سال بعد چرواہے کے پاس کم سے کم اپنی پچاس بھیڑیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ سلیحلی کے قازقوں کے پاس کتنی بھیڑیں ہو جائیں گی۔
علی بیگ اور حمزہ جیسے لوگوں کا مسئلہ جو صوبۂ سنکیانگ میں افسرانہ حیثیت رکھتے تھے، چرواہوں اور زمین کھودنے والوں کے مقابلے میں بہت دشوار ہے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اسے کیسے حل کر سکیں گے۔ اور یہ آپ جانتے ہی ہیں کہ نجی معاملات کی پرچول کرنا قازقوں کو ناپسند ہے۔ تاہم اس کا ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ضرور کسی نہ کسی طرح اس مسئلے کو بھی حل کر لیں گے۔ اس عرصے میں علی بیگ نے جس کے پانچ بچے تبت کے سفر میں کُہر کی بیماری سے مر گئے تھے، چالیس اور یتیم بچوں کو اپنا متبنی بنا لیا ہے کیونکہ ان بچوں کے والدین کا ذمہ دار اس ترک وطن کے سیلاب میں علی بیگ ہی تھا۔ ان بچوں میں سے بعض اب اتنے بڑے ہو گئے ہیں کہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن علی بیگ اپنی نظر میں اور خدا کی نظر میں بھی خود کو ان سب چالیس یتیم بچوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ حالانکہ ترکی قانون اس معاملے میں بالکل خاموش ہے۔ اگر کسی کو بھوکا رہنا پڑے تو سب سے پہلے علی بیگ خود بھوکا رہے گا۔ اس کے بعد اس کے بچے اور سب سے آخر میں یتیم بچے اور ان میں سے بھی اگر ممکن ہو تو سب نہیں۔
لیکن ہمارا خیال ہے علی بیگ، اس کے بال بچے اور متبنی بچے، ان میں سے کوئی بھی سچ مچ بھوکا نہ رہے گا۔ لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ انھیں کچھ عرصے کے لیے روکھی سوکھی ہی پر گزارہ کرنا ہوگا۔ اس خود عائد کردہ فرض سے علی بیگ کیسے عہدہ برآ ہوگا، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔
لیکن علی بیگ، حمزہ اور تمام قازق مہاجروں کا کچھ فرض یقیناً آزاد دنیا پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی سے آزاد دنیا نہ صرف انصاف کرے گی بلکہ ایک خدمت بھی انجام دے گی۔ ایک مثالی زندگی کے لیے قازقوں نے آنسو، پسینہ اور خون بہا کر ایک بہت بڑی جنگ لڑی ہے اور وہ سختیاں جھیلی ہیں جو دوسری عالمگیر جنگ میں بھی ہمیں پیش نہیں آئیں۔ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اشتراکیت کی قوت اور کمزوری کو براعظم ایشیا کے وسیع و بے قرار قلب میں دیکھا ہے جہاں اشتراکی نوآبادیات کے بھیدوں کو آزاد تصورات کی ہوا بھی لگنے نہیں دی جاتی۔
قازقوں کی اپنی ایک ثقافت ہے جس کی بنیاد مادی دولت پر نہیں ہے، اگرچہ قازق اکثر دولت مند ہوتے ہیں۔ ان کے طرز زندگی نے انھیں معمول سے زیادہ قوت برداشت اور ہمت دی ہے۔ آزاد دنیا سے انھیں بہت محبت ہے اور وہ اس کا احترام کرتے ہیں اور آزاد دنیا کے متعلق بہت کچھ جانتے ہیں۔ حالانکہ آزاد دنیا قازقوں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتی۔
١٩٤٣ء اور ١٩٤٨ء کے درمیانی عرصے کے سوا، قازق بلکہ سارے مشرقی ترکستان والے ١٩٣٠ء کے بعد سے تقریباً کٹے رہے۔ اس کے کچھ جغرافیائی اسباب ہیں جن کا ذکر ان صفحات میں کیا گیا ہے۔ لیکن صوبہ دار شنگ کے زمانے سے پہلے جب اسکولوں میں انگریزی پڑھائی جاتی تھی، قازقوں کو برطانیہ عظمیٰ اور امریکہ سے ایک ایسی وابستگی ہو گئی تھی جس میں اعتقاد بھی شامل تھا۔
