غیر فوجی مینیجنگ ڈائریکٹر کے جانے اور بریگیڈیئر صاحب کے آنے سے یوں تو فیکٹری کی پیداوار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہوا۔۔ لیکن نظم و ضبط مثالی ہو گیا۔ صفائی کا عملہ فجر کے وقت سے ہی پیلی پیلی وردیوں میں ملبوس سڑکیں چمکانے لگتا۔۔ مالی منہ اندھیرے ہی کیاریوں میں کام کرتے نظر آتے۔۔ مزدور طبقہ بھی وقت پر آتا وقت پر جاتا۔۔۔ ٹھیک آٹھ بجے فیکٹری کا گیٹ بند ہو جاتا تھا۔ اب نہ کوئی آسکتا تھا نہ جا سکتا تھا۔ یعنی کہ بریگیڈیئر صاحب کی اجازت کے بنا چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی۔
بریگیڈیئر صاحب کے دفتر کے باہر ہر وقت اردلی چوکنا بیٹھا رہتا، گھنٹی کی گونج ختم ہونے سے پہلے ہی اردلی میز کے سامنے جن کی طرح حاضر ہو جاتا۔ اور پیچھے پیچھے پی اے صاحب بھی کاپی پنسل سنبھالے آ کھڑے ہوتے۔ جس کو بڑے صاحب کے دفتر سے بلاوا آجاتا اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے۔ بڑے بڑوں کو منہ ہی منہ میں کوئی وظیفہ پڑھتے دفتر میں جاتے دیکھا ہے۔ اور اکثر بھاگ کر نکلتے بھی دیکھا ہے کیونکہ صاحب اکثر غصے میں نوٹ پیڈ پیالی پین جیسی چیزیں معتوب الیہ کو مار بھی دیتے تھے۔ جب دھاڑتے تھے تو کھڑکیوں کے شیشے اور بہتوں کے ہاتھ پاؤں بھی کانپتے تھے۔
صاحب کے آتے ہی دفتر والوں نے صاحب کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ صاحب کو تقریر کیلئے بلایا گیا تو انہوں نے نہایت صاف الفاظ میں سب پر واضح کر دیا تھا کہ ان سے کسی قسم کی رعایت کی امید نہ رکھی جاۓ۔ اور اپنے وعدے کے عین مطابق انہوں نے جس کسی سے بھی معمولی سی بھی غلطی ہوتی سخت سزا دینا شروع کر دی۔ جو ایک آدھ بندہ نہ سدھرا اس کی ٹرانسفر کراچی کر دی گئی۔ غیر حاضری لگانا۔۔ دفتر کے اوقات کے بعد بھی روک لینا۔ اضافی کام تھما دینا ۔۔ تنخواہ کاٹ لینا۔۔ اور چھٹی بند کر دینا عمومی سزائیں تھیں۔۔ لیکن سب سے گھناؤنی سزا۔۔ سارے دفتر کو جمع کر کے ان سب کے سامنے ذلیل و خوار کرنا تھی۔ جس سے بڑے بڑے سورماؤں کا پِتہ پانی ہوتا تھا۔ بریگیڈیئر صاحب تذلیل کے نِت نئے طریقے ڈھونڈتے رہتے تھے۔ کبھی تو سب کو جمع کر کے ملزم یا مجرم کو ان کے سامنے کھڑا ہو کر اپنی صفائی پیش کرنے کا یا اعترافًِ جرم کرنے کا موقع دیتے۔ یا سامنے بٹھا کر خود بھی کھڑے ہو جاتے اور فرماتے آج سے آپ میری سیٹ سنبھالیں میں آپ کی جگہ کام کروں گا۔
اور تو سب ٹھیک تھا ۔۔ لیکن فیکٹری کی پیداوار پہلے سے کچھ کم ہی ہو گئی تھی۔ پروڈکشن مینیجر ہر وقت زیرًِ عتاب رہتے تھے۔۔ مگر پیداوار بڑھنے کا نام ہی نہ لیتی تھی ۔۔ آخر فیکٹری خسارے میں جانے لگی۔ اور ایک دن کسی جنرل صاحب کے آنے کی خبر ملی کہ اگلے ماہ جنرل صاحب تشریف لائیں گے۔۔
بس پھر کیا تھا مزدوروں کی سختی آ گئی۔۔ نظم و ضبط میں فیکٹری گوانتانامو بے جیل سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئی۔۔ زبردستی اضافی کام کروایا جانے لگا۔۔دیواروں فرشوں کی مرمت کی گئی۔۔ ہر جگہ نیا رنگ و روغن کیا گیا۔۔ دفتروں کا فرنیچر پالش کروایا گیا، وردیاں نئی دی گئیں۔۔ مشینوں کو صاف ستھرا کیا گیا۔ گملے اور تزئین آرائش کی ڈھیروں چیزیں لائی گئیں ۔۔ راستے آراستہ کئے گئے راستے کی نشاندہی شروع میں چونے سے اور آخر میں سرخ قالین سے کی گئی تھی ۔۔گویا ساری فیکٹری بالکل نئی نویلی دلہن کی طرح سجائی گئی تھی۔
جنرل صاحب تشریف لائے۔
پُر تکلف کھانا کھایا۔۔ گھوم پھر کر فیکٹری کو دیکھا۔۔ نظم و ضبط کی تعریف کی ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد داشت کی کتاب میں تعریفی کلمات بھی لکھے اور چلے گئے۔
حالات بدستور ہی رہے۔
حکومت نے جب مسلسل خسارے کی وجوہات پوچھیں تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ عملہ ضرورت سے زیادہ ہے۔ یوں 30 فی صد عملہ وقت سے پہلے ہی جبری سبکدوش کر دیا گیا۔ باقی کے سر پر بھی معاہدے کی تلوار لٹکا دی گئی۔
اب کی بار فیکٹری کی پیداوار میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یعنی کہ پیداوار پہلے سے بھی کم ہو گئی۔
اب وزیر اعظم صاحب نے فیکٹری کا دورہ کیا ۔۔ پہلے سے بھی زیادہ تیاری کی گئی وزیر اعظم صاحب نے بھی نظم و ضبط کی تعریف کی ۔۔ اور بریگیڈیئر صاحب کی تجویز پر فیکٹری کی نجکاری کا اعلان کر دیا۔