چاند ہر رات محبت سے اُسے دیکھتا ہے
شہر میں جو بھی سہولت سے تُجھے دیکھتا ہے
ایک گُل پوش سے وصلت کی تمنا ہے اِسے
دل تو اوقات سے بھی خواب بڑے دیکھتا ہے
کس شش و پنج میں ہے مبتلا وہ باغ نشیں؟
بات کرتا نہیں مجھ سے جو، ولے دیکھتا ہے
کون بنتا ہے مُعاوَن یاں بُرے وقت میں دوست؟
کون سورج کو بھلا شام ڈھلے دیکھتا ہے؟
تو جِسے چھُو لے وہ بازار سے اُٹھ جاتا ہے اور
دام بڑھ جاتے ہیں اُس کے تو جِسے دیکھتا ہے
خود سے غافل اے حسیں شخص! تُجھے علم کہاں
کوئی کِس جذب سے ہونٹوں کو ترے دیکھتا ہے
تم تَعَلّی نہ اگر سمجھو تو اک بات کہوں؟
جو مجھے دیکھ لے، مُڑ مُڑ کے مُجھے دیکھتا ہے
وزن میں اُس پہ اُترتی ہیں مبارک نیندیں
ایک شاعر ہے جو بس خواب مِرے دیکھتا ہے
آئنہ، آئنہ بردار کا شیدائی ہے
کیا بتاؤں میں حیاؔ کون کِسے دیکھتا ہے!