اللہ اکبر
نثر بے نظیر سحر البیان مثنوی کی جس کا مصنف میر حسن ہے۔ تالیف کی ہوئی میر بہادر علی حسینی کی، مدرسۂ جدید کے لیے، عہد میں زبدۂ نوئینانِ عظیم الشان مشیر خاص شاہِ کیواں بارگاہِ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام ظلہ کے حکم سے خداوند نعمت جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام اقبالہ کے ؎
نہیں ہے بحث کا طوطی ترا دہن مجھ سے
سخن ہی سن لے تو رنگین تر از چمن مجھ سے
سخن مرا ہے مقابل مرے سخن کے میں
کہ میں سخن سے ہوں مشہور اور سخن مجھ سے
سنہ 1803 عیسوی مطابق سنہ 1218 ہجری ہندوستانی چھاپے خانے میں چھاپا کیا ہوا منشی آفتاب الدین کا۔
﷽
حمد و نعت میں
قلم سے لکھوں پہلے نام خدا وہ کیا ہے کہ ہو یہ کہانی تمام |
کہ حاصل ہو دل کا مرے مدعا بحقِ نبی سرورِ خاص و عام |
حمد کی زیبائش لائق ہے ایسے خالق کو جس نے مجرد و مادی پیدا کیے۔ ادراک و حواس جو ان میں قابل تھے، ان کو دیے۔ انسان کو ان میں شریف تر بنایا، حسن و عشق اس کو عطا فرمایا۔ کون پا سکے اس کی صنعت کے راز، ان کو آپ ہی جانتا ہے وہ بے نیاز۔ رحمت کاملہ کی آرائش سزاوار اس نبی کے ہے، قرآن سا معجزہ جس کے لیے بھیجا اور قصہ ہر ایک پیغمبرکا اس میں بیان کیا۔ بشر کی تاب کیا جو اس کے مقطعات کے اشاروں کو سمجھے یا مرکبات کے معانی کی تہوں کو پاوے۔ تحفہ سلام کا قابل اس کے آل و اصحاب کے ہے جن کا رتبہ عرش سے اعلیٰ ہے اور علم فرشتوں سے بھی بڑا ؎
سراہا ہے حق نے انھیں بارہا
کروں مدح ان کی مرا منہ ہے کیا
بعد اس کے قصۂ بے نظیر و بدرِ منیر کہ نظم میں تصنیف کیا ہوا شاعرِ بے ہمتا، ادا بندِ یکتا، زونقِ بزمِ سخن میر حسن مرحوم متخلص بہ حسن، سعید ازلی، خلف الرشید میر غلام حسین ضاحک دہلوی کا تھا (فی الواقع ہر ایک مصرع اس کا فصاحت و بلاغت میں بے نظیر ہے اور ہر ایک شعر حسن و خوبی میں مثل بدرِ منیر۔ جو سخن دان منصف مزاج و عاشق پیشہ ہیں، اس کی قدر جانتے ہیں اور جن کو اس طرح کی شاعری پرقدرت ہے، ووہی اس کی طرز بہ خوبی پہچانتے ہیں۔ مقابل اس کے نظم کس سے ہو سکے، بلکہ کوئی اس کی رمزوں کو پا تو سکے؟ قاصر ہے زبان اس کی توصیف میں، ہر کہ و مہ مشغول ہے اسی کی تعریف میں)۔ اب اس کو عہد میں شاہ عالم بادشاہ کے اور ریاست میں امیر سراپا تدبیر، فلاطون منش، ارسطو دانش، غربا پرور، آرائش سپاہ و لشکر، زبدۂ نوئینان عظیم الشان، مشیر خاص شاہ کیواں بارگاہِ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام اقبالہ کے سنہ 1217 بارہ سے سترہ ہجری میں مطابق سنہ 1802 اٹھارہ سے دو عیسوی کے، حکم سے صاحبِ خداوند نعمت روشن ضمیر، عالی حوصلہ والا تدبیر جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام حشمتہ کے، عاصی میر بہادر علی حسینی نے شروع قصے سے موافق محاورۂ خاص کے نثر میں لکھا۔ پہلے اس سے یہ خاکسار اس کہانی کو خاص و عام کی بول چال کے مطابق بہ طرز سہل واسطے صاحبان نو آموز کے تحریر کر چکا تھا، اب جی میں یوں آئی کہ اس داستان شیریں کو (کہ فی الحقیقت قصۂ شیریں سے شیریں تر ہے) اس رویے سے نثر کروں کہ ہر ایک زبان داں و شاعر اس کو سن کر عش عش کرے اور اس ہیچ مدان کی ایک یادگاری دنیا میں رہے۔
کہانی کی ابتدا
کسی شہر کا ایک بادشاہ تھا، رتبے میں شاہنشاہ رعیت پرور، عالم پناہ۔ خزانے اس کے ارب کھرب سے بھرے پُرے۔ جواہر خانے میں طرح بہ طرح کے جواہر ان گنت چوکھے کھرے۔ توشے خانے کے بیچ انواع اقسام کے تھان قیمتی بے شمار۔ پوشاکیں ہر نوع کی شاہانہ و امیرانہ تیار۔ چار وزیر اس کے دانش و عقل میں یکتا، امرا شجاع و دانا ہزارہا۔ سپاہ کی کثرت ملخ و مور سے زیادہ، مرفہ احوال ہر ایک سوار و پیادہ ؎
کوئی دیکھتا آکے جب اس کی فوج
تو کہتا کہ ہے بحر ہستی کی موج
فیل خانے میں ہزاروں خوب صورت پایل نِجھول ہاتھی۔ اصطبل کے بیچ لکہا گھوڑے پری پیکر عربی و عراقی ؎
طویلے کے اس کے جو ادنیٰ تھے خر
انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر
ملک اس کا رشکِ مینو سواد، بہت بڑا اور نہایت آباد۔ رعیت مال و زر سے سب کی سب آسودہ۔ نہ کسی کو مفلسی کا دھیان، نہ چوری کا اندیشہ۔ زمین اس سرزمین کی سرسبز و شاداب، ہر ایک کی نظر اس کے نظارے سے سیراب۔ کوئیں اندارے پاکیزہ و شیریں جدھر تدھر، تالاب باؤلی جا بجا اپنے اپنے موقع پر۔ ہر ایک چھوٹے بڑے کے گھر میں حوض و نہر، آبِ لطافت لے رہا تھا ہر ایک طرف لہر۔ مکانات گچ کے اکثر خوش اسلوب صاف ستھرے، پیکِ نظر جن پر سوچ سوچ پاؤں دھرے۔ کیا کہیے اس کی آراستگی و فضا، وہ نصف جہان اصفہان تھا گویا۔ اہل حرفہ وہاں کے سب کے سب کاریگری میں بے نظیر، بازار وہاں کا ایک لخت مرقع تصویر۔ موجود وہاں ہر ایک طرح کا عالم، جہاں تہاں ہر ایک وقت گذری کا سا عالم ؎
یہ دلچسپ بازار کا چوک تھا
کہ ٹھہرے جہاں بس وہیں دل رہا
بہار ایسی رکھتے تھے بازار کے رستے، گویا پھول رہے تھے گلزار کے تختے۔ دکانیں دو رستہ پختہ و شفاف یکسر، ایک کا عکس ایک میں آوے نظر۔ ہر ایک گلی کوچے میں سنگ مرمر کا فرش، قلعہ وہاں کا بلندی میں مثل عرش۔ پہاڑ اس کے سامنے ایک رائی، رود نیل سی اس کے گرد کی کھائی۔ اس کی عمارت کی ساخت جو دیکھے ایک آن، معمارِ قضا عمر بھر رہے حیران۔ ہر ایک محل اس کا صفائی میں خانۂ نور، جو دیکھے کہے خدا کی قدرت ہے معمور۔ دن رات عیش و عشرت اور چہل، ناچ راگ کے سوا کچھ اور نہ تھا شغل۔ جو غریب فقیر محتاج اُس ملک میں آیا، فی الفور تونگر ہوا۔ شہر تھا کہ خانۂ دولت، شہریار تھا کہ ابرِ رحمت ؎
نہ دیکھا کسی نے کوئی وہاں فقیر
ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر
رشکِ باغ ارم ہر ایک باغ اس کا، بِن رُت کے پھول اور پھل وہاں موجود سدا۔ جہاں خزاں میں رہتا ہو بہار کا سماں، وہاں کی بہار کا کیا کیجے بیاں؟ غم کا اس دیار میں تھا کیا لیکھا؟ بجز لالہ کے کہیں داغ نہ دیکھا۔ جہاں تہاں عیش و عشرت، ہر ایک جا راگ رنگ کی صحبت۔ جس تس مقام پر سیر گھر گھر خوشی، تنگ دلی فقط غنچوں ہی میں تھی۔ رشک و حسد نہ تھا کسی کو کسی سے، باہم رہتے تھے سبھی ملے جلے۔ بادشاہ کو مدام ماہ روؤں سے صحبت، اور جامہ زیبوں سے رغبت۔ ہزاروں غلام پری پیکر اس کی خدمت میں حاضر شام و سحر ؎
کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم
مگر ایک اولاد کا تھا الم
اپنے نہال سلطنت کو جو دیکھتا بے ثمر، پژمردہ ہی رہتا آٹھ پہر۔ اس کا خانۂ دولت جو بے چراغ تھا، اسی واسطےاُس کے دل پر داغ تھا ؎
دنوں کا یہ اس کے عجب پھیر تھا
کہ اس روشنی پر یہ اندھیر تھا
قصہ مختصر ایک روز وزیروں کو بلا کر اس نے اپنے دل کا احوال اظہار کیا کہ مجھے بادشاہت اب منظور نہیں، اور اس بوجھ کے اٹھانے کا مقدور نہیں۔ ملک داری کے سبب بہتیری کاہشیں جان پر لیں، ایک عمر انتظامِ سلطنت میں کوششیں کیں۔ کہاں تک دنیا کی فکر میں دین سے غافل رہوں؟ اور مملکت کی طلب میں جان پر جوکھوں اٹھاؤں؟ اب میں نے دھیان اٹھا دیا زر و مال کا، خواہاں ہوں فقیری کے حال و قال کا۔ سواے اُس کے میرے حق میں کچھ بہتر نہیں کہ وارث تخت و تاج اب تک میرے گھر نہیں ؎
فقیر اب نہ ہوں تو کروں کیا علاج
نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج
اب جوانی نبڑی، پیری نمود ہوئی۔ اتنی حرص دنیا کی کس واسطے اور یہ بکھیڑے کس کے لیے؟ سچ تو یہ ہے جوانی کا جانا زندگانی کا جانا ہے۔ جہاں ڈاڑھی میں سفید بال نکلا، مرگ کا پیغام پہنچا۔
وزیروں نے یہ سن کر عرض کی:
“اے آفتابِ آسمانِ سلطنت! ذرہ وار مضطرب ہونا اور اپنی جان کو ایسے اندیشوں میں کھونا خردمندوں کی شان سے اور عقل کی آن بان سے بعید ہے۔ دنیا داری کے لباس میں فقیری کرنا مزا ہے اور الگ رہنا عین آلودگی میں کام بڑا ہے۔ بستر آرام چھوڑ کر جو ذکر الٰہی میں بے آرام رہے، عبادت اس کی ہے۔ جو بوریے پر تسبیح پڑھا کرے اور جاگے، عادت اس کی ہے۔ صلاح دولت یہ ہے کہ سلطنت میں گدائی کرو اور راحت میں براے خدا اذیت سہو۔ خلق کی رفاہ کے واسطے رنج اٹھاؤ، بے کسوں مظلوموں کے برے وقت میں کام آؤ۔ خدا کی نعمتوں کو رد کرنا اور ناحق دکھ بھرنا نہ دین میں اچھا ہے نہ دنیا میں۔ اس خیال فاسد کو خاطر مبارک سے نکالیے، زمامِ اختیار کو گھبرا کر ہاتھ سے نہ ڈالیے ؎
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت
فقیری میں ضائع کرو اس کو مت
عمل نیک کے پانی سے یہاں اِس کو سینچیے، وہاں پکا پکایا کھلیان لیجیے۔ جلدی کو کام نہ فرمائیے، صبر و تحمل سے ہاتھ نہ اٹھائیے۔ دانا ایک کام کو چھوڑ کر دوسرا اختیار نہیں کرتے۔ مبادا اس بیت سے مخاطب ہوں ؎
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ بر آسماں نیز پرداختی
مناسب ہے کہ عدل و انصاف برقرار رہے اور خیر و خیرات لیل و نہار۔ کیوں کہ جو کوئی یہاں دیوے گا، وہی وہاں لیوے گا۔ جس کا ہاتھ نہ کھلا، وہی خالی ہاتھ گیا۔ بادشاہوں کی نجات انھیں باتوں سے ہے۔ حاکم اگر صرف عبادت پر رہے اور ان کاموں کو سہل جان کر چھوڑ دے، نعمت آخرت نہ پائے گا، بلکہ عذابوں کے صدمے اٹھائے گا ؎
رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات
کہ اس فیض سے ہے تمھاری نجات
مگر اولاد کی طرف سے جو حضرت کا مزاج مکدر ہے، اس کی بھی تدبیر کرتے ہیں۔ دعا و دوا میں البتہ اثر ہے۔ تعجب نہیں جو اس کے وسیلے سے آپ کے فرزند ہو۔ مایوس نہ ہو جیے۔ ابھی کیا گیا ہے؟ ساٹھ ساٹھ برس کی عمر میں لوگوں کے یہاں اولاد ہوئی ہے۔ حضرت کا تو سن شریف ہنوز اس حد کو نہیں پہنچا۔ لا تقنطوا من رحمة اللہ پر دھیان لگائیے اور یاس کے کلمے خاطر مبارک سے بھلائیے۔ غلام بھی اب نجومیوں رمّالوں کو بلاتے ہیں اور حضور کے طالعوں کا احوال دکھلاتے ہیں۔”
القصہ بادشاہ کی خدمت میں اس وضع سے تسلی کے کلمے اور بھی عرض کیے اور بہتیرے بھروسے دیے۔ آخر الامر جتنے طالع شناس شہر میں تھے، ان کو طلب کیا اور اطراف میں بھی جتنے اس کام کے سُنے، ان کو بھی بلا بھیجا۔ ایک دن وہ سب کے سب آکر جمع ہوئے۔ تب ان کو حضور میں لے گئے۔ وے آداب بادشاہی سے مجرا کرکے یوں دعائیں دینے لگے: آپ کی عمر و دولت پائدار رہے اور بخت بیدار۔ دشمن تیرا سدا غم کی آگ میں جلے۔ تو ہمیشہ پھولے اور پھلے۔
بادشاہ کو ان کے اطوار پسند آئے۔ ارشاد کیا: بیٹھ جاؤ، اپنی کتابیں کھولو، زائچے کھینچو؛ دیکھو تو میری قسمت میں اولاد ہے یا نہیں۔ یہ سن کر پہلے تو رمالوں کی جماعت نے قرعے پھینکے اور زائچے کھینچے۔ پھر عرض کی کہ بیاض خانۂ امید میں قوت پر بیٹھی یوں کہتی ہے کہ ہر ایک نقطہ زائچے کا فردِ خوشی ہے اور ہر ایک زوج شکلِ فرح و شادی۔ اور اولاد کے گھر میں فرح کا خوش حال بیٹھنا معہ شاہد و ناظر دلیل قوی ہے۔ غرض ہم اپنے علم کے طریق سے اجتماع کرکے کہتے ہیں کہ اسی سال میں خاص محل سے حضرت کے یہاں ایک فرزند ارجمند پیدا ہووے اور غبار ملال و کلفت کا آپ کی لوح خاطر سے دھووے۔ آپ خوش و خرم رہا کیجیے اور شراب عیش اور نشاط پیا کیجیے۔
پھر نجومیوں نے بھی التماس کیا: نحوست کے ایام کا دور گذرا۔ زحل کا عمل تمام ہو چکا۔ طالع کے ستارے نے طور بدلا۔ شادی کا دور آیا۔ ایک سے ایک کوکب بھی نظر نیک رکھتا ہے۔ چاہیے کہ آپ کا مطلب جلد حاصل ہو۔
بعد اُن کے پنڈتوں نے جنم پتری بادشاہ کی دیکھی اور سوچ بچار کر کچھ انگلیوں پر گنا۔ راسوں کی طرف دھیان لگایا۔ تُلا، برچھک، دھن، کنبھ پر گیان دوڑایا۔ آخر نج تج سے دیکھ داکھ بولے: اب حضرت کے نصیبوں نے یاوری کی کہ پانچواں آفتاب اور ساتویں مشتری آئی۔ چاہیے من کی منسا رام کی دَیا سے پوری ہو اور چاند سا بالک اپنے گھر میں کھیلتا دیکھو ؎
نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن مقرر ترے چاہیے ہو پسر |
نہ ہو گر خوشی تو نہ ہوں برہمن کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر |
لیکن اس کو بارھویں برس بلندی پر خطرہ ہے۔ جب تک بارہ برس کا پورا نہ ہووے، کوٹھے پر نہ چڑھے بلکہ آسمان بھی نہ دیکھے۔
حضرت نے فرمایا کہ جان کی تو خیر ہے؟ وے بولے: البتہ جی جوکھوں تو نہیں پر آوارگی و مسافرت چندے اس کی قسمت میں ہے۔ اغلب کہ اس پر کوئی پری عاشق ہو اور یہ کسی شہزادی پر۔ اس سبب کتنے دنوں دکھ بھرے گا اور گردش میں رہے گا۔
حضرت ان کی باتوں سے کچھ خوشی ہوئے اور کچھ ملول۔ فی الواقع دنیا میں ایسی شادی کم ہے کہ جس کے بعد غم نہ ہو۔ آخر کہنے لگے: ان باتوں پر بھروسا نہ کیا چاہیے۔ خدا جو کچھ چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ غیب کی خبر بھی اسی کو ہے۔ پر یہ چلن آگے سے چلا آیا ہے، کچھ نیا نہیں۔ ان لوگوں سے پوچھنا اور فال نیک لینا، صدقہ دینا روا ہے۔ ہرچند نجومی عالم غیب نہیں، پر اس سے پوچھنا عیب نہیں ؎
یہ فرما محل میں درامد ہوئے
نجومی وہاں سے برامد ہوئے
از بس کہ اس کا اعتقاد فقط خدا ہی پر تھا، صبح و شام خلوص سے دعائیں مانگنے لگا۔ مسجدوں میں روشنی بلا ناغہ بھیجنی شروع کی، ہر ایک پیر فقیر سے بھی رجوع کی۔ نِدان اس کی امید کا کھیت سبز ہوا اور پھل اس کو ملا۔ جب ایسی لو لگائی، تب منہ مانگی مراد پائی۔ حاصل یہ ہے کہ بادشاہ کی بیاہتا بی بی اسی سال میں حاملہ ہوئی اور بنیاد اولاد کی بندھی ؎
جو کچھ دل پہ گذرے تھے رنج و تعب خوشی سے پلا مجھ کو ساقی شراب کروں نغمۂ تہنیت کو شروع |
مبدّل ہوئے وہ خوشی ساتھ سب کوئی دن کو بجتا ہے چنگ و رباب کہ ایک نیک اختر کرے ہے طلوع |
داستان بے نظیر کے پیدا ہونے کے احوال میں
جب نو مہینے خیریت سے گذرے، بادشاہ کے یہاں ایک بیٹا ایسا شکیل پیدا ہوا کہ گھر آنگن اجالا ہو گیا۔ مہر و ماہ کو اس کے جلوے نے پھیکا کر دیا، بلکہ شیدا۔ پری زاد تو کس شمار میں اور انسان کس قطار میں؟ جب حسن و صورت میں اس کا نظیر نہ دیکھا، نام بھی بے نظیر رکھا۔ اندر باہر مبارک سلامت کی دھوم مچ گئی، محل مبارک میں شادی رچ گئی۔ پہلے تو ناظر نے بادشاہ کو معہ عملے آکر نذر گزرانی، پھر وزیر و امیر ہر ایک چھوٹے بڑے نے۔ اور یہ بیت پڑھی ؎
مبارک تجھے اے شہِ نیک بخت سکندر نژاد اور دارا حشم رہے اس کے اقلیم زیر نگیں |
کہ پیدا ہوا وارثِ تاج و تخت فلک مرتبت اور عُطارد قلم غلامی کریں اس کی خاقانِ چیں |
بادشاہ نے یہ خوش خبر سنتے ہی جانماز بچھائی، دو گانہ شکر کا پڑھا اور کہا: فی الحقیقت تجھے فضل کرتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ لازم ہے کہ امیدوار تجھ سے ناامید نہ ہو، آس لگائے رہے، دیر ہونے سے گھبرا نہ جاوے۔ پھر حکم کیا: خزانے کھول دیں اور دن رات خیرات کریں۔ پھر ہر ایک کو خلعت اس کے لائق بخشا اور انعام اکرام دیا۔ وزیروں امیروں کو جاگیریں عنایت فرمائیں، مشایخوں کو گاؤں دیے، فقیروں کو روپے، پیادوں کو گھوڑے۔ غرض ایک عالم کو نہال کر دیا اور مالا مال ؎
خوشی میں کیا یہاں تلک زر نثار | جسے ایک دینا تھا بخشے ہزار |
اور جشن کی تیاری کو فرمایا۔ نقیبوں نے پہلے تو نقار خانے کے داروغہ سے کہا: حضور کا حکم ہے کہ نوبت خانے کا نئے سر سے ساز و سرنجام درست کرو اور آج سے جشن کی نوبت بجاؤ۔ اس نے وہیں جھلا جھل کے غلاف سنہری رُپہری نقاروں پر چڑھوا دیے اور جو کچھ لازمہ تھا، شتابی درست کروا دیا۔ نقارچی بھی تاش و بادلے کی کرتیاں پہن، جھمجھماتی پگڑیاں باندھ، نقارے سینک سانک بجانے لگے اور اپنا کرتب دکھانے ؎
کہا زیر سے بم نے بہر شگوں
کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں؟
پھر شہناے چی بھی ویسے ہی کپڑے پہن، سرپیچ معمولی باندھ موافق اُن کے سُر بنا مِلا سہانی سہانی دھنیں سنانے لگے۔ غرض اپجیں چلنے لگیں اور پرنیں نکلنے ؎
ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن
سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن
تُرہی اور قرناے خوشی کا دم لگیں بھرنے اور جھانجھ تالیاں بجا بجا تھرکنے۔ از بس کہ شادیانوں کی آواز بلند ہوئی، تمام خلقت شہر کی اکٹھی ہو گئی کہ تھالی سروں پر پھرنے لگی ؎
نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی محل سے لگا تا بہ دیوان عام |
کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی عجب طرح کا ایک ہوا ازدحام |
جہاں تک گویّے نچویّے سازندے تھے، اپنے اپنے کرتب کے دھنی، بڑے بڑے نائک اور گُنی طنبوروں کے سُر ملا، سِتاروں کے پردے بنا حاضر ہوئے ؎
کیا بھانڈ اور بھگتیوں نے ہجوم | ہوئی “آہے آہے مبارک” کی دھوم |
تنت کار بین، رباب، قانون بجانے لگے اور گائک نٹوے ناچنے گانے۔ کنچنیوں، رام جنیوں، چونہ پزنیوں کی اللہ رے کثرت۔ کشمیریوں، نقلیوں، ہیجڑوں کی بھلّا رے بہتات۔ طبلوں کی تھاپ پکھاوج کی گمک، سارنگیوں مچنگوں کی صدا اور گھنگروؤں کی جھنک یہاں تلک بڑھی کہ قلعۂ مبارک میں کان پڑی آواز سنی نہ جاتی تھی، بلکہ گنبدِ فلک بھی گونج اٹھا تھا ؎
خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے وہ بالے چمکتے ہوئے کان میں وہ گھٹنا وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ کبھو دل کو پاؤں سے مل ڈالنا دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا کسی کے چمکتے ہوئے نورتن وہ دانتوں کی مسّی وہ گل برگ تر |
لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط وہ پاؤں کے گھنگرو جھنکتے ہوئے پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن شفق میں عیاں جیسے شام و سحر |
کسی کے آفتاب سے چہرے کی گرمی و شوخی دلوں کو ذرے کی مانند بے چین کیے دیتی تھی ؎
چمکنا گلوں کا صفا کے سبب کبھی منہ کتئیں پھیر لینا ادھر دوپٹے کو کرنا کبھو منہ کی اوٹ ہر ایک تان میں ان کو ارمان یہ |
وہ گردن کے ڈورے قیامت غضب کبھو چوری چوری سے کرنا نظر کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ کہ دل لیجیے تان کی جان یہ |
کوئی سنگیت کے علم میں طاق، برم جوگ لچھمی کے رویوں کی مشاق پرملو لے رہی تھی۔ کوئی ڈیڑھ گت ہی کی پھبن دکھا پاؤں تلے تماش بینوں کے دل روندتی تھی۔ کوئی دائرے سے پرن نکال ہاتھوں کا برن اُبھرن دکھا جاتی، کوئی ڈِھمڈِھمی لیے منہدی کے ہاتھوں سے پھرتے چلتے گت ہی بجا جاتی ؎
غرض ہر طرح دل کو لینا انھیں کریں مار ٹھوکر، کبھی قتل عام |
کئی طرح سے داغ دینا انھیں کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام |
کسی جگہ کلاونت دُھرپت کبت گیت گا رہے تھے، کسی مقام پر قوّال قول قلبانہ نقش و گل سنا رہے تھے۔ کہیں بھانڈ ولولہوں کا سماں دکھا رہے تھے، کہیں کشمیرنیوں کے طائفے ناچ ناچ رِجھا رہے تھے۔ محل میں بھی راگ رنگ کا ایسا ہی چرچا تھا اور ایک سماں بندھ رہا تھا۔ ایک طرف ڈومنیاں شادیانے دے رہی تھیں، کسی طرف کلاونت بچیاں تانیں لے رہی تھیں۔ جچا خانے میں مبارک سلامت کی دھوم پڑ رہی تھی، مِراسن مالن دائی انگا ایک ایک اپنے اپنے نیگ پر لڑ رہی تھی۔ چھٹھے دن نیک ساعت جچا کو دائیوں خواصوں نے نہلانے کے واسطے پلنگ سے اٹھایا۔ وہ نازک بدن بارِ ناتوانی سے اٹھ نہ سکتی تھی، پھولوں کی ٹہنی کی مانند ادنیٰ جنبش سے لچکتی تھی۔ غرض جوں توں ان کے سہارے سے اٹھی شانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نقاہت و نزاکت سے لڑکھڑاتی ہوئی بڑے مان مہت سے جڑاؤ چوکی پر آبیٹھی، نہایت صفائی اور ستھرائی سے نہائی۔
اس کے بعد دائی نے شہزادے کو بھی بہ احتیاط نفاست و ملائمت سے ایک جڑاؤ لگن میں چاؤ چوچلے سے نہلا کر اس کی گود میں دیا اور دونوں کو اسبند کیا، پھر جچا نے سنہری بادلے کا جوڑا بڑی آب و تاب سے پہنا، بچے کو بھی پہنایا اور ایک پٹی جواہر نگار چمکتی ہوئی اپنے سر سے اور ایک اُس کے سر سے باندھی۔ یہ سماں دیکھ کے مجلس کی مجلس کو چکا چوندھ لگ گئی۔ کوئی کہتی تھی چاند تارے کے آس پاس جڑاؤ ہالا پڑا ہے، کسی کی زبان پر یہ تھا کہ مہرِ حسن و کوکبِ خوبی کے گرد نور نے حلقہ باندھا ہے۔
الغرض اس دم ہر زہرہ جبیں حیران تھی اور ہر ایک نازنین سرگرداں۔ پھر سب امیر زادیوں بلکہ تمام محل کی عورتوں نے بھی نہا نہا پوشاکیں بدلیں، بھاری بھاری بناؤ کیے، مجلس نشاط کی اکٹھی ہوئی، ناچ راگ کی صحبت جمی ؎
چھٹھی تک غرض تھی خوشی کی ہی بات | کہ دن عید اور رات تھی شب برات |
تمام روز تو یہی چرچا رہا۔ جب رات ہوئی تب اس مہ جبین جچا کو اور بھی بنا چُنا، گھونگھٹ کاڑھ، سہرا باندھ، چومک روشن کر تارے دیکھنے کو نکالا۔ پھر بادشاہ نے تیر کمان لے سالیوں کو مان گون سے نیگ مِرگ مارا اور اُس مِرگ نینی کے پلنگ پر ایک پاؤں رکھ کر کھڑے ہو رہے۔
غرض وہ اس روپ سے نکلی: داہنے بائیں اس کے دو خواجہ سرا دعائیں پڑھتے ہوئے، ننگی تلواریں ہاتھوں میں لیے پیپلے ملائے، گرد ہزاروں پری پیکریں چمکی چمکائی بناؤ سنگار کیے ہوئے، بیچ میں آپ البیل پنے سے آستے آستے چلتی تھی اور پاؤں تلے ہر ایک کےدل کو ملتی تھی۔ جوں ہیں اس نے تارے دیکھنے کو گھونگھٹ اٹھا دیا، خوب صورتوں کو بھی عالمِ تصویر بنا دیا۔ چاند اُس آفتاب رو کے آگے ماند لگنے لگا اور ہر ایک تارا آسمان پر تھکت رہ گیا ؎
کہاں ماہ میں اُس کے مکھڑے کی جوت؟ لگے اس کو کب شمع کافور کی |
چمکتا نہیں آگے موتی کے پوت وہ تصویر تھی سر بسر نور کی |
آخر وہ تارے دیکھ کر جچا خانے میں داخل ہوئی، جہاں پناہ بھی خواب گاہ میں تشریف لے گئے لیکن مجلس شادی کی بدستور قائم رہی۔ رات چہل ہی میں کٹی۔ صبح ہوئے شہزادے کو ایسے مکان میں لے جا کر رکھا جہاں سے آسمان نظر نہ آوے بلکہ دھوپ بھی دکھائی نہ دے۔ غرض جس طرح ہلال بدلی میں چھپا ہوا بڑھتا ہے، اسی طرح یہ ماہ نو آسمانِ سلطنت کا بھی پردوں کے اندر بڑھنے لگا۔ فضل الٰہی سے بہ خیریت سال تمام ہوا، اس نے نام خدا دوسرے میں پاؤں دیا ؎
برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی | دل بستگاں کی گرہ کھل گئی |
جب چوتھا برس لگا، دودھ اس کا بڑھایا۔ پھر ویسا ہی جلسہ شادی کا ہوا بلکہ اس سے بھی دونا۔ جس دن وہ سروِ رواں پاؤں چلا، زمین پر گل نے اپنا ماتھا رگڑا اور نرگس نے اپنی آنکھوں کو ملا ؎
لگا پھرنے وہ سرو جب پاؤں پاؤں
کیے بردے آزاد تب اس کے ناؤں
مے ارغوانی پلا ساقیا | کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا |
یہ داستان باغ بنانے میں پادشاہ کے شہزادۂ بے نظیر کے لیے
جب وہ نونہالِ چمنِ سلطنت پاؤں پاؤں چلنے لگا، حضرت نے میر عمارت کو حکم کیا کہ ایک خانہ باغ ایسا بنے کہ ثانی اس کا گلزارِ جہاں میں نہ نکلے۔ چنانچہ وہ سعادت مند حکم بجا لایا اور ویسا ہی اس نے بنایا۔ اگر باغ ارم اس کی بہار دیکھے، لالہ کی مانند داغِ حسرت اپنے جگر پر سدا لیے رہے اور گلشن فردوس کا چمن جو اس کا عالم مشاہدہ کرے، نرگس کی طرح تمام عمر حیرت ہی میں کاٹے۔ اس کا ہر ایک مکان جنت کا نمونا، صفائی و شفافی سے اس کے پھولوں کی بہار کا عالم دونا۔ اس کے دروں کی محرابوں کے آگے محرابِ ابروے خوباں جھک جائے اور وہاں کے آئینوں کی آب و تاب سے رخسارِ مہ رویاں شرمائے۔ اسلوب دار و خوش قطع ہر ایک ایواں، زربفت و بادلے کے سائبان جہاں تہاں۔ سنہری رُپہری چھتوں کی وہ نمائش، ہر ایک مکان کے نقش و نگار یہ آرائش۔ جسے دیکھ کر نقش و نگارِ ارژنگ دنگ ہو جائے اور نقّاشِ قضا بھی ایک نظارے میں اپنے ہوش کھو جائے ؎
چقیں اور پردے بندھے زرنگار | دروں پر کھڑی دست بستہ بہار |
دیکھنے والوں کی نگاہوں کے لیے ان کی تیلیوں کی ساخت جال تھی۔ جس کی آنکھ ان پر پڑی، نظر وہیں رہی نہ اِدھر آسکی نہ اُدھر جا سکی۔ مقیّشی ڈوریاں ان کی رکھتی تھیں یہ جھمکڑا گویا تارِ نگاہِ ماہتاب سے ان کو بانٹا تھا۔ ہر ایک مکان میں رنگ برنگ کا فرشِ مخملی، جا بجا مسند شاہانہ قرینے سے لگی ہوئی۔ پاے ہوس اس سے آگے قدم نہ دھرے اور پیکِ نظر بھی نقش قدم کی مانند وہیں بیٹھ رہے۔ لخلخے روپے سونے کے روشن ہر ایک مکان میں، جڑاؤ چھپرکھٹ اور پلنگ بچھے ہوئے ہر ایک دالان میں ؎
زمین پر تھی اس طور ان کی جھلک
ستاروں کی جیسے فلک پر چمک
وہاں کی زمین رنگت اور صفا میں صندلِ سفید کے تختے کی برابر اور غبار اُس کا عبیرِ ٹھٹھئی سے خوش بو تر۔ روشیں صاف ستھری ہموار، چبوترے جا بجا خوش قِطع و اسلوب دار۔ سنگ مرمر کی نہر کے آگے موج آب گہر پانی بھرے، آبشار کی چینوں کے روبرو آئینہ رخوں کی چینِ پیشانی عجز سے اپنا ماتھا رگڑے۔ بلور کے حوض صفائی و شفافی میں جوں سینۂ خوباں اور پُر آب مثل دیدۂ عاشقاں۔ چمن پھولوں سے ایک لخت معمور، ایک سی بہار نزدیک اور دور۔ قرینوں سے لگے ہوئے سروِ سہی، درختوں میں پڑے جھولتے سیب و بِہی۔ روشوں پر جھومے ہوئے درخت میوہ دار، سرسبز و شاداب ہر ایک شاخسار ؎
ہواے بہاری سے گل لہلہے
چمن سارے سیراب اور ڈہڈہے
سبزے کا وہ رنگ ڈھنگ جس نے زمرد بنا دیا روش کا ہر ایک سنگ۔ کیاریوں میں پھولوں کی ریل پیل، کہیں سگند راے کہیں راے بیل۔ مدن بان کی جُدی ہی آن بان، موگرے کا ایک ایک پھول عطر دان۔ موتیا کا موتی سا برن، نفاست پر نازاں نسرین و نسترن۔ نرگس کی چتون سے دیدۂ خوباں کو حیرانی، سیوتی کی صفائی سے رخسارِ آئینہ رُخاں پانی پانی۔ چمبیلی بھی پھول پھول اپنا سماں دکھاتی تھی، چمپے کی باس عالمِ بالا تلک جاتی تھی۔ گلِ چاندنی چاندنی کی زیب و زینت، داؤدی کے دیکھے آتی تھی آنکھوں میں طراوت۔ شبو کے پھولوں کی مہک، رات کو جاتی تھی کوسوں تلک۔ گل ارغواں سے شرمندہ لعلِ بدخشانی، گلِ اورنگ اپنے رنگ میں لا ثانی۔ نافرمان کی پھولی ہوئی ہر ایک ڈالی، لالہ کی لالی دنیا سے نرالی۔ کیاریوں کی سوبھا جعفری اور گیندے کی قطار، ہار سنگار پھلواری کا سنگار۔ سوں جوہی کندن سے اشرف، گل اشرفی رکھتی تھی سونے پر شرف۔ جائی جوہی یا سُمن کی باس، بھلائے دیتی تھی بھوکھ اور پیاس۔ قمریاں سرخوشی سے صدائیں کریں، بلبلیں شوق سے چہچہے بھریں۔ آب جوئیں لہراتی ہوئی بہبہی سی پھریں، ڈالیاں مستانی سی ہر ایک روش پر جھک جھک گریں ؎
گلوں کا لبِ نہر پر جھومنا کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال وہ آئینہ جو میں دیکھ اپنا قد خراماں صبا صحن میں چار سو |
اُسی اپنے عالم کا منہ چومنا رہیں ہاتھ جوں مست گردن میں ڈال اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو |
چمن اکثر پٹریوں سے ڈہڈہے، ہر ایک روش پر پھول رنگ برنگ کے بچھے ہوئے۔ انگوروں کی بیلوں کا تاکوں پر اینڈتے پھرنا، مے پرستوں کا ان کی طرف تاک لگائے رہنا۔ قاز و قرقرے نہروں کے ادھر ادھر، مرغابیاں پیرتی پھریں جدھر تدھر۔ تالابوں پر بگلوں کی ڈاریں، چاروں طرف کھڑے مور جھنگاریں۔ مول سریاں چاروں کونوں پر پھولی ہوئیں، ڈالیاں نزاکت سے جھولی ہوئیں ؎
چمن آتش گل سے دھکا ہوا درختوں نے برگوں کے کھولے ورق سماں قمریاں دیکھ اس آن کا |
ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا کہ لیں طوطیاں بوستاں کے سبق پڑھیں باب پنجم گلستان کا |
اکثر خوب صورت خوب صورت مالنیں بناؤ کیے سونے روپے کے بیلچے ہاتھوں میں لیے، باغ میں پودھے لگاتی تھیں اور اپنی اپنی محبت کا کانٹا دلوں میں چبھاتی تھیں۔ غرض ہر رُت میں وہاں ایک بہار تھی اور اس پھلواری میں خزاں کو کبھو نہ بار تھی۔
جب دودھ بڑھنے کی شادی ہو چکی، جہاں پناہ نے اُس نونہال کو خادمانِ محل سمیت نئے باغ میں بھجوا دیا اور ہر ایک شخص کو ارشاد کیا کہ خبردار! اس گل برگِ گلزارِ خوبی تک گرم باد کو آنے نہ دیجو بلکہ دیدۂ نرگس کے بھی اِسے سامھنے نہ کیجو۔ چنانچہ وے حکم حضور کا بجا لائیں بلکہ اسی دستور پر رہیں۔ باغ کی بہار بڑھ گئی، تازگی میں افزائش ہوئی۔ ہنسی خوشی کا ہر طرف غل، جدھر دیکھو ادھر ایک نئی طرح کا چہل۔ ددا، دائی انگا، چھوچھو، کھلائی ہر ایک مسرور۔ مغلانیاں چمکی چمکائیاں جوان جوان اپنے عہدوں پر مامور۔ گائنیں پاتریں نوجوشیاں بنی چُنی شراب حسن سے سرشار، ایک سے ایک خوب صورت اور طرح دار۔ ہر ایک اپنے کام کی سُرتی، ہر کسی میں شوخی شرارت اور پھرتی۔ جو ہے سو رشکِ پری اور غیرتِ حور، اپنے اپنے حسن کے غرور سے ہر ایک مغرور۔ خواصوں کے غنچے کے غنچے اور پرے کے پرے، روشوں پر پھرتے ہیں ایک انداز سے ورے اور پرے۔ کوئی کسی سے کر رہی ہے مزاخ، کوئی کسی پر مارتی ہے کلاخ۔ کوئی کہتی ہے راے بیل پر ریل پیل ہے۔ کوئی کہہ رہی ہے کہ چنبیلی چاؤ میں آئی ہے۔ کسی زبان پر یہ ہے کہ پھول کلی کی کلی کھلی جاتی ہے۔ ایک طرف چنپا بھچنپا سی چھٹ رہی ہے، کسی طرف نین سکھ کا دیدار نینوں کو سکھ دے رہا ہے۔ کہیں نرگس کی انکھڑیوں کا دیدۂ نرگس مزا لے رہی ہے۔ ہنس مکھ سچ مچ کی ہنس مکھ، تن سکھ کے ملے جاوے دل کا دکھ۔ آبادی دلوں کی آبادی، شادی گھر گھر کی شادی۔ گل چہرہ سدا گل سے ہم چہرہ، شگوفہ باغ حسن کی شگوفہ۔ مہتاب جھمکڑے میں مہتاب سے بالا۔ گلاب گلاب کے پھول سے آب و تاب میں اعلیٰ۔ غرض ہر ایک پہنے اوڑھے سجی سجائی اپنے اپنے عہدے سے خبردار، کاموں میں ہوشیار ؎
ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں |
پھریں اپنے جوبن پہ اتراتیاں کہیں ہوئے رے اور کہیں واچھڑے کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں |
کسی طرف جگت چل رہی ہے، کہیں کوئی منہدی مَل رہی ہے۔ ایک طرف ٹپّا اڑ رہا ہے، کہیں گوکھرو مُڑ رہا ہے۔ کوئی اپنے مکان میں سوت بوٹی بنا رہی ہے، کوئی سینے میں دل لگا رہی ہے۔ کہیں تار توڑے جاتے ہیں، کسی طرف دل جوڑے جاتے ہیں۔ کوئی حقہ ادا سے لگائے بیٹھی ہے، کوئی نہر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہے۔ کہیں ناز نخرے سے پاؤں دھوئے جاتے ہیں، کہیں بالے میں پھول پروئے جاتے ہیں۔ کوئی شرارت سے کسی کو پکار اٹھتی ہے، کوئی حرم زدگی سے کسی کے دھول مار اٹھتی ہے۔ کوئی مُقابا کھولے کنگھی کر رہی ہے، کوئی کسی پر دھیان دھر رہی ہے۔ کہیں آرسی دیکھی جاتی ہے گھڑی گھڑی، کوئی مسّی کی جما رہی ہے دھڑی۔ کسی دالان میں توتا پڑھایا جاتا ہے، کسی سائبان میں مینا کا پنجرا لٹکایا جاتا ہے۔ کہیں کہانی ہے اور کہیں پہیلی، کوئی روش پر کر رہی ہے اٹھکھیلی۔ حاصل یہ ہے کہ اس سروِ رواں کے یُمن قدم سے گلزار میں ہر ایک سمت ایک سماں بندھ رہا تھا اور مزا گٹھ رہا تھا۔ دن رات چہل ہی میں کٹتی تھی، سواے ہنسی خوشی کے دوسری بات نہ تھی۔ ہر چمن میں گویا پریوں کا اتارا تھا اور ہر روش پر اندر کا اکھاڑا ؎
غرض لوگ تھے یے جو ہر کام کے | یہ سب واسطے اس کے آرام کے |
بارے کرمِ رب عزت اور ما باپ کی شفقت سے شہزادہ پل نکلا۔ نام خدا پانچواں برس اسے شروع ہوا۔ پھر اسی دھوم سے مکتب کی شادی ہوئی، شہر میں دوچند آبادی ہوئی۔ معلم، اتالیق، خوش نویس اپنے اپنے کام کے صاحب کمال متعین ہوئے۔ شہزادہ پڑھنے لکھنے لگا۔ پانچ برس کے عرصے میں فارسی عربی معقول منقول سب پڑھ چکا بلکہ ہر ایک علم و ہنر میں کامل ہوا۔ چنانچہ لکھنے میں بھی یہ دست رس پیدا کیا کہ نسخ و نستعلیق و شکستہ و تعلیق و خط غبار و خط گلزار ہر ایک بہ خوبی لکھنے لگا، بلکہ ہفت قلم کے رویے اور طریقے اپنے ہاتھوں میں قید کر جوڑ توڑ حروف کے ایسے لگانے لگا کہ جہاں کے خوش نویسوں نے اس کا ہاتھ چوم لیا اور اصلاح لینے کا ارادہ کیا۔ جو قطع اس کے ہاتھ کا تھا، سو ورق بہار تھا اور جو صفحہ مشق کا تھا سو خط گلزار۔ غرض ایسا خفی و جلی کا مشاق ہوا کہ خطِ شعاع مہر کو شرمندہ کیا اور دبیر فلک کو طفل مکتب بنا دیا۔ سادہ رخی ہی میں ہر ایک خط پر ایسی قدرت اور ہر فن میں یہ کچھ مہارت پیدا کی کہ اکثروں کی ڈاڑھیاں سفید ہو گئیں پر مشق ان کی اِس رتبے کو نہ پہنچی۔ تب تو حضرت اعلیٰ نے استادوں کو حضور میں بلوا کر ہر ایک کو خلعت و انعام و اکرام بخشا۔ گاؤں معاف کر دیے کہ تمام عمر آرام سے بیٹھے کھائیں اور کسی طرح کا ہرج نہ اٹھائیں۔بعد اس کے پہلوان، پھکیت، تیر انداز، چابک سوار بلکہ جتنے فنونِ سپہ گری کے ماہر اور ان پر قادر تھے، شاہ زادے کی خدمت میں اپنے اپنے وقت پر چھوٹنے لگے اور اس کو اقسام کی ورزشیں اور کثرتیں سکھانے ؎
کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر صفائی میں سوفار، پیکاں کیا |
لیا کھینچ چلے میں سب فنِ تیر گیا جب کے تودے پہ، طوفاں کیا |
لکڑی کی بھی گھائیاں چھوٹتے ہی ایسی قبضے میں کیں کہ راوتوں کو پھکانے اور استادوں کو سکھانے لگا۔ کُشتی میں یہ طاق ہوا کہ بڑے بڑے پہلوانوں نے اس کے آگے سری ٹیک کی اور زمانے کے شہ زوروں نے پیشانی عجز سے اس کے قدموں پر رکھ دی۔ گھوڑے پر بھی ایسا چڑھنے لگا کہ شہ سواروں کو غاشیہ بردار اور نیزہ بازوں کو بھالے بردار بنا دیا۔ بندوق لگانے پر جو ٹک طبیعت آئی، کئی دن کے عرصے میں آواز پر گولی مارنے لگا۔ اڑتا جانور تو درکنار اور نشانی کا کیا شمار؟
کئی دن میں سیکھا یہ کسبِ تفنگ
کہ حیراں رہے دیکھ اہل فرنگ
پھر موسیقی پر جو دھیان آیا تو چند روز میں ایسا ہی گانے لگا کہ تان اس کی اگر تان سین سنتا تو اپنے کان پکڑ لیتا اور بیجو باؤرا باؤلا بن جاتا۔ لَے تال سب کے سب اس کے ہاتھوں میں قید، ساتوں سُر کے کھلے ہوئے اس پر بھید۔ کھلی مُندی پر بہ خوبی قادر، راگ اس کے رو برو دست بستہ حاضر ؎
رکھا موسیقی پر جو کچھ کچھ خیال
کیے قید سب اپنے ہاتھوں میں تال
مصوری پر بھی علی ہذا القیاس ایسا ہی چت لگایا کہ تھوڑے دنوں میں مانی و بہزاد کا استاد ہو گیا۔ زمانے کے مصور اس کے ہاتھ کا کام دیکھ کر نقش دیوار بن گئے اور قلم اپنی قدرت کے عجز سے اس کے سامھنے ڈال اٹھے۔
القصہ اتنے ہی سن و سال میں دنیا کے کسب و کمال میں طاق اور شہرۂ آفاق ہوا۔ جمال و کمال اس کا جو کوئی دیکھتا درود بھیجتا۔ فی الواقع سراپا اس کا حسن و اخلاق سے معمور تھا اور وہ صاحب نظروں کا منظور ؎
رِذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر پلا ساقیا مجھ کو ایک جام مُل غنیمت شمر صحبت دوستان ثمر لے بھلائی کا گر ہو سکے کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار |
سدا قابلوں ہیں سے صحبت اسے ہر ایک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر جوانی پہ آیا ہے ایام گل کہ گل پنج روز است در بوستان شتابی سے بو لے جو کچھ بو سکے یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار |
یہ داستان سواری کی تیاری میں
جب گیارہ برس خیریت سے گذرے، بارھواں برس آیا۔ الحمد للہ! جس دن کی آرزو تھی سو کریم نے ساتھ خوشی کے دکھایا۔ شادی محل میں چاروں طرف مچ گئی، مبارک بادی کی صدا پھر بلند ہوئی ؎
پڑی جب گرہ بارھویں سال کی | کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی |
چار گھڑی دن رہے عرض بیگی کو بادشاہ نے ارشاد کیا کہ صبح سواری مبارک بڑے جلوس سے تیار ہو کہ مَیں شہزادے کو لے کر سوار ہوں گا، تا رعیت اور سپاہ اس کا دیدار دیکھ کر شاد ہو اور بستی ان کے دل کی بھی آباد۔ تم نقیبوں کو تقید کرو، گھر گھر یہ حکم پہنچاویں اور ہر ایک چھوٹے بڑے کو جتاویں کہ زرق برق سے نکلے اور تمام اسباب سواری کا بھی نیا اور جگمگا ہو۔ خبردار ایک سوار میلا اور ایک گھوڑے کا زین پرانا نظر نہ آوے۔ احیاناً کسی کو اس وقت اگر کوئی چیز میسر نہ آوے تو سرکار سے بے تکلف لیوے کہ ما بدولت کی مرضی اور خوشی اسی میں ہے ؎
کریں شہر کو مل کے آئینہ بند | سواری کا ہو نور جس سے دو چند |
اتنے میں شام پڑی، آفتاب والشمس پڑھ کے سجدۂ شکر میں گیا اور مہتاب سورۂ نور پڑھتا ہوا نکلا۔ حضرت محل میں تشریف لے گئے۔ تمام رات ناچ راگ رہا۔ مارے خوشی کے محل میں کوئی نہ سُوا ؎
عجب شب تھی وہ جوں سحر رو سفید | عجب روز تھا مثل روزِ امید |
القصہ رات آخر ہوئی، چاند نے بالینِ استراحت پر اپنا سر رکھا اور سورج بڑی چمک تمک سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ؎
کہا شاہ نے اپنے فرزند کو پلا آتشیں آب پیر مغاں اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین |
کہ بابا نہا دھو کے تیار ہو کہ بھولے مجھے گرم و سردِ جہاں نہ دینا وہ ساغر جو ہو قُلّتین |
یہ داستان بے نظیر کے حمام میں جانے کی
جب وہ سروِ نو خاستہ آراستہ ہو کر حمام میں آیا، اس کے عکس سے ہر دیوار تختۂ گلشن اور ہر ایک سنگ رشکِ چمن بن گیا۔ جامہ خانے میں اندکے ٹھہر کر پوشاک اتاری، لنگی باندھی پھر غسل خانے میں داخل ہوا۔ از بس کہ حمام معتدل تھا، تِس پر بھی رنگ اس گلِ خوبی کا تمتما کر ارغوانی ہوا اور بدن نازنین اس کا پسینے کی بہتایت سے پانی پانی۔ اتنے میں حمامی صوف و خارا کے کھیسے اور سونے روپے کے طاس ہاتھوں میں لیے حاضر ہوئے ؎
لگے مَلنے اس گل بدن کا بدن نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس لگا ہونے ظاہر جو اعجازِ حسن |
ہوا ڈَہڈہا آب سے وہ چمن برسنے میں بجلی کی جیسے چمک کہے تو پڑی جیسے نرگس پہ اوس ٹپکنے لگا اس سے اندازِ حسن |
لب نازک پر قطروں کی نمائش، گل برگِ تر کی رشکِ زیبائش۔ جو بوند کہ بدن سے جھڑتی تھی، نزاکت ہی ٹپکی پڑتی تھی۔ پانی بدن سے جو بہ چلا، تو ایک حسن کا دریا بہنے لگا۔ بعد اس کے وہ مِہرِ حسن حوض کے کنارے جو آکھڑا ہوا، اس کے رنگ سے پانی نورانی ہو گیا۔ جب اس میں اتر کے غوطہ لگایا، اور ہی عالم دکھایا ؎
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر | کہے تو کہ ساون کی شام و سحر |
اُن کے سوادِ پُر نم سے خوب تر کوئی رات زمانے میں نہیں ہوئی اور کبھو کسی ذی حیات نے نہیں دیکھی۔ کیفیت اُن کی نمی کی بھی ایسی تھی ؎
کہوں اس کی خوبی کی کیا تجھ سے بات
کہ جوں بھیگتی جاوے صحبت میں رات
غرض جب غسل سے فارغ ہوا، حمامی زمرد کے جھانویں لے کر آئے اور پاؤں دھونے لگے۔ اس گلِ رعنا نے ہاتھ لگاتے ہی اس انداز سے پاؤں کھینچ لیا کہ اثر گدگدی کا پیشانی پر ظاہر ہوا اور اس ناز سے کھل کھلا کر ہنسا جو سب کے سب ہنس پڑے۔ اُس وقت کا عالم بیان میں نہیں آتا۔ کہے تو کیا کہے اور لکھے تو کیا لکھے۔ جتنے لوگ وہاں حاضر تھے اُس پر اپنے جان و دل سے قربان ہو یوں دعائیں دینے لگے کہ خدا تجھے باغِ دوراں میں سرسبز پھولتا پھلتا ہمیشہ رکھے اور غم کی خزاں کا صدمہ تیرے کسی ہوا خواہ کو بھی نہ پہنچے۔ تیری بھلائی سے ہماری بہبود ہے اور تیری خوشی سے اپنی نمود۔ تجھے دن رات کی خوشی اور صبح شام کی شادی مبارک رہے ؎
نہ آوے کدھی تیری خاطر پہ میل | چمکتا رہے اس فلک کا سہیل |
خیر جب وہ اس لطافت و نزاکت سے پاؤں دھو چکا، جامہ خانے میں آ بیٹھا ؎
نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح | کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح |
پھر خبر داروں نےجا حضور میں خبر دی کہ مرشد زادۂ عالم حمام سے غسل کرکے جامہ خانے میں تشریف لائے ہیں، اس امر میں جو ارشاد ہو سو بجا لاویں۔ فی الفور توشے خانے کے داروغہ کو حکم ہوا کہ بھاری بھاری جوڑے تمامی اور کارچوب کے بلکہ ہر قسم کی پوشاکِ لطیف و پُر تکلف اور جواہرات قیمتی متعدد شاہ زادے کے حضور لے جا، سواری مبارک بھی کوئی دم میں وہاں پہنچتی ہے۔ داروغہ بہ موجب حکم کے عمل میں لایا۔ اتنے میں خود بدولت بھی تشریف فرما ہوئے اور شاہ زادے کو خلعت فاخرہ پہنا، بہتر سے بہتر جواہر لڑی لٹکن کلغی ہیرے کی انگوٹھیاں سرپیچ مرصع نورتن مالہ مروارید سے آراستہ کیا ؎
جواہر سراسر پنھایا اُسے | جواہر کا دریا بنایا اسے |
وہ کھنچا کھنچایا سڈول اس کا بدن، تِس پر جواہرات کی یہ کچھ پھبن۔ ہر ایک عدد چمک میں شعلۂ طور تھا اور حسن اس کا عالم نور۔ غرض جب بن سنور چکا تب باہر نکلا اور اس دھوم سے سوار ہوا جیسے بَنا بیاہنے کو چڑھتا ہے۔ اشرفیوں روپیوں کے کئی خوان اس پر نچھاور کیے۔ کنگال منگتا محتاج جتنے تھے اس کے صدقے سے جی گئے بلکہ مدتوں آسودہ رہے ؎
زِبس تھا سواری کا اس کی ہجوم
ہوا جب کہ ڈنکا، پڑی سب میں دھوم
رسالہ دار جمع دارِ سپاہ رعیت سوار پیادے قرینے سے پرے باندھ برابر کھڑے ہوئے۔ فوج کی ایسی بھیڑ بھاڑ ہوئی، جدھر آنکھ اٹھا دیکھو تدھر دَل بادَل ہی نظر آویں۔ امرا امیر وزیر اپنے اپنے قرینے سے داہنے، بائیں پرے کے پرے منصب داروں کے کھڑے اور ان کے پاس بیش قراروں کے دھڑے۔ پیچھے سنہری رُپہری عمّاریوں سے ہاتھیوں کی قطار، پالکیاں نالکیاں جھلابور کی بے شمار ؎
وہ فیلوں کی اور میگ ڈنبر کی شان
جھلکتے وہ مقیّش کے سائبان
آگے سینکڑوں گھوڑے کوتل مرصع کے زینوں سے، ماہی مراتب اور سب جلوسِ بادشاہی ان کے آگے۔ گھوڑوں پر نقارچی آہستہ آہستہ رساین سے دم بدم، شاہانی نوبت بجاتے قدم بقدم۔ پیادوں کے غٹ کے غٹ، بان داروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹ۔ بادلے کے نشان چمکتے ہوئے، پھرہرے تمامی کے دمکتے ہوئے۔ کہاروں کا نرالا ہی ایک ٹھاٹھ۔ تاش کی سروں پر پگڑیاں، سنہری زربفت کی گلوں میں کرتیاں اور پاؤں کی وہ خوش نما پھرتیاں۔ اس سبکی کے ساتھ جو پیٹ کا پانی نہ ہلے ؎
وہ ہاتھوں میں سونے کے موٹے کڑے
جھلک جن کی ہر دم قدم پر پڑے
خاص برداروں کے جدے ہی غول اور ان کے سروں پر سنہری توڑوں سمیت اک پیچے بندھے ہوئے گول گول۔ غرض شاہ کے حکم سے تمام لشکر کیا سوار کیا پیادہ جلو میں موافق دستور کے حاضر۔ جس جس نے نذریں ٹھانیاں تھیں، بادشاہ اور بادشاہ زادے کو گزرانیاں۔ پھر بہ موجب ارشاد سجے سجائے آس پاس تختِ رواں کے قدم بہ قدم چلے اور موافق دستورِ شاہانِ سلف کے آگے آگے جریب بھی مپنے لگی۔ چوبدار سونٹے بردار سونے روپے کے جڑاؤ عصے اور سونٹے ہاتھوں میں لیے گھوڑوں پر سوار آگے سواری کے اہتمام کرتے تھے۔ نقیب جلو دار ہر دم آپس میں یہ پکار رہے تھے ؎
اُسی اپنے معمول و دستور سے یلو، نوجوانو! بڑھے جائیو بڑھے جائے آگے سے چلتا قدم |
ادب سے، تفاوت سے اور دور سے دو جانب سے باگیں لیے آئیو بڑھے عمر و دولت قدم باقدم |
غرض سواری کے جاہ و جلال اور عُظم و شان سے رستے کا یہ رنگ ہو گیا جیسے بہار کی ہوا سے ہر ایک بیابان اور چمنستان کا ہو جاتا ہے۔ خلقت کا ہجوم ہر دم اُدھر اِدھر اور تماشائیوں کی بھیڑ جدھر تدھر۔ قلعے سے لگا حدِ شہر تک دو طرفہ دکانوں پر زری بادلے کی جگمگاہٹ اور در و دیوار پر تاش اور تمامی سے چمکاہٹ۔ اہل حرفہ تمام شاد و خورسند اور آئینہ بندی کے باعث شہر کے چوک کا لطف چار چند۔ رعیت اور سپاہ کی یہاں تک کثرت تھی کہ نگاہ قدم قدم پر رکتی تھی، آدمی کا تو کیا ذکر ہے۔ اور شہر کے کوٹھوں پر جو خلقت تماشا سواری کا دیکھنے کے لیے جمع ہوئی تو ہر ایک کوٹھے کی چھت اور منڈیر برنگِ چمن پُرکیفیت ہو گئی۔ شاہ زادے کے دیکھنے کا جو لوگوں کے دل میں نہایت ارمان تھا، ہر ایک بشر چھوٹا بڑا لولا لنگڑا، یہاں تک کہ پیٹ والی عورت بلکہ جنی جچا تک تماشے کو نکلی اور چرند پرند بھی اپنے اپنے مکان اور گھونسلوں سے باہر آئے۔ مگر ایک مرغِ قبلہ نما جو پہنچنے نہ پایا، سو اپنے آشیانے میں تڑپھا کیا۔ شاہ زادہ از بس کہ حسین تھا، دیکھتے ہی صورت کہ و مہ عاشق ہو گئے۔ وہ عید کا چاند جس کو نظر پڑا، اس نے جھک جھک سلام کیا اور یوں دعائیں دیں کہ بارِ الہا! یہ مہر و ماہ ہمیشہ قائم رہیں اور اپنے پرتو سے جہاں کو روشن رکھیں۔
القصہ شہر کے باہر کوس دو ایک کے فاصلے پر ایک بادشاہی باغ تھا، اسی تجمل سے وہاں جا پہنچے۔ چار گھڑی تک خوب سا پھر پھرا سیر کر اپنے بیٹے کو اچھی طرح رعیت اور سپاہ کے تئیں دکھلا پھر اسی فوج کی اوج موج سے شہر کی طرف متوجہ ہوئے۔ یعنی جس عُظم و شان سے گئے تھے، اسی جاہ و جلال سے قلعے میں داخل ہوئے۔ لشکری شہری جتنے لوگ سواری کے تھے، دولت خانے میں پہنچا کر رخصت ہوئے۔ بھیڑ جو تھی سو چھیڑ ہو گئی۔
جہاں پناہ اپنے محل مبارک کو تشریف فرما ہوئے۔ شاہ زادے نے بھی اپنے باغ میں داخل ہونے کا قصد کیا۔ اتنے میں تمام محلی اور محل کی رنڈیاں خوشی سےاستقبال کے لیے ڈیوڑھی تلک نکل آئی۔ آگے پیچھے بائیں داہنے ہو اور بلائیں لے کر مسند پر بٹھایا۔ پھر بدستورِ سابق ناچ راگ ہونے لگا۔ پہر رات تک وہی جوڑا پہنے ہوئے تماشا دیکھا کیا، یکایک دل میں جو کچھ لہر آئی تو مجلس سے اٹھ باہر صحن میں آیا۔
قضا کار وہ چودھویں رات تھی اور چاند جلوے لے رہا تھا۔ کھڑا وہ خوشی سے دیکھنے لگا۔ عجب وقت تھا، جدھر تدھر زمین کی طرف نگاہ پڑتی تھی، نور کی چاندنی ہی بچھی نظر آتی تھی ؎
عجب لطف تھا سیرِ مہتاب کا | کہے تو کہ دریا تھا سیماب کا |
جب چاندنی کی ایسی بہار دیکھی، شہزادے کا دل نہایت بے قرار ہوا ؎
کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ | کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ |
یعنی میرا جی آج یوں چاہتا ہے کہ اوپر سوؤں۔ یہ بات سنتے ہی خواصوں نے جا قبلۂ عالم سے عرض کی کہ پیر و مرشد! شہزادے کی آج یوں خوشی ہے جو بالاخانے پر آرام فرمائیں۔ اس میں حضور سے جو حکم ہو سو بجا لائیں۔ حضرت نے جواب دیا: اب تو وے دن نحوست کے نکل گئے۔ اگر یوں مرضی ہے تو خیر کیا مضائقہ لیکن جن کی چوکی ہو سو اپنے اپنے چوکی کے وقت خبردار چوکس ہوشیار جاگتے رہیں۔ ساتھ اس کے جب وہ محبوب لبِ بام پر آرام کرے تب محافظت کے واسطے سورۂ نور اس پر دم کریں ؎
تمھارا مرا بول بالا رہے | کہ اس گھر کا قائم اجالا رہے |
تب سہیلیوں نے کہا: اے خداوند! یہی درگاہ الٰہی سے امید ہے کہ حضور میں ہم سدا سرخرو رہیں۔ غرض بادشاہ سے حکم لے کر خواصیں پھر آئیں اور شہ زادے کا وہیں بچھونا بچھا دیا۔ قضا را وہ دن بارھویں ہی برس کا تھا۔ وہمِ غلط کارِ حساب میں چوک گیا، سخن مولوی روم کا سچ ہوا ؏
کہ آگے قضا کے ہے احمق حکیم
سب وہاں اپنے اپنے عیش میں جو پڑے تو کچھ اونچ نیچ زمانے کی نہ سمجھے۔ یہ جانا کہ دَور خوشی کا ہمیشہ یوں ہیں رہے گا۔ ہرگز فلکِ کج رو کی کج روی کو دریافت نہ کیا ؎
کہ اس بے وفا کی نئی ہے ترنگ
یہ گرگٹ بدلتا ہے ہر دم میں رنگ
دنیا میں آج تک ایسا کوئی شخص پیدا نہ ہوا ہوگا جس کو اس نے خوشی سے ہنسا کر پھر اس کے پیچھے غم و غصے کے ہاتھوں آٹھ آٹھ آنسو رُلایا نہ ہوگا۔ زمانے کی بٹّے بازی میں ہرگز کچھ شک و شبہ نہیں، کیوں کہ ایک ہاتھ میں اس کے تریاق ہے اور دوسرے میں زہر۔ غرض چوکیدارنیں شہزادے کی جو چوکی میں تھیں، سوسب بے خبر سو گیّاں ؎
شتابی سے اٹھ ساقی سیم بر بلوریں گلابی سے دے بھر کے جام جوانی کہاں اور کہاں پھر یہ سِن اگر مے کے دینے میں کچھ دیر ہے |
کہ چاروں طرف ماہ ہے جلوہ گر کہ آیا بلندی پہ ماہِ تمام مثل ہے کہ ہے چاندنی چار دن تو پھر جانیو یہ کہ اندھیر ہے |
قصہ عاشق ہونے کا ماہ رُخ پری کے شہ زادے بے نظیر پر اور کوٹھے پر سے سوتے ہوئے لے جانے کا اس کے پرستان میں
القصہ ایک خوش نما سونے کا جڑاؤ پلنگ، اس پر زری باف کا ادقچہ اور ایسے مقیشی کسنے (جن کے جھبوں میں موتی انمول) کسے ہوئے، نرم نرم کئی تکیےاورگل تکیے رشکِ مخمل اس پر دھرے ہوئے، بہت باریک ایک چادر شبنم کی (جس کی براقی کو دیکھ چاندنی پھیکی پڑ گئی) بچھی ہوئی، خواصوں نے جگمگاتا ہوا جا بچھایا۔ دن کا ماندہ جوانی کی نیند۔ سارا مکان خوش بوئی سے مہکا ہوا۔ پلنگ پر آتے ہی یہ نیند آئی کہ پوشاک اتارنے کی فرصت نہ پائی، سو رہا۔ چاند اس کے سونے پر جو عاشق ہوا تو اپنی نگاہ اس کے چہرے پر لگا دی اور ٹکٹکی باندھی ؎
جو سویا وہ اِس آن سے بے نظیر
رہا پاسباں اس کا بدرِ منیر
رات کا وقت، چاندنی چھٹکی ہوئی، گرمی کے ایام چلی جو ٹھنڈی ہوا، جہاں تلک کہ چوکی کے باری دار تھے سب یک بارگی غفلت میں آگئے۔
غرض وہاں جتنی رنڈیاں اور خواجہ سرا اس کی خدمت میں تھے سو سب سو رہے مگر چاند کا دیدۂ حیرت کھلا تھا۔ وہی ایک جاگتا تھا ؎
وہ ماہ اس کے کوٹھے کا ہالا ہوا | کہ وہاں مہ کا عالم دو بالا ہوا |
قضاے الٰہی سے نکھنڈ آدھی رات کو کہوں سے ایک پری ہوا میں اپنا تخت اڑائے چلی جاتی تھی۔ یک بیک اس کی نظر جو شہزادے پر پڑی، دیکھتی کیا ہے کہ ایک شخص خوب صورت نوجوان کوٹھے پر پلنگ بچھائے چاندنی کی بہار میں سوتا ہے۔ کچھ دل میں جو آیا، اپنا تخت ہوا سے اسی پشتِ بام پر اتارا اور ایک کنارے رکھوا کر آپ اس کے نزدیک آئی۔ جوں ہیں بھبھوکا سا شاہ زادے کا بدن دیکھا، ووں ہیں اس کا تن بدن عشق کی آگ سے جل گیا۔ بے اختیار اس کے منہ پر سے آنچل دوپٹے کا اٹھا کر گال سے گال ملنے لگی اور لاکھ جان سے نثار ہوئی۔ ہرچند ارادہ تو اس کا کچھ اور بھی تھا لیکن حیا نے رخصت نہ دی ؎
اگرچہ ہوئی تھی زیادہ ہوس | ولیکن حیا نے کہا اس کو بس |
گھڑی دو ایک تک اسی شش و پنج میں آگا پیچھا کیا کی۔ آخر عشق کے نشے میں یہ ترنگ آئی کہ اس محبوب کو یہاں سے مع پلنگ اٹھا لے جائیے اور اپنے گھر میں رنگ رلیاں بہ خوبی منائیے ؎
محبت کی آئی جو دل میں ہوا ہُوا جب زمین سے وہ شعلہ بلند |
وہاں سے اسے لے اڑی دل ربا ہوا میں ستارہ سا چمکا دو چند |
پھر اپنے تخت کی پریوں کو حکم کیا کہ خبردار! پلنگ اس کا ٹک ہلنے نہ پاوے، اسے کچھ حرکت محسوس نہ ہو۔ چاہیے کہ پرستان تک آنکھ نہ کھولے، سوتے کا سوتا ہی رہے۔ چنانچہ وے ایسا ہی معلّق سبکی کے ساتھ لیے گئیں کہ ہرگز اسے خبر نہ ہوئی۔ ندان ہاتھوں ہاتھ پلک مارتے پرستان میں جا اتارا ؎
شتابی مجھے ساقیا! دے شراب کبھی خوش ہے دل اور کبھی درد مند |
کہ یہ حال سن کر ہوا دل کباب زمانے کا ہے جب سے پست و بلند |
یہ قصہ چوکیداروں کے پادشاہ کو خبر دینے میں کہ شہ زادہ سوتے سوتے غائب ہوا
یہاں کا تو قصہ میں نے یہیں چھوڑا اور اس مذکور سے منہ موڑا۔ اب ان غم زدوں کا ماجرا سنو، ٹک ادھر کان لگاؤ۔ جوں ہیں اچانک آنکھ ایک خواص کی خواصوں میں سے کھل گئی تو کیا دیکھتی ہے نہ شاہ زادہ ہے وہاں نہ پلنگ۔ گھر کا ہو گیا ہے اور ہی رنگ۔ گھبرا کر وو اٹھ بیٹھی اور سب کو اٹھا بٹھایا۔ پھر کہنے لگی: ہے ہے! یہ کیا غضب ہوا۔ چاروں طرف اندھیرا پڑ گیا۔ وہ چاند کدھر کو جا چھپا۔ باغ میں کانٹے ہی رہ گئے، پھول درمیان سے جاتا رہا ؎
نہ وہ ہے پلنگ اور نہ وہ ماہ رو
نہ وہ گل ہے اس جا نہ وہ اس کی بو
آخر سب کی سب حیران ہو گئیں کہ یہ کیا ہوا۔ ہم کیا کریں، کدھر جاویں۔ بادشاہ کو اب کیا منہ دکھلاویں۔ کوئی سر پر ہاتھ رکھ تصویر ماتم کی شکل بنی، کوئی انگلیوں کو دانتوں میں داب کھڑی کی کھڑی رہ گئی ؎
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
کوئی رو رو چھاتی پیٹ بلبلاتی تھی، کوئی بال کھول زمین پر پٹکنیاں کھاتی تھیں۔ کوئی بے تابی سے خاک پر لوٹنے لگی، کوئی غم سے اکتا کر اپنا گلا گھونٹنے لگی۔ کوئی نرگس کی طرح حیرت سے آنکھیں کھول رہ گئی۔ کسی کے دیدۂ خوں بار سے جوے خوں بہ گئی۔ کسو نے اپنا منہ طماچے مار مار لال کیا۔ کسو نے کہا: ہاے! اب یہ گھر خراب ہوا۔ آخر ان کو اس بات چُھٹ اور کچھ نہ سوجھا یعنی یہ ماجرا گوش گزار بادشاہ کے کر دیجیے۔ آگے جو ہو سو ہو۔ اب تو سواے اس کے کچھ بن نہیں پڑتا۔
غرض اسی طرح سے سب کی سب روٹی پیٹتی آئیں اور یہ روداد حضور میں عرض کی۔ القصہ جب یہ بد خبری ما باپ نے سنی، کلیجا پکڑ خاک میں لوٹ گئے اور ایسے روئے کہ آنسوؤں کے دریاؤ بہ چلے۔ پھر تو محل میں کہرام پڑ گیا، شورِ قیامت برپا ہوا۔ اپنے اپنے مکانوں سے چھوٹی بڑی جتنی محل کی عورتیں تھیں سب ایک جگہ جمع ہو کر ایک بارگی نالہ و زاری کرنے لگیں۔ ایسا ماتم کا غل اٹھا جو سارے سوتے لوگ شہر کے چونک اٹھے اور بے حواس ہو کر جہاں کے تہاں بیٹھے کے بیٹھے، کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ آخر پادشاہ نے وو جو خبر لائیں تھیں، ان سے پوچھا: کہو کس جگہ میرا لعل تم نے کھویا اور کسی کوے میں میرے یوسف کو ڈبویا۔ اس کا مجھے ٹھور ٹھکانا بتاؤ۔ ایک ذرا تو مجھ کو ڈھارس بندھاؤ۔
پھر وہ خواصیں بادشاہ کو اپنے ساتھ لے کر اس باغ کے کوٹھے پر چڑھیں اور کہا: یہی مکان ہے جہاں دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے اوجھل وہ ماہ ہوا اور ہمارا روسیاہ ہوا ؎
یہی تھی جگہ وہ جہاں سے گیا مرے نوجواں! میں کدھر جاؤں پیر عجب بحر غم میں ڈبویا ہمیں |
کہا: ہاے بیٹا، تو یھاں سے گیا! نظر تو نے مجھ پر نہ کی بے نظیر غرض جان سے تو نے کھویا ہمیں |
کس سے پوچھوں، کیا کروں۔ موت اختیار میں نہیں، ورنہ ابھی مروں۔ ہزار افسوس! نہ یہاں کچھ زور چلتا ہے، نہ زر کام آتا ہے ؎
کلیجا پکڑ ماں تو بس رہ گئی | کلی کی طرح سے بِکس رہ گئی |
غرض صداے ماتم کی دم بدم ترقی تھی اور شور و فغاں کی بڑھتی۔ ندان لبِ بام پر آدمیوں کی کثرت یہ بڑھی کہ تلے کی زمین اوپر ہو گئی۔ آدھی رات تو سونے میں کٹی، باقی جو رہی تھی سو رونے میں کٹی ؎
عجب طرح کی شب تھی ہیہات وہ
قیامت کا دن تھی نہ تھی رات وہ
جب فجر ہوئی تو سب مل کر سروں پر خاک اڑانے لگیں اور لہو کے آنسو بہانے۔ پھر تو یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی کہ گل اس دولت کے چمن کا یک بیک اپنی جگہ سے آدھی رات کو گم ہو گیا۔ آخر یہاں تک رونا پیٹنا پڑا کہ باغ سارا ماتم سرا ہو گیا۔ اُس سروِ خوش رفتار کے جانے سے تمام پھول داغ سے نظر آنے لگے اور اُس گل تازہ کے غائب ہونے سے وہاں کے نو نہال سب سوکھ کے لکڑی ہو گئے۔ درخت پاتوں لگے، ثمر پائمال ہوئے۔ گلوں کا کلیجا اس صدمے سے پھٹ گیا اور بلبلوں کا جی نالہ و فغاں کو سن کر چہچہوں سے ہٹ گیا۔ کلی نے غم سے خونِ جگر پیا، گل نے طماچوں سے اپنا منہ لال کیا۔ نرگس کی آنکھوں کا نور اڑ گیا، سنبل کا ہر ایک بال اس غم سے پیچ کھا کر مُڑ گیا۔ گلِ اشرفی کا بھی رنگ زرد ہوا، لالہ سوزِ غم سے ایسا جلا کہ جامِ عشرت اپنا آگ میں پھینک دیا۔ انگور بھی مے غم سے مدہوش ہو کر گرے اور ساے درختوں کے سیہ پوش ہوئے۔ چنبیلی کا منہ سفید ہو گیا اور ہر ایک غنچہ کھلنے سے نا امید۔ القصہ وہاں ایسا سخت ماتم پڑا کہ ہر ایک درخت نخلِ ماتم بن گیا ؎
وہ لبریز جو نہر تھی جا بجا
سو آنکھوں کو وہ رہ گئی ڈبڈبا
اور اس میں جو فوارے تھے، سو ایسے بے آب ہوئے کہ ان میں تاب و توانائی اچھلنے کی نہ رہی۔ یہاں تلک روئے کہ آنکھوں میں گڑھے پڑ گئے۔ چشموں کا حال ایسا تباہ ہوا کہ ان کے پانی نے اپنا رنگ سیاہ کیا۔ کوئیں دل میں چپکے چپکے روتے تھے اور آبشاریں ڈاڑھ مار مار۔ باؤلی بھی روتے روتے باؤلی بن گئی اور آبجو دیوانی سی ادھر ادھر پھرنے لگی۔ غرض ہر ایک وہاں کا ساکن آپ میں نہ تھا ؎
نہ بگلوں کا عالم، نہ وہ قرقرے | نہ وہ آبجوئیں، نہ وہ سبزے ہرے |
جن منڈیروں پر مور ناچتے تھے، وہاں کوے بولتے ہیں۔ جہاں وے سہاونی درختوں کی چھائیں تھیں، اب وہاں اداسی چھائی ہے۔ جہاں منقش رنگین مکان تھے، اب وہاں جا دیکھو تو یکسر ویران کھنڈر نظر آتے ہیں۔ جو دل اس کی محبت میں پھولوں کی طرح کھل رہے تھے سو جدائی کی خزاں سے مرجھا کر مضمحل ہو گئے ؎
نہ غنچہ، نہ گل، نہ گلستاں رہا | فقط دل میں ایک خارِ ہجراں رہا |
سچ ہے خدا ہی کی ذات کو ہمیشہ قیام ہے اور کوئی چیز مدام یکساں نہیں رہتی کیونکہ کون و فساد کے عالم کایہی خاصّہ ہے کہ ایک حال پر نہیں رہتا۔
القصہ جب کئی مہینے آہ و زاری میں اس وارداتِ ناگہانی کے سبب گذر گئے، وزیروں نے دیکھا کہ فرزند کی مفارقت کے غم و غصے میں بادشاہ کا حال تباہ ہوا جاتا ہے اور ملک کے بند و بست میں تخلل نظر آتا ہے، سمجھانے لگے کہ پیر و مرشد! اتنی اضطرابی و بے تابی خوب نہیں۔ امید ہے کہ وہ تم سے بھی پھر آ ملے۔ خدا کی قدرت سے کچھ دور نہیں ؎
خدا کی خدائی تو معمور ہے
غرض اس کے نزدیک کیا دور ہے
واللہ اعلم اس میں کیا بھید ہیگا، انجام کسی پر معلوم نہیں۔ مرتے کے ساتھ کوئی نہیں مرتا، نہ سدا دن کسی کے ایک سے رہتے ہیں۔ آپ نے جو اتنی دولت لٹائی اور شب و روز رویا کیے، سواے ضرر کے کچھ اور بھی فائدہ ہوا؟ آج تک نہ وہ ملا نہ خبر اس کی کہیں پائی۔
اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ جدائی اس کی حضرت کو کسی طرح گوارا نہیں، لیکن خدائی سے کیا چارا۔ پر ہم کو یہ یقین ہے کہ آپ اپنے فرزند کو پھر دیکھیں گے، کیوں کہ نجومیوں کا قول فدویوں کو خوب یاد ہے اور اغلب کہ پیر و مرشد کی خاطرِ مبارک میں بھی ہو۔ آگے ہی انھوں نے یہ خبر دی تھی کہ لڑکے کو بارھویں برس ڈر ہے، پر جی جوکھوں نہیں۔ چنانچہ ایک بات تو ان کی آزمائش میں آئی۔ یقین ہے کہ دوسری بھی مقرر ہوگی، آپ خاطر جمع رکھیے۔
حاصل یہ ہے کہ انھ باتوں سے تھوڑی سی تسکین دلِ بے قرار کو دے کر حضرت نے فرمایا: اب مجھے اس کے ملنے کی خدا ہی سے امید ہے کیوں کہ اس کا کھوج بشر کی تدبیر سے نہایت بعید۔ خیر جو خواہش اس کی تھی سو ہوئی۔ آئندہ جو وہ چاہے گا سو ہوگا۔ آخرش بادشاہ راضی ہوا۔ ان سب نے سمجھا بجھا پھر تخت پر بٹھایا اور آپ بھی اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہوئے ؎
مجھے دے کے مے، کھوج اس کا بتا
ذرا خضرِ رہ تو ہی ہو ساقیا!
