ہاتھوں کو اِک ملال میں ملتے ہوئے مرے
ہم لوگ اپنی آگ میں جلتے ہوئے مرے
دنیائے پِیر زال میں شائق کو ہے دوام
ہم راہِ ترکِ شوق پہ چلتے ہوئے مرے
اُن کا ٹھکانہ باغِ ارم ہو گا یا نہیں؟
جو پیکرِ حیات میں ڈھلتے ہوئے مرے
وہ لوگ میرے بارے میں کچھ جانتے نہ تھے
جو میرے بارے زہر اُگلتے ہوئے مرے
کچھ لفظ میری خامشی کے دل میں دفن ہیں
کچھ واہمے خیال میں پلتے ہوئے مرے
نیلی زُباں گواہ ہے زہریلے ہو گئے
ہم ایک کڑوی بات نگلتے ہوئے مرے
ہم لوگ چشمِ بام میں کندہ نہیں ہوئے
بے اختیار پہلو بدلتے ہوئے مرے
ویسے تو اپنے وقت پہ تھی تلخ موت بھی
لیکن جو تیرے دل سے نکلتے ہوئے مرے!
کیسی ستم ظریفی ہے بندہ نواز! ہم
اس زیست کی ڈگر پہ سنبھلتے ہوئے مرے