عاشق جناب ہی کے رلائے بہت گئے
ورنہ تو اہلِ دل بہت آئے بہت گئے
اللہ ری عمامہ و دستار کی پھبن
یہ سر وہی ہیں سب کہ جھکائے بہت گئے
ناگفتنی ہوئے پہ بھی احوال یہ رہے
پوچھے تو کم گئے تھے بتائے بہت گئے
آئے گی جانے تیری قیامت تو کب مگر
محشر اسی بہانے اٹھائے بہت گئے
دوزخ بہشتیوں کو مبارک یہیں پہ ہو
خوابوں کا کیا ہے وہ تو دکھائے بہت گئے
تھی آرزو کہ ہوتی خبر ہی تجھے کبھی
ہم تیری آرزو میں ستائے بہت گئے
بازارِ زندگی میں اسی کا ہے نام نفع
دھوکے دیے تو کم گئے کھائے بہت گئے
جو وقت شہرِ جاں میں کٹا کٹ گیا مگر
جانے کی دیر تھی کہ بلائے بہت گئے
راحیلؔ میکدے کا بھرم بھی بلا ہے کوئی
ورنہ بغیر پیاس بجھائے بہت گئے