نہ پائی کہیں یہاں تو اُس گل کی بو
کروں اب پرستان میں جست و جو
داستان پرستان میں لے جانے کی ماہ رُخ پری کے بے نظیر کو
القصہ وہ پری جو اس کو وہاں سے لے اُڑی، پرستان کے اندر جا پہنچی اور ایک باغ میں اسے اتارا۔ وہاں کا عالم دنیا سے نرالا تھا ؎
طلسمات کے سارے دیوار و در
نہ یہاں کے سے کوٹھے نہ یہاں کے سے گھر
وہ باغچہ معمارِ قدرتِ الٰہی نے بنایا تھا اور باغبانِ قضا نے رنگ برنگ کا گل بوٹا اس میں لگایا تھا۔ عمارتیں اس کی رنگین، رشکِ عماراتِ خلدِ بریں۔ نہ انھ میں آگ پانی کا خطرا، نہ سردی گرمی سے دھڑکا۔ اور ہر ایک مکان کی چھت ایسی درخشاں، جیسی دیوارِ چراغاں۔ مطلّا و منقش ہر ایک دیوار و بام، مشبّک و پاکیزہ دروازے تمام ؎
گرے چھن کے وہاں اس لطافت سے دھوپ زمیں وھاں کی ساری جواہر نگار |
کہ زردی کا جوں زعفراں کی ہو روپ اَدھر میں چمن اور ہوا میں بہار |
ہر ایک وہاں کی چیز عجائب و نادر اور ہر ایک مکان میں وہاں کے صنعتِ صانع ظاہر۔ بلبلیں رنگ برنگ کی درختوں کی ٹہنیوں پر چہچہوں میں اور انوٹھی انوٹھی رنگتیں وہاں کے گلوں میں۔ جس چیز کا کسو کو ہووے اشتیاق، وہیں دیکھ لے اسے بالاے طاق۔ جواہر کے وحوش و طیور دن کو دور دور ہر طرف صحن میں چگتے پھریں اور وہی حیوان رات کو آدم کی صورت بن کر گھر کا کام کاج کریں۔ اور اُس عمارتِ پرکیفیت کے گوہرِ شب چراغ، دن کو تو جواہر نظر آویں اور رات کو چراغ۔ جس وقت ان کی کوئی کوٹھری کھل جاوے، دنیا کے باجوں کی صدا آوے ؎
وگر بند کر دیجیے ایک بار صدا آپ سے آپ گھڑیال کی |
تو جوں ارغنوں راگ نکلیں ہزار کہیں ناچ کی اور کہیں تال کی |
ہر ایک مکان میں موافق اُس کے فرشِ مخمل منقش بہ خطِ سلیمانی، جس کی دلالی میں دیا جائے ارژنگِ مانی۔ اندر سے باہر تک بچھا ہوا اور ایک ایک پلنگ بھی جواہر نگار جہاں چاہیے وہاں کسا ہوا۔ دروں پر بندھے ہوئے طلسمات کے پردے اور چِقیں، دل کی خواہش پر اُٹھیں اور گریں۔ سیکڑوں خواصیں پری زاد اس پری کے مطیع و فرماں بردار بلکہ اس پر جان و دل سے نثار۔ قصہ کوتاہ سرِ نہر ایک مرصع کا بنگلا تھا۔ اسی میں شہزادے کا پلنگ لا رکھ دیا اور وہ بنگلا اس کے حسن کی چمک سے دو چند روشن ہو گیا ؎
قضا را کھلی آنکھ اس گل کی جو نہ وے شخص دیکھے، نہ وہ اپنی جا اچنبھے کا یہ خواب دیکھا جو وھاں |
نہ پائی وہاں شہر اپنے کی بو تعجب سے ایک ایک کو تک رہا لگا کہنے: یا رب! میں آیا کہاں؟ |
از بس کہ شاہ زادہ کم عمر تھا، کچھ سہما پھر کچھ ڈھاڑس اپنے دل میں باندھ ڈھٹائی سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اتنے میں سرہانے کی طرف جو نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک رنڈی خوب صورت نا آشنا سی ہے کھڑی۔ پوچھا: تو کون ہے، یہ گھر کس کا ہے اور مجھے یہاں کون لایا؟ یہ سن کر منہ پھیر، اُدھر سے رخسار پر نقاب لے کر مسکرائی اور یہ جواب دیا ؎
خدا جانے تو کون، میں کون ہوں! | مجھے بھی تعجب ہے میں کیا کہوں |
پھر ایک لحظہ چپ رہ کر ہنس پڑی اور کہنے لگی: تو میرا مہمان ہے اور قضا و قدر تجھ کو یہاں لے آئی ہے ؎
یہ گھر گو کہ میرا ہے، تیرا نہیں
پر اب گھر یہ تیرا ہے، میرا نہیں
سن اے بے نظیر! تیرے عشق نے مجھے دیوانہ کیا اور تیرا غم میرے دل میں پیدا کیا۔ تجھے تیرے شہر سے یہ بندی تقصیر وار ہی اڑا لائی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں پری ہوں اور یہ پرستان ہے۔ یہاں کے باشندے انسان نہیں۔ یہ سن کر ہکا بکا سا رہ گیا، پھر کچھ نہ بولا ؎
کہاں صحبت جن، کہاں شکلِ انس | غرض قہر ہے صحبتِ غیر جنس |
غرض وہ تو اس کے وصل کی شادی سے پھولی نہیں سماتی تھی اور اِس کے دل کی کلی اپنے لوگوں کے غمِ دوری سے مرجھائی جاتی تھی ؎
کبھو یوں بھی ہے گردشِ روزگار
کہ معشوق عاشق کے ہو اختیار
جوں توں وہاں دل اپنا پرچایا اور جی کو لگایا۔ پر جو کچھ وہ کہتی ہاں ہاں کیا کرتا اور وحشیوں کی طرح اکثر اداس بد حواس پھرتا۔ کبھی سانس لے کر آنکھوں میں آنسو بھر لاتا اور کبھی وے محلوں کی چہلیں، گھر کی خوشیاں دھیان کر بے خود ہو جاتا۔ جب پیار ماں باپ کا یاد آتا تب رو رو آنسوؤں کے دریا بہاتا۔ کبھی اپنی تنہائی پر غم کرتا کہ ہاے! میں کہاں آیا، اور کدھی اپنے پر دعائیں دم کرتا کہ حیف! مجھے کیا ہوا۔ اور جو کبھی اپنے ناز و نعمت کے پلنے کا تصور کرتا تو ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھرتا۔ کسی بہانے کبھی رات دن سویا کرتا اور جو اکیلا ہوتا تو وطن کی جدائی سے رویا کرتا۔
غرض اس کو ہر ساعت ایسی بے قراری تھی جیسے نئے جانور کو جال میں۔ اور ماہ رُخ پری نے یہ کام باپ کی چوری سے جو کیا تھا، اسی لیے کبھی وہاں رہتی اور کدھی باپ کے یہاں؛ تاکہ یہ احوال کسی پر ظاہر نہ ہووے۔ از بس کہ وہ پری صاحبِ شعور تھی، نئی نئی چیزیں لاتی اور قسم قسم کے راگ رنگ مچواتی کہ دل اس کا پرچے اور جی بہلے۔ عجائب و غرائب، سوانگ تماشے وہاں کے اسے ہر شب دکھلاتی اور کشتیاں اچھی اچھی پوشاک کی اور پاکیزہ پاکیزہ کھانوں کے خوان، طرح بہ طرح کے میوے آگے رکھتی تاکہ جس لباس پر طبیعت میل کرے سو پہنے اور جس خورِش کی رغبت ہو وہ کھاوے ؎
شرابوں کے شیشے چنے طاق میں شراب و کباب و بہار و نگار |
گزک وہ کہ نکلے نہ آفاق میں جوانی و مستی و بوس و کنار |
غرض ہمہ چیز مہیا اس کی خاطر رکھتی کہ کسی وجہ دل شکستہ نہ ہو؛ کیوں کہ ایک تو میں نے اس کو ماں باپ اور بھائی بند دوست آشنا سے تنہا کر دیا اور جو اَب خاطر داری بھی نہ کروں تو ان کے فراق کا ایسا غم کھاوے گا کہ بیمار ہو جاوے گا۔ باوجود اس خاطر داری کے بھی شاہ زادہ اپنے خویش و اقربا کی دوری کے غم سے گلتا تھا اور شمع کی مانند سوزِ دروں سے جلتا، پر ہرگز منہ پر نہ لاتا بلکہ بہ ظاہر زمانہ سازی سے اس کی طرف جھکا رہتا، پر نا جنسی کے سبب جی میں رکا رہتا ؎
پری وہ جو تھی دل لگائے ہوئے
وہ بیٹھی تھی اس کو اڑائے ہوئے
چنانچہ اس کی رکاوٹ کو تاڑ گئی لیکن از بس کہ شعور دار تھی، جی میں تو رکی رہتی پر اس کے منہ پر کچھ نہ کہتی۔ اس پر بھی محبت کی زیادتی کے سبب ایک دن اس سے کہا: اے بے نظیر! اب تو تو میرے دام میں اسیر ہو چکا لیکن ادھر اُدھر ایک پہر پھرا چلا کر اور سیر روے زمین کی کیا کر۔ میں تو سرِ شام اپنے باپ کے پاس جاتی ہوں اور تو اکیلا اداس پڑا رہتا ہے۔ اگر سیر کرے گا تو تیرا مزاج بحال رہے گا اور میرا دل بھی نہ کڑھے گا۔ اسی لیے گھوڑا کل کا میں تجھے دیتی ہوں لیکن تو مجھے یہ مچلکا دے کہ اگر پھر اپنے شہر کی طرف یا کسی اور ملک کی سمت جاوے یا کسو سے اپنا دل لگاوے تو حال تجھ سے دل دار کا، گنہگار کا سا ہو ؎
کہا: کیوں کہ میں تجھ کو جاؤں گا بھول | مجھے جو کہا تو نے سو سب قبول |
تب ماہ رخ نے اس قول قرار پر خوش ہو کر کہا کہ نام اس باد پا کا “فلک سیر” ہے۔ تیرے بخت یاور تھے کہ میں نے یہ سلیمان کا تخت تجھ کو بخشا۔ تجھ سا کوئی دنیا میں خوش نصیب نہیں ہوا کیوں کہ ایسا فلک سیر گھوڑا کسو کو آج تک نہیں ملا۔ زمین سے آسمان تک اور مشرق سے مغرب تلک جہاں چاہو سیر کیجو۔ جو اوپر کو چڑھاؤ تو کل اس کی یوں جوڑیو، اور نیچے کو اتارو تو یوں موڑیو۔ کیا کہوں میں اس گھوڑے کی خوبیاں، ایسی دوِند اور پرند میں کب ہوتی ہیں محبوبیاں ؎
ذرا کل کے موڑے، فلک پر ہوا نہ کھاوے، نہ پیوے، نہ سووے کبھی نہ حشری، نہ کمری، نہ شب کور وہ نہ ساپن، نہ ناگن، نہ بھونری کا ڈر |
جو کہیے تو کہیے اسے باد پا نہ ٹاپے، نہ بیمار ہووے کبھی نہ وہ کہنہ لنگ اور نہ منہ زور وہ ہر ایک عیب سے وہ غرض بے خطر |
القصہ سرِ شام بے نظیر اُس باد رفتار پر سوار ہو کر پہر بھر جہاں چاہتا وہاں پھرتا، پر اس کے غصے سے ایسا خوف کھاتا کہ پہر کے بجتے ہی چلا آتا۔ ایک مدت تو یوں ہیں کٹی۔ پر ایک دن سیر کے درمیان دل میں یہ ترنگ آئی کہ اتنی سیر سے تو سیری نہیں ہوتی۔ ٹک آگے بڑھا چاہیے، اس میں جو ہو سو ہو ؎
کدھر ہے تو اے ساقیِ شوخ و شنگ!
کہ آیا ہوں میں بیٹھے بیٹھے بہ تنگ
پلا مجھ کو دارو کوئی تیز و تند
کہ ہوتا چلا ہے مرا ذہن کند
مرے توسنِ طبع کو پر لگا
مجھے یھاں سے لے چل فلک پر اُڑا
قصہ گذر کرنا بے نظیر کا کسی باغ کی طرف اور دیکھنا بدرِ منیر کا
ایک دن کی واردات ٹک دل دے کر سنو تو نہایت لطف اٹھاؤ۔ کسی رات شہزادہ بے نظیر شام کے وقت سیر کے ارادے فلک سیر پر سوار ہوا۔ بادپا از بس کہ تیز رفتار تھا، چڑھتے ہی اس نے سیکڑوں کوس پر جا دم لیا۔ اتنے میں ایک سہانا سا باغ اس کو دور سے نظر آیا۔ اس کا دل اس کے دیکھنے کے واسطے بہت ہی للچایا۔ جب کچھ ایک نزدیک پہنچا تو ایک عمارت ایسی سفید بلند نظر پڑی کہ چاندنی سے بھی دو چند برّاق تھی۔ آسمان نکھرا ہوا، چاند چمکا ہوا، جاڑے کی ہوا ٹھنڈی خوش آئند، چاندنی کا ہر طرف ظہور، شام سے صبح تک یکساں عالمِ نور۔ سماں وہاں کا جو اس کو بھایا تو یک بیک اس کی خاطر میں یہی آیا کہ اس باغ کو دیکھیے۔ وہ پری زاد گھوڑا جس کو ہوا پر اڑائے چلا جاتا تھا، ووں ہیں اس کی باگ لی اور اوپر سے نیچے کو رخ پھرایا تو اسی رنگ کی خوش قطع عمارتیں کتنی ہی دکھائی دیں، اور بھی دل مائل ہوا کہ اسے چل کر خواہ مخواہ ہی دیکھیے۔ تب اس کی پیٹھ سے ایک کوٹھے پر اتر پڑا۔ ادھر ادھر جھانکنے لگا کہ دیکھوں تو یہاں کوئی رہتا بھی ہے یا نہیں۔ یکایک ایسا کچھ دکھائی دیا کہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ سُرت بسر گئی، ہر ایک چیز جی سے اتر گئی ؎
کہا جی سے، اب جو کچھ ہو سو ہو
ذرا چل کے اِس سیر کو دیکھ لو
یہ سوچ سمجھ سیڑھیوں سے نیچے اترا اور وہاں کے کواڑ کھولے۔ پھردبے پاؤں نظر سے اپنے ساے کو بچائے آڑ میں درختوں کی چلا ؎
تھے یک طرف گنجان باہم درخت
کہ لپٹے ہوں جس طرح مشتاق سخت
وہیں جا کر کھڑا ہوا اور چھپ چھپ ادھر ادھر تکنے لگا کہ ایک صحبتِ پر کیفیت اور شکلیں خوب صورت کسی طرف نظر آئیں۔ جان و دل سے فریفتہ ہو گیا ؎
ملی جنس کی اپنی جو اس کو بو مغرّق زمیں پر تمامی کا فرش |
لگا تکنے حیرت سے حیران ہو چمک جس کی لے فرش سے تا بہ عرش |
یہ چمکاہٹ دیکھ کر نگاہ خیرگی کرنے لگی، چکا چوندھ سی لگ گئی۔ غرض جوں توں اُس مکان کی طرف جو ٹھہرا کر نظر کی تو کیا دیکھتا ہے کہ در و بام اس کے ایسے سفید ہو رہے ہیں کہ نورِ صبح ان کے جلوے سے منفعل ہے اور چمک موتیوں کی خجل۔ فرش ہر ایک مکان میں جگمگا بچھا ہوا جس کی چمک کا فرش سے تا عرش جھمکڑا تھا۔ بلور کے سنگِ فرش ایسے خوش تراش قرینے سے دھرے ہوئے کہ جن سے فرش کی چمک دونی نظر آوے۔ اس کی نگاہ جو اس پر گئی اور عکسِ ماہ ان میں دیکھا، بھیچک رہ گیا۔ از بس کہ طرح اُس ہر ایک کی ایسی مانوس تھی کہ جیسے شیشے کی فانوس۔ اگر دانا نظارہ کرے تو دیوانہ ہو کر کہے کہ ہر ایک کونے پر شیشے میں پری کو بند کرکے رکھ دیا ہے اور چمنوں کا یہ رنگ تھا ؎
لپیٹے ہوئے بادلوں سے درخت
زمین و ہوا صاحبِ تاج و تخت
اندر باہر شمعیں روشن، قدِ آدم آئینے لگے ہوئے۔ سارا مکان روشنی کی کثرت سے ایسا اجاگر ہو رہا تھا جیسے آسمان تاروں سے۔ جدھر آنکھ اٹھا کر دیکھو تو ازدحامِ نور ہے اور روشنی کا وفور۔ چوپڑ کی ملبب وہ پاکیزہ نہر جس میں موج زن چشمۂ ماہ کی لہر۔ جو کوئی چاندنی میں اسے دیکھے تو سمجھے کہ ایک پٹری بلور کی جھلک رہی ہے یا روش الماس کی چمک رہی ہے۔ فوارے اس میں اس خوبی سے چھوٹ رہے تھے جیسے موتی برستے ہیں ہوا سے ؎
مقرّض پڑا اس میں مقیّش جو
گرا ماہ وھاں رشک سے پرزے ہو
تس پر ہر ایک مہ پارہ کترا ہوا مقیش اور بھی جھولی میں بھرے اڑا رہی تھی اور ہوا میں اس کے تار جگنو سے چمکا رہی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ سے جب نکلتے تھے، جلوۂ ماہ کو پاؤں تلے ملتے تھے ؎
غرض اپنی صنعت سے تاروں کو توڑ
زمیں کو فلک کا بناتی تھی جوڑ
یہ زر افشانی کی کثرت تھی کہ اُس باغ کی ساری زمین لگا چمنوں سے روشوں تلک مع درخت و گل و غنچہ و شاخ و ثمر پُر زر ہو گئی ؎
زمانہ زر افشاں، ہوا زر فشاں
زمیں سے لگا تا سما زر فشاں
جوانانِ باغ زر کی پوشش سے اس چمک پر کہ غش ہو جائیں اُن کو مہر و مہ دیکھ کر۔ اُس نہر کے کنارے ایک نمگیرا زرّیں اس زرق برق سے کھڑا تھا کہ جس کی جھالر کی رخشندگی پر گوہرِ آب دار نثار ہو اور چشم فلک کی کیا تاب جو اس سے دوچار ہو۔ اُس کی چوبیں الماس کی جڑاؤ ایسی خوش تراش کہ گویا ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی تھیں۔ جھمکڑا ان کا دیکھتا تو اِستادۂ کہکشاں بھی جھک جاتا اور ڈوریوں سے اس کی تارِ شعاعی آفتاب کی کیا تاب تھی کہ اپنے تئیں دور کھینچتا۔ فی الواقع جتنی تعریف اُس کی خوش قطعی و زر نگاری کی کیجیے سو تھوڑی ہے۔ اس میں ایک مسند نہایت خوب زربفت کی جگمگی بچھی تھی کہ جس کے پاے انداز چاندنی چاند کی بھی رہے پڑی ؎
کہوں کیا میں جھالر کی اس کی پھبن | کہ سورج کے ہو گرد جیسے کرن |
تکیے بھی پھولے نہ سماتے تھے اس لیے کہ اس پر دھرے تھے، با وجود اس کے کہ خود بھی سر بسر حسن سے بھرے تھے۔ صراحی اور جامِ بلور کے سامھنے اس کی اِس کیفیت پر تھے کہ دیدۂ دل اس کو دیکھ کر مست ہو جائے اور اگر زاہدِ خشک بھی انھیں پائے تو تقوی سے ہاتھ اٹھائے۔ غرض جدھر کو نگاہ وہاں جاتی تھی، سواے نور کے کچھ نظر نہ آتا تھا ؎
زمیں نور کی، آسماں نور کا اگر کیجیے سایے اوپر نگاہ ستاروں کا مہتاب میں حال یوں |
جدھر دیکھو اودھر سماں نور کا تو ہے وہ بھی جوں سایۂ مہر و ماہ کہ چونے کے قطرے ہوں پانی میں جوں |
چمن سارے داؤدی کے پھولوں سے بھرے، ہر طرف شبّو کے پھول شاخوں پر کھلے ہوئے۔ حاصل یہ ہے کہ کس حسن کو کوئی انتخاب کرے۔ ہر ایک شے میں اُسی ایک آفتاب کا جلوہ ہے۔ نزدیک دور جدھر آنکھ جاوے اسی ایک مہتاب کا پرتو ہے۔ غرض خودی کی وحدت سے نکل اور اپنے بیگانے کی کثرت میں آ، تو ہر ایک میں وہی ایک جلوہ نظر پڑے گا۔ اس واسطے کہ ہر ایک چیز میں اسی کے نور نے رنگ پکڑا ہے، اگر آنکھ بینائی کی کھولے گا تو اس کے سوا غیر کو ہرگز نہ دیکھے گا ؎
حقیقت کی لیکن بصارت بھی ہو گلابی میرے سامھنے ساقیا کہ دیکھے سے ہو جس کے، دل کو سرور |
کہ دیکھے نہ اس کے سوا غیر کو مہِ چاردہ کو دکھا کر ہِلا نظر کام کر جائے نزدیک و دور |
قصہ بے نظیر کے باغ میں جانے کا اور چرچا ہونا اُس کے آنے کا اور خبر پہنچنی بدرِ منیر کو اور آپس میں عاشق ہونا دونوں کا
اب اس مکان کی رہنے والی کا وصف ضرور ہے کہ خاتم کی تعریف کے بعد نگیں کی مدح کرنی دستور ہے۔ وہ مسند جو خوب صورتی کے دریا کی لہر تھی، اُس پر ایک پری پیکر تمکنت سے جلوہ گر تھی۔ چودہ پندرہ برس کی اس کی عمر اور جوانی کی امنگ۔ نہایت شکیل اور کندن سا رنگ۔ تکیے پر کہنی دھرے اور گال پر ہاتھ رکھے ہوئے ناز سے، کنارے نہر کے بیٹھی تھی نہایت انداز سے۔ خواصیں دست بستہ ادھر اُدھر قرینے سے مودّب، اپنے اپنے عہدے لیے حاضر اور ہر ایک اُسی کی طرف دیدۂ جان و دل سے ناظر۔ اُن میں وہ دکھلائی دیتی تھی یوں، جیسے چاند کے گرد تارے ہوں۔ اِس سج دھج سے چاندنی کا عالم دیکھ رہی تھی۔ اُدھر آسمان پر چاند چمک رہا تھا، اِدھر زمین پر اس چودھویں رات کے چاند کی رشک کا جھمکڑا تھا۔ دونوں کا عکس پڑا جو نہر میں، تو چاند کی جوت دکھائی دینے لگی ہر لہر میں ؎
نظر آئے اتنے جو ایک بار چاند | زمانے کے منہ کو لگے چار چاند |
اب اس کے لباس کا بیان کیا کیجیے اور کس سے تشبیہ دیجیے کہ نہ ویسا دیکھا، نہ سنا۔ گلے میں اُس کے ایک پشواز آبِ رواں کی گھیر دار کہ جس پر آبِ رواں نثار ہو۔ سنجاف میں اس کی اِس کثرت سے تھے گہر، گویا موتیوں میں تُل بیٹھی تھی وہ رشکِ قمر۔ اور ایک اوڑھنی باریک و لطیف ہوا سی سر پر، جسے پانی پانی ہووے شبنم دیکھ کر۔ صباحت اور صفا اس کی آنکھوں میں سہاتی تھی، سر سے کاندھے پر ڈھلکی ہی جاتی تھی۔ کرتی اور انگیا جواہر نگار کی بہار کا سماں، دیکھ کر بھیچک رہ گیا دیدۂ آسماں۔ اور الماس کا ایک تکمہ گریبان میں ایسا ٹکا ہوا، جیسے چاند سے ایک تارا لگا ہوا۔ دامن کے نیچے سے پایجامۂ زریں کی جھلک، یوں نظر آئے جیسے آرسی میں دامنی کی دمک ؎
صفائی یہ پوشاک کی دیکھیو
نظر سوچتی ہے کہ میلی نہ ہو
سوڈول اس کی ترکیب اور چاند سا بدن، گول گول بازوؤں پر ڈھلکے ہوئے نورتن۔ جڑاؤ بالے پر چاند کا ہالا قربان اور موتیوں کے مالے کو دیکھ کر تارے کہکشاں کے حیران ؎
وہ آنکھوں کی مستی، وہ پلکوں کی نوک
کرن پھول کی اور بالے کی جھوک
موتیوں کے دولڑے اور ہار کی پھبن پر اشکِ غم دیدۂ عاشق نثار۔ دُھک دُھکی اور پچ لڑے ست لڑے کی زیبائش پر دلِ نظارگیاں صدقے سو سو بار۔ جہانگیریوں کا زیب جہاں گیر اور گلے کی زنجیر سے ایک عالم اسیر۔ جڑاؤ چنپا کلی کے نیچے موتی ایسے چمکتے تھے ہر دم، جیسے برگِ گل پر نمایاں ہوتی ہے شبنم۔ جڑاؤ ہیکل کمر اور کولے کے نیچے پڑی ہوئی دیکھ کر، دیکھنے والوں کا دل لوٹتا تھا آتشِ شوق کے انگاروں پر۔ موتیوں کی پازیب سے اس کے پاؤں کو کچھ زیبائی نہ تھی، بلکہ موتیوں نے آب و تاب اس کے پاؤں پر گر کے پائی تھی۔ وہ پاؤں کب کسی کے ہاتھ لگے جس پر جواہر پڑا لوٹے۔ اب سراپا کی تعریف اُس رشکِ حور کی کہنی ضرور ہے لیکن جیسی کہ چاہیے سو معلوم۔ اگر میرا تن سر سے پاؤں تک زبان ہو جاوے تب بھی اس کے ایک عضو کی تعریف نہ ہو سکے۔ غرض چستی اور چالاکی اعضاے بدن سے اُس کے نمود اور راستی و کجی جہاں چاہیے وہاں بہ خوبی موجود۔ مکھڑا وہ خوش نما جسے دیکھ کر مہتاب داغ کھائے اور نقشہ وہ دل رُبا کہ جس پر نگاہ کرتے ہی تصویر کے عالم کو حیرت آئے۔ رخسارے ایسے نزاکت بھرے، لال ہو جائیں اگر کوئی ان کے بوسے کا خیال کرے۔ دیکھ کر صباحت و ملاحت اُن کی ہر آن، سیوتی کا پھول سو سو رنگ سے ہو قربان۔ ابرو ایوانِ حسن کی محراب بلکہ دیوانِ خوبی کے یے دو مصرعے انتخاب۔ نگہ آفت اور چشم بلاے بے درماں، صفِ عشاق کو الٹ دیں مژگاں۔ اور موتی بھرے دیکھے جو اس کے کان ایک بار، صدف موتیوں سمیت ہزار مرتبہ ہو نثار ؎
وہ بینی کہ جس کی نہیں کچھ نظیر
تھی انگشتِ قدرت کی سیدھی لکیر
بیاضِ گلو اس کی تمام منتخب، ساعد و بازو سوڈول سب کے سب۔ وہ منہدی سے رنگیں اس کے ہاتھ، دیکھے تو پنجۂ آفتاب شفق میں خجالت سے نمایاں نہ ہو۔ از بس کہ مثلِ آئینہ روشن تھا اس کا بدن، ناف تھی گویا عکسِ چاہِ ذقن۔ ہیچ بھی نہیں ہے اُس کی کمر، قسمت کا پیچ ہے جو نہ آوے نظر۔ زانو پر اس کے اگر پہنچے عاشق کا ہاتھ تو عمر بھر رہے اُسی کے ساتھ۔ رنگ اُس ساقِ بلّوریں کا اور انداز پاؤں کا ہر سحر، دیدہ و دل کی رہے مد نظر۔ نہ تنہا لطیف و خوش اسلوب تھی انگشتِ پا، بلکہ کفِ پا بھی مانند آئینے کی دکھاتی تھی پشتِ پا۔ دیکھے اُس نازنین کا اگر قد و قامت تو ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہ جائے قیامت اور جو نظر پڑ جائے اس کا خرام تو ووں ہیں جھک جھک کر کرنے لگے سلام۔ چال میں اُس کی وے اٹھکھیلیاں، جن سے ہوں پایمال یکسر دلہاے جہاں۔ بنا کر اپنے تئیں کبک کیسی ہی چلے لیکن پس جائے اس کے انداز کے پاؤں تلے۔ جواہر نگار کفش کی وہ چمک، جھپک جائے جسے دیکھ کر چشم فلک۔ اور کرشمہ ناز و ادا و غمزے کا کیا کروں بیان کہ دلبری اُن کی تھی تابع فرمان۔ تغافل و غرور و شوخی و حیا، ہر ایک اپنے وقت پر ہوتی تھی اس سے ادا۔ مسکرانا بولنا ناز سے، چشمک ایک انداز سے۔ کبھی رحم کبھی ستم، موافق ہر ایک کی قدر کے کرم۔ تمکنت اُس میں تھی بانکپن کے ساتھ، غرض ہر طرح تھی اُس کی ایک انوٹھی پھبن کے ساتھ۔ جب اس طرح شہزادے نے دیکھا تو حیران رہ گیا اور کہنے لگا: اے صانع ذو الجلال! واقعی تیری قدرت معمور ہے، جو صنعت ہے تیری سو وہم و خیال سے دور۔
غرض وہ چھپا ہوا درختوں سے کھڑا دیکھتا تھا کہ وہاں کسی کی نظر بدرِ منیر کی خواصوں میں سے جا پڑی۔ ناگہاں جو دیکھے تو ایک جوانِ حسین درختوں کی اوٹ میں چھپا کھڑا جھانکتا ہے۔ یہ چرچا جو آپس میں ہوا تو سب جمع ہو گئیں اور یہ احوال ایک سے ایک سن کر سب کی سب بھیچک رہ گئیں۔ دیکھیں تو دور سے کچھ شعلہ سا اور درختوں کا آنگن کچھ اجالا سا نظر آتا ہے۔ کوئی تو کھڑے ہو تاکنے لگی۔ کوئی ادھر اُدھر ہو کر جھک جھک جھانکنے ؎
کسی نے کہا: کچھ نہ کچھ ہے بلا
کسو نے کہا: چاند ہے یہاں چھپا
کسی نے کہا: شاید صبح ہوئی اور شب کا حجاب اٹھ گیا جو درختوں میں سے سورج نکل آیا۔ کسی نے اپنا ماتھا کوٹ لیا اور کہا: شاید کوئی پری زاد کھڑا ہے یا آسمان پر سے تارا ٹوٹ پڑا ہے۔ کسی نے کہا: خدا جانے یہ کیا اسرار ہے۔ کوئی کہنے لگی: جو کچھ ہے سو ہے پر کوئی دل دار ہے۔ پھر ایک اُن میں سے بولی: عجب تمھاری فہمید ہے، نہ یہ مہر ہے نہ ماہ، نہ مشتری نہ حور، نہ جن نہ پری ؎
ذرا سوچ کر دیکھو تو اے بوا!
