بہت بار ہوتا ہے کہ ہم کوئی خوبی یا صفت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر نہیں کر پاتے۔ اس کا ایک سادہ سا حل میری سمجھ میں آیا ہے اور وہ بڑا دلچسپ ہے۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے جن میں وہ خوبی پائی جاتی ہے۔ انھیں تسلیم کیا جائے۔ ان سے محبت کی جائے۔ آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں جن کی طرح وہ بننا چاہتے ہیں۔ حسد اصل میں محسود کی شخصیت اور کمال کا انکار ہے۔ ہم انھیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں جن سے ہمیں سیکھنا چاہیے تھا۔ انھیں دیکھنا ہی نہیں چاہتے جو در حقیقت ہمیں اچھے لگتے ہیں۔
کوئی اچھائی اپنے اندر پیدا کرنے کی خواہش ہے تو اس کا راستہ اچھے لوگوں کی محبت اور صحبت ہے۔ اگر انھیں رد کر دیں گے تو اس اچھائی کو رد کر دیں گے جس کی تڑپ ہمارے دل میں انھیں دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ بڑی نادانی کی بات ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ اگر کسی شخص میں کوئی خوبی پائی جاتی ہےتو وہ گویا اس خوبی کا چراغ ہے۔ اس سے منہ پھیر لیا تو پھر ہمیں اندھیروں پر قناعت کرنی پڑ سکتی ہے۔ روشنی کی آرزو آرزو ہی رہ جائے گی۔
غالبؔ کا ایک شعر ہے:
ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے
یعنی محبوب کسی پر عاشق ہوا اور اس عشق نے اس کے حسن اور نزاکت میں اضافہ کر دیا۔ اب عشق کی کٹھنائیاں دیکھ کر اس کا رنگ اڑنے لگا ہے اور جتنا اڑتا جاتا ہے اتنا کھلتا جاتا ہے۔ یہ محض شاعرانہ نازک خیالی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن سے عشق آدمی کو حسین بنا دیتا ہے۔ بد صورتیوں پر توجہ آدمی میں بد صورتی پیدا کرتی ہے۔ نطشے جرمنی کا ایک مشہور فلسفی گزرا ہے۔ اس کی نفسیاتی بصیرت ایسی بے نظیر ہے کہ سگمنڈ فرائڈ جیسا ثقہ ماہرِ نفسیات رشک کرتا تھا۔ نطشے کا قول ہے کہ عفریتوں سے لڑو تو دھیان رکھو کہ کہیں خود عفریت نہ بن جاؤ۔ کیونکہ اگر تم پاتال میں جھانکو گے تو پاتال تم میں جھانکے گا۔
انجیلِ لوقا میں سیدنا مسیح علیہ السلام سے مروی ہے کہ
تیرے بدن کا چراغ تیری آنکھ ہے۔ جب تیری آنکھ درُست ہے تو تیرا سارا بدن بھی رَوشن ہے اور جب خراب ہے تو تیرا بدن بھی تارِیک ہے۔
نگاہ اچھی چیزوں پر پڑتی ہے تو بدن اور روح پر بھی اچھائی کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حسن، خیر اور صداقت آفتاب کی مانند ہیں جس کی کرنیں آنکھ کی کھڑکی سے ہماری ذات کے نہاں خانوں تک پہنچتی ہیں اور انھیں منور کر دیتی ہیں۔
پس اپنے اندر حسن پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ حسن والوں سے محبت کی جائے۔ اور اپنے اندر کی بد صورتی کو نمایاں کرنے کا خیال ہو تو دوسروں کی بد صورتیوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