دیباچہ
اُردو زبان کے سنوارنے میں بہت سے اُمرا غربا آمادہ نظر آتے ہیں، ہندوستان میں بہت سی انجمنیں قائم ہو گئی ہیں؛ لیکن کام کرنے والوں کی ناواقفی اور لاعلمی اصول زبان سے ان کی ادبی خدمت بجائے نفع، نقصان پہنچا رہی ہے۔ لطف یہ ہے کہ ایسے لوگ اساتذہ ثقات دہلی و لکھنؤ سے زبان کی خدمت کے بارے میں نہ کوئی مدد لیتے ہیں نہ مشورہ کرتے ہیں، نہ زبان کو باقاعدہ حاصل کرتے ہیں۔ بعض اس زعم ناقص میں کہ ان کو اس کام کے انجام کے لیے ریاستوں اور پبلک سے خاطر خواہ دولت مل رہی ہے خوب دل کھول کر زبان کی گردن پرچُھری پھیر رہے ہیں۔ آج کل اُمرا میں جوہر شناسی مفقود ہے اس لیے انتخا ب میں غلطی ہوجانا ممکن ہے۔ ابھی ہم گورنمنٹ کے صیغۂ تعلیم کو اُردو کی غلط خدمت کا الزام دے رہے تھے کہ سر پر اور ایک تازہ مصیبت آ پڑی یعنی ہمارے ملکی بھائیوں نے خود اپنا قدم جادۂ زبان سے الگ رکھنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ ان لوگوں کے ہاتھوں زبان کی شیرینی، فصاحت اور لطافت کا خاتمہ ہونے لگا۔ یہ ہم نہیں کہتے ہیں کہ خدانخواستہ ان کو زبان سے دشمنی ہے یا ایسا فعل یہ جان کر کرتے ہیں۔
غریب اہلِ پنجاب اُردو زبان کے زبردست حامی اور معین ہیں۔ بہت سی کتابیں دوسری زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیں، بہت سے اخبار جاری کیے مگر ان لوگوں نے نہ زبان کو باقاعدہ حاصل کیا اور نہ کبھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کی کوشش کی اور نہ ان کے پاس کوئی ایسی کتاب تھی جس سے اپنی غلطیوں کو محسوس کر سکتے۔ تیسری آفت یہ پیش آئی کہ بعض ناواقفان اصول زبان نے اُردو ہندی کے جھگڑے کو اُبھار کر ہندوؤں کو اُردو زبان سے بددل کر دیا۔
غرض تمام اُردو کی خدمت کرنے والے غلط راستے پر چلنے لگے اور بعض نے امرا اور رؤساءِ ہند کو اپنا پشت پناہ پا کر خصوصیات زبان کو ایک غیر ضروری چیز سمجھ لیا۔ جب ایسی ایسی کمزوریوں کے سبب سے ان کی ادبی خدمت نامقبول ہوئی تو ہٹ اور ضد میں آکر اور ناکامیابی سے کھسیانے ہوکر لکھنؤ کا بائکاٹ کرنے لگےاور ان کے ساتھ ہندوستان کی نااہل زبان جماعت شریک ہو کر کام کرنے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو کی ابتدا دہلی میں ہوئی، مگر چند روز کے بعد دہلی مٹی اور ایسی مٹی کہ دہلی کے تمام سرمایۂ ناز شاعر اور قلعہ معلیٰ کے شہزادے اور اعیان دولت دہلی کوخیر باد کہہ کر نواب آصف الدولہ بہادر کے سایۂ عاطفت میں آ بسے اور ایک مدت میں لکھنؤ کو دہلی بنا دیا۔ ممکن تھا کہ شاہانِ اودھ کے بعد لکھنؤ بھی مٹ جاتا اور ا س سے بھی زبان اُردو کی خدمت چھین لی جاتی مگر شاہان اودھ نے اپنے بعد بھی لکھنؤ کی سرسبزی کا کامل بندوبست کردیا تھا یعنی اپنے خاندان اور اپنے متوسلین اور اعیان دولت اور شہزادگان دہلی کی پرورش کے قابل بیش بہا وثیقہ مقرر کر دیاتھا جو ان کو نسلاً بعد نسل ملا کرے گا اور مشہور ہے کہ نواب بہو بیگم صاحبہ نے تو اپنے دھوبی اور بہشتی کی بھی تنخواہ نسلاً بعد نسل مقرر کر دی جو اب تک ملتی ہے۔ تخمیناً پانچ لاکھ روپیہ ماہوار وثیقہ لکھنؤ میں اب تک مقرر ہے۔ اس سبب سے لکھنؤ کے شرفا اور ثقات طبقے کو لکھنؤ سے باہر نکلنے کی اب تک ضرورت پیش نہیں آئی۔ اسی وجہ سے لکھنؤ اپنے ادبی وقار کو اب تک قائم رکھے ہوئے ہے اور یہاں کے اہل وثائق اپنے شہر سے باہر نکلنا گناہ سمجھتے ہیں۔ جو بنیاد ہندوستانی زبان کی ہندوستان کے مقدس بادشاہوں نے رکھی تھی اہل لکھنؤ اس کی پوری پابندی کرتے ہیں۔ مخالفین اس کی پائیداری اور دلکشی دیکھ کر سرِ ادب خم کرتے ہیں اور گو زبان سے نہو مگر صدق دل سے اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ بے شک لکھنؤ زبان کا دار السلطنت ہے۔
اُردو ہندی کا جھگڑا تو فضول ہے، اس لیے اول تو فی نفسہ ایک ہی زبان کےلوگوں نے دو نام رکھ لیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہندی کی ترقی اردو کی ترقی کو مانع نہیں ہے اور اصل میں اردو ہندی کی بنیاد پر قائم ہے۔
لوگوں میں سخت غلطی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جب ہم ہندوستان کے کسی گوشے میں پیدا ہوئے ہیں تو اُردو ہماری مادری زبان ہے (حالانکہ ایسا نہیں ہے ہندوستان میں سیکڑوں زبانیں بولی جاتی تھیں اور ان سب کا عطر اردو ہے)، جس طرح ہم بولیں وہی صحیح اور فصیح ہے اور جس محاورے کوہمارا جی چاہے بنالیں؛ اس خیال پر عمل کرنے سے اُردو علمی زبان نہیں بن سکتی اور وہ اپنے اصلی مرکز یعنی دہلی ولکھنؤ کی تقلید سے الگ ہو کر مٹ جائے گی اور اندیشہ ہے کہ ہندوستان کے ہر شہر اور قصبے کی زبان الگ الگ ہوجائے گی۔ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے میں قاصر رہے گا اور تمام ہندوستان جاہلیت کی زندگی بسر کرےگا کیونکہ زبان بغیر ایک مرکز کے ہرگز ترقی نہیں کر سکتی۔ اگر ہر شہر کا مجتہد اپنا اپنا اجتہاد قائم کرے تو یہ اختلاف زبان کے برباد کرنے کو کافی ہے۔ اُردو کے روشن چہرے پر ایسا بدنما داغ آتے دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں ملک کا حاکم نہ تھا کہ تحفظ زبان کا کوئی سخت قانون نافذ کرتا، نہ اس کے لیے جہاد واجب تھاکہ تلوار کھینچ کر اُٹھ کھڑا ہوتا، اور افہام و تفہیم کو وہ لوگ کیوں قبول کرتے جن کو اس مخالفت کی برکت سے فوائد حاصل ہو رہے تھے۔
خدا کے فضل سے لکھنؤ اس وقت زبان کا دار السلطنت ہے اور یہاں کے مستند ثقات اپنے وسیع معلومات سے اُردو دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ بیرونی جو یہاں آتے ہیں انھیں کے فیض صحبت سے کچھ پا جاتے ہیں۔ اگر سب مل کر چاہیں تو اس غلط فہمی کا انسداد اچھی طرح ہوسکتا ہے۔ میں بیچارہ کس شمار و قطار میں ہوں جو مخالفین زبان سے مقابلہ کر سکوں مگر دل میں اُردو زبان کی محبت ہے اس لیے میرے پاس جو ٹوٹے پھوٹے چند زنگ آلود اسلحہ تھے اُنھیں سے مسلح ہو کر حفاظت زبان کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔
وہ اسلحہ چند جواہرریزے ہیں جو مجھے ملک الشعرا حضرت میر تقی میرؔ مرحوم دہلوی سے سینہ بسینہ ملے ہیں جن کی روئداد یہ ہے کہ میر دہلوی جب دہلی سے لکھنؤ تشریف لائے تو ان کے ساتھ ان کی نازک مزاجی بھی آئی۔ اس مزاج کا ناز بردارکون ہو سکتا تھا مگر ایک وصف ایسا تھا جس سے نواب آصف الدولہ بہادر جیسا جلیل القدر فیاض بھی تنک مزاجیاں اُٹھاتا تھا وہ ان کی زباں دانی تھی۔ جو لوگ ان سے نفرت رکھتے تھےوہ بھی ان کی زبان محاورے فصاحت کے غلام تھے۔ نہ ان کے پاس دنیا کی دولت تھی نہ جاہ و حشم تھا مگر صرف وہ زبان کے بادشاہ تھے اس لیے دنیا ان کی عزت کرتی تھی۔ شاگردوں کایہ عالم تھا کہ میر پر پروانہ تھےاس کا سبب یہ تھا کہ زبان کے اصول قواعد و ضوابط جیسے میر مرحوم جانتے تھے کوئی نہیں جانتا تھا اور یہ علم ان کو اپنے ماموں سراج الدین خاں آرزو سے ملا تھا۔ میر صاحب نہایت ضعیف ہوئے تو ایک روز اپنے فرزند میر محمد عسکری عرف میر کلو عرش سے فرمانے لگےبیٹا ہمارے پاس مال و متاع دنیا سے تو کوئی چیز نہیں ہے جو آئندہ تمھارے کام آئے لیکن ہمارا سرمایۂ ناز قانون زبان ہےجس پر ہماری زندگی اور عزت کا دار ومدار رہا جس نے ہم کو خاک مذلت سے آسمان شہرت پر پہنچا دیا۔ اس دولت کے آگے ہم سلطنت عالم کو ہیچ سمجھتے رہے۔ تم کو بھی اپنے ترکے میں یہی دولت دیتے ہیں، تم اس کو اپنے سینے میں محفوظ رکھو اور اپنی اولاد یا اپنےکسی شاگرد رشید کو تعلیم کر دینا۔ خدا جانےان قواعدمیں کیا استغنا بھرا ہوا تھاکہ جس کو حاصل ہوتے تھے نازک دماغ اور مُدمغ بنا دیتے تھے۔ چنانچہ جناب عرش کی ملاقات کوجب مولوی محمد حسین آزاد مرحوم لکھنؤ میں تشریف لائے تو انھوں نے اپنی نازک مزاجی سے ہمکلام ہونا بھی پسند نہ کیا اور وہ غریب عرش سے ناخوش گئے اور ان کی بدمزاجی کی شکایت لکھی۔
عرش کے شاگردوں میں سب سے اچھا کہنے والے اُستاد پرست جناب شیخ محمد جان شاد مرحوم تھے جو عمر بھر اُستاد کی خدمت غلاموں کی طرح کرتے رہے اور لیلیٰ سخن کے ایسے فریفتہ ہوئے کہ اپنی شادی بھی نہ کی۔ جناب عرش کی کوئی اولاد نہ تھی، انھوں نے اپنے تمام قواعد جو میر مرحوم سے ان کو حاصل ہوئے تھے جناب شاد کو سکھائے اور چونکہ جناب شاد مرحوم زبان میر کی پیروی پوری پوری کرتے تھے اس لیے پیرو میر ان کو خطاب عطا فرمایا۔جناب پیرو میر میرے استاد تھے اور سب کے آخر میں جس وقت ان کا سن مبارک تخمیناً سو برس کا تھا، مجھ کو ان کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا۔ شیخ صاحب کے پرانے شاگرد جو دو چار تھے ان کا مذاق شاعری شباب کے ساتھ رخصت ہوچکا تھا، دو ایک شاگردوں کو خفا ہو کر اپنی شاگردی سے خارج کردیا تھا۔ کچھ مدت کے بعد میری خدمت اور روزانہ حاضری ملحوظ خاطر ہوئی تو مہربان ہوکر فرمانے لگے: “معلوم ہوتا ہے خدا کو تمھارے ذریعہ سے خاندان میر کا نام چلانا منظور ہے، اچھا آج سے جو قواعد ہم بیان کریں ان کو اپنے ذہن میں رکھو۔ یہ ملک الشعرا میر تقی مرحوم کی امانت ہے، اگر ان قواعد کو پیش نظر رکھ کے نظم و نثر پر قلم اُٹھاؤگے تو کوئی تمھارے کلام پر حرف نہ رکھے گا۔ یہی قاعدے تھے جو میر کو محبوب خلائق بنائے ہوئے تھے”۔ اُس دن سے میرا معمول تھا کہ روزانہ دو تین گھنٹے اُستاد کی خدمت میں بیٹھ کر اُردو کی صرفی نحوی کلیات سیکھا کرتاتھا۔ تین برس تک یہی مشق جاری رہی۔ استاد جب میرے غریب خانے پر تشریف لاتے تھے تو بھی یہی سلسلۂ گفتگو جاری رہتا۔ اس تحقیق میں ایسا مزا ملا کہ میں نے استاد کی حیات کو غنیمت شمار کر کے اس مشغلہ کو برابر جاری رکھا اور انھیں کی برکت ہے کہ مجھ کو قواعد اردو بنانے کا طریقہ معلوم ہو گیا۔ حقیقت میں یہ قاعدے علم سینہ ہی رہنے کے قابل تھے اور میرے لیے باعث اعزاز تھے مگر زمانہ کی موجودہ روش اردو کو خاک سیاہ کر رہی ہے جس کا ہندوستان کے مقتدر طبقے کو بھی افسوس ہے۔ چنانچہ اسی اردو کی حفاظت کی غرض سے ہز اگزالٹڈ ہائنیس اعلٰحضرت میر عثمان علی خاں بہادر دام احترام والی دکن نے بھی اردو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کر کے اپنی بیش بہا فیاضی اور دریا دلی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کی مالی خدمت شاہ دکن کر رہے ہیں لیکن ادبی خدمت ہر انسان پر اپنی حیثیت اور قدرت کے موافق واجب و لازم ہے۔