کھڑا ہے کوئی صاف یہ مردُوا
غرض یہ آپس میں باتیں ہوتے ہوتے چرچا پھیل گیا۔ آخر شاہ زادی نے بھی سنا، متعجب ہو کر کہنے لگی کہ کیا واہی واہی بکتیاں ہوں تم۔ ایک ذرا میں بھی تو دیکھوں کہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر جو اٹھی تو سنسنا گیا اُس کا جی۔ پھر جوں توں خواصوں کے کاندھوں پر ہاتھ دھر کر، چلی ایک ناز و ادا سے وہ پری پیکر ؎
کچھ ایک خوف سے ہول کھاتی ہوئی | دھڑک اپنے دل کی دکھاتی ہوئی |
کئی ایک ہم جولیاں جو اس کے ساتھ تھیں پڑھیں، سو دعائیں پڑھ پڑھ آگے بڑھیں۔ غرض اپنا دل کرخت کرکے پہنچیں وہاں، وے گنجان درخت تھے جہاں۔ کیا دیکھتیں ہیں کہ ایک سرو قد حسین جواں، کھڑا ہے سر تا قدم حیراں آئینہ ساں۔ وہاں سے سرکنے کی نہیں پاتا وہ ٹھاؤں اور ٹھور، حیرتِ عشق سے پاؤں گاڑے ہیں اس کے اِس طور۔ برس پندرہ سولہ کا سِن و سال، نہایت خوش ترکیب اور صاحبِ جمال۔ مسیں بھیگتیں ہوئیں رخساروں پر سبزہ نمود، یوں جلوہ گر تھا جیسے شعلہ پر دود۔ پھینٹا ایک انداز سے سر پر سجا، تمامی کا پٹکا کمر سے بندھا ہوا ؎
عجب پیچ سے پیچ بیٹھا تھا مل وہ موتی کا لٹکن، زمرد کی ہر |
کہ ہر پیچ پر پیچ کھاتا تھا دل لٹک جس کی زیبندہ دستار پر |
شبنم کا وہ نیمہ گلے میں نہایت تنگ و چست کہ چھب تختی اور رنگت بدن کی نظر آوے صاف و درست۔ ایک تکمہ موتی کا ایسا گریبان پر، جیسے صبح کا تارا ہووے جلوہ گر۔ تمامی کی سنجاف دامن میں یوں تھی عیاں، جیسے آب رواں میں چاند ہو جلوہ کناں۔ کھچی ہوئی بھویں اور آنکھیں مست غرور سے، بھرے ہوئے گال چہرے کی چمک لڑ رہی تھی نور سے۔ ترکیب دار گورا گورا بدن، بھرے ہوئے ڈنڈوں پر نورتن کی پھبن۔ ہیرے کی خوش نما ایک انگوٹھی، دستِ حنائی میں لگتی تھی انوٹھی۔ قیافے سے سراپا شعور پیدا، چہرے پر دانائی کا نور ہویدا ؎
ولے عشق کی تیغ کھائے ہوئے
کسی پر کہیں دل لگائے ہوئے
یہ صورت دیکھ سب کی سب غش کر گئیں، وے جیتی جو آئیں تھیں سو جیتے ہی جی مر گئیں۔ پھر جوں توں اپنے اپنے تئیں سنبھال جلدی جا کر اس احوال کو شاہ زادی سے عرض کیا کہ اے شہزادی! سیر مہتاب میں ایک طرفہ تماشا ہے، ایسا کبھو خواب میں بھی نظر نہیں آیا۔ ہمارے کہنے سے تو تم ہرگز نہ مانو گی، ہاں جو اپنی آنکھوں دیکھو گی تو جانو گی۔ خدا کے واسطے ٹک شِتاب چلو۔ کہیں وہ بہار ایک آن میں جاتی رہے ایسا نہ ہو۔ پھر ساری عمر ہاتھ ملتی رہو گی بلکہ قیامت تک پچتاؤگی۔ شوق سے نِدھڑک ان درختوں میں چلی آؤ، ہرگز کسی چیز کا اپنی خاطرِ نازک میں خطرہ نہ لاؤ۔ ایک تو اس کی طبیعت میں رغبت تھی ہی، دوسرے اُن کی ترغیب سے اور بھی راغب ہوئی۔ اسی اپنی اٹھکھیلی اور بانک پنے کی چال سے وہیں چلی آئی جہاں بے نظیر تھا اور دونوں اس کیفیت سے دوچار ہوئے ؎
گئے دیکھتے ہی سب آپس میں مل
نظر سے نظر، جی سے جی، دل سے دل
غرض دونوں عشق کے اسیر بے ہوش ہو کر ایسے گرے، نہ تن من کی اِسے سدھ رہی، نہ جی جان کی اُسے بدھ۔ وزیر کی بیٹی جو اس کی ہم راز و دم ساز تھی، وہ بھی خوب صورت و شوخ سراپا ناز و انداز تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یوں لگی رہتی تھی، جیسے چاند کے پاس تارا۔ سچ مچ نجم النسا تھی وہ ماہ پارا۔ اس نے جو یہ احوال دیکھا تو دونوں کے منہ پر گلاب چھڑکا تب وے دونوں کچھ ایک ہوش میں آکر اٹھے لیکن حیراں اور گلِ شبنم آلودہ کی طرح گریاں۔ شہزادۂ دلدادہ سچک کر نقش پا کی مانند بھیچک سا رہ گیا لیکن وہ نازنین کچھ جھجھک اور منہ چھپا کر، کمر اور چوٹی کا عالم دکھا کر ؎
چلی اُس کے آگے سے منہ موڑ کر پلا ساقیا ساغرِ مشک بو سرِ شام سے دے یہاں تک شراب |
وہیں نیم بسمل اسے چھوڑ کر کہ ہے مجھ کو درپیش تعریفِ مو کہ مستی میں دیکھوں رخِ آفتاب |
رنگت گدّی کی اور شانے کی جنبش پشت و کمر کی چمک تمک اور کولوں پر چوٹی کی لٹک دیکھ کر شہزادے کی جان ہی نکلنے لگی۔ اگر اس کے وصل کا بھروسا نہ ہوتا تو مر ہی جاتا ؎
کروں اُس کے بالوں کا کیا مَیں بیاں
نہ دیکھا کسی رات میں یہ سماں
ان کی سیاہی تھی انوٹھی، کہ دیتی تھی آنکھوں کو روشنی۔ زلفیں وے الجھی ہوئیں کہ جن کا سلجھانا بھی جی کو الجھائے اور انداز ان کا دل کو لبھاوے۔ وہ چوٹی کھچی ہوئی اور پٹی صاف صاف، چمکتا ہوا کناری کا مُباف۔ کیا کہوں رنگ ڈھنگ اس کا کہ جوں پچھلے پہر جَھمکے ہے جُھمکا۔ اوڑھنی کے تلے سے وہ یوں تھا نمایاں جیسے ابرِ تنک میں برق ہو درخشاں۔ جس نے اس کا جھمکڑا دیکھا، بے اختیار پکار اٹھا ؎
مُبافِ زری نے کیا ہے غضب
دیا ہے گرہ دِن کو دُنبالِ شب
گو کہ سب سنگاروں میں وہ اُتار ہے پر اُسی سے چوٹی کا سنگار ہے۔ کیوں کر آپ کو چوٹی نہ کھینچے دور کہ اس کے پیچھے پڑا ہے ایک نور۔ زرِ گل اور تار سنبل کے اُس پر سے کیوں کر نہ ہوویں نثار کہ اس کی لٹک کی انوٹھی ہے ایک بہار۔ شاید اس نے جادو کو سانٹھا ہے، اُسی سبب سے رات دن کو ایک جا گانٹھا ہے۔ پھر ہاتھ لگنا کٹھن ہے اس کا کہ وہ حقیقت میں من ہے کالے کا ؎
الٹ کر نہ دیکھے اُسے ہوشیار
کہ وہ ایک ستارہ ہے دُنبالہ دار
پیٹھ اس کی آئینہ سی چمکتی تھی، تس پر اس کیفیت سے پڑی تھی چوٹی۔ کیا کہوں میں رنگ ڈھنگ اُس کا جیسے دریا پر آجائے کالی گھٹا۔ اُس کی مانگ موتیوں بھری دیکھ کر، دل نظارگیوں کے لوٹتے تھے یکسر۔ ڈھیلے پیچ پر اُس کے دل عاشق کا قربان ہے اور مشّاطہ کا بھی اس کے سر پر احسان۔ اگر چوٹی کو کھینچ کر گوندھتی تو اینچ کھینچ میں گرفتاروں کا نکل جاتا جی ؎
غرض حسن کا اس کے سب ہے یہ بھید
جو چاہے کرے وہ سیاہ و سفید
جو کوئی اس میں سرخ مُباف ڈالے تو پہلے اپنے دل کا خون اس کو بخش دے۔ اگر اس نے دل کو قتل کیا، کیا شام پر نہیں ہے شفق کا خوں بہا ؎
کہاں تک کہوں اس کی خوبی کی بات | کہ تھوڑا ہے سانگ اور بڑی ہے یہ رات |
اگرچہ میں نے بہت بڑھایا بات کو لیکن یہ عرض میری قبول ہو۔ یہاں گھٹانے کی جگہ نہ تھی، اس لیے طول دیا اور موشگافی بہت کی۔ تس پر بھی جو پوری مثال نہ بیٹھی، میری فکر مجھ پر وبال ہوئی ؎
اب اس پیچ سے باہر آتا ہوں میں غرض جب پھری وہ دکھا اپنے بال ادائیں سب اپنی دکھاتی چلی غضب منہ پر ظاہر ولے دل میں چاہ یہ ہے کون کم بخت آیا جو یھاں! یہ کہتی ہوئی، آن کی آن میں |
سماں ایک تازہ دکھاتا ہوں میں تو گویا کہ مارا محبت کا جال چھپا منہ کو وہ مسکراتی چلی نہاں آہ آہ اور عیاں واہ واہ میں اب چھوڑ گھر اپنا جاؤں کہاں! چھپی جا کے اپنے وہ دالان میں |
اور اپنے ہاتھ سے جلدی پردہ ڈال دیا، یہ عالم ہوا جیسے آفتاب ابر میں چھپ گیا۔ اتنے میں نجم النسا بھی پیچھے پیچھے اُس کے آ پہنچی اور ہنس کر کہنے لگی ؎
مجھے چوچلے یہ خوش آتے نہیں مری طرف ٹک دیکھیو ہاے ہاے |
ترے نازِ بے جا تو بھاتے نہیں مثل ہے کہ من بھائے مُنڈیا ہلائے |
اگر تیغ ناز سے تو نے کیا ہے اُسے گھائل تو اس کو مت چھوڑ تڑپھتا ہوا نیم بسمل۔ زندگانی کا وصلِ محبوب سے حظ اٹھا اور اپنی جوانی کا مزا اُڑا ؎
مے عیش کا جام اب نوش کر
غم دین و دنیا فراموش کر
یہ حسن کا جوش و خروش اور یہ جوانی کا عالم، خدا غفور ہے پیالا شراب کا پی، ہو کر خوش و خرم۔ پھر کہاں یہ بہار اور کہاں یہ جوانی، یہ جوبن کا عالم ہو جائے گا ایک کہانی۔ نہ زمانہ ہمیشہ خوشی دکھاتا ہے، نہ وقت گیا پھر ہاتھ آتا ہے۔ یوں تو دنیا کے سبھی ہیں کاروبار لیکن حاصلِ زندگانی ہے وصل یار۔ یقین جان کہ یہ واردات ہے عجیب و غریب، جس کے گھر ایسا مہمان آوے وہ ہے خوش نصیب۔ چاہ والے کہاں ملتے ہیں، ایسے یوسف کو عزیز کر، اری باؤلی! چاہ میں کچھ تمیز کر۔ وہ وقت غنیمت ہے جس میں ایک جاگہ ہوں دو اور پیار کی نظروں سے ایک دیکھے دوسرے کو۔ جلد مجلس کو آراستہ کر اور اس غیرتِ گل سے رشکِ بہار کر اپنا گھر۔ ساقیانِ گل اندام کو بلا، نگہ کے ساتھ پیالے کو گردش میں لا ؎
شب و روز پی مل کے جامِ شراب یہ سن سن کے، وہ نازنیں مسکرا میں سمجھی، ترا دل گیا ہے ادھر |
مہ و مہر کو رشک سے کر کباب لگی کہنے: اچھا، بھلا ری بھلا! بہانے تو کرتی ہے کیوں مجھ پہ دھر |
تب اُس ماہ رو نے ہنس کر کہا: میں نے ہی تو اسے دیکھ کر غش کیا تھا ؎
مجھی پر تو چھڑکا تھا تم نے گلاب یہ آپس میں رمزوں کی باتیں ہوئیں بلا لائی جا اس جواں کے تئیں |
بھلا میری خاطر بلاؤ شتاب اشاروں میں باہم جو گھاتیں ہوئیں کیا میزباں میہماں کے تئیں |
پھر ایک مکان دلچسپ میں اسے بٹھایا اور محل کا سب سماں دکھایا اور اس نازنیں کو جس تس طرح سے اٹھا کر، بٹھلا ہی دیا اُس گل کے پاس لا کر۔
یہ قصہ وصل کی صحبت اور حسن و خوبی اور شراب کی کیفیت کے بیان میں
پلا ساقیا مجھ کو صہباے عیش بہم مل کے بیٹھے ہیں وہ رشکِ مہ |
ملی ہے نصیبوں سے یھاں جاے عیش قِرانِ مہ و مہر ہے اس جگہ |
ان کے وصل کی بہار ایسی ہوئی کہ وہ جاگہ رشکِ صد گلستاں ہو گئی۔ وہ بیٹھی عجب ایک ناز اور پھبن سے۔ بدن کو چرائے ہوئے کس کس جتن سے۔ منہ کو دوپٹے کے آنچل سے چھپائے اور شرم و حیا سے لجائے۔ پسینے میں ڈوبی ہوئی، ایسی لگتی تھی جیسے شبنم آلودہ سیوتی۔ غرض ایک آدھ گھڑی تک تو دونوں نیچی نگاہ کیے رہے اور شرم سے کچھ نہ بولے۔ اتنے میں یہ رکاوٹ کی صحبت دیکھ کر نجم النسا تِننگ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک گلابی جھلکتی ہوئی ان کے آگے لا کر رکھ دی۔ پھر آپ ہی پیالہ بھرا اور مسکرا کر کہا: اے شہ زادی! چپکی کیا بیٹھی ہے، اے لے یہ پیالہ پی اور اپنے ہاتھ سے اس کو بھی پلا۔ بھلا میری ہی خاطر سے ٹک ہنس بول، اپنے لبِ شیریں کو ذرا تو کھول۔ مجھے ایسی گونگی صحبت خوش نہیں آتی اور سنسنان مجلس نہیں بھاتی ؎
میں صدقے ترے، تجھ کو میری قسم
کئی ساغر اس کو پلا دم بدم
جب منت اس نے بہت سی کی، تب ناز سے پیالے کو اٹھا منہ پھیر اس کی طرف سے اور مسکرا ؎
کہا: بادہ نوشی سے ہو جس کو ذوق | پیے یہ پیالہ، نہیں اس کا شوق |
تب ہنس کر شہزادے نے یہ بات کہی کہ شراب پینی کسی کے نہوروں سے کیفیت نہیں رکھتی۔ غرض بعد اس نیاز و ناز کے، پہلے تو اس نے بہ امتیاز دو تین پیالے پیے۔ پھر تو بے تکلف پیالا اٹھا بادشاہ زادی کے بھی منہ سے لگا دیا اور کہا کہ بس اب اتنا حجاب جانے دو۔ میرے سر کی سوں دو تین گھونٹ لو۔ پھر تو پیہم پیالے شراب کے چلنے لگے۔ دونوں کے غنچۂ دل برنگِ گل کھل گئے۔ بعد اس کے آپس میں احوال پرسی شروع ہوئی اور درِ گفتگو کھلا۔ تب شاہ زادے نے حسب اور نسب بیان کرکے اپنی حالات اور پری کی واردات کو ابتدا سے انتہا تلک کہا۔ پھر بدرِ منیر نے بھی حقیقت اپنی اُس سے کہی۔
غرض دونوں ملے جلے بیٹھے تھے ہنسی خوشی کہ شہ زادے کے منہ سے نکل گیا کہ ایک پہر کی مجھے رخصت ہے۔ اس میں جہاں چاہوں تہاں پھروں اور سیر کروں۔ اس بات کے سنتے ہی بادشاہ زادی سُن ہو گئی اور دل میں پیچ تاب کھا یہ جواب دیا: میری بلا سے وہ تجھ پر مرے تو اُس پر مر، لیکن میرے پاس سے سرک اور بیٹھ اُدھر ؎
میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
کسی کو کیا کام جو تجھ سے جی ملاوے، بھلے چنگے اپنے دل کو ایک روگ لگاوے۔ گرم آنسوؤں سے شمع کی مانند کس واسطے گلے کوئی اور آتشِ رشک سے کس لیے جلے کوئی۔ یہ سنتے ہی بے نظیر گھبرا کر پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا: ہاے بدرِ منیر! لا چار ہوں، میں کروں کیا۔ کوئی لاکھ جی سے قربان ہووے مجھ پر، مجھے کیا کام میں تو نثار ہوں تجھ پر۔ کہا اس نے: بس زیادہ لگ نہ چل، اپنا سر اٹھا۔ میں کیا جانوں کسی کے دل کا احوال ہے کیا۔ یہ رمز و کنایہ آپس میں کرکے کچھ ہنسے اور روئے آہیں بھر کے۔ اتنے میں پہر رات گذر گئی اور بات دل کی دل ہی میں رہی کہ بے نظیر نے سراسیمہ ہو کر کہا: اے بدرِ منیر! میں اب جاتا ہوں، خدا حافظ ہے تیرا۔ اگر اس بلا کی قید سے چھوٹوں گا اور فرصت پاؤں گا تو آج کے وقت کل پھر آؤں گا ؎
یہ مت سمجھیو میں ہوں آرام میں | کروں کیا پھنسا ہوں برے دام میں |
یہاں سے اٹھنے کو جی ہرگز نہیں چاہتا اور دردِ جدائی سے دل ہے کراہتا۔ یہ دکھ بے بسی سے بھرتا ہوں۔ اے جان! کیا میں آپ سے مرتا ہوں ؎
کرم مجھ پہ رکھیو ذرا میری جاں | میں دل چھوڑے جاتا ہوں اپنا یہاں |
یہ کہہ کر ادھر کو چلا اور اپنے وقت پر جا پہنچا۔ طرفہ ماجرا ہے کہ پری کا قیدی انسان کے دام میں پھنسا۔ غرض جوں توں پری کے ساتھ رات کو بسر کیا اور وقتِ سحر تاسّف سے ہاتھ ملتا اٹھا۔ لیکن سماں بدرِ منیر کی صحبت کا آنکھوں میں چھایا ہوا اور مزا وہاں کا اُس کے دلِ بے تاب میں سارا سمایا ہوا۔ کیوں کر نہ ہوتا اس کے دل کو قلق و اضطراب۔ دیکھا تھا اس نے وصل کا ایک خواب ؎
نئی بات کا لطف پانا غضب
وہ پہلے پہل دل لگانا غضب
گھبرایا ہوا پڑا پھرتا تھا کہ دن کیوں کر کٹے اور وہ شمعِ شب افروز بن شام ہوئے کیوں کر ملے۔ کبھو اس کی زلفِ سیہ فام کے تصور میں پیچ تاب کھاتا تھا، کبھی شام کے انتظار میں چشمِ زار کو آئینۂ حیرت بناتا تھا۔ وہ ہجر کا دن اُس کی شامت کا دن تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُس کے واسطے قیامت کا دن تھا۔ غرض اِدھر کا تو احوال میں نے جس تس طرح مختصر کرکے کہا۔ اب اُدھر کا بیان کرتا ہوں کچھ کچھ ماجرا۔
جب بادشاہ زادہ گیا، جتنی رات کہ باقی تھی شہزادی کو بھی تڑپھتے اور بلکتے کٹی بلکہ ہر گھڑی اُس کے غم و اندوہ سے تکیوں پر سر پٹکتے کٹی۔ یار کی صورت جو اس کی آنکھوں میں جلوہ گر تھی، اُس کے رخساروں کی یاد میں رو رو کر صبح کی اور بے تابانہ خواب گاہ سے نکلی۔ دل میں کچھ امید اور کچھ مایوسی۔ چہرہ اداس، آنکھوں میں آنسو، لبوں پر ہنسی۔ یہ حال دیکھ کر اس کا نجم النسا نے مسکرا کر کہا کہ بے اختیار جی چاہتا ہے میرا کہ آج تو بناؤ سنگار کرکے خوب اپنے تئیں بنا اور مجھے اپنے حسن کی بہار ایک نئے انداز سے دکھا۔ آنکھیں نیچی کرکے وہ بولی: چل ری دیوانی نہ ہو۔ میں بناؤ کا عالم دکھاؤں کس کو، اپنی بھی ہوتی ہے کہیں پرائی چیز۔ کیا یاوہ یاوہ بکتی ہے اے بے تمیز ؎
غرض شاہ زادی بہت دور تھی
یہ شکل اُس کو پہلے ہی منظور تھی
القصہ نہائی دھوئی اور ایسی بنی ٹھنی جیسی دو دن کی ہوتی ہے بنی۔ اس وقت اس کے مکھڑے کا عالم اور کنگھی کا سماں جو دیکھتی تو چاندنی رات کو چکا چوندھ لگ جاتی۔ اُس کے لبِ لعل فام پر مسّی کی ایسی تھی رنگت جیسی ہو سوادِ شامِ بدخشاں کی کیفیت اور پانوں کے لکھوٹے کا اس پر یہ لطف تھا، شفق کے ہاتھ جس طرح دامن ہو شب کا۔ اس کی چشمِ مے گوں میں کاجل کا رنگ تھا ایسا، نرگستان میں شام پھول رہی تھی گویا۔ ڈانک کی پشواز گلے میں وہ جھمجھاتی پہنی اور سر پر جالی کی مقیشی اوڑھنی ایسی جگمگاتی اوڑھی کہ جن کو دیکھ کر شبِ عیش کی چاندنی پھیکی ہو گئی اور ستاروں کی آنکھ جھپک گئی۔ جواہر نگار اس کی انگیا، جو دیکھے تو فرشتہ بھی حسرت سے ہاتھ ملنے لگے۔ کرتی وہ پاکیزہ اور لطف ہوا سی جس سے صاف نظر آوے رنگت بدن کی اور لال نیفے کی سرخی اُس سے یوں نمایاں تھی گویا گرد اس کے ایک تہ تھی گلابی۔ جھمک پایجامے کی ایسی تھی زیر دامن، جیسے فانوس میں شمع ہو روشن۔ پڑا ہوا اس میں وہ مقیشی ازار بند، عقدِ ثریا سے بھی جس کی چمک تھی دو چند۔ پاے نگاریں میں وہ کفشِ زریں جس کے ستاروں سے جگمگا رہی تھی زمیں۔ جواہر سر سے جو پاؤں تلک پہنا، ہر ایک عضو کا حسن کر دیا دونا۔ ترکیب اس کی خوش اسلوب اور آئینہ سا بدن۔ پوشاک اور زیور کی تس پر یہ پھبن۔ چھب تختی نزاکت بھری اور سوڈول، اس پر موتیوں کے مالے چمکتے ہوئے انمول۔ مانگ میں موتیوں کی لڑی ایسی تھی خوش نما جیسے عالم شبِ یلدا میں ہووے کہکشاں کا۔ ٹیکا جڑاؤ ایسا عالم دکھاتا تھا ماتھے پر، جیسے چاند اور تارے وقت سحر ؎
ہوس ہو نہ دیکھ اس کو زیور کی پھر
کہے تو کہ ٹیکا تھا سب اس کے سر
صبحِ گلو پر ہیرے کے تکمے کی آب و تاب، جو دیکھے بھیچک رہ جائے دیدۂ آفتاب۔ بالے کی جھوک کے ساتھ جو گردن نزاکت سے جائے مڑ، تو بجلی کے ہوش و حواس یک بار جاویں اُڑ۔ چھاتی پر جگمگاتی تھی وہ الماس کی دُھگدُھگی، ٹک رہی تھی جس کو آنکھ سورج کی۔ جڑاؤ ہیکل گلے میں اس ادا سے تھی پڑی ہوئی، ستاروں کی آنکھ جس کے نگوں سے تھی لڑی ہوئی۔ بُھج بند اور نورتن کی بازوؤں پر سوبھا، پھیکا کرتی تھی رنگ شاخِ گل کا۔ پہنچے پر زمرد کی پہنچی اور یاقوت کے دست بند، حسن کی بہار دکھاتے تھے چار چند۔ وہ پاؤں میں لعلوں کی پازیب اور اس میں موتیوں کے آویزے، جن پر لختِ جگر عاشق کے نثار اور گوہرِ اشک صدقے۔ پاؤں میں ایسے خوب گڑھت کے چھلّے تھے میٖنے کے، جن پر خوباں کے دل گُل کھائیں آنکھوں سے۔ سراپا عطر میں جو ڈوبا اس کا بدن، اور سر کے بالوں کی باس بھی تھی رشکِ مشکِ ختن۔ ہوا زمیں سے معطر ہو گئی تا بہ فلک، سب کا سب عالم اس کی بو باس سے گیا مہک۔ بناؤ اور سنگار جب اُس غیرتِ حور نے کیا ایسا، فلک نے ماہ و مہر کو اس کے مکھڑے پر سے صدقے کیا۔ اُس کے حسن کا شہرہ جب عرش تلک پہنچا، مشاطہ نے بے اختیار خوش ہو کر اپنا ہاتھ آپ چوم لیا۔
بعد اس کے خواصوں نے گھر کو بہ خوبی آراستہ کیا۔ تمامی کے پردے دالانوں کے دروں پر لگا دیے۔ پھر جا بجا فرش ہر ایک مکان کے مناسب بہ صفائی بچھا، ایک مرصع کا چھپرکھٹ اُس پر زربفت کا غلاف سج کر رکھ دیا اور نرگس کے وے دستے (کہ چشم فلک نے نہ دیکھے تھے) روپے سونے کے گلدانوں میں رکھ کر طاقوں میں چنے اور ولایت کے میوے پاکیزہ و لطیف (کہ جن کی باس اور رنگت بہشت کے پھول پھل پر شرف رکھتی تھی) جڑاؤ خوانچوں میں لگا کر رکھ دیے۔ ہر ایک مکان میں لخلخے ایسے روشن کیے کہ تمام باغ معطر ہو گیا اور ہر شخص کا دماغ اس کی عطریت سے معنبر۔ ایک طرف رکھ دیں برابر برابر طرح بہ طرح کے پھولوں کی کیاریاں، ایک سمت چن دیں قطار قطار قسم قسم کی ڈالیاں۔ چھپرکھٹ کے آگے ایک مسند جھلا جھل کرتی ہوئی بچھا کر تمامی کے تکمے لگا دیے۔ چنگیروں میں مرصع کی اور جڑاؤ پاندانوں میں ہار پان لگا کر رکھ دیے۔ قرینے سے جڑاؤ عطر دانوں میں ہر ہر قسم کا عطر اور چوگھڑوں میں الایچی سپیاری بن دھنیا سلیقے سے بھر کر بہ تکلفِ تمام دھر دیا۔ اور ایک کتاب مجلد خوش قطع سنہری جدول کی جس میں نظیری اور ظہوری کا انتخاب اور ایک بیاض بھی ویسی ہی خوش اسلوب جس میں مرزا اور میر حسن کے شعر منتخب تھے، سرہانے رکھ دی اور قلم دان جڑاؤ مینے کے کام کا مع اسباب چھپرکھٹ کے نیچے لا رکھا۔ ایک گنجفہ خوش قماش (کہ جس کے نقش و نگار دیکھ کر مانی و بہزاد بھیچک رہ جائیں) مسند کے پاس دھر دیا۔ اور ایک چوسر مخملی زری کے کام کی جڑاؤ نردوں اور پانسوں سمیت جی بہلانے کو مسند کی دوسری طرف رکھ دی۔ کسی طرف ساقیانِ خوش ادا نے مخفی سونے کی ایک چوکی پر وے گلابیاں شراب کی (جنھیں دیکھ بادہ نوش غش کریں اور طرح بہ طرح کی گزک جس پر ہر کسی کا جی جلے) چُن کر بادلے کا تورہ پوش ڈال دیا۔
پھر شاہ زادی نے ایک خواص کو ارشاد کیا کہ جلد بکاول کو تقید کر کہ خاصہ تیار رہے۔ یہ کہہ کر ایک مرصع کی چھڑی ہاتھ میں اٹھا لی اور ادھر ادھر روش پر ناز سے پھرنے لگی۔ پر دل میں چاؤ ملنے کا اور تمنا کہ کہیں جلد سورچ چھپے اور وہ چاند نکلے ؎
پلا مجھ کو ساقی شرابِ وصال
کہ اب ہجر سے تنگ ہے میرا حال
جب آفتاب غروب ہوا اور شام ہوئی، تب وہ گرفتارِ دامِ بلا بھی چھوٹا۔ جلدی جلدی ایک جوڑا دھانی نہایت باریک تمامی کی سنجاف کا پہنا اور لعل کے بازو بند نورتن کہ جس کا جواہر نہایت چوکھا اور بیش قیمت تھا، بازوؤں پر باندھے۔ سواے اس کے بھی کچھ جواہر جس قدر کہ مناسب تھا زیبِ بدن کیا اور اُسی فلک سیر گھوڑے پر سوار ہو کر آسمان کی ہَوا ہُوا۔ پلک مارتے وہیں آ پہنچا جہاں وہ منتظر کھڑی تھی۔ جوں ہیں بادشاہ زادی کی نظر اُس پر پڑی، خوش تو ہوئی پر شرارت اور ناز سے منہ پر اوڑھنی لے کر ایک درخت کے اوجھل چھپ گئی۔ لیکن اس وقت اس کے عالم پر جو دھیان کیا تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک دھانی جوڑا گلے میں پہنے ہوئے ایسا کھڑا ہے، جیسے سرو میں چاند چھپا ہوا جھلکتا ہے یا اِس رات لباسِ سبز سے چاند نے کھیت کیا کہ آفتاب نے کانِ زمرد میں جلوہ لیا۔
