میں نے اپنا میٹرک کا نتیجہ اٹھا کر دیکھا۔ اس پر بھٹی صاحب کے دستخط تھے۔ معلوم نہیں آج کل کیا چلن ہے مگر ہمارے زمانے میں نتیجے پر کلاس انچارج کے دستخط ہوا کرتے تھے۔ بھٹی صاحب میرے کلاس انچارج نہیں تھے۔ مگر انھوں نے بڑے چاؤ اور محبت سے میرے نتیجے پر دستخط کیے تھے۔ شاید اس کے لیے انھیں میرے استاد صاحب سے جھگڑنا بھی پڑا تھا۔
مجھے چند ماہ بھٹی صاحب کی جماعت میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ وہ چھریرے بدن کے نفیس سے آدمی تھے۔ گورے چٹے، خوبصورت، خوش لباس۔ ایک کان سے بہرے تھے۔ انگریزی اور اردو کے نہایت قابل استاد سمجھے جاتے تھے۔ جب ہمیں واسطہ پڑا تب عمر بھی کافی ہو گئی تھی۔ لڑکوں کی سرگوشیاں سن تو نہیں سکتے تھے مگر تاڑ لینے میں طاق تھے۔ پکڑے جانے والوں کی بےطرح پٹائی ہوتی تھی۔ اس لیے کمرۂ جماعت میں عموماً نظم و ضبط کا اچھا ماحول قائم رہتا تھا۔
سب کچھ ٹھیک تھا۔ بس ایک مسئلہ تھا۔ سکسٹی سکس!
صبح صبح حاضری کے وقت بھٹی صاحب کی گمبھیر آواز کمرے میں گونجنے لگتی:
ون، ٹو، تھری، فور۔۔۔
لڑکوں کی تعداد نوے سے اوپر تھی۔ سب کے رول نمبر پکارے جاتے۔ چھیاسٹھ پر ایک خاموش قیامت برپا ہو جاتی۔ بھٹی صاحب بولے جاتے:
سکٹی فور۔ سکسٹی فائیو۔ شکشٹی شکش!
ہم لوٹ پوٹ ہونے لگتے۔
خدا جانے کیا بات تھی۔ وہ سکسٹی سکس (66) ٹھیک طرح نہیں بول سکتے تھے۔ شاید بڑھاپے کی وجہ ہو۔ شاید کان کے مسئلے کا اثر ہو۔ انھیں غالباً اس کا احساس ہی نہیں تھا۔ وہ بڑے آرام سے شکشٹی شکش کہہ کر گزر جاتے اور لڑکوں کے منہ قہقہے ضبط کرنے کی جدوجہد میں سرخ ہو جاتے۔ میرے لیے ہنسی ضبط کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ ایک دو بار پکڑا گیا۔ مگر انھیں بتایا نہیں کہ چکر کیا ہے۔ البتہ مار کھانے کے بعد ردِ عمل کے طور پر میری جارحیت میں اضافہ ہو گیا۔
بعد میں وہ جماعت میں نے چھوڑ دی مگر نہ چھوڑا تو بھٹی صاحب کا پیچھا نہ چھوڑا۔ پہلے تو صرف ان کے طلبہ جانتے تھے کہ وہ سکسٹی سکس نہیں بول سکتے۔ پھر میں نے سارے سکول کو بتایا۔ حال یہ ہو گیا کہ بھٹی صاحب کو دیکھتے ہی کوئی لڑکا چپکے سے گنگناتا، "شکشٹی شکش!” اور پھر سب کا ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا۔ کچھ اور استادوں کو بھی خبر ہو گئی تھی۔ لیکن وہ ہنس کر خاموش ہو رہے۔ شاید یہ بچوں کے لیے سخت گیر استادوں سے انتقام لینے کا نفسیاتی حربہ تھا۔ کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مگر بھٹی صاحب کو کبھی بھی پتا نہیں چل سکا کہ ان کا شکشٹی شکش اتنا مقبول ہو گیا ہے۔
سکول کا دور ختم ہوا اور میں کالج پہنچ گیا۔ کالج کا قاعدہ الگ تھا۔ پانچ پیریڈ تھے اور پانچوں میں حاضری لگتی تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ استاد کی بجائے لڑکے اپنا رول نمبر اونچی آواز میں بولتے تھے۔ اور میرا رول نمبر تھا۔ سکسٹی سکس!
پہلے دن حاضری لگی۔ میں نے تھوک نگل کر کہا:
سکسٹی سکس!
میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ نہ جانے کیوں؟
اگلے پیریڈ میں پھر حاضری لگی۔ میں نے خود پر قابو پا کر رول نمبر پکارا۔ پھر تیسرا پیریڈ، پھر چوتھا، پھر پانچواں۔
کالج سے نکلتے ہوئے مجھے خیال ہوا کہ برا پھنس گیا ہوں۔ پتا نہیں کیوں سکسٹی سکس بولتے ہوئے دماغ پر شکشٹی شکش کا ہتھوڑا بجنے لگتا تھا۔ بھٹی صاحب یاد آ جاتے تھے۔ یاد کیا آتے تھے، چھا جاتے تھے۔ زبان سکسٹی سکس بولنا چاہتی تھی مگر ذہن چیخ چیخ کر کہتا تھا:
شکشٹی شکش! شکشٹی شکش! شکشٹی شکش!
اور پھر سرگوشیاں ہوتی تھیں۔ کن اکھیاں۔ دبے دبے قہقہے۔ لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے لڑکے!