میرے دل نے یہ پسند نہ کیا کہ تلوار زیب کمر رہے اور وقت ضرورت بھی کام نہ لیا جائے۔ میں نے بھی چاہا کہ اپنی بساط کے موافق عثمانیہ یونیورسٹی کی خدمت کروں مگر ایسے اہم اور مشکل کاموں میں میری خدمت کیا مقبول ہو سکتی ہے۔ بہرحال نہ کرنے سے کرنا بہتر ہے۔اس خیال نے مجھ کو اس خدمت پر مستعد کیا اور میں اپنی خدمت کا نمونہ “قواعد میر” کے نام سے پیش کرتاہوں کہ عثمانیہ یونیورسٹی کی نیو قائم کرنے میں کچھ مدد دے۔ ان جواہر ریزوں کو میں ملک کی عام فائدہ رسانی کی غرض سے پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ یہ کتاب بھی میری دوسری تصانیف کی طرح مقبول عام ہوگی۔
خواجہ محمد عبد الرؤوف عشرت
﷽
مَصدَر کا بیان
مصدر ایسا اسم ہے جس سے دوسرے فعل بن سکتے ہیں لیکن وہ خود کسی فعل سے نہیں بنتا۔ سنسکرت میں اسے “دھاتو” کہتے ہیں۔ مصدر کی علامت آخر میں “نا” ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ اگر نا کو گرادیں تو اس کی جڑ باقی رہے جسے امر کہتے ہیں، جیسے آنا سے آ، کرنا سے کر، جانا سے جا، کھانا سے کھا۔ یہ جڑ ہر حالت میں قائم رہتی ہے۔
بعض مصدروں میں صرف نحو کے خلاف عام تغیر ہوگیا ہے اور امر کے حرف بھی بدل گئے ہیں جیسے کرنا جس کا امر کر ہے، اس کی ماضی کرا ہونا چاہیے تھی، لوگ کیَا بولنے لگے۔جانا جس کا امر جا ہے، اس کی ماضی قاعدہ سے جا ہونا چاہیے تھی لوگ گیا بولنے لگے۔ صرف یہی دو مصدر ایسے ہیں جو اختلاف استعمال سے بدل گئے۔
قاعدہ: علامت مصدر مشدد نہیں آتی۔گِنّا مصدر نہیں، اس لیے کہ اس میں تشدید ہے۔ دوسرے نا علامت نکالنے کے بعد صیغۂ امر باقی نہیں رہتا۔ تیسرے یہ کہ اس سے دوسرے فعل نہیں بن سکتے۔
اُردو میں مصدر کی چار قسمیں ہیں: اصلی، جعلی، فرعی، ترکیبی۔ اصلی مصدر کو وضعی بھی کہتے ہیں۔ اصلی مصدر وہ ہیں جن کی جڑ ہندی امر ہو۔ بنانا، ٹوٹنا، دھونکنا، کاٹنا، چھیلنا۔
جعلی یا غیر وضعی وہ مصدر ہیں جو اہلِ زبان نے کسی ہندی لفظ کو گھٹا بڑھا کرامر بنا لیا ہو اور اس امر پر علامت مصدر اضافہ کر کےمصدر بنا لیا ہو، جیسے کھٹ کھٹ اسم صوت ہے اس میں الف زیادہ کرکے کھٹکھٹا امر بنایا اس پر (نا) علامت مصدر زیادہ کر کے کھٹکھٹانا بنا لیا۔ اسی طرح پچتانا وغیرہ۔
فرعی وہ مصادرہیں جو غیر زبان کے اسم امر فعل حرف پر علامت مصدر کا اضافہ کر کے بنائے ہوں جیسے شرم سے شرمانا، گرم سے گرمانا، فرمود سے فرمانا، بر سے بر آنا، در سے در آنا۔
ترکیبی وہ مصدر ہیں جو اردو کے دو مصدروں سے یا ایک امر یا حاصل مصدر یا اسم ہندی یا ماضی یا کسی دوسرے مشتقات یا ماضی پر کوئی حرف زیادہ کرکے اور ایک دوسرا مصدر لگا کر بنالیں، جیسے آنے لگنا، چلنے دینا، لے جانا، ہٹ جانا، چل دینا، اُٹھ بیٹھنا، گھر آنا، بڑھ جانا، دکھ سہنا، پھل پانا، ٹھنڈک ڈالنا، لگّا لگانا، ہوکا ہونا، جی لگانا، ہلکان کرنا، کرتوت دکھانا، سویا کرنا، بیٹھا رہنا، سنائی دینا، دکھائی دینا۔
مصدر اسم مذکر ہے اس لیے جملے میں ا س کو مفعول مؤنث کے ساتھ معروف ی سے بدلنا ناجائز ہے، لکھنؤ کے فصحا خصوصاً پرہیز کرتے ہیں جیسے دال بگھارنی تھی، روٹی پکانی تھی نہیں بولتے بلکہ دال بگھارنا تھی، روٹی پکانا تھی بولتے ہیں مگر فصحائے دہلی بصورت اول استعمال کرتے ہیں اس لیے دونوں طرح بولنا جائز ہے۔ مصدر اسم ہے اس لیے وہ لازم اور متعدی نہیں ہوتا لیکن ا س سے جو صیغے نکلتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں یا متعدی ہوتے ہیں، اس مناسبت سے مصدر کو بھی لازم اور متعدی کہتے ہیں۔
لازم وہ فعل ہے جس میں کوئی مفعول بہ نہو اور اُس کا فعل اپنے فاعل کی ذات پر تمام ہوجائے جیسے آنا۔ اس میں آنا کا فعل اپنے فاعل کی ذات پر تمام ہوگیا۔
متعدی وہ فعل ہےجس کا فعل فاعل سے گزر کر مفعول کی ذات پر تمام ہو جیسے مارنا۔ اس میں ایک فاعل ہے جس نے مارا اور ایک مفعول ہے جس پر مار پڑی۔
قاعدہ: متعدی فعل کو تین طرح پہچان سکتے ہیں، ایک تو یہ کہ اُس کی ماضی میں صرف نے ضرور آئےگا۔ جیسے میں نے مارا، میں نے لکھا، میں نے دیا۔لیکن یہ علامت بعض مصادر میں نہیں آتی جیسے لانا۔دوسرے ایک مفعول بہ اس کے ساتھ ضرور ہوگا یعنی اگر سوال کیا جائے کسے مارا یا کس کو مارا تو جواب ہوگا اس کو۔ تیسرے جملہ بنانے میں علامت کو بھی اکثر ذی روح مفعول میں آتی ہے جیسے احمد نے حامد کو مارا۔
متعدی کے جملے میں اور دوسرے مفعول بھی آتے ہیں مگر وہ متعدی کی علامت کے لیے نہیں ہیں بلکہ متعلق فعل ہوجاتے ہیں، جیسے احمد نے محمود کو کوٹھے پر مارا۔اس میں کوٹھے پر متعلق فعل ہے۔
اسی طرح لازم کے جملے میں دوسرے مفعول یعنی مفعول فیہ، مفعول لہ، مفعول مطلق آتے ہیں۔ جیسے وہ مکان میں آیا، وہ چوروں کی چال چلا۔لیکن چونکہ صدور فعل کا مفعول پر واقع نہیں ہوا ہے، اس لیے اس کو لازم کہتے ہیں۔ یہاں مکان اسم ظرف ہے اور متعلق فعل واقع ہوا ہے۔ اسم ظرف مکان اور ظرف زمان مفعول فیہ میں آتا ہے جس سے کام کرنے کی جگہ یا وقت معلوم ہوتاہے۔ اسی طرح وہ رونے کو آیا، رونے کو مفعول لہ ہے۔
مفعول لہ وہ ہے جس میں کام کرنے کا سبب معلوم ہو یعنی رونے کے لیے آیا۔اس سے معلوم ہوا کہ لازم میں بھی علامت مفعول لہ یعنی کو دوسرے مفعول کے ساتھ آتی ہے۔ مگر حقیقت میں یہ مفعول بہ نہیں ہیں، اُردو میں مفعول بہ کے علاوہ اور تمام مفعول عارضی ہیں یعنی وہ مفعول حقیقی نہیں ہیں۔
فعل متعدی میں فاعل کا فعل ہمیشہ ایک مفعول حقیقی یعنی مفعول بہ کی ذات پر واقع ہوتا ہے، جس فعل میں ایسا نہ ہو وہ لازم ہے۔ اسی طرح متعدی اور لازم مصادر کو پہچاننا چاہیے۔ میں نے دیکھا، معلوم ہوا کہ دیکھنے کا کام ایک مفعول کی ذات پر ختم ہوا۔میں اٹھا، اس میں اٹھنا کا فعل فاعل کی ذات پر ختم ہوا۔ پہلا متعدی اور دوسرا لازم۔
اب لازم میں ایک مفعول عارضی لگا کر کہا جائے میں کرسی سے اٹھا۔ اس میں کرسی مفعول ہے مگر اٹھنے کا فعل اسی مفعول پر نہیں ختم ہواکیونکہ کرسی ظرف زمان ہے اس لیے وقوع فعل کی جگہ ہے اور چونکہ اپنے فاعل پر جملہ ختم ہوگیا ہے اس لیے لازم ہے۔
فعل لازم کے جملے میں جار و مجرور بھی یہی مفعول بن کر آتے ہیں۔ جیسے جانامصدر لازم ہے اس کا جملہ اس طرح بنائیں کہ لکھنؤ سے دہلی تک گیا۔ اس میں دہلی مفعول ہے، تک حرف جار ہے اس لیے جار مجرور مل کر متعلق فعل ہوا۔
قاعدہ: افعال متعدی میں کبھی مفعول بہ کی علامت بدل بھی جاتی ہے جیسے میں نے نظر کی۔مصدر متعدی ہے، اسے اس طرح بولیں گے: میں نے کنگن پر نظر کی تو اُسے کھوٹا پایا۔ یہاں پر کے معنی تک کے نہیں ہیں بلکہ کو کے ہیں۔ نظر کرنا دیکھنے کے معنی پر ہے یعنی کنگن کو دیکھا۔
قاعدہ: معنی کے لحاظ سے بہت سے مصدرِ لازم ایسے ہیں جو متعدی بھی بن جاتے ہیں جیسے قرار پانا جب آرام کرنا کے معنی پر بولا جاتا ہے تو متعدی ہوتا ہے، مدت کے بعد رات کو جب ٹھنڈی ہوا چلی ہے تو میں نے قرار پایا یعنی قرار کو پایا۔ اور جب طے ہونے کے معنی پر بولتے ہیں تو لازم ہوتا ہے، جیسے آخر کو یہ امر قرار پایا یعنی یہ بات طے ہوئی۔ اکثر مصدر اُردو میں ایسے ہیں لیکن وہی ہیں جو کسی اسم کے ساتھ مستعمل ہیں۔
اسی طرح کہنا مصدر متعدی ہے، لوگوں نے اس کا تعدیہ بدو مفعول خلاف قاعدہ صرف نحو کہلانا بنا لیا ہے مگر فصحا کہوانا بولتے ہیں کیونکہ یہ قاعدہ سے درست ہے۔ کہلانا میں دوسری غلطی یہ ہوگئی ہے کہ آج کل لوگ اس کو متعدی مجہول کے معنی پر بولنے لگے۔ جیسے (وہ جو محمود محمود) کہلاتے ہیں یعنی محمود پکارے جاتے ہیں یہ بالکل غیر فصیح اور قابل ترک ہے۔ اس طرح بولنا چاہیے (وہ جو محمودمحمود کہے جاتے ہیں)۔
کرنا کے ساتھ جتنے اسما فارسی عربی ملا کر مصدر بنائے جاتے ہیں وہ متعدی ہوتے ہیں اور فعل کی طرح تذکیر و تانیث میں اپنے مفعول کے تابع رہتے ہیں جیسےکہنا کی ماضی مطلق یہ ہے: میں نے کہا۔ اگر فاعل عورت ہے تو بھی کہے گی: میں نے کہا۔ مرد ہے تو بھی کہے گا: میں نے کہا۔ اسی طرح میں نے قبول کیا، میں نے رد کیا، میں نے منظور کیا، میں نے تحریر کیا، میں نے تجویز کیا، میں نے پسند کیا، میں نے روانہ کیا۔ اس کے بعد اگر جملے میں کوئی مفعول ہوگا تو اس کی اطاعت فعل کو کرنا ہوگی، جیسے میں نے خدمت قبول کی یا میں نے حکم قبول کیا۔
