اپنے غم دیکھتے ہیں اپنے بھرم دیکھتے ہیں
دیکھ کس منہ سے اب آئینے کو ہم دیکھتے ہیں
دل نہیں دیکھتے دل والے کا دم دیکھتے ہیں
دیکھنے والے زیادہ ہوں تو کم دیکھتے ہیں
تیری تصویر پہ ٹکتی ہی بھلا کب ہے نظر
ایک ٹک ہم تو مصور کا قلم دیکھتے ہیں
تیرے کوچے کے مسافر نہیں رکتے گرچہ
راہ میں دیر و کلیسا و حرم دیکھتے ہیں
فقرا اپنے تَضَرُّع پہ نہ فرمائیں ناز
یہ تماشا شب و روز اہلِ کرم دیکھتے ہیں
سنتے آئے ہیں کہ ہر شب کی سحر ہے راحیلؔ
کیا دکھاتا ہے مُرورِ شبِ غم دیکھتے ہیں