حالی نے ایک نظم میں کہا ہے کہ زبان انسان کو اظہار کے لیے نہیں بلکہ اخفا کے لیے دی گئی ہے۔ یعنی آدمی اپنی باتوں سے بتانے کی بجائے دراصل بہت کچھ چھپانے کا کام لیتا ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ یہ کلیہ ہمیشہ نہ سہی مگر اکثر جگہوں پر انسانی رویوں کی شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان جذبات میں سچ بولتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ حقیقت زیادہ تر اس کے برعکس ہے۔ ہم سچ صرف تب بولتے ہیں جب کوئی جذبہ اتنا قوی ہو کہ دوسرے تمام جذبات پر مکمل طور پر غالب آ جائے۔ مثلاً جب محبت خوف سے بے نیاز ہو جائے۔ نفرت مصلحت کی حدود سے باہر نکل جائے۔ اذیت وقار اور عزتِ نفس کے گنبد مسمار کر دے۔ ایسا نہ ہو تو ہم سچ بولنے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ زیادہ تر ایسا نہیں ہوتا۔ عموماً جذباتی کیفیات میں ہم بیک وقت متعدد اور متضاد جذبات کی بڑی پیچیدہ کشمکش سے گزر رہے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے الفاظ حقیقت کو صاف صاف ظاہر کر ہی نہیں سکتے۔ ایسے موقعوں پر ہم جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں وہ بہت کم دوسروں کو بتانے کی خاطر اور بہت زیادہ دوسروں سے چھپانے کے واسطے ہوتا ہے۔
مجھے یہ کہنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ لوگوں کو میں وہ باتیں کرتے دیکھتا ہوں جو بظاہر جذبات سے بھرپور ہونے کے باوجود سچ نہیں ہوتیں۔ اور اس لیے نہیں کہ وہ سچ نہیں جانتے۔ بلکہ اس لیے کہ وہ سچ بولنا نہیں چاہتے۔ یا کہیے کہ بول سکتے نہیں۔ وہی متعدد اور متضاد جذبات والا قصہ۔ ایسے بہت سے کردار آپ کو اپنے اردگرد بھی مل جائیں گے۔ شاید آپ خود انھی میں سے ایک ہوں۔ ورنہ مجھی کو دیکھ لیجیے۔ میں نے بھی تو یہ سب اسی لیے کہا ہے کہ ان لوگوں کا پردہ رکھ سکوں جن سے مجھے پردہ اٹھا دینے کی آرزو ہے۔ لفظوں سے سیدھے، صاف، روشن اظہار کی بجائے ابہام، ایہام اور اخفا کا کام لے لوں۔ جو کہہ رہا ہوں اس کے پیچھے وہ چھپا جاؤں جو نہیں کہہ سکتا۔