مگر اس طرح کے فعل اُردو اسم ملا کر نہیں بنا سکتے، ہندی کا اسم ایسی جگہ بعض وقت اسم رہتا ہے اور فعل اصلی اس کی اطاعت کرتاہے یعنی جزو مصدر نہیں بنتا، جیسے بات کرنا کی جب ماضی بنائیں گے تو کرنا کو تانیث سے بولیں گے جیسے میں نے بات کی۔ اسی طرح کام مذکر ہے، اس کا فعل اپنے مفعول کی اطاعت کرےگایعنی مذکر بولا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُردو مصدر میں عربی فارسی کا اسم ملا کر مصدر مرکب بنا سکتے ہیں لیکن ہندی اسم ملا کر مصدر نہیں بنا سکتے کیونکہ ایسا مرکب فعل کی طرح تابع اسم نہیں ہوتا ہے بلکہ محض مصدر اپنے اسم کی اطاعت کرتا ہے۔ ہونا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں وہ لازم ہیں اور لازم ہمیشہ اپنے فاعل پر ختم ہوتاہے ان میں کوئی مفعول نہیں ہوتا۔ عورت کہتی ہے میں بیدار ہوئی، مرد کہتا ہے میں بیدار ہوا۔ لیکن اس میں جو اسم صفت عربی فارسی کے لگا کر مصدر بنائے جاتے ہیں وہی مصدری حالت میں رہتے ہیں اور اپنی تذکیر و تانیث کے ساتھ بولے جاتے ہیں جیسے مجھے خوف ہوا۔ اس میں خوف اسم مذکر تھا اس لیے ہوا کہا گیا۔ دہشت ہوئی، دہشت اسم مؤنث ہے اس لیے ہوئی کہا گیا۔
ترکیبی مصدر میں بعض ایسے ہیں جو اپنے فعل اول کے مطابق لازم اور متعدی رہتے ہیں اور بعض فعل دوم کے تابع ہوتے ہیں۔دینا کے ساتھ جتنے مصدر بنائے جاتے ہیں اُن میں فعل اول اگر لازم ہے مصدر بھی لازم بولا جاتا ہے اور متعدی ہے تو متعدی جیسے ستا دینا، پٹک دینا، گُھرک دینا، لگا دینا، سنا دینا، دکھا دینا، مار دینا، کہہ دینا، رکھ دینا، کاٹ دینا یہ سب متعدی ہیں۔ چل دینا، رو دینا لازم ہیں۔
جانا کے ساتھ جتنے فعل آتے ہیں چاہے وہ متعدی ہوں یا لازم سب لازم بولے جاتے ہیں نکل جانا، اُٹھ جانا، بیٹھ جانا، سو جانا، چھوٹ جانا، لرز جانا، دھو جانا، سہہ جانا یہ سب متعدی ہیں مگر لازم بولے جاتے ہیں۔ مر جانا، اُترجانا،بگڑ جانا یہ لازم ہیں، لازم بولے جاتے ہیں۔
اُٹھنا کے ساتھ جتنے مرکب مصادر آتے ہیں لازم ہوں یامتعدی، سب لازم ہوتے ہیں۔ رو اُٹھنا، بول اُٹھنا، چلا اُٹھنا لازم ہیں۔ کہہ اٹھنا، پکار اٹھنا متعد ی ہیں مگر لازم بولے جاتے ہیں۔
رہنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم بولے جاتے ہیں جیسے مر رہنا، جا رہنا، آ رہنا،پڑ رہنا۔
چلناکے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہوتے ہیں۔ لے چلنا،اتر چلنا، بہ چلنا، مار چلنا۔
رکھنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب متعدی ہوتے ہیں۔ جیسے پکڑ رکھنا، دیکھ رکھنا، اٹھا رکھنا، لگا رکھنا، بچا رکھنا، کاٹ رکھنا، بدل رکھنا۔
ڈالناکے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں متعدی ہوتے ہیں جیسے کاٹ ڈالنا، چھانٹ ڈالنا، دیکھ ڈالنا، پُن ڈالنا، مار ڈالنا، بھون ڈالنا، پیس ڈالنا۔
کھجانا مصدر متعد ی ہے لیکن اس کے ساتھ جتنے ترکیبی مصدر آتے ہیں وہ لازم اور متعدی دونوں بولے جاتے ہیں، جیسے سر کھجانا، ناک کھجانا، ہتھیلی کھجانا۔ اس کو لازم بھی کہیں گے، میری ناک کھجائی اور متعدی بھی، میں نے اپنی ناک کھجائی۔
سکنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں۔ چل سکنا، اٹھ سکنا، بیٹھ سکنا، پکڑ سکنا، مار سکنا، رو سکنا، دیکھ سکنا، جا سکنا، کھول سکنا، باندھ سکنا، لگا سکنا، دِکھا سکنا۔
لگنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں۔ دھونے لگنا، دیکھنے لگنا، رونے لگنا، کھانے لگنا، بجانے لگنا، نکلنے لگنا، سننے لگنا، مارنے لگنا، پینے لگنا، دیکھنے لگنا، مرنے لگنا، جانے لگنا۔
لانا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب متعدی ہیں اگرچہ ان کے ساتھ علامت فاعل (نے) نہیں آتی۔ پکڑ لانا، موڑ لانا،اٹھا لانا، لگا لانا، مار لانا، توڑ لانا۔ ان کو اس طرح بولیں گے، شیر کو پکڑ لایا۔ اس میں نے نہیں ہے مگر مفعول بہ موجود ہے اس لیے متعدی ہے۔
چُکنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں جیسے کھا چکنا، رکھ چکنا، ڈال چکنا، پی چکنا، چکھ چکنا۔
سکنا کے ساتھ جتنے مصدر آتے ہیں سب لازم ہیں جیسے آسکنا، سُن سکنا۔
بعض مصادر لازم ایسے ہیں جو متعدی نہیں بن سکتے۔ آنا، جانا، ہونا، کانپنا، لرزنا۔ بعض متعدی ایسے ہیں جن کے لازم نہیں بن سکتے جیسے لانا، ڈالنا، چُرانا، سونپنا، کرنا۔
قاعدہ: جومصادر لازم میں سے متعدی مستعمل ہیں اور ان کے حرف اول کو فتح ہے ان کے تعدیہ بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ علامت مصدر سے پہلے ایک الف زیادہ کر دیتے ہیں جیسے چلنا سے چلانا، بڑھنا سے بڑھانا، پھیلنا سے پھیلانا، بننا سے بنانا، بسنا سے بسانا، رکھنا سے رکھانا۔ لیکن اس قاعدہ سے بہت سے مصدر مستثنیٰ ہیں جیسے پھٹنا سے پھوڑنا، کٹنا سے کاٹنا۔ اگر مصدر لازم کی علامت دور کرنے کے بعد امر میں واؤ باقی رہے تو اُسے گرا کر ایک الف زیادہ کر کے متعدی بنا لینا چاہیے جیسے سونا سے سلانا، رونا سے رلانا۔
قاعدہ: اگر مصدر لازم ہے او ر اس کے امر میں لام ما قبل مضموم ہے تو متعدی بنانے میں الف یا واؤ زیادہ کریں گے جیسے دُھلنا سے دُھلانا، گھلنا سے گھلانا یا جیسے کھلنا سے کھولنا، گھلنا سے گھولنا۔ اور اگر ایسے مصدر میں لام سے قبل واو مضموم ہے تو اسے ساقط کر دیں گے جیسے بھولنا سے بھلانا، پھولنا سے پھلانا۔
قاعدہ: ایسے تمام مصدر لازم جن کے امر کے آخر میں کاف ہے الف زیادہ کر کے متعدی بنائے جاتے ہیں۔ بھٹکنا، کھٹکنا، اٹکنا، ٹھٹکنا، چٹکنا، چمکنا، مٹکنا، اٹکنا، سسکنا، تھپکنا، تھکنا، پھڑکنا، بہکنا، لچکنا، چرکنا، سرکنا، چھلکنا، پکنا، ہمکنا۔ اِس کُلیہ سے تکنا مستثنیٰ ہے، اس کی متعدی تاکنا آتی ہے۔
ماضی بنانے کا قاعدہ حصر استقرائی
مصدر کی علامت دور کرنے کے بعدامر کے آخر میں اگر حرف علت (الف یا واؤ) ہے تو حرف یا زیادہ کرکے ماضی مطلق بنا لیں گے جیسے لانا سے لایا، کھانا سے کھایا، پانا سے پایا، چمکانا سے چمکایا، سونا سے سویا، رونا سے رویا، بونا سے بویا۔ کھونا سے کھویا۔ اور اگر حرف علت (ے) ہے تو اسے حذف کر دیں گے جیسے دینا سے دیا، پینا سے پیا، لینا سے لیا۔ لیکن اس قاعدہ سے جانا مستثنیٰ ہے اس کی ماضی گیا بنتی ہے اور اگر علامت مصدر نکالنے کے بعد امر کے آخر میں حرف علت نہ ہو تو محض الف زیادہ کر کے ماضی بنا لیں گے۔ مصدر متعدی ہو یا لازم دونوں میں یہی کلیہ قائم رہے گا۔ جیسے رکھنا سے رکھا، بولنا سے بولا،کہنا سے کہا، مارنا سے مارا، جھکنا سے جھکا، دیکھنا سے دیکھا۔ اس قاعدے سے کرنا مستثنیٰ ہے جس کی ماضی کیا آتی ہے۔
جمع کا بیان
اُردو میں جمع کے قاعدے عربی فارسی وغیرہ سے الگ ہیں اور بہت با اصول ہیں۔
قاعدہ: فارسی کا وہ لفظ جس کا بدل اُردو میں موجود ہے اس کو مُفرد بغیر ترکیب اضافی اردو میں نہیں بولتے جیسے “چشم دندان گوش”۔ ان کی جمع بقاعدۂ اُردو ناجائز اور غیر فصیح ہے۔ جیسے :
چشموں سے چل کےچوم لوں تربت حسین کی
اب چشموں، گوشوں، دندانوں نہیں بولتے۔
قاعدہ: جس اسم پر حرف جر عربی فارسی ہو اُس کو بھی بقاعدۂ ہندی جمع نہیں کرتے جیسے حقیقت اسم ہے، اس کی جمع حقیقتیں بولتے ہیں لیکن فی الحقیقت، در حقیقت، فی الجملہ کو در حقیقتیں، فی الحقیقتیں، فی الجملوں بولنا ناجائز ہے۔
قاعدہ: فارسی عطف و اضافت کی حالت میں اسم ہے تو اس کو بقاعدۂ ہندی جمع نہیں کر سکتے جیسے بارِ محبت کو بارِ محبتوں، رنج و غم کو رنج و غموں نہیں بولتے۔ ہاں اُردو اضافت اور حذف حرف عطف کر کے بولنا جائز ہے جیسے محبتوں کا بار اور رنج و غموں، یا رنج و غموں سے حالت تباہ ہے۔ اور اگر دو اسم ایسے ہیں جو بعد فک اضافت مستعمل ہیں ان کو جمع ہندی بنانا جائز ہے۔ جیسے صاحبدلوں نے کہا۔
اسم مفعول ترکیبی کو اردو میں بقاعدۂ ہندی جمع کرنا جائز ہے جیسے خدا شناس، تعلیم یافتہ، سند یافتہ، دل باختہ، ستم رسیدہ۔ ان کو تعلیم یافتوں، سند یافتوں، دل باختوں، ستم رسیدوں بول سکتے ہیں۔اگر اسم صفت غیر اضافی ہے تو بقاعدۂ ہندی اسے جمع کر سکتے ہیں جیسے نیک دل، پاک نفس، نیک نہاد کو نیک دلوں، پاک نفسوں، نیک نہادوں لکھنا جائز ہے۔
(بے) اور (نا) دونوں حرف نفی ہیں، جن اسما پر یہ دونوں آتے ہیں اُن پر ترکیب فارسی کا اثر قائم نہیں رہتا اس لیے کہ (بے اور نا) ہندی لفظوں پر بھی لگا لیے جاتے ہیں اور یہ حرف حکم ہندی کا رکھتے ہیں جیسے بے خود اور ناتواں۔ قاعدہ یہی چاہتا تھا کہ ایسی لفظوں کی جمع بقاعدۂ فارسی آتی اور بقاعدۂ ہندی نہ آتی مگر (بے اور نا) حکم ہندی کا رکھتے ہیں۔ کیونکہ اصل میں سنسکرت ہے اور یہ دونوں حرف اسمائے ہندی پر مستعمل ہیں جیسے بے باپ کا بچہ، ناسمجھ۔ اس لیے ایسی فارسی اور عربی لفظوں پر اُردو کا حکم جاری ہے جیسے بیخودوں اور ناتوانوں۔
قاعدہ: کوئی لفظ فارسی ہو، عربی ہو، اردو ہو، انگریزی ہو، مذکر ہو یا مؤنث جمع کی حالت میں جب ان پر حروف روابط کا، کو، سے، تک، میں، نے، کے، پر آئیں گے تو ان کی جمع ون سے آئے گی جیسے وہ میری نظروں سے پوشیدہ ہوگیا، ہاتھیوں پرامیر سوار تھے، باوفاؤں سے ذرا آنکھ ملاؤ تو سہی، پھر ہوئی چونے والیوں کی دھوم، امیروں کی سفارش اہل دنیا کو مبارک ہو، باغ کی نہروں میں پانی دو۔
ان مثالوں سے یہ معلوم ہوا کہ جس اسم کے بعد حرف ربط آئے گا تو اس کی جمع واؤ نون سے ضرور آئے گی۔ لیکن بعض اسما ایسے ہیں جن کی جمع واؤ نون سے بغیر حرف ربط ما بعد کے بھی آتی ہے اگر وہ اسم اسمِ ظرف ہو جیسے ‘تیغ کے گھاٹوں اتارا چاہیے’۔
یا اسم فاعل: دکھلا کے مانگ گیسوؤں والا نکل گیا۔
یا اسم ظرف زمان: برسوں خبر نہ لی، راتوں رات، مدتوں سفر میں رہا، گھنٹوں رویا کیا۔
یا اسم عدد: ساتوں پریاں گانے لگیں، پانچوں بھائی خوش خوش تھے۔