ہمارے پیش نظر اس وقت ایک خط ہے جسے علی بیگ کے بیٹے حسن نے اپنے باپ کی طرف سےلکھا ہے، کیونکہ وہ خود انگریزی سے ناواقف ہے۔ اس میں جس ضرب المثل کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ اس زمانے کی ہے جب سوویت مداخلت نے ان کی زندگی کو درہم برہم نہیں کیا تھا۔ پچاس سال پہلے خود برطانیہ کے لوگ بھی اسے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔
خط میں لکھا ہے:
“ہمارے ترکستان میں ایک مثل مشہور ہے کہ سورج برطانیہ سے طلوع ہوتا ہے اور برطانیہ ہی میں غروب ہوتا ہے۔ ہماری قوم جانتی ہے کہ برطانیہ ایک طاقتور ملک ہے۔ ثقافتی، معاشی اور سیاسی لحاظ سے۔ ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ ہمارے مصائب برطانیہ کے لوگوں کو بتا دیں۔”
ایک خانہ بدوش سے ایسے خط کے لکھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لیکن علی بیگ نے حسن سے یہی لکھوایا ہے، اور ہاں اس کے سمجھنے میں غلطی نہ ہونے پائے، علی بیگ نے خیرات نہیں مانگی ہے بلکہ صرف ہمدردی اور معاملات کو سمجھنے کی درخواست کی ہے۔
جب ہمارے قازق زبان بولنے والے دوست نے دس دن کے قیام کے بعد سلیحلی سے رخصت ہونا چاہا تو علی بیگ نے اپنی ایک بیوی سے کہا:
“جاؤ۔ تم رخصتی دعوت کی تیاری کرو۔” اور باقی دونوں بیویوں سے کہا: “تم رخصتی نظم لکھو۔ اس نے نظم کی فرمائش کی تھی، اسے نظم ملنی چاہیے۔”
لہذا خدیجہ اور مولیا نظم لکھنے چلی گئیں اور کوئی دو گھنٹے میں انھوں نے اپنی نظم مکمل کر لی۔ حسب دستور اس میں ناقابل فہم اشارے اور حوالے زیادہ ہیں اور طویل بھی بہت ہے۔ سب ملا کر کوئی تیرہ بند ہیں اور ان میں قازق تاریخ کے حوالوں کی بھرمار ہے۔ لیکن ہم نے اس کی صدا بندی کر لی ہے اور ذیل میں اس کا مفہوم درج کرتے ہیں:
“تمھارا آزاد ملک تا دیر زندہ رہے اور تمھاری قوت پائندہ رہے مسٹر چرچل!
ہمیں اشتراکیت کی لعنت سے چھٹکارا دلاؤ
ہماری مدد کرنے کا فیصلہ ابھی کرو
اے شانۂ زریں کے سورما!
اے انگلستان! تیرا نام عظیم ہے اور تیری عظمت عظیم تر،
تیری قوت کی تاریخ ہزار سال سے زیادہ ہے۔
ہمارے سینوں میں امید موجزن ہے کہ ہمارا ملک آزاد کرایا جائے گا۔
اے شانۂ زریں کے سورما!”
قازقوں کا کہنا ہے کہ “شانۂ زریں کے سورما” کا عہدہ چنگیز خان اعظم نے قائم کیا تھا اور عجب اتفاق ہے کہ بالکل اسی زمانہ میں ایڈورڈ سویم نے ١٣٤٨ء میں “ساق بندِ زریں کے سورما” کا عہدہ برطانیہ میں قائم کیا تھا۔ مدت ہوئی کہ قازقوں کا یہ عہدہ ختم ہو چکا۔ اب تو محض اعلیٰ ترین اعزاز کے طور پر اسے برتا جاتا ہے۔
ایسی نظم اور ایسے لوگ آزاد دنیا کو للکارتے ہیں اور غیرت دلاتے ہیں۔ جو کچھ قازقوں پر بیت چکی ہے، اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا وطن دوبارہ آزاد ہو کر رہے گا۔ وہ ایسے ایشیائی لوگ ہیں جن کے سر چینی اور اشتراکی قوتوں کے آگے اب تک نہیں جھکے ہیں۔ ایشیا میں اشتراکی نظام کی قوت اور کمزوری سے یہ لوگ خوب واقف ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اشتراکیت نے اپنے پنجے کس طرح گڑوئے ہیں اور ان پنجوں کو کیسے ڈھیلا کیا جا سکتا ہے۔ قازقوں کے کارنامے اس امر کی صریح شہادت ہیں کہ ایشیا کا دل جس میں اشتراکیت قوت کا مرکز ہے ایسے مردوں اور عورتوں سے بھرا پڑا ہے جو ہر اس چیز سے نفرت کرتے ہیں جس کی نمائندگی اشتراکیت کرتی ہے۔