غرض اس شعلۂ سبز کا یہ سماں جو دیکھا تو آتشِ شوق سے دلِ بے تاب اس کا زیادہ جلنے لگا۔ خواصیں ادھر ادھر جو جان بوجھ کر دم بخود ہو رہیں تھیں، اُن میں سے ایک ہم راز نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ جدھر کو فرمائیے، شہزادے کو ہم لے جا کر بٹھا ویں۔ آنکھیں نیچی کرکے بولی: وہ جو مکان آراستہ ہے، اُدھر سے چھپے چھپے لے جا اور وہیں بٹھا۔ موافقِ ارشاد اس حسن کے مہتاب کو ایک نقاب میں چھپا کر اسی مکان میں لے آئی اور اسی مسند پر بٹھایا۔ اتنے میں آپ بھی ووں ہیں ایک ناز و حیا سے مسکراتی جھجھکتی اور ہر قدم پر ٹھٹھکتی کچھ ایک دیر میں آئی۔ دیکھتے ہی اسے پھر وہ کشتۂ عشق غش ہونے لگا۔ بارے جوں توں سنبھلا اور اس کی شرم سے نہایت اکتایا۔ اِدھر اِسے عشق کی بے تابی، اُدھر اُسے حیا سے پُر حجابی۔ آخر نہ رہ سکا، پادشاہ زادی کا ہاتھ پکڑ مسند پر کھینچ لیا تب وہ نازنین لجا اور مسکرا ؎
لگی کہنے: ہے ہے مرا چھوڑ ہاتھ
یہ گرمی رہے اُن سے، ہے جن کے ساتھ
تب اس نے کہا کہ جانی! تیری رُکھائیوں نے تو مجھے جلا کر سوختہ کر دیا۔ بس میرے پہلو سے لگ کر ایک ذرا بیٹھ جا۔ کب سے تڑپھتا ہے میرا دل، ٹک ایک آغوش کھول اور مجھ سے مل۔ آخر بڑے امتیاز و ناز سے مسند پر آ بیٹھی۔ ساقیانِ گل اندام الماس تراش گلابیوں میں ستھری ستھری شراب بھر کر اور جڑاؤ پیالے ہاتھوں میں لے کر حضور میں آئے اور شراب چلنے لگی۔ جب اُن جامِ عشق کے مدہوشوں کو نشہ خوب چڑھا تب طور اُن کی گفتگو اور صحبت کا کچھ اور ہوا۔ خواصیں جتنی سامھنے کھڑی تھیں، اُن کی یہ کیفیت دیکھ کر کام کاج کے بہانے سامھنے سے سرک گئیں بلکہ نرگس کے دستے جو رو برو دھرے تھے، انھوں نے بھی حجاب سے آنکھیں نیچی کر لیں۔ آخر جب نشے نے نہایت زیادتی کی اور بے حجابی بہت بڑھ گئی تب چھپرکھٹ میں جا کر لیٹے اور پردے چھوڑ دیے۔ گویا مہر و ماہ ایک مقام میں چھپ گئے۔ پھر چھیڑ چھاڑ اور بوس و کنار ہونے لگا۔ منہ سے منہ، ہونٹھ سے ہونٹھ، آنکھ سے آنکھ، دل سے دل، بدن سے بدن مل گئے۔ شرابِ وصل آپس میں پینے لگے۔ ازبسکہ بے اختیار ہو ہو کر لگے گلے، شوق و ناز کے آپس میں ہاتھ خوب چلے۔ کسی کی چولی چل گئی، کسی کی چین نکل گئی۔ غم و درد نے دامن کھینچا۔ عیش و طرب ہر ایک کا گریبان گیر ہوا۔ وہ پیاسے شربتِ وصال کے سیراب ہو کر اور شرابِ عیش کو بہ خوبی پی کر اٹھے۔ کسی کے منہ پر سرخی، کسی کے منہ پر سفیدی۔ اس رنگ روپ سے پھر مسند پر آبیٹھے لیکن خاموش۔ ادھر پسینے پسینے یہ مہ جبین، اُدھر آنکھیں شرم سے نیچے کیے ہوئے وہ نازنین۔
غرض اس کیفیت میں تھے، نجم النسا نے آکر عرض کیا: خاصے کو کیا حکم ہے؟ فرمایا: منگاؤ۔ ووں ہیں پہر بجا اور بے نظیر گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا، پر عجب اس کی حالت تھی۔ اِدھر بادشاہ زادی کی رنجیدگی کا خوف و خطر، اُدھر اُس پری کے غصے کا ڈر۔ پر یہ سوچا کہ بھوت کی آشنائی جی کا ضرر ہے۔ شہزادی سے آبدیدہ ہو کر کہا کہ میں مجبور ہوں۔ وہ غم کی تصویر ہو گئی اور کچھ نہ بولی بلکہ آنکھ بھی ادھر نہ کی۔ تب بے نظیر کہنے لگا کہ مجھ سے آزردہ و بے زار مت ہو۔ میرا جی کب چاہتا ہے کہ جاؤں لیکن پراے بس میں ہوں۔ اگر جیتا رہا تو کل پھر آؤں گا۔ ان نے تیوری چڑھا کر کہا: آؤ یا نہ آؤ، مختار ہو۔ اس کی خفگی کی بول چال سے بادشاہ زادہ رونے لگا، پر چار و ناچار رخصت ہوا اور گیا۔
القصہ پھر ہجر کا پردہ دونوں کے بیچ پڑ گیا اور رونا دھونا ہر ایک کو لگ گیا۔ یہ معمول ٹھہرا کہ ہر روز رات کو آنا اور پہر بھر بادشاہ زادی کے ساتھ ہنسنا بولنا اور دل کے عُقدوں کو کھولنا۔ غرض ایک پہر تو دونوں وصل میں ہنستے بولتے اور سات پہر ہجر میں زار زار روتے ؎
پلا جلد ساقی مجھے بھر کے جام یہ دو دل کو یک جا بٹھاتا نہیں یہ ہے دشمنِ وصل و دل سوزِ ہجر جدائی انھوں کی خوش آئی اِسے |
کہ ہے چرخ بھی درپے انتقام کسی کا اِسے وصل بھاتا نہیں کرے ہے شب وصل کو روزِ ہجر یہ اتنی بھی صحبت نہ بھائی اِسے |
قصہ ماہ رخ پری کے خبر پانے کا احوال سے بے نظیر کے اور کوے میں قید کرنے کا اس کے
القصہ ایک دیو نے پری کو خبر دی کہ جس کو تم چاہتی ہو، وہ اور کو چاہنے لگا۔ یہ سنتے ہی آگ کا شعلہ ہو گئی اور کہنے لگی: مجھے قسم ہے حضرت سلیمان کی، جیسی میں اس کی دوست تھی ویسی ہی اب اُس کی دشمن ہوئی۔ پر تو سچ بتا کہ یہ ماجرا کیوں کر ہے؟ دیو نے کہا کہ ایک دن مَیں کسی طرف اڑا ہوا جاتا تھا۔ قضا را متصل ایک شہر کے جا نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک باغ نہایت ستھرا اور پاکیزہ ہے۔ اس کی ایک روش پر شہ زادہ بے نظیر ایک عورتِ نازنیں کا ہاتھ میں ہاتھ لیے کھڑا ہے اور آپس میں ناز و نیاز ہو رہے ہیں۔ یہ خبر اڑتی سی وہ سن غضب ہو کر بولی: میں اگر دیکھ پاؤں ایک نظر ؎
تو کھا جاؤں کچا اسے مَوت ہو | لگی ہے مری اب تو وہ سَوت ہو |
اور وہ ایسا تیسا آوے تو سہی۔ آج گریبان اُس کا دھجی دھجی کر ڈالوں اور دامن ٹکڑے ٹکڑے۔ یہی قول قرار اس نے میرے ساتھ کیا تھا۔ کیسی سزا دیتی ہوں۔ ہمارے بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ آدمی زاد کا تمام فرقہ بے وفا ہوتا ہے۔
یہ غصے میں پیچ تاب کھا رہی تھی کہ بے نظیر آ پہنچا اور اس کی یہ حالت دیکھ کر ڈر گیا، بلکہ قریب تھا کہ جی نکل جاوے۔ وہ دیکھتے ہی بلا سی پیچھے لگ گئی کہ اے موذی! تیری باتیں سب میری نظر میں ہیں اور تیری گھاتیں چوریاں سب معلوم ہیں ؎
تجھے سیر کو میں نے گھوڑا دیا | کہ اس مال زادی کو جوڑا دیا |
ہم سے دل کو یوں چھڑانا اور کہیں لگانا، اوپر ہی اوپر مزا اڑانا۔ دیکھ تو کیسا مزا چکھاتی ہوں اور کیسی ناک چنے چبواتی۔ یہی مُچلکہ دیا تھا تو نے، اپنے لکھے پر خوب عمل کیا۔ میں بھی اُس کا بدلا لیے بن نہ رہوں گی۔ کیوں جی ہم سے یوں اور اُس سے ووں؟ جیسا تو راتوں کو شاد شاد پھرا ہے، ویسا ہی اپنے دنوں کو رووے گا۔ چاہ کی ایک ذرا لذت اٹھا، دیکھ تو کیسے کوے جھکاتی ہوں اور کیسی بلا تیرے سر پر لاتی ہوں۔ جی سے تو کیا ماروں کہ تجھے چاہتی تھی مگر تیری چالاکیوں کی سزا دینی ضرور ہے۔ تو تو صحیح کہ تجھے ایسے ایک اندھے کوے میں بٹھاؤں کہ اپنی پرچھائیں بھی نہ دیکھے تو۔ بس تو ہو اور تیرا سر ہو اور زانو۔ یہ کہہ کر ایک پری زاد کو بلایا اور فرمایا کہ اسے جلد لے جا کر فلانے جنگل میں کوہِ قاف کے نزدیک وہ جو ایک کوا ہے، کئی سو من کا پتھر اس پر دھرا ہے، اسے اٹھا کر اُسی میں اِسے بند کر پھر وہی پتھر اُس کے منہ پر دھر۔ خبردار! اس کی فریاد نہ سنیو اور اس پر رحم ایک ذرا نہ کیجیو۔ جب شام کا وقت ہو تو ایک پیالہ پانی کا اور ایک روکھی روٹی اس کو پہنچانا۔ یہی معمول رہے۔ خلاف اس کے عمل میں نہ آوے گرچہ وہ کتنا ہی کہے۔ دیو یہ سنتے ہی شہزادے کو لے کر آسمان کی طرف اڑا۔ بے چارے پر ایک بلاے آسمانی اور آفتِ ناگہانی نازل ہوئی۔ دل اس کا نہایت پژمردہ ہو گیا بلکہ جینے سے بھی نا امید ہوا۔ سواے آہ و نالے کی فوج کے کوئی اس کا مددگار نہ تھا اور بغیر لشکرِ غم کے کوئی مونس و غم خوار۔ اپنے دل سے کہا کہ اے گرفتارِ اندوہ و غم! ہم پر یہ مصیبت جو آج ہے، عشق کی یہی معراج ہے۔ آخر اس یوسفِ ثانی کو دیو نے کوے میں بند کیا اور اُسی صورت سے اُس سنگِ گراں کو اُس پر دھر دیا۔ اِس ماہ رو کے جلوے سے بند کوئیں کے نصیب کھلے، تاریکی سب جاتی رہی اور اُس میں کیوں نہ اجالا ہو کہ اس کی پتلی کا جب ایسا تارا ہو ؎
وہ اندھا کوا تھا سو روشن ہوا | جواں اُس میں وہ سانپ کا من ہوا |
بلکہ وہ حقیقت میں اندھا نہ تھا، اُس آئینہ رو کے حسن کو دیکھ حسرت سے پانی اُس کا زمین میں سما گیا اور اُس کے آنے کی خوشی سے آنسو اُس کے سوکھ گئے۔ غرض جب کہ تہ پر اُس اسیرِ غم کا پاؤں پہنچا تب وہ اُس کے اندوہ و الم سے بھر گیا۔ ہوا نے بھی کانپ کانپ کر اوپر کی راہ لی اور کوے نے مارے خطرے کے پتھر کی نقاب منہ پر ڈال لی۔ الغرض اُس نازنیں جوان کا نازک دل اُس ہول ناک جگہ میں دھڑکنے لگا اور جگر اس کا مارے خوف کے مانندِ مرغِ اسیر پھڑکنے۔ اندھیرے نے یہاں تک اُس کا دم خفا کیا کہ سانس بھی رک گئی۔ یہ حالت ہوئی اس کی کہ جیسے کسو کو دبا لیتی ہے سیاہی۔ کسو طرف اس کو راہ نکلنے کی جو نظر نہ آئی، تمام دنیا اُس کی آنکھوں میں تاریک ہو گئی۔ بہتیرا پکارا اور چلایا اور اپنے سر کو اُس کوئیں کی کوٹھی سے ٹکرایا۔ اُس کی فریاد کسو نے نہ سنی اور داد نہ دی۔ کسی کاروان کا بھی گذر نہ ہوا کہ اُس یوسفِ بے نظیر کو اُس چاہِ عمیق سے نکالتا۔ اُس کا مونس و غم خوار بجز ذاتِ کردگار کوئی نہ تھا۔ رفیق اُس کا وہی کوا اندھیارا اور شفیق اس کے سر پر وہی سنگِ خارا۔ ہوا کا بھی کسو طرف سے وہاں نہ تھا گذر کہ اُس کی آواز کو لے جاتی وہی باہر۔ غرض کوئیں کی آواز کو سواے کوئیں کے کون سنے۔ جو کچھ وہ کہتا تھا، کوا ہی اس کا جواب دیتا تھا ؎
کوا اُس کو پوچھے وہ پوچھے اسے | اندھیرے سِوا کچھ نہ سوجھے اسے |
وہ کوا نہ تھا، نمونہ تھا شبِ ماتم کا یا نشان تھا شامِ مصیبت و غم کا۔ سیاہی میں تیرہ تر مانندِ دلِ کافر اور گرمی اور عفونت میں سقر سے بھی بد تر۔ نہ شب کی تاریکی کا وہاں دخل، نہ دن کی روشنی کا گذر۔ ظلمت کا ہمیشہ وہاں ظہور، ساے سے اس کے کوسوں بھاگتا تھا نور۔ اب اُس کے اندھیرے کے بیان کو کیوں کر لکھوں کہ صفحۂ کاغذ نہیں سوجھتا اور قلم کی بھی آنکھوں سے اشکِ سیاہ بہ چلا۔ لازم ہے اب اس غم کی بات کو مختصر کیجیے اور زیادہ طول نہ دیجیے۔
القصہ اُس رشکِ آبِ حیات نے وہیں قرار پکڑا۔ اب نجات اپنی کسی طرح اُسے نہیں سوجھتی۔ دیکھیے خدا کب اِس قیدِ شدید سے اُس کو رہائی دیوے ؎
غم و درد الفت کا کھا کھا جیے
لہو پانی اپنا کوئیں میں پیے
یہاں تو بے نظیر اس طرح سے اس کوئیں میں اسیر ہوا اور وہاں دردِ فُرقت نے بدرِ منیر کو حد سے زیادہ بے قرار کیا۔ سچ ہے دو دلوں میں جو محبتِ جانی ہوتی ہے، ایک کی حالت دوسرے پر چھپی نہیں رہتی۔ قلق جو اس پر یہاں گذرا، اُس پر بھی وہاں غم و الم ہوا۔ اس کا جی جو گھبرا کر رکا، اُس کا بھی دم خفا ہوا۔
جب کہ وہ رشکِ ماہ کئی رات بدرِ منیر کے پاس نہ آیا، جہانِ روشن اس کی آنکھوں میں تاریک ہو گیا۔ گھبرائی اور نجم النسا سے کہنے لگی کہ میراجی ٹوٹا جاتا ہے۔ خدا جانے کہ اُس شخص پر کیا صدمہ پڑا۔ کہا اس نے کہ بی بی! کچھ تمھیں سودا ہے؟ وہ عاشق معشوق مزاج ہے۔ خدا جانے کس شغل میں لگ گیا۔ اتنی بھی بے قراری میری چڑ ہے، اپنے تئیں سنبھالنا بھی شرط ہے۔ وہ اپنی رہ رہ کے چاہ دلاتا ہے۔ ٹک تھانبھو اپنے دل کو، اتنی بےچین مت ہو ؎
رکے جو کوئی، اس سے رک جائیے
جھکے آپ سے جو، تو جھک جائیے
خدا کو مانو اور تفوّل بھلا منہ سے نکالو۔ اختیار کو اتنا ہاتھ سے نہ دو۔ دلِ بے قرار کو ٹک سنبھالے رکھو۔ یے باتیں سن کر اُس کی نہایت پیچ تاب شہزادی نے دل ہی دل میں کھایا اور اُس کو کچھ جواب نہ دیا۔ جب کئی دن اِس بات پر اور بھی گذر گئے، تب اُس کے طور بے قراری سے کچھ اور ہوئے۔ دیوانی سی ہر ایک طرف پھرنے لگی اور جا بہ جا درختوں میں جا جا کر گرنے۔ جان حزیں میں اُس کی اضطراب نے ٹھکانا کیا اور صبر نے اس کے دل سے کنارا۔ بے ہودہ بے ہودہ خیال باندھنے لگی اور وحشت آلودہ خواب دیکھنے۔ ہجر کی تپ دل میں شدت سے بھڑکی اور جلن جانِ سوزناک میں حد سے زیادہ بڑھی۔ آنکھوں سے گرم گرم آنسو نکلنے لگے، دل و جگر جدائی کی آگ سے جلنے۔ تنہائی ڈھونڈھنے لگی اور بہانے بہانے سے رونے ؎
تپِ غم کی شدت سے وہ کانپ کانپ
اکیلی لگی رونے منہ ڈھانپ ڈھانپ
اگلا سا ہنسنا بولنا سونا بیٹھنا چھوڑ دیا۔ کھانا پینا وقت پر ترک کیا۔ جہاں بیٹھنا وہاں سے از خود نہ اٹھنا، محنت و غم سے دن رات گھٹنا۔ اگر کسی نے کہا: چلو کسی طرف جی بہلاؤ، تو اٹھ کھڑے ہونا کہ اچھا۔ جو کسی نے پوچھا کہ مزاج کیسا ہے؟ تو کہنا: جیسا تھا۔ جو کسی نے کہا کہ خاصے کا وقت گذر گیا ہے، کچھ کھائیے تو سہل انگاری سے کہا کہ بہتر ہے منگوائیے۔ جو کوئی بولا کہ ایسے رکے بیٹھے رہنے سے مرض پیدا ہوتے ہیں، ادھر ادھر ذرا سیر کیجیے کہ کچھ تفریح طبع ہو۔ کہا: سیر سے میرا دل بھر چکا ہے، کچھ خواہش نہیں۔ غرض کھانا پینا موقوف اوروں کے کھلانے پلانے پر، جاگنا سونا بھی موقوف لوگوں کے سلانے جگانے پر۔ سب لوازم زندگی کے غیروں کے ہاتھ، فقط غمِ دلبر ہی اس کے ساتھ۔ آہیں بھرنے سے شوق اور رونے سے ذوق۔ نہ سدھ بدھ جان کی، نہ تن بدن کا ہوش۔ دل بے تاب میں اُس کے یار ہی کی محبت کا جوش۔ نہ تماشاے چمن پر مائل، نہ گل پر اس کی نظر۔ اُسی کی صورت کا تصور چشم و دل میں آٹھوں پہر۔ عالمِ خیال میں اسی سے سوال و جواب، دھری رو برو اس کے حسن کی کتاب۔ جو آجائے کچھ شعر و سخن کی گفتار، تو ایک آہ بھر کر حسَن کے پڑھتی یہ شعر دو چار ؎
یہ کیا عشق آفت اٹھانے لگا ملا میرے دلبر کو مجھ سے خدا! گنہ چشمِ خوں بار کا کچھ نہیں فلک نے تو اتنا ہنسایا نہ تھا نہیں مجھ کو دشمن سے شکوا حسَنؔ |
مرے دل کو مجھ سے چھڑانے لگا نہیں تو مرا جی ٹھکانے لگا مرا دل ہی مجھ کو ڈُبانے لگا کہ جس کے عوض یوں رُلانے لگا مرا دوست مجھ کو ستانے لگا |
غزل یا رباعی یا کوئی فردِ پر درد ہی پڑھتی۔ سو یہ بھی جو کچھ مذکور نکلے، الّا نہ اس کی بھی کچھ خواہش نہ تھی۔ کس واسطے کہ ہر ایک چیز کا تعلق دل ہی سے ہے۔ جب اس پر صدمہ ہو تو ایک بات بھی کہنی سننی قہر تھی ؎
گیا ہو جو اپنا ہی جیوڑا نکل گلابی میں غنچے کی بھر کر شتاب پیالے میں نرگس کے دے میری جاں |
کہاں کی رباعی، کہاں کی غزل پلا ساقیا کیتکی کی شراب کہ دیکھوں میں کیفیتِ بوستاں |
داستان بدرِ منیر کے عشق بائی کو بلانے اور راگ سننے کی
القصہ گردشِ آسمان سے احوال ایک طور پر کسی کا نہیں رہتا، گاہے شادی ہے گاہے غم، کبھی دکھ ہے کبھی سکھ، کبھوہنسنا ہے کبھو رونا۔ ایک دن کی سرگذشت یہ ہے کہ بادشاہ زادی سوتی ہوئی بسترِ غم سے سپہری کے وقت جو اٹھی، دالان سے باہر آنکھیں ملتی ہوئی نکلی اور کہنے لگی کہ آج جی میں آتا ہے کہ ذرا چمن کی دید کروں، شاید میرا دلِ بستہ کھلے اور جی کچھ بہلے۔ رات دن کے غم نے گھبرا دیا ہے اور آٹھ پہر کے درد نے تڑپھا دیا۔ از بس کہ گل سے بو یار کی آتی ہے، اس واسطے اُس کو خواہش گلزار کی پھر ہوئی۔ پچھلا پہر دن تھا کہ سنگار دانی مُقابہ منگا، منہ ہاتھ دھویا اور باغ کی طرف گئی۔ ایک چمن کے کنارے جڑاؤ مونڈھا بچھا کر سو ناز و ادا سے بیٹھی۔ ایک پاؤں کو زانو کے اوپر رکھ لیا اور دوسرے پاؤں کو ایک آن سے مونڈھے سے لٹکا دیا۔ وہ پاے نگاریں جسے پنجۂ مرجان دیکھ کر حسرت سے ہاتھ ملے، بلکہ پنجۂ خورشید بھی بلائیں لیوے۔ زبانِ غنچہ اُس کے وصف میں لال اور دلِ پُر خون حنا کا سو سو رنگ سے اُسی کا پامال۔ کفک اور فِندَق کی رنگت پر لالۂ احمر نثار۔ پائیں باغ کی بہار پاے حنائی پر قربان سو سو بار۔ سونے کے کڑوں کی کفک پر وہ چمک اور رنگ، سنہری شفق دیکھ کر جس کو ہووے دنگ ؎
جواہر کے چھلے پڑے پور پور | زری کی ٹکی جیسے مخمل پہ قور |
از بس کہ وہ نازنین سوتی اٹھی تھی، بد دماغی سے چیں بہ جبیں تھی۔ وے خماری انکھڑیاں اور وے انداز کی انگڑائیاں اور حسن کے عالم کی اور جوبن کی دم بدم سرسائیاں۔ باغِ جوانی کی تازہ بہار، سینے کی صفائی اور چھاتیوں کا ابھار۔ نشہ حسن کا چڑھا ہوا، جوش جوانی کا بڑھا ہوا۔ ناز سے دم بدم بن بن بیٹھنا، چھب تختی کو اپنی دیکھ غرور سے حسن کے اینٹھنا۔ ایک بلّور کا حقہ کہ جس میں لالہ کی پتیاں پڑی تھیں اور نیچہ مغرّق زری کا اُس پر ایک خواص لیے کھڑی تھی اور وہ لبِ نازک پر مُنہنال کو دھر دودِ دل پردے میں نکال رہی تھی۔ ادھر اُدھر یوں کرتی تھی نگاہ، جیسے کوئی کسی کی تکتا ہو راہ۔ خواصیں سب گرد و پیش اپنے اپنے عہدے لیے حاضر۔ کسی کے ہاتھ مورچھل کسی کے ہاتھ میں پیک دان۔ کسی کے پاس چنگیر کوئی لیے ہوئے پان دان ؎
رسیلی چھبیلی بنی تنگ و چست
لباس اور زیور سے ہر ایک درست
نیچے آنکھیں کیے دست بستہ با ادب، سر جھکائے شرم سے لیکن ہر ایک آفت کا ٹکڑا اور قیامت غضب۔ کن انکھیوں سے جدھر دیکھتی تھی، بسمل کر دیتی تھی۔ خوب صورت خوب صورت کئی مصاحبیں اور ہم دمیں بھی کرسیوں پر ایک لحاظ سے ادھر اُدھر بیٹھی تھیں۔ شہزادی اُن میں ایسی نظر آتی تھی جیسے تاروں میں چاند۔ غرض اس ٹھسّے سے وہ باغ میں تھی جلوہ گر کہ ہر ایک گل کی تھی اُسی کے مکھڑے پر نظر۔ چمن ہر ایک باغ کا اُس گھڑی جوش میں تھا اور جو گل و غنچہ اُس میں تھا سو بے ہوش۔ از بس کہ وہ گل پیرہن عطر میں ڈوبی ہوئی تھی، باغ کی بو باس دونی ہو گئی۔ سوندھے کی بو سے تمام باغ مہک رہا تھا، بلکہ گلوں کا بھی دماغ معطر ہو گیا تھا ؎
پڑا عکس اُس کا جو طرفِ چمن | ہوا لالہ، گل اور گل، نسترن |
اور درختوں پر اُس کے رنگ کی جوت پڑی تو اُن کی سبزی مانند زمرد کے چمکنے لگی۔ اُس کے بیٹھنے سے گلشن نے ہزار رنگ کی زینت پائی اور صبا سے بھی اڑ گئی شکیبائی۔ چمن نے جو اُس گلِ خوبی کی دیکھی بہار، تو اپنے پھول اُسے لگنے لگے خار خار۔ گل اور غنچے کہنے لگے مل مل، اِسی کے جلوے سے باغ باغ ہے باغ کا دل۔ بلبلوں سے گل کی چاہ جاتی رہی، قامتِ سرو کی قمری کو صورتِ آہ نظر آنے لگی۔ حاصل یہ ہے کہ وہاں کے سارے در و دیوار، اُس مہ کی تجلی سے ہو گئے تھے حیران آئینہ وار۔ اِس میں بیٹھے بیٹھے کچھ جی میں جو آگیا تو ایک ادا سے اُس دل ربا نے یوں کہا ؎
اری کوئی ہے ہاں ابھی جائیو
مری عشق بائی کو لے آئیو
اس وقت عجب سماں ہے اور باغ کی بہار کا عالم زور ہی کیفیت پر ہے۔ گھڑی دو ایک وہ مجرا کرے، شاید میرا دلِ ملول مشغول ہو اور یہ داغ جگر کوئی دم تو پھول ہو۔ جی کسی طرح لگتا نہیں، شاید راگ ناچ کی صحبت میں کچھ بہلے اور غم کو اندکے بھولے۔ یہ سنتے ہی ایک خواص شیریں ادا دوڑی اور عشق بائی کو اُس نے پکارا۔ وہ کافر اِس آن و ادا سے آنے لگی کہ ہر ایک گبرو مسلمان کی جان جانے لگی۔ ایک تو جوانی کی مستی، دوسرے نشہ شراب کا چڑھا ہوا۔ چلنے میں پاؤں اُس کا کہیں کا کہیں پڑتا تھا۔ شوخی شرارت پور پور میں، اینڈی ہوئی جوبن کے زور میں ؎
وہ خلقت کی گرمی، وہ ڈومَن پنا
وہ چہرہ نشے میں بھبھوکا بنا
لٹوں کے بال منہ پر یوں رہے تھے بکھر کہ جیسے بدلی چاند کے ہووے ادھر ادھر ؎
وہ بن پونچھی ہوٹھوں کی مسی غضب
کہ منہ پر تھی گویا قیامت کی شب
کان میں ایک بالا ایسا جھم جھماتا تھا کہ اُس کی جنبش پر چاند کا ہالا صدقے کیا تھا۔ اگرئی ایک پشواز گلے میں اور حمائل ایک نرگس کا ہار۔ بند رومی کمخواب کی پاؤں میں ازار۔ بالوں کا جوڑا بندھا ہوا، سر بے باکی و ناز سے کھلا ہوا۔ مونڈھے پر ایک زرد شال، ہر ہر قدم پر کمر کی لچک اور شوخی کی چال۔ ایک تنگ و چست شبنم کی انگیا جا بجا سے مسکی ہوئی اور کناروں پر اُس کے بنَت جگمگی ٹکی ہوئی۔ پشواز کی چین اٹھی ہوئی، چولی انداز سے چسی ہوئی۔ منہدی کا شوخ شوخ رنگ چمکتے ہوئے ہاتھوں میں اور کانوں میں بالے چھڑے اور پاے حنائی میں دمکتے ہوئے توڑے کڑے ؎
چلی وھاں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی
بے ساختہ عجب تھا اس کا عالم، کیوں نہ جان فدا کرے اس پر سارا عالم۔ کئی کافریں اور بھی ناز و ادا سے بھری ہوئیں ساتھ لیے چالاک و چست اور ساز گانے بجانے کے ہر ایک کے پاس درست۔ غرض ناز و اغماض سے رو برو شہزادی کے آ کھڑی ہوئی اور ایک انداز سے سلام کرکے وہ جو روش پر فرش بچھا ہوا تھا، ساتھنوں سمیت قرینے سے بیٹھ گئی۔ حضور سے حکم ہوا: گوری کا وقت ہے۔ تب اپنے اپنے ساز ہر ایک نے اٹھا طبلوں کے سُر کھینچ کر چڑھا دیے اور تھاپ کی صدا سے دلوں کو مائل کر لیا۔ وہ کافر گوری کا ٹپہ اِس انداز سے گانے لگی کہ ہر تان کے ساتھ جی ہر ایک کا نکلنے لگا۔ گٹکری متصل ایک نور کی تھی لڑی، اپج کی بہتایت ایک پھلجھڑی۔ گل و غنچے کی طرح آواز اُس کی ہر ایک طبع کی مرغوب، غرض جو کھلی مُندی اُس کی تھی ہر ایک جی کی محبوب۔ اُس وقت کے سمیں کا کیا بیان کیجیے ماجرا کہ در و دیوار مست ہو گئے تھے، بس کہ بندھ گئی تھی ہوا۔ راگ ناچ کا یہ کچھ عالم، تس پر ایسا حسنِ گل رُخاں۔ گلشن کی بہار کا ہو گیا تھا دونا سماں۔ چار گھڑی دن سورج کا عجب روپ، سہانا سایہ درختوں میں کچھ چھاؤں کچھ دھوپ۔ دھانوں کی سبزی کی لہک، سرسوں کی زردی کی دمک۔ لالہ کی شوخ شوخ لالی اور ہزارے کا رنگ، سرخ سرخ ڈورے محبوبوں کی آنکھوں کے اور نشے کی ترنگ۔ رُپہری سنہری ورقوں کی پوستوں کے ڈوروں پر یہ چمک کہ جس سے بجلی کی آنکھ جاتی تھی جھپک۔ درختوں میں سے شفق کا عکس پڑنا اور در و دیوار کا گلابی ہو جانا۔ ہر طرف چادروں کا چھٹنا اور پانی کا زور شور، درختوں پر جانوروں کا چہچہے کرنا چاروں اور۔ نہروں میں پانی کا موجیں مارنا اور فواروں کا اچھلنا۔ سروِ سہی کا اکڑنا اور آب جوؤں کا بہنا۔ نوبت کے ٹکوروں کی نرم نرم آوازِ دل ربا اور شہنائیوں کی دور سے خوش آئند صدا۔ اُن زہرہ منشوں کا گت ناچنا اور ستھری ستھری طرح الاپنا۔ سارنگیوں کا لہرا طبلوں کی گمک اور بھاؤ بتانے میں آنچل پلو کی چمک۔ گوری کی وے منجی منجی تانیں، گتوں کی وے دل فریب آنیں ؎