مذکر اسم کے آخر میں الف یا ہ ہے تو جمع کرتے وقت حرف آخر گرا دیا جائے گا جیسے اندھا سے اندھوں، گلدستہ سے گلدستوں۔ نِدا کی حالت میں جمع صرف واؤ سے آتی ہے دوستو، لڑکیو۔ وہ مذکر اسما جن کے آخر الف یا ہ ہے اور وہ یائے مجہول سے امالہ قبول کرتے ہیں اور ان کے ما بعد حرف ربط نہیں ہے تو جمع کی حالت میں بھی وہ یائےمجہول سے بدل دیے جائیں گے۔ سب کے سب انگوچھے لیے ہوئے گنگا گھاٹ پر اشنان کو آئے، میدان میں لڑکے کھیل رہے تھے۔ اس کے سوا اور کوئی قاعدہ مذکر اسما کے جمع کا نہیں ہے۔
قاعدہ: وہ اسما جن کے آخر میں الف یا ہ ہے اور وہ امالہ قبول نہیں کرتے اور وہ مذکر اسما جن کے آخر میں الف یا ہ نہیں ہے تو اردو میں ان کے لیے کوئی حرف جمع کا نہیں ہے، ان کا مفرد بجائے جمع مستعمل ہوگا لیکن جملے میں افعال سے ان کی جمع معلوم ہوگی۔ گاہک آتے جاتے تھے، دکاندار بیٹھے تھے، دریا بہتے تھے، ہولناک صحرا نظر آئے۔ گاہک اور دکاندار مفرد اسم ہے لیکن فعل جمع آیا ہے اس لیے کہ اسما بجائے جمع مستعمل ہوئے ہیں۔
ایک قاعدہ مذکر الفاظ کی جمع کا اور بھی ہے۔ یعنی اگر چاہیں تو عربی الفاظ کو بحالت مفرد بقاعدۂ عربی جمع کر کے لکھیں یا مفرد کو بحالت جمع استعمال کریں، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے شریف منکسرمزاج ہوتے ہیں۔ اس کو اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ “شرفا منکسر مزاج ہوتے ہیں”۔ صاحب کمال نہیں چھپتے، ان کے وقت بند ھے ہوئے ہیں اس کو اس طرح بھی بول سکتے ہیں “ان کے اوقات بندھے ہوئے ہیں”۔
لیکن اگر لفظ مذکر مفرد فارسی ہے تو اُس کو مفرد بمعنی جمع استعمال کریں گے اس کو بقاعدۂ فارسی جمع کرکے بولنا جائز ہے۔ جیسے تمھارے دماغ نہیں ملتے، مہمان آرہے ہیں۔ ایک صورت اظہار جمع کی مذکر الفاظ کے لیے اور بھی ہےیعنی کچھ الفاظ مقرر ہیں جو جمع کا کام دیتے ہیں یہ اسم عدد ہیں۔ جیسے سب آدمی بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے، چند سیب سامنے رکھے تھے، کچھ آم تراشے جاتے تھے، اکثر مہذب ہنسی کے مارے لوٹے جاتے تھے، بعض یار دوست کہتے ہیں۔ بعض مواقع پر ایسا ہوتا ہے کہ صرف اسم عدد سے اظہار جمع کر دیتے ہیں فعل نہیں بدلتے۔ دو چار آم لاؤ، دو ایک سیب کھاؤ۔
قاعدہ: بعض اسم مذکر ایسے ہیں جن کا واحد نہیں ہے، وہ ہمیشہ جمع بولے جاتے ہیں جیسے لوگ، مردم۔
قاعدہ: جس اسم مونث کے آخر میں (ی) ہے اس کی جمع الف نون سے آئے گی:
خاص بردار سب وضیع و شریف | وردیاں زیب تن عجیب و لطیف |
چرخیاں اور انار داغ دیے، ہاتھ مَلواتی ہیں حوروں کو تمھاری چوڑیاں، طاقچوں میں ہیرے کی گلابیاں رکھی تھیں۔ اردو کا حاصل صفت جس کے آخر میں ی ہے اسی قاعدے سے جمع ہوتا ہے۔ جیسے بے قرار اسم صفت ہے، بے قراری حاصل صفت ہے۔ اس کی جمع بے قراریاں بولتے ہیں جیسے “وہ آکے دیکھتے ہیں بےقراریاں میری”۔ اسی طرح اور بھی حاصل صفت جیسے سختیاں، کمبختیاں، شوخیاں، بدمعاشیاں، مکاریاں۔
بعض اس قاعدے کے موافق اسم صفت ہندی کو جس میں آخر میں (ی) ہوتی ہے جمع کر لیتے ہیں جیسے گوریاں، سنہریاں، بھاریاں۔
بیڑیاں منت کی بھی پہنیں تو میں نے بھاریاں
چاندنی راتیں یکایک ہوگئیں اندھیاریاں
قدما فعل مؤنث کوبھی اسی طرح جمع کر لیتے تھے، جیسے ڈالیاں بے شمار قطار قطار ہر طرف رکھیاں تھیں۔ یہ سب بین الفصحا ناجائز ہیں۔ اسم مؤنث کے آخر میں الف یا ہ ہے تو اس کی جمع (ئیں) سے آئے گی جیسے جفائیں، دوائیں، مائیں۔ خالہ سے خالائیں، قُطامہ سے قُطامائیں۔ لیکن جس کے آخر میں ی اور الف ہے اُس کی جمع صرف نون سے آئے گی۔ جیسے چڑیا، کتیا، لُٹیا، ڈلیا، گھوڑیا، بٹیا، بُڑھیا، گڑیا، پُڑیا، کُلھیا، اسے چڑیاں، کتیاں، لُٹیاں، ڈلیاں، گھوڑیاں، بٹیاں، بڑھیاں، گڑیاں، پڑیاں، کلھیاں۔
قاعدہ: جن مؤنث اسما کے آخر میں الف اور یا نہیں ہے ان کی جمع (ین)سے آئے گی جیسے پلٹیں صورتِ صفِ مژگاں، لالٹینیں ہزارہا روشن، کروٹیں بدلا کیا، سنہری رو پہلی چقیں، پردہ نشین عورتیں۔ لیکن عربی فارسی دو حرفی الفاظ کی جمع اس قاعدے سے نہیں آتی جیسے شے،مے،قے۔ اس کی جمع شیئیں، میئیں، قیئیں ناجائز ہے۔ فارسی قاعدے سے اردو میں مفرد الفاظ کو جمع کرنے کا دستور قدما میں بہت تھا مگر آج کل نہیں بولتے “رفتگاں کا بھی خیال اے اہل عالم چاہیے”، “رہ گزر میں دفن کرنا اے عزیزاں تم مجھے”، “اے کودکاں ابھی تو ہے فصل بہار دور”، “کیا نفاق انگیز ہمجنساں ہوائے دہر ہے”۔ لیکن فارسی اضافت اور عطف کے ساتھ بولنا جائز ہے جیسے سفر میں یارانِ وطن یاد آتے ہیں۔ بندگاں، سکندرشاں، داغِ عزیزاں۔
قاعدہ: جمع عربی کے مفرد الفاظ اردو میں مستعمل ہیں۔ شائقین، طالبین، عقائد، خیالات، معاصرین، اقربا، حکام، غربا، کتب۔ اسی طرح تثنیہ بھی مستعمل ہیں جیسے والدین، حسنین، تمھارے عقائد اچھے نہیں ہیں، ہمارے معاصرین کیا فرماتے ہیں، حکام کی دوستی اچھی نہیں، شائقین ملاحظہ فرمائیں، خیالات میں فرق آگیا، غربا کی پرورش لازم ہے۔بعض ناواقفی سے عربی کی جمع کو بقاعدۂ اردو جمع بناتے ہیں، یہ غلط ہے۔ شائقینوں کے لیے مفت ہے، حکاموں کی ملاقات کو جایا کرتا ہوں، اپنے خیالاتوں کو ظاہر کرتا ہوں، غرباؤں سے اُنس ہے۔ یہ سب غیر فصیح ہیں لیکن بعض عربی جمع کے الفاظ اردو میں بجائے واحد بولے جاتے ہیں ان کی جمع اردو جائز ہے جیسے اولاد سے اولادیں۔ بعض اردو الفاظ کو بقاعدۂ عربی جمع بنا لیتے ہیں جیسے بنگلہ جات، کھاتہ جات، کوٹھیات اور اسی طرح فارسی الفاظ کو بھی جیسے علاقہ جات،کارخانہ جات، یہ بھی ناجائز ہے؛ ان کو بنگلے، کوٹھیاں، علاقے، کارخانے لکھنا چاہیے۔
قاعدہ: کنواں اور دھواں کی جمع مذکورۂ بالا قاعدوں کے خلاف آتی ہے، کنوئیں اور دھوئیں؛ اسی طرح آنکھ کی جمع انکھڑیاں او ر درد اگرچہ مذکر ہے اس کی جمع دردیں مؤنث بولی جاتی ہے۔ اس کا استعمال دردزہ کے معنی پر مختص ہے۔
تذکیر و تانیث
مذکر و مؤنث اسما کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور غیر حقیقی۔ ذی روح اسمائے حقیقی ہیں، ان میں نر مذکر اور مادہ مؤنث ہے۔
قاعدہ: جس اسم ذی روح کے آخر میں الف ہے وہ مذکر ہے جیسے کوّا، بگلا، کچھوا، طوطا، جھینگا، مینڈھا، دُنبا، نیولا، بچہ، کھوپرا، تیندوا، بُھجنگا، بھٹیارا، سقا، لڑکا، دولھا، دادا، چچا، پھوپا، ابا، ابلقا، چڑا، بیٹا، باوا، سسرا، دادا، نانا، گھوڑا، گدھا، بکرا، چیتا، اندھا، کانا، بوچا، لنگڑا، لولا، کتا، بھینسا۔ اس قاعدے سے اَما، مینا، اَنا، ماما مستثنیٰ ہیں۔
قاعدہ:جس اسم ذی روح کے آخر میں (یا) ہو مؤنث ہے جیسےبندریا، چڑیا،کتیا، گھوڑیا، بٹیا۔ اس قاعدے سے بھیڑیا، بنیا اور تمام اسم فاعل جعلیا، فریبیا وغیرہ مستثنیٰ ہیں۔
قاعدہ: جس اسم کے آخر میں (ر) ہو اکثر مذکر ہوتا ہے جیسے کبوتر، چکور، مور، تیتر، مار، شیر، لنگور۔ اس قاعدے سےبٹیر مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ مذکر مؤنث دونوں طرح بولا جاتا ہے۔
قاعدہ: جن کےآخر میں (نی) ہے وہ اسمائے ذی روح مؤنث ہیں جیسے ہتھنی، نٹنی، ڈومنی، اونٹنی، شیرنی، مغلانی، شیخانی، اومتانی، سورنی، نانی، ممانی، مہترانی، کمھارنی، مرزانی، برہمنی، چمارنی، سقنی، رانی، کھترانی، باہمنی، مُلّانی۔
قاعدہ:جس مذکر ذی روح کے آخر میں الف ہوتا ہے اس الف کو یائے معروف سے بدل کر مؤنث بنا لیتے ہیں بشرطیکہ الف کے ما قبل (ی) نہو جیسے بکرا بکری، گھوڑا گھوڑی، چھوکرا چھوکری، لونڈا لونڈی، بیٹا بیٹی، لڑکا لڑکی، کوا کوی، سالا سالی، بھیڑا بھیڑی، پدا پدی، پھوپھا پھوپھی، نانا نانی، دادا دادی، گدھا گدھی، طوطا طوطی، مکھا مکھی، مکڑا مکڑی، چیونٹا چیونٹی، چچا چچی۔ اس قاعدے سے چیتا، شکرا، چڑا، کتا، مینڈھا، جھینگا، بھجنگا، بگلا مستثنیٰ ہیں۔ جس ذی روح کے آخر میں یائے معروف ہے وہ مؤنث ہے جیسے مکھی، تتلی، ٹڈی، مماکی، مکڑی، چیونٹی، کمھاری، بلی، لڑکی، بیٹی، پھپی۔ وہ سب مؤنث ہیں مگر ہاتھی، گندھی، دھوبی، نائی، قصائی، مولوی، ساقی، حاجی، بھائی اس سے مستثنیٰ ہیں۔
اسمائے ذی روح ناطق میں نر مذکر اور مادہ مؤنث ہے لیکن ذی روح غیر ناطق میں کبھی مذکر مؤنث میں فرق نہیں ہوتا جیسے لال نر و مادہ دونوں کو مذکر بولتے ہیں، چیل نر و مادہ دونوں کو مؤنث بولتے ہیں۔
اسمائے غیر حقیقی
مذکر و مؤنث غیر حقیقی وہ اسما ہیں جو ذی روح نہوں اور فرضی طور پر اہل زبان نے ان کو مذکر و مؤنث مان لیا ہو۔غیر حقیقی اسما کی دو قسمیں ہیں: ایک تو وہ کہ جس میں حروف مقررہ اہل زبان پائے جاتے ہیں یا قانون اور قیاس کے تحت میں ہیں ان کو قیاسی کہتے ہیں۔جیسے توا مذکر ہے اس لیے کہ اس میں حرف الف حروف مقررہ تذکیر موجود ہے، ہانڈی مؤنث ہے اس لیے کہ اس میں حرف یائے معروف حروف مقررہ تانیث موجود ہے۔ دوسرے وہ الفاظ جو اپنے قاعدے کے خلاف مستعمل ہوں جیسے موتی، پانی، دہی کہ یائے معروف موجود ہے لیکن مذکر بولے جاتے ہیں یا وہ الفاظ جن پر کوئی قیاس اور قانون لازم نہ آتا ہو صرف استعمال اہل زبان کی پابندی کی جاتی ہو جیسے برف مؤنث ہے اس میں کوئی حرف تذکیر و تانیث کامقررہ نہیں ہے، محض استعمال فصحا سے اس کو مؤنث تسلیم کر لیا ہے ان کو سماعی کہتے ہیں۔
تمام حروف مفرد جو دو حرفی ہیں مؤنث ہیں اور جو سہ حرفی ہیں مذکر ہیں یہ قاعدہ مسلمہ مرزایان دہلی کا ہے۔ جیسے (بے، تے، ٹے، چے، رے، زے، طو، ظو، فے، ہے) یہ مؤنث ہیں۔ الف، جیم، دال، ڈال، ذال، سین، شین، صاد، ضاد، عین، غین، قاف، کاف، لام، میم، نون، واؤ، ہمزہ اور حروف مخلوطہ ہندی جھا، چھا، گھا وغیرہ مذکر ہیں۔
قاعدہ: تمام افعال نہ مذکر ہیں نہ مؤنث بلکہ وہ تابع ہیں اپنے فاعل کے جیسے عورت آئی، مرد آیا۔
