میں نے اللہ کے جلیل القدر بندوں میں خواہ وہ پیغمبر ہوں یا ولی، ایک قدرِ مشترک عجیب دیکھی ہے۔ وہ مباحثے نہیں کرتے۔ مناظروں میں حصہ نہیں لیتے۔ فلسفے نہیں بگھارتے۔ کتابیں نہیں لکھتے۔ سیدنا نوح علیہ السلام سے ابراہیم علیہ السلام تک اور موسیٰ علیہ السلام سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک سب کے سب انبیا و رسل کے بارے میں الہامی متون یہ شہادت دیتے ہیں کہ وہ بحث کرنے والے نہ تھے۔ سوال ہوتا تھا تو خطبہ نہیں دیتے تھے۔ ایک دو جملوں میں بات کہہ دیتے تھے۔ کوئی حجت کرتا تھا تو جواب در جواب کی بجائے کنارہ فرماتے تھے۔ ان کے پیروکاروں میں سے بھی میں نے جنھیں اس روش پر گامزن پایا، انھیں ضرور بالضرور ولی سمجھا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔
کردار سب سے بڑی چیز ہے۔ یہ سبق میں نے دنیا کے عظیم ترین انسانوں سے سیکھا ہے۔ الفاظ کا سہارا وہ لیتا ہے جس کے پاس کردار نہ ہو۔ میں خود بہت بولنے والا، تفصیل بیان کرنے والا، اپنے تئیں سمجھا سمجھا کر بات کرنے والا شخص ہوں۔ ذاتی حیثیت میں گواہی دے سکتا ہوں کہ یہ رویہ وہیں زیادہ ظاہر ہوتا ہے جہاں خود اپنے کہے پر ایمان نہ ہو۔ اردو کی مثل ہے۔ تھوتھا چنا باجے گھنا۔ خالی برتن بجتے ہیں۔ ہم لوگوں سے کلام نہیں کرتے۔ خود سے کرتے ہیں۔ اگر خود قائل ہوں تو زیادہ بولنا نہیں پڑتا۔
الفاظ پر معاملات کی بنیاد رکھنے والے ہوائی قلعوں کے باسی ہیں۔ باتوں کی اہمیت یہ ہے کہ جو جی چاہے مانتے ہیں اور جو جی چاہے رد کر دیتے ہیں۔ اہمیت تو جی کی ہے۔ جب چاہتا ہے مان لیتے ہیں۔ جس کا چاہتا ہے وہ مان لیتا ہے۔ کتنے ہیں کہ وہی بات نہیں مانتے۔ ان کا جی نہیں چاہتا۔ یہ معاملہ عقل سے تعلق نہیں رکھتا۔ عقل والے آپس میں بے عقل لوگوں سے زیادہ اختلافات رکھتے ہیں۔ بات اصل میں جی ہی کی ہے۔
ہوش سنبھالا تو ادیبوں اور دانش وروں کو کہتے سنا کہ لفظ بے توقیر ہو گیا ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ اس کی توقیر تھی ہی کب؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو نہ تھی۔ قرآن اتر آیا تھا مگر جن کا جی نہیں چاہا نہیں مانے۔ کلمتہ اللہ کے زمانے میں تو نہ تھی۔ یہوداہ اسکریوتی ان لوگوں کی بات مان گیا تھا جو انھیں مصلوب کرنا چاہتے تھے۔ سقراط کے زمانے میں تو نہ تھی۔ لوگوں نے اس پر فصاحت کی تہمت بھی باندھی مگر زہر بھی دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی نہ تھی۔ فرعون قائل ہوا نہ بنی اسرائیل رام ہو سکے۔ یہی داستان آدم کے بیٹوں تک چلی جاتی ہے۔ لفظ کی کیا توقیر ہے؟
تان سین گزر گیا۔ کتنوں کے دلوں میں حسرت ہے کہ اس کے سر اس کے ساتھ مر گئے۔ لفظ سر سے بھی حقیر تر ہے۔ کم دیر رہتا ہے۔ کم اثر کرتا ہے۔ سر وحشی ہرنیوں کو قطار اندر قطار گائک کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ لفظ ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔ لفظ جذبے سے حقیر تر ہے۔ محبت شیر کو پالتو کتا بنا کر رکھ دیتی ہے۔ مگر وہ لفظ نہیں سمجھتا۔
ہم میں سے کچھ لوگ لفظوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ کاش لفظوں کے پیچھے دیکھ بھی سکتے۔ مگر لفظ پردہ ہے۔ ہر کوئی اٹھا بھی نہیں سکتا۔ دیکھ بھی نہیں سکتا کہ چھپا ہوا جذبہ اصل میں کون سا ہے۔ مسیح علیہ السلام تو نبی تھے۔ اللہ نے حواری کے لفظوں کا پردہ چاک کر دیا اور آپ جان گئے کہ دشمن گھات میں بیٹھا ہے۔ عام آدمی کو یہ خبر کیسے ہو؟ ہم میں سے زیادہ تر لفظ کو ہی جذبہ سمجھتے ہیں۔ پردے کو ہی پردہ نشین مان لیتے ہیں۔ یہ آسان راستہ ہے۔ نادان آسانی بھی دھوکے کی منتخب کرتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں اللہ کو خدا نہ کہو۔ انھیں لگتا ہے کہ یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ اللہ عربی کا لفظ ہے۔ خدا فارسی کا۔ اسلام عرب سے آیا ہے۔ ایران سے نہیں۔ اللہ کہنا چاہیے۔ وہ خوش ہو گا۔ خدا کہیں گے تو وہ فارسی لفظ ہے۔ اللہ کا ایران سے کیا تعلق؟ ناراض ہو جائے گا۔ ابھی بہتوں کا خیال پیغمبر، نماز، روزہ، درود جیسے الفاظ کی طرف نہیں گیا۔ خدا کو مسلمان کر لیں تو شاید ان کی طرف بھی توجہ کریں۔
ہم جانتے ہیں۔ ہم جب سچ بولتے ہیں تو الفاظ کا چناؤ نہیں کرتے۔ سچ خود رہنمائی کرتا ہے کہ کیا بولنا ہے اور کیا نہیں۔ جو ہوا وہ بول دیں گے جو نہ ہوا وہ نہیں بولیں گے۔ جھوٹ کا معاملہ جدا ہے۔ جھوٹ بولنے سے پہلے گھڑنا پڑتا ہے۔ بنانا پڑتا ہے۔ کاڑھنا پڑتا ہے۔ اس میں محنت لگتی ہے۔ الفاظ پر غور کیا جاتا ہے۔ انتخاب کیا جاتا ہے۔ ترتیب دی جاتی ہے۔ کوتاہی رہ جائے اور کوئی سوال کر دے تو پھر سے پورا عمل دہرایا جاتا ہے۔ دوبارہ کہانی گھڑی جاتی ہے۔ لفظ ڈھونڈے جاتے ہیں۔ احتیاط سے ترتیب لگائی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ ریت کی یہ دیوار اتنی اونچی ہو جاتی ہے کہ سوال کرنے والے کے ہونٹ بھی ہلیں تو سہار نہیں پاتی۔ لفظ کا جھونکا ہی ڈھیر کر دیتا ہے۔
سچ لفظ کا باپ ہے۔ اور لفظ جھوٹ کا باپ ہے۔ لفظ سچ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا ہے۔ جھوٹ لفظ کے آگے سجدے میں پڑا رہتا ہے۔