وہ دل پیسنا ہاتھ پر دھر کے ہاتھ
اُچھلنا وہ دامن کا ٹھوکر کے ساتھ
اکثر ذی حیات موئے، انسان اور چرند و پرند محو ہوئے بلکہ جو جہاں کھڑے تھے کھڑے رہ گئے اور جو بیٹھے تھے سو بیٹھے۔ جو پیچھے تھے آگے نہ بڑھ سکے اور جو آگے تھے وہ پیچھے نہ ہٹ سکے۔ نازنینانِ چمن کا بھی یہ رنگ تھا کہ نرگس کی ادھر ہی تھی نظر اور حالت بے خودی تھی سب گلوں پر۔ درخت سب وجد میں آکر ہلنے لگے اور سرو بھیچک ہو ٹھٹھک گئے۔ ڈالیوں پر سے گر پڑے جانور، آئینہ ساں ہو گئے دیوار و در۔ پگھل گئے نہروں کے پتھر سارے، اُچھل پڑے بے اختیار فوارے۔ نعرے کرنے لگیں شوق میں آ قمریاں، بلبلوں کے چمن میں ہوئے آنسو رواں۔ راگ بھی عجب رکھتا ہے اثر کہ سنگِ سخت کا پانی کر دیتا ہے جگر۔
القصہ یہ سماں بندھا کہ ہر ایک بے خود ہو گیا۔ از بس کہ بدرِ منیر کے دل پر عشق کی چوٹ تھی، آہیں بے اختیار بھرنے لگی اور دل میں خیال عاشق کا جو بندھا تھا، رومال دھر منہ پر خوب روئی۔ پھر مثل سیماب نپٹ بے تاب ہو ؎
لگی کہنے: ہے ہے، یہ دیکھوں میں سیر | نہ ہو پاس میرے وہ، یادش بخیر |
وہی جانے اس سوزِ دروں کو جس کی کہیں لگی ہو لاگ، سچ ہے کہ بن معشوق کے اگر گلزارِ ارم ہو تو لگ جائے آگ۔ جس کو فراق ہو، جی اس کا باغ بہشت میں بھی نہ کھلے۔ تو کب واشُد ہو اُس کو اِس گلشن کے دیکھے سے۔ گل پر کیا خاک کرے وہ نظر، جس کو اپنے دل کی نہ ہووے خبر۔ کب نہال کرے اُسے درختوں کا عالم، جسے اپنے سروِ رواں کا ہووے غم۔ جس کے جگر میں ہووے آہ کی سول، کانٹا سا چبھے اُس کے دلِ زار میں پھول۔ یہ کہہ کر حسرت و افسوس سے وہ دل ربا اٹھی اور منہ لپیٹ چھپرکھٹ میں جا گری۔ وہ عالم جو تھا شادی کا، ماتم ہو گیا۔ سماں وہ خوشی کا درہم برہم ہو گیا۔ خواصیں کسی طرف چلی گئیں اور طایفے کی رنڈیاں کہیں کی کہیں۔ عقل میری بھیچک رہ گئی دیکھ کر یہ ڈھنگ، کس قدر بے ثبات ہے اس باغ کا رنگ۔ کبھی اس میں بہار ہے کبھی خزاں، ایک وتیرے پر نہیں اس کا سماں ؎
پلا ساقی ایک جام مجھ کو شتاب
کہ پردے میں شب کے گیا آفتاب
شبِ ہجر کی پھر علامت ہوئی
غرض عاشقوں پر قیامت ہوئی
قصہ رات کو رونے کا بدرِ منیر کے بے نظیر کی جدائی کے غم سے
جب وہ رشکِ ماہ بہ حال تباہ چھپر کھٹ میں لیٹی اور سب کو کہا کہ تم یہاں سے سرک جاؤ، ادھر کوئی نہ آؤ۔ تب اکیلی ہو زار زار تمام رات ایسی روئی کہ صبح کو آنسوؤں کے پانی سے اپنا منہ دھویا ؎
صبوحی تو دے ساقیِ لعل فام
کہ رو دھو کے میں رات کاٹی تمام
جوں ہیں آفتاب غم کا نکلا اور اداسی کا دن چڑھنے لگا، آئینے میں اپنے چہرے کا رنگ ڈھنگ جو دیکھا تو دنگ ہو گئی۔ بدن پر جو نظر پڑی تو ایسا زار و نزار تھا کہ جیسے کسی نے نچوڑ لیا۔ آنکھ اٹھا کر فلک کی طرف دیکھا اور شکر کیا۔ پھر دل کو ادھر ادھر بہلانے لگی۔ ظاہر میں زبان پر جی لگنے کی باتیں و لیکن دل اداس، ہوش و عقل پریشان پراگندہ حواس۔ نہ منہ سر کی سدھ نہ تن بدن کی خبر۔ جو سر کھل گیا تو اس کا دھیان نہیں، اگر بندِ گریبان ٹوٹ گیا تو پروا نہیں۔ جو مسی لگائے دو دن ہو گئے تو ہو گئے۔ جو کنگھی کیے ایک عرصہ گذر گیا تو گذر گیا۔ جو سینہ بچ گیا ہے تو جگر میں چاک ہے۔ بہ ظاہر لبوں پر ہنسی ہے و لیکن دل غم ناک ہے۔ نہ سُرمے کا دھیان نہ کاجل سے کام، آنکھوں میں چھائی ہوئی وہی سیہ بختی کی شام۔ و لیکن صاحبانِ آن و ادا کا یہ سبھاؤ ہے کہ بگڑے رہنا بھی ان کا ایک بناؤ ہے۔ بے ادائی بھی ان کی ایک رکھتی ہے ادا۔ سچ یہ ہے کہ بھلوں کا سب کچھ ہے بھلا۔
غرض اس کے حسن میں کسی طرح نہ تھی کمی، وہ بگڑی ہوئی بھی گویا تھی بنی۔ غم سے جو پڑ گئی تھی چین جبین پر، وہ بھی دریاے حسن کی تھی ایک لہر۔ آنکھوں میں اُس کی آنسوؤں کی تھی یہ سوبھا، کوٹ کوٹ موتی بھرے تھے گویا۔ تپِ غم سے تمتمائے ہوئے گالوں کا تھا یہ روپ، جیسے لالہ پر پڑتی ہے دھوپ۔ گریبان اُس کا سینے تلک کھلا، گویا تھا صبحِ عشرت فزا۔ اُس کے چہرۂ زرد اور آہِ سرد کا یہ تھا سماں، گویا چاند کے منہ سے نکلتا تھا دھواں ؎
پلا ساقیا ساغرِ بے نظیر
پھنسی دامِ ہجراں میں بدرِ منیر
افسوس وہ حسن و جوانی اُس کی اور ایسا جوبن، تس پر ایسی کوفت اور آٹھ پہر کی کڑھن۔ جہاں تہاں اٹھتے بیٹھتے نزاکت کے بہانے سے آہ کرنا اور سوتے جاگتے بے خودی میں ٹھنڈھی سانس بھرنا۔ کبھو تصور میں اُس کے لہو رونا، جو کسی کو دیکھنا تو ووں ہیں دھونا۔ ہر روز خواصوں کو بالا بتا کر جن درختوں میں بے نظیر چھپ چھپ کر دیکھتا تھا، اُن میں پچھلے پہردن رہے جانا اور ان کی چھاؤں میں بیٹھ کر شام کرنا۔ غرض اسی طرح سارا مہینا اسے گذرا اور وہ ماہِ بے نظیر نظر نہ آیا۔ غم سے رنگ جل گیا اور چہرہ اتر گیا، تب رہنے لگی جان بے تاب میں، فرق آگیا خور و خواب میں۔ وحشت و سودا دن بدن بڑھنے لگے اور ہوش و حواس گھٹنے۔ عقل و عشق میں جھگڑا پڑا۔ ناموس و ننگ نے کوچ کیا۔ ناتوانی زور پر آئی اور خموشی دل میں سمائی۔ یہ حال اس کا دیکھ کر وزیر کی بیٹی جل کر کہنے لگی: اے بدرِ منیر! تو ایسی شعور مند ہے کہ سب کو نصیحت کرے، تیرا شعور کدھر گیا ہے اور تیرے وقوف کو کیا ہوا ہے؟
مسافر سے کوئی بھی کرتا ہے پیٖت! | مثل ہے کہ “جوگی ہوئے کس کے میٖت” |
چار دن کی ہے اِن کی آشنائی اور اس کا نتیجہ ہے جدائی۔ نہ یہ آسمان کے ہیں نہ زمین کے، جہاں بیٹھے ہیں وہیں کے۔ تو بھولی ہے کس بات پر اے دیوانی! اپنی لے خبر اے جانی! جو کوئی اپنے پر جی سے مرے، تو پہلے اس پر اپنا جی کیجیے صدقے۔ جو اپنے پر شیدا نہ ہو تو چاہیے اُس کی پروا نہ ہو۔ وہ اپنی پری کو لیے خوشی سے بیٹھا ہوگا، تم اُس کے غم میں عبث جی کو کرتی ہو فدا۔ اگر اشتیاق اسے ہوتا تمھارے دیکھنے کا تو کسی نہ کسی طرح سے تم تلک آ جاتا۔ تب اس نے کہا: اے نجم النسا! پس غیبت کسی کی بدی کرنا ہے بہت برا کہ خدا ہی عالم ہے غیب کا۔ اُس کی چاہت ہے دلی، پر خدا جانے اُس پر کیا مصیبت پڑی ؎
ہوا قید، یا آنے پایا نہ وہ
گئے کتنے دن، اب تک آیا نہ وہ
مجھے رات دن یہ دھڑکا رہتا ہے کہ پری نے مبادا یہاں کا ماجرا سنا ہو اور اسے قید کیا ہو یا طیش کھا کر کوہِ قاف میں پھینک دیا ہو۔ یا پرستان ہی میں کسی دیو کو سونپا ہو۔ غرض میں نے سب دکھ اُس کی دوری کے گوارا کیے، کہیں رہے پر جیون جیتا رہے۔ یہ کہہ کر اپنا حال زار زار رونے لگی اور موتی آنسوؤں کے پلکوں میں پرونے۔ نِدان سر منہ لپیٹ چھپر کھٹ کی پائینتی منڈکڑی مار پڑ رہی ؎
پلا ساقیا جامِ جم سے وہ مُل
کہ غائب کا احوال ظاہر ہو کُل
کسی کے تو آ کام فرخندہ حال
کہ آخر یہ دنیا ہے خواب و خیال
خواب میں دیکھنا بدرِ منیر کا بے نظیر کو کوے کے اندر
اِس حالت میں جو اُس کی ٹک ایک آنکھ لگ گئی تو یہ خوابِ آشفتہ دیکھا کہ دشمن بھی نہ دیکھے۔ ایک جنگل لق و دق ہے کہ جس کی ہیبت سے رستم کا بھی زہرہ آب ہو جاوے اور اسفندیار روئیں تن بھی اُس کی وحشت کو دیکھ بے تاب ہو جاوے۔ ایک سنسان کفِ دست میدان ہے، نہ وہاں حیوان ہے نہ انسان۔ اور بیچ میں اس کے ہے ایک کواں کہ آہوں کا اُس سے اٹھ رہا ہے دھواں۔ اُس کے گرد نہ دیو ہے نہ پری ہے۔ فقط کئی لاکھ من کی ایک سل اُس کے منہ پر دھری ہے اور اُس سے دم بدم یہی آواز آتی ہے: اے بدرِ منیر! تیرے غم کی چاہ میں میری جان جاتی ہے، ہرچند کہ یہاں ہوں نالہ و فریاد میں لیکن اے جان! دل سے ہوں تیری یاد میں۔ پر کیا کروں قیدِ شدید ہے۔ کسی طرح رہائی نہیں پاتا، واِلّا گرتے پڑتے اِس حال زار سے بھی تجھ تلک اپنے تئیں پہنچاتا ؎
پر اِس قید میں بھی ترا دھیان ہے
فقط تیرے ملنے کا ارمان ہے
مجھے اپنی صورت ٹک دور ہی سے دکھا اور اس قیدِ غم سے چھڑا۔ مجھے اپنے مرنے کی مطلق پروا نہیں، پر یہ افسوس ہے کہ تو میری حالت سے آگاہ نہیں۔ اے کاش! اس وقت میں تجھے دیکھ لوں، قیامت تلک جیوں جو تیرے آگے مروں۔ و لیکن میرا یہ گمان و خیال ہے کیوں کہ وصل تیرا بن وصال محال ہے ؎
کوئی دم کا مہمان ہوں آج کل
اسی چاہ میں جائے گا دم نکل
یہ سن کر بے نظیر کی واردات جوں ہیں چاہا بدرِ منیر نے کہ ایک بات کرے، یکایک اس کی آنکھ کھل گئی۔ قضا نے اُس کی سرگذشت بے نظیر کو نہ سننے دی۔ پھر اُس کو اپنے دیدۂ تر نظر آئے اور وہی گھر، خدا جانے کہ وہ کواں کیا ہوا اور وہ آواز گئی کدھر ؎
صدا اپنے یوسف کی سن خواب سے کہا گو کسی سے نہ اس نے یہ بھید |
اٹھی باولی جانِ بے تاب سے ولے جوں مہِ صبح چہرا سفید |
نِدان اِس راحتِ جاں کا جسم سراپا درد ہو گیا اور وہ گل سا مکھڑا زرد۔ دم بدم دردِ آہ سے گھٹنے لگی، مہتاب سے منہ پر ہوائیاں سی چھٹنے لگیں۔ مژہ نکیلی جو اُس نازنین کی تھی، سو اشکِ خونیں سے ہو گئی پھلجھڑی سی ؎
ڈھلے منہ پہ آنسو، ہوا بسکہ رنج | چھٹے چاندنی میں ستاروں کے گنج |
بھچنپا سا جو اس کا قد تھا اس سے ہزاروں آتشِ غم کے شعلے لگے نکلنے اور اس کی نرگسی آنکھوں سے اشکِ آتشیں ڈھلنے ؎
چھپایا بہت اس نے، پر ہم نشیں! کسی سے کسی کو جو ہوتی ہے لاگ |
چھپائے سے آتش چھپے ہے کہیں بغیر از کہے اور لگتی ہے آگ |
آخر کئی راز دار خواصوں سے اُس خواب کو کہا، پھر آپ خوب روئی اور انھیں بھی رولایا۔ نجم النسا جو اس حالت سے آگاہ ہوئی تو نہایت بے قرار ہو کر کہنے لگی: تو اپنی آنکھوں سے یہ گرم گرم آنسو نہ بہا اور اپنے جی کو اتنا نہ کھپا۔ میں تیرے واسطے اپنی جان کھپاتی ہوں اور سر بہ صحرا جاتی ہوں۔ ہر طرح اُسے ڈھونڈھ لاتی ہوں اور تجھ سے ملاتی ہوں ؎
جو باقی رہا کچھ مرے دم میں دم
تو پھر آکے یہ دیکھتی ہوں قدم
اور جو مر گئی تو تیری بلا سے، یہ جانیو کہ مجھ پر صدقے ہوئی۔ تب شہزادی نے کہا: اے میری رفیق شفیق! میں تو اس چاہِ غم میں ڈوب چکی ہوں۔ تو اپنی بھلی چنگی جان مت کھو، اس واسطے کہ وہ پری ہے تو انسان۔ رسائی تیری وہاں ہوگی کہاں۔ عبث مجھے بھی چھوڑتی ہے اور رشتہ ملاپ کا توڑتی ہے۔ ہر چند کہ میں لہو اپنا آپ ہی پیتی ہوں، پر تیرے ہی آسرے سے جیتی ہوں۔ میری انیس تو ہی ہے فقط، تجھی سے ہوتا ہے میرا غم غلط ؎
وگرنہ میں رک رک کے مر جاؤں گی
اسی طرح جی سے گذر جاؤں گی
کہا اس نے: کیا کیجیے، اب تو اپنے سر پر مصیبت پڑی، جس تس طرح کاٹا چاہیے یہ دکھ کی گھڑی ؎
میں اس عشق کا یہ نہ سمجھی تھی ڈَول
ترے غم سے آنے لگا مجھ کو ہَول
اب تیری حالت دیکھی نہیں جاتی، مجھ کو اس طرح کی زندگی نہیں بھاتی۔ یہ کہہ کر اپنا گہنا پاتا اتار ڈالا اور بناؤ سنگار خاک میں ملا دیا۔ پھر اپنے کچھ ہوش و حواس درست کر تنِ نازنیں پر جوگنوں کا لباس سجا، کئی سیر موتیوں کو جلا، ان کی راکھ کا بھبھوت منہ کو ملا اور ایک بادلے کے دوپٹے کی گاتی باندھی۔ انگیا سو سو جتن سے چھپا لی۔ پھر زمرد کے مُندرے کانوں میں ڈال لیے، برگِ گل گلستانِ حسن کو سبزۂ تازہ سے جلوے دیے۔ زری کا ایک خوش نما حلقہ بنا سر پر رکھا، سنبلستان کو جگمگا کر دیا۔ بالوں کی لٹوں کو بل دے کر بر و دوش پر لٹکا کر موڑ دیا اور حسن کے شبدیز کی باگوں کو ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ آہوں کے دھویں سے آنکھوں کو لال کیا اور خون دل کا ان میں بھر لیا۔ زمرد کی سمرنیں ہاتھوں میں پہنیں اور ایک بین کاندھے پر رکھ لی۔ پھر ایک سیلی گلے میں پہنی اور گیروا کھیس اوڑھ لیا۔ منکے بھی درست کر کے اپنے اپنے موقع پر سج لیے۔ پورا جوگی کا بھیس کیا اور جنگل کا رستا پکڑا ؎
چلی بن کے جوگن وہ باہر کتئیں
دکھاتی ہوئی حال ہرہر کتئیں
چھپے ہوئے سوزِ دل کو نالۂ آتشیں سے ظاہر کرنے لگی اور دردِ نہانی کی شدت سے دم بدم آہ بھرنے۔ غرض اُس آئینہ رو کے منہ کی صفائی راکھ کے ملنے سے زیادہ چمکنے لگی۔ سچ ہے کہ خاک ڈالنے سے چاند نہیں چھپتا، حسن کہیں بھی ہوتا ہے پوشیدا۔ اس نے تو اپنی خوب صورتی کے چھپانے کے لیے سو سو رنگ کیے، پر حسن نے ہر ایک حال میں اُسے جلوے دیے۔ تن کی صفائی اور موتیوں کی سیلی کی دمک ایسی تھی جیسی چاندنی میں کہکشاں کی چمک۔ سر پر اس کے حلقہ زری کا نہ تھا بلکہ بنیٹی کر رہا تھا شب جوانی میں حسن اس کا۔ یا سنبلستان میں آفتاب تھا جلوہ کناں، یا روزِ نو روز شب قدر پر ہوتا تھا قرباں۔ اگر یہی برق و ماہ و ابرِ سیہ ہے تو بھیگے رہیں گے جیب و دامنِ عشاق آنسوؤں سے ؎
وہ مندرے، وہ تن اس کا خاکستری
ہوئی حسن کی اور کھیتی ہری
سبزہ و گل دیکھ کر ان کو گئے ہوش سے بلکہ ہو گئے بندے حلقہ بگوش سے۔ سچ ہے کہ جب ایسے محبوب کے کان لگے تو زمرد کی کیوں نہ شان بڑھے اور جو ایسی صفائی ان کی دیکھے تو کہاں تک نہ اُس کو لو لگے۔ گلے میں موتیوں کے مالے اور مونگوں کے ہار، دکھاتے تھے گل و نسترن کی بہار۔ رنگ اس کی نرگسِ گل رنگ کا لالۂ احمر کا رنگ اڑاتا تھا اور لال قشقہ پیشانی کا جوں لعل صفحۂ نور پر جلوے دکھاتا تھا ؎
ادا اس کی دیکھے جو عاشق کبھو | تو رویا کرے چشم سے وہ لہو |
کاندھے پر اس کے خوب صورت ایک بین تھی یا راگ کی بہنگی۔ تونبے اس کے مے گل رنگ کے تُنگ تھے یا دو سبو لبریز آبِ آہنگ سے۔ ہر ایک تار اُس کا سیلاب تھا راگ کے دریا کا اور قالبِ بے جان کی جاں بخش تھی اس کی صدا ؎
سو وہ بین کاندھے پہ رکھ یوں چلی نہ عاشق ہوئے اُس کے عالم پہ لوگ وہ جوگن بنی جب کہ اس رنگ سے |
پری جیسے لے آئے گنگا جلی دیوانا ہوا جوگ، دیکھ اس کا جوگ لگے پھوڑنے لوگ سر سنگ سے |
جب وہ رخصت ہونے لگی، بادشاہ زادی بے اختیار رونے لگی ؎
وہ رو رو کے دو ابرِ غم یوں ملے
کہ جس طرح ساون سے بھادوں ملے
ان کو روتے دیکھ کر گھر کا گھر رونے لگا بلکہ در و دیوار سے بھی آہ و نالا نکلا۔ آخر کو ہر ایک نے ناچار ہو کر کہا کہ بی بی! سدھار، خدا حافظ ہے۔ جس طرح تو پیٹھ دکھائے جاتی ہے، خدا کرے اسی طرح جلدی منہ دکھلاوے۔ کوئی بولی: دیکھیو ہم کو بھولیو مت بوا! کسی نے دردِ جدائی سے اپنا ست ہار دیا۔ یہ سن کر اس نے کہا ؎
تمھیں بھی خدا کو میں سونپا، سنا
مرا بخشیو تم کہا اور سنا
تن بہ تقدیر اب جاتی ہوں، اگر وہ ملا تو اس کو بھی ساتھ لاتی ہوں۔ القصہ سب کو روتے چھوڑ روانہ ہوئی ؎
نہ سدھ بدھ کی لی اور نہ منگل کی لی
نکل شہر سے راہ جنگل کی لی
تن خاکستری و رخِ گرد آلود سے بین لیے جنگل جنگل پھرتی تھی، اس واسطے کہ کوئی شخص ایسا مل جائے جس کے سبب اس کا ٹھکانا لگے اور ملاقات ہو۔ پر بین جہاں بجاتی وہاں ایک طوفان اٹھاتی۔ چرند پرند جو سننے کو آتے تھے، بے ہوش ہوجاتے تھے ؎
بجاتی وہ جوگن جہاں جوگیا
وھاں بیٹھتی خلق دھونی لگا
بلکہ جنگل بھی اس کے سننے سے جوش میں آتے تھے اور درخت سارے خروش میں۔ جب گلِ نغمہ اس سے گرتے تو جتنے دشت تھے اپنے دامن بھرتے۔ جنگل کے درختوں کے جھنڈ اور خس و خار جڑی بوٹی کوہسار وجد میں آتے تھے اس کی صدا سے اور پرندے گر گر پڑتے تھے ہوا سے۔ نقشِ پا جہاں کہیں بیٹھا بیٹھا، پر اپنا کان ادھر ہی لگائے رہتا۔ نغمے کے گلِ تازہ کی بہار کے آگے، خار سے لگتے تھے جتنے پھول تھے جنگل کے۔ نہ فقط نالے ہی اس کے سوز سے بہ چلے تھے بلکہ کووں کے بھی دل پانی پانی ہوئے تھے۔ چشموں کی لہریں پیچ و تاب کھاتی تھیں اور دریا کی موجیں کناروں سے سر ٹکراتی تھیں۔ نہ انسان ہی اس کی بین کو سن کر گریبان تار تار کرتے تھے بلکہ بلبلیں فغاں میں تھیں اور گل جھک جھک پڑتے تھے۔ قمریاں شور کرتی پھرتی تھیں اور ڈالیاں جھوم جھوم گرتی تھیں۔ ہر ایک کو تھا وہاں مقام حیرت کا کہ کام زباں کا ہاتھ سے اس کے نکلتا تھا۔ چمن کرتی پھرتی تھی وہ ہر ایک جنگل اور بسا جاتی تھی جنگلوں میں دنگل۔ دن رات سرگشتہ مانندِ ہوا، ڈھونڈھتی پھرتی تھی وہ بے نظیر کو جا بجا۔ غرض اس کے دم قدم سے ہر ایک مقام پر طلسم کا عالم آتا تھا نظر ؎
کدھر ہے تو اے ساقیِ گل عذار
کہ صحرا سے اب دل ہوا خار خار
مجھے پھول سی دے شتابی شراب
کہ شہرِ مطالب کو پہنچوں شتاب
وہ دارو پلا دل کو جو راس ہو
کہ جینے کی بیمار کو آس ہو
ملاقات ہونی فیروز شاہ کی جوگن سے
مسبب الاسباب کے سببوں کو دیکھو کہ جو بات عقل میں نہ آوے اور بشر کو خواب میں بھی اس کا دیکھنا محال ہو، اس کا وہ سبب مہیا کر کے دفعتاً ظہور میں لاتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار بدون اس کے حکم کے نہیں۔ کبھی جہاں میں عشرت ہے کبھی الم، کہیں صبحِ عیش ہے اور کہیں شامِ غم۔ دو رنگی سے یہ زمانہ معمور ہے، کبھی اس میں سایہ ہے کبھی نور ہے۔
قضا را اس جوگن کو ایک سہانا سا جنگل نظر آیا۔ شام قریب تھی، اس نے وہیں بستر جمایا۔ اتفاقاً اسی تاریخ پورن ماسی تھی، چاند جلوہ گر ہوا اور چادرِ نور تمام جنگل کی زمین پر بچھ گئی اور تاریکی ایک لخت اُس دشت سے معدوم ہوئی۔ یہ عالم دیکھ کر وہ زہرہ جبیں مِرگ چھالے پر دو زانو بیٹھ کر بین بجانے لگی ؎
کدارا یہ بجنے لگا اس کے ہاتھ
کہ مہ نے کیا دائرہ لے کے ساتھ
سماں اس دم اس طرح بندھ گیا کہ وہاں کا ہر ایک ساکن جوش میں آکر رقص کرنے لگا بلکہ صدا سے اس کی وہ آپ بھی بے حال ہوئی کہ دیوانوں کی طرح بے تابی سے ہاتھ پاؤں مارنے لگی۔ وہ عالم مہتاب وہ جنگل سنسان، وحشت بڑھاتا تھا دیوانوں کی ہر آن۔ وحشیوں کی حیرانی اور طائروں کی خوش الحانی دیکھ دیکھ اور سن سن کر سنگ دلوں کے بھی دل ہوتے تھے پانی پانی۔ پٹ پر میدان میں ایسی چمکتی تھی ریت، گویا نور سے اگا تھا چاند تاروں کا کھیت۔ درختوں کے پتے زمرد سے چمک رہے تھے بلکہ خس و خار سارے کثرتِ نور سے مقیش کی مانند جھلک رہے تھے۔ درختوں میں چاندنی کا تھا ظہور، یا چھلنی سے چھن چھن کے گرتا تھا نور ؎
و یا یہ کہ جوگن کا منہ دیکھ کر گیا ہاتھ سے بین سن کر جو دل |
ہوا نور و سایے کا ٹکڑے جگر گرے سایہ و نور آپس میں مل |
غرض ہوا اس گھڑی ایسی بندھی کہ درختوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے بلکہ جانور بھی اپنا بسیرا بھول گئے ؎
درختوں سے لگ لگ کے بادِ صبا کدارے کا عالم یہ تھا اُس گھڑی |
لگی کرنے آ وجد میں واہ واہ کہ تھی ہر طرف چاندنی غش پڑی |
اس مزے میں ایک طرفہ لطف ہوا کہ فیروز شاہ جنوں کے بادشاہ کا بیٹا حسن میں بے عدیل، نہایت شکیل بیس برس کا اس کا سن و سال، چودھویں رات کے چاند سے بھی خوش جمال کسی طرف اپنا تخت ہوا پر اڑائے جاتا تھا۔ آواز اس کی بین کی اور راگ کی سن کر تخت کو اپنے اس جنگل میں رکھوا دیا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ایک جوگی رشکِ حور اپنے بسترے پر بیٹھی ہے۔ نور اس کا چاند کی جوت سے لڑ رہا ہے۔ دیکھتے ہی اس کو غش کر گیا اور اس کے جوگیا بھیس کو بناوٹ سمجھ کر کہنے لگا: جوگی جی! ہماری آدیس ہے، تم پر ایسا کیا بجوگ پڑا جو تم نے یہ جوگ لیا ؎
کدھر سے تم آئے کہاں جاؤگے؟ وہ سمجھی کہ اِس کا دل آیا اِدھر |
دَیا اپنی ہم پر بھی فرماؤ گے؟ کہ رکھتا ہے دل بھی تو دل سے خبر |
سچ ہے عشق خس و خار ہے اور حسن آگ۔ ہمیشہ سے عشق اور حسن میں ہے لاگ۔ اور راگ مانندِ ہوا، اِس آگ کو اُس خس و خار میں دیتا ہے لگا۔ قصہ مختصر، پری زاد کی باتیں سن کر ؎
کہا ہنس کے جوگن نے: ہر بول ہر
جہاں سے تو آیا، چلا جا اُدھر
تب وہ بولا: واہ جی واہ، آپ بھی قیامت گرم ہیں۔ اللہ اللہ! اتنے روکھے کیوں ہوتے ہو، میں کب بیٹھتا ہوں۔ ذرا بین سن لوں تو چلا جاؤں۔ کہا اس نے: یہ اپنے ہوتے سوتوں سے کہو، چپکے بیٹھے رہو، فقیروں کو نہ چھیڑو۔ یہ دو دو لطیفے جب باہم ہو چکے تب فیروز شاہ سامھنے اس کے ریت میں بیٹھ گیا اور چاہ کے کھیت میں کھیت رہا۔ کبھی اس کے حسن پر تھی اس کی نظر اور کبھی دھیان تھا بین پر۔ کچھ ہوش نہ تھا اپنے تن بدن کا، مانندِ نقش پا چشم و گوش ہو گیا تھا سر تا پا ؎
وہ جوگن جو تھی درد و غم کی اسیر نہ سدھ گھر کی لی اور نے راہ کی |
یہ ہو بیٹھے الفت میں اس کی فقیر جب آئی ذرا سدھ تو پھر آہ کی |
غرض وہ صبح تک بین بجاتی رہی اور یہ روتا رہا۔ جوں جوں اس کے ہاتھ تاروں پر پڑتے تھے، توں تو اس کی پلکوں سے لختِ جگر جھڑتے تھے۔ آخرش رات گذری اور صبح ہوئی۔ جب اس زہرہ جبیں نے ماندگی سے بین لے کر رکھ دی تب پری زاد نے بے اختیار اس کا ہاتھ پکڑا اور تخت پر بٹھا ؎
زمیں سے اڑا آسماں کے تئیں
وہ کتنا کہا کی: نہیں رے، نہیں!
