یہ جو لاچار سی حالت ہے میاں
کربِ ہجرت کی بدولت ہے میاں
اور کچھ دیر میں بجھتا ہے چراغ
اور کچھ دیر غنیمت ہے میاں
کون آباد گہِ دل سے اُٹھے
سب کو آزارِ سکونت ہے میاں
بختِ خُفتہ ہؤا بیدار مِرا
اک ولی کی یہ کرامت ہے میاں
بند گلیوں میں بھٹکتا ہے نگر
ایسے زندان پہ حیرت ہے میاں
میں ہوں بے مایہ! کہاں تاب مری
تو بڑا ہے، تری طاقت ہے میاں