﷽
واقفانِ تواریخ قدیم اس قصۂ عجیب و غریب کو کتاب کلیلہ دمنہ سے انتخاب کر کے واسطے سمجھانے ناواقفوں زمانۂ حال کے بزبانِ اردو تختۂ قرطاس پر اس طرح لکھ گئے ہیں۔
قصہ گرو اور چیلے کا
کلیلہ نے کہا: یوں سنتے ہیں کہ ایک گرو کو کسی پادشاہ نے بہت بھاری خلعت دیا۔ جب اس کا چرچا شہر میں ہوا، ایک اٹھائی گیرے نے بھی خبر پائی، اس کا دل للچایا اور اس خلعت پر ایمان ڈگمگایا۔ رات برات چوری کے لیے کنَوٹھے پاس آتا، جاگنے کی آہٹ پاکے دبے پاؤں ہٹ جاتا۔ گروجی تو جاپ تاپ میں ساری رات کاٹتے تھے، پر چور یہی جانتا تھا۔ بیت ؎
نہ ریاضت کو جاگتا ہے شیخ
ہے ڈرے چور آن مارے میخ
دیکھو چوری اور سر زوری، دھرا دھرا جاتا تھا۔ بیت ؎
ہوگی کب تک چچا خبرداری
چور جاتے رہے کہ اندھیاری
گروجی یہ رات کی باتیں دن کو دُہراتے تھے اور اُس کی ڈھٹائی اپنے چیلوں سے فرماتے تھے۔ بیت ؎
پڑھتا ہوں میں توسبحہ لیے ہاتھ میں درود
صلواتیں مجھ کو آکے وہ ناحق سنا گیا
چور نے دانو گھات بہت لگایا، پر خلعت ہاتھ نہ آیا۔ آخر ہار کر اِسی تاک میں گرو پاس آ کر بالکا (چیلہ) بنا اور رات دن ان کی سیوا (خدمت) کر کے منتر لینے لگا۔ اپنی دوکان گرم کرنے کے مزے میں اُس کا مکر گروجی کے من تِر نہ آیا، یہ نہ سمجھے کون کیسا ہے کیسا نہیں۔ بیت ؎
کسی کا گھٹ کٹی وتیرہ ہے
کوئی بھڑوا اٹھائی گیرا ہے
وہ گروجی کے پاس دن رات رہنے سہنے لگا۔ بیت ؎
نہیں تھا یہ بھی خالی از کرامات
لیا ایسے کو ہمرہ کر کے دو بات
چور نے گھات لگاتے لگاتے ایک رات وقت پایا، خلعت پر کچھ موقوف نہ تھا پوری ہتھ پھیر کی اور سب گٹھری بقچہ لے کر چنپت ہوا۔ فجر کو جو گروجی اٹھ کر دیکھیں تو گھر میں دانت کریدنے کو تنکا نہیں بچا، سب چیز چوری گئی، تب تو چلّاچلّاکے رونے لگے اور لوگوں سے کہنے لگے۔ قطعہ ؎
دس جامہ پانچ نیمہ چھ پاجامہ چار شال
بقچہ بنا کے رکھا تھا چوکور لے گیا
کپڑوں سے کس طرح کی مَچامَچ بھری ہوئی
گٹھڑی بندھی بندھائی مری چور لے گیا
جتنا یہ پیٹ پیٹ کے سر مار رہ گئے
اِتنا نہ کوئی بولا کہ کس اور لے گیا
جو آشنا ملے بھی تو کہتے ہیں کچھ سنا
بھر عمر کی کمائی مری چور لے گیا
وہی کہاوت ہے چیز نہ راکھیں آپنی اور چورَن گاری دیں۔
گانٹھ کا دیجیے عقل نہ دیجیے۔ پھوٹی سہیں آنچی نہ سہیں۔
جو چار پیسے کا ایک تالا آتا توپاپی کا مال پَراپَت نہ جاتا۔ شعر ؎
دوس کیا دیجے چور کو صاحب
بند گھر کا جب آپ در نہ کیا
گروجی نے تاڑا، یہ کام اُسی چیلے کا ہے۔ اُن کی تو تلووں سے لگی تھی وہیں اسے ڈھونڈنے نکلے اور اپنے گاؤں سے اس کی کھوج میں بستی کو چلے۔
قصہ لومڑی حرص والی کا
راہ میں دیکھیں تو دو جانور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ گھسّم گھسّا، کُٹّم کٹّا، دونوں زخمی زخم میں چوٗر ہیں اور بدن سے لوہوٗ بہہ رہا ہے۔ ان کا تماشا دیکھنے کو ذرہ بات ہی کی بات ٹھہر گئی۔ اتنے میں ایک لومڑی بھی وہاں آن پہنچی۔ نقل: مشہور ہے کہ کسی کا گھر جلے، کوئی آگ تاپے۔ شیطان کے دَکھّے میں آ گئی، کہیں ٹکّرمارتے وقت بیچ میں آن پڑی، چیونٹی کو موٗت کا ریلا بہت ہے، پِس گئی۔ شعر ؎
خاکساروں سے موافق کب ہے دنیا کی ہوا
راہ میں تیری گئے جیوں نقش پا برباد ہم
لومڑی بچاری کی ہڈی پسلی چوٗر ہو کے جان فنا ہو گئی۔ گروجی نے کہا: کھڑے رہنے سے اتنا تو ہوا کہ ایک تجربہ پایا۔ وہاں سے آگے چلے۔
قصہ نائکہ اور بسنی کا (بسنی=تماش بین)
اتفاق کی بات ہے، جب تلک شہر پہنچیں اَویر ہو گئی اور وہاں سویرے ہی شہر پناہ کا دروازہ بند ہو گیا۔ یہ بچارے حیران تھے کہ اب رات کی رات کہاں رہیں اور کدھر جائیں۔ شعر ؎
باغباں بے رحم اور در بند دیواریں بلند
بلبلِ بے بال و پر گلشن میں جاوے کس طرح
سامنے ہی چکلہ تھا، پر اس گھبراہٹ میں انھیں کب سوجھتا تھا۔ شعر ؎
نواحِ شہر میں خوباں کے یہ تھا حال زاہد کا
کہ جیوں چغد آشیاں گم کر کے بستی میں پھرے بھٹکا
وہاں شہر سے باہر ایک طوائف رہتی تھی۔ دو گھڑی دن رہے سے پھر رات گئے تک انھوں کی بیٹھک اپنے اپنے کوٹھوں پر رہا کرتی اور نائکہ، نوچی سبھی آنے جانے والے کی جھانک تاک میں لگی رہتی۔ بیت ؎
دل سے شوقِ رخ نکو نہ گیا
جھانکنا تاکنا کبھو نہ گیا
