مذہب کے بارے میں مضحکہ خیز ترین چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ اسے ایک عوامی اور معاشرتی مظہر خیال کیا جاتا ہے۔ فلسفے کے بارے میں لوگ ایسا نہیں سمجھتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ افلاطون سے مارکس تک بہت سے فلاسفہ کو عوام سے دلچسپی اور ان پر راج کرنے کا خیال رہا ہے مگر توریت، زبور، صحف الانبیاء، انجیل اور قرآن کی حد تک تو یہ طے ہے کہ ان میں اکثریت کو تقدیرِ مبرم کے طور پر جاہل قرار دیا گیا ہے اور انھیں سدھا کر ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کا کوئی خواب انسانیت کو نہیں دکھایا گیا۔
مسئلہ دراصل پیچھے، بہت پیچھے ہے۔ وہاں جہاں فلسفے اور مذہب کی بنیادیں ڈالی جاتی ہیں۔ اگر آپ تاریخِ فلسفہ و مذہب پر ایک غائر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ فلسفہ خود کو عوام کی سطح سے زیادہ سے زیادہ اوپر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور مذہب ہر ممکن حد تک عوام کی سطح پر اتر کر خطاب کرنا چاہتا ہے۔ یہیں سے اس سارے جنجال کی بنا پڑتی ہے جس نے کیا عاقل، کیا احمق، ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
فلسفی جب نظامِ کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تبھی عوام سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ذات، تعصبات، پس منظر اور ماحول سے ماورا ہو کر نظامِ ہست و بود پر اپنے تئیں ہر ممکن راست فکری کے ساتھ غور کرتا ہے۔ منطقیں لڑاتا ہے، نظریے قائم اور فسخ کرتا ہے، متبادلات کو زیرِ غور لاتا ہے، شک کرتا ہے، یقینی حقیقت کے امکانات کو جانچتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب وہ کام ہیں جن کی توقع آپ ایک دکان دار، ایک سیاست دان، ایک اداکار، ایک کھلاڑی، ایک طبیب، ایک مدرس، ایک ہنرمند سے بالعموم نہیں کرتے۔
پھر وہ وقت آتا ہے کہ فلسفی اپنے نتائجِ فکر کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہاں وہ عوام کی سطح سے اور زیادہ اوپر اٹھ جاتا ہے کیونکہ نہ صررف اس کے پیش کردہ خیالات عوامی نہیں ہوتے بلکہ ان کا بیان بھی اس قدر منطقی، بےرنگ، مطول اور غریب ہوتا ہے کہ عام آدمی پانچ مرتبہ پیدا ہو کر بھی اسے نہیں سمجھ سکتا۔ لہٰذا تاریخِ فلسفہ کے اکثر شاہ کار اچھے خاصے احمقانہ اور مجنونانہ افکار کے حامل ہونے کے باوجود فلسفہ کہلاتے ہیں اور ایک مرعوب کن تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وجہ صرف یہی کہ وہ عوام کی سطح سے اوپر اٹھ کر تالیف کیے گئے ہیں۔ نہ عوام انھیں سمجھ سکتے ہیں نہ ان کا محاکمہ کر سکتے ہیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری!
مذہب کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس میں خدا آدمیوں میں سے ایک آدمی کو چنتا ہے کہ جو لوگ حقیقت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں انھیں راہ دکھائے۔ وہ چنا ہوا آدمی، وہ فرستادہ، وہ رسول، وہ پیغمبر، وہ نبی خدا کے حکم کا مکلف ہو کر جہاں جہاں ممکن ہوتا ہے وہ پیغام پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے ذمے عائد کیا گیا ہے۔ الہامی کتابیں شاہد ہیں کہ ان ہستیوں کی مشکل بڑی مشکل ہوا کرتی ہے۔ وہ اپنے تمام تر پاکیزہ کردار، لطیف طبیعت، سلامت روی اور بےریائی و درویشی کے باوجود عوام کے ریوڑ میں دھکیل دیے جاتے ہیں کہ جاؤ، انھیں ہانک کر راہ پر لانے کی کوشش کرو۔ ستم بالائے ستم ساتھ ساتھ یہ اطلاع بھی ہوتی رہتی ہے کہ ان کی اکثریت محض جانور ہیں اور یہ باتیں کبھی نہیں سمجھنے والے۔ گویا کج دار و مریز والا معاملہ ہوتا ہے۔
