پاک و ہند عاشقوں کی سرزمین ہے۔ عاشق کا کردار یہ ہے کہ وہ معشوق کو چاہتا نہیں، پوجتا ہے۔ یہ کردار اگر انفرادی سطح سے اوپر اٹھ کر معاشرتی سطح پر پیدا ہو جائے تو اسے شخصیت پرستی کہتے ہیں۔ یعنی جو لوگ پسند کیے جانے کے لائق ہیں ان کی پرستش کرنے لگنا۔
آدمی کامل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ پرستش کے لائق بھی نہیں ہو سکتا۔ اچھے سے اچھے آدمی کو بھی آپ عشق کی بجائے عقل کی نگاہ سے دیکھیں تو صرف پسند کر سکتے ہیں۔ پرستش اسی کا حق ہے جو کامل ہے۔ اور وہ صرف ایک ہے۔
ہم جسے چاہتے ہیں اس کے عیبوں سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس طرح وہ ہمیں کامل نظر آنے لگتا ہے۔ پھر وہ کوئی صوفی ہو یا عالم، شاعر ہو یا سورما، انسان نہیں رہتا۔ خدا ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس میں عیب ثابت کر دے تو ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اسے اپنے جیسا انسان نہیں سمجھا۔ اپنے خدا کا درجہ دیا ہے۔ خدا میں نقص نکل آئے تو بندے کا پورا وجود ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے۔
اہلِ مغرب نے عقل کی جس روایت کو فروغ دیا ہے اس میں شخصیت پرستی کی کوئی جگہ نہیں۔ وہ بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو بھی آدمی ہی سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ توریت سے لے کر قرآن تک وہ تمام الہامی کتب جن پر ہم ایمان رکھتے ہیں، عشق کی بجائے عقل کو رہنما بنانے کا سبق دیتی ہیں۔ چنانچہ ان کتابوں میں مذکور بڑے بڑے انسان بھی انسان ہی نظر آتے ہیں، خدا نہیں بنتے۔ پرستش کے لائق نہیں ہوتے۔
وَلَوۡ يُـؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوۡا مَا تَرَكَ عَلٰى ظَهۡرِهَا مِنۡ دَآ بَّةٍ وَّلٰـكِنۡ يُّؤَخِّرُهُمۡ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمۡ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيۡرًا (فاطر – 45)
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے کیے پر پکڑتا تو زمین کی پیٹھ پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقرر میعاد تک انھیں ڈھیل دیتا ہے۔ پھر جب ان کا وعدہ آئے گا تو بےشک اللہ کے سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں۔