کہیں نائکہ کی نظر گروجی پر جا پڑی۔ انھیں گھبرایا دیکھ کر رحم کھایا اور اپنے گھر میں بلا لیا۔ گرو نے دل میں کہا، شعر ؎
رہنے کے قابل تو ہرگز تھی نہ یہ عبرت سرائے
اتفاقاً اِس طرف اپنا بھی آنا ہو گیا
غرض رات کی رات انھیں رہنے کو ایک جگہ بتا کر نائکہ تو کہیں کام کو گئی اور گروجی بسترا وہاں جما کے اپنے دھیان گیان میں لگے۔ بیت ؎
دکھاؤں گا تجھے زاہد اس آفتِ جاں کو
خلل دماغ میں تیرے ہے پارسائی کا
دیکھیں تواس کے یہاں یوں تو نوچیاں بہت ہیں پر ایک نئی نوچی اس کی، سارے طائفہ کی ناک تھی۔ انھیں دنوں اس بے باک کا نیا نیا شور اور نئی نئی مِسّی لگی تھی۔ شعر ؎
شہرہ متاع خوبی اس شوخ کا بلا تھا
بازاری سب دکانیں اپنی بڑھا کے بیٹھے
اس پر نظم ؎
جوانی کا موسم شروعِ بہار
وہ سینہ سے جوبن کا اس کے ابھار
خماری وہ انکھیاں وہ انگڑائیاں
وہ جوبن کے عالم کی سرسائیاں
اٹھتی جوانی، چودہ برس کا سِن، رنگ طباق میں اور چھپ گٹھری میں۔ بیت ؎
بوٹاسا قد ہے اس کا اور چال میں چل بل ہے
ہو کیوں نہ پھپک اس پر اٹھتی ہوئی کوپل ہے
سچ کہا ہے، کھایا پیا بدن اور ہی ہوتا ہے۔ اور ایک نور آدمی ہزار نور کپڑا۔ اس کی پوشاک، لباس کو مت پوچھو۔ شعر ؎
زرق وبرق ایسی تھی پوشاک میں اس کی کہ جسے
کوند بجلی کی کہوں یا کہوں شعلہ کی جھمک
جیسی ہے سج سے گلے بیچ حمائل گل کی
ویسی ہی عطر کی بوٗ، اُتنی ہے سوندھے کی مہک
(بوٗ=خوشبو) (سوندھے = مصالح خوشبودار)
کیا کہوں کتابی منہ، چنپئی رنگ، مو ہنی صورت، بھولی بھالی باتیں، انوٹھی انوٹھی گھاتیں، رسیلی، لجیلی کنچن سی چنچل آنکھیں۔ دوہرہ ؎
امیں ہلاہل مَدھ بھرے سیت سیام رتنار
جِیَت مَرَت جھکِ جھکِ پَرَت جا چِتوَت اک بار
(سیت = سفیدی، سیام = سیاہی، رتنار = سرخ)
غزل ؎
چِتون میں لگاوٹ، سَین غضب، مژگاں کی جھپک پھرویسی ہے
(سَین=اشارہ، مژگاں =پلکیں )
دل چھین لے اس کی چینِ جبیں، ابروکی لچک پھر ویسی ہے
کچھ ماتھے پہ بکھرے بال بلا کافر ہے وہ بندش جوٗڑے کی
مکھڑے میں شرارت ٹھیری ہوئی، نتھنوں میں بھڑک پھرویسی ہے
وہ چمپئی نازک نازک رنگ اور بھرے بھرے وہ رخسارے
(رخسارے = گال)
صورت پر امنگ جوانی کی، چہرے کی دمک پھر ویسی ہے
اس بُندے کے ہم بَندے ہیں وہ بالا سب کو دے بالا
موتی سے ساری مانگ بھری، بینی کی جھمک پھر ویسی ہے
(ٹیکہ اوربینہ جو ماتھے پرلگاتے ہیں )
وہ سرخ ملایم ہونٹھ غضب اور اودی وہ مسّی کی دھڑی
دانت ان میں موتی کی سی لڑی، ہنسنے میں چمک پھر ویسی ہے
وہ گردن اس کی صراحی دار اور تس پہ صفائی ہے ظالم
سج دھج میں تمام خوش اسلوبی، زیور کی بھڑک پھر ویسی ہے
وہ ابھری ابھری سخت کُچیں اور پیٹ ملایم مخمل سا
(کُچیں =چھاتیاں )
پتلی سی کمر اس کافر کی، جنبش میں لچک پھر ویسی ہے
وہ اونچے گورے گول سُریں، وہ کافر رانیں بھری بھری
(سُریں =چوتڑ)
وہ ساقِ بلوریں ہوش رُبا، پاؤں کی کفک پھر ویسی ہے
(ساق = پنڈلی)
ہر عضو نزاکت بھرا ہوا اور تس پہ بدن سب گدرایا
(کفک=مہندی)
قامت ہے قیامت سرتاپا، چلنے میں لٹک پھر ویسی ہے
ہر آن ہے اس کی آن نئی اور ساتھ ادا کے سب باتیں
ہے ناز و کرشمہ اور عشوہ، غمزے کی گمک پھر ویسی ہے
کہہ بیٹھے ہے سب پر وہ پھبتی کوئی جُگت سے خالی بات نہیں
پوشاک میں بالکل بانک نیا، سوندھے کی مہک پھر ویسی ہے
اس وضع پہ جرأت اس کا گانا سنیے اگر تو ہے ظالم
ایک بُکّے سُر کے اڑتے ہیں، تانوں کی کھٹک پھر ویسی ہے
پتلے پتلے ہونٹھوں پردھڑی کا جمنا اورمسکرانے میں دانتوں کا بجلی سا دمنا(دمنا=چمکنا)۔ بیت ؎
وہ بن پونچھی ہوٹھوں کی مِسّی غضب
کہ منہ پر تھی گویا قیامت کی شب
قطعہ ؎
مِسّی آلودہ لب، اخگر تھے تہِ خاکستر
کہ ہوا سے وہ سخن کرنے کے، جاتے تھے دہک
کمر اس کی میں نہ دیکھی کہ کروں اس کا وصف
تھی وہ ایک آہوئے دل کے لیے، چیتے کی لپک
تس پر بارہ ابھرن سولہ سنگار، بال بال گج موتی، کڑے چھڑے زیادہ، کنگھی چوٹی کیے، بنی ٹھنی، گروجی کی نظر پڑی۔ شعر ؎
دل بھول گیا دیکھ کے چہرہ وہ کتابی
ہم عصر کے علّامہ تھے پر کچھ نہ رہا یاد
(عصر=زمانہ)
پاس سے تو کہاں، پر دور سے چوری چوری گروجی اپنی آنکھیں سینکتے تھے اور اور لگائیوں (عورتوں ) کو سنا سنا کہتی تھی۔ بیت ؎
قدرت کو اپنے حق کی خوش ہو کے گھورتے ہیں
ماٹی کی مورتوں میں کیا خوب صورتیں ہیں
(مورت=تصویر)
لیکن رباعی ؎
