رہنما ہے مگر بھٹکتا ہے
یہ غضب کر ہی عشق سکتا ہے
دل تو کیا سینے میں دھڑکتا ہے
ایک دیوانہ سر پٹکتا ہے
آنکھ کو اب تو کر نہ کر سیراب
یہ سبو خود بخود چھلکتا ہے
عشق جب منبروں پہ چڑھ بیٹھے
سچ کہے تو بھی جھوٹ بکتا ہے
منزلوں کی خبر ہی آ جاتی
راہرو تھک کے راہ تکتا ہے
کیا تمھارے نہ دیکھنے کا گلہ
جسے دیکھو وہی سسکتا ہے
وہ گلستان ہے وفا جس میں
گل دھڑکتے ہیں دل مہکتا ہے
تیرے کوچے میں انتظار سہی
بیٹھنے سے بھی کوئی تھکتا ہے
باغ برباد ہو چکا لیکن
ایک کانٹا ابھی کھٹکتا ہے
کیا ستارہ ہے بخت کا راحیلؔ
جب بھڑکتا ہے تب چمکتا ہے