دو چار دن اور گزرے تو میں نے خود کو سمجھانا شروع کیا۔ راحیل میاں! تم راحیل فاروق ہو۔ اے۔ ڈی۔ بھٹی نہیں۔ ڈرتے کیوں ہو؟ تم تو سکسٹی سکس بالکل ٹھیک بولتے ہو۔ بلکہ غلط بولنے والوں کا ڈٹ کر مذاق اڑاتے ہو۔ تمھیں کیا ہو گیا ہے؟ تم پر کوئی نہیں ہنسے گا۔ پاگل مت بنو۔ تمھارا تلفظ زبردست ہے۔ شاباش!
میں نے اکیلے میں سکسٹی سکس بولنے کی مشق کی۔ اونچا اونچا پکارا۔ بالکل ٹھیک۔ شاندار!
اگلے روز کالج پہنچا۔ حاضری لگنے والی تھی۔ میرا دل پھر ڈوبنے لگا۔ میں نے خود کو سمجھانا چاہا۔ زیرِ لب سکسٹی سکس دہرایا۔ سوچا کہ مجھے اس قدر خوف کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ خواہ مخواہ۔ پاگل پن۔
اچانک کسی نے زور سے ٹہوکا دیا۔ ہڑبڑا کر دیکھا تو پوری جماعت میری طرف متوجہ تھی۔ استاد صاحب نے ڈپٹ کر کہا۔ "رول نمبر بولو۔”
میں نے اٹکتے ہوئے کہا، سکس ٹی سکس ش!
کچھ لڑکے ہنس پڑے۔ لڑکے ان عمروں میں کسی بھی بات پر ہنس پڑتے ہیں۔ بےوقوف کہیں کے!
لڑکے واقعی بےوقوف تھے۔ یا شاید میں بہت عقل مند تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ میں کس عذاب سے گزر رہا ہوں۔ میں جانتا تھا یا میرا خدا جانتا تھا۔ بھٹی صاحب کو علم نہ تھا۔ کالج کے اساتذہ کو پتا نہ تھا۔ بہن بھائیوں، ماں باپ کو خبر نہ تھی کہ میں ایک اجل کی گرفت میں آ گیا ہوں۔
بھٹی صاحب دن میں ایک مرتبہ شکشٹی شکش بولتے تھے۔ میں پانچ مرتبہ سکسٹی سکس بولتا تھا۔ بھٹی صاحب بہرے تھے۔ میں اشاروں کی آوازیں بھی سن لیتا تھا۔ بھٹی صاحب پر لڑکے ہنستے تھے۔ میں نے یہ نوبت ہی نہیں آنے دی۔ ہائے۔ مگر یہ سب کتنا بھیانک تھا۔ سب اچھا، سب ٹھیک ہونے کی یہ قیمت کتنی بھاری تھی۔ کتنی کرب ناک!!
عذاب تھا کہ روز بروز شدید ہوتا جاتا تھا۔ میں جس قدر پیچھا چھڑانا چاہتا تھا سکسٹی سکس پیرِ تسمہ پا کی طرح اسی قدر میرے وجود میں دھنستا اور گڑتا چلا جا رہا تھا۔ میں نے کیا کیا چارے نہ کیے؟ کچھ لڑکے کالج چھوڑ گئے۔ میں کلرک کے پاس گیا اور کہا کہ ان میں کسی کا رول نمبر مجھے دے دو۔ اس ظالم نے جھاڑ کر بھگا دیا۔ میں نے سکسٹی سکس کی بجائے چھیاسٹھ بول کر حاضری لگوانے کی کوشش کی۔ ڈبل سکس کا آوازہ لگایا۔ مگر اساتذہ کی گھوریوں اور ساتھیوں کی پھٹکاروں کی تاب نہ لا سکا۔ پیریڈز میں دیر سے جانے کی کوشش کی۔ بے سود۔ خدا سے رو رو کے معافیاں مانگیں۔ وہ بھی بےسود۔
پڑھائی پر اثر پڑنا لازم تھا۔ میٹرک میں 86 فیصد نمبر لیے تھے۔ ایف ایس سی کے سال اول میں 67 فیصد آئے۔ جی ہاں، 66 سے ایک قدم آگے!
تو کیا یہ کوئی اشارہ تھا؟ کیا میں سکسٹی سکس کے وبال سے نکل آیا تھا؟ کیا میرا عذاب ختم ہو گیا تھا؟
شاید۔ شاید نہیں۔ وہ سال میری تعلیم کا آخری سال ثابت ہوا۔ اس کے بعد مجھے کبھی کسی درجے کی کسی جماعت میں بیٹھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ حادثات و سانحات نے ایسا گھیر کر مارا کہ پلٹ کر کالج یا یونیورسٹی کا منہ تک دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ جو کچھ تھوڑی بہت استعداد پیدا ہو گئی اس کی وجہ شاید بیوہ ماں کی دعائیں ہوں۔ یا شاید بھٹی صاحب جیسے لوگوں کی پرخلوص اور مشفقانہ خیر خواہیاں۔ بھولے لوگ۔ جنھیں کبھی میری کمینگیوں کا علم ہی نہ ہو سکا۔
مجھے آج بھی اس عدد کے انگریزی نام سے وحشت ہوتی ہے۔ گھبرا جاتا ہوں۔ پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ جو بھی ہوا اچھا ہی ہوا۔ بڑے مصائب سے گزرا ہوں۔ بڑے دکھ اٹھائے ہیں۔ مگر پھر بھی شکر کا مقام ہے۔ زندہ تو ہوں۔ تب کوئی مجھ سے کہتا کہ راحیل فاروق، تمھارے سب آشوب معاف۔ بس دن میں پانچ بار سکسٹی سکس بولا کرو۔ خدا کی قسم، مجھے لگتا ہے میں مر جاتا!