پر غلط سمجھے کہ معشوق صلہ دیتے ہیں
گالیاں دیتی ہیں اور دینے کو کیا دیتے ہیں
پور پور ان کی میں اعجاز مسیحائی ہے
چٹکیاں لے کے یہ مُردوں کو جِلا دیتے ہیں
سوچھوچھا کس نے پوچھا۔ دبلے کلانوت کی کون سنتا ہے۔ شعر ؎
(کلاونت = ڈوم ڈہاڑی)
صحبتِ پیر و جواں کیوں نہیں بنتی یارب
پر سیہ خال تو آنے دے بہ پہلوئے سفید
وہ ایک اور ہی جوان سے اٹکی تھی، پر حق بطرف تھا۔ شعر ؎
دل بھلا ایسے کو اے درد نہ دیجے کیونکر
ایک تو یار ہے اور تس پہ طرحدار بھی ہے
اس کا بھی پیام ایک جوان سے لگا ہوا تھا۔ گول سڈول، خوش گات، بندھا بدن، چیتے کی سی کمر، شیر کا سا چوڑاچھاتا، نک سک سے اچھا، سجیلا، لجیلا، چھبیلا، بانکا ترچھا، نوکیلا نازنیں جوان تھا۔ یہ دونوں آپس میں ایسے پرچے تھے کہ اِسے اُس بن قرار نہ تھا نہ اُسے اِس بن چین، دل لگا برا ہوتا ہے۔ شعر ؎
ناصح تو قسم لے ہم سے دل پر
اپنا کبھو اختیار ہووے
ایسی دوستی میں چوکی کا جانا معلوم اور جو کدھی کدھار مارے باندھے اس نے نائکہ کے ڈر سے مانا تو اس کا یار کب مانتا تھا اور اس سے کہتا تھا۔ بیت ؎
اے ترے قربان ہم کیا کم ہیں جل جانے کے تئیں
شمع روٗ، خلوت میں مت دے راہ پروانے کے تئیں
نائکہ کو تو زر سے کام ہے، بھلا میں ہی جو خدمت کو حاضر ہوں، پر ایسی بات وہ قحبہ کیوں سنتی تھی۔ یہ لوگ جہاں ایسا دیکھتے ہیں پھر روپیے کا منہ نہیں دیکھتے، دوستی تڑاتے ہیں۔ نائکہ کو یہ راؤچاؤ (پیار اخلاص) کب بھاتا تھا۔ وہ ان دونوں کا سبھاؤ دیکھ دیکھ کر اور چوکنّا ہوتی تھی۔ دوہرہ ؎
نہیں پراگُ نہیں مدھر مدھ نہیں بِکاسُ یہ کال
(پراگ=نام تیرت الہ آباد)
اَلی کلی ہی سیں بِندھو سو وا کو کون حَوال
(اَلی کلی =اے کچی کلی، حَوال=احوال)
ارے نئی نئی لگن میں تو ان کا یہ حال ہے، ابھی کچھ نہیں گیا، پر جب یہ چھنال اپنی مدھ پر آئی اور وہ اس کا لاگو رہا اور اس کے گھر پڑنے پر پھر بیٹھی، اسی دن کو جھینکتی ہوں کہ جب دو دل ہوئے راضی، تب کیا کرے گا قاضی۔ جوان نائکہ کی اِن بولیوں ٹھولیوں سے کھسیانا ہو کر کہتا تھا۔ ؏
میں سخت جل رہا ہوں بڑی بی کے ہاتھ سے
رباعی ؎
دیکھیں نہ توروتی ہیں یہ آنکھیں دن رَین
اور جلتی ہیں ساتھ اور کی دیکھ اس کو نین
ناحق کو انھوں نے یہ بِساہا کیا پاپ
(بِساہا=مول لیا)
دیکھے نہ انھیں چین نہ بِن دیکھے چَین
اور اپنے جی میں یہ بھی سوچتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ایک توگھر بھر میں یہی نِرتکا (رقاصہ) ہے اور اسی تلک طائفہ ہے، دوسرے بردہ (لونڈی) ہے بیٹی نہیں، یہ بھی بڑا پیچ ہے۔ بیت ؎
ملاپ کیوں کہ ہو دونوں کے دل قفس میں ہیں
جنہوں کے بس میں ہیں ہم وہ پرائے بس میں ہیں
اور رنڈی اپنے دل میں کہتی تھی۔ رباعی ؎
کیا کروں اس سے بھی میں توڑ نہیں سکتی ہوں
اور بڑی بی بھی سے منہ موڑ نہیں سکتی ہوں
اس طرف پلنےکا حق ہے اور ادھر الفت کا
سخت مشکل ہے کہ اب چھوڑ نہیں سکتی ہوں
بیت ؎
نہ ملیے یار سے تو دل کو کب آرام ہوتا ہے
وگر ملیے تو یہ مشکل کہ وہ بدنام ہوتا ہے
رنڈی کا دل پھنسا دیکھ کر آخر نائکہ نے ٹھہرایا کہ اب جو بنے سو بنے، اس جوان موٗنڈی کاٹی کو زہر دوں، نہ کتّا دیکھے گا نہ بھونکے گا، نہیں رنڈی ہاتھ سے جا چکی۔ بہت دنوں سے گھات لگائے ہوئے اسی تاک میں تھی پر گوں (قابو) نہیں پاتی تھی۔ اس رات کو جب وہ جوان آیا، نائکہ نے وقت پایا، وہ دونوں نِچنت (بے فکر) اپنی جگہ میں بیٹھے ہوئے آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ دوہرہ ؎
مکت مال گنگا سِلَل روما وَل منجدھار
(مکت=موتی، مال = مالا، سِلَل=لہر، روماوَل=بال سینہ)
کُچ ووچکوا کر باج ہیں پیتم میر شکار
(کُچ=پستان، چکوا= نام جانور، باج=باز، پیتم=عاشق)
چپکے چپکے پیاری پیاری کھلی باتوں سے کن رس کا لطف اٹھاتے تھے اور ہت رس کا مزا لیتے تھے پر نائکہ انھیں اوپر سے اوپر بھانپتی تھی اور ان کے کن انکھیوں کے دیکھنے سے اپنی آنکھیں چراتی۔ بیت ؎
دیکھوں تو یوں وہ کہہ کے لگے منہ کو ڈھانپنے
“کم بخت پھر لگا مجھے نظروں میں بھانپنے ”
آگے اوروں پر دھر کے دھرا دھرا (ڈرا دھمکا کر) بڑھیا تو آوازے توازے بہت کسا کرتی۔ اس رات کو سب کابدی دیکھ بھال کر بھی آنا کانی دے گئی، اوپرسے اور شراب دو آتشہ کی کئی گلابیاں بھیج دیں کہ ذرا چکھیں، پھر خوب چکھاؤں۔ اس کے ان مکروں سے ان دونوں کے پرکھوں کو بھی خبر نہ تھی اور گروجی جدا دوکھ رہے تھے۔ بڑھیا آپ ہی کو گھات لگا رہی تھی پر دونوں ہٹ دھرم تھے۔ گروجی، اَن مِلی کی کُسل ہے، کیا کروں نکھ (ناخن) نہیں جو پیٹ(پیٹھ) کھجاؤں۔ شعر ؎
گر ہو شراب و خلوت و معشوقِ خوب رو
زاہد تجھے قسم ہے جو تو ہو تو کیا کرے
فقیر کے منہ کون لگے، بھلا نائکہ اپنے دن کیوں بھول گئیں، کچھ سدا کی نائکہ نہ تھیں، نوچی پن میں ہمیشہ مجرے کے روپے چرا چرا اپنے یاروں کا بھرنا بھرتی رہیں۔ اب تو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔ خدا کو مانو، اپنا سا دل سب کا جانو، ستانا دل کسی کا اور کلپانا اچھا نہیں۔ شعر ؎
دل کے تئیں اک عالم کہتا ہے خدا کا گھر
اے عشق اسے آتش جو دے تو سمجھ کر دے
خدا سے کب بس چلتا ہے اور لوگوں کا منہ کون پکڑتا ہے۔ بھلا اس کے ہاتھ سے جو یہ بے چارہ مارا جائے توناحق چوتیا شہید کہائے۔ شعر ؎
عشق ہی شرط ہے کیا، ہو مرض الموت اسے
یارب انسان کے مرنے کو ہیں آزار کئی
پر یہ سب ادھم دل کی اٹھائے ہیں۔ بیت ؎
کیوں رے دل تو نے ہم سے کیسی کی
ہت تیرے دل کی ایسی تیسی کی
غرض شراب دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے کہ ہمارے نصیب کھلے۔ کیا ہے کہ آج بڑی بی مہربان ہیں۔ پھر رنڈی نے شراب ڈالنی شروع کی اور ایک پیالہ اپنے یار کو دیا۔ جوان نے کہا۔ شعر ؎
گر یار مے پلاوے تو پھر کیوں نہ پیجیے
زاہد نہیں میں شیخ نہیں کچھ ولی نہیں
اور آپس میں پیالے چلنے لگے۔ نظم ؎
ہوا پھر تو صہبائے گلگوں کا دور
ہوئے اور ہی اور کچھ واں کے طور
غرض رفتہ رفتہ وہ مد ہوش ہو
چھپرکھٹ میں لیٹے ہم آغوش ہو
جب وہ دونوں خوب چھکے اور متوالے ہو کر پلنگ پر گرے تب نائکہ کی بن آئی۔ بیت ؎
ٹک جاگ لے تو چھوڑ کے غافل پلنگ و خواب
آخر تو پھر یہی ہے کہ چھاتی پہ سنگ و خواب
اس نے جو سرمہ سا زہرِہلاہل پیس کر بہت دنوں سے اپنے پاس باندھا رکھا تھا وہ آفت کی پوڑیا کھول کر سب زہر ایک چھونچھے میں بھر وہ قطّامہ تیار ہوئی۔ شعر ؎
کس ہستیِ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کچھ اپنے شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی
چاہے تھی کہ چھونچھی کا منہ جوان کے نتھنے میں لگا کر ایسا پھونکے کہ دماغ کے پہنچتے ہی فنا ہو اور دم نکل جائے۔ خدا کو جو اسے بچانا تھا اور اس کی زیست تھی، زہر کی دھانس سے جوان کو ایک ایسی چھینک آئی کہ سارا چھونچھی کا زہر الٹا اس ہی کے حلق میں جاتا رہا۔ گھاٹی سے اترتے ہی پل مارتے آپ ہی چٹ پٹ مر گئی، دونوں کا سنیچر اتر گیا۔ دوہرہ ؎
جن پائن پنہی نہیں اُنھیں دیت گج راج
بکھ دیتی بکھما ملے سو داتا گریب نواج
یہ ڈول دیکھ کے گروجی پر وہ رات کاٹنا بھاری پڑا، یہی تکتے تھے کہ کب سویرا ہو، کب سٹکوں۔ بیت ؎
اے ہجر کون شب ہے کہ جس کو سحر نہیں
پر صبح آج ہوتی تو آتی نظر نہیں
دو گھڑی رات پچھلی سے گروجی بوریا بدھنا بغل میں مار کے چلتے پھرتے نظر آئے۔
قصہ موچی اورناین کا
اُسی شہر میں ایک موچی ان کا چیلا تھا۔ کہیں راہ میں اس سے بھیٹ ہوئی۔ گروجی کو دیکھتے ہی پاؤں پر آگرا اور ہاتھ پاؤں پڑ کے بڑے آدر سے انھیں گھر لے گیا۔ اُسے کہیں پنچایت جانا تھا کہ بھیوات میں نیوتا تھا، نہ جاتا تو ذات سے باہر ہوتا۔ لاچار ان کو گھر بٹھا کر جورو لڑکوں سے کہتا گیا کہ میں گروجی کو گھر میں بٹھائے جاتا ہوں۔ جو کہیں سو کیجیو اور جو مانگیں سو دیجیو، کسی بات کا دکھ نہ پائیں۔ اتنا کہہ کر موچی کو جہاں جانا تھا وہاں گیا۔ اس کی جو رو ایک بال بیاسی چھنال تھی۔ گرو بے چارے نے یہ تریا چرتر کب دیکھے تھے۔ اس بیسواپن سے انھیں کیا خبر تھی۔ اس کی ملنساری دیکھ کر سادی خوزادی جانتے تھے، اس کا وہ روکھے منہ سے باہر جانا اور دلداری سے ہنسی پی کر گھر میں آنا کوئی حرّاف ہی جانے۔ شعر ؎
جنونی خبطی دیوانہ سِڑا کوئی عشق کو سمجھے
فلاطوں سے نہیں ہے بحث وہ غافل ہے کیا جانے
وہ موچن بھی کہیں اٹکی تھی اور کسی سے آنکھ لگی تھی۔ جوانی کا سماں تو ادھم اٹھانے کے دن ہوتے ہیں اور ہوش حواس کھوتے ہیں۔ رباعی ؎
ہر جا حسنے بجلوہ موزوں گردید
شد عشق و بلائے جان مفتوں گردید
شور خلخال پائے لیلیٰ آخر
وجہ خلل دماغ مجنوں گردید
خدا پناہ میں رکھے، نیا جوبن، نئی چھپ، نکھرا رنگ، بدن کا بھرنا، چھاتیوں کا ابھرنا، بدنامی کا گھر ہے، جسے دیکھ آنکھ چرائے، سو تُرت دیکھے چوری لگائے، جس پر ایک پھول پھینک مارے، اسی سے لگا مارے، سو اس کے تو بال بال میں شرارت بدھی ہوئی تھی اور روئیں روئیں میں شوخی بھری ہوئی، سر پر لٹی بالوں کا جوٗڑا اور بانہہ میں ہاتھی دانت کا چوٗڑا سو سو بناؤ تھا۔ شعر ؎
نہ لٹ دھوئیں کی ہے ایسی، نہ زلف سنبل کی
جو بال سر کے ترے پیچ و تاب رکھتے ہیں
ہر کیسی جیسی کو تیسی، وہ آپ چھبیلی تھی ویسا ہی اس کا یار چٹکیلا تھا۔ نظم ؎
برس بیس اکیس کا سن و سال
نہایت حسیں اور صاحب جمال
سب اعضا بدن کے موافق درست
ہر ایک اپنے موقع سے چالاک و چست
ان دونوں میں ایک ناین کٹنی تھی کہ اس کی منہ بولی بہن کہلاتی تھی، آگ اور پانی کو اکٹھا کر دکھلائے، پتھر کو پانی کر پگھلائے، آسمان میں تھگلی لگائے، زمین میں سرنگ دوڑائے، انھوں کا پیغام وہی پہنچاتی تھی۔ اس رات موچن نے دیکھا ساس نہیں گھر باکھر(بمعنی خانہ)، سونی خالی میدان ہے اور جس کا ڈر تھا سو کہیں مہمان۔ شعر ؎
چھوڑ مت نقد وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
ناین تو وہاں آٹھوں وقت بنی رہتی تھی، ٹھنڈے سانس بھر کر اس سے کہنے لگی۔ شعر ؎
یہ بے کلی ہے کہ دل کو قرار مشکل ہے
مجھے تو سانس کا لینا بھی یار مشکل ہے
قسم خدا کی اگر، شعر ؎
آج بھی اس کے جو ملنے کی نہ ٹھہرے گی تو بس
ہم وہ کر بیٹھیں گے جو دل میں ہیں ٹھہرائے ہوئے
میں تجھے جتائے دیتی ہوں ایسا نہ ہو کہ میرے صبر میں توپکڑی جائے، نہیں جا کر چپکے سے کہہ آکہ آج کی رات ہمارے تمھارے ملنے کا بڑا داؤں ہے، ایسا وقت کہیں نصیبوں سے ہاتھ آتا ہے۔ بیت ؎
جو ملنا ہے مل، پھر کہاں زندگانی
کہاں تو کہاں میں، کہاں نوجوانی
اس کے جانے ہی کی دیر تھی، اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ وہ ایسا تَتّا تھا کہ دیا (چراغ) بلتے (جلتے ) ہی جیسے دیپک پر پتنگا دوڑے، سہے سانج دروازے پر آکھڑا ہوا۔ شعر ؎
گلی میں اس کی مت جا بلہوس آ مان کہتا ہوں
قدم پڑتانہیں اس کوٗمیں واں سرسے گذرتے ہیں
کانے چوٹ کنونڈے بھیٹ (ملاقات) ایکا ایک وہ موچی پنچایت سے سر ہی پر آن پہنچا اور ان دونوں کو دیکھ لیا۔ رباعی ؎
جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
دید وا دید ہوئی دور سے میری اس کی
پر جو میں چاہا تھا، سو بات نہ ہونے پائی
موچی کا دل کچھ تو آگے ہی سے بھرما رہا تھا، کوٗ وقت (بے وقت) دروازے پر دیکھی دونوں کی لاگ (آشنائی) کا یقین ہو گیا۔ وہ تو صاف آنکھوں میں گھر کرتی تھی پر اس کی شرمائی آنکھیں کہے دیتی تھیں۔ بیت ؎
چاہ کی چتون سے تھی آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی محفل نے یارو سخت رسوائی ہوئی
بیت ؎
ہوئی قیمت دوچند اس چشم کی آنکھیں چرانے سے
غلط کہتے ہیں یہ ارزاں بکے ہے مال دزدیدہ
پھر مرد کو بھی آنکھیں چراتے دیکھا۔ موچی کے جی میں اور چور پیٹھا تھا کہ یہاں کچھ تو دال میں کالا ہے۔ شعر ؎
کہیں ہوئے ہیں سوال و جواب آنکھوں میں
یہ بے سبب نہیں ہم سے حجاب آنکھوں میں
موچی کی بگڑی ہوئی تیوری دیکھتے ہی مرد تو رفوچکر ہوا، پر موچی نے رنڈی کو ایک ایک منہ سے سو سو گالیاں دیں۔ رباعی ؎
شکل اپنی دکھا کے تو نے گوری گوری
دزدیدہ نگہ سے کرنی دل کی چوری
سو عشق بزور سر چڑھا ہے اس کے
یہ وہ ہے مثل کہ چوری اور سر زوری
اور اس نے پھر رنڈی کی چوٹی پکڑ کے خوب سا لتیایا اورمشکیں جکڑکے کھنب سے باندھ رکھا۔ رباعی ؎
چاہت مری تیرے مسکرانے سے کھلے
اور دیکھ کے مجھ کو منہ چھپانے سے کھلے
دل لے کے تو مت مُکر کہ میرے دل کی
چوری تری آنکھ کے چرانے سے کھلے
اور پھر آپ جیسا ہی ہاراماندا، نشے میں چوٗر آیا تھا، چارپائی پر لیٹتے ہی سو رہا۔ شعر ؎
ہو گیا وہ کام جو ہونا نہ تھا
آنکھ لاگی سو گیا سونا نہ تھا
گرونے اس مارکٹائی کا مارگ نہ پہچانا۔ موچی ہی کا دل کٹّر جانا۔ چاہتے تھے کہہ سن کر اسے چھڑا دیں کہ اتنے میں وہ آفت کی پرکالا ناین آن پہنچی۔ شعر ؎
تو ٹک جگر تو مرے مرغِ نامہ بر کا دیکھ
وہاں اڑے ہے جہاں پر جلیں فرشتوں کے
اور کہنے لگی وہ بڑی دیر سے تمھاری راہ دیکھ رہا ہے۔ بیت ؎
