(ایک نادان دوست کے نام)
جھوٹ کی لاج اس قدر رکھنا
اپنی آنکھیں کبھی نہ تر رکھنا
تم سے باہر کہیں نہیں تھا میں
اپنے اندر مری خبر رکھنا
جھوٹ بولے گا بارہا تم سے
اپنے آئینے پر نظر رکھنا
میں سنبھالا نہ جا سکا تم سے
میری یادیں سنبھال کر رکھنا
تم نے ٹھکرائے ہیں بہت سجدے
اب ہمیشہ اٹھا کے سر رکھنا
رہ گیا میں تو قافلے والو
تمھی جاری مرا سفر رکھنا
آدمی سے بڑا نہیں شیطان
خود سے ڈرنا خدا کا ڈر رکھنا
اب میں خاموش ہونے والا ہوں
اب ذرا تھام کر جگر رکھنا
کیا سلیقہ ہے شعر کا راحیلؔ
دل کے ٹکڑے ادھر ادھر رکھنا