مذہب کا پیغام فلسفے کی طرح ظنی اور مبنی بر گمان نہیں ہے۔ فلسفہ اپنے تئیں حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ مذہب میں حقیقت خود خدا تعالیٰ کے رحم اور فضل سے انسانوں پر اترتی ہے۔ فلسفہ اس پیاسے کی طرح ہے جو ریگزاروں میں تڑپتا پھر رہا ہو کہ کہیں سے ایک بوند، محض ایک بوند پانی مل جائے۔ مذہب اس مینہ کی مانند ہے جو گھر بیٹھے ہوئے شخص پر برسے اور اسے نہال کر دے۔ پیغامبر گویا اس بارش کو لانے والے بادل ہیں۔ وہ خود نہیں آتے۔ اپنے ہدف کا تعین خود نہیں کرتے۔ مگر صحرا میں مارا مارا پھرنے والے پیاسے سے کہیں زیادہ سفر انھیں طے کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ منزلیں مارنی پڑتی ہیں۔ عوام کا کہیں زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذا فلسفہ جہاں عوام کی دسترس سے ماورا ایک مسند پر متمکن ہو جاتا ہے وہاں مذہب خود ہر کس و ناکس کو گلے لگاتا پھرتا ہے۔ خدا کے چنے ہوئے، مامور بندے خواہی نخواہی اپنی جانوں پر کھیل کر اس کا پیغام سادہ انداز اور آسان لفظوں میں ہر کسی تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس سادگی اور آسانی سے دھوکا مت کھائیے۔ یہ پیغام خدا کا پیغام ہے۔ یہ کلام کلامِ یزدانی ہے۔ بات اتنی سادہ اور آسان بھی نہیں ہے جتنی عوام کے لیے کر دکھائی گئی ہے۔ پرتیں ہیں۔ تہیں ہیں۔ درجے ہیں۔ ایک ہی کتاب ہر کسی سے اس سطح کا خطاب کر رہی ہے جس پر کوئی ذہنی اور روحانی اعتبار سے موجود ہے۔ وہ سادہ لوح ہے تو بہت سادہ باتیں ہیں۔ وہ اوسط درجے کا آدمی ہے تو یہ بےمثل پیغام کچھ اور بھی کہہ رہا ہے۔ وہ ایک دقیقہ رس اور نکتہ شناس مدبر ہے تو ان اساطیری بیانات میں اسے اسطورۂِ کائنات کھلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ مذہبی کتب کا یہی اعجاز ہے جس کے سبب جو دھوکا کھانا چاہتا ہے وہ بڑی تسلی سے کھا جاتا ہے اور جو محتاط اور چوکنا ہو کر ان پر نظر کرتا ہے وہ کانپ کر رہ جاتا ہے۔ یہ احتیاط، یہ چوکنا پن، یہ کھٹکا، یہ خبر داری وہ ہے جسے قرآن تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے۔ تقویٰ کے مقابل قرآن میں استغنا لایا گیا ہے جس میں انسان بےفکر اور نڈر ہو کر دندناتا پھرتا ہے اور یہی لا ابالی پن، غیر سنجیدگی اور سرکشی اسے کفر تک پہنچا دیتی ہے۔
آمدم بر سرِ مطلب، نکتہ یہ ہے کہ مذہب آ بیل مجھے مار کے مصداق ہمیشہ خود عوام سے خطاب کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنے پیغام کی رسائی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ فلسفہ عوام پر تسلط کا خواب دیکھ سکتا ہے، عوام کو خواص کے برابر لا کھڑا کرنے کی بڑ ہانک سکتا ہے، ایک مثالی حد تک ایماندار اور عادلانہ معاشرے کا سبز باغ دکھا سکتا ہے مگر عوام کی سطح پر اتر کر ان سے کلام نہیں کر سکتا۔ نتیجہ بدیہی ہے کہ فلسفے تک تو عوام پہنچ ہی نہیں پاتے مگر مذہب پر جونکوں کی طرح لد جاتے ہیں۔ وہ علم، وہ ہدایت، وہ حکمت جو ان کی فلاح کے لیے ارزانی کی گئی تھی رفتہ رفتہ اپنے ہی طفیلیوں کے ہجوم میں گم ہونے لگتی ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ کوئی شخص مذہب کی حکمت اور حقانیت کا شہرہ سن کر نکلتا ہے تو اس کا سامنا نہیں ہوتا مگر پوچ خیالات، لغو عقائد اور سستے جذبات کے ایک سڑے ہوئے کچرا گھر سے۔ اور وہ ہنس کر سوچتا ہے۔ یہی مذہب ہے؟ شعر فہمئِ عالمِ بالا معلوم شد!
تو صاحبو، مذہب کی مثال گڑ کی اس ڈلی کی سی ہے جسے ان گنت چیونٹیاں چمٹی ہوئی ہوں۔ جو اٹھائے گا زک اٹھائے گا۔ اندر لے جانے کی جرأت کرے گا تو سخت اذیت اور کراہت کے عالم میں اگلنے پر مجبور ہو جائے گا۔ گڑ کی مٹھاس اور ذائقے سے ناواقف ہوا تو یہی جانے گا کہ یہ محض کسی مردار کا لوتھڑا تھا جو کیڑے مکوڑوں ہی کا رزق ہو سکتا ہے۔ لیکن علم والا ہوا، متقی اور محتاط ہوا تو سمجھے گا کہ فی الحقیقت گڑ ہے اور یہ دراصل اس کی حلاوت ہی ہے جو ڈلی کے اس حال کو پہنچنے کا سبب بنی ہے کہ کوئی ہوش مند اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔ گلی کے روڑے اور گڑ کی ڈلی میں یہی تو فرق ہوتا ہے!