ہم جب بھی شش جہات کا نقشہ بنائیں گے
یہ طے رہا کہ آپ سے اچھا بنائیں گے
جدوجہد جو شوق کی دے دی تو بادشاہ
یہ کاٹ کر پہاڑ کو رستہ بنائیں گے
ہم رنج خور لوگ تو ایسے حریص ہیں
میت سے ماں کی نظم کا نطفہ بنائیں گے
متروک ہیں سخن کی زمیں میں یہ کچھ سوال
کیسا کہاں بنائیں گے کتنا بنائیں گے
وہ پوچھتے ہیں کیا کریں گے میرے رنج کا
ہم ہنس رہے ہیں شعر کا ذریعہ بنائیں گے
جو میری شہ کو مات بنانے کی خو میں ہیں
ان کو اسی بساط کا مہرہ بنائیں گے
میں خاکِ نم ہوں چاکِ زماں پر دھری ہوئی
اب سوچ کے بتائیں مجھے کیا بنائیں گے
تم ساعتِ نزول میں آجانا میرے گھر
ہم دونوں مل کے ریت سے دریا بنائیں گے
تم انتشارِ خاص کی جانب بڑھے اگر
ہم انتقامِ عام کی دنیا بنائیں گے