مطلق اس کو نہ مانا۔ پل مارتے پرستان میں لا بٹھایا اور اپنے باپ کو یہ مژدہ سنایا کہ یے جوگی بڑے صاحبِ کمال ہیں۔ ان کی بین اور راگ سنیے گا تو نہایت حظ اٹھائیے گا۔ وہ بولا کہ راگ اپنے دل کا محبوب ہے اور طبیعت کا مرغوب۔ آئیے جوگی صاحب بیٹھیے اور اپنے قدموں سے ہمارا گھر روشن کیجیے۔ ہم دونوں باپ بیٹوں کے بخت کھلے کہ آپ کے قدم یہاں آئے۔ غرض نہایت اس کی تعظیم و تکریم کی اور ایک جاگہ نہایت پاکیزہ و لطیف رہنے کو دی ؎
پلا مجھ کو ساقی محبت کا جام
کہ مہمانیوں میں ہوا دن تمام
داستان بین بجانے میں جوگن کے فیروز شاہ کے باپ کی مجلس کے بیچ
یہ جوگن تو وہاں بروگن ہوئی بیٹھی تھی کہ اتنے میں رات بھی جوگن کی طرح بھبھوت منہ پر چاندنی کامَل ماہ کا اِنڈوا سر پر رکھ آتش کہکشاں سے نور کی رال اڑاتی ہوئی ستاروں کی مالا پہنے پرستان میں آئی اور دن نے شکل اپنی رشک سے پردۂ خجالت میں چھپائی۔ پرستان کے بادشاہ نے پری زادوں کو جمع کرکے مجلس آراستہ کی اور جوگن کو آؤ بھگت سے بلوایا۔ وہ رشکِ زہرہ بین کو کاندھے پر دھرے ایک ناز و امتیاز کے ساتھ آئی، تب اس کو عزت و حرمت سے بٹھایا اور کہا کہ ہم مشتاق ہیں، اگر مزاج چاہے تو بین بجائیے اور کچھ گائیے۔ بے پروائی سے اس نے کہا کہ گانا بجانا کچھ کام نہیں اپنا، لیکن ہر طرح سے ہر کا نام ہمیں جپنا۔ فقیر فرمائشوں سے بیزار ہے پر اب تمھارا گرفتار ہے، اس سے ناچار ہے۔ بادشاہ نے کہا: جوگی صاحب! کیا فرماتے ہو؟ ہم کو فقط تمھارا کرم چاہیے۔ اگر مرضی ہو تو تکلیف دیویں، نہیں جس میں تم راضی ہو سو کریں۔ تب وہ بولی کہ جو ایسی سیوا کرو گے تو میوہ پاؤ گے۔ پھر بین کو کاندھے پر رکھ یہاں تک بجایا کہ در و دیوار مست ہو گئے۔ جو بیٹھے تھے وہ بے حس ہو گئے، جو کھڑے تھے وہ غش ہو کر گر پڑے۔ غرض کوئی ایسا نہ تھا کہ جو رویا نہ تھا اور کسی کا جیب و دامن نہ تھا کہ آنسوؤں سے بھیگا نہ تھا۔ بین پر اس کی انگلیاں یوں چلتی تھیں کہ ہاتھ سے اس کے جی تنوں سے نکلے جاتے تھے۔ رواں دواں ہر ایک جان کو کر دیا اور مردہ ہر ایک جن و انسان کو۔ خصوصاً وہ جو اس کا بے دل تھا، وہ سب سے زیادہ مائل تھا۔ بے تابانہ ادھر اُدھر جا کر چھپ کے اسے پیار کی نظر سے تکتا، کبھی سامھنے آ کھڑا رہتا۔ کبھی ستون کی اوٹ میں ہو کر اپنے دیدۂ تر سے اسے دیکھتا، کبھی آنکھ بچا لوگوں کی دور سے اس کے مکھڑے کی بلائیں لیتا۔ وہ بھی اگرچہ کچھ کہتی سنتی نہ تھی، پر کن انکھیوں سے پھر پھر اس کی حرکتیں تھی دیکھتی۔ جب نظر شہزادے کی اس پر پڑتی تب وہ اور طرف دیکھنے لگتی۔ اس کی عیاری کی اداؤں پر وہ دم بدم آہیں کرتا تھا اور خونِ جگر آنکھوں میں بھرتا۔ اگر کوئی جوگن کی تعریف کسی طرح کی کرتا تو رشک سے بے دھڑک یہ کہہ بیٹھتا کہ تم کو کیا۔ غرض یہ چاہتا تھا کہ صحبت اسی طرح جمی رہے اور اپنی آنکھوں کی ٹکٹکی اس کے مکھڑے پر لگی رہے۔
آخرش نکتہ چین بھی اس کی بین سن کر غش کر گئے اور اپنے ہوش سے گذر گئے۔ تب تو فیروز شاہ کے باپ نے بہت تحسین و آفرین کرکے کہا: جوگی جی! آپ نے ہم پر بڑی دیا کی۔ اسی طرح ہر رات کرم کیجیے اور ہماری مجلس کو آرائش دیجیے ؎
مقدم ہمارا رِجھانا کرو یہ گھربار ہے آپ ہی کا تمام |
ہمیں اپنا مشتاق جانا کرو ہوئے آج سے ہم تمھارے غلام |
جو کچھ درکار ہو آپ کو وہ لیجیے اور تکلف موقوف کیجیے۔ تب کہا اس نے: گھر تمھارا تمھیں مبارک رہے، فقیر کو کچھ مطلب نہیں کہ تم سے کہے۔ تم کہاں، میں کہاں۔ یہ سب آب و دانے کی بات ہے۔ نہیں تو فقیروں کا اور بادشاہوں کا کب ساتھ ہے۔ یہ کہہ کر وہ جوگن اپنے رہنے کے مکان میں گئی۔ بود و باش اپنا وہیں اختیار کی اور اپنے دل سے کہا کہ ان حادثوں سے مت گھبرائیو اور اس واردات سے نہ اکتائیو، تا دیکھوں کہ خالقِ جہاں اس آشکارا میں کیا چھپائے ہے اور آخر کار کیا دکھائے ہے۔
غرض اس کا یہ معمول ٹھہرا کہ شام سے پہر رات تک پریوں کے بادشاہ کی صحبت میں ہنستی بولتی اور بین بجا کر سب کو رِجھاتی، پہر بجے کے بعد اپنے مکان میں آتی۔ لیکن فیروز شاہ کی دن بہ دن حالت تباہ تھی۔ اسی کے تصور میں وہ شام و سحر رہتا، دین و دنیا کی اصلاً خبر نہ رکھتا۔ اسی شمع کے گرد اسے پھرنا اور پروانے کی مانند ہر گھڑی آتش شوق میں گرنا۔ ہر ایک بہانے سے دن رات اسی کے پاس کاٹنی اوقات۔ اکثر بین کی صدا سن کر آنکھوں سے روتا خون جگر۔
وہ جوگن بھی سو سو طرح کی ادائیں اس کو دکھا ہر ایک آن میں زیادہ کرتی تھی مبتلا، اور جو کسی ڈھب کا دیکھتی حسن طلب تو ہو جاتی ووں ہیں اس پر غضب۔ جو وہ کسی پردے میں کچھ سوال کرتا تو کہتی: کیوں دیوانہ ہوا، ٹک ایک سنبھل زیادہ لگ نہ چل۔ غرض کبھی خوش کرتی اس کو اور کبھی اداس، کبھی دور بیٹھتی اور کبھی اس کے پاس۔ کبھی تیکھی نظروں سے اس کے دل کو گھائل کرتی، کبھی میٹھی نگاہوں سے اس کے جی کو مائل۔ کبھی ٹیڑھی باتیں کرکے اسے مارتی، کبھی سیدھی طرح سے پکارتی۔ کبھی ہنس کر جو دیکھتی تو ہنسا دیتی، کبھی غم کی صورت بنا کر رلا دیتی ؎
کبھی منہ دکھایا، چھپایا کبھی | کبھی مار ڈالا، جِلایا کبھی |
کبھی اس کے دل کو لٹوں میں الجھا کر لٹکا لیا، کبھی ناز سے جھنجھلا کر جھٹکا دیا۔ جو اسے دیکھتے دیکھ تو اس سے منہ کو موڑ لیا۔ کبھی دل کو اس کے تسلی دی اور کبھی جی کو توڑ دیا۔ ہر چند روکھی ہو ہو کر آنکھیں دکھاتی تھی، پر نظروں میں اس کو لبھاتی تھی۔ یہ بچارا پری زاد سادہ دل اور نادان، ادائیں وہ کافر اس کی بلاے بے درماں ؎
نہ منہ پر وہ عالم رہا اور نہ نور
کئی دن میں دل ہو گیا چور چور
جب اسی طرح ایک مدت گذر گئی، تبِ عشق کی تپ کی نہایت شدت ہوئی۔ آنکھوں سے جگر خون ہو کر بہنے لگا، دل آتشِ درونی سے پگھل چلا۔ آخر کار چار و ناچار ؎
یہ دی پردۂ دل سے جی نے صدا
کہ ہے صبر کی اپنے اب انتہا
احوال اپنا دل کے پردے میں کہا کہ اب صبر کی انتہا ہو چکی ؎
جو کہنا ہے اس سے، تو کہہ حال دل
کہ اب تنگ ہے اپنا احوال دل
سنبھلنا ہے تو اب بھی سنبھل جا، نہیں تو میں اس دم بدم کی کوفت سے نکل جاؤں گا ؎
ملا کر تو اب دستِ افسوس کو
پڑا رہ لیے ننگ و ناموس کو
یہ جی کا پیغام سن کر مجبوری سے کہنے لگا: جو کچھ ہونی ہو سو ہو، کہا چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ کہنے میں آن نہیں رہتی، پر خموشی میں جان نہیں رہتی۔ اس بات کو جی میں ٹھان کر ایک روز گھات جو پائی اور اکیلے اسے جو دیکھا تو بے تابی سے بے اختیار اس کے پاؤں پر گر پڑا۔ تب مسکرا کر وہ بولی: یہ خلافِ قیاس کیا حرکت ہے اور بے حواسی کی کس لیے ایسی شدت۔ کیا کسی نے تجھے ستایا ہے، یا تیرا جی کسی پر لبھایا ہے۔ یا ہمارے بیٹھنے سے اکتایا کہ مہمانیوں سے تنگ آیا؟
فقیروں سے اتنا نہ ہو بس خفا | چلے ہم، بھلا جا ترا ہو بھلا |
ایسا کون سا رنج تو ہم سے پاتا ہے کہ اب پاؤں پڑ پڑ کر یہاں سے اٹھاتا ہے۔ تب فیروز شاہ نے کہا: واہ واہ! یہ تو زور بات کہی تم نے، تمھاری اس الٹی سمجھ نے مارا مجھ کو۔ کچھ نہیں سوجھتا اب چارا مجھ کو۔ ستائے ہوئے کو ستاتے ہو، جلے ہوئے کو کیوں جلاتے ہو۔ میں تم پر جان اور مال سے فدا رہا، ہزار حیف کہ تم نے مجھے اب تلک نہ پہچانا۔ تم آپ سا مجھ کو بھی جانتے رہے۔ تمھاری اس دانست کو کوئی کیا کہے۔ تم سخت بے درد و بے وفا ہو اور سنگ دلی و بے رحمی میں یکتا۔ تب وہ بولی کہ بس اب اپنا احوال کہہ کہ میرے پاؤں پر کیوں گرا ہے؟ تب پری زاد نے کہا: جان بوجھ کر کیوں انجان ہوتی ہے۔ مجھ پر ترحم کی نظر کر اور غلامی میں اپنی قبول کر۔ تب وہ ہنس کر کہنے لگی: بشرطے کہ تو میری کہانی غور سے سنے اور میرا مطلب بر لاوے۔ فیروز شاہ نے کہا کہ جلد فرمائیے تا مقدور کوتاہی نہ کروں گا۔ تب وہ بیان کرنے لگی کہ شہرِ سراندیپ کا ایک بادشاہ ہے کہ اس کا نام مسعود شاہ ہے اور ایک اس کی بیٹی ہے مانند بدر کی اور نام بھی اس کا بدرِ منیر ہے۔ ایک باغ اس نے رشکِ باغِ بہشت بنایا تھا اور اسی میں رات دن رہنا پکڑا تھا۔ میں نجم النسا اس کے وزیر کی بیٹی ہوں۔ میرے اس کے کسی بات کا پردا نہ تھا اور جو اس کا بھید تھا سو مجھ پر کھلا تھا۔ ایک دم میں اس سے جدا نہ ہوتی تھی، بغیر اس کے سلائے نہ سوتی تھی۔ خوشی سے ہمیشہ سروکار تھا، ایک چرچا نیا لیل و نہار تھا۔ مصیبت خواب میں نہ دیکھی تھی، دکھ درد کی کہانی بھی نہ سنی تھی۔ لالہ کی مانند کبھی داغ نہ دیکھتا تھا، گل کی طرح ہمیشہ خوشی ہی میں دن کٹتا تھا۔ ہر آن خوشی کی ترقی تھی، کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
القصہ ایک دن کا عجیب و غریب ماجرا ہے کہ ایک شخص مثلِ ماہ یکا یک قریب شام کے اس باغ میں وارد ہوا۔ اس کے حسن کا کہاں تک بیاں کروں۔ آدمی نہ تھا بلکہ وہ ملَک تھا۔ شہزادی کا دل اس کو دیکھتے ہی مائل ہوا اور وہ بھی اس کے تیرِ عشق سے گھائل۔ قصہ مختصر دونوں آپس میں ملے، پہر رات تک صحبت رہی۔ بعد اس کے وہ گھبرا کر اٹھ کھڑاہوا کہ میں اب بیٹھ نہیں سکتا۔ ایک پری کی قید میں ہوں۔ مبادا وہ مکان پر آوے اور مجھے نہ پاوے، پھر خدا جانے کیا ستم برپا کرے۔ اگر جیتا رہا تو کل پھر اسی وقت آؤں گا۔ چنانچہ اس کے دوسرے دن پھر اسی وقت آیا بلکہ ہر روز یہی معمول ٹھہر گیا۔ شاید اس پری کو وہاں کے آنے کی خبر ہوئی، معلوم نہیں کہ اس کو کوہِ قاف میں پھینک دیا یا کسی کڈھب جاگہ قید کیا۔ اس کے احوال کی جب ایک مدت کچھ خبر نہ ملی،، تب میں جوگن ہو کر اس کو ڈھونڈھنے نکلی اور یہاں تک آن پہنچی۔ تم پری زاد سارے آپس میں ایک ہو۔ اگر اس کا کھوج کرو تو اغلب ہے کہ تمھاری مدد سے مل جاوے، پھر اس کے ملنے کے بعد تمھاری آرزو بھی بر آوے۔ اپنے دلِ بے قرار کو آرام ہو، تب اپنے ہاتھ سے تمھارا بھی کام ہو ؎
کہا تب پری زاد نے: ہاتھ لا کہا: پھر نہیں کچھ نہیں مہ جبیں! |
انگوٹھا دکھا، بولی: اترا نہ جا لگی ہنس کے کہنے: نہیں رے نہیں |
فیروز شاہ نے یہ سن کر اپنی قوم کو بلایا اور تقید کیا: ہر طرف جاؤ اور ڈھونڈھو۔ سعی و تلاش میں کمی نہ کرو کہ ایک آدمی پرستان میں کسی طرف قید میں پھنسا ہے۔ اگر کوئی اس کی مجھ تک خبر لاوے گا تو جواہر کے پر پاوے گا۔ یہ سن کر ہر چہار طرف وے دوڑے اور دن رات اس کی تلاش میں پھرنے لگے کہ ناگہاں ایک دیو کا اس کوئیں پر گذر ہوا جہاں وہ خستہ جگر قید تھا۔ از بس کہ وہ اپنی تنہائی سے اور یار کی جدائی سے آہیں بھر بھر روتا تھا، دیو کے بھی کان میں ایک صداے درد ناک پہنچی۔ تب ان نے کہا کہ کچھ یہیں اس کا سراغ ملتا ہے۔ بس یہیں ٹھہریے اور کسی طرح دریافت کیجیے۔ غرض وے چوکی کے دیو جو جا بہ جا بیٹھے تھے، ان سے پوچھنے لگا کہ یہ آوازِ حزیں کسی انسان کی اس کوئیں سے کیوں آتی ہے؟ کہا انھوں نے کہ ماہ رخ پری نے ایک جوان کو اس میں قید کیا ہے۔ وہ رو رو تڑپھ رہا ہے۔ جب اس بات کو تحقیق کر چکا اور اس بھید کو پایا، فیروز شاہ کے حضور جا کر آداب بجا لایا اور جو کچھ سنا تھا اس سے عرض کیا۔ بعد اس کے کہنے لگا کہ جو کچھ زبان مبارک سے ارشاد کیا تھا، وہ غلام کو دلوائیے اور جس چیز کا امیدوار کیا تھا اسے عنایت فرمائیے۔ شہزادے نے موافق معمول کے جواہر کے دو پر اس کے بازوؤں میں لگا دیے۔ پھر ماہ رخ پری کو عتاب سے یہ پیغام بھیجا کہ “تو کیوں زندگی سے ایسی تنگ آئی ہے اور جانِ شیریں سے اکتائی جو اپنی شرم و حیا کھوئی اور ایک آدم زاد پر عاشق ہوئی۔ سچ بتا کہ اسے کس قید خانے میں بٹھایا ہے اور کس کوئیں میں چھپایا ہے؟ اگر تیری بات کھول دوں تو تیرا حال کیا ہو اور نازل تجھ پر کیسی بلا ہو! اگر جان عزیز ہے تجھ کو تو اس بات سے باز آ، نہیں تو اپنے کیے کی سزا پائے گی۔ تیرے پرستان کو پھونک دوں گا اور گھر بار لوٹ لوں گا ؎
ترا رنگ غیرت سے اڑتا نہیں!
تجھے کیا پری زاد جڑتا نہیں!
تو ہمارا خوف و خطر بھول گئی جو بے دھڑک انسان پر نظر کرنے لگی۔ بھلا چاہتی ہے تو جلد کوئیں سے اسے نکال اور اس بات کو لیت و لعل میں مت ڈال اور آیندہ قسم کھا کہ پھر اس کا نام کبھی نہ لوں گی اور بارِ دیگر تلاش نہ کروں گی۔ الّا پھر تیری جان نہیں۔”
جب اس کو یہ فرمان بادشاہ زادے کا پہنچا، خوف سے تھرتھر کانپی اور یوں کہنے لگی کہ مجھ سے تقصیر ہوئی، معاف کیجیے۔ جو کوئی چاہے اس کو لے جائے، میں اس کی لاگو نہیں۔ اگر پھر ایسی حرکت کروں تو مجھے جلا دیجیے گا۔ لیکن اتنا احسان مجھ پر کرو کہ پرستان میں کہیں اس کا چرچا نہ ہو۔ اگر میرے باپ کو اس امر کی خبر ہوئی تو پھر میں نہ ادھر کی ہوں گی، نہ اُدھر کی۔ جب فیروز شاہ کو یہ جواب پہنچا، فی الفور جس طرف وہ کواں تھا، اس طرف کو روانہ ہوا۔ عرصۂ قریب میں وہاں جا پہنچا اور رفیقوں کو حکم کیا کہ یہ پتھر کسی طرح اس پر سے سرکے تو ایک پہاڑ چھاتی سے ٹلے۔ وے البُرز سے جو کتنے دیو کھڑے تھے، فی الفور انھوں نے اس سنگ گراں کو مثل کاہ اکھاڑ کر پھینک دیا ؎
وہ بادل سا سرکا جو اُس چاہ سے
تو ایک نور چمکا شبِ ماہ سے
اس کوئیں کے اندھیرے میں نظر آیا اس کا تن یوں، جیسے کالے کے منہ میں من نظر آتا ہے۔ اس من مارے جی ہارے کو جو فیروز شاہ نے دیکھا ووں ہیں دیووں کو کہا: ہاں نکالو اسے، پر اس طرح سے کہ اتنا بھی صدمہ اس کے بدن کو نہ پہنچے جیسے جھوکے سے نسیم کے گل کو۔ تم کو اس کی احتیاط پُر ضرور ہے۔ اس کو ایسا سمجھو جیسے اپنی پتلی کا نور ؎
قدح بھر کے دے ساقیِ با تمیز
کوئیں سے نکلتا ہے یوسف عزیز
گلابی چمکتی دلا دے مجھے
سماں ایک تازہ سنا دے مجھے
گئے دن خزاں کے پھر آئی بہار
مے لالہ گوں سے دکھا لالہ زار
نجات پانی بے نظیر کی کوئیں سے اور آنا نجم النسا کے پاس
القصہ ایک دیو کوئیں میں اترا اور شہ زادے کو یوں نکال لایا جیسے خضر آبِ حیات کو ظلمات سے۔ وہ روشن بیان اس اندھیرے کوئیں سے یوں نکلا جس طرح حرفوں سے معانی ؎
وہ جیتا تو نکلا، ولے اس طرح زِبس اوپر آنے کا تھا اس کو غم |
کہ بیمار ہو نزع میں جس طرح کہے تو کہ بھرتا تھا اوپر کا دم |
بدن سر تا پا خاک سے آلودہ تھا، ایسا نکلا جیسے گڑا ہوا پتلا ؎
نہ آنکھوں میں طاقت، نہ تن میں تواں
کہ جوں خشک ہو نرگسِ بوستاں
وہ جسم گلفام اس کا پیلا ہو گیا تھا اور گلے کا سبز جوڑا نیلا۔ وو سنبل سے اس کے بال، لاغری سے بدن کی ہو گئے تھے وبال ؎
فقط پوست باقی تھا یا اُستخواں بدن خشک و زرد اس طرح تھا وہ کُل |
نہ تھا خون کا رنگ بھی درمیاں خزاں دیدہ ہو جس طرح برگ گل |
وہ ناخن اس کے (جو مثلِ ہلال تھے) اتنے بڑھے تھے کہ بدر ہو گئے ؎
بدن سے رگوں کی تھی ایسی نمود | کہ الجھا ہو جوں ریسمانِ کبود |
یہ خستہ احوال دیکھ کر اس کا، فیروز شاہ آبدیدہ ہوا اور اسے اپنے تخت پر لٹا کر وہاں لے آیا جہاں جوگن رہتی تھی۔ پھر اسے تخت سمیت ایک جگہ چھپا ڈالا اور جوگن کے پاس آکر کہا: اے نجم النسا!
چل اب تو کہ میں اس کو لایا یہاں
یہ سنتے ہی گھبرا کے بولی: کہاں؟
اس کے نام کی از بس کہ وہ دیوانی تھی، بے اختیار ہو کر ایسی دوڑی کہ سر پاؤں کی سدھ نہ رہی اور یہی کہتی جاتی تھی کہ کہاں ہے وہ، مجھے بتاؤ۔ ذرا اس کی صورت جلد دکھاؤ۔ فیروز شاہ نے اس کی یہ گھبراہٹ دیکھ کر کہا کہ ٹک سنبھل کر چلو، ایسا نہ ہو کہ کہیں شادی میں غم ہو ؎
یہ کہہ اور لے ہاتھ میں اس کا ہاتھ
لے آیا وہ جوگن کو وھاں ساتھ ساتھ
پھر آپ اسی تخت پر بیٹھا اور کہنے لگا: ایک ذرہ غور سے دیکھ ؎
جسے ڈھونڈھتی تھی تو یہ ہے وہی
کہا: ہاے، ہاں وہ یہی ہے یہی
یہ کہہ کر اس تخت کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے پری زاد! تو اٹھ کر کنارے ہو کہ میں اس تخت کے آس پاس پھروں اور دل کھول کھول اس کی بلائیں لوں۔ تب فیروز شاہ نے ہنس کر کہا: ہزار حیف کہ تو اس بات پر میرے صدقے نہ ہو ؎
کہا اس نے تب اپنی جوتی دکھا:
ارے دیو، تو کیوں دیوانہ ہوا!
غرض وہ پری زاد نیچے اترا اور ایک طرف کھڑا ہوا۔ تب نجم النسا اس کے گرد پھرنے لگی اور بلائیں لے لے پاؤں پر گرنے۔ پھر بے اختیار گلے لگ کر رونے لگی اور تن من سے نثاراس پر ہونے۔ اس حالت میں آنکھ اٹھا کر بے نظیر نے جو دیکھا تو پہچانا کہ نجم النسا ہے۔ گھبرا کر کہنے لگا کہ تو یہاں کہاں اور یہ جوگ کیسا۔ تم نازنیں لوگ اور لباس ایسا؟ وہ بولی کہ تیرے غم نے مجھے ایسا دیوانہ کیا کہ اپنوں سے بے گانہ کیا۔ پھر بغلیں کھول یہ آپس میں ملے اور متصل دیر تلک رویا کیے۔ بعد اس کے اپنی سرگذشت بیان کرنے لگے اور آنکھوں کو آنسوؤں سے بھرنے۔ نِدان اپنے اور شہزادے کے ملنے کے وقت تلک جو کچھ کہ احوال گذرا تھا، کہا۔ یے باتیں سن کر بے نظیر پہلے تو غم ناک ہوا اور آخر کو خوش۔
ایک دن تو وہیں رہے اور دوسرے دن قریب شام کے فیروز شاہ اور بے نظیر معہ نجم النسا تخت پر سوار ہو کر مسعود شاہ کے ملک کی طرف روانہ ہوئے اور ایک آن میں بدرِ منیر کے باغ میں آ اترے۔ غرض نجم النسا ان کو چھوڑ اکیلی جہاں بادشاہ زادی سوگ میں بیٹھی تھی وہیں آئی اور یکایک بے تابانہ اس کے پاؤں پر گر پڑی۔ شہزادی ہکا بکا ہو کر جھجھکی اور ڈری۔ آخر غور سے جو دیکھا تو معلوم کیا کہ غم میں مجھ بروگن کے جوگن ہوئی تھی، یہ وہی ہے۔ از بس کہ اشتیاق اس وقت غالب تھا، کہنے لگی: ہاے نجم النسا! تو ہی ہے میری جان، میں تیرے گئی قربان۔ مجھے تیرے ملنے کی مطلق آس نہ تھا، بلکہ اپنے جینے کی یاس تھی۔ ہر چند بادشاہ زادی نے چاہا کہ ہووے کھڑی، پر مارے ناتوانی کے کھڑے ہوتے ہوتے گر پڑی ؎
کہا: بارِ غم سے اِفاقت نہیں
اری کیا کروں، مجھ میں طاقت نہیں
تب تو نجم النسا بلائیں لے کر اس کے تصدّق ہوئی اور شہزادی کا حال دیکھا تو آگے سے بھی بدتر پایا۔ نہ وہ چہرے پر آب و تاب رہی، نہ وہ تن پر تر و تازگی۔ پھر باغ پر جو نگاہ کی بے رونق نظر آیا، آب جوؤں کو سوکھا پایا۔ گل و غنچے ہورے ہیں پایمال سے، تمام نونہال نظر آتے ہیں نڈھال سے۔ چمن یک لخت اجڑے پڑے ہیں، درخت جہاں تلک ہیں جھاڑ سے کھڑے ہیں۔ اور محل کو دیکھا اجڑا سا گھر، ٹوٹے ہوئے اس کے دیوار و در۔ خواصیں نازنیں جو اس کی خدمت میں تھیں، سو میلی کچیلی ماری ماری پھرتی ہیں کہیں کی کہیں۔ کنگھی چوٹی کسی کی درست نہیں۔ ہر ایک کے منہ پر اداسی چھا رہی ہے، چالاکیوں کے بدلے سستی آگئی ہے۔ ڈھنگ بگڑ گیا ہے، رنگ اڑ گیا ہے۔ نہ آپس میں وے چہلیں ہیں نہ وے چہچہے۔ نہ گانا بجانا ناچنا نہ وے قہقہے۔ درد و غم سے ہر ایک بے قرار، ناتوانی سے جو ہے سو زار و نزار۔ بادشاہ زادی کی بے قراری سے ہر دم اپنی جانیں کھوتی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آہیں بھر بھر کے روتی ہیں ؎
جو خود ہے تو حیراں ہے بیمار سی نہ تاب و تواں اور نہ ہوش و حواس |
کہ جوں زرد شیشے کی ہو آرسی ضعیف و نحیف و پریشاں، اداس |
یہ احوال دیکھ کر نجم النسا شمع کی مانند رونے لگی کہ ایک بارگی محل میں اس کے آنے کی دھوم پڑ گئی۔ اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ ہو گئی، مبارک سلامت کی آواز بلند ہوئی۔ کوئی خوشی سے بہ رنگِ غنچہ کھلنے لگی، کوئی بے اختیاری سے دوڑ دوڑ کر اس سے ملنے۔ کوئی صدقے کے واسطے ٹکے لے آئی، کسی نے سر سے اس کے روٹی چھوائی۔ کوئی گھرسے کوئی باہر سے، کوئی ادھر سے کوئی اُدھر سے آئی اور حقیقت اس سے پوچھنے لگی ؎
ہوا سر پر اس کے زبس ازدحام کہا: بی بیو! کل کہوں گی میں حال |
لگی کرنے گھبرا کے سب کو سلام کہ اب راہ کی ماندگی ہے کمال |
جب وہ انبوہ سرکا تب اس نے شہزادی سے عرض کیا کہ ذرا ادھر تشریف لائیے اور مکانِ تنہا میں چل کر آرام فرمائیے، پر اشارے سے جتایا کہ مجھے تم سے کچھ کہنا ضرور ہے اور اس کا یہاں کہنا آئین سے دورہے ؎
گئی جب کہ خلوت میں بدرِ منیر | کہا: لے میں لائی ترا بے نظیر |
یہ سن کر ایک دم تو حیرت سے وہ ایسی غوط میں گئی کہ سدھ بدھ اپنی کچھ نہ رہی۔ پھر ٹک ایک چیتی تو تعجب سے پوچھنے لگی کہ یہ بات سچ ہے یا مجھ سے چھیڑ کرتی ہے ؎
کہا: مجھ کو سوگند اِس جان کی | غلط کہنے والی، میں قربان کی |
لیکن خوشی کی خبر کو یک بیک نہیں کہتے کہ مبادا سرور کی زیادتی سے حال کچھ نوعِ دیگر ہو۔ اس واسطے میں نے ڈھیل کی۔ پھر شاہ زادی نے پوچھا کہ کس طرح سے اسے لائی اور وہ کہاں تھا اور تجھ پر کیا کیا حادثہ گذرا؟ تب اس نے اپنی سرگذشت اور شہزادے کی بیان کی۔ یہ سن کر پوچھا کہ وہ ہے کہاں، جلد بتا؟ بولی کہ انھیں درختوں میں ہے اور مسکرا کر یہ شعر پڑھا ؎
ترا جا کے قیدی چھڑا لائی ہوں | پر ایک اور بندھوا اڑا لائی ہوں |
پر عجب نیک وقت میں تجھ سے جدا ہوئی تھی کہ تیرے دلبر کو تجھ سے لاکر ملا دیا۔ مگر میری بھی آزادگی تیرے کارن نہ رہی کہ ناحق ایک دامِ بلا میں پھنسی۔ اگر تیری مرضی ہو تو شہزادے کو میں لے آؤں اور پری زاد کو ہوا بتاؤں ؎
یہ سن شاہ زادی ہنسی کھلکھلا اری، ایک ہی تو بڑی قہر ہے |
کہا: کیوں اڑاتی ہے نجم النسا! کہیں ہے تو امرت کہیں زہر ہے |
بس چوچلے اب زیادہ نہ کر اور بک بک سے میرا مغز نہ پھرا۔ کہیں جلدی جا کر ان دونوں کو لے آ۔ کہنے لگی: بہت بہتر، لیکن تم بغیر شاہ زادے بے نظیر کے کہے اس پری زاد کے روبرو ہوگی۔ تب شہزادی نے کہا: وہ ایسا نادان نہیں۔ میرا تیرا ربط خوب جانتا ہے۔ کس طرح سے میرے تئیں اجازت نہ دے گا، لیکن اگر تیرے دل میں وسواس ہے تو اس سے یہ پوچھ لے کہ شہزادی فیروز شاہ کے روبرو ہو یا نہ ہو۔ یے باتیں سن کر نجم النسا جلدی گئی اور ان کو چھپے چھپے لا کر خلوت کے قدیمی مکان میں بٹھایا۔ پھر شہزادے بے نظیر سے عرض کیا کہ اگر آپ کی مرضی ہو تو شہزادی فیروز شاہ کے سامھنے ہووے، نہیں تو نہیں۔ اس نے کہا کہ تجھ کو کچھ خیر ہے نجم النسا! کہیں بھائی بہن میں بھی پردہ ہوا ہے اور سواے اس کے مجھ میں اور اس میں بھی کسی طرح کا حجاب نہیں۔ دو ایک ہیں، مغایرت کسی طرح کی نہیں ؎
مری جان و مال اس پہ قربان ہے ترا وہ تو ہم دم ہے دن رات کا مرے منہ سے ساقی ملا دے شراب |
کہ اس کے سبب سے مری جان ہے مجھے اس سے پردہ ہے کس بات کا کہ ملتے ہیں پھر وہ مہ و آفتاب |
ملنا بے نظیر کا بدرِ منیر کے ساتھ اور فیروز شاہ کے روبرو ہونا بدرِ منیر کا
وہ پردہ نشین یے باتیں سن کر وہاں سے بے تابانہ چلی آئی اور حیا سے نیچی آنکھیں کرکے بیٹھ گئی۔ صورت اس کی دیکھ کر ایک حالتِ بے خودی شہزادے کو بھی ہو گئی۔ پھر کچھ ایک دیر کے بعد آپس میں دونوں چار ہوئے تب آنکھوں سے ہر ایک کی لعل و گوہر نثار کیے۔ ایک کی چشم پر خون تھی اور ایک کی پر نم۔ اِس کو اُس کا غم تھا اور اُس کو اِس کا غم۔ نہ وہ رنگ و روپ بدرِ منیر کا تھا نہ وہ احوال بے نظیر کا۔ وہ گل چہرہ زرد ہو گئی تھی اور وہ نو نہال زار۔ ملے آپس میں اس طرح جیسے بیمار سے بیمار۔ ندان منہ پر رومال رکھ کر شہزادہ بے اختیار زار زار رونے لگا اور اپنا منہ آبِ اشک سے دھونے ؎
وہ مجروح دل تھی جو بدرِ منیر
لگی کھینچنے دل سے آہوں کے تیر
ندان آنکھوں میں آنسو بھر لائی اور رو رو کر جیب و آستین بھگائی۔ غرض اس وقت کی عجب صحبت تھی کہ ہر ایک پر بے اختیاری کی حالت تھی ؎
پڑیں غم کی باتیں جو آ درمیاں | یہ روئے کہ لگ لگ گئیں ہچکیاں |
غرض اسی طرح دیر تلک رونا کیے اور جدائی کے داغوں کو دھویا کیے ؎
کلیجے پہ تھے داغ بس بے شمار | تو آنکھوں سے اُن کی دکھائی بہار |
اتنے میں نجم النسا گھبرا کر بولی: اے بادشاہ زادی! کیا قہر کرتی ہے، بس زیادہ اپنی اس کو الفت نہ جتا اور چاہت نہ دکھا۔ کیا تیرے واسطے کم رویا ہے کہ ان حرکتوں سے اس کے غم کو بڑھاتی ہے اور صبر و شکیبائی کو گھٹاتی ہے۔ اس کے بدن میں ٹک ایک تاب طاقت آنے دے، بس اب اس ذکر کو جانے دے ؎
یہ مردا سا لائی تھی میں اس لیے وہاں میں نے اِس کی نہیں کی دوا لے آئی ہے اس کو محبت کی دھن |
کہ دیکھے سے تیرے شتابی جیے کہ ہے خانۂ یار دار الشفا جیا ہے یہ اب تیرے ملنے کی سن |
جلد اس کو اپنے وصل کی دارو پلا اور نیم جان مردے کو پھر جلا۔ اب کچھ آپس میں خوشی کی باتیں کرو، گذشتہ کو بھول جاؤ۔ خدا تمھیں پھر نہ رولاوے اور جدائی کبھی خواب میں بھی نہ دکھاوے۔ یہ بات خوش نما نہیں کہ دو بچھڑے ہوئے جو آپس میں ملیں تو منہ سُجائے الگ تھلگ بیٹھے رہیں۔ نجم النسا کی یہ گفتگو سن کے سب غنچہ دہن مانند گل کے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ پھر تو باہم شروع ہو گئے رویے اختلاط کے اور ہر ایک کے دل سے اپجنے لگے طریقے عیش و نشاط کے کہ آدھی رات بجی۔ شہزادی نے خاصہ یاد فرمایا۔ خوب صورت خوب صورت بکاولنیاں جگمگاتی پوشاکیں پہنے ہوئے جواہر نگار خوانوں میں اقسام کا خاصہ لگا کر اور کسنوں سے کس اُنھ پر تورے پوش بادلے اور زربفت کے ڈال کر بجلی بسنت بھویَنوں کے سروں پر دھروا، سونے روپے کی دستیاں چمک چاندنی مشعل چنوں کے ہاتھ میں روشن کروا لائیں اور نعمت خانے میں دستر خوان زربفت کا بچھا کھانا اس سلیقے سے چنا کہ دستر خوان پر گلزار بنا دیا اور عالم بہار کا دکھا دیا۔ ان کی لذت کا بیان کیوں کر ہو سکے کہ مٹھائی سے ہونٹھ بند ہوتے ہیں اور نمکینی سے ان کی زبان چٹکارے لیتی ہے۔ پھر بادشاہ زادی سے عرض کی کہ خاصہ چنا گیا، تب شہزادی شہزادۂ بے نظیر و فیروز شاہ اور نجم النسا سمیت نعمت خانے میں آکر دستر خوان پر بیٹھی۔ چہلوں سے اور خوشیوں سے خاصہ نوش فرمایا۔ بعد اس کے جڑاؤ پان دان، عطر دان اور چنگیر کہ ان میں اقسام اقسام کے عطر اور جڑاؤ پکھروٹوں کے بیڑے اور کناریوں کے گتھواں ہار تھے، حضور میں لا کر رکھے۔ ہر ایک نے کھائے لگائے پہنے۔ پھر شہزادی اور شہزادۂ بے نظیر، نجم النسا اور فیروز شاہ اپنی اپنی خواب گاہ میں گئے ؎
اٹھائے تھے جو جو کہ رنج و ملال | ہوئے اس مزے میں وو خواب و خیال |
غرض جب شاہ زادہ اور شاہ زادی پلنگ پر لیٹے تب شہزادہ اپنی سرگذشت یوں کہنے لگا کہ ایک اندھیرے کوئیں میں قید تھا اور اس قدر رویا کرتا کہ اکثر اوقات میرا جی ڈوب جاتا۔ کبھی گھبراتا تو مثل جرس فریاد کرتا، پر کوئی میری فریاد کو نہ پہنچتا۔ وہ اندھیرا کواں ایک مدت میرا گھر رہا اور ہمیشہ میری چھاتی پر ایک غم کا پتھر رہا۔ مجھ کو وہاں سے نکلنے کی یاس تھی بلکہ اپنے جینے اور تجھ سے ملنے کی بھی آس نہ تھی۔ عجب دکھوں سے تیری دوری میں زیست کرتا تھا، زندگانی میں بھی ہر روز مرتا تھا۔ خدا نے ہی تجھ سے جیتے جی ملایا گویا قبر کے مردے کو پھر جلایا۔ تب شہزادی نے رو کر یہ جواب دیا کہ میرا بھی احوال اس سے بدتر تھا۔ چنانچہ ایک رات جو روتے روتے تیرے دھیان میں سو گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جنگل و بر بے خار و درخت سنسان ہے اور ایک کواں وہاں نہایت تاریک ہے۔ اس میں سے یہ آواز آتی ہے کہ اے بدرِ منیر! ادھر آ تو کہ یہیں قید ہے بے نظیر۔ میں نے ہر چند چاہا کہ تجھ سے بات کروں لیکن بے قراری کے مارے میری آنکھیں کھل گئیں۔ اس وقت میرے دل پر عجب قلق گذرا اور دل بے قرار نہایت تڑپھا۔ قریب تھا کہ جگر پھٹ جائے اور دم تن سے باہر نکل آئے۔ یقین جان کہ جو دکھ تجھے پہنچتا تھا، اس کا صدمہ میرے بھی دل پر گذرتا تھا۔ مگر عمر میں کچھ باقی تھی کہ جیتی رہی ؎
اسی دن سے یہ حال پہنچا مرا | کہ مرتی رہی نام لے لے ترا |
گو بظاہر تیرے حال سے کوئی خبر نہ دیتا تھا لیکن میں دل کی لاگ سے آٹھ پہر دریافت کرتی تھی اور ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں بھرتی تھی۔ جو جو تو صبح و شام سہتا تھا، ان کا صدمہ میرے دل پر رہتا تھا۔ کسی سے اپنا دردِ نہاں نہ کہتی تھی، شمع کی مانند جلتی ہی رہتی تھی ؎
عجب طرح سے زیست کرتی تھی میں اسی غم میں رہتی تھی لیل و نہار |
پر اس زندگانی سے مرتی تھی میں کہ کیوں کر ملاوے گا پروردگار |
قصہ کوتاہ نجم النسا میری حالت دیکھ کر جوگن کا بھیس کرکے نکلی اور تجھ سے کس تگ دو سے ملی ؎
پھر آگے تو معلوم ہے تم کو سب | کہ ہم تم ملے پھر اُسی کے سبب |
یہ واردات آپس میں اپنی اپنی کہہ کر بے اختیار روئے، آرام سے وے ایک دم بھی نہ سوئے۔ الحق کہ بچھڑے ہوؤں کی ملاقات کی رات باتوں ہیں میں جاتی ہے اور صبح تلک دونوں کو رولاتی ہے ؎
جو ملتے ہیں بچھڑے ہوئے ایک جا پری زاد و نجم النسا وھاں جدے کٹی رات حرف و حکایات میں شبِ وصل کی جو سحر ہو گئی |
انھیں نیند باتوں میں آتی ہے کیا! الگ اپنی باتوں میں سرگرم تھے سحر ہو گئی بات کی بات میں تو سوتوں کو گویا خبر ہو گئی |
وہیں صبح کی سفید نقاب منہ پر ڈال کر مہتاب چھپ گیا اور آفتاب نے شرابِ شفق کا جام بھر صبوحی کشوں کو خوابِ غفلت سے جگا دیا ؎
ہوا چشم وا جَب وہ مژگاں دراز | سفید و سیہ میں ہوا امتیاز |
خواب گاہ سے وہ مہر و ماہ اور مشتری و زہرہ نکلے، ہر ایک نے حمام کر پوشاک و لباس پہنا اور بناؤ سنگار کیا۔ نئے سر سے عالم بہار کا دکھایا، اس غم کدے کو پھر کر گلزارِ عیش بنایا۔ وہ نجم النسا کہ جوگن بنی تھی، نہا دھو کر نکلی اس آن سے جیسے الماس نکلتا ہے کان سے ؎
نہائے سے نکلا عجب اس کا روپ | نکل آئے بدلی سے جس طرح دھوپ |
لیکن عاشق کے دل جلانے کو لاہی کا ایک لال جوڑا پہنا، سنہری تمامی کی سنجاف کا اس میں ایسا جھمکڑا تھا جیسے لال بادل میں بجلی کا۔ اس بھبھوکا سی پوشاک میں مکھڑے کا رنگ ایسا جھلکتا تھا جیسے شعلہ آگ کا بھڑکتا ہے ؎
نکیلی وہ اٹھی ہوئی چھاتیاں نلاہٹ وہ بھٹنی کی یوں تھی نمود گلے کی صفائی و کرتی کا چاک |
پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں کہ جوں سرخ چہرے پہ خال کبود تڑاقے کی انگیا کسی ٹھیک ٹھاک |
اور اس میں وہ نارنگی سی کچیں لال لال، ایسی نمایاں جیسے قمقموں میں گلال یا آفتاب و مہتاب نقابِ سرخ میں جلوے لے رہے ہیں اور دلوں کو آتش شوق سے داغ دے رہے ہیں ؎
بَنَتگِرد کیوں کر نہ ان کے پھرے وہ کنگھی کھنچی اور وہ ابرو کھنچی کھجوری وہ چوٹی، زری کا مباف عروسانہ اس نے کیا جو لباس |
کہ وھاں گوکھرو لہر کھا کر مڑے ہر ایک اینٹھ میں اپنی ہر سو کھنچی کہ جوں دود کے بعد شعلہ ہو صاف تو آنے لگی خون کی اس سے باس |
جب اس طرح سے اپنے تئیں وہ رشکِ حور سج سجا بہ صد ناز و ادا فیروز شاہ کے سامھنے چمکتی ہوئی آئی، وہ پری زاد بے چارہ دیوانہ تو ہو ہی رہا تھا، جان سے بھی جانے لگا۔ لوگوں کی حیا سے ظاہر میں تو صدقے نہ ہوا پر دل ہی دل میں اس کی بلائیں لیا کیا۔ غرض خوشی سے ان کی اوقات گذرنے لگی۔ دن تو عید تھا ان کو اور رات شب برات تھی۔ نت بنے ٹھنے ہی رہتے اور آپس میں اپنا اپنا راز دل کہتے ؎
خوشی سے ہوئے بسکہ سرسبز دل
لگے سبزیاں پینے آپس میں مل
ضیافتیں باہم چرچوں سے اور خوش فعلیوں سے کھانے لگے، وہ غم کھانے ان کے آخر ٹھکانے لگے۔ چھپے چھپے عیش و عشرت کرتے تھے لیکن غیروں کے چرچوں سے ڈرتے۔ اگرچہ ہر ایک کا وصل سے دل شاد تھا پر ہجر کا تہلکہ بھی سب کو یاد تھا۔ القصہ ایک دن کا مذکور ہے کہ بے نظیر نے فیروز شاہ سے کہا کہ کہاں تلک چھپے چھپے اوقات بسر کیجیے، اس سے بہتر یہ ہے کہ کسی ملک کی طرف جا نگہداشت کرکے فوجیں جنگی بنائیے اور اسباب لڑائی کا درست کر پھر اسی سمت آئیے اور مسعود شاہ سے درخواست بیاہ کی کیجیے۔ اس واسطے کہ اس طور کے عیش و عشرت سے جیسا کہ چاہیے ویسا مزا نہیں اٹھتا۔ کیوں کہ کھٹکا اس بات کے کھل جانے کا دل پر رہتا ہے۔ غضب ہے کہ ان صعوبتوں سے بارِ دیگر ملاقات ہوئی لیکن افشاے راز کی دہشت ویسی ہی ہے۔ پھر اس طرح کے وصل سے کب جی بھرا اور کیا مزا اٹھا۔ جب یہ بات ٹھہری تب بدرِ منیر اور نجم النسا کو کہا کہ تم اپنے اپنے ما باپ کی خدمت میں جا کر حاضر ہو اور ہم کسی طرف اس ارادے پر جاتے ہیں۔ اگر نصیبوں نے یاری کی تو مقدمہ یکسو کرکے ملاقاتیں بخوبی کریں گے اور تمام عمر عیش و عشرت میں بے دھڑکے رہیں گے۔ یہ سن کر بدرِ منیر نے بادشاہ سے عرض کر بھیجی کہ لونڈی کا جی چاہتا ہے آپ کے قدم دیکھے۔ غرض اس بہانے سے اپنے اپنے باپ کے گھر گئیں۔ بے نظیر اور فیروز شاہ نے بھی کسی طرف جا کر بہت سی فوج رکھی اور سلطنت کا ٹھاٹھ لڑائی کا اسباب بنا کر نہایت چالاکی و چستی سے سراندیپ کی طرف کوچ کیا۔ چند روز کے عرصے میں اس ملک کی سرحد کے پاس آن پہنچے اور وہیں خیمہ کیا۔ بعد اس کے مسعود شاہ کو یہ نامہ لکھا:
“اے شاہِ شاہاں و افتخارِ جم! اے فریدوں مثال و سکندر حشم! مراد دینے والے جہاں کے اور جہاں کی مراد! اے والا مرتبت عالی نژاد! سرتاجِ شجاعانِ زمان! رستم دل حاتم دوران!