نے وہ یہاں قول نے قرار رہا
وھاں وہی اب تک انتظار رہا
اور اس نے کہا ہے۔ نظم ؎
نہ آنا یہاں ترا میری قضا ہے
مرا جینا اگر تیری رضا ہے
تو آ جلدی کہ اب مجھ کو نہیں تاب
نہ رکھ اس تشنگی میں مجھ کو بے آب
خدا کے واسطے چلنا ہو تو چلو اور کہنا ہو سو کہو، نہیں رات جاتی ہے۔ بیت ؎
کچھ توکہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
دن گذر جاتے ہیں پر بات چلی جاتی ہے
موچن نے اسے اپنے پاس بلالیا اورآہستہ سے کہا۔ بیت ؎
دیکھتے غیر کے مری اس سے نگاہ لڑ گئی
کام ہی چل بچل ہوا بات ہی سب بگڑ گئی
سو اس بات پر، دیکھ بہن اس کے ہاتھ ٹوٹیو، مارا سو مارا، اوپر سے مشکیں باندھ بے بس کر رکھا ہے۔ میں توشام ہی سے رسیاں تڑاتی تھی۔ شعر ؎
جدائی بھلا کس کو منظور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے
کہہ تو نہیں سکتی تجھ سے، ہو سکے تو ذرا میری جگہ ہاتھ پاؤں بندھا کر تو کھڑی رہ تو میں اس کا دل رکھ کر اِنھیں پاؤں پھری آتی ہوں۔ مصر؏
بات رہ جاوے گی قاصد، وقت رہنے کا نہیں
ناین کو اس کی خاطر عزیز تھی، اسے کھول کر اپنے ہاتھ بندھا، کھنب سے لگ رہی اور موچن کو اس کے طالب دیدار پاس بھیجا۔ قطعہ ؎
نخشبی زن فریب ہا دارد
خویشتن راز قید او بہ رباے
مار زہرست از لب و تا دُم
زن فریب است از سرو تا پاے
یہ تماشا دیکھ کر گروجی بہت ریجھے اور کہا: آدمی جانیے بسے اور سونا جانیے کسے۔ میں نہیں جانتا تھا اس کے پیٹ میں یہ یہ گُن بھرے ہیں۔ کون جانتا تھا کہ یہ شہکارا اتنی اُدھ مادی ہے اور اس کی ایسی پُرکھ ہیں۔ نظم ؎
پہنچی ہے وہ کھلاڑ تا بشباب
موچیوں کا کیا ہے نام خراب
نہ جواں چھوڑے ہے نہ یہ بالا
کام کے دیو نیں اسے پالا
مارتا کیا تھا اسے گردن مارتا تو اور خوب ہوتا اور ناین کو کون لالچ، جی کے بدلے جی دیتی ہے۔ اس کا دل گردہ دیکھا چاہیے کیا موٹا دیدہ ہے۔ بھلا ابھی موچی جاگ پڑے اوربات کھل جاوے تومفت ناک چوٹی جائے۔ شعر ؎
خدا ہی خیر کرے بات بے طرح ہے آج
کہ وہ بگاڑ پہ ہے اور پیامبر گستاخ
قاضی جی دبلے کیوں، شہر کے اندیشہ سے۔ بھلا تم کو ن؟ آگ جانے لوہار جانے، دھوکنی والے کی بلا جانے۔ اپنے بھی دن یادکرو۔ شعر ؎
تیری بھی جوانی تھی وہ ناصح کہ نہ تھا روز
قاضی کا ترے واسطے اعلام نہ آیا
اس میں موچی کی نیند ٹوٹی اور چونکتے ہی رنڈی کو پکارا۔ سنتے ہی ناین کے ہاتھ پاؤں کے باسن چھٹ گئے اور سٹپٹائی۔ اب نہ بولے تو مشکل، بولے تو اور مشکل۔ سب سے بھلی چپ۔ تِس سے مَشت ہی مار رہی۔ وہ کتنا ہی پکار رہا، نہ بولنا تھا نہ بولی۔ اس کے چپ سادھنے پر موچی آگ بگولا ہو گیا۔ اٹھ کے جو آیا، رانپی نکال، ناک اتار، اس کے ہاتھ میں رکھ دی کہ اپنے یار کو یہ سوغات بھیجیو۔ لاچار ناین یہ سب کہا بدی پر دم نہ مارا اور دل میں کہنے لگی: کر گیا داڑھی والا، پکڑا گیا مونچھوں والا۔ جن کے یہ کانٹے بوئے ہیں سو یار پاس سوئے ہیں، مزہ وہ اڑائے ہیں۔ میری حرمت پر بات آئی۔ اتنے میں موچن آن پہنچی، دیکھے توطویلہ کی بلا بندر کے سر۔ بچاری کی ناک پر آفت آئی۔ بہت روئی، کُڑھی اور اس کا عذر سُبھیتے کے وقت پرموقوف رکھا اور اس کو کھول کر آپ کھنب سے بندھ رہی۔ ناین اپنے گھر جاتی تھی اورجی ہی جی میں پچھتاتی تھی کہ اب کیا ناک لے کر گھر جاؤں؟ کس ناک سے سسرال میں منہ دکھاؤں اور لوگوں میں کیا بات بناؤں؟ کوئی پوچھے تو کیا بتاؤں؟ گرو کی بھی عقل چکر میں تھی کہ دیکھیں اب ناین کیا رنگ لاتی ہے اور موچن کیا بات بناتی ہے؟ دو گھڑی رہ کر تو موچن ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگی کہ الٰہی بھلا دنیا کے لوگ اندھے ہیں، تو دانا بینا ہے، تجھ سے تو کوئی بات چھپی نہیں، سب آشکارا ہے۔ شعر ؎
میں کہاں اور بھلا میری ملاقات کہاں
لوگ کم بخت عبث کرتے ہیں بدنام مجھے
جو اس میں میرا دوس ہو یا کچھ مجھ میں پانی مرتا ہو تو ناک چھوڑ کان بھی جائیں۔ اس نے کیا سمجھ کر بے تقصیر میری ناک جو میرے منہ کی سوبھا تھی، طوفان شیطان لگا کے کاٹ لی اور جس سے یہ مجھے لگائے مارتا ہے کبھی میں نے۔ شعر ؎
بھر نظر اس کو جو دیکھا ہو تو آنکھیں پھوٹیں
کان بہرے ہوں سنا ہو کبھو پیغامِ وصال
جو کچھ میں جٹی ستی ہوں تو میری ناک جیسی تھی ویسی ہی ہو جائے۔ یہ بات اس کا خاوند پڑے پڑے سنتا تھا، ایکا ایک اس پر جھونک دوڑا کہ جھک نہ مار: خدا، چور، چھنال کی نہیں سنتا۔ ایسی چہیتا چہیتی گورا پاربتی، بی بی نیک پاک ہیں کہ خدا نئے سر سے ان کی کٹی ناک جماوے گا۔ شعر ؎
اثر ہوتا تو کب کا ہو بھی چکتا
دعائے صبح سے اب ہاتھ اٹھا بیٹھ
رنڈی نے کہا: اپنا سا سب کو مت جان، ایمان ٹھکانے رکھ اور ایسی بات پھر مت کہہ۔ یہاں سانچ کو آنچ نہیں۔ خدا میں سب قدرت ہے۔ آنکھوں دیکھے گا، تب تو پتیائے گا۔ یہ بات سن کر موچی اچنبھے میں رہا۔ اٹھ کر دیکھا تو جُڑی جڑائی اچھی خاصی جیسی تھی ویسی ہی ناک ہے۔ شعر ؎
ہوا سنتے ہی شوق اس کو دوبالا
قدم پر اس کے سر جاتے ہی ڈالا
نک گھسنی کرنے لگا کہ میں نے تجھے ناحق ستایا، پھر ایسا جھک نہ ماروں گا۔ نظم ؎
کہے گی تو جو کچھ ووہی کروں گا
جیوں تیری رضا میں یا مروں گا
وہی اے دوست میرا مدعا ہو
مرے حق میں جو کچھ تیری رضا ہو
بجا لاؤں تیرا ہر طور فرمان
ترے جاؤں سدا قربان قربان
تجھے تن زیب اور خاصہ پنھاؤں
تجھے کر فرش آنکھوں میں بٹھاؤں
بھلا ہوا سو ہوا۔ شعر ؎
تو مجھ سے نہ رکھ غبار جی میں
آوے بھی اگر ہزار جی میں
دیکھو بن آئی کی بات ہے۔ اب رنڈی تو اپنا مان بڑھانے کو سیج پر جاتی، پاؤں پھیلاتی ہے اور یہ بچارا اس کا غصہ گھٹانے کو ہاتھ جوڑتا ہے۔ نظم ؎
دعا یہ مانگتے ہیں اب کہ اس طرح سے رات
خفا ہو اپنے اس یارِ مہرباں سے لڑے
اُسی طرح سے الٰہی بہم ملاپ میں بھی
دہاں دہاں سے لڑے اور زباں زباں سے لڑے
یہ ناین جو اپنے گھر گئی تھی، اسے یوں سوجھی کہ کسی بہانے خصم سے بگڑوں اوریہ چھدّا اُسی کے سر دھروں۔ کہیں اس کے جاتے ہی نائی چونکا اور کہا: ذرا جوتا تو دے، مجھے ایک ججمان کے گھر جانا ہے۔ رنڈی کو تو اسے بھڑکانا تھا اور اپنی بھنبھنی آواز چھپانا۔ اس نے نہ جوتا اٹھا دیا، نہ بات کا جواب ہی دیا۔ اس کی مگرائی پر بات بڑھی اور نائی گالی گلوج کرنے لگا۔ آخر ناین نے بہت کھسیانا کر کے جوتے کی جگہ ننگا استرہ لا، ہاتھ میں دینے لگی اور تنک کر کہنے لگی۔ شعر ؎
یہ نت کے کون نکتوڑے اٹھائے
ترا غصہ تو ہر دم ناک پر ہے
نائی نے جھنجھلا کر وہ استرہ اس طرف کو پھینک دیا۔ استرہ پھینکنا اور اس کا لوٹ جانا، رنڈی نے دوہائی تہائی مچا دی کہ ہائے ناک گئی۔ نائی سے بات بن نہ آئی، جیبھ داب کر اتنا تو کہا کہ اجی صاحب۔ شعر ؎
کیوں لیے مرتے ہو بندے کو خدا سے تو ڈرو
میں کدھر کو ہوں کھڑا آپ کدھر بیٹھے ہیں
اس وقت رنڈی کی جیبھ توقینچی سی چلتی تھی اور مرد ششدر گم تھا۔ نظم ؎
دیکھ کر اس کی ایسی حیرانی
شرم سے آئینہ بھی تھا پانی
نہ کٹوری کی ایک چشم تھی تر
سر بجیب استرے بھی تھی یکسر
اس سمے شورغل سن کر محلہ کی رنڈی، مرد اس کے گھر سبھی آٹوٹے۔ دیکھیں تو ناین کے کپڑے لوہو لہان ہیں اور صاف ناک سوت گئی ہے۔ سبھی نے نائی بچارے کو نکّو کیا۔ فجر ہوتے ہی رنڈی کے ذات بھائیوں نے بلوا کر کے اسے قاضی پاس کھچوایا اور الٹا قاضی نے بھی اسی کو آڑے ہاتھوں لیا کہ عقل کے نکھ لیوا بھلا کوئی ایسا کام کرتا ہے، تو نے بچاری کو کورے استرے مونڈا۔ اب عمر بھر کو یہ کلنک کا ٹیکا رہا۔ اس کے نصیبوں کہیں پھرتے پھراتے گروجی اس قاضی کے یہاں جانکلے۔ دیکھیں تو وہاں نائی، ناین کا نیاؤ (نیائے ) چُک رہا ہے اور لوگوں کا دھوم کچربہ ہو رہا ہے۔ قاضی مسند پر بیٹھا بات پوچھتا ہے کہ چور کو پکڑیے باٹ سے اور چھنال کو کھاٹ سے۔ تو نے کیا سمجھ کر اس کے منہ کی آبرو اتاری۔ اس وقت نائی کا دم ناک میں تھا، نہ ہاں کر سکتا تھا نہ ناہ۔ آخر نائی پر تقصیر ثابت کی اور ناک کے بدلے ناک کاٹنے کا حکم دیا۔ تب گرو قاضی کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا۔ شعر ؎
قاضی ہزار طرح کے قصوں میں آ سکا
لیکن نہ حسن و عشق کا جھگڑا چکا سکا
یہ وہی بات ہے تریا چلتر جانے نہیں، کوئی خصم مار کر ستی ہوئی۔ سو یار کا غصہ بھتار پر۔ ناک تو کہیں اور کٹائی اس بے چارے پر دھاندلی لائے، کیا تماشے کی بات ہے۔
حاصل مطلب قصہ کا
بارے اتنی بات کہنے سے قاضی کا غصہ دھیما ہوا، نائی کو چھوڑ دیا اور ناین کو جھڑک دیا اور ان سے کہا: حضرت اب آپ نے جو جو دیکھا سنا ہو، فرمائیے۔ گروجی نے کہا: شعر ؎
چُکے انصاف حسن و عشق کا تب جس گھڑی پیارے
