نئی منطق نئی مشکل میں پڑی رہتی ہے
منزل اکثر رہِ منزل میں پڑی رہتی ہے
جیسے غنچہ کوئی شرمندہ ہو موجِ گل سے
ایک نازک سی گرہ دل میں پڑی رہتی ہے
حسن پر داغ تو کیا جانیے کیا ہے لیکن
کچھ شکن سی مہِ کامل میں پڑی رہتی ہے
جاؤ گلزار کے عریاں گل و لالہ کو بتاؤ
وہ بھی لیلیٰ ہے جو محمل میں پڑی رہتی ہے
تھوڑے منعم ہیں کہ پہچانتے ہیں قدر اس کی
جو بہا دامنِ سائل میں پڑی رہتی ہے
قدر مہر و مہ و انجم کی گئی گردش سے
شمع اچھی ہے کہ محفل میں پڑی رہتی ہے
ہائے وہ موت کہ آتی بھی ہے آتی بھی نہیں
بن کے بل بازوئے قاتل میں پڑی رہتی ہے
شاید اب دھل نہ سکے دامنِ پاکاں راحیلؔ
دھول خود جبۂِ عادل میں پڑی رہتی ہے