زندگی کا آغاز اس حال میں ہوا کہ دودھ ہضم نہیں ہوتا تھا۔ والد صاحب طب اور چائے دونوں سے محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے یہ حل نکالا کہ والدہ کو مجھے دودھ پتی پلانے کا پابند کر دیا۔ فیڈر سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور ان شاءاللہ جنت کی نہروں میں پتی ڈالنے تک جاری رہے گا۔ دوست بھی ایک چائے اضافی منگواتے ہیں۔ سب ایک پئیں تو میں دو پیتا ہوں۔
اب لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ کوئی بچوں سے نعرے لگوا کر اسلام کی حقانیت ثابت کروا رہا ہے۔ کوئی کتابیں پکڑا کر دانشورانہ رجحانات دکھانا چاہ رہا ہے۔ معلوم نہیں یہ سب کرنے والے نادان ہیں یا دیکھنے والے۔ بچے کو جس راہ پر لگا دیا جائے لگ جائے گا۔ اس کا عشقِ رسولﷺ سے تعلق ہے نہ فلسفے سے۔ انسانی طبیعت کی اثر پذیری سے ضرور ہے۔
انسان کی بے بسی ملاحظہ ہو کہ عمر کا بڑا حصہ زندگی کے بارے میں دوسروں کی بتائی ہوئی باتوں کا محتاج ہوتا ہے۔ والدین بتاتے ہیں کہ یوں ہے اور یوں نہیں۔ اساتذہ بتاتے ہیں۔ معاشرہ بتاتا ہے۔ میں نے بہن کو دیکھا کہ اس نے بھانجے سے مذاقاً کہا کہ گیند کو نیچے پھینک کر دھڑام کی آواز نکالو تو وہ اچھل کر واپس ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ ننھا لڑکا کافی دیر اس بھروسے پر آوازیں نکالتا اور کوشش کرتا رہا۔ گیند واپس نہ آئی تو معلوم ہوتا تھا کہ بیچارہ یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکتا کہ قصور خالہ کا ہے یا گیند کا۔ زندگی کے بارے میں بہت سی غلط باتیں ہم تک پہنچتی ہیں مگر ہم ہمیشہ ان کا فیصلہ بھی نہیں کر سکتے۔
بہت سے لوگ اس حال میں زندگی بسر کرتے ہیں کہ جو کچھ بتا دیا گیا اس سےمرتے دم تک سرِ مو انحراف نہیں کیا۔ ابا سنی تھے۔ بیٹا بھی سنی ہی مرے گا۔ نسلوں کی نسلیں ایک عقیدے پر جیتی اور مرتی چلی جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی لوگ بہت قدر کرتے ہیں۔ یہ انھیں ایک لحاظ سے اس طبیب کی طرح کا معاملہ نظر آتا ہے جس کے باپ دادا بھی طب سے متعلق تھے اور نسل در نسل تجربے میں اضافے نے اس کی حکمت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ زیادہ تر فکری، نظریاتی اور اخلاقی جمود کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر یکے بعد دیگرے موٹی عقل کے بچے پیدا کرنے کا۔ لوگ یا زندگی کو سمجھنا نہیں چاہتے یا سمجھ ہی نہیں سکتے۔ اگلوں کی بتائی ہوئی راہوں پر بھیڑ بکریوں کی طرح چلے جاتے ہیں۔
انسان کے اکثر معتقدات و نظریات کے دو ہی مآخذ ہیں۔ تربیت اور ردِ عمل۔ یا تو ہم کوئی بات اس لیے مانتے ہیں کہ وہ ہمیں بتا دی گئی یا پھر اس لیے کہ ہمیں کسی حادثے نے کوئی اور سبق دے دیا۔ ان سے ہٹ کر غور و فکر کی زحمت بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ تربیت کا تو زور ہی بیشتر اس بات پر ہوتا ہے کہ زندگی کے حوادث و سوانح اگر انسان کو کچھ نیا سکھائیں بھی تو وہ اپنے بزرگوں کی باتوں پر ڈٹا رہ سکے۔ حوادث کا معاملہ دوسری جانب یہ ہے کہ وہ بعض اوقات اس تربیت کے خلاف شدید جذباتی ردِ عمل پیدا کر دیتے ہیں۔ انسان اگلوں کی صحیح باتوں پر بھی محض اس لیے تنقید شروع کر دیتا ہے کہ ان کی بعض باتیں غلط ثابت ہوئیں اور اسے کوئی تکلیف اٹھانا پڑی۔ راست فکری ایک بڑے نازک توازن کے قائم رکھنے کا نام ہے جس کے لیے علم کی سچی تڑپ کے ساتھ ساتھ صبر اور بلند حوصلگی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ جلد باز، جذباتی اور بے انصاف آدمی علم کی راہ پر زیادہ دور تک قدم نہیں مار سکتا۔
ان پیمانوں پر دیکھا جائے تو دنیا میں بہت کم لوگ ہوں گے جنھیں عالم کہا جا سکے۔ زیادہ تر لوگ اپنی معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور نظریاتی تربیت کے اسیر ہیں یا ردِ عمل کی چوٹ کھائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ کسی چیز کی حمایت کریں یا مخالفت، برابر ہے۔ بظاہر تو آپ کو ان کے پاس دلائل نظر آ جائیں گے مگر غور کی نظر سے دیکھنے پر معلوم ہو گا کہ یہ بھی تدبر و تفکر کی بجائے تربیت یا ردِ عمل ہی کا شاخسانہ ہیں۔ علم کی بے لوث جستجو اور حق کی دیانت دارانہ تلاش سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
بات بچوں سے شروع ہوئی تھی۔ بچوں ہی پر ختم کرتے ہیں۔ یہ ننھی سی جانیں اپنے بڑوں کے ہاتھ کے کھلونے ہیں۔ چابی دے کر چھوڑ دیے جاتے ہیں اور یہاں وہاں ٹک ٹک ٹک ٹک کرتے پھرتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی آواز اٹھائیں یا گستاخ کا سر تن سے جدا کرنے کے نعرے لگائیں، ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بات تو بچہ بچہ جانتا ہے۔ فلاں کام تو بچہ بھی کر سکتا ہے۔ جی نہیں، بچہ وہی جانتا ہے اور وہی کر سکتا ہے جو سکھا دیا جائے۔ آپ نے اسے کچھ سکھا دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کوئی آفاقی حقیقت اور ازلی سچائی ہو گئی۔ صرف یہ مطلب ہے کہ آپ نے ایک جان کو ایسی زندگی پر مجبور کر دیا جیسی آپ چاہتے ہیں۔ کیا غضب ہے کہ ہم ان معصوموں کو اپنے عقائد و نظریات کی تبلیغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گویا یہ علم کی سچی روشنی ہے جو بچے کی فطرتِ سلیم سے پھوٹ رہی ہے۔ جی نہیں، یہ وہ رنگ ہے جس کا غلاف آپ نے اس معصوم کے دل و دماغ پر چڑھا دیا ہے۔ اب وہ کوئی کام کرے یا کبھی نہ کر سکے، کسی عقیدے کو مانے یا اس پر تنقید کرے، اچھی چیز کو اچھا جانے یا برا، اس کا اس کے علم، اخلاق یا کردار سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ تو محض ایک سبق ہے جو اس غریب نے آپ کو خوش رکھنے کے لیے طوطے کی طرح رٹ لیا ہے۔ اس کی بات اس کی ہے ہی نہیں۔ اپنی بات کرنے کے قابل ہونا بڑا شرف ہے جس کے لیے علم کی محبت اور پھر ایک عمر چاہیے ہوتی ہے۔ عمر تو اکثر کو مل جاتی ہے۔ علم کی محبت نہیں ملتی۔