اکیلے بیٹھ کے ہم تم کریں گفتار آپس میں
لیکن بات اتنی ہے، نہ میرے گھر آپ سے چور آیا، نہ جانوروں نے لومڑی کو بیر سے مارا، کیا بسنی خونی تھا کہ نائکہ کو بِس (زہر) دیا یا نائی کا سر پھرا تھا کہ جورو کی ناک کاٹے۔ یہ اپنا کیا آپ بھگتتی ہیں اور ناحق اوروں کو لیے مرتی ہیں۔ اپنا عیب سب جانتی ہیں پر اپنے ساتھ دوسرے کو بھی سانتی ہیں۔ قاضی نے کہا، میں توبھٹکا ہی تھا پر اس وقت تم خضر ملے اور تم ہی نے نائی کی ناک رکھ لی، پر اب بتاؤ تو سہی اس بگاڑ کا سِرا کیا ہے؟ نائکہ کیسے مری اور ناین کی ناک کیوں کر کٹی؟ گرو نے جو جو ہوا تھا اور اپنی آنکھوں دیکھا تھا، نئے سر سے ایک ایک بات دوہرائی اور کہا کہ نہ مجھے حیلہ کرنے کی سادھ (مزہ) ہوتی، نہ میں چور کا چھل (فریب) کھاتا کہ اس نے بالکا بن کر گھر کا بھید لیا اور پھر بُتّا بتا کر ساری عمر کی کمائی لے کر چلتا رہا۔ شعر ؎
خراب مجھ کو کیا دل کی حرص نے ورنہ
فقیر تکیہ سے کا ہے کو یوں اٹھا کرتا
اور لومڑی نے ذرا سی جیب (زبان) کے مزے کے لیے اپنی جان کا لالچ نہ کیا، دیودنت لوہو لہان وہ لڑتے جانوروں کا لوہو ٹپکا دیکھ کر چمچیچر ہو گئی، جان رہے کہ جائے، آخر کو ایک ہی دھکے میں اس کی ہڈی پسلی چُرمُر ہو گئی۔ اس کا حال دیکھ کر کچھ کچھ چیت (ہوش) ہوا کہ لالچ بری بلا ہے۔ شعر ؎
تو رشتۂ عمر اپنی سے، مانے جو میری بات
مت حرص ہوا باندھ کہ بودا ہے یہ تاگا
اور نائکہ نے تو اپنے بھلے کو بسنی کا برا چاہا تھا، پر خدا کا تو اور چاہا تھا۔ ایک تو سوتا مُوا برابر، دوسرے متوالا اور ٹھیکا ٹھیک آدھی رات تھی کہ وہ کٹنی زہر ہلاہل ایک چھوچھی (نلی) میں بھر کر جَم کی طرح اس کی چھاتی پر آن بیٹھی اورایک سِرا چھوچھی کا اپنے منہ میں پکڑا اور دوسرا سِرا اس کے نتھنے سے جوڑ کر، چاہتی تھی کہ ایک ہی پھونک میں بچارے کو سوتے کا سوتا ہی رکھے، پر مارنے والے سے جِلانے والا بڑا ہے۔ اس کے دماغ میں دھانس جاتے ہی اس زور سے ایک چھینک آئی کہ سارا اس چھوچھی کا زہر الٹا اس ہی کے حلق سے اتر گیا، آپ ہی آپ اس جگہ مر کر رہ گئی اور گھر کا گھر پڑا سوتا رہا۔ کوئی پانی چُوانے کو بھی نہ پہنچا۔ وہ اپنے نصیبوں سے بچ رہا، نہیں نائکہ مار ہی چکی تھی۔ شعر ؎
تھی کوتہی اجل کی طرف سے ہی، ورنہ وہ
اک عمر سے اسیر تھا زلف دراز کا
اور ناین کی تو ناک ہی پر خیر گذری، نہیں جیسے موچی اپنی جورو کو مار دھاڑ، کھنب سے باندھ آپ سورہا تھا اور ناین یار کا سندیسا (پیام) اس کی جورو کے پاس لائی تھی اور اس کو یار پاس بھیج کرآپ کھنب سے بندھ رہی تھی اور وہ جا کر وہیں بِرَم رہی اور یہاں موچی جاگا اور اس نے جورو کو پکارا اور یہ نہ بولی۔ ایک چپ رہنے پر تو اگلے نے ناک پر رانپی پھیری تھی، کہیں اس وقت ناین کو پہچانتا توکیسے رخنے ڈھیلے کرتا، تسمے کھینچ ڈالتا اور اندر ہی اندر قالبوت ٹھونک دیتا اور بہت خراب کرتا۔ بگاڑ تو سب اپنا ہے، چور کو دوس(الزام )دیجیے کہ ناحق جانوروں کا سراپ (بددعا) لیجیے نہ بسنی گنہگار ہے، نہ نائی تقصیر وار۔ مصر؏:
برائی کر کے کسی نے بھلائی پائی ہے
جو جو بوؤ گے سو سو اپجے گا۔ مصر؏
پائے امرت پھل کہاں سے جو کوئی بووے ارنڈ
یہ قصہ سن کر قاضی نے دانتوں انگلی کاٹی اور سننے والوں کو عبرت ہوئی۔ اس وقت گرو کا وہاں آنا کیمیا ہوا۔ یہ مثل اس واسطے کہی کہ ہر بات میں تامّل کرنا ضرور ہے۔
الحمد للہ کہ یہ قصّہ مطبوعہ گرو اور چیلے کا مستنبط کتاب فوائد انتساب کلیلہ و دمنہ سے، بیچ تاریخ بارھویں، شہر ربیع الآخر ۱۲۶۱ ہجری کی حسن سعی کارپردازانِ مطبع مصطفائی، محمد مصطفی خان ولد حاجی محمد روشن خان مرحوم سے محلہ محمودنگر واقع زیر اکبری دروازہ، من محلات بیت السلطنت لکھنؤ میں محلی بحلیہ طبع ہوا۔
قطعۂ تاریخ ریختۂ قلم، جادو رقم سید ناصر علی نصیر ؎
ہو گیا مطبوع اردو میں یہ قصہ لاجواب
کیا نصیر اس کے خیالِ سال کا لکھوں بیاں
ایک کے لب کو نہ دیکھا چپ، یہ بولے مجھ سے سب
لکھ گرو چیلے کا قصہ راحت افزائے جہاں
۱۲۶۱ھ
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی فرید الحسن، کراچی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا
|
لا ایلما
محب علوی، لاہور محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |