علم انصاف کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ جو شخص سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ سمجھ اور کہہ نہیں سکتا وہ عالم نہیں ہو سکتا۔ انصاف انسان کی خوبیوں میں سے نایاب ترین اور مشکل ترین خوبی ہے۔ میں خدا پر ایمان رکھتا ہوں۔ تصور کیجیے، کیسا اذیت ناک مرحلہ ہو گا کہ کوئی شخص وجودِ باری تعالیٰ کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل پیش کرے اور میں برا ماننے، ذاتی حملے کرنے، آئیں بائیں شائیں کرنے یا مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے صاف صاف تسلیم کروں کہ اس کا موقف میری نسبت درست تر ہے؟ خدا ہاتھ سے گیا۔ انا کی قربانی الگ دینا پڑی۔ معاشرتی سطح پر تنہائی، مخالفت اور ظلم و تعدی کا خوف اپنی جگہ۔ پھر ایک بنا بنایا نظامِ زندگی چھوڑ کر بے خدا کائنات میں نئے سرے سے جینا سیکھنا سب سے بڑھ کر کرب ناک۔ انصاف آسان نہیں ہے، صاحبو۔
یہ محض ایک مثال ہے، حقیقت نہیں۔ حقیقت البتہ یہ ہے کہ ہم ایسی ہی تکلیفوں سے بچنے کے لیے انصاف کا خون کرتے ہیں۔ سیاہ کو سیاہ کہنے سے اس لیے گھبرا جاتے ہیں کہ ہماری پوری زندگی اسے سفید پکارتے گزری ہے۔ سب لوگ یونہی کرتے ہیں۔ ایک سیدھی سادی زندگی کو خواہ مخواہ کسی نئی پخ کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے۔ تکلیف نہیں اٹھانا چاہتے۔ مگر مسئلہ یہ ہے، صاحبو، کہ یہ تکلیف علم کی قیمت ہے۔ ہم قیمت نہیں دینا چاہتے۔ علم کہاں سے لائیں گے؟
آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ قیمت بہت بھاری ہے۔ بہت کم لوگ ادا کر سکتے ہیں۔ انصاف، جیسا میں نے عرض کیا، انسان کی نایاب اور مشکل ترین خوبی ہے۔ لہٰذا علم والے بھی نایاب ہی ہیں۔ بہت کم۔ بہت ہی کم۔ باقی سب باتیں ہیں اور باتوں والے ہیں۔ سیاہ کو سیاہ نہ کہا تو پھر جو چاہے کہہ لیا۔ نیلا، پیلا، ہرا، سفید، سرمئی، جامنی، بھورا، لال۔ خدا نے انسان کو زبان بخشی ہے۔ دلائل تو اس کی نوک پر ہوتے ہیں۔ مگر انصاف کا ایک درجہ یہ تسلیم کر لینا بھی ہے کہ آپ کی اپنی زبان کی نوک پر موجود دلائل، آپ کے اپنے ذہنِ رسا پر نازل ہونے والی تاویلات اور آپ کے اپنے قلم سے نکلے ہوئے مقالات سیاہ کو سیاہ نہیں بنا سکتے۔ سفید یا سبز تو کیا بنائیں گے؟