کن راستوں پہ لے کے تمنا گئی مجھے
خود اپنی منزلوں پہ ہنسی آ گئی مجھے
میں موت کو حیات نہ سمجھوں تو کیا کروں
جب وہ تجلی آئنہ دکھلا گئی مجھے
اوروں کو روگ چاٹ گئے ہوں گے عشق کے
چارہ گروں کی چارہ گری کھا گئی مجھے
لگنے لگا حقیر اچانک ہی میکدہ
مسجد کی راہ اور بھی بہکا گئی مجھے
لب تیرے بھنچ کے رہ گئے جس کے خیال سے
تیری نظر وہ راز بھی بتلا گئی مجھے
بجلی سی وہ جو کوند گئی تھی نہیں خبر
دکھلا گئی ہے راہ کہ بھٹکا گئی مجھے
جس کو بظاہر ایک نظر بھی تھی ناگوار
آنکھوں میں اپنی دیکھ کے گھبرا گئی مجھے
راحیلؔ دل میں ہے کہ پتا تو چلے کبھی
اس کی نگاہِ ناز بنا کیا گئی مجھے