قاعدہ:اسمائے صفت نہ مذکر ہیں نہ مؤنث بلکہ وہ تابع ہیں اپنے فاعل اور مفعول کے جیسے کالا بادل، نیلی بوتل۔ اور کبھی اسم صفت بدلتا ہی نہیں جیسے لال چڑیا، لال کمل۔ فارسی کا اسم صفت بھی نہیں بدلتا جیسے سفید کتا، سفید بلی، سیاہ ٹوپی، سیاہ بادل۔ عربی کے اسمائے صفت کبھی تذکیر و تانیث کا اثر نہیں قبول کرتے، جزوِ موصوف بن جاتے ہیں۔ عربی فارسی کے اسم تفضیل تذکیر تانیث میں اپنے مفعول کے تابع ہوتے ہیں جیسے وہ عورت مردوں سے افضل تھی، آم املی سے خوشتر تھا۔ باقی اسم صفت ہے اس کو مفعول مذکر کے ساتھ مذکر اور مفعول مؤنث کے ساتھ مؤنث بولتے ہیں میری اشرفیاں باقی ہیں، میرا روپیہ باقی ہے۔کبھی رقم کو محذوف مضمر رکھ کر بولتے ہیں میری باقی ادا کردو، اس حساب میں کتنی باقی گری، میرا تم پر کیا باقی ہے۔ کبھی ظاہر کر دیتے ہیں ایک پیسہ باقی نہ بچا، ایک کوڑی باقی نہ بچی۔
قاعدہ: اسم عدد نہ مذکر ہے نہ مؤنث، وہ تذکیر و تانیث میں اپنے معدود کا تابع ہے۔پانچ روٹیاں پکی تھیں، ایک آم آیا تھا۔ اسی طرح تخصیص کے موقع پر بھی بولتے ہیں۔ پانچویں سطر، چوتھی آیت، چھٹا صفحہ یا چھٹواں صفحہ۔
قاعدہ:اسم حالیہ اپنے موسوم کا تابع ہوتا ہے۔ کتا دم ہلاتا ہوا سامنے آیا، بلی روتی ہوئی جاتی تھی۔
قاعدہ:اسم مفعول اپنے موسوم کا تابع ہوتا ہے۔ایک شیر بھاگا ہوا آیا، کتے کی کھائی ہوئی روٹی وہ نہ کھائے گا۔ شیر مذکر ہے اس لیے بھاگا ہوا کہا، روٹی مؤنث ہے اس لیے کھائی ہوئی کہا۔
فارسی کا اسم مفعول تذکیر و تانیث کا اثر بھی نہیں قبول کرتا۔ جوشیدہ دوا پی، جوشیدہ پانی پیا۔ عربی کا اسم مفعول اثر قبول کرتا ہے۔ مقتول مرد کی لاش ملی، مقتولہ عورت کی لاش نہیں ملی۔ مرحومہ، مقتولہ، مسدودہ مؤنث کے لیے اور مرحوم، مقتول، مسدود مذکر کے لیے آتا ہے۔
قاعدہ: اسم فاعل خود نہ مذکر ہے نہ مونث، اپنے موسوم کا تابع ہے۔ کہنے والا آدمی کہتا تھا، کہنے والی عورت کہتی تھی، بھونکنے والا کتا چلا گیا، بجنے والی ڈھولک ٹوٹ گئی۔ فارسی کے اسم فاعل اتنا اثر بھی نہیں قبول کرتے۔ اس خط کی نویسندہ ایک عورت تھی، اس خط کا نویسندہ ایک مرد تھا۔ عربی کے اسم فاعل تابع ہیں۔ قاتلہ عورت کا پتہ لگ گیا، قاتل مرد کا پتہ لگ گیا۔
قاعدہ: تمام وہ ہندی اسما جو غیر ذی روح ہیں اور جن کے آخر میں الف ہے، مذکر ہیں بشرطیکہ ماقبل الف (ے) نہو جیسے اولا، انڈا، ڈنڈا، پونڈا، گنّا، پنڈا۔
قاعدہ:تمام وہ ہندی اسما جو غیر ذی روح ہیں اور جن کے آخر میں یا ہے اور وہ امالہ قبول نہیں کرتے مؤنث ہیں جیسے چندیا، چھالیا، لُٹیا، ہَنڈیا، ٹھلیا، ڈلیا، لیّا۔
قاعدہ:تمام وہ ہندی اسمائے غیر ذی روح جن کے آخر میں یا ہے اور وہ امالہ قبول کرتے ہیں مذکر ہیں جیسے پہیا، موتیا۔
قاعدہ: وہ سب غیر ذی روح اسما جن کے آخر میں یا ئے معروف ہو، مؤنث ہیں جیسے رضائی، روئی، روشنی، دری، ڈلی، کنگھی، چوٹی، پٹی، دھوتی، لُنگی، ڈوئی، سوئی، جوہی۔ مگر دہی، موتی، پانی، جی، گھی اس قاعدے سے مستثنیٰ ہیں۔
قاعدہ: تمام وہ ہندی فارسی عربی الفاظ جن کے آخر میں الف یا ہائے ہوز ہو اور جو غیر ذی روح ہوں اور امالہ قبول کرتے ہوں سب بہ اتفاق مذکر ہیں اس کلیہ سے مستثنیٰ ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ جیسے روپیہ، پیسہ، پنجہ، نیچہ، شوربا، حادثہ، اکھاڑا، اندھا، ڈھٹیارا، شعلہ، بہرا، جملہ۔
قاعدہ: فارسی اور عربی کے وہ اسما جو غیر ذی روح ہیں اور جن کے آخر میں الف ہے، امالہ نہیں قبول کرتے ان میں اکثر چہار حرفی مذکر ہیں اور سہ حرفی مؤنث ہیں جیسے دریا، صحرا مذکر ہیں اور وفا، ضیا، رضا، حنا، جفا، قضا، دعا مؤنث۔
قاعدہ: وہ غیر ذی روح اسمائے عربی، فارسی، ہندی جو عزت، لیاقت، گت، معاملت کے قافیہ پر آتے ہیں سب مؤنث ہیں جیسے چھت، شوکت، گت، معاملت، لیکن خلعت، شربت، ست مستثنیٰ ہیں۔
جملوں کی تذکیر و تانیث کا بیان
قاعدہ: فعل لازم میں فاعل کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آتی ہے۔ جیسے عورت آئی، مرد گیا۔ مصرع؎
کس لیے ٹھوکریں کھانے کو قیامت آئی
مصرع؎
کھا کے تیغ نگہ یار دلِ زار گرا
قیامت مؤنث ہے اس لیے آئی کہا، گرنا فعل لازم ہے۔ دل فاعل مذکر ہے اس لیے گرا کہا کہ تذکیر فاعل ظاہر ہو۔
قاعدہ: جب فاعل متعدی مع علامت ہے اور اُس کے ساتھ مفعول بھی ہے اور علامت مفعول نہیں ہے تو تذکیر و تانیث بلحاظ مفعول آئے گی۔ ظفر نے ایک نارنگی کھائی، ہُرمُزی نے اپنا کان پکڑا۔ اور اگر فاعل نہو جب بھی بہ لحاظ مفعول تذکیر و تانیث آئے گی۔ لاکھوں روپیہ آتش بازی میں پھونک دیا، ایک کوڑی خدا کی راہ میں نہ دی۔
قاعدہ: اگر فاعل متعدی مع علامت ہے اور مفعول نہیں ہے تو تذکیر و تانیث کا کچھ لحاظ نہیں کیا جائے گا۔ عورت نے کہا، مرد نے کہا۔متعدی مجہول میں مفعول کا لحاظ تذکیر و تانیث میں کیا جاتا ہے۔ احمد گرفتار کیا گیا، زینت بیگم بھگا دی گئی، لونڈی کو مار پڑی۔ جب کبھی مفعول کو فاعل بنا لیتے ہیں تو اس کی تذکیر و تانیث کا لحاظ کرتے ہیں:
ایک آنسو نہ ترا اے بتِ خونخوار گرا
جملے میں آنسو مفعول تھا، فعل کے ساتھ وہی فاعل لازم بنا اس لیے آنسو نہ گرا کہا کہ گرنا کا فاعل آنسو تھا۔ جب جملے میں علامت مفعول آتی ہے تو تذکیر و تانیث کا لحاظ نہیں کیا جاتا جیسے روٹی کو پھیک دیا، لونڈی کو مارا، آدمی کو بلایا۔
اور جب علامت نہیں آتی تو تذکیر و تانیث کا لحاظ بہ اعتبار مفعول کیا جاتا ہے۔ روٹی پھیک دی، لونڈی پٹی، آبرو خاک میں ملی۔
قاعدہ: ترکیب اضافی میں مضاف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آئے گی جیسے مٹی کا بندر، گیہوں کی روٹی، میرا بیٹا، میری بیٹی، ایک ملاح کا چھوکرا، خط کی رسید، مچل کے بیٹھ گئی اور بھی صدا میری، تاج محل کا روضہ، عدالتوں کی مہریں۔
قاعدہ: صفت کے جملے موصوف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آتی ہے۔ کھٹا نیبو، میٹھی نارنگی، کالا کمل، نیلی دری، ٹوٹی ہوئی چارپائی، پکا آم۔ کبھی موصوف محذوف بھی ہوتا ہے جیسے بے پر کی اڑاتے ہو۔ اس میں موصوف چڑیا مضمر ہے یعنی بے پر کی چڑیا اڑاتے ہو۔ محاورے میں اس کے معنی یہ ہیں کہ بے تکی بات کہتے ہو۔
قاعدہ: جملے میں اگر مضاف درمضاف ہے، جب بھی ہر ایک مضاف کے لحاظ سے تذکیر وتانیث الگ الگ آئے گی جیسے تمھاری ممانی کی نواسی کا مکان تیار ہے۔
قاعدہ: ترکیب اضافی فارسی میں بھی اسم کی تذکیر و تانیث مضاف کے لحاظ سے آئے گی۔ ہنگامۂ محشر بپا تھا، قطرۂ آب میسر نہ تھا۔
مجرئی خاتمۂ لشکرِ شبیر ہوا
چشمِ حیرت زدہ ہر حلقۂ زنجیر ہوا
ہٹتی ہے جس سے آتشِ دوزخ ہزار کوس
پھر مغفرت پناہ نہ کیوں ہو خطابِ اشک
بزم عزا بپا تھی، چشم امید جاتی رہی۔
اگر اضافت توصیفی فارسی ہے تو موصوف کے لحاظ سے تذکیر و تانیث آئے گی۔ تیغ ظلم چل رہی ہے؎
لباسِ سرخ پہنا اُس حسیں نے
اس میں لباس مذکر ہے، اس لیے پہنا کہا۔
اگر مفعول میں ترکیب اضافی ہے تو بھی تذکیر و تانیث مضاف کے لحاظ سے آئے گی جیسے میں نے اس کی مدد کی، اس میں مدد مضاف ہے اس لیے علامت تانیث آئی۔ اگر مفعول ترکیب اضافی نہیں رکھتا اور علامت مفعول بھی نہیں ہے اور فعل اسم مؤنث سے بنایا گیا ہے توتذکیر و تانیث مفعول کے لحاظ سے آئے گی جیسے میں نے ملک فتح کیا، اس میں فتح مؤنث ہے جس میں فعل مرکب کیا گیا ہے اور مفعول ملک مذکر ہے لہذا مفعول کے لحاظ سے علامت تذکیر آئی، میں نے مکان تعمیر کیا۔ ا س میں تعمیر مؤنث ہے جس سے فعل مرکب کیا گیا ہے، مکان مذکر ہے اس لیے علامت تذکیر آئی۔
قاعدہ: ہم کا لفظ صیغۂ جمع متکلم میں آتا ہے اور تعظیماً واحد متکلم کے ساتھ بھی بولتے ہیں۔ جب ایسا صیغہ مستعمل ہو تو امتیاز تذکیر و تانیث نہیں کیا جاتا اور دونوں حالتوں میں ایک ہی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں نے کہا ہم آتے ہیں، لڑکوں نے کہا ہم سبق یاد کرتے ہیں۔
قاعدہ: اگر دو اسم ذی روح ناطق ہیں ایک مؤنث ایک مذکر اس صورت میں فعل کی تذکیر و تانیث مذکر کے لحاظ سے آئے گی۔جب گھر میں میاں بی بی آئے تو کھانا پکا، دولھن دولھا چوتھی کھیل رہے تھے، ماں باپ خوش تھے، لیکن لونڈی غلام تو اپنے مالک کی خدمت کرتے ہیں۔
اگر ذی روح کے درمیان حرف عطف اور اسم عدد ہے تو تذکیر و تانیث اسم آخر کے لحاظ سے لی جائے گی، ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ اگر حرف عطف نہیں ہے تو بھی اسم آخر کا لحاظ کیا جائے گا، پانچ بیٹیاں ایک لڑکا تھا۔ اگر دونوں کے لیے ایک صفت بیان کی گئی اور دونوں شریک صفت ہیں تو علامت تذکیر و تانیث جمع ہو کربلحاظ تذکیر آئے گی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی تو پکی عمر کے ہیں۔
قاعدہ: اگر اسم مذکر مؤنث میں ایک جمع ہے توتذکیر تانیث بلحاظ اسم آخر آئے گی، ایک لڑکا اور سات بیٹیاں خدا نے دی تھیں۔
اگر اسم غیر ذی روح ہے تو تذکیر و تانیث بلحاظ اسم آخر آئے گی امرود اور نارنگی کھائی، دال چاول پکائے۔ گوشت روٹی کھائی۔ اگر اسم ذی روح غیر ناطق ہیں تو ان کی تذکیر و تانیث بلحاظ اسم آخر آئے گی، بیل بکری بندھی ہے، مرغ مرغی بند کی، بلی بندر کھل گیا۔
قاعدہ: مصدرمرکب جو ایک اسم اور ایک ہندی مصدر سے بنائے جاتے ہیں تذکیر و تانیث میں اپنے مفعول اور فاعل کے تابع ہوتے ہیں۔ احمد تحریر کرنے لگا، محمود تقریر کرنے لگا۔ یہ صورت فاعلی ہے۔ منشی نے کتاب تحریر کی، لڑکی نے سبق شروع کیا۔یہ صورت مفعولی ہے۔
مگر عرض کرنا اور گزارش کرنا کا استعمال دونوں طرح آتا ہے یعنی عرض کرنا کو جب مصدر مرکب بنا لیتے ہیں اور کہنا کے معنی پر بولتے ہیں تو کہتے ہیں، میں نے عرض کیا، میں نے گزارش کیا اور جب کرنا کو مصدر تصور کرتے ہیں اور مؤنث کو مفعول مؤنث تو عرض کی اور گزارش کی بولتے ہیں۔ لیکن جب ان کے ساتھ کوئی اسم ہوتا ہے تو ان دونوں کو فعل مرکب بنا کر مذکر ومؤنث بولنا لازم آتا ہے۔ جیسے میں نے ایک بات عرض کی، میں نے ایک جملہ گزارش کیا۔ قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرض اور گزارش کو اسم مؤنث خیال کرکے مفعول بنا کر محض کرناکو فعل قرار دے کر لوگ اس طرح بولنے لگے۔
اگر جملے میں اسم مذکر ہے تو فعل کو اُس کی اطاعت اظہار تذکیر میں اس طرح کرنا ہوگی کہ صیغے اور علامت صیغے میں اس کا اثر پایا جائے جیسے سوداگر آیا ہے۔ اس میں آیا مذکر واحد ہے اور ہے بھی واحد ہے۔گھوڑے آئے ہیں، اس میں اسم جمع ہے اس لیے آئے جمع مذکر ہے اور ہیں بھی جمع ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واحد مذکر کے ساتھ صیغے کے سب اجزا واحد بولے جاتے ہیں اور جمع مذکر کے ساتھ تمام اجزا جمع مذکر بولے جاتے ہیں دروازے پر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، دو خط پڑے ہوئے تھے۔ لیکن اسم مؤنث ہے تو بحالتِ واحد فعل کے سب اجزا اس کے تابع رہیں گے اور بحالت جمع فقط علامت پر اس کی اطاعت لازمی ہوگی اور اگر علامت نہ ہوگی تو صیغے کو اثر قبو ل کرنا پڑے گا جیسے بلی آئی ہے۔ اس میں بلی اسم واحد مؤنث ہے، آئی ماضی مؤنث واحد ہے، علامت ماضی قریب واحد ہے۔ بلیاں آئی ہیں، اس میں بلیاں جمع مؤنث ہے۔ آئی ماضی مؤنث صیغۂ واحد ہے، ہیں علامت جمع ماضی قریب۔ بلّیاں آئیں، اس میں بلّیاں جمع مؤنث ہے، فعل میں کوئی علامت ثانی نہیں ہے اس لیے صیغے کو جمع مؤنث بنا لیا۔ تو کیا آپا تم بڑے بھائی کے لیے رو رہی تھیں؟ نعیمہ نے اس وقت اپنے تئیں ایسا بنا لیا گویا دیر سے پڑی سوتی ہے، یہ باتیں ذہن میں بھی نہیں آئیں۔
قاعدہ: اسم مصدر کی علامت یائے معروف سے بدل کر فصحائے دہلی بولتے ہیں اور مصدر کو بجائے فعل استعمال کرتے ہیں۔ جیسے روٹی کھانی تھی، بازار سے ایک لُٹیا لانی ہوگی، تم کو مکھی مارنی پڑے گی، نیند آنی دشوار ہے۔ لیکن فصحائے لکھنؤ کہتے ہیں کہ مصدر اسم مذکر ہے اور کوئی مذکر اسم یائے تانیث کی تصریف قبول نہیں کرتا اس لیے ان کا استعمال اس طرح ہے: روٹی کھانا تھی، بازار سے ایک لُٹیا لانا ہوگی، تم کو مکھی مارنا پڑے گی، نیندآنا دشوار ہے۔
اسم صفت
اسم صفت وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی اچھائی یا برائی معلوم ہو، جوبغیر موصوف کے اپنے معنی نہ بتا سکے اور جزوِ موصوف ہو۔ اسم صفت حقیقت میں اسم کی پوری پوری تعریف میں نہیں آتا یعنی نہ وہ مستقل اسم ہے نہ بغیر دوسرے اسم کے ملائے ہوئےاپنے معنی بتا سکتاہے۔ خود نہ مؤنث ہے نہ مذکر، دوسرے اسم سے مل کر مذکر یا مؤنث بن جاتا ہے۔
اسم تشبیہ اور اسم صفت میں فرق یہ ہے کہ صفت اپنے موصوف کی ذات کا جزو بن کر آتی ہے اور تشبیہ اپنے مشبہ کی ذات سے کوئی تعلق ذاتی نہیں رکھتی۔ تشبیہ اور صفت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ تشبیہ کے ساتھ چند حروف مقررہ بھی آتے ہیں اور اسم صفت اور موصوف کے ساتھ کوئی حرف نہیں آتا جیسے کالا آدمی، کالی عورت۔ ان کو اس لیے صفت کہا کہ موصوف کا رنگ سیاہ ہے اور تشبیہ میں ایک قسم کی نسبت ہوتی ہے جیسے تمھارے بال سنبل کی طرح پریشان ہیں، یعنی بالوں کو سنبل سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے، صرف صورت پریشانی ایکساں ہے۔
شہ نے پھاڑا ہے گریبانِ قبا گُل کی طرح
اس میں گریبانِ قبا حقیقت میں گُل نہیں ہے مگر صورت ظاہری میں گل کے مانند معلوم ہوتا ہے۔ یعنی تعلق ذاتی کا نام صفت اور تعلق فرضی کا نام تشبیہ ہے۔
ہے سپر کاندھے پہ یا شب ہے سحر کے پیچھے
یا کوئی ابر کا ٹکڑا ہے قمر کے پیچھے
اس میں سپر کو باعتبار سیاہی کے شب سے مثال دی، حقیقت میں سپر شب نہیں ہے بلکہ مانند شب ہے اس سے معلوم ہوا کہ سپر کو شب سے کوئی تعلق ذاتی نہیں ہے۔ دوسرے مصرع میں ابر کا ٹکڑا سپر کو کہا،یہ بھی تعلق ذاتی نہیں ہے تعلق فرضی ہے یعنی حقیقت میں سپر ابر کا ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ جو صفت ابر کے ٹکڑے میں ہے وہ سپر میں بھی ہے یعنی سیاہی، حقیقت میں یہ دونوں موصوف ایک صفت کے ہیں، یعنی سیاہ کے۔
یا جیسے کہیں کہ تم تو بچوں کے مانند روتے ہو، تم عورتوں کی طرح ڈرتے ہو، یہ امرود بعینہ سیب معلوم ہوتا ہے، یہ بندر تو ایسا اُچکتا ہے جیسے لنگور، یہ آدمی ہے یا حیوان۔
اسم تشبیہ اور صفت کے جملے میں یہ فرق بھی ہے کہ اس میں تشبیہ کے دونوں اسم کبھی مذکر یا مؤنث ہوتے ہیں۔ مگر اسم صفت کے جملے میں تذکیر یا تانیث موصوف کی صفت کو بھی قبول کرنا پڑتی ہے کیونکہ اسم صفت نہ مذکر ہے نہ مؤنث جیسے پرانا مکان، پرانی چھت۔ اس میں پرانا اور پرانی اپنے اپنے موصوف یعنی چھت اور مکان کے تابع ہیں اور جز و ہیں اپنے موصوف کے۔
قاعدہ: اسم صفت اردو میں کئی طرح استعمال ہوتا ہے یعنی اگر اسم صفت اور موصوف دونوں ہندی ہیں تو بے اضافت جیسے اندھا آدمی، اندھی عورت۔ اس میں اسم صفت ایسا ہے جس کے آخر میں بحالت تذکیر الف ہے اور وہ موصوف مؤنث کے ہمراہ یائے معروف سے بدل کر آتا ہے، جیسے اُجلا کپڑا، اُجلی دری، میلا گھر، میلی کوٹھری؛ اسی طرح پیلا، کالا، نیلا، اچھا یہ صورت خاص ہندی الفاظ کے لیے ہے۔
دوسرے وہ ہندی الفاظ جن کے آخر مذکر میں الف نہیں ہے وہ مذکر مؤنث اسم موصوف کے ساتھ نہیں بدلتے جیسے کُند چُھری، کند چاقو، لال کبوتر،لا ل مرغی۔
قاعدہ: بعضے اسم صفت عربی فارسی کے ایسے ہیں جو مذکر موصوف کے ساتھ یائے مصدری لگا کر لائے جاتے ہیں اور مؤنث کے ساتھ تانیث کا نون جیسے خبطی مرد، خبطن عورت؛ بعض میں یائے فاعلی لگا کر تذکیر و تانیث موصوف کے ساتھ بولتے ہیں آفتی مرد، آفتی عورت۔ بعض مؤنث ذی روح کے لیے مخصوص ہیں جیسے خیلا عورت، چربانگ دیدہ عورت۔ بعض اسم صفت فعل سے فاعل سماعی بنا لیے جاتے ہیں جیسے رونا لڑکا، رونی لڑکی یعنی رونے والا، جھگڑالو لڑکا، جھگڑالو لڑکی۔
قاعدہ: بعض اسم نکرہ میں یائے مصدری لگا کر اسم صفت بنائے جاتے ہیں، جیسے جنگی سپاہی، فوجی سوار۔ بعض اسمائے نکرہ ہند ی میں (یلی) لگا کر اسم صفت مؤنث بنا لیتے ہیں جیسے پتھریلی زمین۔
قاعدہ: اگر صفت موصوف دونوں ہندی ہیں تو صفت کا پہلے آنا اچھا ہے جیسے کالا آدمی جا رہا تھا،اندھا بیل کنویں میں گر پڑا۔ لیکن بعض اسمائے صفت موصوف کے بعد اچھے معلوم ہوتے ہیں جیسے ہزاری مل بڑا سوم ہے۔ اس میں سوم اسم صفت ہے لیکن اپنے موسوم کے بعد آیا۔
اگر اسم صفت فارسی اسم موصوف ہندی ہے تو بھی صفت پہلے آئے گی سیاہ مرچ، سرخ مرچ، بہادر آدمی، آبدار موتی۔ اگر اسم صفت ہندی ہے اور موصوف فارسی جب بھی صفت پہلے آئے گی، اُس نے ہولے ہولے اپنے کلوں پر تماچے مارے۔ اس میں ہولے ہولے صفت ہے تماچے موصوف ہیں۔
قاعدہ: جب اسم صفت کے آخر میں بحالت تذکیر الف ہوتا ہے اور موصوف کو جمع بولنا منظور ہوتا ہے تو اُسے یائے مجہول سے بدل دیتے ہیں جیسے ڈھیلے کرتے، کالے کبوتر؛ اور بحالت تانیث کالی کبوتری۔ لیکن صفت کی جمع مؤنث نہیں آتی، اس حالت میں موصوف کو جمع کرتے ہیں، کالی کبوتریاں۔
قاعدہ: جب صفت موصوف دونوں فارسی یا ایک فارسی ایک عربی ہو تو اُ س حالت میں صفت آخر میں آئے گی اور موصوف کو اضافت دے دیں گے جیسے ابر سیاہ، رخت کہنہ، شمشیر عریاں، مردم بیمار۔ اس حالت میں صفت کا پہلے بولنا اور فکِّ اضافت کرنا خلاف فصاحت ہے۔
قاعدہ: اردو میں بھی جب صفت کو مضاف الیہ بناتے ہیں جب بھی موصوف کو آخر میں لاتے ہیں جیسے دل کا میلا آدمی، آنکھ کی اندھی عورت۔
دوست دشمن اسمائے صفت ہیں ان کی تذکیر مضمر رہتی ہے۔ اس لیے میرا دوست، میرا دشمن، بولتے ہیں لیکن جب تذکیر و تانیث معلو م ہو تو تا بع بولا جاتا ہے، جیسے وہ عورت میری دشمن ہے، وہ مرد میرا دشمن ہے۔
حاصل صفت
عربی فارسی اسم صفت میں جس کے آخر الف یا ہائے مخفی نہیں ہے یائے مصدری لگا کر حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے روشن، دشمن، بزرگ، سفید، سیاہ، عریاں، سیر، شوخ، بیکار، لازم، درکار، ضرور۔ ان کا حاصل صفت روشنی، دشمنی، بزرگی، سفیدی، سیاہی، عریانی، سیری، شوخی، بیکاری، لازمی، درکاری، ضروری آتا ہے۔
عربی کے اسم فاعل میں جبکہ وہ اردو میں اسم صفت ہوتے ہیں (تائے) تانیث لگانے سے حاصل صفت بن جا تے ہیں جیسے قانع ہادی سے قناعت اور ہدایت ارد و میں حاصل صفت ہیں۔ کبھی (یت) اضافہ کر کے حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے واقفیت، کاہلیت، جاہلیت حاصل صفت ہیں۔
بعض لوگ اسی طرح فارسی کے حاصل صفت پر (ے) زیادہ کر کے بے قاعدہ حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے دیر جو حاصل صفت اور مؤنث ہے اس کو دیری کہتے ہیں، یہ غلط ہے۔
بعض اسمائے صفت حاصل صفت کی تصریف قبول نہیں کرتے جیسے عبث، محض۔ بڑا اسم صفت ہے اس کی حاصل صفت بڑائی آتی ہے۔
قاعدہ: حاصل مصدر اور حاصل صفت میں فرق یہ ہے کہ حاصل مصدر ہمیشہ مصدر سے معنی مصدری کے لحاظ سے بنایا جاتا ہے اور کبھی مذکر کبھی مؤنث آتا ہے۔ لیکن حاصل صفت ہمیشہ اسم صفت سے بنایا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ مؤنث بولا جاتا ہے۔
نیل فارسی اسم نکرہ ہے فارسی والے (ی) زیادہ کر کے صفت مؤنث اور مذکر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔
لیکن اردو میں اس کا دوسرا قاعدہ ہے وہ نیلا کو اسم صفت مذکر بنا کر نیلی کو اسم صفت مؤنث بناتے ہیں اور اس کا حاصل صفت نِلاہٹ بولتے ہیں۔ اسی طرح گرم سے گرما ہٹ، نرم سے نرماہٹ بنا لیتے ہیں۔
اکثر اسمائے صفت ایسے ہیں جو تذکیر و تانیث کے لیے تصریف قبول نہیں کرتے جیسے نرم، گرم ان کا حاصل صفت اگر اردو کے قاعدے سے آتا ہے تو وہ لازمی مؤنث ہوتا ہے۔
بعض فارسی کے اسم مفعول جو اردو میں بجائے اسم صفت آتے ہیں اور جن کے آخر میں (ہ) ہوتی ہے،حرف آخر گراکر (گی) زیادہ کر کے حاصل صفت بنا لیتے ہیں جیسے پوشیدہ، پسندیدہ، آلودہ سے پوشیدگی، پسندیدگی، آلودگی۔
خاص اردو میں اسم صفت کی تصریف کا قاعدہ یہ ہے کہ اسم صفت ایک ہندی لفظ سے بنایا جاتا ہے جیسے میٹھ جو ہندی لفظ ہے اس کا اردو اسم صفت واحد تذکیر کے لیے میٹھا، جمع تذکیر کے لیے میٹھے، مؤنث واحد کے لیے میٹھی لیکن جمع مؤنث اسم صفت کی نہیں آتی اس لیے جمع مؤنث میٹھیاں جو قدما بولتے تھے، حال کے فصحا نے ترک کر دیں۔ اس کا حاصل صفت مٹھاس ہے اس کی جمع نہیں آتی۔
اردو میں حاصل صفت کئی قاعدے سے بناتے ہیں جیسے کھٹا اسم صفت ہے اس کی حاصل صفت کھٹاس۔ کالا اسم صفت ہے، اس کی حاصل صفت کالک ہے۔ پھیکا اسم صفت ہے، اس کی حاصل صفت پھکاس ہے۔ لال اسم صفت ہے، اس کی حاصل صفت لالی ہے۔ اردو میں حاصل صفت کی جمع بھی نہیں آتی۔ مٹھائی کو حاصل صفت سمجھنا غلطی ہے۔ اردو میں اسم نکرہ مؤنث ہے اور اس کی جمع مٹھائیاں بھی آتی ہے۔ چاہت حاصل صفت نہیں ہے حاصل مصدر ہے اس لیے کہ یہ چاہنامصدر سے بنایا گیا ہے۔
مجاز استعارہ
مجاز مرسل
جو کلمہ لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کے خلاف کسی غیر حقیقی معنی پر مستعمل ہو اُسے مجاز کہتے ہیں۔تعلق اور قرینہ سے معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ لفظ اپنے معنی کے خلاف مستعمل ہوا ہے، جیسے کسی سخی کو کہیں تم حاتم ہو۔ حقیقت میں وہ حاتم نہیں ہے لیکن سخاوت اور فیاضی کے تعلق سے اُس کا نام حاتم رکھ دیا۔ کسی بہادر کو کہیں تم شیر ہو، تو حقیقت میں وہ درندہ جانور نہیں ہے مگر شجاعت کے قرائن اور تعلق سے اُسے عارضی شیر کہدیا۔ کسی بیوقوف آدمی کو کہیں تو گدھا ہے تو حقیقت میں وہ جانور نہیں ہے، حماقت کی وجہ سے جو اس کی ذات میں ہے اُسے گدھا کہدیا۔ یہ قرینہ اور علاقہ کبھی مشابہت کا ہوتا ہے جیسے اُس کے گال گلاب کے پھول ہیں۔ حقیقت میں گلاب کے پھول کے معنی گال کے کسی لغت اور اصطلاح میں نہیں ہیں مگر باعتبار تر و تازگی و بہ اعتبار رنگ ایک قرینہ گلاب کے پھول اور گال میں پیدا ہوگیا۔ یا کسی خوبصورت آدمی کو کہیں تم چاند ہو تو بہ اعتبار حُسن کے چاند کہا۔ اُس کی آنکھیں آم کی پھانکیں ہیں، یہ صورت معنی بہ اعتبار وضع اور قطع ہے۔
مجاز میں اگر کوئی تعلق تشبیہ کا ہے اور حرف تشبیہ نہیں ہے اُسے استعارہ کہتے ہیں، میرے گھر وہ شمع رو آیا تو خانۂ تاریک روشن ہوگیا۔
استعارہ اور تشبیہ میں فرق یہ ہے کہ استعارے میں حروف تشبیہ نہیں آتے۔ اگر تشبیہ میں حروف تشبیہ شامل ہوں تو اُسے استعارہ نہیں کہیں گے تشبیہ کہیں گے۔جیسے چاند سے رخسار ے، کٹورا سی آنکھیں استعارہ نہیں ہے تشبیہ ہے۔
کبھی یہ صورت ترکیب اضافی میں یعنی مضاف مضاف الیہ سے پیدا ہو تی ہے، اَبرو کی تلوار نے قتل کیا۔ اس حالت میں مضاف مجاز ہے یعنی تلوار، کیونکہ تلوا ر نے نہیں قتل کیا ہے بلکہ اَبرو نے۔
قاعدہ: حالت اضافی میں مجاز کی پہچان یہ ہے کہ اگر اس کو نکال ڈالیں جب بھی معنوں میں فرق نہ آئے۔ اس طرح بھی بول سکتے ہیں کہ ‘تمھارے اَبرو نے قتل کیا’ اور معنی میں بھی فرق نہیں آیا۔
قاعدہ: حالت اضافی میں مجاز ہمیشہ مضاف ہوتا ہے، مثال رشکؔ:
غلط ہے خانۂ ہستی محل عیش آزاداں
کہ بندِ غم سے خالی کون ہے دنیا کے گھر بھر میں
خانۂ ہستی، بند غم بترکیب اضافی مضاف مضاف الیہ ہیں، دونوں کے مضاف یعنی خانہ اور بند کو نکال ڈالو معنی میں فرق نہیں آئے گا۔ یوں کہو
ہستی محل عیش آزاداں نہیں ہے
غم سے خالی دنیا کے گھر بھر میں کون ہے
گلشن دہر میں ہوں نگہت گل
اس میں گلشن مجاز ہے، مطلب یہ ہے کہ دہر میں نگہت گل ہوں۔
اگر یہ علاقہ باعتبار تشبیہ نہو بلکہ باعتبار دیگر مفروضات ہو تو اس کو مجاز مرسل کہتے ہیں۔
مجاز مُرسل میں اکثر تعلق ذہنی ہوتا ہے جیسے مُہری بہتی ہے۔حقیقت میں مہری نہیں بہتی ہے بلکہ مہری سے پانی بہتا ہے۔ پر نالہ چلتا ہے، حقیقت میں پرنالہ نہیں چلتا بلکہ پرنالے سے پانی بہتا ہے۔ اناج برستا ہے یعنی فصل کے موقع پر پانی برستا ہے۔ اسی طرح ناک بہتی ہے، آگ برستی ہے، چھت ٹپکتی ہے۔ یہ سب مجاز مرسل ہیں۔
ترکیب اضافی میں بھی مجاز مرسل آتا ہے جیسے خیال کی آنکھ سے دیکھو، اس جملے کے کہنے والے نے اپنے دل میں خیال کو ایک آدمی فرض کر کے اُس کی آنکھ تجویز کی۔ حالانکہ خیال کی آنکھ حقیقت میں نہیں ہے، محض خیال کو آدمی سے نسبت دی ہے۔ “گلشن عالم میں طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں”، عالم کو باغ فرض کر کے گلشن عالم کہا۔ اس میں سے مضاف کو نکال ڈالو اور یوں کہو، خیال سے دیکھو جب بھی معنی صحیح رہتے ہیں۔ گلشن کو نکال ڈالو اور یوں کہو، عالم میں طرح طرح کے پھول کھلتے ہیں، تو بھی جملہ میں فرق نہیں آتا۔
مجاز مرسل بترکیب اضافی اکثر نظم میں آتا ہے، سحرؔ:
پائے نظر اُلجھتے ہیں ہر بار ہاتھ میں
ایضاً
دو ہی قدم میں وادئ الفت کو طے کیا
دریائے غم کے پار ہوا چار ہاتھ میں
مثال اردو اضافت کی ؎
گانا سُنا کے ہم کو بیہوش کر دیا ہے
شیشے کے بھی گلے میں ساقی یہ لے نہیں ہے
اس سے یہ معلوم ہوا کہ مجاز کی دو صورتیں ہیں استعارہ، مجاز مرسل۔ استعارۂ غیر اضافی کی مثال : پونڈے نہیں ہیں مٹھائیاں ہیں۔ یعنی مٹھائیاں کا لفظ مستعار ہے اور وجہ شبہ باعتبار مٹھاس پائی جاتی ہے۔ حرف تشبیہ اس میں نہیں ہے اس لیے اس کو استعارۂ غیر اضافی کہیں گےکیونکہ کوئی اضافت بھی واقع نہیں ہوئی۔
کبھی استعارہ زیادہ لطیف الفاظ میں ادا کیا جاتا ہے جیسے ایک گنّے والا کہتا ہے، میاں کنکوے کون لوٹے گا۔ ظاہر ہے کہ گنے سے کنکوے نہیں لوٹتے ہیں بلکہ ہندوستان میں طویل بانس سے کنکوے لوٹتے ہیں اس لحاظ سے کہ گنے بہت بڑے ہیں گویا بانس کے برابر ہیں اور کنکوے لوٹنے کے قابل ہیں۔ گنے کو بانس سے تشبیہ ذہنی دے کر کہا۔ اس کو استعارۂ لطیف کہتے ہیں کیونکہ گنے اور بانس میں وجہ شبہ بہ اعتبار طویل موجود ہے۔
“شبنم کا قطرہ موتی ہے” موتی اور قطرے میں تشبیہ کامل ہے، حرف تشبیہ نہیں ہے۔ اس لیے استعارہ غیر اضافی ہے۔
صیاد ظلمت نے زاغ شب کے شکار کو دانۂ انجم دامگاہ سپہر پر بچھائے۔ اس میں صیاد ظلمت، زاغ شب، دام گاہ سپہر بترکیب اضافی مجاز مرسل ہیں۔ دانۂ انجم میں تشبیہ موجود ہ ہے اس لیے استعارہ اضافی ہے۔ اب ان سب کے مضاف نکال ڈالو، معنوں میں فرق نہ آئے گا جیسے ظلمت نے شب کو انجم سپہر پر بچھائے۔
نگہ کے تیر سے زخمی کیا دل
نگہ کو تیر سے تشبیہ ہے اس لیے استعارہ بترکیب اضافی اردو ہے۔
آج کل دریا بہت رواں ہے۔ یہاں دریا کا لفظ مجاز مرسل ہے کیونکہ دریا پانی کے معنی پر مستعمل ہواہے۔
اس کے کان نہیں ہیں یعنی بہرا ہے۔ یہاں کان کے معنی قوت سماعت کے لیے ہیں اس لیے کان مجاز مرسل ہیں۔
تصور گیسوئے شبگوں کا آیا شکر کرتا ہوں
سیہ پوشاک تھی درکار میرے کعبۂ دل کو
دل کو کعبہ کہنا مجاز مرسل ہے اس لیے کہ کعبہ سے دل کو کوئی نسبت باعتبار شبہ نہیں ہے۔ اس لیے کعبہ کا لفظ یہاں مجاز مرسل ہے۔
کوشش کرتے کرتے ہمت کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ یہاں پاؤں کا لفظ مجاز مرسل ہے اس لیے کہ ہمت کو آدمی فرض کر کے اس کے پاؤں بنا لیے۔
لغت، اصطلاح، روزمرہ اور محاورے کا فرق
لغت لفظ کے اُ س معنی کو کہتے ہیں جو واضع نے وضع کیے ہوں اور حقیقی ہوں، اُس کا دوسرا نام حقیقت لغوی ہے۔ مارنا مصدر متعدی ہے اس کے لغوی معنی چوٹ لگانا ہیں اور چاند قمر کے معنی پر لغت ہے، رات کو چاند کی روشنی بہت صاف تھی، اُ س نے اپنے لڑکے کو بہت مارا۔ یہ دونوں لفظ اپنے وضعی معنی پر مستعمل ہوئےاس لیے ان کو حقیقت لغوی کہیں گے۔ لیکن مارنا قتل کرنا کےمعنی پر اصطلاح ہے یعنی لغت میں یہ معنی وضع نہیں کیے گئے تھے، گفتگوئےعام میں کثرت سے ا س خاص محل پر استعمال ہونے سے ایک جدید معنی پیدا ہو گئے رستم نے ایک شیر مارا، عیدو کی چاند گنجی ہوگئی۔
لغت اور اصطلاح میں معنوی تعلق ضرور رہتاہے جیسے مارنا کے معنی چوٹ لگانے کے ہیں اس نسبت سے اس کو قتل کرنا کے بھی معنی پر بولتے ہیں۔
محاورہ ان دونوں سے الگ ہے۔ محاورہ ایک لفظ میں نہیں ہوتا بلکہ ایک جملہ میں ہو تا ہے یا دو تین لفظوں میں۔
چھو کرنا، پھونکنا کے معنی پر محاورہ ہے۔
تمھارا لڑکا بالکل دھان پان ہے یعنی دبلا ہے۔
آئینہ اندھا ہے یعنی میلا ہے۔
وہ ڈال کا ٹوٹا ہےیعنی عزت دار شریف ہے۔
اس کی رَتی زور پر ہے یعنی قسمت یاور ہے۔
اس بیان سے یہ معلوم ہو اکہ ہر لفظ موضوع کے لغوی معنی ضرور ہوتے ہیں اور بعض لفظوں کے ایک اصطلاحی معنی بھی ہوتے ہیں۔ ہر لفظ کے اصطلاحی معنی ہونا ضرور نہیں ہے۔ جس طرح اصطلاح کو لغوی معنی سے ایک خاص تعلق رہتا ہے محاورے میں بھی لغوی اور اصطلاحی معنی سے تعلق رہتا ہے۔ “آئینہ اندھا ہے”، اس میں بھی تعلق موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ جس آئینہ کی قلعی اُتر جاتی ہے وہ بے رونق ہو جاتا ہے اور اُس میں منہ نہیں دکھائی دیتا۔ بے رونق ہونے کے لحاظ سے آئینہ کو اندھا کہا۔
محاورہ اکثر اصطلاحی معنوں میں بنایا جاتا ہے۔
وہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا یعنی عزت دار ہے۔
