چودہ پندرہ برس پہلے کی بات ہو گی۔ میں غالباً ایف ایس سی کے بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ اگر بھولتا نہیں تو تبھی پنجاب میں نصاب تازہ تازہ تبدیل ہوا تھا۔ پڑھاتے پڑھاتے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صفحے کی عبارت دوسرے صفحے کی عبارت سے کچھ مختلف ہے۔ عجیب بے ربطی سی معلوم ہوتی ہے۔ غور کرتا ہوں تو بھونچکا رہ جاتا ہوں۔ صاف نظر آنے لگتا ہے کہ درسی کتاب (غالباً کیمیا کی) کا ایک صفحے ایک جگہ سے نقل کیا گیا ہے اور دوسرا دوسری جگہ سے۔ نقل کرنے والے عقل سے ایسے پیدل ہیں کہ ہجوں کا اختلاف تک رفع نہیں کر سکے۔ ایک صفحے پر مثلاً color لکھا ہے تو اگلے ہی صفحے پر اس کا املا colour ہے۔
یہ ایک واقعہ نہ تھا۔ میرا روزگار پڑھنے پڑھانے سے منسلک رہا ہے۔ آئے دن یہ لطیفے ہوا کرتے تھے۔ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک، شاگرد سے استاد اور استاد سے نصاب ساز تک، نظام کی اکثر بنیادیں ہوا میں تھیں۔ مگر میں قبول کرنے کو تیار نہ تھا کہ ہم اتنی دھوکے باز قوم ہیں۔ پھر دو تین برس پہلے ایک اور سانحہ ہوا۔ صدرِ پاکستان نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے تکنیکی تعلیم کا ایک عظیم الشان سلسلہ شروع کیا۔ پتا چلا کہ اول اول کراچی، لاہور جیسے بڑے شہروں کے لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ میں دیہاتی آدمی دل مسوس کر رہ گیا۔ مگر اگلے ہی سال وبا کی وجہ سے پروگرام آن لائن ہو گیا اور میں نے بڑے شوق سے داخلہ لے لیا۔
میں مصنوعی ذہانت کے کورس میں شامل ہوا تھا۔ دو تین گھنٹے کے لیکچر سنے۔ پھر جا کر آن لائن کورسز کی مشہور ویب گاہ کورسیرا (Coursera) کو کھنگالا۔ تصدیق ہوئی کہ پورے کا پورا کورس انگریزی سے گھٹیا اردو میں منتقل کر کے صدارتی جھنڈے تلے پڑھایا جا رہا ہے۔
ہمارے بچپن میں تحریری و تقریری مقابلے ہوتے تھے تو لوگ ڈھونڈے جاتے تھے جن سے مضمون اور تقریریں لکھوائی جا سکیں۔ یہ بھی ظلم تھا مگر اب قہر کا اگلا دور ہے۔ بچے انٹرنیٹ سے مواد نقل کرتے ہیں۔ استاد اور گھر کے بڑے بقدرِ ہمت کانٹ چھانٹ کر کے بچوں کو رٹا دیتے ہیں اور اے لو۔ ہمارا بچہ بورڈ میں اول آ گیا۔ الحمدللہ۔ وتعز من تشاء و تذل من تشاء۔
یونیورسٹیوں کے طلبہ کی کیفیت کیا لکھوں۔ ان کے تو اساتذہ کا حال بھی ناگفتنی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس تعلیم کے ساتھ ملک کا نظام چل کیسے رہا ہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ جیسے چل رہا ہے وہ بھی تو محتاجِ بیان نہیں۔ ایک مہربان کا قول یاد آ رہا ہے۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ میں یونیورسٹی میں نہیں پڑھ سکا تو کہنے لگیں، "اچھا ہوا۔ خراب ہو جاتے آپ۔ بالکل ویسے ہی ہوتے جیسے یونیورسٹی والے ہوتے ہیں۔”