چشمِ ساقی ہے وہ خراب کہ بس
ابھی پی بھی نہ تھی شراب کہ بس
ادھر ان پر ہے وہ شباب کہ بس
ادھر اپنا ہے وہ حساب کہ بس
رہ گئی بےحجابی ایک طرف
آ گیا اس طرح حجاب کہ بس
آنکھوں آنکھوں میں پا گئے تعبیر
ایسے ایسے حسین خواب کہ بس
میری بانہوں کی وہ پکار کہ اور
ان کی سانسوں کا وہ خطاب کہ بس
یا الٰہی نزولِ شیخ کے بعد
اور بھی ہو گا احتساب کہ بس
جھومتا تھا ابھی سوال پہ عشق
عقل دے بھی گئی جواب کہ بس
ان کے آنسو ٹپکنے کی تھی دیر
یوں ہوا شہر آب آب کہ بس
صفحہ صفحہ الٹ کے کیا حاصل
خود ہی کہہ دے اگر کتاب کہ بس
بن کے معشوقِ حضرتِ راحیلؔ
اس قدر خوش ہیں آنجناب کہ بس