اُس کے بال کھچڑی ہوگئے یعنی آدھے سفید آدھے کالے۔
روزمرہ وہ جملہ ہے جو لغوی معنی کے موافق استعمال کیا جائے، میں کل آؤں گا، تم کہاں ملو گے، صاحب ایک خط تمھارا پرسوں آیا اُس میں مندرج تھا کہ میں میرٹھ جاؤں گا، کاتب کی اجرت او ر کاغذ کی قیمت یہاں سے بھیج دی جائے گی۔
یہ سادہ جملے جس میں محض لغوی معنی لیے گئے ہیں روزمرہ میں داخل ہیں۔ روزمرہ کے استعمال میں مستند فصحا کی تقلید لازم آتی ہے۔ روٹی کو کھانا بولتے ہیں، پانی کو پینا، دال دَلنا، اناج پیسنا، صندل گِھسنا روزمرۂ فصحا ہے۔ اب کسی گاؤں کے لوگ ناواقفیت سے روٹی پینا اور پانی کھانا بولیں تو غلط ہے۔ اکثر لوگ دودھ کھانا بول جاتے ہیں، یہ بالکل غیر معتبر اور غلط ہے۔ ہر جملے کے استعمال کے لیے ہم کو تقلید کی ضرورت ہے اور جو لوگ اس تقلید سے باہر ہوجاتے ہیں ان کا کلام غیر مستند اور غلط ہوجاتا ہے۔
اَدب کلام
نظم ہو یا نثر سب میں ادب کلام کی ضرورت ہے۔ تمام زبانیں اسی وجہ سے علمی بن جاتی ہیں کہ ان کا ادب کلام عام ہوجاتا ہے۔ ادب کلام یہ ہے کہ واضعین زبان کی پیروی کی جائے اور اُن کے نقش قدم پر چل کر زبان کی ایک مستند شاہ راہ بنائی جائے، جو حدود مقررہ سے باہر قدم نکالے وہ نامقبول ٹھہرایا جائے۔ اسی طرح پیروی کرتے کرتے ہر جگہ ایک زبان ہوجاتی ہے اور جو لوگ اس کے خلاف لفظ استعمال کرتے ہیں ان کی زبان پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔ دہلی اور لکھنؤ جو اُردو زبان کے مستند شہر ہیں وہاں بھی ایسے خدا کے بندے ہیں جو عام بول چال کے خلاف غلط الفاظ بولتے ہیں جن کو فصحائے زبان قبول نہیں کرتے۔ اس سے ان کا شمار عوام میں ہے اور ان کی تقلید روا نہیں۔ بہت لوگ تخت کو تَخَت، سخت کو سَخَت، تسبیح کو تسبی، بیگانہ کو بگانہ، دیوانہ کو دوانہ، دیوار کو دیوال، ہے کو ہیگا بولتے ہیں۔ اسی طرح بعض مرکب جملے جیسے “شب لیلۃ القدر”، “للہ کے واسطے” وغیرہ وغیرہ بولتے ہیں۔ اسی طرح اطراف ہند میں خلاف محاورہ لکھنؤ و دہلی محاورات کا ستعمال کرتے ہیں جیسے “مجھ سے کہا” کی جگہ بعض لوگ “مجھ کو کہا” بول جاتے ہیں یا جیسے “اس کے بعد کہا”کی جگہ“اس کے بعد میں کہا” بولتے ہیں، “مجھے آنا” کی جگہ “میں نے آنا” اور “مجھے” کی جگہ “میرے کو” اور “مجھ کو” کے بدلے “میرے تئیں” اور “سے”کی جگہ “کر” جیسے “اس وجہ کر میرا آنا نہیں ہوا” یعنی “اس وجہ سے میرا آنا نہیں ہوا”۔ بعض لوگ موصوف کو محذوف کر کے صرف صفت کا استعمال کر جاتے ہیں۔جیسے “کل سے میری لڑکی کی طبیعت بدمزہ ہے” اس میں بد مزہ صفت اور طبیعت موصوف ہے اس کو اس طرح بولتے ہیں “کل سے میری لڑکی بدمزہ ہے” اور بعض متعدی جملے کو لازم بنا کر بولتے ہیں جیسے “میں نے کیا ہے” کو “میں کیا ہوں”۔ بعض مرکب مصادر ایسے ہیں جو خلاف صلہ مستعمل ہونے لگے ہیں اور اطراف و جوانب میں اس کا خراب اثر ایسا پھیلتا جاتا ہے جیسے بنا لینا، اٹھا لینا، چُن لینا، سُن لینا فصیح ہیں اور بکثرت بولے جاتے ہیں؛ اسی بنیاد پر بعض لوگوں نے “دے لینا”بھی بنا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں “ٹوپی سر پر دے لو” یعنی پہن لو، یہ غلط ہے۔ اور اسی طرح پا لینا بھی لوگ بولنے لگے یہ بھی غلط ہے۔ بعض پہننا کو پہرنا بولتے ہیں اور جاگتے کو جگتے اور دکھائی دینا کی جگہ دِکھتا بولتے ہیں جیسے “مجھے دکھائی نہیں دیتا” اس کو کہتے ہیں“مجھے دکھتا نہیں” اور “ادا کرنا” کو “ادا لینا”اور پکڑنا کی جگہ“جا لینا” جیسے “میں نے اس کو جا لیا” یعنی پکڑلیا اور کبھی چلے جانا کی جگہ بھی جیسے “جلدی کیا ہے، جا لینا”۔ اسی طرح بعض خلاف تلفظ اُردوئے معلیٰ مؤنث کے واحد کو جمع نہیں کرتے اور بجائے جمع بول جاتے ہیں جیسے “میرے پاس چارکتاب رکھی ہیں” یہ غلط ہے۔ یوں کہنا چاہیے “میرے پاس چار کتابیں رکھی ہیں”۔ اسی طرح ماہ صیام میں شب کو اٹھ کر جو کھانا کھاتے اور پانی پیتے ہیں اُسے “سحری کھانا” بولتے ہیں مگر اطراف میں “سحری کرنا” بولنے لگے۔
ایک سخت خرابی یہ بھی ہے کہ جو لوگ محاورات و اصطلاحات زبان اردو میں وقوف نہیں رکھتے لیکن زبان عربی و فارسی کے ماہر ہیں اردو میں فارسی عربی کے غیر مانوس الفاظ بترکیب اضافات کثیرہ آمیز کر کے اس کی اصلی خوبیوں کو مِٹا رہے ہیں، اس سبب سے غریب اردو کے چہرے پر بدنما دھبہ آنے کا خوف ہے جیسے شذرات، احساسات، اضاعت مالی۔
اسی طرح جملوں میں بھی ایسی بھونڈی زبان بولی جاتی ہے جو ادب کلام کو برباد کرتی ہے اور صرف نحو کی ہڈی پسلی ٹوٹ جاتی ہے۔ یعنی اسم کی جگہ فعل اور فعل کی جگہ فاعل اور فاعل کی جگہ مفعول اور مفعول کی جگہ حرف استعمال ہوتا ہے جیسے “پس تحقیق کہ آیا ہے بیچ اس آیۂ شریفہ کی تفسیر میں کہ معمول داؤد کا تھا یہ”، ایسے جملے زبان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ زبان سنسکرت کے غیر متعارفہ الفاظ شامل کرتے ہیں جن کے بولنے اور سمجھنے میں دماغ اور زبان کو سخت تکلیف پہنچتی ہے یہ سب ادب کلام کے خلاف ہے۔
بعض لوگ اضافت کی جگہ علامت مفعول بو ل جاتے ہیں جیسے “اس کو دور کا ارادہ ہے”، یہ بھی غلط ہے اس طرح بولنا چاہیے “اس کا دور کا ارادہ ہے” یا اس طرح سے “میں رکھ دیا ہوں” یعنی “میں نے رکھ دیا ہے” کی جگہ بولتے ہیں۔ اسی طرح “مان لیں گے” کی جگہ “مان لیویں گے”، اسی طرح تتلی کو تتری، گھینگا کو گھیگا، مچھلی کو مچھی، گتھی کو گلچھتی، ایک کو ایک ٹھو بولتے ہیں؛ یہ سب واجب الصحت ہیں اور بعض لوگ اسمائے صفت کو ترکیب دے کر غلط اسم فاعل بنا لیتے ہیں لال والا، کالا والا، سفید والا یہ بالکل غلط اور ناجائز ہے۔ بعض شعرا بھی اردو زبان کی عدم واقفیت کے سبب سے اردو فارسی الفاظ اور کثیر اضافتیں و حروف زوائد فارسی و حروف منادی لا کر خلاف طرز میرزایان دہلی نظم کے دائرے میں قدم رکھ جاتے ہیں جو قابل احتیاط ہے جیسے فارسی کے مصدر اردو میں معنی مصدری کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔
رفتن، گفتن کا استعمال اور از، در، بر کا استعمال جو مخصوص حرف ربط فارسی ہیں اور ہندی مخلوط یا کو تلفظ میں لانا ناجائز ہے جیسے پیار کو پَیار بفتح بولنا یانظم کرنا یانون ترکیبی کو بہ اعلان نظم کرنا یا بولنا جیسے دلِ ناتواں، تن بے جاں وغیرہ وغیرہ۔یا عربی لفظ کو فارسی لفظ کے ساتھ ترکیب دے کر اور اضافت فارسی کو برقرار رکھ کر بولنا جیسے “آفتاب بالکسوف” و “مہتاب بالخسوف”، لیکن بعض باتیں خلاف رسم کتابت بھی شعرا نے جائز کر لی ہیں اور قدما فصحا مرزایان دہلی بھی جائز رکھتے ہیں جیسے قافیہ ھ کا ساتھ الف کے جب لفظ مفرد ہو مرکب نہو، مژہ کو مژا لکھ کر جفا کے ساتھ ہم قافیہ کر سکتے ہیں یا الف مقصورہ عربی جو بشکل یا لکھا جاتاہے جیسے موسیٰ، عیسیٰ، دعویٰ کو موسا، عیسا، دعوا لکھ کر شیدا کے قافیے میں لا سکتے ہیں۔
بعض نے اصول مفروضہ شاعری سے انحراف کر کے الگ قدم رکھنا شروع کیا ہے۔ لباس تشبیہ و استعارہ کی آڑ میں تکرار اضافت کر کے الفاظ قبیح و تشبیہ خلاف عقل سلیم کو نظم کیاہے، اس روش سے احتیاط لازم ہے۔ جیسے تلوار کی تعریف میں کہا گیا ہے ؏
اٹھتے اٹھتے پرِ جبریل پہ منھ ڈال دیا
ناظم کا مطلب یہ ہے کہ تلوار نے پر جبریل پر منھ ڈال دیا۔مگر ایسا درست نہیں ہے اس لیے کہ “منھ ڈالنا” محاورہ ہے اور وہ ذی روح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح بول سکتے ہیں کہ بلی نے پتیلی میں منھ ڈال دیا، لیکن اس طرح نہیں کہہ سکتے کہ چمچے نے پیالے میں منھ ڈال دیا۔
نوک مژہ پہ اشکِ صباحت نظام ہے
سونٹے پہ آبنوس کے چاندی کی شام ہے
معشوق کی مژہ کو آبنوس کے سونٹے سے تشبیہ دینا خلاف عقل سلیم ہے۔
رنج درباں سے چھٹے احسان جسمِ راز کے
اکبری دروازے ہیں روزن تری دیوار کے
روزن دیوار کو اکبری دروازے سے تشبیہ دینا خلاف تہذیب زبان ہے۔
سر میں پھپوند لگ گئی آنکھوں کی سیل سے
یہ ضرور ہے کہ سیل یعنی نمی سے پھپوند لگ جاتی ہے مگر بال سفید ہونے کو پھپوند سے نسبت دینا اور اُس کو آنکھوں کی سیل کا سبب ٹھہرانا خلاف مذاق سلیم ہے۔
میرے دلِ شکستہ پہ رکھنا تھا تم کو ہاتھ
ٹوٹے ہوئے مکاں میں اَڑانا ضرور تھا
معشوق کے ہاتھ کو مکان کا اَڑانا کہنا خلاف ادب کلا م ہے۔
دیکھو نزاکت ان کی کہ دَھروا کے آئینہ
لگواتے ہیں ضماد مہاسے کے عکس پر
مہاسے کے عکس پر ضماد لگانا خلاف عقل بات ہے یا اسی قسم کے چند اشعار:
چَھرّہ چلا فلک پہ بُت خانہ جنگ کا
چھوٹا ہے نیل گاؤ پہ کُتا تفنگ کا
ایضاً:
خط کترنے میں ہے مَلتا عارض گلفام کو
بام کی کھونٹی میں لٹکا دو سرِ حجّام کو
ایضاً:
پیٹوں سر سُن کر جو گانا اس بُتِ بے پیر کا
دائرہ بجنے لگے حرفِ خطِ تقدیر کا
ایضاً:
مرغ جاں پھاڑے گی بلی آپ کے دروازے کی
رختِ تن کو کاٹے گا چوہا تمھاری ناک کا
ظاہر ہے کہ دروازے کی بلی اس کھٹکے کو کہتے ہیں جو دروازے کے اندر لگا ہوتا ہے اور اس سے دروازہ بند کرتے ہیں۔اُس بلی کا مرغ جاں کو پھاڑنا استعارۂ کثیف ہے جو خلاف عقل ہے اور ناک کے چوہے کا جو محض ایک میل ہے اسے جاندار تصور کر کے استعارہ بنانااور اس کا رخت تن کو کاٹنا توہم بیجا ہے۔
وہ جامہ زیب دہریہ بالا بلند ہے
پیجامہ جس کو چاہیے ہاتھی کے تھان کا
یعنی معشوق ایسا لمبا ہے کہ اس کو ہاتھی کے تھان کا پیجامہ چاہیے یعنی بہت لمبا۔اصل حقیقت یہ ہے کہ ہاتھی تھان ایک کپڑا ہوتا ہے جس پر ہاتھی کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ پس ایسے استعارے خلاف تلفظ روزمرہ ہیں اس سے احتیاط چاہیے ورنہ شعرپایۂ اعتبار سے ساقط ہو جائے گا۔ فقط