میں ایک مہمان غریب تیرے شہر کے قریب وارد ہوں اور میرے نصیب مجھ کو یہاں تلک لائے ہیں۔ نوازش شاہانہ سے بعید نہیں جو میرے حال پر کرم کیجیے اور اپنی غلامی میں لیجیے کہ یہ رسم سب بادشاہوں میں جاری ہے اور آفرینش و عادتِ جہاں یوں ہیں ہے۔ میرا حسب و نسب بھی جہاں پر روشن ہے کہ میں بادشاہ زادہ ہوں اور نام میرا بے نظیر ہے۔ یہ کچھ لاو لشکر میرے ساتھ ہے اور بڑے بڑے ملک میرے تحتِ فرمان میں ہیں۔ اگر مرضیِ شریف آپ کی برعکس اس کے ہے تو مجھے اپنا حریف سمجھیے گا اور وہیں پہنچا جانیے گا۔ زیادہ حدِّ ادب۔”
جب نامہ مسعود شاہ کو ایلچی نے پہنچایا اور وہ اس کے مضمون سے مطلع ہوا تب سوچا کہ اگر لڑائی ہوتی تو بڑی ہوگی اور فتح و شکست اختیار خدا کے ہے، خدا جانے کہ کس کی ہو۔ زمانے کی راہ و رسم یہی ہے کہ ملوک و سلاطین میں باہم نسبتیں ہوتی ہیں، یہ بات معیوب نہیں۔
بعد اس کے یہ جواب لکھا کہ :
“پس از حمد و ثناے الٰہی و نعت رسالت پناہی کے واضح ہو کہ نامہ تمھارا پہنچا اور مضمونِ مندرجہ اس کا معلوم ہوا۔ واقعی کہ شرع میں مضائقہ نہیں اور عرف میں بھی عیب نہیں۔ اس سبب سے مجبوری ہے و الّا نہ کچھ تمھارے جاہ و حشم سے اور شان و شوکت سے اور کثرتِ لشکر سے خطرا نہیں۔ اگر ارادہ اپنا ہو تو لڑنا کتنی بات ہے۔ ابھی تم لڑکے ہو، لڑائیوں کے طور کو جانتے نہیں، اتنا گھمنڈ اور غرور کرنا بہ سبب ناکردہ کاری کے ہے ؎
کسی پاس دولت یہ رہتی نہیں
سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیںاز بس کہ مجھ کو پاسِ شرع ہے، اس واسطے اس امر کو قبول کیا ؎
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نخواہد رسیدکوئی اچھی تاریخ ٹھہرائیے اور بے اندیشہ یہاں آئیے۔ تمھارا گھر ہے زیادہ والسلام۔”
پھر اس کو لفافہ کرکے ایلچی کو دیا اور خلعت عنایت کر رخصت کیا۔ یہ خوشی کی خبر ہر چہار طرف پہنچی اور جا بجا مشہور ہوئی۔
القصہ شہزادے نے جو اس جواب با صواب کو پڑھا، نہایت شاداں و خنداں ہوا۔ گویا اس کے یہاں عید ہوئی اور ووں ہیں جلدی سے کوچ کرکے متصل شہر کے پہنچ کر لشکر کے تئیں چھاؤنی کا حکم فرمایا اور آپ جو عشرت کدہ کہ مسعود شاہ نے معین کیا تھا اس میں جا اترا۔ بعد اس کے بادشاہ کے بہ موجب حکم اکثر امیر زادیاں اور وزیر زادیاں شہ زادے کے گھر مہمان آئیں۔ محل میں مجلس بیاہ کی رچی اور دھوم شادی کی مچی۔ باہر بادشاہ زادے نے بھی اُسی دن سے جشن شروع کیا۔ غم سے دل اس کا تنگ ہو رہا تھا، کھل گیا اور اُسی دن سے راگ رنگ شروع ہوا۔ دونوں طرف شادی کی تیاریاں ہونے لگیں اور چہلیں مچ گئیں ؎
بُلا شُگنیوں کو، بتا سال و سِن کدھر ہے تو اے ساقیِ گل بدن! بُلا مطرِبانِ خوش آواز کو وہ اسباب شادی کا تیار ہو |
مقرر کیا نیک ساعت سے دن دھری آج اُس شمع رو کی لگن کہ آویں لیے اپنے سب ساز کو مکرر نہ پھر جس کی تکرار ہو |
داستان بے نظیر اور بدرِ منیر کے بیاہ کی
جب شادی کا روزِ معین آ پہنچا، فیروز شاہ نے کارباریوں کو حکم کیا کہ ہر ایک مکان میں فرشِ پر تکلف بچھاویں اور قرینوں سے مسندیں زربفت اور بادلے کی لگاویں۔ عطر دان پان دان چوگھڑے چنگیریں بہتایت سے تیار رکھیں اور روشنی بھی جا بجا بڑے تجمل سے کریں اور اربابِ نشاط جہاں تلک کہ شہر میں ہیں، زرق برق کے لباس سے مجلس میں آکر حاضر رہیں۔ جتنے امیر و امرا اور امتیازی ہیں، موافق اپنے حوصلے اور مرتبے کے پوشاکیں بھاری بھاری پہن کر بزمِ طرب میں آویں اور جتنے رسالہ دار جمع دار دفعہ دار وغیرہ بلکہ سب سوار اور پیادے رنگیں پوش ہو کر سواری کے وقت جِلو میں حاضر ہوویں۔
غرض شام کے وقت موافق حکم کے بزم آراستہ ہوئی، تب شاہ زادۂ بے نظیر اور فیروز شاہ بھی پوشاکیں بدل جواہر سج سجا مسندوں پر مجلس میں آ بیٹھے اور ناچ ہونے لگا۔ آدھی رات تلک یہی سماں بندھا رہا۔ پھر نہا دھو خلعتِ شاہانہ پہنا اور جواہرات نہایت بیش قیمت بہتایت سے زیبِ بدن کیے۔ ہار بدّھی پھولوں کی گلے میں پہن، سہرا موتیوں کے سہرے سمیت سر پر باندھا، راؤ چاؤ سے اٹھ کر محل کے باہر آیا اور ایک گھوڑے پری پیکر پر (کہ جس کا زین جواہر نگار تھا) بہ تجملِ تمام سوار ہوا اور زنانی سواریاں بھی ہونے لگیں۔ پھر تو سواریوں کا غل پڑ گیا۔ سئیس گھوڑے دوڑ دوڑ لانے لگے اور مہاوت ہاتھیوں کو بٹھانے۔ کسی نے کہا: میری رتھ جلدی لانا، کسی نے کہا: میرا میانا منگانا۔ کوئی پالکی پر سوار ہوا اور پیادوں کی قطار اپنے آگے رکھ لی۔ کسی کو جو اس کثرت میں گاڑی چوپالہ میسر نہ ہوا، وہ مانگے تانگے کی سواری ہی پر بیٹھ لیا ۔ بھیڑ بھاڑ کے سبب مونڈھے چھلنے لگے اور ڈھالیں قبضے کھڑکنے۔ شور و غل سے ہاتھی بھاگنے لگے اور گھوڑے بھڑکنے۔ مرسلوں کے ملائم ملائم ٹکورے اور دھونسوں کی بلند صدائیں اپنا اپنا سماں دکھاتی تھیں۔ وہ سہانی سہانی شہنائیوں کی دھنیں لولیِ فلک کو ہوش سے لے جاتی تھیں۔ تمامی سے منڈھے ہوئے ہزاروں تختِ رواں اور جھمجھماتی پوشاکوں سے خوب صورت خوب صورت کنچنیاں ؎
وہ طبلوں کا بجنا وہ ان کی صدا | وہ گانا کہ اچھا بنا لاڈلا |
نوشہ کے گھوڑے کا چلنا ٹھہر ٹھہر اور سنبھل سنبھل، دونوں طرف ہوتے ہوئے ایک انداز سے ہما کے مورچھل۔ زمرد یاقوت کی فانوسیں ادھر ادھر، نور کے جلوے جھمک رہے تھے جدھر تدھر۔ روشنی کے ٹھاٹھ دو رستہ ایسے تھے، جیسے چمن سونے کے پھولوں کے۔ ترپولیے روشنی کے جا بجا، ہجوم ان میں بازاریوں کا خوش نما ؎
ہوا دل جو روشن چراغاں سے | پڑھے شعر نوریؔ کے دیوان سے |
اور سودے والے ہر ہر قسم کے سودے اپنے اپنی اپنی صدا سے بیچ رہے تھے۔ تماشائیوں کی کثرت ایسی تھی جیسی چراغوں پر پتنگوں کی۔ روشن چوکی والے گھوڑے کے آگے آگے اپنے طریقے سے بجاتے جاتے تھے اور اقسام اقسام کے باجے اپنے اپنے موقع اور اپنے اپنے چلن پر بج رہے تھے۔ براتیوں کے گرد و پیش پرے کے پرے آہستہ آہستہ جاتے تھے پرے پرے۔ روپے سونے کی جڑاؤ چھڑیاں لیے ہوئے نقیب اور چوب دار، اہتمام کرتے جاتے تھے پکار پکار۔ ان کے آگے خاص بردار ، مغرق غلافوں کی خاصیوں سمیت جاتے تھے قطار قطار۔ آرائش کے تختوں کے پھول رنگ برنگ، دکھلاتے تھے عجائب ہی رنگ ڈھنگ۔ آتش بازی کے دیو ایک طرف چھٹ رہے تھے اور ہاتھی آپس میں جُت رہے تھے ؎
وہ ابرک کی ٹٹی، وہ مینے کے جھاڑ
کہے تو کہ تنکے کے اوجھل پہاڑ
تخت کوسوں تلک دو رستہ برابر برابر، کسی پر کنول اور کسی پر شجر۔ شمع و چراغ سے ان میں یہ کیفیت ہوئی کہ نور باغ کے لالہ کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔ ان کی قطار کی بہار ایسی تھی، جیسے طلسمات کے باغ کی ؎
اناروں کا دغنا، بھچنپوں کا شور
ستاروں کا چھٹنا، پٹاخوں کا زور
مہتاب کی جوت چاندنی سے بہتر، روشنی کے جھاڑ نور کے پہاڑوں کے برابر ؎
دھواں چھپ گیا نور میں نور ہو
سیاہی اڑی شب کی کافور ہو
زری پوش سردار ادھر ادھر بجلی کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے اور اہلِ طرب اپنے جھمکڑے جدے ہی دکھلاتے تھے ؎
کہے تو کہ نزدیک اور دور سے
زمین و زماں بھر گیا نور سے
غرض جب برات دلہن کے گھر پہنچی تب پیشوا کے واسطے شہزادے امیر وزیر عمدہ بھاری بھاری پوشاک و لباس سے آئے اور دولھہ کو بہ اعزاز و اکرام جہاں مجلس شادی آراستہ تھی لا کر بٹھایا۔ از بس کہ بہ کثرت لخلخے جا بجا روشن تھے، وہاں کی ہوا نسیم بہشت کی رشک تھی۔ ہر ایک جاگہ بادلے کے خیمے بلند بلند کھڑے تھے۔ جگمگاتے فرش تمامی کے ان میں بچھے تھے۔ شمع دانوں میں مومِ کافوری کی بتیاں ایسی روشن تھیں کہ ان کی سفیدی سے سفیدۂ صبح گرد تھا اور روشنی کے آگے مہتاب خجالت سے زرد۔ وہ چمک تھی بلوریں جھاڑوں کے نور کی کہ ان کے آگے بے نور تھی روشنی طور کی۔ بسکہ انبوہ تھا تماشائیوں کا، باہم مل گئے تھے بیگانہ و آشنا اور دولھہ کی مسند کے دائیں بائیں مصاحب زری پوش برابر بیٹھے ایسے لگتے تھے جیسے چاند کے پاس تارے۔
القصہ مجلس کے تجمل کا بیان ہو نہیں سکتا کیوں کہ زبان قاصر ہے۔ غرض اربابِ نشاط میں سے ساز ملا کر ایک طائفہ مجرے کو اٹھا، جوں ہیں سارنگی کا لہرا چھڑنے لگا ووں ہیں اس میں سے ایک چھوکری شوخی سے نکلی اور اپنا ہنر جتانے لگی ؎
اٹھانا وہ ہاتھوں کا دے دے کے تال
وہ بونٹا سا قد اور وہ گھنگرو کی چال
کبھی تو پرملو ناچ کر ناز دکھاتی اور کبھی بجلی کی مانند لوٹ کر ہوا ہو جاتی۔ اِدھر یہ تو گت بھاؤ کا سبھاؤ دکھا رہی تھی، اُدھر نایکہ اوٹ میں اپنے تئیں بنا رہی تھی۔ کبھی تو دو گھونٹ حقے کی لیتی اور کبھی پان چبا کر ہاتھ کی آرسی دیکھتی۔ کبھو آستین کا چاک الٹ دیتی، کبھی مسکرا کر انگیا دیکھ لیتی۔ کبھو کنگھی سنوارتی، گاہے ابرو بناتی۔ کبھو در دامن کی چمک دکھا جاتی ؎
ادھر اور اُدھر رکھ کے کاندھے پہ ہاتھ کبھو ناچنا اور گانا کبھی |
چلے ناچتے آنا سنگت کے ساتھ رِجھانا کبھی اور لٹانا کبھی |
غرض ایک آن میں سیکڑوں ادائیں دکھاتی تھی اور اہل مجلس کے دلوں کو لبھاتی تھی ؎
وہ شادی کی مجلس، وہ گانے کا رنگ وہ پھولوں کے گہنے، کناری کے ہار وہ پیڑوں کے پتے پڑے ہر طرف |
وہ جی کی خوشی اور وہ دل کی ترنگ وہ بیٹھی ہوئی رنڈیوں کی قطار غم دل جسے دیکھ ہو بر طرف |
الغرض باہر کی مجلس کا تو یہ رنگ تھا اور محل میں ڈومنیوں کا ایسا ڈھنگ تھا۔ کبھی تو شادی مبارک کے کھڑے کھڑے ڈھول بجاتی تھیں، کبھی گہک گہک بدھاوے گاتی تھیں۔ اتنے میں رولا زنانی سواریوں کے اترنے کا ہوا اور ایک غٹ کا غٹ بیگمات کا پیشوا لینے گیا ؎
اترنے کی وھاں سمدھنوں کے پھبن گلوں میں پنہانے وہ ہنس ہنس کے ہار دکھاتیں وہ ہنس ہنس کے اپنا بناو لگانا وہ گیندوں کا لے لے کے ہاتھ |
کھلے پھول جیسے چمن در چمن سٹا سٹ وہ پھولوں کی چھڑیوں کی مار وہ آپس کی رسمیں، وہ آپس کے چاو کھلے جانا گر گر کے چھڑیوں کے ساتھ |
دم بدم ہنسی کے قہقہے، ہر آن نئے نئے چوچلے، تس پر ڈومنیوں کی تالیاں اور سہانی سہانی گالیاں ؎
غرض کیا کہوں تاب مجھ میں نہیں چھکا ہوں نشے میں بہت ساقیا کسی پر نہ ایسا ہو جو بار ہوں |
نہ دیکھے گا عالم یہ کوئی کہیں مجھے بدلے اب مے کے، شربت پلا کہ پھر میں گلے کا ترے ہار ہوں |
داستان شربت اور ہار پان بٹنے کی مجلس شادی میں اور محل میں بے نظیر کے جانے کی
پچھلی پہر رات تلک اسی طرح مجلس نشاط گرم رہی، بعد اس کے قاضی اور وکیل آن کر حاضر ہوئے۔ موافق دستورِ شاہانہ مہر باندھ کر نکاح پڑھا۔ پھر خلعت و انعام لائق رتبے کے ہر ایک نے طرفین سے پایا۔ مبارک سلامت کی دھوم ہوئی۔ پھر شربت پلانے لگے اور ہار پان بانٹنے۔ جب اس سے فراغت ہوئی، دولھہ کے محل میں بلانے کی صلاح ٹھہری ؎
چلا یوں وہ دولھا دلہن کی طرف
مڑے جیسے بلبل چمن کی طرف
غرض ڈیوڑھی سے بزم شادی تلک پہنچتے پہنچتے شگون کے واسطے ٹوٹکے لاکھوں ہوئے۔ جب دولھہ اس مکان میں آیا جہاں دلہن تھی، کیا دیکھتا ہے کہ فرش نہایت پر تکلف بچھا ہے اور صحبت راگ ناچ کی مہیا ہے۔ امیر زادیاں وزیر زادیاں عہدہ زادیاں بھاری بھاری پوشاکیں پہنے ہوئے بناو سنگار کیے صف باندھے برابر بیٹھی ہیں۔ گویا ایک تختہ گلزار کا پھول رہا ہے۔ وہاں ایک جڑاؤ چھپرکھٹ بچھا ہوا ہے اور اس کے آگے دلدا پیش گیر جھمجھماتا ہوا موتیوں کی جھالر سے جڑاؤ استادوں پر کھڑا ہے اور ایک شہانی مسند لگی ہوئی ہے۔ اس پر دلہن لباسِ عروسی پہنے ہوئے سر تا پا جواہر میں غرق گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی ہے۔ منہ اس کا مہتاب سا جھلک رہا ہے اور بدن کی خوشبو سے سارا مکان مہک رہا ہے۔ یہ بھی خراماں خراماں اسی مسند پر دلہن کے پاس چاو سے بیٹھ گیا، گویا کہ زہرہ و مشتری کا زمین پر قِران ہوا۔ بارے جس طرح خواہش تھی اسی طرح ملاپ ہوا۔ مزا عیش و نشاط کا خوب گٹھا۔ اندوہ غم کا کھٹکا نہ رہا، جدائی کا دھیان یک لخت اٹھ گیا۔ دونوں کے بخت کھلے، بیریوں کے دروازے مُندے ؎
نہ تھا وصل اس طرح کا دھیان میں
خدا نے کیا آن کی آن میں
اتنے میں نجم النسا لجائی ہوئی آنچل دولھہ کے سر پر ڈال کر کھڑی ہوئی اور آرسی مصحف ناز و نیاز سے باہم دیکھنے لگے اور با یک دیگر محوِ جمال ہو گئے ؎
عجب قدرتِ حق نمایاں ہوئی
جسے آرسی دیکھ حیراں ہوئی
پھر دلہن کو بہ صد عشوہ و ناز جلوہ دینے لگیں اور رسمیں آپس میں چوچلوں سے ہونے لگیں۔ کوئی سِرونج دولھہ سے پسوانے لگی، کوئی شرارت سے گال کو صندل لگانے۔ کوئی شوخی سے دلہن کی جوتی کو سر سے چھوانے۔ بعد اس کے نو بات بنی کے بنے کو چُنی ہی بنی۔ غرض شرارتوں سے ڈھکا ڈھکا کر اس سے چُنواتیاں تھیں اور ہنس ہنس کر چھیڑتی جاتیاں تھیں۔ دولھہ از بس کہ اس کے ہر ایک عضو پر عاشق تھا، نبات جا بجا سے چننے لگا۔ آنکھوں کی ڈلی اٹھا کر کھائی اس مزے سے جیسے کوئی بادام شیریں نوش کرے۔ جب ہونٹھوں پر کی اٹھانے کی نوبت پہنچی تب لبوں سے لبیں یوں ملائیں گویا گل و غنچہ بہم ہو گئے۔ کمر اور کولے کی بھی ڈلی کے اٹھاتے وقت ہاں ہوں کچھ نہ کی ؎
ذرا پاؤں پر کی اٹھاتے اَڑا
نہیں اور ہاں کا عجب غل پڑا
لیکن ظاہر ہی میں یہ تکرار تھی وگرنہ اس کی جان اس کے قدموں پر نثار تھی۔ اس وقت آپس میں عجب طرح کی رنگ رلیاں تھیں کہ جتنی باتیں تھیں مصری کی ڈلیاں تھیں۔ رسموں کی فراغت کے بعد صبح ہوئی اور سواری کی دھوم پڑی۔ دلہن ما باپ سے اور سارے گھر سے رخصت ہونے لگی اور مانند شبنم کے رونے۔ کبھی لاچار سب کا منہ دیکھتی تھی اور کبھی دل میں کہتی تھی: یہ واردات کیا ہے اور جہاں کیا پیکھنا ہے کہ اس کی بات کو قیام نہیں۔ کبھی وصلِ جاناں ہے اور کبھی دردِ ہجراں ؎
یہاں موت ہے اہلِ عرفان کو | کہ جانا ہے ایک دن یوں ہیں جان کو |
وہ جو درد مندی سے آشنا ہیں، اٹھاتے ہیں شادی میں غم کا مزا۔ قصہ مختصر دان دہیز اور چھپر کھٹ دلدا پیش گیر سمیت نکلنے لگا اور اس کے نقد و جنس و ظروف کا بیان نہیں ہو سکتا کہ جس قدر تھا۔ نِدان دولھہ نے شاداں و خنداں دلہن کو گود میں اٹھا چونڈول میں بٹھایا اور کہاروں نے اللہ بسم اللہ کر اٹھایا۔ دونوں طرف چنور جھلنے لگے اور لعل گوہر نثار کرنے ؎
کھڑے تھے جو وھاں چشم کو تر کیے | انھوں نے بھی موتی نچھاور کیے |
ادھر ادھر سے سہرے کو بے نظیر نے چیرا اور اپنا چاند سا مکھڑا دکھا گھوڑے پر یوں سوار ہوا کہ جیسے صبح کو آفتاب بلند ہووے۔ پھر شان و شوکت سے نوبت نشان ماہی مراتب آگے آگے اور پیچھے پیچھے چونڈول میں دلہن اور براتی ہمراہ لیے دولت خانے کو چلا۔ ساعتِ نیک میں داخل ہوا اور وہاں کی جو کچھ رسمیں تھیں بہ خوبی بجا لا کر عشرت کدے میں آرام فرمایا اور سہ پہر کو جو بیدار ہوا تو فیروز شاہ کے بیاہ کی تیاری کو حکم کیا اور آپ وزیر کے پاس گیا اور یہ کہا کہ میرا بھائی فیروز شاہ بڑے بادشاہ کا بیٹا ہے اور عالی مرتبہ۔ میں تجھ سے یہ التجا رکھتا ہوں کہ اس کو تو اپنی فرزندی میں لے اور اپنی بیٹی اس کے ساتھ بیاہ دے کہ بادشاہ وزیر میں قرابت ہونی مضائقہ نہیں۔ غرض اسے ہر طرح رضا مند کر لگتے ہاتھ چوتھی کے ساتھ اُسی تجمل اور تیاری اور اُتنی ہی فوج اور براتیوں کی بھیڑ بھاڑ سے فیروز شاہ کا نجم النسا کے ساتھ بیاہ کیا ؎
دقیقہ نہ چھوڑا کسی بات میں | برابر رکھی چہل دن رات میں |
الغرض ان کے کام تمام خدا نے اپنے فضل و کرم سے پورے کیے اور مطلبِ دل خواہ بر آئے۔ ایسی دو شادیاں ہوئیں کہ چار گھر آباد ہوئے ؎
پھرے دن، تو اپنے وطن کو پھرے
وہ آشفتہ بلبل چمن کو پھرے
حاصل یہ ہے کہ سب مال و منال و جاہ و حشم لے کر ہر ایک نے اپنے اپنے شہر کا ارادہ کیا۔ نجم النسا اور فیروز شاہ اپنے تختِ رواں پر سوار ہو کر شاد و خرّم پرستان کو چلے اور بے نظیر و بدرِ منیر سے یہ اقرار کیا کہ گو ہم اپنے ملک کو جاتے ہیں اور تم اپنے شہر کو، لیکن اس کا کچھ غم و اندیشہ اپنے جی میں نہ لائیو کہ ہم تم سے اکثر ملا کریں گے ؎
تشفی وہ یہ دے کے اودھر چلے
یہ ایدھر لیے اپنا لشکر چلے
پھر بے نظیر مع بدرِ منیر چند روز کے عرصے میں قریب اپنے شہر کے پہنچا اور دریا کے کنارے خیمہ کیا۔
بعد اس کے ہرکاروں کو حکم پہنچا کہ بستیوں میں خبر کر دو کہ کوئی خوف و خطر نہ کرے کہ میں شہزادۂ بے نظیر ہوں غنیم نہیں۔ تم خاطر جمع رکھو۔ یہ سن کر جو لوگوں نے تفتیشِ حال کی اور جا کر دیکھا تو فی الواقع شہزادہ ہی ہے۔ خوشی و خرّمی ہر متنفس کو ہوئی اور جا بجا شہرہ ہوا کہ وہی شہزادہ (جو غائب ہوا تھا) اِس جاہ و حشم سے پھر آیا۔ رفتہ رفتہ یہ خبر بادشاہ اور ملکہ کو بھی پہنچی کہ شہزادہ خیر و عافیت سے قریب شہر کے آ پہنچا ہے۔ سنتے ہی اس خبر کے وے مارے خوشی کے آپ میں نہ رہے۔ از بس کہ یاس سے جو ان کا دل بھرا ہوا تھا اور آس ملنے کی نہ تھی، سچ نہ جانا۔ ہاتھ پاؤں تھرتھرانے لگے اور رو رو کر آپس میں کہنے لگے کہ ہمیں اس بات کا اعتبار نہیں، کیوں کہ ہمارے نصیب ایسے دشمن ہیں خواب میں بھی اسے نہ دکھائیں۔ ظاہر میں ملانا تو یک طرف۔ شاید یہ شخص ارادہ ملک و مال کا کر کے آیا ہے۔ ہم آپ ہی گرفتار اپنے حال میں ہیں، کسے دماغ ہے کہ اس سے لڑے۔ آخر تو کوئی نہیں ہے۔ وہی لیوے جو یہ جھگڑا کہیں مٹ جائے۔ تب سبھوں نے عرض کی کہ حضرت! اس طرح کا دھیان آپ نہ کیجیے، یہ بیٹا وہی آپ کا ہے جو گم ہوا تھا، غنیم نہیں۔
غرض رات تو اسی حرف و حکایات میں آخر ہوئی۔ جب صبح ہوئی اور مکرر یہی بات سنی تب بے اختیار روتا ہوا بادشاہ اس طرف کو چلا جدھر بیٹے کا خیمہ تھا۔ اور اُدھر سے وہ بادشاہ کے حضور میں آتا تھا کہ راہ میں یکایک دو چار ہوئے۔ باپ کو اس نے پہچانا۔ دیکھا کہ بے تابانہ چلا آتا ہے۔ گھوڑے پر سے اتر کر پیادہ ہوا اور قدموں پر گر کر کہنے لگا کہ ہزار شکر خدا نے آپ کے پھر قدم دکھائے۔ یہی آرزو تھی۔ جب آواز بادشاہ نے سنی، دریافت کیا کہ میرا بیٹا ہے۔ بے اختیار ایک آہ بھر قدموں پر سے اس کے سر کو اٹھا چھاتی سے لگایا اور گھڑی دو ایک تلک خوب لپٹائے رکھا ؎
یہ رویا، یہ رویا کہ غش کر چلا
کہے تو کہ آنسو کا لشکر چلا
ایک دم کے دم الگ ہوئے، پھر بے اختیاری سے آپس میں ایسے گلے لگے جیسے یوسف و یعقوب ملے اور گل گل شگفتہ اس طرح ہوئے جیسے گل کو دیکھ کر بلبل اور بلبل کو دیکھ کر گل۔ تب امیر و وزیر و سپاہ و رعیت سب شاد و خرّم نذریں لے لے کر حضور میں آئے، بادشاہ اور شہزادے کو گزرانیاں۔ مے عیش و نشاط کا پھر سب کو نشا چڑھا، نئے سر سے آباد پھر وہ کشور ہوا۔ بڑی دھوم سے اور بڑے تجمل سے بادشاہ شادیانے بجواتا ہوا شہزادے کو لیے شہر میں آیا اور اس باغ میں (جو ہجر کے داغِ غم سے پھول رہا تھا) داخل ہوا۔ پھر زنانی سواری بھی ساتھی اتروا ہاتھ پکڑے اُس گلِ نو شگفتہ کا وہ سروِ رواں دولت خانے میں آیا۔ اتنے میں اس کی نگاہ جو پڑی تو دیکھا کہ ماں نرگس وار با دیدۂ پر انتظار راہ میں کھڑی ہے ؎
بہی چشم سے آنسوؤں کی قطار
گرا ماں کے پاؤں پہ بے اختیار
وہ ماں بیٹے کے گلے سے لگ کر ایسا روئی کہ آنسوؤں کا دریا بہا، بلکہ اس کے رونے سے پتھر پانی ہو گئے۔ پھر بہو اور بیٹے کو چھاتی لگا سر سے پاؤں تلک بلائیں لے جان و دل سے نثار ہوئی۔ پانی دونوں پر سے وار کر پی گئی۔ داغ درد و غم کے جو دل و جگر پر تھے، وے مرہم وصل سے اچھے ہو گئے۔ غرض ماں باپ کو از بس کہ سہرا دیکھنے کی خواہش تھی، دوبارہ انھوں نے ان کا بیاہ کیا اور اپنے دل کا سارا ارمان نکالا ؎
وہ آنکھیں جو اندھی تھیں، روشن ہوئیں سب آپس میں رہنے لگے مل ملا |
زمینیں جو تھیں خشک، گلشن ہوئیں پھر آئے چمن میں وہ گل کھل کھلا |
خزاں اس باغ سے گئی اور گل رخوں کی پھر آبادی ہوئی ؎
محل میں عجائب ہوئے چہچہے
وہ مرجھائے گل، پھر ہوئے لہلہے
الحمد للہ بادشاہ سے بادشاہ زادہ ملا، شہر پر فضلِ پروردگار ہوا۔ پھر ویسی ہی چہلیں اور دھومیں مچ گئیں اور اس طرح کی خوشیاں اور شادیاں رچ گئیں۔ بلبلیں باغ میں بدستور چہچہے کرنے لگیں اور کلیاں سب کے دلوں کی کھل گئیں ؎
انھوں کے جہاں میں پھرے جیسے دن ملیں سب کے بچھڑے الٰہی تمام |
ہمارے تمھارے پھریں ویسے دن بہ حقِ محمد علیہ السلام |
جیسے کہ وے شاد ہوئے، ہم بھی شاد ہوں۔ جیسے کہ وے آباد ہوئے ہم بھی آباد ہوں۔
تمام شد
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی فرید الحسن، کراچی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا
|
لا ایلما
محب علوی، لاہور محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |